مدارس میں فرقہ وارانہ رجحانات کی افزائش: ایک المیہ (قسط نمبر 4)

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

’’پاکستان کا نظام تعلیم، متشدّد رجحانات اور مدارس دینیہ ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی حال ہی میں ایک منفرد تحقیقی کتاب شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں پاکستان میں نظام تعلیم کو درپیش مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کیلئے قابل عمل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ کتاب میں مدارسِ دینیہ و دیگر تعلیمی اداروں سے متعلق تحقیقی جائزہ، اعداد و شمار اور تاریخی پس منظر کو صراحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں مذہبی مدارس کے تاریخی پس منظر ،قرونِ اولیٰ و وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند کے مختلف ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نظام تعلیم سے متعلق طلبہ و طالبات، اساتذہ اور والدین سے سوال و جواب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کو کتاب میں بطور خاص شامل کیا گیا ہے، جس سے کتاب کی افادیت اور انفرادیت بڑھی ہے۔ کتاب میں مفید نظام تعلیم کی تشکیل و ترویج کے ساتھ ساتھ پرامن سوسائٹی کی تشکیل میں معاشی استحکام، مؤثر عدالتی نظام کے قیام، بیداریِ شعور کے ضمن میں میڈیا کے کردار، انتہا پسندانہ تحریر و تقریر کے انسداد اور تحمل و برداشت اور اختلاف رائے کے احترام کی ناگزیریت پر بحث کی گئی ہے۔
اس کتاب کے موضوع کی انفرادیت اور افادیت کے پیش نظر ماہنامہ منہاج القرآن میں اسے ماہِ مارچ2018ء سے قسط وار شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے ضمن میں آپ اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔ (چیف ایڈیٹر )

تاریخِ اسلام کے زریں دور میں بغداد اور قاہرہ کی بڑی بڑی اسلامی درسگاہوں میں اکتسابِ علم کے لیے شرق و غرب سے کشاں کشاں لوگ آتے تھے۔ پھر تاریخ کا پہیہ گھوما اور صورت حال یہ ہو گئی کہ مسلمان طلبہ اب مغرب سے حصولِ علم کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ آج اپنی یہ زبوں حالی اور کم مائیگی دیکھ کر کوئی بھی درد مند مسلمان خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا۔

جنگِ آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات نے مسلمانوں کے درمیان دو گروہوں کو جنم دیا۔ اس کڑے وقت میں مسلمانوں کے جدت پسند اور روایت پسند دونوں گروہوں نے مسلم کمیونٹی میں تعلیم کے احیاء کی ضرورت کو محسوس کیا۔ اس تعلیم کی نوعیت، اسلوب اور مقاصد کے حوالے سے مسلمانوں میں افتراق اور ثنویت نے جنم لیا۔ علماء کی قیادت میں روایت پسند گروہ اس نظریہ کا حامل تھا کہ مدارس میں دی جانے والی مذہبی بنیاد پرستی پر مبنی نظامِ تعلیم کے ذریعے ہی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ مقصد تھا جس نے انہیں متحرک کیا کہ وہ نئے مدارس بنائیں اور پرانے مدارس کو بھی بحال کریں لیکن ان کی یہ کوشش غفلت اور عدم سرپرستی کا شکار رہی۔ علماء کا خیال تھا کہ (حالات کے پیشِ نظر) معاشی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کا حل (جدید تعلیم کو اختیار کرنے کی بجائے صرف) مدارس سے جڑے رہنے میں پوشیدہ ہے۔

دوسرا گروہ ان اِصلاح پسند جدت پسند (modernists) رہنماؤں کا تھا جن کے نزدیک مسلمانوں کے زوال اور جمود کا توڑ اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید مغربی تعلیم کو اختیار کرنے میں تھا جو مسلمانوں کے لیے روشن خیالی اور ترقی کی ایک نئی دنیا آباد کر سکتی ہے۔ اس سوچ نے تعلیمی نظام میں ثنویت کو جنم دیا جو برصغیر میں رائج رہی (اور تا حال اس کے اثرات معاشرے میں پائے جاتے ہیں)۔ اس خلیج کو پُر کرنے اور دونوں میں باہمی مطابقت پیدا کرنے کی تمام کاوشوں کے باوجود دونوں ابھی تک ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ یہ (صورت حال) مسلم معاشرے کے درمیان دو واضح نظریاتی اور علمی مکاتب کی عکاسی کرتی ہے۔

