القرآن: قلبِ سلیم کی علامات اور اثراتِ صحبت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین، محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی ﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo

’’جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد۔ مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا۔‘‘

الشعراء، 26: 88-89)

ان دوآیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے قیامت کے احوال بیان فرمائے ہیں کہ وہ بیٹے جو دنیا میں دست و بازو معلوم ہوتے ہیں اور خاندان کی قوت تصور کیے جاتے ہیں اور وہ مال جس کے بل بوتے پر انسان دنیا میں ہر قسم کے فوائد حاصل کرتا نظر آتا ہے، قیامت کے دن یہ مال اور اولاد ہرگز فائدہ مند نہ ہوں گے۔ قیامت کے دن جو شے نفع مند ہوگی وہ صرف قلبِ سلیم ہے۔

جو شخص قیامت کے دن قلبِ سلیم یعنی دنیا کی لذتوں، رغبتوں، چاہتوں اور شہوتوں سے کنارہ کش دل، دنیا کی آرزوئوں اور خواہشوں سے پاک دل، اللہ کے ذکر اور اس کی محبت و معرفت سے معمور دل لے کر آئے گا، تو یہی قلبِ سلیم اس کو نفع دے گا۔

قلوب کی اقسام

دل کی تین اقسام ہیں:

  1. قلبِ سلیم (قلبِ صحیح/ قلبِ حیی)
  2. قلبِ میت (مردہ دل)
  3. قلبِ مریض (بیمار دل)

قرآن مجید نے جہاں قلبِ سلیم کا ذکر کیا وہاں قلبِ مریض کے بھی احوال بیان کئے ہیں، ارشاد فرمایا:

فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌلا فَزَادَهُمُ ﷲُ مَرَضاً.

’’ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا‘‘

البقره، 2: 10

دل کی بیماری ایسی ہے جسے لاحق ہوجائے تو پھر اللہ کی خاص توفیق اور عنایت کے بغیر ختم نہیں ہوتی۔

یاد رہے کہ قلب سے مراد محض گوشت کا لوتھڑا نہیں جو ہمارے سینے میں ہے اور انتقالِ خون کا باعث بنتا ہے، بلکہ اس کے اندر ایک اور دل ہے جو اس دل کا برتن اور مقام ہے، جس کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا.

’’بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی۔‘‘

بنی اسرائیل، 17: 36

کانوں نے سنا کیا تھا، آنکھوں نے دیکھا کیا تھا، دل نے چاہاکیا تھا، ہر ایک سے باز پرس ہوگی۔ دل کا تعلق چاہتوں، رغبتوں، خواہشوں اور آرزوئوں سے ہے۔ لہذا جب وہ نفسانی شہوتوں کا شکار اور دنیاوی لذات کا طالب ہوتا ہے تو وہ مریض ہوجاتا ہے۔

دل پر نفس اور روح کے اثرات

دل نفس اور روح کے دوکناروں کے درمیان ہے:

  1. دل کے ایک طرف نفس ہے جو برائی، شہوتوں، رغبت اور منفی خصوصیات کا منبع ہے۔ اس کی اصل حالت اماریت ہے۔ فرمایا:

اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌم بِالسُّوْٓءِ.

’’بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے۔‘‘

یوسف، 12: 53

گویا نفس اس ناسوتی دنیا کے اغراض، مادی لذتوں اور اندھیر نگری کا نمائندہ ہے۔

  1. دل کے دوسری طرف روح ہے۔ روح ملائے اعلیٰ کی نمائندہ ہے۔ اللہ رب العزت نے تخلیقِ بشریت میں بھی دوباتوں کا ذکرکیا ہے:

اِنِّیْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.

’’میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔‘‘

الحجر، 15: 28

وہ مادہ جس سے انسان کی تخلیق ہوئی اس میں سیاہ اور بدبودار ہونے کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے منفی رجحانات پائے جاتے تھے، ان تمام منفی رجحانات کا حامل پیکر بشریت وجود میں لاکر فرمایا:

فَاِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْلَهٗ سَاجِدِیْنَ.

