القرآن: تخلیقِ محمدی اورمعراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:

وَلَقَدْ اٰتَیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ.

اور بے شک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورئہ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے۔

الحجر، 15: 87

آیت مبارکہ کے لغوی ترجمہ کی رو سے ’’سبعاً‘‘ سے مراد ’’سات‘‘ اور ’’المثانی‘‘ سے مراد ’’مکرر‘‘ ہے یعنی جسے بار بار دہرایا جائے۔ ’’سبعاً من المثانی‘‘ سے مراد سورۃ الفاتحہ ہے۔

سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل ہے۔ یہ سورہ قرآن مجید کے جملہ علوم و معارف اور اسرار و حکم کا خزانہ بھی ہے اور انوارِ قرآن، لطائفِ قرآن، حقائقِ قرآن، دقائقِ قرآن، معانیِ قرآن، مضامینِ قرآن اور قرآن مجید کے جملہ محاسن و کمالات کا سرچشمہ و منبع بھی ہے۔ حتیّٰ کہ سورہ فاتحہ کی یہ سات آیات پورے قرآن کا خلاصہ و اجمال ہیں اور قرآن مجید اس اجمال کی تفصیل ہے۔

قرآن مجید کیا ہے؟ یہ کلامِ الہٰی ہے اور کلام ہمیشہ متکلم کی صفت ہوتا ہے۔ گویا قرآن مجید کلماتِ الہٰیہ ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مجموعہ ہے۔ جس طرح قرآن مجید صفاتِ الہٰیہ کا مجموعہ ہے، اسی طرح سورہ فاتحہ صفات الہٰیہ کا اجمال ہے۔ سورہ فاتحہ قرآن مجید کا حصہ ہے، اس کے باوجود مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن مجید کے بیان کے ساتھ الگ طور پر بھی ذکر کیا۔ اس اسلوب کے ذریعے بتانا یہ مقصود تھا کہ اے حبیب مکرم! قرآن میری صفات کی تفصیل ہے اور سورہ فاتحہ میری تفصیلی صفات کا اجمال ہے، میں نے قرآن مجید دے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات کی تفصیل بھی عطا کردی اور سورہ فاتحہ دے کر اپنی صفات کا اجمال بھی آپ کو عطا کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آئینۂ ذات اور آئینۂ عظمت و اخلاق کو میں نے ایسا حسین و جمیل بنایا ہے کہ جو میری صفات اور میرے حسن وجمال کو دیکھنا چاہے تو وہ جان لے کہ میرے حسن و جمال کا اجمال بھی میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے اور میرے حسن کی تفصیل بھی میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے۔

صفاتِ الہٰیہ

اللہ رب العزت کی لاتعداد صفات میں سے درج ذیل سات بنیادی صفاتِ ہیں:

  1. صفتِ حیات
  2. صفتِ علم
  3. صفتِ قدرت
  4. صفتِ ارادہ
  5. صفتِ سمع
  6. صفتِ بصر
  7. صفتِ کلام

اللہ رب العزت کی ان بنیادی سات صفات کا فیض آقا علیہ السلام کو عطا کیا گیا اور مکرّر عطا کیا گیا۔ مکرّر عطا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اے حبیب مکرم! ہم نے آپ کو اپنی ساتوں صفات کا فیض بار بار عطا کیا تاکہ آپ کو صفتِ علم بھی میسر آجائے۔۔۔ صفتِ حیات سے بھی آپ متصف ہوں۔۔۔ صفتِ ارادہ پر بھی متمکن ہوں۔۔۔ اسی طرح صفتِ قدرت، صفتِ سمع و بصر اور صفتِ کلام میں بھی آپ کو تمکن ملے۔ یاد رکھیں! کسی کام کے ایک بار کرلینے سے وہ عمل سیرت نہیں بن جاتا بلکہ سیرت بننے میں وقت لگتا ہے۔ اس کے لیے بار بار فیض اور تسلسل کے ساتھ توجہ، نگرانی، ربط، پرورش اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ان امور میں تسلسل، دوام، استمرار اور تکرار شامل ہوجائے تو تب سیرت بنتی ہے۔ بار بار اس فیض کے عطا کیے جانے کی افادیت یہ ہے کہ اس مکرر فیض نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پُر عزم سیرت و کردار کو تشکیل دیا۔

