پاکستان کا نظامِ تعلیم، متشدد رجحانات اور مدارسِ دینیہ (قسط اوّل)

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

’’پاکستان کا نظام تعلیم، متشدّد رجحانات اور مدارس دینیہ ‘‘ کے عنوان سے محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی حال ہی میں ایک منفرد تحقیقی کتاب شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں پاکستان میں نظام تعلیم کو درپیش مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان مسائل کے حل کیلئے قابل عمل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ کتاب میں مدارس دینیہ و دیگر تعلیمی اداروں سے متعلق تحقیقی جائزہ، اعداد و شمار اور تاریخی پس منظر کو صراحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ فرسودہ اور غیر مساوی نظام تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرنے کے نتیجے میں نظام تعلیم اور سوسائٹی کن مضمرات اور تشکیک و ابہام کا شکار ہوئی۔ کتاب میں مذہبی مدارس کے تاریخی پس منظر ،قرون اولیٰ و وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند کے مختلف ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نظام تعلیم سے متعلق طلبہ و طالبات، اساتذہ اور والدین سے سوال و جواب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کو کتاب میں بطور خاص شامل کیا گیا ہے، جس سے کتاب کی افادیت اور انفرادیت بڑھی ہے۔ زیر نظر تحقیقی جائزہ پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ نظام تعلیم کی فرسودگی اور عدم مساوات کے علاوہ وہ کون کون سے عوامل ہیں جو فرقہ وارانہ اور انتہا پسندانہ رجحانات کو فروغ دینے کا سبب ہیں۔ کتاب میں مفید نظام تعلیم کی تشکیل و ترویج کے ساتھ ساتھ پرامن سوسائٹی کی تشکیل میں معاشی استحکام، موثر عدالتی نظام کے قیام، بیداریٔ شعور کے ضمن میں میڈیا کے کردار، انتہا پسندانہ تحریر و تقریر کے انسداد اور تحمل و برداشت اور اختلاف رائے کے احترام کی ناگزیر ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔
ماہنامہ منہاج القرآن نے اس کتاب کی موضوع کے اعتبار سے انفرادیت اور افادیت کے پیش نظر اسے قسط وار شامل اشاعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں پہلی قسط زیر نظر شمارہ میں شامل اشاعت ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے ضمن میں آپ اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔اس تحقیقی کتاب کو قسط وار شائع کرنے کی اجازت دینے پر ہم تحریک منہاج القرآن کے صدر اور کتاب کے رائٹر قابل احترام ڈاکٹر حسین محی الدین القادری کے خصوصی طور پر شکر گزار ہیں۔(چیف ایڈیٹر ماہنامہ منہاج القرآن)

2001ء میں نیویارک کے تباہ کن واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ آج دوسری دہائی کے اختتام پر پہنچ چکی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ ابھی تک اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل نہیں کرسکی۔ اس کی روک تھام کی آڑ میں بڑے پیمانے پر لڑی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں ہزاروں، لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لا تعداد انسانی اموات کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو اِقتصادی سطح پر بھی بے پناہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

Belasco, Army, (2009). Cost of Iraq, Afghanistan, and Other Global War on Terror Operations Since 9/11: DIANE Publishing.

9/11 اور اس کے بعد کے ہونے والے افسوس ناک واقعات نے دنیا کو اس حد تک ہلا کر رکھ دیا ہے کہ ڈیڑھ دہائی قبل کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بد قسمتی سے دنیا کبھی بھی ایسی نہیں رہی جہاں دوستانہ روابط، امن اور باہمی ہم آہنگی غالب ہوئی ہو اور مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہمی تفہیم میں رہتے رہے ہوں۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ترجیحی طور پر صرف طاقت کے استعمال کی پالیسی نے اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا ہے۔ جنگوں اور دیگر متعلقہ حفاظتی اقدامات پر کیے جانے والے بھاری اخراجات کے باوجود دنیا ہمیشہ کی طرح غیر محفوظ ہی ہے اور ان تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود غیر ریاستی عناصر بشمول عسکریت پسند گروہ اور دہشت گرد تنظیمیں ہنوز ناقابل شکست ہی ہیں۔

دنیا کو درپیش چیلنجز کا تسلی بخش حل محدود زاویہ نگاہ پر مبنی پرانی فکر اور مروجہ پالیسیوں کی تکرار میں تلاش نہیں کیاجا سکتا۔ حالاں کہ ایسی پالیسیاں پہلے ہی تشدد کے رجحان کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔

Corn, Geoffrey., and Jensen, Eric Talbot., (2009). Transnational Armed Conflict: A Principled Approach to the Regulation of Counter-Terror Combat Operations. Isr. L. Rev., 42, 46.