پاکستان کے مذہبی مدارس

1947ء میں پاکستان میں صرف 189 مدارس تھے جبکہ 2002ء میں ملک کے اندر غیر اندراج شدہ مذہبی مدارس کی تعداد 10,000 سے 13,000 ہو چکی تھی۔ ان مدارس میں ایک اندازے کے مطابق 1.7 سے 1.9 ملین طلبہ زیر تعلیم تھے۔ سال 2008ء میں یہ اعداد و شمار 40 ہزار سے بھی اوپر چلے گئے جب کہ آج یہ عدد 50 ہزار سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔

یہ مدارس اپنے اپنے مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہوئے مختلف governing bodies کے تحت چل رہے ہیں۔ یہ bodies تنظیم المدارس (بریلوی)، وفاق المدارس (دیوبند)، وفاق المدارس (اہل تشیع)، وفاق المدارس (اہلِ حدیث) اور رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی) کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ اپنے اجتماعی مفادات کے حصول کی خاطر مذہبی مدارس اور اداروں کی ان جماعتوں نے خود کو اتحادِ تنظیماتِ مدارس دینیہ کی چھتری کے نیچے متحد کر رکھا ہے۔

ان مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات کے حوالے سے وقتاََ فوقتاََ مختلف مطالبے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن 9/11 کے واقعہ کے بعد اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے پرویز مشرف کی حکومت نے دو قانون متعارف کروائے۔ پہلا قانون state-controlled مدارس کا قیام (2001ء)، جب کہ دوسرا پہلے سے موجود مدارس کا حکومتی سطح پر اندراج اور ان میں اصلاحات سے متعلق تھا (2002ء)۔

پہلی قانون سازی کامیابی سے ہم کنار ہوئی اور اس قانون کے تحت پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔ مذہبی اداروں اور مذہبی جماعتوں نے مدارس میں اصلاحات اور ان کی رجسٹریشن کے لیے کی جانے والی حکومتی کاوشوں کی بھرپور مزاحمت کی۔ انہوں نے حکومت کو غیر ملکی اثر و رسوخ کے تحت چلنے کا الزام لگایا(Sajjad, Mohammad Waqas, (2012). Madrasas in Pakistan: thinking beyond terrorism-based reforms. Lahore: Idara Talimat-e-Islam)۔ یہ مذہبی ادارے طلبہ کو درس نظامی پڑھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض مدارس نے انگلش، کمپیوٹر سائنس اور دیگر جدید مضامین کو بھی باقاعدہ نصاب کا حصہ بنا رکھا ہے۔

مذہبی مدارس کی اکثریت کورس کے ساتھ ساتھ شدید فرقہ وارانہ رجحانات بھی رکھتی ہے۔ یہاں پڑھائے جانے والے نصاب اور اس کے ذیلی اجزاء کا بغور تجزیہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہاں پڑھنے والے طلبہ معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے کٹ کے رہ جاتے ہیں۔ اِن مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کے پاس بہت کم ایسے ہنر اور طریقے ہوتے ہیں جو اِنہیں عملی زندگی میں بہتر روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں(Ali, Saleem H, (2009). Islam and Education: conflict and conformity in Pakistan's madrassas: Oxford University Press)۔ ان کا عالمی نقطہ نظر بہت محدود ہوتا ہے اور وہ ہر معاملے کو تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔

i۔ اِنتہا پسندانہ رُجحانات کی افزائش: ایک المیہ

مدارس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی عقیدے پر مبنی تشدد کا رجحان بھی ایک المیہ سے کم نہیں۔ تشدد کی دیگر اقسام کی بہ نسبت اس کی کئی جہات، پہلو اور ترغیبات (motivations) ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد مذہب پر مبنی تشدد کی مہلک ترین صورت ہے۔ بلا شبہ مذہبی و نظریاتی اختلافات اسلامی معاشروں کا حسن رہے ہیں اور وہ سب پر امن، دوستانہ اور باہم تعاون کرنے والے تھے۔ اختلافات صرف مختلف مسالک کے رہنماؤں کی علمی تقاریر، مناظروں اور مباحث کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی ایسے موضوعات کو جمعہ کے خطابات اور عوامی اجتماع میں موضوعِ بحث نہیں بنایا تھا کہ عوام میں انتشار، بد نظمی، اختلاف اور عدم برداشت پیدا ہو۔ منبر و محراب کو کبھی نزاعی اور اختلافی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا، بلکہ سنت رسولa کی پیروی میں یہ مسند اِصلاحِ اَحوالِ اُمت اور اَمن و محبت کے فروغ کے لیے استعمال ہوتی رہی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک اختلافی مسائل علمی حلقوں اور علماء کے دائروں تک محدود رہے، اُمت وحدت کی لڑی میں پروئی رہی لیکن جب ان اختلافات کو علمی اجتہاد و ارتقاء کی بجائے سیاسی مقاصد، منفعت برآری اورحصولِ جاہ و منزلت کے لیے استعمال کیا جانے لگا اور دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو بے جا طعن و تشنیع، عیب بینی اور نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جانے لگا؛ اپنے سوا ہر ایک کو کافر، مشرک، بدعتی اور گستاخ جیسے القابات سے نوازا جانے لگا، تب سے اُمت مسلمہ کا شیرازہ بکھر کے رہ گیا ہے اور جسد اُمت پارہ پارہ ہو گیا ہے۔