حقیقتِ بشریت کے لطائف

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کو خلقِ عظیم کے مقام پر پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ آپ کی حقیقتِ بشریت کے ہر ہر لطیفہ کو اللہ تعالیٰ اپنی صفت کا فیض عطا فرماتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقتِ بشریت کے درج ذیل سات لطائف ہیں:

  1. حقیقتِ بشریت میں پہلا مقام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مقدسہ کا تھا۔ ہر شخصیت کی الگ طبیعت اور مزاج ہوتا ہے جس کے اپنے خصائص ہوتے ہیں۔ چونکہ حقیقتِ بشریت کا پہلا لطیفہ طبیعت ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی صفت کا فیض سب سے پہلے حضور علیہ السلام کی مقامِ طبیعت کو عطا فرمایا۔ جب اللہ رب العزت کی صفات کا فیض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کو ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کا ذوق، رجحان اور میلان بدل گیا۔ حقیقتِ بشریت رہی مگر میلان اور رجحانِ طبیعت بدل گیا۔ اب طبیعت بشر کی تھی مگر ذوق بشر کا نہ تھا۔ گویا صفاتِ الہٰیہ کے فیض نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کو بدل دیا۔
  2. دوسرا فیض آقا علیہ السلام کے نفس کو عطا فرمایا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفسِ مقدسہ کے خصائل بدل گئے۔
  3. تیسرا فیض قلبِ محمدی کو عطا کیا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب کے اخلاق و اطوار بدل گئے۔
  4. چوتھا فیض روحِ محمدی کو عطا فرمایا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کے انوار بدل گئے۔
  5. پانچواں فیض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام سِر کو عطا فرمایا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام سِر کی کیفیات بدل گئیں۔
  6. چھٹا فیض حضور علیہ السلام کے مقامِ خفی کو عطا فرمایا۔اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام خفی کے احوال بدل گئے۔
  7. ساتواں فیض حضور علیہ السلام کے مقامِ اخفیٰ کو عطا ہوا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام اخفیٰ کے مقامات بدل گئے۔

یہ سات لطائف تھے جن سے بشریتِ محمدی کی تشکیل ہوئی۔۔

آآقا علیہ السلام کے لطائف کو صفاتِ الہٰیہ کا فیض مل رہا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی تشکیل ہورہی ہے۔ یہ وجودِ مقدس چلتا پھرتا تو عالم ناسوت میں نظر آرہا ہے مگر صفاتِ الہٰیہ کے فیض سے ناسوتی خصائل اس میں سے مٹائے جارہے ہیں۔ یہ پیکر تو بشریت کا دکھائی دے رہا ہے مگر صفاتِ الہٰیہ کے فیض سے بشری خصائل اس پیکر سے نکالے جارہے ہیں۔

تخلیقِ بشریت کے مراحل

اللہ رب العزت نے جب بشریت کی تخلیق فرمائی تو اس کے بھی درج ذیل سات مراحل تھے:

  1. پہلے مرحلہ کے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے:

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ.

اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی۔

الانبیاء، 21: 30

بشریت کی تخلیق کا پہلا مرحلہ پانی ہے۔ جب یہ زمین وجود میں آئی تو اس پر زندگی کے آثار نہ تھے اور جب زندگی کے آثار اس پر پیدا ہوئے تو ابتدائے حیات کی بحث کرتے ہوئے سائنس نے بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے پانی تھا۔ سائنس کو یہ حقیقت آج معلوم ہوئی جبکہ قرآن اسے چودہ سو سال پہلے بیان کرچکا ہے۔

  1. دوسرے مرحلہ کے متعلق ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ.

وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی۔

المؤمن، 40: 67

گویا بشریت کی تخلیق کا دوسرا مرحلہ خشک مٹی ہے۔

  1. تیسرے مرحلہ کے متعلق ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ.

(ﷲ) وہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا (یعنی کرّہ ارضی پر حیاتِ انسانی کی کیمیائی ابتداء اس سے کی)۔

الانعام، 6: 2

مٹی جب پانی سے ملی تو گارا بنا اور یہ تخلیقِ بشریت کا تیسرا مرحلہ تھا۔

  1. قرآن مجید میں تخلیقِ بشریت کے چوتھے مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:

اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لاَّزِبٍ.

بے شک ہم نے اِن لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے۔

الصافات، 37: 11

  1. بشریت کی تخلیق کے پانچویں مقام کے بارے میں فرمایا:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ.

اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی۔

المومنون، 23: 12

یعنی ایسے جوہر سے تخلیق فرمائی جو مٹی کا خلاصہ تھا جو ایک کیمیائی تعامل (Chemical Process) سے گزرا اور مصفّٰی، مزکّٰی اور اجلا ہوگیا۔

  1. اس کیمیائی جوہر سے بشریت کو گزارنے کے بعد چھٹا مرحلہ شروع ہوا جس کے بارے قرآن مجید فرماتا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.

اور بے شک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیّر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔

الحجر، 15: 26

تخلیقِ بشریت کے ساتویں مرحلے پر فرمایا:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ۔

اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا۔

الرحمن، 55: 14

اس طرح بشریت کی تخلیق کے سات مرحلے مکمل ہوئے۔

تخلیق و لطائفِ بشریت میں باہمی تعلق

ان مذکورہ سات مراحل میں موجود ربط اور تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر ایک مرحلۂ تخلیق لطیفہ بشریت کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے۔ ذیل میں اسی تعلق پر روشنی ڈالی جارہی ہے:

  1. پانی کا ربط انسان کے ساتھ یہ ہے کہ پانی کے کچھ خواص ایسے ہیں جو بشر کی طبیعت کی تشکیل میں کام آئے۔ پانی میں بہاؤ اور سیلان ہوتا ہے، اس لیے طبیعت میں بھی بہاؤ ہے، کبھی طبیعت اِدھر جھک جاتی ہے اور کبھی اُدھر جھک جاتی ہے۔ لہٰذا طبیعتوں کا سیلان دراصل پانی کے بہاؤ اور سیلان کے خواص کی وجہ سے ہے۔ پانی کا یہ اثر طبیعت کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے جیسے چاہا اور جیسا چاہا شامل کردیا۔
  2. مٹی کا اثر نفس کی تخلیق میں ڈالا گیا۔ مٹی کے اندر گھٹیا پن ہوتا ہے۔ یہ گھٹیا پن مٹی کا ایک اثر بن کر نفس میں منتقل ہوگیا اور نفس کی بنیادی حالت میں اس مٹی کے گھٹیا پن کے باعث برائی رکھ دی گئی۔ اِس طرح یہ حالت قرآن کے اس فرمان اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوْء کے مصداق ہوگئی اور نفس برائی کی طرف لے جانے والا بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نفس گھٹیا اخلاق اور کمینگی کی طرف لے جاتا ہے۔ نفس کا گھٹیا پن کی طرف مائل ہونا حقیقت میں مٹی کے اس گھٹیا پن کی وجہ سے ہے۔ پس اس مٹی کا اثر اللہ رب العزت نے جیسے چاہا اور جیسا چاہا انسان کے نفس میں رکھ دیا۔
  3. بشریت کی تخلیق کا تیسرا مرحلہ گیلی مٹی سے بننے والے گارے کا تھا۔ اس کا اثر بھی اللہ تعالیٰ نے جیسے چاہا اور جیسا چاہا انسان کے قلب میں رکھ دیا۔
  4. بشریت کی تخلیق کا چوتھا مرحلہ چپکنے والا گارا تھا۔ اس کا اثر اللہ تعالیٰ نے جوہر لطیف کے طور پر انسانی روح میں منتقل کردیا۔
  5. بشریت کی تخلیق کا پانچواں مرحلہ مٹی کا جوہر تھا۔ اس سلالۃ کا اثر بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے سِر کو منتقل کردیا۔
  6. بشریت کی تخلیق کے چھٹے مرحلے صلصال کا اثر انسان کے مقامِ خفی میں منتقل کردیا۔
  7. بشریت کی تخلیق کا ساتواں مرحلہ کالفخار تھا۔ اللہ نے جیسے چاہا اور جیسا چاہا اس کا اثر انسان کے مقامِ اخفٰی میں رکھ دیا۔

