سانحہ ماڈل ٹاؤن: ریاستی دہشتگردی کے 4 سال

نعیم الدّین چوہدری ایڈووکیٹ

17 جون کے دن ہم شہدائے ماڈل ٹاؤن کی چوتھی برسی منارہے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ وہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے درجات بلند کرے، ان کی قبروں کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنائے اور ظالم نظام اور اس کی محافظ استحصالی قوتوں کے خلاف انہوں نے جو جانی قربانیاں دیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے، شہداء کے خون کے صدقے پاکستان کو ہر قسم کے ظلم اور استحصال سے پاک کرے، شہداء کی ان قربانیوں کے صدقے پاکستان میں مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہو اور پاکستان حقیقی معنوں میں امن، سلامتی اور خوشحالی کا گہوارہ بنے۔

شہدائے ماڈل ٹاؤن کے بہنے والے خون ناحق کے بعد الحمدللہ شریف خاندان کی ذلت و رسوائی کے تاریک دور کا آغاز ہوا جو آج نشانِ عبرت بن رہا ہے۔ آج یہ بھی ثابت ہو گیا کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اشرافیہ کے ماورائے آئین و قانون سیاسی، معاشی جرائم کے خلاف تین دہائی قبل جو جدوجہد شروع کی تھی وہ مبنی بر حقیقت تھی اور آج وہی اشرافیہ پاکستان کے دشمنوں کے کیمپ میں کھڑی ہے اور دشمنوں کے بیانیہ کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ شریف برادران کا یہ گھنائونا چہرہ، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کی جدوجہد کو مبنی بر صداقت ثابت کررہا ہے۔ آج افواج پاکستان جس میں بری، بحری، فضائی افواج شامل ہیں، قومی سلامتی کی محافظ ایجنسیز اور محب وطن سیاسی جماعتیں نواز شریف کی ملک دشمن سرگرمیوں کیخلاف ایک طرف کھڑی ہیں اور دشمن قوتوں کاآلہ کار اپنے ناپاک عزائم اور بیانیہ کے ساتھ دوسری طرف کھڑا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ریاستِ پاکستان کیخلاف ریشہ دوانیوں میں ملوث عناصر ذلت آمیز شکست اور انجام سے دو چار ہوں گے۔

آج شہدائے ماڈل ٹاؤن کی چوتھی برسی پر جہاں ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہاں ہماری دلوں کو ایک اطمینان بھی میسر ہے کہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اورپاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حصولِ انصاف کی جدوجہد 4سال کے بعد بھی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری ہے اور حصولِ انصاف کی اس جدوجہد میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اظہار قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ گزرے ہوئے چار سالوں کا ہر دن حصولِ انصاف کی جدوجہد میں گزارا۔ الحمدللہ اس جدوجہد میں نہ قیادت کے عزم میں کوئی شکن آئی اور نہ ہی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے عزم و ہمت اور حوصلے کو وقت کی نمرودی، فرعونی اور قارونی قوتیں متزلزل کر سکیں۔ ہم اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان کے بھی شکر گزار ہیں کہ جن کے نوٹس لینے پر سانحہ ماڈل ٹاؤن روزانہ کی بنیاد پر زیر سماعت ہے۔

