رمضان المبارک اور ہماری ذمہ داریاں

ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی

رمضان المبارک کا تعارف خالق کائنات نے یوں کرایا ہے کہ:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ.

البقره، 2: 185

’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘

سمجھادیا گیا کہ یہ ماہِ مبارک لائقِ احترام ہے کہ اس میں قرآن مجید نازل ہوا تھا، یہ ’’شہر قرآن‘‘ ہے اور قرآن ساری انسانیت کے لیے سراپا ہدایت ہے، اس میں ہدایت طلبی کی واضح نشانیاں ہیں اور یہ حق و باطل کے لیے ایک محکم معیار ہے۔ قرآن مجید کی بے پناہ برکات کا تقاضا ہے کہ اگر جیتے جی رمضان المبارک کی ساعتیں نصیب ہوجائیں تو قرآن کے مطالب تک رسائی کے لیے ان ساعتوں میں روزہ رکھا جائے۔ اس آیت مبارکہ میں قرآن مجید کے حوالے سے رمضان المبارک کا تعارف کرایا گیا اور اسی نسبت کی عظمت کے حوالے سے روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور روزے میں ایک مستحکم ربط ہے جس کی بنیاد ہدایت اور ہدایت کے نمایاں اوصاف کے ساتھ تمیز حق و باطل کا انمول تحفہ بھی ہے۔ قرآن مجید کے کلمات پر غور کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ روزہ اس روحانی منزل تک رسائی کا کام دیتا ہے جو کلام الہٰی کا مقصود و مطمع نظر ہے۔ واضح اشارہ دے دیا گیا کہ خالق کا کلام سمجھنے کے لیے محیط مادی آلائشوں سے منزہ ہونا لازم ہے کیونکہ یہ اس کا کلام ہے جو کھانے پینے سے بے نیاز ہے۔ قاریِ قرآن کو چند لمحے اپنی زندگی میں یہ بے نیازی پیدا کرنا چاہئے تاکہ تدبر قرآن کی منزل آسان ہوجائے۔ صبغۃ اللہ میں رنگے جانے کا مشورہ بھی اسی مقصد تک رسائی کے لیے دیا گیا۔ قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے صحیفۂ ہدایت ہے مگر عملاً اس کی ہدایت سے فیضیاب وہی ہوں گے جن میں صداقت تک رسائی کا ذوق پید ا ہوجائے۔ یہ رسائی پانے والے ہی تو متقی ہیں، اس لیے روزہ رکھنے کا نتیجہ اسی تقویٰ شعاری کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

البقره، 2: 183

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘

واضح کردیا گیا کہ روزوں کا مقصد تقویٰ ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟۔۔۔ یہ قلب و نظر کی پاکیزگی ہے۔ ہر عمل خوفِ الہٰی کے حصار میں آنے کا نام ’’تقویٰ‘‘ ہے۔ روزہ ایک مشق ہے جو تقویٰ کی نمو کا سبب ہے کہ اس عمل سے مادی پستیوں سے آزاد ہونے کا درس ملتا ہے جس سے مقاصد حیات کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور جو معرفت الہٰی کی تمہید ہوتا ہے۔ اگر روزہ اس منزل کا راہی نہ بنائے تو یہ ایک لاحاصل مشق ہے جو مطلوب تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا تصورِ عبادت اس منزل کا حصول ہے جو روز الست قالوا بلیٰ کہہ کر انسان نے انتخاب کی تھی۔ عبادت کا ہر عمل جب تک اس حقیقت کی پاسداری کا ذریعہ نہ ہو، عبادت نہیں ہے اور ہر وہ عمل جو اس حوالے سے سرانجام پائے، اگرچہ صورت کا تعین نہ بھی ہو، عبادت ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ امرو نہی کی کوئی صورت بھی ہو، تقویٰ اس کی اساس ہو، وگرنہ شکل تو رہ جائے گی، باطنی ہیولہ مرتب نہ ہوگا۔ باطنی صورت انسانی عمل کی ہوگی تو وہ عمل، عامل کی ذات کے جِلا کا باعث ہوگا اور پوری انسانیت کے لیے بھی فلاح اور خیر کا موجب ہوگا۔

ارکانِ اسلام میں کارفرما حکمتیں

ارکانِ اسلام میں سے ہر رکن کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوجائے کہ ہر رکن ذاتی طہارت ونجابت کے ساتھ ساتھ معاشرتی فلاح کا بھی محرک ہے، جس میں دنیا کی کامرانی کا پیغام بھی ہے اور اخروی نجات کا اہتمام بھی۔ ہر عبادت کا منتہیٰ ظاہری زندگی کی آسائش بھی ہے اور باطنی زندگی کی استواری بھی، یہاں سے ہی اخروی نجات کی راہیں نکلتی ہیں۔ قرآن مجید نے اسی دو طرفہ کامیابی کا درس دیا ہے بلکہ اسے ہی دعائوں کا مقصود بنایا ہے۔ ارشاد ہوا کہ دربار ایزدی میں دست دعا اٹھے تو یہی مانگو کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.