آج اُمت مسلمہ اس تشدد کا بدترین شکار ہو چکی ہے اور جسدِ ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اتحاد و یگانگت کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ ایسے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایک کلی، معیاری اور جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے اور گرد و پیش میں تیزی سے رونما ہونے والے حالات کی نزاکت اور سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اپنے درمیان سے نفرت، بغض، نفاق اور اِنتشار و افتراق کا قلع قمع کرکے باہمی محبت و مودّت، اخوت و یگانگت، یک جہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن سعی کی جائے جس کامقصد عقیدے پر مبنی تشدد کا کلی خاتمہ ہو۔

وطن عزیز کے طول و عرض میں مذہبی انتشار اور قتل و غارت گری کے واقعات میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبے اس وقت علاقائی، گروہی، لسانی اور فرقہ وارانہ مسائل کا شکار ہیں۔ فرقہ واریت کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں ہزاروں گھرانے تباہ و برباد ہو ئے اور لاکھوں لوگ اس آگ میں جل چکے ہیں۔ سندھ ایک عرصے سے لسانی کشیدگی کا شکار ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک عرصہ سے مذہبی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور کئی لوگ اس کے باعث قتل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کوئٹہ (بلوچستان) میں درجنوں خود کش حملوں میں ہزارہ قبیلے کے ہزاروں اہلِ تشیع افراد کا لقمہ اجل بننا فرقہ واریت کی منہ بولتی مثال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئٹہ اور گلگت بلتستان میں اہلِ تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، وکلائ، انجینئروں، علمی و ادبی شخصیات اور سرکاری ملازمین کی ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

حالیہ ادوار میں کی جانے والی تحقیقی رپورٹس کی روشنی میں ان لا تعداد اموات کا علم ہوتا ہے، جو دہشت گردی، قتل و غارت گری اور خودکش حملوں کے نتیجے میں واقع ہوئی ہیں۔ یہ حالات و واقعات پاکستان میں فرقہ واریت پر مبنی اختلافات کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان تمام خونی واقعات میں اگرچہ عالمی طاقتیں ایک اہم عامل کے طور پر کردار ضرور ادا کر رہی ہیں مگر ہمارے اپنے اندرونی حالات بھی اس کو ایندھن فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں تاریخی تناظر میں فرقہ وارانہ تشدد کے رجحان کا پتہ لگانا اور تجزیہ کرنا ضروری ہے تاکہ ان مخصوص حالات و واقعات کی نشاندہی کی جا سکے جن کے باعث پاکستان کی سا لمیت کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ فرقہ وارانہ تقسیم کو پروان چڑھانے میں مخصوص مذہبی رجحانات کا بنیادی کردار ہے۔ تجزیہ نگاروں کے نزدیک مذہب کی بنیاد پر دی جانے والی تحریک (motivation) ایک ایسا عنصر ہے جو ایک خاص رویہ، طرزِ عمل اور ایک عقیدہ یا خاص طور پر فرقہ پرستی کو جنم دے سکتا ہے جو عام طور پر برا یا تباہ کن اور سنگین ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘ میں لکھتے ہیں:

