سوشل میڈیا، عصری تقاضے اور ذمہ داریاں

عتیق الرحمن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان میں ظالم اور فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف انقلاب کی سب سے بڑی مضبوط اور توانا آواز ہیں۔ ان کے ساتھ اس مشن میں شریک نوجوان تحریک کا سرمایہ اور فخر ہیں۔ میرے سمیت اکثریت ایسے احباب کی ہے کہ ہم مصطفوی مشن میں قائد انقلاب کے خطابات سن کر شامل ہوئے اور قائد انقلاب کو سننے کی وجہ سے نظام کی تبدیلی کی فکر ہماری زندگیوں کا اولین مقصد بن گئی۔ دنیا جدید ایجادات کی وجہ سے سکڑ گئی ہے اور اس گلوبل ویلج میں پیغاماتِ دعوت کو عام کرنے کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں، کبھی دعوت کیلئے پاکستان کے دورہ جات کیے جاتے تھے، اخبارات اور PTV کے ذرائع استعمال کیے جاتے تھے، پھر تحریک نے آڈیو، ویڈیو کیسٹ اور سی ڈیز کو متعارف کروایا اور تحریک کا پیغام پاکستان ہی نہیں دنیا کے ہر خطہ تک پہنچا۔ حالیہ چند سالوں میں ہونے والی ابلاغیات کے شعبہ میں ترقی نے دعوتی پیغام کو عوام تک پہنچانے کے تقاضوں اور ضرورتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ ٹی وی اور اخبارات کی افادیت اپنی جگہ مسلّمہ مگر مختصر سے وقت میں ایک بڑی تعداد تک موثر پیغام کی ترسیل کے ضمن میں سوشل میڈیا ابلاغیاتی دنیا میں انقلاب کے طور پر سامنے آیا۔

اخبارات اور میڈیا ہاؤس اس وقت سیاست میں فریق بن چکے ہیں اور اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ عام آدمی کی رائے کو وہ فوقیت نہیں مل رہی جو کبھی روایتی ابلاغ عامہ کا خاصہ تھی، یہ ضرورت بڑی حد تک سوشل میڈیا نے پوری کی ہے۔ دو طرفہ کمیونیکیشن سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے، آپ اخبارات میں یکطرفہ طور پر دوسروں کی آراء پڑھ رہے ہوتے ہیں اور فوری طور پر اپنے رائے نہیں دے پاتے، اسی طرح الیکٹرانک میڈیا کو بھی فالو کرتے ہوئے آپ ایک فریق کے نقطہ نظر کو تو سن رہے ہوتے ہیں مگر خود اس کا حصہ نہیں بن پاتے۔ روایتی ابلاغیات میں کسی گروپ کو تو نمائندگی میسر ہوتی ہے لیکن فرد کو اظہارِ خیال کے حوالے سے وہ نمائندگی میسر نہیں۔ یہ کمی سوشل میڈیا نے پوری کی۔

کوئی بھی شخص اپنا ایک ٹویٹر اکاؤنٹ بنا کر علاقائی، قومی اور عالمی مباحث کا حصہ بن جاتا ہے اور اپنی آزادانہ رائے دینے میں آزاد ہوتا ہے۔ ٹویٹر کی اہمیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب ادارے، جماعتیں، اہم شخصیات روایتی میڈیا کو براہ راست خبر دینے کی بجائے اپنے پرسنل یا ادارہ جاتی ٹویٹر اکاؤنٹس کو استعمال کرتے ہیں اور پھر ان اکاؤنٹس کو روایتی میڈیا فالو کرتا ہے۔سپر پاور امریکہ کے صدر بھی اپنی پالیسی اور بیانات کے حوالے سے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔آج اس سیاسی، سماجی شخصیت کو فرسودہ خیالات کا حامل تصور کیا جاتا ہے جو سوشل میڈیا کے جدید ذرائع کو بروئے کار نہیں لاتا۔سوشل میڈیا کی اس اہمیت کے پیش نظر پاکستان میں بھی انفرادی طور پر اور شعبہ جاتی حوالے سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے کی سوچ سرایت کر چکی ہے اور خبر دینے اور خبر لینے میں سبقت لے جانے کی جنگ جاری ہے۔انتخابی نتائج کا سامنا تو پانچ سال کے بعد ہوتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر تو مقابلہ ہر روز ہوتا ہے اور ہر روز ہار جیت کے فیصلے ہوتے ہیں۔