بشریت کی تخلیق کے اِن اجزاء کے اثرات جب متعلقہ لطائف کو ملے تو فرمایا: وَلَقَدْ اٰتَیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ یعنی اے میرے مصطفی! میں نے اپنی صفات کا مکرر فیض آپ کی بشریت کی تخلیق کے ایک ایک مرحلے اور ایک ایک لطیفہ کو عطا کیا۔ جب طبیعتِ محمدی بنائی گئی تو ’’مآئً‘‘ (پانی) میں موجود سیلان یعنی جھکاؤ کا منفی اثر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت سے نکال دیا۔۔۔ جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس کو بنانے کا وقت آیا تو ’’تراب‘‘ کا منفی اثر نفسِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکال دیا۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کو بنانے کا وقت آیا تو ’’طین‘‘ کا منفی اثر قلبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکال دیا۔۔۔ جب روحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنانے کا وقت آیا تو پھر ’’طین لاذب‘‘ کا منفی اثر روحِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکال دیا گیا۔۔۔ جب سِر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنانے کا وقت آیا تو ’’سلالۃ‘‘ کا منفی اثر نکال دیا۔ جب خفی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنانے کا وقت آیا تو ’’صلصال‘‘ کا منفی اثر نکال دیا اور جب اَخفائِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنانے کا وقت آیا تو ’’فخار‘‘ کا منفی اثر نکال دیا۔

تخلیقِ بشر پر ملائکہ کے اعتراض کی وجہ

بشر کی تخلیق پر فرشتوں نے اعتراض کیا تھا کہ رب کریم ایک بشر کو اپنا خلیفہ کیوں بنا رہا ہے؟ یہ تو زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ رب کائنات نے ملائکہ کی اس بات کو جھٹلایا نہیں تھا۔ یہ نہیں فرمایا کہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ رب کائنات جانتا تھا کہ ملائکہ کی نظر بشر کے تخلیقی مراحل پر ہے، یہ جانتے ہیں کہ مٹی اور گارے سے بنا بشر ایسا ضرور کرے گا اس لیے کہ اِن تخلیقی اجزاء میں یہ منفی اثرات بھی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا:

اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْن.

جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ جس خدشہ کا تم اظہار کررہے ہو یہ تو ایک بات تھی، اس کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی ہیںجن کے متعلق تم بے خبر ہو۔ وقت آنے پر تمہیں اس کی خبر ہوجائے گی۔ دراصل ملائکہ کو خبر نہیں تھی کہ یہ بشر عروج پر جائے گا اورعروج پر جاتے جاتے اس کی بشریت کے خواص، مقامات اور لطائف بھی مصفّٰی و مزکّٰی اور بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ کوئی پیکر بشریت ایسا بھی ہوگا کہ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ کہنے کے باوجود اور دیکھنے کو میں بشر نظر آنے کے باوجود جبرائیل ان کے دروازے پر کھڑا ہوگا۔۔۔ وہ بشریت کا پیکر ہوگا مگر سدرۃ المنتہٰی سے گزرے گا اور فرشتے اس کے دیدار کے لیے کھڑے ہوں گے۔