البقره، 2: 201

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘

اس آیت کریمہ میں زندگی میں طلب کی تین صورتوں کا ذکر ہوا۔ دنیا کی حسنات، آخرت کی حسنات اور نتیجہ دوزخ سے بچائو۔ دنیا کی حسنات کی دعا، صاف اعلان ہے کہ معاشرے میں حسنات کی کارفرمائی ہو کہ دنیا میں انسان اکیلا نہیں جیتا بلکہ چاروں اطراف کے بندھن کا اسیر ہوتا ہے۔ یہ دعا اسلامی تعلیمات کا مغز بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کی امتیازی خصوصیت کا حامل بھی۔ اسی لیے کہا گیا کہ اسلام دینِ فطرت بھی ہے اور دینِ معاشرت بھی کہ مطلوب ایک ہمہ گیر خیر کی افزونی ہے۔ وہ عبادات جو ارکان کا حصہ ہیں ذرا ان کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت الم نشرح ہوجائے گی۔

1۔ نماز

نماز، عبدیت کے اظہار اور حاکمِ مطلق کے حضور سجدہ ریز ہونے کی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی میں یکسانی کا پیغام ہے۔ ہر روز پانچ مرتبہ اس عبادت کا دہرایا جانا انسانی سیرت و کردار میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنے کا موجب بھی ہے۔ ایک صف میں دوسروں کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی کا حکم بجا لانا انسانی معاشروں میں مساوات کا درس بھی ہے اور مل کر رہنے کا پیغام بھی۔ مختلف افراد کا یکسو ہوکر ایک جیسی حرکات کا پابند رہنا، معاشرتی تعاون کا وسیلہ بنتا ہے۔

2۔ زکوٰۃ

زکوٰۃ تو سراسر معاشرتی عمل ہے۔ اس کی ادائیگی سے یہ احساس دوبالا ہوتا ہے کہ میری محنت میں دوسرے بھی شریک ہیں اور یہ شرکت خود پسندی اور تفاخر کا ذریعہ نہیں ہے کیونکہ ارشاد یہ ہے کہ:

فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ. لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ.

المعارج، 70: 25

’’جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔‘‘

’’حق‘‘ فرماکر اس ادائیگی کو ’’احسان‘‘ نہ بننے دیا بلکہ ’’حق کی ادائیگی‘‘ شمار کیا گیا۔

3۔ حج

حج، اسلامی عبادات میں وہ رکن ہے جس میں اسلامی تصورِ حیات کی مرکزیت کا اعلان ہے۔ انسانی شرف کے حاملان کی ہم خیالی، ہم لباسی اور ہم آوازی کا اہتمام بین الاقوامی یکسانی کا فعال اظہار ہے۔ ان عبادات کے اوقات مقرر ہیں تاکہ انسانوں میں حسنِ انتظام کی بھرپور صلاحیت پیدا ہو۔ ان تمام محاسن کے باوجود یہ عبادات مختصر دورانیوں پر محیط ہیں۔

4۔ روزہ

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی مشق پورے مہینے کرائی جاتی ہے اور اس میں انقطاع بھی نہیں ہے۔ اس لیے اس کے اثرات ہمہ پہلو بھی ہیں اور ہمہ جہت بھی۔

رمضان المبارک کی خصوصی عبادت بہت سی عبادات کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ بظاہر روزہ ایک عبادت ہے مگر اس کے جلو میں عبادات کا ایک ہنگام بپا ہے۔ نماز کا جو اہتمام اور اس کی اجتماعی کیفیت کا جو اظہار رمضان المبارک میں ہوتا ہے، وہ ایک دیدنی منظر ہوتا ہے۔ قیام اللیل کا جو جذبہ اس ماہ مبارک میں دیکھا جاسکتا ہے، وہ اسے دیگر مہینوں سے ممتاز کرتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی رمضان المبارک کی ہمہ جہت نیک فضائوں کا حصہ ہے۔ تقسیمِ دولت کے عمل میں جب صدقۂ فطر بھی شامل ہوجاتا ہے تو یہ مہینہ خیرات و صدقات کا خصوصی دورانیہ بن جاتا ہے۔ حج کے لیے تیاری کی ابتداء رمضان المبارک ہی سے ہوتی ہے۔ حاضریٔ دربار نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارمان جب اس ماہ مبارک کی فضائوں میں مکمل ہوتا ہے تو قلب و نظر میں وارفتگی اور جذباتِ محبت میں تلاطم رونما ہوتا ہے۔ رمضان المبارک عبادات کا جامع ہی نہیں، ان عبادات کے اجرو ثواب میں کئی گنا اضافہ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ یہ نیکیوں کی ہویدگی اور نیک جذبات کے مچلنے کا مہینہ ہے۔