تاریخِ اسلام میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا پہلا گروہ جس نے انتہا پسندی (radicalism) اور عسکریت پسندی (militancy) کی ابتدا کرتے ہوئے اہلِ اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی تھی، اُمت کی طرف سے انہیں خوارج یعنی ’جماعت سے نکل جانے والے‘ کا نام دیا گیا۔ خوارج کی ابتداء دورِ نبوی میں ہی ہو گئی تھی۔ بعد ازاں دورِ عثمانی میں یہ فکری پروان چڑھے اور پھر دورِ مرتضوی میں ان کا عملی ظہور منظم صورت میں سامنے آیا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کئی مقامات پر ان خوارج کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور حضور نبی اکرم a نے بھی کثیر احادیث مبارکہ میں ان کی واضح علامات اور عقائد و نظریات بالصراحت بیان فرمائے ہیں۔ خوارج دراصل اسلام کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گری کرتے تھے اور مسلمانوں کے خون کو اپنے انتہا پسندانہ اور خود ساختہ نظریات و دلائل کی بناء پر مباح قرار دیتے تھے۔

مسلمانوں میں تقسیم اور اختلاف کا یہ جاری ہونے والا سلسلہ کئی ادوار گزر جانے کے باوجود بھی کم نہ ہوا بلکہ مسلسل بڑھتا رہا۔ برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسے کئی اکابر علماء نے اس شدت کو کم کرنے کی اصلاحی کوششیں بھی کیں مگر یہ معاملہ جوں کا توں رہا۔ افسوس! کہ انسانیت اور آفاقی اخوت کا علمبردار مذہب اندرونی اختلافات اور تنازعات سے نہیں بچ سکا۔ ایک ایسا مذہب جو دکھی انسانیت اور بکھرے ہوئے لوگوں کے لئے امن و سکون لانے کا باعث تھا خود اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں عدم برداشت اور اقتدار کی ہوس کے باعث پارہ پارہ ہو چکا ہے(Ali, M. A. (2000). Sectarian Conflict in Pakistan: A case study of Jhang (Vol. 9). Regional Centre for Stratigic Studies)۔‘ حتّی کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل بھی اس کی یہی صورت حال تھی جو بعد ازاں 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں منتقل ہوئی۔ اکثر مسلم معاشروں میں یہ قوت و طاقت کے حصول کی کوشش کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

ii۔ فرقہ واریت کی مختلف صورتیں

بلاشبہ شیعہ سنی اختلاف کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ لیکن 9/11 کے واقعہ کے بعد جنگی و سیاسی منظر نامے نے اس اختلاف کو نئی جہت دی۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے تحت افزائش پانے والے طالبان انتہا پسند اور متشدد گروہ کی صورت میں سامنے آئے۔ جو بعد ازاں اپنے ہی سربراہان اور مربیوں کے مدِّ مقابل آن کھڑے ہوئے اور خیبرپختونخواہ (KPK)، سوات اور قبائلی علاقوں میں پاکستان سیکورٹی فورسز کے فوجی آپریشن کے بعد پرانے دوست سخت ترین دشمن بن گئے، جس کے باعث تشدد اور خون ریزی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہونے لگا اور یہ ایک معمول اور رسم بن گئی (Stantley J. Tambiah(1996) Leveling Crowds, Ethnonationalist conflicts and collective violence in South Asia, Berkeley, London: University of California Press.)۔ نہ صرف اہلِ تشیع بلکہ بعض انتہا پسند دہشت گرد سنی اور سلفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے اہل السنۃ (صوفی مکتبہ فکر) سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور مزارات کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور مقدس عبادت گاہیں مساجد وغیرہ بھی تشدد سے محفوظ نہ رہیں۔

متشدد نظریہ (Ideology of puritanism) سے فروغ پانے والے طالبان اور ان کے اتحادی دہشت گرد گروہ نے بڑے پیمانے پر تشدد کی کاروائیوں کے لیے عوامی جگہ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریہ کی تشہیر کی۔ سنی مکتبہ فکر کے ذیلی طبقات صوفیاء اور بریلوی ہیں جن پر پاکستان کی اکثریتی آبادی مشتمل ہے، جو امن پسند اور اسلام کے صوفی vision کے نمائندگان ہیں۔ ان پر حملہ کرنے کے ذریعے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے فرقہ واریت کی راہ ہموار کی ہے۔ انہوں نے قوم کی تحمل و برداشت اعتدال پسندی، باہمی ہم آہنگی اور رہن سہن کی اقدار پر حملہ کیا(ttp://www.theguardian.com/world/ 2012/oct/09/taliban- pakistan-shoot)۔ ان کی جانب سے متشدد کارروائیاں عارضی اور وقتی نہیں ہیں بلکہ فرقہ وارانہ سیاست کے تحت انہیں منظم انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر دہشت گردانہ حملے کو دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے تعلقات کے درمیان ایک حد بندی (watershed) گردانا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)