سب جانتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے اس کا مقصد پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حکومت کے ماورائے آئین و قانون طرزِ حکمرانی کیخلاف جدوجہد کو روکنا تھا۔ بیریئر کو ہٹانا تو ایک بہانہ تھا، اصل ایجنڈا ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی تحریک کو ختم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بدنیت اور بددیانت عناصر کو ان کے ناپاک ارادوں سمیت نشانِ عبرت بنا دیا۔ الحمدللہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آواز اور تحریک منہاج القرآن کا پیغام پوری دنیا کے کونے کونے میں گونج رہا ہے۔ شریف برادارن اور ان کے حواریوں کی آج بھی کوشش ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو محض ایک حادثہ قرار دے کر کیس داخل دفتر کر دیا جائے لیکن حکومت کے سانحہ کے بعد کے اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ یہ محض حادثہ نہیں تھا بلکہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ اگر یہ محض حادثہ ہوتا تو سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی ہوتی، انہیں بے گناہوں کی جانیں لینے پر برطرف کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران اور اہلکاروں کو پرکشش عہدوں سے نوازا گیا، انہیں آئوٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئیں،انہیں پسند کی تقرریاں دی گئیں، یہاں تک کہ پولیس کی مدعیت میں جھوٹی ایف آئی آر No.510/14 درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔ مقدمہ نمبر 510/14 میں JIT تشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں (MI, ISI)کی نمائندگی بھی شامل تھی۔ ان دونوں ایجنسیوں (MI, ISI)نے JIT میں کہا کہ اس FIR کو ختم ہونا چاہیے۔ دو ایجنسیوں (MI, ISI) کے نمائندوں نےFIR کے ختم کرنیکی وجوہات اپنے اختلافی نوٹ میں تفصیل سے ذکر کیں لیکن اس کے باوجود اس مقدمہ کا چالان انسداددہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کیا گیا اور جنوری 2015ء سے اب تک PAT کے بے گناہ افراد اس مقدمہ میں پیش ہو رہے ہیں، جس میں تقریباً 225 تاریخیں ہو چکی ہیں۔

JIT میں شامل MI اور ISI کے اس اختلافی نوٹ کی موجودگی میں مقدمہ نمبر 510/14 کا چالان انسداددہشت گردی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے MI,ISI کے اس اختلافی نوٹ کو اس JITکی رپورٹ سے علیحدہ کر لیا گیا۔ JITرپورٹ کے آخر پرتمام JITممبران کے دستخط بھی موجود تھے اوردونوں ایجنسیوں (MI, ISI) کے نمائندوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا Note of Dissent Attached تاکہ اختلافی نوٹ کو اس رپورٹ سے علیحدہ نہ کیا جاسکے۔ لیکن جب انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں چالان پیش کیا گیا تو اس میں JIT کی رپورٹ کو چالان کے ساتھ Attach نہ کیاگیا تاکہ اختلافی نوٹ کا علم نہ ہوسکے کیونکہ اس اختلافی نوٹ کی موجودگی میں انسداددہشت گردی کورٹ میں مقدمہ نمبر510/14کا چالان پیش نہیں کیاجا سکتاتھا۔ اسطرح اس مقدمہ میں PATکے بے گناہ افراد کاانسداد دہشت گردی کورٹ میں ٹرائل ہو رہا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد تشکیل دیئے گئے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو بھی حکومت نے جب 3 سال تک پبلک نہ کیا تو مورخہ 24 اگست 2017ء کو شہداء کے ورثاء اور زخمیوں کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں رپورٹ کو پبلک کرنے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو رپورٹ فراہم کرنے کے حوالے سے WP.No:62821/17 دائر کی تھی جس کی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی جج لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کی اور سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ،گورنمنٹ آف پنجاب کو حکم دیاکہ فوری طورپر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو رپورٹ مہیا کی جائے لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ نے شہداء کے متاثرین کو رپورٹ فراہم نہ کی بلکہ اس آرڈر کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں ICA No. 77347/17 دائرکردی جس کو لاہور ہائی کورٹ لاہور کے فل بنچ جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین نے سماعت کی اورمورخہ 24 نومبر2017ء کو گورنمنٹ کی اس اپیل کو خارج کردیاگیا۔

انٹرا کورٹ اپیل کے خارج ہونے کے بعدگورنمنٹ نے مجبور ہوکر اس رپورٹ کو پبلک کردیا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کوبھی رپورٹ فراہم کردی گئی۔ جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تمام قتل وغارت گری کا ذمہ دارحکومت پنجاب اورپولیس کو قراردیا ہواہے۔