رمضان المبارک کی یہ حیثیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا وہ حق ادا کیا جائے جو اس کے لیے خاص ہے۔ رحمتوں اور برکتوں کا یہ مہینہ امت مسلمہ کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ یہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ موسمِ بہار سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے تقاضوں کو سمجھیں اور ان سے فیضیاب ہونے کا اہتمام کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس روحانی فضا سے بہرہ وَر ہوں۔ یہ ’’شہرِ قرآن‘‘ ہے اور ’’شہرُ اللہ‘‘ بھی۔ اس لیے ہر صاحبِ شعور پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو اپنانے اور قرآنی ارشادات پر عمل پیرا ہونے کی سعی کرے اور اپنے آپ میں رمضان المبارک کی برکات وصول کرنے کی اہلیت پیدا کرے۔ یہ اہلیت ہی وہ معیار ہے جو رحمتوں کا ہدف بناتا ہے۔

رمضان المبارک کے حوالے سے ہر صاحبِ ایمان کی دوگنا ذمہ داریاں ہیں اور یہ ذمہ داریاں پوری زندگی پر محیط ہیں۔ ذمہ داریوں کا یہ سلسلہ ’’شہر اللہ‘‘ کے حوالے سے ہے کہ اس مہینے کو احکامِ الہی پر عمل پیرا ہوکر گزارا جائے، روزہ رکھا جائے اور روزے کے تمام آداب ملحوظ رکھے جائیں۔ اعمال کا یہ سلسلہ یوں ترتیب پائے کہ تقویٰ کی منزل آسان ہوجائے۔ یہ ایک مہینہ کی مشق ہے جسے ساری زندگی کو محیط ہونا ہے۔ تقویٰ ہمہ وقت احکام الہٰی کے تحت رہنے، حتی کہ خواہشاتِ نفس کو ان احکام کا پابند بنالینے کا نام ہے۔ تقویٰ کے اثرات یوں مرتب ہوتے ہیں کہ تنہائی بھی ہو، کسی کی نظر بھی نگران نہ ہو، مگر داخل کا ایقان اس قدر مضبوط ہوجائے کہ خلوت و جلوت اطاعت شعاری کا مظہر بن جائیں۔ عمومی حلت کے معاملات بھی پابند آداب ہوجائیں۔ اس سے نفس کے اندر اطاعت کا وہ ذوق پروان چڑھتا ہے کہ جب اجازت کے ایام بھی ہوں تو وہ نفس بے باک نہ ہو۔ وہ محسوس کرنے لگ جائے کہ جب حکم کے نفاذ کا مقرر دورانیہ ان میلانات کو مستقیم رکھتا ہے تو عمومی اور دائمی حکم کی پاسداری کس قدر ضروری ہے۔ روزہ دار کی ذمہ داری ہے کہ وہ حسنات کے موسمِ بہار کو یوں حرزِ جاں بنائے کہ یہ رویہ زندگی بھر کا عمل بن جائے۔ اس منزل کے حصول کے لیے روزہ سب سے بڑا معاون ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ:

اَلصَّومُ جُنَّةٌ.

صحیح البخاری، کتاب الصوم، جلد2، الرقم :1716

’’روزہ ڈھال ہے۔‘‘

یہ بدیہی حقیقت ہے کہ انسان ہمہ وقت اپنی خواہشات کی گرفت میں رہتا ہے، لذات کے بے محابا حملوں سے اپنا دفاع کرنا محنت طلب امر ہے۔ روزہ اس دفاعی جنگ میں انسان کا معاون ہے، برائی کے حملے کے سامنے ڈھال ہے۔ اس لیے روزہ دار کی ذمہ داری ہے کہ اس ڈھال کی مضبوطی اور سلامتی کا اہتمام کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈھال اتنی کمزور ہوجائے کہ بدی راستہ بنانے لگے۔ ہر روزہ دار اس بات کا پابند ہے کہ اس ڈھال کو مضبوط بنائے، روزے کو یوں ادا کرے کہ نفس راستی کا خوگر ہوجائے تاکہ بدی کا ہر دَر بند ہوجائے۔