اس مختصر سی تمہید کے بعد میں تحریک کے حوالے سے عرض کروں گا کہ تحریک منہاج القرآن اور اس کی قیادت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے تحریک کے پیغام کو عام کر نے کے لیے سب سے پہلے جدید ٹیکنالوجی کو اختیار کیا۔جب بہت سے ادارے کمپیوٹرائزیشن سے واقف بھی نہیں تھے اس وقت ادارہ منہاج القرآن اور اس کی قیادت اس جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہی تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کی سوچ کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس سلسلے کو کسی صورت بھی ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ اگرچہ تحریک سے وابستہ نوجوان سوشل میڈیا کے تمام ٹولز کو استعمال کر رہے ہیں لیکن وہ بہت محدود ہے اور زیادہ تر انحصار کاپی پیسٹ پر ہے۔تصاویر کو باہم شیئر کرنا، شائع شدہ خبروں کو شیئر کرنااور تحریکی ایونٹس کی معلومات کو شیئر کرنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ اس جدید ذریعے کو مزید بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے حوالے سے ایک خلاء موجود ہے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ تحریک سے وابستہ قیادت کو سوشل میڈیا کے اس جدید ذریعے کو بروئے کار لانا چاہیے۔ کسی بھی سطح پر جو عہدیدار ذمہ داریاں انجام دے رہے، انہیں اپنا ایک ٹویٹر اکاؤنٹ بنانا چاہیے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر Look After کرنا چاہیے۔ بہت بہتر ہوگا اگر قیادت کی طرف سے براہ راست معلومات گراس روٹ پر شیئر کی جائیں۔

یہ جدید ابلاغ کی صدی ہے۔ جلسہ جلوس اور ٹاک شوز کی افادیت اپنی جگہ لیکن سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال انقلاب لانے کا ایک بڑا ذریعہ اور ٹول ہے جس کے تحت آپ گھر بیٹھے لاکھوں، کروڑوں افراد کو اپنی فکر اور اس کی افادیت سے روشناس کروا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے حوالے سے تحریک کی افرادی قوت کا شیئر بہت کم ہے، اگرچہ یہ بہت کم شیئر بھی اپنی ایک شناخت رکھتا ہے لیکن فیصلہ کن نتائج کے حصول کے لیے اس شیئر کو بڑھانے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔تحریک سے وابستہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے ان کی سوشل میڈیا کے استعمال کے ضمن میں ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر کام کرنے کی بجائے اجتماعیت کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔انہیں ایک واضح ڈائریکشن دینے کی ضرورت ہے۔ہمیں قائد انقلاب کے تحقیقی کام کو اب سوشل میڈیا کے جدید ذرائع سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

افسوس کہ اب کتاب بینی کا کلچر دم توڑ رہا ہے اور انتہائی مصروف زندگی کی وجہ سی ڈیز اور خطابات سننے کا بھی وقت میسر نہیں ہے۔ اب سیدھا گوگل یا یو ٹیوب سے پسندیدہ موضوع تک رسائی کا رجحان ہے۔ آن لائن بک ریڈنگ کا رجحان ہے۔قائد انقلاب کی انقلابی فکر کو اس حوالے سے پرموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ مواد گوگل، یوٹیوب، ٹویٹر، فیس بک پر لانا چاہیے۔ ہماری توجہ ان کروڑوں نوجوانوں کی طرف ہونی چاہیے جو آن لائن رہتے ہیں۔وہ علم کے متلاشی ہیں مگر دور جدید کے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ہمیں ان کے شوق مطالعہ اور ذوق مطالعہ کے مطابق انہیں آن لائن مواد فراہم کرنا ہے۔ہمیں خبر کو عام کرنے کے لیے نہیں اپنی فکر کو عام کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہے۔میں معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ تحریک سے وابستہ قیمتی ہیرے جو آج پوری دنیا میں پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں انہیں واپس اس فکری دھارے میں لانے کی ضرورت ہے اور سوشل میڈیا اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ہمارے پاس قائد انقلاب کی فکر سے ہم آہنگ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ہم ہر روز ان کی فکر سے متعلق عوامی، سماجی، مذہبی معاملات پر ٹویٹر ٹرینڈ سیٹ کر کے تحریک کے دعوتی کام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتے ہیں۔

میں اس کی مثال ایک تازہ ترین واقعہ سے دوں گا کہ ’’جسٹس فار زینب‘‘ کے ٹرینڈ کو منہاجینز نے لانچ کیا اور یہ ٹرینڈ نہ صرف پاکستان کا نمبر 1 ٹرینڈ بنا بلکہ یہ دنیا میں ٹاپ 4 ٹرینڈز میں شامل ہوا اور اس ٹرینڈ کی وجہ سے معصوم زینب کو انصاف ملا اور ہماری سماجی زندگیوں کے ایک گھناؤنے پہلو پر عدلیہ، میڈیا اور سوسائٹی کے دانشوروں کو گفتگو کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہدایات کی روشنی میں سوشل میڈیا ورکنگ کو نسل کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ سوشل میڈیا ورکنگ کونسل میں تمام فورمز کو نمائندگی حاصل ہے۔ ہمیں ضلعی و تحصیلی سطح پر سوشل میڈیا کونسلیں تشکیل دینی ہیں، نئے لکھاری پیدا کرنے ہیں اور ان کی تربیت کرنی ہے۔ جس طرح ہمارے قائد اپنے علم، عمل، فکر کرداروگفتار میں بے مثال ہیں اسی طرح ان کی فکر کو عام کرنے کے لیے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کو بھی بے مثال بنانا ہے۔ اس ضمن میں تمام قائدین اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود تحریکی فکر کو عام کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہے اور سوشل میڈیا کو گپ شپ کا نہیں بلکہ قومی، عوامی، ملی اور دینی خدمت کا ذریعہ بنانا ہے۔