 کسی دانا نے کتنے ایجاز و اختصار کے ساتھ یہ بات کی ہے کہ مسلسل ایک ہی طرح کی تدابیر اختیار کر کے ہر بار مختلف نتائج کی توقع رکھنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے گھمبیر مسئلے نے کئی سالوں سے دنیا کو شدید کرب میں مبتلا کر رکھا ہے اور تاحال اس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اِس وقت حالات انتہائی دانش مندانہ فہم و فراست پر مبنی ایسے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں جن کے ذریعے اس ناسور کا قلع قمع ہو سکے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب مثبت سوچ اور فکر پروان چڑھے گی۔

اس تناظر میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے جو علمی اور سیاسی فریم ورک استعمال کیا گیا ہے وہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ George W. Bush اور Samuel Huntington جیسے لوگوں کی طرف سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ (War on Terror)‘ اور ’تہذیبوں کے تصادم (Clash of Civilizations)‘ جیسی اصطلاحات کے استعمال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے خالصتاََ نظریاتی اور مذہبی ابحاث کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے، بجائے اس کے کہ وہ حکمت و دانش سے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ Inez Mahony اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ میں لکھتی ہیں:

This ‘clash of civilization’ paradigm has not only affected world politics through creating a barrier to dialogue and negotiation between Muslims and the Western elite but has also affected domestic politics of effected regions, promoting an ‘us and them’ mentality, particularly in the areas of immigration, multiculturlism and race relations.

’’مسلمانوں اور مغربی اشرافیہ کے درمیان مکالمہ اور گفت و شنید کی راہ میں رکاوٹیں حائل کر کے ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے اس طرز عمل نے نہ صرف عالمی سیاست کو متاثر کیا ہے بلکہ متاثرہ علاقوں کی ملکی سیاست، ان کے درمیان ’ہم اور وہ‘ کی ذہنیت کو فروغ دے کر بالخصوص ہجرت والے علاقوں میں کثیر الثقافتی اور نسلی روابط کو بھی متاثر کیا ہے‘‘۔

Manhoy, I., (2010). Constructing Indonesian Islam in the context of war on terror. Unversity Press, the University of Queensland, Australia.

یہ بات مقامی اور علاقائی معاشروں میں معاشرتی انصاف کو غیر فعال بناتی ہے۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں مسلم اقلیتوں کے خلاف تشدد اور تذلیل میں اضافہ ہوا ہے۔

Corn, Geoffrey., and Jensen, Eric Talbot., (2009). Transnational Armed Conflict: A Principled Approach to the Regulation of Counter-Terror Combat Operations. Isr. L. Rev., 42, 46.

دہشت گردی، انتہا پسندی، عسکریت پسندی اور جارحیت پر ایک عرصہ سے کی جانے والی بحث کی اس روایت کو strategic نقطہ نظر سے کلیتاََ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان ابحاث کا دائرہ وسیع کرنے سے توضیحات اور ان پر مزید وضاحتوں کو جگہ ملے گی جن کا مقصد ان خیالات و افکار کو لگام ڈالنا ہو گا جو اصولی طور پرسرے سے اس بحث کا حصہ ہی نہیں تھیں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جہاں عسکری جد و جہد کو سیاسی اور فکری جدّ و جہد میں منتقل کر کے اس کے دیر پا نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی بھی تدبیر اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتی جب تک حکومتی سطح پر پالیسی وضع کرنے والے ادارے انتہا پسند ی کے عمل میں کار فرما عوامل اور اس کے بنیادی اَجزاے ترکیبی (core components) کو بخوبی واضح نہ کر لیں۔ ان کا یہ اقدام معاشرے کے تمام طبقات کی شمولیت کو نتیجہ خیز اورمؤثر بنانے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ ماہرین نے تشدد اور انتہا پسندی کے مختلف تدریجی مراحل بیان کیے ہیں جن میںانفرادی مایوسی، بے چینی اور تذبذب (grievances) اور مذہبی و سیاسی تنگ نظری (religio-political ideology) کے عوامل قدرِ مشترک کے طور پر پائے گئے ہیں۔

یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے Department of Psychology and Social Behavior کے Skeem JL اور Cooke DJ لکھتے ہیں:

Grievences both real and perceived lie at the core of the radiclization process, providing what social scientists describe as a cognitive opening. First- or second-generation immigrants in the West are prime candidates for probing this opening. They may have suffered because of exclusion or discrimination,copuled with a lack of identification with the cultures of their parents or grandparents, and extremist narratives can take root in the resulting identity vacuum.

’’عدمِ اطمینان، مایوسی اور بے چینی جیسی حقیقی یا خود ساختہ کیفیات انتہا پسندی کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ سماجی مفکرین انہی کیفیات کو انتہا پسندی کے عمل کاآغاز گردانتے ہیں۔ ان کے مطابق مغرب کی طرف آنے والی تارکینِ وطن کی پہلی یا دوسری نسل اس نقطہء آغاز کی بنیادی محرک تھی۔ (ہو سکتا ہے کہ وہ) وطن سے نکالے جانے (خروج) یا (نسلی) امتیاز اورآباؤ اجداد کی ثقافتی عدمِ شناخت کا شکار ہوئے ہوں اور بالآخر ان تمام محرکات بشمول شناخت کا علم نہ ہونے نے ان کے درمیان خلاء پیدا کیا جس سے انتہا پسندانہ افکار و نظریات نے(ان میں) جڑ پکڑ لی‘‘۔

Manhoy, I., (2010). Constructing Indonesian Islam in the context of war on terror. Unversity Press, the University of Queensland, Australia.

Peter R. Neumann اور M. L. R. Smith نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:

But grievances alone cannot explain how individuals become radicalized; they must also be subjected to a methodology through which frustration or anger can be directed. Target is also needed against which budding radicals can lash out.

’’صرف بے چینی و مایوسی کا عنصر تنہا اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ یقینا وہ اس صورتِ حال سے بھی دوچار ہوئے ہوں گے جن کے ذریعے انسان لامحالہ غم و غصہ اور ہیجان کی کیفیت کی طرف مبذول ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ان کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان بنیادی عوامل کو بھی کلیتاً جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے جو اس انتہا پسندی کی افزائش میں کلیدی کردار کے طور پر کار فرما ہیں‘‘۔

Neumann, Peter R, & Smith, Michael Lawrence Rowan., (2007). The Strategy of Terrorism: How it works,and why it fails. Routledge.

اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری 2011ء میں ’پاکستان میں شعوری انقلاب کی ضرورت و ناگزیریت‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

انتہا پسندی تنگ نظری سے زیادہ خطرناک نقطہ نظر اور سوچ ہے۔ دراصل انتہا پسند ایک ذہنی فکر اور نظریاتی عذاب ہے جو تنگ نظری سے جنم لیتا ہے اور تنگ نظری سے آب یاری ہوتی رہتی ہے۔ بہت سے عوامل تنگ نظری کو پالتے ہیں تو یہ انتہا پسندی بن جاتی ہے۔ انتہا پسندی کے دو رخ ہیں: مسلح انتہا پسندی اور غیر مسلح انتہا پسندی۔ مسلح انتہا پسندی سے مراد ایسی کارروائیاں ہیں جن میں اسلحہ و بندوق اٹھائی جائے اور یہی طرزِ عمل دہشت گردی کہلاتا ہے جو بنیادی طور پر غیر مسلح انتہا پسندی سے جنم لیتا ہے۔ غیر مسلح انتہا پسندی اعتقادی، فکری اور نظریاتی دہشت گردی ہے اور جب کوئی فرد عملاً جنگ و جدل اور خون خرابے کی طرف آجاتا ہے تو اس کا یہ عمل دہشت گردی کہلاتا ہے۔