رمضان کا دوسرا رخ انسانیت کی مجموعی فلاح کے لیے سعی کرنا بھی ہے۔ روزہ دار معاشرے کا ایسا فرد ہوتا ہے جس کے وجود سے خیر نمو پاتی ہے۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ حسنات کے اس دورانیے کو نشرِ خیر کا ذریعہ بنائیں۔ سمجھایا گیا ہے کہ روزہ دار سراپا خیر ہوتا ہے، وہ اگرچہ ایسے معاشرے میں رہے جہاں برائی کا غلبہ ہو، ہر جانب سے بدی یلغار کررہی ہو، مگر اس کا متعین وجود ہمہ وقت یہ اعلان کررہا ہوتا ہے کہ مَیں روزہ دار ہوں۔ یعنی روزے دار ہونا اُس کو ہر جانب سے محفوظ رکھنے کا اعلان ہے۔ قرآن مجید نے اس کی ایک نہایت نمایاں صورت بیان کی ہے۔ حضر ت مریم علیھا السلام کنواری تھیں کہ بچے کی امید پیدا ہوئی۔ یہ صورت حال ہر بند آواز کو بھی طعنہ کشی کی ترغیب دے گئی، پورامعاشرہ الزام کے نشتر لیے امڈ آیا، دفاع کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب روزہ ڈھال بن گیا۔ حضرت مریم علیہا السلام کا جواب صرف یہ تھا کہ:

اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا.

مریم، 19: 26

’’میں نے (خدائے) رحمن کے لیے (خاموشی کے) روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے سو میں آج کسی انسان سے قطعاً گفتگو نہیں کروں گی۔‘‘

یعنی روزہ دار ہوں، الہامی پناہ میں ہوں، پھر دراز زبانوں کا خوف کیا!!۔۔۔ روزہ کی پناہ اوڑھ لی تو قدرت مدد کو آئی اور معصوم نومولود ماں کی پاکدامنی کا مبلغ بن گیا۔ یعنی یہ بتادیا گیا کہ روزہ کی پناہ میں آجائو، ہر حملہ پسپا ہوجائے گا۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمہ وقت اس مضبوط پناہ کے حصار میں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر روزہ دار کو ایسی پناہ کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

اس پناہ کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ روزہ دار اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے وگرنہ یہ قوت بخش حصار نصیب نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ:

مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ لَیْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَهٗ وَ شَرَابَهٗ.

صحیح البخاری، کتاب الصوم، 2: 673، الرقم: 1804

’’جس روزہ دار نے جھوٹ بولنا ترک نہ کیا اور اس پر عمل جاری رکھا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کے چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔‘‘

ارشاد مبارک کا مقصد یہ ہے کہ روزہ صرف ترکِ اکل و شرب کا نام نہیں بلکہ یہ تو تربیت کردار کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو تو پھر صرف ظاہری صورت گری کا کیا فائدہ!۔۔۔ صوم کا لفظی معنی رکنا بھی ہے۔ یعنی ہر برائی سے اجتناب کرنا اور اپنے آپ کو ایک فرمانبردار مسلمان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے احکام کا تابع بنانا۔ رمضان المبارک کا مہینہ روزے کے فرض کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری بھی ڈالتا ہے کہ وہ اخلاقی تربیت کے اس پروگرام میں کاملۃً شریک ہو۔ اس لیے یہ ہر روزے دار کی ذمہ داری ہے کہ روزے کو شرعی و اخلاقی تقاضو ںکے ساتھ اپنائے تاکہ اس کی برکات سے صحیح معنوں میں مستفیض ہوسکے۔

روزہ گناہوں سے بچائو کے لیے ایک مضبوط فصیل ثابت ہوتا ہے لیکن یہ عمل جس قدر نفع بخش ہے اسی قدر محنت طلب بھی ہے۔ امڈے ہوئے جذبات کو لگام دینا، نفس کی خواہشات کے سامنے بند باندھنا اور اَنا کی حیوانی قوت کو تھام لینا بہت بڑی ذمہ داری کا متقاضی ہے، جسے پورا کرنے کی لازمی سعی کرنا چاہئے۔

رمضان المبارک کو ’’شہر مواساہ‘‘ بھی کہا گیا ہے یعنی ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ۔ یوں تو دین ہمہ تر خیر خواہی اور بھلائی سے عبارت ہے، ارشاد ہوا:

اَلدِّیْنُ نَصِیْحَة.

صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب: بیان ان الدین النصیحة، ج:1، ص74، الرقم:55

’’یعنی دین تو ہے ہی خیر خواہی۔‘‘

رمضان المبارک میں دین کا یہ پہلو بہت نمایاں ہوتا ہے کہ اس میں پورا مہینہ اس ’’خیر خواہی‘‘ کی مشق کرائی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کے درد کا ازالہ، بھائی کے غم میں اس کی معاونت اور امت کے نادار و لاچار انسانوں کا دکھ درد محسوس کرنے کی تڑپ رکھنا، رمضان المبارک کی روح ہے۔ اس مہینے میں بھوک اور پیاس کی شدت کا مقابلہ کرنے کا حکم اسی لیے تو ہے کہ روزہ دار معاشرے کے بھوکوں، معذوروں اور تہی دامن انسانوں کا درد محسوس کرسکے۔ جسے خود اختیاری کے طور پر اس شدت کا احساس نہ ہوگا، وہ دوسروں میں موجود اس محرومی کے ازالے کا احساس کیسے کرسکے گا!۔

قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کے بیان کے ساتھ ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو کسی وجہ سے یہ فرض ادا کرنے کی اہلیت نہ پاسکیں۔ ان میں وہ افراد بھی ہیں جو صاحبِ استطاعت تو ہیں مگر روزہ رکھنے کی توفیق نہیں پاتے۔ ایسے معذوروں کے لیے دوسروں کو روزہ رکھوانے کا حکم دیا گیا ہے۔ فدیہ کا نصاب مقرر کرکے یہ بھی فرمایا گیا کہ جو اس خیر کے عمل میں رضا کارانہ اضافہ کرلے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔

یہ نیکی کی ترغیب ہے، اس لیے ہر صاحبِ استطاعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خیر کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ ہمسایوں کی تنگدستی کا خیال، غرباء کی عدمِ استطاعت پر نظر اور مفلسوں اور ناداروں کی دلجوئی کا ذوق، روزہ دار کی حسنات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ روزہ رکھنا نیک عمل ہے تو روزہ رکھوانا بھی خیر کا عمل ہے۔ سحر و افطار میں معاون بننا روزہ کی برکات کو ہمہ گیر بنادیتا ہے۔ مواخات کا عمل انسانی سماج کو رشکِ خُلد بنادیتا ہے۔ روزہ دار صرف خود روزہ رکھنے کی ذمہ داری ہی نہیں نبھاتا بلکہ دوسروں کے لیے بھی خیر کا ذریعہ بن کر معاشرتی ذمہ داری بھی پوری کرتا ہے۔

الغرض رمضان المبارک عملِ خیر اور نشرِ خیر کا وہ دورانیہ ہے جو ہمہ تر تقدس کے جھرمٹ میں ہے۔ تراویح کا روح پرور نظارہ اور قرآن مجید کی تلاوت کا اجتماعی منظر، نیکی کی تحریک بنتا ہے اور یہ پورا مہینہ نیکیوں کا ایسا ریفریشر کورس ثابت ہوتا ہے کہ غیرِ رمضان میں بھی یہ کیف تازہ رہتا ہے۔ یہی اس مشق کا مقصود ہے۔ اللہ کرے کہ ہر مسلمان روزہ کی ڈھال کی پناہ میں آجائے اور پیکرِ حسنات بن کر زندگی گزارے۔

قرآن مجید کے پیغام کے مطابق ایمان لانے والے ہر فرد کا روزہ دار ہونا لازم ہے۔ ہاں! انسانی مجبوریوں کے حوالے سے تین استثناء کا ذکر کیا۔ بیمار اور مسافر روزہ چھوڑ سکتا ہے مگر اس اعتماد کے ساتھ کہ مرض ختم ہوتے ہی اور سفر مکمل ہوتے ہی روزوں کی قضاء کرے گا۔ تیسرا استثناء ان مسلمانوں کے لیے ہے جو نہ روزہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی میں ایسے ایام کی امید رکھتے ہوں کہ وہ قضاء کرسکیں گے تو ان کے لیے فدیہ ہے۔ یہ تین قسم کے افراد رعایت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ باقی سارا مسلم معاشرہ روزہ دار ہوگا کہ ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ معذوری کی کوئی صورت نہ ہو اور روزہ بھی نہ ہو تو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ خود سے سوال کرے کہ وہ ایمان والا ہے یا نہیں؟۔۔۔ خود احتسابی ہی روزے کا جوہر ہے۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کے ہر فرد کو اپنا محاسبہ کرنے کی ذمہ داری نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین