الفقہ: بِٹ کوائن ٹریڈنگ اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کا کیا حکم ہے؟

جواب: دنیا کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ابتدائی، حقیقی اور اصل زَر (Money/ Currency) سونا و چاندی ہیں۔ زر کی دوسری شکل کاغذی زَر (Paper Currency) ہے جو بذاتِ خود مال نہیں ہے بلکہ مالیت اور قوتِ خرید کی رسید ہے۔ اس میں جو مالیت پائی جاتی ہے وہ ملک کی اقتصادیات ہے کیونکہ ملکی اقتصادی ترقی و تنزلی کا اثر فوری طور پر کرنسی کی قدر (Value) پر پڑتا ہے۔ اس کرنسی کی قدر کی ضمانت ملک کا مرکزی یا کرنسی جاری کرنے والا بینک دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک اپنی کوئی کرنسی بند کرتا ہے تو کرنسی محض کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جاتی ہے جبکہ حقیقی اور خلقی زر یعنی سونا اور چاندی کی قدر و وقعت ہر حال میں قائم رہتی ہے۔

زَر کی ایک تیسری صورت جو عصرِ حاضر میں سامنے آئی ہے وہ ڈیجیٹل کرنسی (Digital Currency) ہے۔ یہ کرنسی کسی خاص مرکز (حکومت یا سٹیٹ) کے تابع یا ملکیت نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت ایک آزادانہ اور خودمختار زر کی ہے جو براہ راست عوام کی ملکیت ہے۔ یہ سکے یا کاغذی نوٹ کی بجائے کمپیوٹر سرور پر محفوظ ہے جس کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا عمل انٹرنیٹ یا کسی ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اسے مجازی یا غیرمادی زر (Cryptocurrency/ Virtual Currency) کہا جاتا ہے۔ اس ڈیجیٹل کرنسی کی ایک شکل بٹ کوائن (Bitcoin) ہے۔

دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کی طرح بٹ کوائن کا وجود محض انٹرنیٹ تک محدود ہے، خارجی طور پر اس کا کوئی مادی وجود نہیں۔ اس کی تخلیق (Mining) اور لین دین (transaction) بلاک چین ٹیکنالوجی (Block Chain Technology) سے ہوتا ہے۔ اسے تاحال عام کرنسی کی طرح کا قبولِ عام اور قانونی حیثیت بھی حاصل نہیں۔ اس کا استعمال بہت سارے خدشات کو جنم دیتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی منظم ادارہ یا حکومت نہیں ہے۔ اس کی مارکیٹ میں طلب و رسد کا درست اور بروقت اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی حقیقی مالیت بھی صحیح طریقے سے معلوم نہیں ہوسکتی۔ کچھ ممالک میں بٹ کوائن سمیت دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ جن ممالک میں ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین اور اس کے ذریعے معاملات طے کرنا قانوناً تسلیم شدہ ہے اور اس کرنسی کے حامل کو تکنیکی تحفظ حاصل ہے، وہاں اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ البتہ جہاں یہ قانوناً ممنوع یا غیرتسلیم شدہ ہے وہاں اس کے لین دین اور اس کے ذریعے ٹریڈنگ سے احتراز کرنا بہتر ہے۔

سوال: کیا کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے؟

جواب: کریڈٹ کارڈ کے استعمال کی چند صورتیں ہیں:

  1. پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی بینک یا ادارہ غیرسودی معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرے تو اس کا استعمال بلاشبہ جائز ہے۔
  2. دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی ادارہ ایسے معاہدے کی بناء پر کریڈٹ کارڈ جاری کرتا ہے جس میں معین وقت تک قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں کارڈ ہولڈر کو اضافی رقم ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے اور کارڈ ہولڈر معین وقت سے پہلے قرض کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ سود عائد ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ اس صورت میں بھی کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہوگا۔
  3. مذکورہ بالا دونوں صورتوں کے برعکس تیسری صورت یہ ہے کہ اگر بینک یا ادارہ ایسا معاہدہ کرتا ہے جس میں کارڈ ہولڈر کو ہر صورت میں سودی معاملہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں بلاحالتِ اضطرار کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ اس صورت میں بھی اگر کارڈ ہولڈر کریڈٹ کارڈ سے حلال اشیاء خریدتا ہے تو وہ حرام نہیں ہوں گی بلکہ وہ حلال ہی رہیں گی اور ان کا استعمال بھی درست ہوگا۔ لیکن سودی معاملہ کرنے اور سود ادا کرنے پر وہ گناہ گار ہوگا۔