الغرض آقا علیہ السلام کی بشریت مقدسہ کے ہر ہر مرحلے کو جملہ منفی خصائص سے پاک کردیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کے سارے رخ سنوار دیے گئے، سارے پہلو حسین کردیے گئے، سارے گوشے جمیل کردیے گئے اور مصفّٰی و مزکّٰی کرکے آپ کو ہر ہر حوالے سے نورانی کردیا گیا۔ اسی لیے فرمایا کہ سبعاً من المثانی یہ سات فیض مکرر دیے، بار بار دیے تاکہ ہر ہر جوہر اور ہر ہر لطیفہ کامل ہوجائے اور سیرت ایسی بنے کہ اس جیسی سیرت کائنات میں نہ ہو۔ اس طرح آقا علیہ السلام کی سیرت کو ساتوں لطائف اور ساتوں مراحل میں اللہ کی ساتوں صفات کے ساتھ مزیّن و آراستہ کردیا گیا۔

صفاتِ الہٰیہ کے فیوضات کا حصول کیونکر ممکن ہوا؟

مندرجہ بالا سطور میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ فیض لینے والے نے سات فیض کیسے لیے، یہ جاننے کے لیے فیض دینے والے کی طرف دیکھیں گے کہ اس نے یہ سات فیوضات کیسے اور کب عطا فرمائے؟

سورہ النجم میں مذکور آقا علیہ السلام کے بیانِ معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سات بار فیض دینے کا ذکر موجود ہے۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

  1. ثُمَّ دَنٰی (پھر وہ قریب ہوا) میں پہلا فیض دینے کا بیان مذکور ہے۔ قربت کے خاص مقام پر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فیضِ دَنٰی عطا فرمایا۔ جب مکاں اور لامکاں کے سارے فاصلے طے کرلیے اور حضور ایزدی میں پہنچنے کا وقت آگیا تو ربِ کائنات نے جلوۂ حبیب کا جلوۂ حق کے قریب پہنچنے کا مرحلہ بیان فرمایا کہ جلوہ عبدیت، جلوہ الوہیت کے قریب آگیا اور پہلا فیض عطا ہوا۔
  2. پھر فرمایا: فَتَدَلّٰی (پھر وہ اور قریب ہوا) مقام تَدَلّٰی پر قرب مزید بڑھا دیا اور قرب بڑھا کر اس مقام پر دوسرا فیض عطا کیا۔
  3. فرمایا: فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْن دو کمانوں کے فاصلے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاکھڑا کیا اور اس مقام پر تیسرا فیض دیا۔
  4. تیسرا فیض عطا کرنے کے بعد فرمایا: محبوب! اب اور آگے آ، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی

یعنی دو کمانوں کے فاصلے پر روکا نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے اتنا قریب لایا کہ اب قربت کی کوئی حد نہ رہی۔ اس بیان پر حدیں ختم کردیں، فاصلے، دوریاں اور فرق مٹادیے۔ جلوۂ حبیب اَوْ اَدْنٰی کے اِس کنارے پر تھا اور جلوۂ حق اَوْ اَدْنٰی کے اُس کنارے پر تھا۔ بس ایک فرق رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ یہ بندہ رہا اور وہ خدا رہا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانچواں فیض اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِهٖ مَا اَوْحٰیکی صورت میں عطا فرمایا۔ یہ کیا فیض تھا؟ اس کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنے کے واقعہ پر غور کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے موسیٰ علیہ السلام سے مقامِ طور پر خطاب کو قرآن نے وَکَلَّمَ ﷲُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا کے الفاظ کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔ یہ کلام بتادیا گیا تھا کہ اللہ نے موسیٰ سے کیا کلام کیا۔ مگر جو کلام اللہ تعالیٰ نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقام اَوْ اَدْنٰی پر کیا اس پر قرآن نے پردہ ڈال دیا اور فرمادیا:

فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰی.

(پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (ﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی)۔

یعنی تمہیں کیا خبر، اُس نے کیا کلام کیا۔ تم سمجھ ہی نہیں سکتے، یہ صرف کلام کرنے والا جانتا ہے یا کلام لینے والا جانتا ہے۔ یہ پانچواں فیض جو مقامِ اَوْ اَدْنیٰ پر عطا کیا گیا تھا۔

  1. معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھٹا فیض فیضِ رؤیت عطا کیا۔ اس کو قرآن نے مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا)‘‘ کے الفاظ کے ذریعے بیان فرمایا۔ یعنی جو کچھ آنکھوں نے دیکھا دل نے بھی اسے نہیں جھٹلایا۔ دل نے آنکھوں کے دیکھے کی تصدیق کردی۔ یہ وہ مقام تھا کہ آقا علیہ السلام کو ربِ کائنات نے اپنی صفات کا کامل پرتو بنادیا۔

صفات الہٰیہ کے کامل پرتو کا حامل ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو مقام ملا وہ کشفِ ذات کا مقام تھا جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو کشفِ صفات کا مقام ملا۔ موسیٰ علیہ السلام کے مانگنے کے باوجود انہیں مقامِ ذات عطا نہ ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے التجا کی تھی:

رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ.

الاعراف، 7: 143

باری تعالیٰ مجھے اپنا آپ دکھا یعنی میں آنکھوں سے تجھے دیکھ لوں۔ جواب ملا: لَنْ تَرَانِی موسیٰ علیہ السلام تو آنکھوں سے مجھے نہیں دیکھ نہیں سکتا۔ پیغمبر کی دعا چونکہ رد نہیں ہوتی، اس لیے فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ رب کائنات نے پہاڑ پر اپنا جلوہ اتارا۔ اس جلوہ کی تاب نہ لاتے ہوئے خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوکر گر پڑے۔

توجہ طلب نقطہ یہ ہے کہ بے ہوشی کس چیز کی ہوتی ہے؟ کیا دل بھی حرکت چھوڑ دیتا ہے یا صرف آنکھ دیکھنا چھوڑ دیتی ہے؟ یاد رکھیں! بے ہوشی کا اثر دل پر نہیں ہوتا۔ جس طرح ڈاکٹر کسی کو آپریشن کرنے کے لیے بے ہوش کرتے ہیں تو اس کے حواسِ ظاہری کان، آنکھ، ہاتھ، جلد، زبان، ناک کے حواس معطل ہوجاتے ہیں۔ بے ہوشی کا مطلب حواس کا معطل ہوجانا ہے مگر دل کا عمل اس دوران بھی جاری رہتا ہے۔ اگر دل بھی معطل ہوجائے تو انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ حالتِ بے ہوشی میں دل برقرار رہتا ہے مگر آنکھ کا عمل معطل ہوجاتا ہے۔ بے ہوشی کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ کا ہوش نہ رہے مگر دل کا ہوش رہے۔

اس کو سمجھنے کے بعد آئیں اب دوبارہ موسیٰ علیہ السلام کی رب کائنات کی بارگاہ میں گزارش پر غور کرتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے التجا کی تھی: مولا اپنا ایسا جلوہ کرا کہ آنکھوں سے تجھے دیکھ لوں۔ رب کائنات نے فرمایا: لَنْ تَرَانِی اے موسیٰ تیری آنکھ میرا جلوہ نہیں کرسکتی، مگر ایک سبیل ہے کہ جس سے میں تجھے اپنا جلوہ کراتا ہوں۔ میں اپنی تجلی پہاڑ پر ڈالتا ہوں۔ میرے اس بالواسطہ جلوے سے تو بے ہوش ہوجائے گا، جب تیری آنکھ دیکھنا چھوڑ دے گی، حواسِ ظاہری معطل ہوجائیں گے تو صرف دل کی آنکھ رہ جائے گی تو اس دل کی آنکھ سے مجھے دیکھ لینا۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو بے ہوش کرکے قلب کی آنکھ سے جلوہ کرادیا۔

مولانا روم کہتے ہیں: محرم ایں ہوش جزبے ہوش نیست

اس ہوش کی خبر بے ہوشوں کو ہوتی ہے، جو بے ہوش نہیں ہوتے، انہیں کیا خبر کہ دل کا ہوش کیا ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو جلوہ کرانے کے لیے ان کے آنکھ کے ہوش کو معطل کردیا اور دل سے جلوہ کرایا مگر جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی کی رفعتوں پر بلاکر پردہ اٹھایا تو فرمایا: محبوب! اس مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کا ہوش بھی سلامت ہے، آپ کی آنکھ کا ہوش بھی سلامت ہے۔ لہٰذا اے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل تو بھی دیکھ اور اے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ تو بھی دیکھ۔ پس آنکھوں نے بھی جلوہ کیا اور دل نے بھی جلوہ کیا۔

  1. مذکورہ بالا تمام فیض حاصل کرنے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب معراج سے واپس پلٹنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو آخری فیض بھی عطا کردیا۔ اس فیض کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کریں:

جب ہم اپنے کسی عزیز سے مل کر پلٹتے ہیں تو کیا وہ بھی اسی لمحہ مڑ کر واپس چلا جاتا ہے اور ہم بھی مڑ کر بغیر دیکھے واپس چلے آتے ہیں یا یہ کہ وہ بھی اور ہم بھی واپس مڑ کر ایک دوسرے کو ایک مرتبہ پھر الوداع کرتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا بلکہ جب تک ہم چلتے رہتے ہیں، وہ عزیز بھی کھڑا ہمیں دیکھتا رہتا ہے اور ہمیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ وہ کھڑا ہمیں دیکھ رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ مل کر واپس آنے والے بھی مڑ کر ایک بار ضرور ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔

بلاتشبیہ و بلامثال جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انوارِ معراج، فیوضاتِ معراج اور برکاتِ معراج اور توجہاتِ معراج کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اور خدا کی ذات کا مظہر بن کر واپس آنے لگے اور سدرۃ المنتہٰی کے قریب آئے تو جلوۂ حق ابھی بھی سامنے تھا اور بے نقاب ہی تھا۔ رب کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس آتے ہوئے پلٹ کر پھر دیکھا، اس کیفیت کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے:

وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰی.

اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂِ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔

النجم، 53: 13

یعنی اس نے جاتے جاتے پلٹ کر دوبارہ دیکھا، جب دوبارہ دیکھا تو جاتے ہوئے آخری فیض بھی عطا کردیا۔ اس موقع پر صفات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صفاتِ الہٰیہ کے رنگ میں رنگی گئیں۔۔۔ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ذاتِ خدا میں رنگی گئی، اخلاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اخلاقِ الہٰیہ کے رنگ میں رنگے گئے۔۔۔ اپنے رنگ ڈھنگ جاتے رہے اور اُس کے رنگ ڈھنگ چڑھ گئے۔ اس طرح وَلَقَدْ اٰتَیْنٰـکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ کے مصداق اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکرر فیض عطا کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، صفات اور اخلاق پر الوہی رنگ چڑھتا چلا گیا۔

فرمایا: محبوب! ہم نے آپ کو سورہ فاتحہ کی صورت میں اپنی صفات کا اجمال بھی عطا کردیا اور قرآن مجید کی شکل میں اپنی صفات کی تفصیل بھی عطا کردی۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اللہ کی صفات کا رنگ چڑھنے سے ایسی بدلی اور آقا علیہ السلام کا آئینۂ ذات بدل کر ایسا ہوگیا کہ جب کوئی آئینۂ ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تکتا تو اُسے ذات تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر آتی تھی مگر صفات خدا کی نظر آتی تھیں۔ اسی لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ رَاٰنِیْ فَقَدْ رَأَی الْحَق.

جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھ لیا۔

صحیح ابن حبان، 13: 417، رقم: 6052

اس مقام پر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، خدا نہ ہوئے اور جو ایسا سمجھے وہ کافر ہے مگر جلوۂ مصطفی، جلوۂ خدا ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو اپنی صفات کے ساتھ یوں بدلا کہ پھر آپ کے اخلاق کے متعلق خود ہی فرمادیا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزیّن اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