لیکن افسوس کے آج تک جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات، بیانِ حلفی، ٹیلی فون ریکارڈز وغیرہ فراہم نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھی متعدد خطوط لکھے لیکن اس کے باوجود جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات فراہم نہ کی گئی ہیں اور اسطرح مقدمہ نمبر510/14 (پولیس مدعی) اور مقدمہ نمبر696/14 (مدعی ادارہ)کی تفتیش کے لئے بننے والی JIT کی رپورٹ بھی آج تک فراہم نہ کی گئی اور نہ ہی دونوں مقدمات میں JITرپورٹ کسی ریکارڈپر موجود ہیں۔ اب ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں JIT رپورٹ کے حصول کے لئے رٹ دائر کررکھی ہے۔

دھرنے کے دوران مذاکرات میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ JIT غیر جانبدار اور مدعی فریق کی اتفاق رائے سے بنائی جائے گی مگر حکومت نے وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنے من پسند اور زیرِ اثر افسران پر مشتمل JIT کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ JIT کا سربراہ پہلے لاہور اور گوجرانوالہ میں انہی ملزمان کے ماتحت اپنے فرائض سر انجام دے چکا تھا۔ لہذا اْس کی سربراہی کا اعلان ہوتے ہی پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اِس پر باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور حکومت کو غیر جانبدار JIT تشکیل دینے کا وعدہ یاد کرایا گیا مگر حکومت اپنی مرضی کی تفتیشی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے اِس JIT کو تبدیل کرنے پر رضامند نہ ہوئی۔ جس پر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو بذریعہ تحریری لیٹر زکے ذریعے غیر جانبدار JIT بنانے کے لئے بارہا درخواستیں ارسال کیں لیکن ان درخواستوں کو نظر انداز کردیاگیااور اس JIT سے اپنی مرضی کے مطابق یک طرفہ غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیار کروائی گئی۔

مشتاق احمد سکھیرا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران آئی جی پنجاب تھا اور جس کو سپیشل ٹاسک کے طور پر مورخہ 15 جون 2014ء کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ سپیشل طورپرسانحہ ماڈل ٹاؤن کے لئے لایا گیا تھا۔ اس سے پہلے آئی جی پنجاب خان بیگ تھے جنہوں نے ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ پر آپریشن کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مشتاق احمد سکھیرا آئی جی پنجاب جو ہماراملزم بھی ہے اس نے اس مقدمہ کی تفتیش کے لیے JIT تشکیل دی۔

اس مقدمہ میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف، وفاقی و صوبائی وزراء، پولیس آفسران بطور ملزمان نامزد تھے اس لئے بددیانتی سے تفتیش کرتے ہوئے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی۔ بلکہ عدالت میں صرف 2پولیس اہلکاران کا چالان جبکہ 4 پولیس اہلکاران کا اس مقدمہ میں اشتہاری ہونے کی وجہ سے چالان پیش کیا گیا۔ اس طرح اس کیس میں صرف 6 پولیس اہلکاران کا عدالت میں چالان پیش کیا گیا اورمکمل چالان دسمبر2015ء میں انسداددہشت گردی کورٹ میں پیش ہواتوتمام پولیس آفیسرز اور گورنمنٹ کے بااثر افراد کو اس کیس سے نکال دیا گیا۔

PAT کے 42 کارکن جو مقدمہ نمبر 510/14 (پولیس مدعی) میں بحثیت ملزم پیش ہو رہے تھے تو ان 42 کارکنان کو بھی اپنا مقدمہ 696/14 میں بھی ملزم قراردے دیا گیا۔ جب چالان ان 42 کارکنان کے خلاف انسداددہشت گردی کورٹ میں پیش کیاگیا تو اپنے ہی مقدمہ میں بھی ادارہ منہاج القرآن اور PAT کے کارکنان کی ضمانتیں کروائی گئیں۔ اس مقدمہ میں بھی عوامی تحریک کے کارکنان کا ناحق چالان کردیاگیا جس سے ان کی مکمل بددیانتی سامنے آگئی۔