سوال: اگر زید نے عبید سے کسی پراپرٹی کی خریداری کا معاہدہ کیا اور کچھ رقم بطور بیعانہ ادا کی اور بقیہ رقم کے لئے ایک مدت مقرر کر لی۔ کیا اس معاہدہ کے بعد زید مالک بن جائے گا؟ اور کیا اس مدت کے دوران زید اس پراپرٹی کو آگے فروخت کر سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کیا عبید سے اجازت لینا لازمی ہے؟ اگر نقشہ بھی موجود نہ ہو یا اگر نقشہ موجود ہو لیکن پلاٹ کی تفصیلی نشان دہی ممکن نہ ہو دونوں صورتوں میں معاملہ کا کیا حکم ہے؟ فائلز کی خرید و فروخت کروا کر پراپرٹی ڈیلرز کا کمیشن لینا کیسا ہے؟ اگر پراپرٹی ڈیلر سے کسی پراپرٹی کا بیچنے والا یہ کہے کہ اس کی درکار قیمت سے اوپر جتنی رقم وصول ہو وہ ڈیلر رکھ لے کیا یہ رقم لینا جائز ہے؟

جواب: ان سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

اگر معاہدے میں طے کیا گیا ہے کہ فلاں دن کے بعد زید مذکورہ پراپرٹی کا مالک بن جائے گا، خواہ بقیہ رقم ادا کرے یا نہ کرے۔ لہٰذا زید کو عبید سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، مقررہ مدت کے بعد ملکیت منتقل ہو جائے گی اور زید اس پراپرٹی کو جیسے چاہے استعمال میں لاسکتا ہے اور فروخت بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہے کہ ملکیت کی منتقلی کے لیے تمام قیمت ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے تو پھر زید اس پراپرٹی کو عبید کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کرسکتا۔

اگر پلاٹ کے بارے میں ضروری معلومات (جیسے: پلاٹ کس شہر/ٹاؤن میں ہے، اس کی پیمائش، قیمت وغیرہ کیا ہے) فائل میں درج ہیں تو فائلز خرید سکتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلرز اگر ہاؤسنگ کے بارے میں حقائق بیان کر کے اس کی فائلز سیل کریں تو ان کے لیے کمیشن لینا جائز ہے۔ اس کے برعکس جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ فراڈ سے لوگوں کو پھنسانا حرام ہے۔

اگر پراپرٹی کا مالک ڈیلر کو اجازت دے کہ میری یہ پراپرٹی فلاں قیمت پر بیچ دو اور ڈیلر خریدنے والے سے زیادہ قیمت پر طے کر کے بیچ دے تو اضافی رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

سوال: آن لائن اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کیا حکم ہے؟

جواب: اشتہارات سے ہونے والی آمدن کی حلت و حرمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اشتہار کس شے کا ہے؟ جس شے کی تشہیر کی جا رہی ہے، حلت و حرمت کے حوالے سے اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ اگر اشتہارات ایسی مصنوعات کے ہیں جن کا استعمال اسلام میں جائز ہے تو اس سے ہونے والی آمدن بھی جائز اور حلال ہے، اور اگر اشتہارات ممنوعہ اشیاء کے ہیں جیسے: شراب، سور کا گوشت یا فحش فلمیں وغیرہ یا پھر فحش و بیہودہ اشتہارات ہیں تو ان سے حاصل کی جانے والی آمدن بھی جائز نہیں۔

سوال: روزگار تلاش کرنے میں مدد دینے پر کمیشن لینا کیسا ہے؟

جواب: کسی شخص سے کوئی چیز مقررہ کرائے پر لینا یا مقررہ اجرت پر کسی سے مزدوری کروانا اجارہ کہلاتا ہے۔ فقہائے کرام کے نزدیک اِجارہ سے مراد ہے:

الْاِجَارَةُ عَقْدٌ عَلَی الْمَنَافِعِ بِعِوَضٍ.

’’اجارہ ایک معاہدہ ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے کسی منفعت پر کیا جائے۔‘‘

(مرغینانی، الهدایه، 3: 213)

اور امام جرجانی کے نزدیک اجارہ کا مطلب ہے:

الْاِجَارَةُ: عِبَارَةٌ عَنِ الْعَقْدِ عَلَی الْمَنَافِعِ بِعِوْضٍ هُوَ مَالٌ، فَتَمْلِیْکُ الْمَنَافِعِ بِعِوْضٍ اِجَارَةٌ وَبِغَیْرِ عِوْضٍ اِعَارَةٌ.

