الفقہ: زکوٰۃ کی عدم ادائیگی انکارِ قیامت ہے

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

قرآن کریم میں نماز اور زکوٰۃ کو 82 مقامات پر ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جس کی نظیر کسی اور حکم میں نہیں ملتی۔ زکوٰۃ دراصل وہ سسٹم ہے جس کے ذریعے معاشیات کو ایک مضبوط بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ اسلام ایسا نظامِ معاش قائم کرتا ہے جس سے قومی سرمایہ اوپر ہی اوپر نہ گھومتا رہے۔ ارشاد فرمایا:

کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.

(یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔

الحشر، 59: 7

کیونکہ قومی سرمائے کی حیثیت تمام لوگوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے جسم کے لئے خون۔ اگر خون بعض حصوں کو پہنچتا رہے اور بعض محروم رہ جائیں تو وہ مفلوج ہو جائیں گے۔ یونہی قومی دولت اگر اوپر ہی اوپر چند طبقات میں گردش کرتی رہی تو قوم کی اکثریت عضوِ معطل ہو کر رہ جائے گی۔ جس طرح جسم کا مفلوج حصہ اچھا نہیں ہوتا اور جسم پر بوجھ بن جاتا ہے، اسی طرح جب عوام پر قومی سرمایہ خرچ نہ ہو گا تو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی سکت نہ رکھنے والی اکثریت معاشرے کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ لہٰذا معاشرے کی خیریت اسی میں ہے کہ قومی دولت کی تقسیم مساویانہ طور پر کی جائے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی ضروریات بہم پہنچتی رہیں اور یہ خوبصورت دنیا کسی کے لئے جنت اور کسی کے لئے جہنم نہ بن جائے۔

اسلامی احکام کی برتری

اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے جو نظامِ حیات دیا اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوٰۃ کی صورت میں معاشرے کے مفلوک الحال طبقہ کو ضروریات زندگی کا سامان بہم پہنچانے کا مسئلہ حل عطا کر دیا کہ مال وصول کریں اور محروم طبقات کو ضروریات مہیا کریں۔ چنانچہ حکم ہوا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْهِمْ بِهَا َوصَلِّ عَلَیْهِمْ.

آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں۔

التوبه، 9: 103

یہ تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم تھا۔ اب عام مسلمانوں کا فرض بھی ملاحظہ فرمائیے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ.

(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں۔

الحج، 22: 41

اسلام کے دورِ اول میں جب اسلام مکمل طور پر ملکی قانون کے طور پر متمکن تھا۔ نماز اور زکوٰۃ کا سسٹم بھی باقی قوانین و احکام کی طرح حکومت ہی قائم کرنے کی ضامن تھی۔ جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر مقرر کیا تو اس موقع پر دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ یہ ارشاد بھی فرمایا:

فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اﷲَ افْتَرَضَ عَلَیْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ.

’’ان کو بتاؤ کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کردی ہے۔ جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں صرف کی جائے گی‘‘۔

بخاري، الصحیح، 2: 505، رقم: 1331

زکوٰۃ کا اصل مقام

زکوٰۃ کوئی ایسی خیرات نہیں جسے جب، جس قدر دے دیا، یا نہ دیا بلکہ یہ حقِ واجب ہے جسے حکومت بلا کم و کاست وصول کرے گی اور مستحقین کی ضروریات قانونی طور پر پوری کرنے کی پابند ہوگی۔ یہاں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا نہیں پڑیں گی۔ یہاں گھنٹوں لائن میں لگ کر چند ٹکوں کی خاطر ذلیل نہیں ہونا پڑے گا۔ یہاں ہر ضرورت مند کی ضروریات باعزت طور پر پورا کرنے کی ضمانت دی جائے گی۔ جیسے تنخواہ ایسا حق ہے جسے لینے میں عزتِ نفس مجروح نہیں ہوتی اسی طرح ضرورت مندوں کو اپنا وظیفہ لینے میں احساس کمتری نہیں ہو گا۔ یہاں لینے والا اپنا حق لے رہا ہے، دینے والا اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ لینے والا سوائے پروردِگار کے کسی کا احسان نہیں اٹھائے گا اور دینے والا سوائے رضائے مولیٰ کے کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن مجید یوں بیان فرماتا ہے:

اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اﷲِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَا شُکُوْرًا.

(اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیں۔

الدهر، 76: 9

زکوٰۃ ادا کرنے کی جزا

اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی نشو و نما کے لئے زمین اور آسمان سے اس کی ضروریات زندگی، خوراک، پوشاک، رہائش اور سماجی و تمدنی کفالت کا ایسا معقول اور وافر انتظام کیا ہے کہ اپنی مخلوق کو کسی بات میں کسی کا محتاج نہ رکھا لیکن ابتدائے خلق سے نسلِ انسانی کے دشمن شیطانی عناصر نے خدا کے پیدا کئے ہوئے وسائل رزق پر غاصبانہ تسلط کر رکھا ہے۔ ایک محدود و حقیر طبقہ روزی کے سرچشموں پر قابض ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ عام لوگوں کو بھی زندگی کی آسائشیں میسر ہوں، اﷲ کے رزق سے وہ بھی متمتع ہوں، وہ بھی عزت و وقار سے زندہ رہیں۔ یہی وہ مشکل گھاٹی ہے جس کا قرآن کریم نے ان الفاظ میں ذکر کیا:

فَـلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَo وَمَآ اَدْرٰ کَ مَا الْعَقَبَةُo فَکُّ رَقَبَةٍo اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍo یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍo اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍo

وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہے۔ وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے۔ یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے)۔ قرابت دار یتیم کو۔ یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہے۔

البلد، 90: 11-16

دیکھا غربت، بھوک، ننگ، پسماندگی، بیماری و لاچاری میں گرفتار انسانوں کی طرف توجہ کرنا اور ان کے مسائل و مصائب کو حل کرنا مشکل لیکن ضروری فریضہ ہے گویا دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنا ہے۔

زکوٰۃ نہ دینا، انکارِ قیامت

یتیموں اور محتاجوں کی حاجت روائی نہ کرنا اور معاشرے سے ان کے معاشی استحصال کے خاتمے کی کوشش نہ کرنا قیامت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِo فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَo وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ.

کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو رد کرتا اور انہیں حق سے محروم رکھتا ہے)۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)۔

الماعون، 107: 1-3

دوسرے مقام پر فرمایا: جب جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ تو وہ کہیں گے:

لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَo وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَo

(اور کہیں گے:) تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی۔ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے۔ اور ہم محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔

المدثر، 74: 42-44

  • جو لوگ مال کے پجاری بن جاتے ہیں اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں اُن کے لیے قرآن مجید (التوبہ: 34-35) میں درد ناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
  • جو لوگ غریبوں کو ان کا حق فراہم نہیں کرتے وہ خود تو عذاب الہٰی کو بلاتے ہی ہیں لیکن بسا اوقات ان کے کفر کا سبب بھی بن جاتے ہیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کَادَ الْفَقْرُ أَنْ یَکُونَ کُفْرًا.

قریب ہے کہ غریبی کفر ہو جائے۔

محمد بن سلامة، المسند، 1: 342، رقم: 586

  • بعض لوگ غریبوں کو اپنے مال میں سے کچھ حصہ دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان پر احسان کیا ہے جبکہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کا حق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو ان کا حق ہے وہ در اصل ہمارا مال ہی نہیں ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo

اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا۔

الذاریات، 51: 19

یہ فرماکر بتا دیا کہ ضرورت مند کے لینے میں عار نہیں اور مالدار کے دینے میں احسان نہیں، وہ اپنا حق لے رہا ہے اور یہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔

نظامِ زکوٰۃ کیسا ہونا چاہئے؟

اسلام ہمیں ایسا نظامِ زکوٰۃ دیتا ہے کہ جس میں دایاں ہاتھ دیتا ہے تو بائیں کو پتہ نہیں چلتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو منظم کیا جائے۔ اربوں روپیہ جو زکوٰۃ کی مد میں حکومت وصول کرتی ہے، اسے صرف اس محکمہ کے افسران اور زکوٰۃ چیئرمینوں کے اللوں تللوں پر خرچ نہ کیا جائے، بلکہ تقسیمِ زکوٰۃ کا اسلامی نظام اپنایا جائے۔ حکومت ہر فرد کی بنیادی ضروریات، روٹی، لباس، رہائش، علاج اور تعلیم کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائے اور زکوٰۃ میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کو ختم کرے۔ اس فنڈ سے رفاہی ادارے قائم کرے۔ ان میں سرفہرست بیت المال کو منظم کرنا ہے۔ بھیک مانگنے کو حکماً بند کر دیا جائے۔ اوقاف سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدنی اور زکوٰۃ کے نام پر جمع ہونے والی اربوں روپے کی دولت سے غربت کے خاتمے کی مفید و مستقل راہیں تلاش کرے۔

کمی وسائل کی نہیں بلکہ حسن تدبیر، خلوص اور ایمان و احساس کی ہے۔ آمدنی کے ان ذرائع کو مزید ترقی دی جا سکتی ہے۔ جس بھوک و افلاس کو اس ملک کا مقدر بنا لیا گیا ہے، جس پسماندگی کو ہماری لازمی صفت بنا لیا گیا ہے، وہ بھوک و افلاس اور پسماندگی ہرگز ہمارا مقدر نہیں بلکہ ظالمانہ، سرمایہ داری و جاگیرداری کے شیطانی سامراجی نظام نے اپنی نحوست کا سیاہ داغ ہماری پیشانی پر چسپاں کر رکھا ہے۔ ہم اس ملک میں اسلامی نظام عشر و زکوٰۃ صحیح و مکمل طور پر نافذ کر کے سود، جوا، شراب اور بے حیائی و فحاشی اور منشیات کے خاتمہ سے حقیقی اسلامی انقلاب لا سکتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں کہ جس میں کوئی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے۔ ہر شخص کو عزت و وقار کی پرسکون زندگی میسر آئے۔ محبت و اخوت کی فراوانی ہو، نفرت و کدورت، بغض و حسد کا خاتمہ ہو اور ہر شخص اپنے مفاد کی بجائے دوسروں کا بھلا چاہے۔