گویا دہشت گرد یک دم وجود میں نہیں آتا اور نہ ہی دہشت گردی کوئی ایسی چیز ہے جو اچانک ظہور پذیر ہو جائے بلکہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے جو چار مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے تدریجاً دہشت گرد بننے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا مرحلہ تنگ نظری (narrow-mindedness) ہے جو بڑھتے ہوئے دوسرے مرحلے یعنی انتہا پسندی (extemism) تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر وہ اپنے انتہا پسندانہ افکا و نظریات پر متشدد ہو جاتا ہے جو اسے تیسرے مرحلے یعنی متشدد انتہا پسندی (radicalism) کی طرف لے جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ تشدد اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے اور یہی عادت اسے چوتھے مرحلے کی طرف دھکیل دیتی ہے جو کہ دہشت گردی (terrorism) کہلاتا ہے، اور بالآخر اسے دہشت گرد بنا دیتی ہے۔ یوں دہشت گرد اِن چار مراحل سے گزرتا ہے۔ بہت سے ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ ’امدادی عناصر‘ اس وقت سامنے آتے ہیں جب متشدد انتہا پسندی کا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے۔

لہٰذا معاشرتی اَمن کے لیے انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے صرف فوجی عدالتیں ہی کافی نہیں، کیوں کہ دہشت گرد جب دہشت گردی کا ارتکاب کر لیتا ہے تو پھر یہ عدالتیں اُسے سزا دیتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی نوبت کیوں آتی ہے؟ یاد رکھیں! دہشت گردی انتہا پسندی سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں انتہا پسندی کو جڑ سے کاٹنا ہوگا۔ ابھی تک کوئی قدم انتہا پسندی کے خاتمے کی طرف نہیں اُٹھایا گیا۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کیا جائے، انتہاپسندانہ تبلیغ کو ختم کرنا ہوگا، فرقہ واریت اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی سوچ کو ختم کرنا ہوگا، ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کی سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے معاشرے کو اسلام، امن، رحمت، وفاداری، تحمل، بردباری، برداشت، اور توسط و اعتدال کا معاشرہ بنانا ہوگا۔

آج حالات اِس اَمر کے متقاضی ہیں کہ اِسلامی تعلیمات اور آفاقی صداقتوں کی روشنی میں دہشت گردی کی فکر اور اِنتہا پسندانہ نظریات کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ہر طبقہ کو ذہنی و فکری طور پر تیار کیا جائے۔ معاشرے سے اِنتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اِقدامات کیے جائیں تاکہ دہشت گردوںکے فکری و نظریاتی سرچشموں کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔

انتہا پسندی کے خاتمہ میں تعلیم کا کردار

ایک قوم کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی سمت کے تعین میں تعلیم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیم صرف افراد کی اخلاقیات کو بہتر بنانے، ان کی شخصیات کو نکھارنے اور ان کے سماجی اور نفسیاتی رویے میں تبدیلی لانے تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ معلومات اور مواصلات کی مہارتوں تک بڑے پیمانے پر رسائی، اقتصادی، سیاسی اور عالمی سطح پر قابو پانے اور تہذیبوں اور ثقافتوں کی بڑھتی ہوئی باہمی وابستگی کے حوالے سے علم کی ایک ایسے عامل کے طور پر شناخت کی گئی ہے جو عالمی سطح پر قوم کو ایک معیار دینے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

(Baig, M. S., (2013). Educational disparity in Pakistan at Higher Secondary level. Paper presented at the National Policy Conference, Lahore, Pakistan.)

ایک باضابطہ اور جمہوری معاشرے کی شاندار عمارت کی بنیاد تعلیم پر ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں تعلیمی نظام منظم اور یکساں ہو تو لوگوں کو آگے بڑھنے اور ترقی کے مساوی مواقع میسر آتے ہیں۔ تعلیم معاشرتی اور معاشی مساوات کے طور پر کام کرتی ہے جو لوگوں کو اقتصادی قوت کے ساتھ مضبوط کرتی ہے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے قابل بناتی ہے۔

حالیہ ادوار میں پاکستانی قوم مسلسل انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہی ہے اور اس ناسور سے نبٹنے کے دوران 70 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔ مگر اس سب کے باوجود پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا ایک اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے جو کہ پاکستان کی قربانیوں کا سراسر انکار ہے۔

(جاری ہے)