اس صورتِ حال میں استغاثہ دائر کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ ہمارے پاس جو شہادتیں موجودتھیں ان کو Collect کرکے اورپوسٹ مارٹم رپورٹس ،مضروبان وقوع ہذا کی ڈاکٹری ملاحظہ جات بڑی تگ و دو کے بعد جناح ہسپتال، جنرل ہسپتال اور میاں منشی ہسپتال سے نقول ملاحظہ جات MLC حاصل کیے گئے۔ یہ دستاویزات حکومت کی بے شماررکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود حاصل کی گئیں اورجب اس مقدمہ میں ہر قسم کی قانونی راہ اختیارکرنے کے باوجود دادرسی نہ ہوسکی تو مورخہ 15 مارچ 2016ء کو انسداد دہشت گردی کورٹ میں استغاثہ دائر کردیاگیا۔

اس استغاثہ میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مورخہ 20 دسمبر 2016ء کو مکمل ہوئے۔ اس کے علاوہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلقہ تمام ثبوت جو ہمارے پاس موجود تھے وہ بھی انسداددہشت گردی عدالت لاہورمیں جمع کروادیے گئے۔

ملزمان کی طلبی سے پہلے انسداددہشت گردی کورٹ میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 94 کے تحت درخواست دی تھی کہ جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کو منگوایاجائے اور اس رپورٹ کو استغاثہ کا حصہ بنایا جائے لیکن انسداددہشت گردی کورٹ نے مورخہ 29 ستمبر 2016ء کو ہماری درخواست خارج کردی۔ اس آرڈرکے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں WP.No 33522/16 دائر کی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاورعلی کی سربراہی میں فل بنچ نے سماعت کی اورمورخہ 5 دسمبر 2016ء کو لاہورہائی کورٹ کے فل بنچ نے یہ رٹ خارج کردی۔ اب ہم لاہور ہائی کورٹ لاہور کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس کیس کی سماعت نہیں ہوئی ہے۔

مورخہ 7 فروری 2017ء کو انسداددہشت گردی عدالت لاہورنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124 ملزمان کو طلب کیا جس میں کانسٹیبل سے لیکر آئی جی تک شامل تھے، ان کے ساتھ ساتھ دیگر افرادجس میں DCO کپٹن (ر) عثمان TMO نشترٹاؤن علی عباس، AC ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو بھی شامل تھے۔ جو اس سانحہ میں ملوث ہیں جبکہ جن افراد کے حکم سے یہ ریاستی دہشت گردی اور قتل وغارت گری ہوئی تھی انکو انسداددہشت گردی کورٹ لاہور نے طلب نہیں کیا تو گورنمنٹ کے ان افراد کو طلب نہ کرنے پر لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ دائر کی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ جسٹس قاسم خاں کی سربراہی میں زیر سماعت ہے۔ جس میں 11مئی 2018ء تاریخ پیشی مقرر ہے۔

انسداددہشت گردی کورٹ میں جن پولیس ودیگر ملزمان کو طلب کیا تھا ان پر مورخہ 12 اپریل 2016ء کو فرد جرم عائد کردی گئی ہے اور اب ان ملزمان کے خلاف ٹرائل شروع ہوگیا ہے۔ لیکن جب تک لاہور ہائی کورٹ سے اُن 12 گورنمنٹ ودیگر بیوروکریٹس کے حوالے سے فیصلہ نہیں ہوتا ہے اس وقت تک انسداددہشت گردی کورٹ میں بھی کاروائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک بھی ملزم اس کیس میں مزید آجاتا ہے تو پھر دوبارہ فرد جرم عائد ہوگی اور پھر دوبارہ شہادتوں کا آغازہوگا۔

