الفقہ: مسائلِ رمضان المبارک

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال:قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: رمضان المبارک اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اللہ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.

القدر، 97: 3

’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَ سُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ.

بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابلیس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103

’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

2۔ رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.

بخاری، الصحیح، کتاب الصلاة التراویح، باب فضل لیلة القدر، 2: 709، رقم: 1910

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔

3۔ قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، اِیْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.

بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، باب تطوع قیام رمضان من الایمان، 1: 22، رقم: 37

’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘

سوال: رمضان المبارک میں شیطان کے جکڑے جانے سے کیا مراد ہے؟

جواب: عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں:

  1. نفس کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور اس کی سرکشی
  2. شیطان کا مکر و فریب

شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دینِ حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان المبارک کی پہلی رات ایک منادی پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘

ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 61، رقم: 682

رمضان المبارک میں شیطانوں کے جکڑ دیئے جانے سے یہ مراد ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانوں کے جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں بھی شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔ بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان کی سرکشی اور طغیانی کی شدت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔

سوال: بیماری کی وہ کون سی حالت ہے جس میں بیمار کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے؟

جواب: اگر مریض میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو اور روزہ مضر صحت ہو، کمزوری اور مرض کے بڑھنے کا خطرہ ہو، روزے سے تکلیف ہو تو ایسا شخص معذور ہے، اسے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ:

فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.

البقرة، 2: 184

’’اور جو تم میں سے مریض ہو یا مسافر تو وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لے۔‘‘

یعنی مریض اور مسافر اگر روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ رمضان کے بعد کسی بھی وقت روزے کی قضا کریں گے۔ جتنے روزے نہیں رکھیں گے، اتنے روزوں کی قضا کریں گے۔ اگر مریض ایسا ہے کہ حالت مرض کی وجہ سے بعد میں بھی قضا نہیں کر سکے گا، مرض کے ٹھیک ہونے کی امید نہیں ہے تو ایسا شخص صرف فدیہ دے گا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ.

البقرة، 2: 184

’’اور جنہیں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا فدیہ ہے۔‘‘

گویا انتہائی بڑھاپے اور ایسی بیماریوں میں مبتلاء افراد جن کے صحتیاب ہو کر روزے رکھنے کی امید نہ ہو، ان کے لیے فدیہ دینا جائز ہے ہر روزے کا فدیہ صدقہ فطر کے برابر ہے۔ فدیہ رمضان مبارک میں ادا کرنا بہتر ہے، اگر رمضان میں ادا نہ کیا تو بعد میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ ایسا بیمار جس کے صحت یاب ہونے کی امید ہو، وہ فدیہ ادا نہیں کرے گا بلکہ تندرست ہو جانے کے بعد بیماری کے دوران چھوڑے گئے رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء کرے گا۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر مسلمان جو عاقل، بالغ اور صحت مند ہو، اس پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ کسی دوسرے کو روزے رکھوا نے سے اس کا اپنا فرض ادا نہیں ہوگا۔ معمولی بیماری کی وجہ سے رمضان کا روزہ قضا کرنا اور یہ خیال کرنا کہ پھر قضا رکھ لیں گے یا فدیہ ادا کر کے یہ سمجھنا کہ روزہ کا حق ادا ہو گیا درست نہیں۔ رمضان کا روزہ اسی صورت میں چھوڑے جب واقعی روزہ رکھنے کی سکت نہ ہو۔

سوال: وہ کون سے امور ہیں جن سے صرف روزہ کی قضا لازم آتی ہے کفارہ نہیں؟

جواب: درج ذیل امور سے صرف روزہ کی قضا لازم آتی ہے:

  1. کسی نے زبردستی روزہ دار کے منہ میں کوئی چیز ڈال دی اور وہ حلق سے اتر گئی۔
  2. روزہ یاد تھا مگر کلی کرتے وقت بلا قصد حلق میں پانی اتر گیا۔
  3. قے آئی اور قصداً حلق میں لوٹا دی یا قصداً منہ بھر کے قے کر ڈالی تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہو گی بشرطیکہ دونوں صورتوں میں قے منہ بھر کر ہو اور روزہ دار کو اپنا روزہ یاد ہو۔ اگر روزہ یاد نہیں ہے تو ان تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
  4. کنکری یا پتھر کا ٹکڑا یا گٹھلی یا مٹی یا کاغذ کا ٹکڑا قصداً نگل لیا۔
  5. دانتوں میں رہ جانے والی چیز کو زبان سے نکال کر نگل لیا جبکہ وہ چنے کے دانے کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور اگر منہ سے نکال کر پھر نگل لیا تو چاہے چنے سے کم ہو یا زیادہ تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
  6. دانتوں میں سے نکلے ہوئے خون کو نگل لینا جبکہ خون تھوک پر غالب ہو تو روزہ ٹوٹ گیا، قضا واجب ہوگی اور اگر خون تھوک کی مقدار سے کم ہوگا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
  7. بھولے سے کچھ کھا پی لینے کے بعد یہ سمجھنا کہ روزہ ٹوٹ گیا پھر قصداً کھا لیں۔
  8. کسی کی آنکھ دیر سے کھلی اور یہ سمجھ کر ابھی سحری کا وقت باقی ہے، کچھ کھا پی لیا پھر معلوم ہوا کہ صبح ہو چکی تھی۔
  9. ابر یا غبار کی وجہ سے یہ سمجھ کر کہ آفتاب غروب ہوگیا، روزہ افطار کرلیا حالانکہ ابھی دن باقی تھا۔

مندرجہ بالا ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی صرف قضا لازم ہو گی۔

  1. اگر کوئی روزے کی حالت میں بھول کر کھا پی لے تو اس پر نہ قضا ہے اور نہ کفارہ، خواہ وہ رمضان کا روزہ ہو یا غیر رمضان کا۔
  2. اگر کوئی رمضان میں روزہ کی حالت میں بلا عذر قصداً کھا یا پی لے تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔
  3. اگر کوئی رمضان میں روزہ کی حالت میں کسی عذر کی وجہ سے یعنی سفر یا مرض میں روزہ توڑ دے تو اس پر صرف قضا واجب ہوگی کفارہ ضروری نہیں۔

سوال: اگر کوئی بغیر کسی شرعی رخصت یا مرض کے رمضان کا روزہ چھوڑے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں اللہ رب العزت کی خاص رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ دعاؤں کو شرف قبولیت ملتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی اور روحانی فیوضات بھی اللہ کی رحمت کا حصہ ہیں جو انسان کو صرف روزہ کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ وہ شخص بدنصیب ہے جو بغیر کسی شرعی رخصت یا مرض کے روزہ چھوڑ کر اس کی رحمت سے محروم ہو جائے، ایسے شخص کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ، مِنْ غَیرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ یقْضِ عَنْهٗ صَوْمُ الدَّهْرِ کُلِّه، وَاِنْ صَامَه.

ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی الافطار متعمداً، 2: 93، رقم: 723

’’جو شخص بغیر شرعی رخصت اور بیماری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو چاہے پھر وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے وہ اس رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتے۔‘‘

فقہاء کے نزدیک جس نے روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر کھا پی لیا اس پر قضاء اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