’’اجارہ اس معاہدے سے عبارت ہے جو کسی معاوضہ کے بدلے منفعت پر کیا جائے۔ یہ معاوضہ (عام طور پر) مال ہوتا ہے اور جب معاوضہ کے بدلے منفعت کا مالک ہو تو اجارہ (ہوتا ہے) اور بغیر معاوضہ کے ہو تو عاریت ہے۔‘‘

(جرجانی، التعریفات، 1: 23)

یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آتا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ، کرایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں۔ آجر یا مستاجر اس شخص یا ادارے کو کہتے ہیں جو کسی سے اجرت پر کام لے رہا ہو اور اجیر وہ شخص ہے جو اجرت کے بدلے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔

صورت مسئولہ بھی اجارہ ہی کی ایک شکل ہے جس میں معاوضہ یا اجرت کے بدلے اپنی خدمات اور معاونت پیش کی جاتی ہے۔ اس لیے معاونت کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔ لیکن ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی کرنا جائز نہیں، اس لیے میرٹ کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اگر کمیشن لینے کے لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیرشرعی و غیرقانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہوگا۔ میرٹ کے مطابق، شرعی و قانونی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے۔

سوال: سرمایہ کاری کی جائز صورتیں کونسی ہیں؟

جواب: سرمایہ کاری کی مختلف صورتیں ہیں، ان میں سے دو زیادہ معروف ہیں:

1۔ مضاربہ: اگر ایک شخص دوسرے کے ساتھ مل کر اس طرح سرمایہ کاری کرے کہ ایک کی طرف سے سرمایہ فراہم کیا جائے اور دوسرے شخص کی محنت ہو جبکہ فریقین باہمی رضا مندی سے متعین کردہ نسبت سے نفع میں شریک ہوں تو سرمایہ کاری کی یہ صورت مضاربت کہلاتی ہے۔ اس میں سرمایہ فراہم کرنے والے شخص کو رب المال اور محنت کرنے والے کو مضارب کہتے ہیں اور جو سرمایہ لگایا جائے وہ راس المال کہلاتا ہے۔ اس کی لازمی شرط یہ ہے کہ رب المال اور مضارب نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوں گے۔ اگر نفع ہوا تو پہلے سے طے شدہ نسبت کے مطابق فریقین میں تقسیم ہوگا، اور اگر نقصان ہوا تو رب المال کا سرمایہ اور مضارب کی محنت ضائع ہوگی۔ سارا نقصان کسی ایک فریق پر نہیں ڈالا جائے گا۔

2۔ مشارکہ: سرمایہ کاری کی دوسری صورت یہ ہے کہ چند افراد مل کر سرمایہ کاری کریں اور محنت بھی کریں، یہ مشارکہ ہے۔ اس صورت میں جس نسبت سے سرمایہ لگایا ہوگا اور محنت کی جائے گی اسی نسبت سے نفع و نقصان تقسیم کیا جائیگا۔ مضاربت اور مشارکت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ ان کا مفاد مشترکہ ہوتا ہے۔

سرمایہ کاری کے درج بالا جائز طریقوں کے علاوہ ہر وہ طریقہ بھی جائز ہے جس کے نفع و نقصان میں تمام فریق شامل ہوں اور کسی کا بھی استحصال نہ ہو۔

سوال: سلسلِ ریح کا مریض نماز کیسے ادا کرے گا؟

جواب:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابو حْبیش نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں مستحاضہ ہوں، پاک نہیں ہوتی تو کیا نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا اِنَّمَا ذٰلِکِ عِرْقٌ وَلَیْسَ بِحَیْضٍ فَاِذَا اَقْبَلَتْ حَیْضَتُکِ فَدَعِی الصَّلَاةَ وَاِذَا اَدْبَرَتْ فَاغْسِلِی عَنْکِ الدَّمَ. ثُمَّ صَلِّی قَالَ وَقَالَ اَبِی ثُمَّ تَوَضَّئیِ لِکُلِّ صَلَاةٍ حَتَّی یَجِیئَ ذٰلِکَ الْوَقْتُ.

’’نہیں، یہ تو خونِ رگ ہے، حیض نہیں ہے۔ جب تمہارے حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کرو اور جب گزر جائیں تو غسل کر کے خون دھویا کرو اور نماز پڑھا کرو۔ میرے والد محترم نے فرمایا کہ پھر ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرو یہاں تک کہ ایام حیض آ جائیں۔‘‘

(بخاری، الصحیح، 1: 91، رقم: 226)

اسی حدیثِ مبارکہ سے قیاس کرتے ہوئے فقہاے کرام نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ جب کوئی ایسا عذر لاحق ہو جس سے چھٹکارہ پانا ممکن نہ ہو تو ہر نماز کے لیے نیا وضو کر کے نماز ادا کی جائے گی۔ لہٰذا سلسلِ ریح کا مریض بھی ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے اور جب تک سلسلِ ریح کے علاوہ کسی اور ناقض سے وضو نہ ٹوٹے، اسی نماز کے وضو سے تلاوت وغیرہ بھی کرسکتے ہیں۔ البتہ اگلی نماز کا وقت شروع ہونے پر نیا وضو کر کے نماز ادا کرنا ہوگی۔