سانحہ میں ملوث افسران کی ترقیاں اور تقرریاں

سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوا تھا جس میں گورنمنٹ نے پولیس کے ذریعہ یہ ریاستی دہشت گردی کروائی تھی۔ اس لئے کسی بھی پولیس آفیسر یا دیگرافرادکے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہ کی گئی بلکہ انہیں مراعات اور عہدوں سے نوازاگیا۔

  1. رانا ثناء اللہ وزیر قانون پنجاب جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہے، اس کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد وزیر قانون پنجاب کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا، رانا ثناء اللہ نے اپنا بیان حلفی جسٹس علی باقر نجفی کمیشن میں بھی ریکارڈ کروایا اور 11 ماہ بعد دوبارہ وزیرقانون بنادیا گیاجو کہ اب بھی وزیر قانون ہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مورخہ 16 جون 2014ء کو رانا ثناء اللہ کی ہی زیر صدارت سول سیکرٹریٹ لاہور میں اجلاس ہوا تھا۔ جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیاتھا کہ ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے اردگرد رکاٹوں کو ہٹانے کے بہانے دھاوابولا جائے اور جو بھی شخص اس میں رکاوٹ بنے گااسکو ختم کر دیاجائے۔
  2. وزیر اعلیٰ کے سابق پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر تو قیر شاہ جو کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہے اسکو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعدپرنسپل سیکرٹری کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا۔ ڈاکٹر تو قیر شاہ نے اپنا بیان جسٹس علی باقر نجفی کمیشن میں بھی ریکارڈ کروایا بعدازاں ڈاکٹر توقیر شاہ کو مراعات کے طور پر جنیوا میں W.T.O کا سفیر لگادیا گیا۔
  3. IG پنجاب خان بیگ نے جب ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹرطاہرالقادری کی رہائش گاہ پر آپریشن کرنے سے انکار کردیا تو مورخہ 15-06-2014 کو مشتاق احمد سکھیرا کو IG پنجاب بنایا گیا جس کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لئے سپیشل ٹاسک دیا گیا۔ اس نے گورنمنٹ کے دیے گئے ٹاسک کو پورا کیا۔ اب مشتاق احمد سکھیرا کو ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات کے طور پر وفاقی ٹیکس محتسب لگایاگیا جو کہ ایک Constitutional Post ہے۔
  4. رانا عبدالجبارجوکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران DIG آپریشن تھا اور اس سانحہ کا مرکزی ملزم بھی ہے جس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مکمل نگرانی کی اور موقع پر موجود پولیس فورس کو ہدایات دیتا رہا اور دیے گئے ٹاسک کومکمل کر کے مورخہ 17 جون 2014ء کو تقریباً 1 بجے دوپہر فون پر IG پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو رپورٹ دی کہ یہ ٹاسک مکمل ہو گیا ہے، اسے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد OSD بنادیاگیا۔ چند ماہ OSD رہنے کے بعد اب رانا عبدالجبار Counter CTD Terrorism Department میں DIG ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ کو Head کر رہا ہے۔
  5. طارق عزیز جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران ایس پی ماڈل ٹاؤن تھا۔ یہ بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کامرکزی ملزم ہے۔ یہ ہی سب سے پہلے پولیس فورس کو رات 1 بجے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کی طرف لے کر گیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں اس کا بڑاکردار ہے۔ اب طارق عزیز SP ڈسپلن ہے۔
  6. سلمان علی خاں جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران SP سیکورٹی تھا۔ پہلی JIT FIR 510/14 (مدعی پولیس) نے اسکو اس سانحہ کا مرکزی ملزم قراردیا تھا اور اس سانحہ کی زیادہ ذمہ داری اس پر ڈالی تھی کیونکہ یہ ایس پی سیکورٹی تھا اور JIT کے سامنے دوران تفتیش سلمان علی خاں نے اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ اس نے فائرنگ کی اور ریکارڈ کے مطابق مجاہد فورس، ایلیٹ فور س اور دیگر فورسز سلمان علی خاں (SP سیکورٹی) کے حکم سے آئی تھی۔ یہ شخص ویڈیو فوٹیج میں SMG گن سے فائرنگ کرتے ہوئے واضح طور پر دیکھا بھی جا سکتاہے۔ SP سلمان علی خاں نے ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران ادارہ کو Take Over کرنے کا بھی کہا تھا۔ SP سلمان علی خاں کو جب JIT نے گنہگار ٹھہرایا تو یہ فرار ہوگیا اور اشتہاری ہوگیا تھا۔ اب جب گرفتارپولیس ملزمان کی ضمانتیں مقدمہ نمبر 510/14 میں ہو گئیں تو یہ سلمان علی خاں SPنے بھی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا اور پولیس افسران کے ساتھ سازباز کرکے ضمانت کیس میں پولیس رپورٹ اپنے حق میں کروالی کہ ’’ صفحہ مثل پران کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہے اس لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 169کے تحت ان کی گرفتاری کو التواء کیا جاتا ہے۔ جب ان کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت آئے گی تو پھر دیکھیں گے۔‘‘
    جب یہ رپورٹ پولیس کی طرف سے عدالت میں پیش کی گئی تو انہوں نے اپنی درخواست ضمانت کو واپس لے لیاکیونکہ اب پولیس اور حکومت کے ساتھ سازباز کرنے کے بعد سلمان علی خاں کو ضمانت کروانے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ سلمان علی خاں کو ضمانت کے بعد مراعات کے طورپر اب ڈی، آئی، جی اسٹیبلشمنٹ تعینات کر دیا گیا ہے۔
  7. شیخ عامر سلیم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران SHO سبزہ زار تھا۔ مقدمہ نمبر 510/14 (مدعی پولیس) کی JIT نے منہاج القرآن کے ورکرز پر سیدھی فائرنگ کرنے پر اس کو گرفتار کرلیا تھا اور اب جب دیگر پولیس والوں کی اس مقدمہ میں ضمانتیں ہوئیں تو شیخ عامر سلیم (SHO) نے بھی Rule of Consistency کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کورٹ سے ضمانت لے لی۔ ضمانت پر رہائی کے فوری بعد مراعات کے طور پراس کو نشترکالونی لاہور کا SHO لگادیا گیا کیونکہ نشترکالونی کے علاقے میں جواء، شراب خانے کافی موجود ہیں۔ تھانہ نشتر کالونی کو کافی Monthly آتی ہے اسی وجہ سے اس تھانہ نشتر کالونی کاشیخ عامر سلیم کو SHO لگایا گیا اور مراعات کے طور پر کچھ رقم اور گاڑی بھی دی گئی۔ چند دن پہلے نشتر کالونی تھانہ میں ایک شخص پر تشدد کرتے ہوئے اسکی ویڈیو فوٹیج منظر عام پر آئی تھی جس پر اسکو معطل کیا گیا لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ملزم ہونے کے ناطے فوری طور پر اس کو بحال کرکے SHO تھانہ فیکٹری ایریا لگادیا گیا ہے۔
    باقی جو 6 پولیس اہلکار اس مقدمہ نمبر 510/14 (مدعی پولیس ) کی JIT نے بھی ان کو بھی فائرنگ کرنے پر ملزم ٹھہرایا تھااور گرفتار تھے، ان کی ضمانتیں بھی ہوگئیں اور ان اہلکاروں کو بھی مراعات کے طور پر ان کے عہدوں پر بحال کر دیا گیا۔

پوری قوم کی نظریں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف پر ہیں۔ ان شا اللہ آخری فتح شہداء کے خون کی ہوگی۔ اشرافیہ انسانیت اور آئندہ نسلوں کے خلاف گھناؤنے اقدامات کی بد ترین مجرم ہے۔ انہوں نے کرسی بچانے کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا خونی کھیل کھیلا، اللہ نے کرسی بھی چھین لی اور عزت بھی اور بہت جلد لوٹ مار کی دولت بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