’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔‘‘

الحجر، 15: 29

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ سجدۂ تعظیم، صلصال اور حماء مسنون کے مرقع پیکرِ بشریت کو نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس نور کی تعظیم کی جارہی ہے جو انسان کے چراغدان (جسم) میں رب نے رکھ دیا ہے، جس کی نمائندہ روح ہے جبکہ گلے سڑے بدبو دار گارے سے بنے پیکرِ بشریت کا نمائندہ نفس ہے۔ خصوصیات کے اعتبار سے نفس منفی رجحانات کا جبکہ روح عالمِ انوار اور عالمِ تجلیات کی منبع ہے۔ نفس اس دنیا کا نمائندہ ہے جبکہ روح ملائِ اعلیٰ، عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت اور عالمِ لاہوت کی۔ ربِ کائنات نے اس دل کو ان دو نمائندوں کے درمیان رکھ دیا۔

نفس بھی دل پر اثر انداز ہوتا ہے اور چاہتا ہے دل میری طرح بن جائے جبکہ روح بھی کوشش کرتی اور اثر ڈالتی ہے کہ دل میری طرح بن جائے۔۔۔ نفس چاہتا ہے کہ بندے کا دل ناسوتی بن جائے جبکہ روح کہتی ہے ملکوتی بن جائے۔۔۔ نفس چاہتا ہے کہ یہ دل ظلماتی دل بن جائے جبکہ روح دل کو نورانی بنانا چاہتی ہے۔۔۔ نفس چاہتا ہے کہ یہ دنیاوی خواہشات وشہوات کے ساتھ معلق رہے جبکہ روح چاہتی ہے کہ یہ عالمِ جبروت، اللہ کی قربت اور اُس بارگاہ کی لذتوں و راحتوں کے ساتھ جڑا رہے۔۔۔ نفس چاہتا ہے کہ دل دنیا کے لالچ میں گم رہے جبکہ روح چاہتی ہے کہ یہ الست بربکم کی آنے والی پیاری آواز کے جواب میں ہمیشہ قالوا بلی کہتا رہے۔ نفس اور روح دونوں دل کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں، اگر نفس بازی جیت جائے تو دل مریض و مردہ ہوجاتا ہے اور اگر اس جنگ میں جیت روح کی ہوجائے تو دل زندہ اور قلبِ سلیم ہوجاتا ہے۔

دل جسمِ انسانی کی سلطنت کا تخت ہے۔ روح چاہتی ہے یہاں میری حکومت ہو، تاکہ دل کے عرش پر ملائِ اعلیٰ کے انوار اتریں، فرشتوں، تجلیات، الھامات، برکات اور حسنات کا نزول ہو۔ دل سے ایسا دروازہ کھلے جس کاتعلق آسمانوں سے ماورا عرش تک کی دنیا سے جڑ جائے اور عالمِ بالا میں ہونے والی صدائیں اُسے سنائی دیں، جو مناجات اور ذکر واذکار ملائکہ کرتے ہیں اس کی بازگشت دل میں بھی سنائی دے تا کہ بندہ چلتا تو فرش پر ہو مگر اسے کیفیت عرش کی حاصل ہو۔

نفس چاہتا ہے کہ دل مریض ہوجائے، اس کا تعلق ملائِ اعلیٰ سے کٹ جائے، مولیٰ اور عالمِ انوار سے اس کا تعلق کٹ جائے اور یہ اندھیری دنیا میں رہے، حرص وہوس کی دنیا میں رہے، زیب وزینت اور آرائش دنیا کا ہوکر رہے اور تباہی وبربادی کا شکار بنے۔

روح چاہتی ہے قلب کے تخت پر حکومتِ الہیہ قائم ہو جبکہ نفس چاہتا ہے شیطانی حکومت قائم ہو۔ گویا یہ نفس اور روح کی ایک جنگ ہے۔ ارشاد فرمایا:

لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْقَاسِیَةِ قُلُوْبُهُمْط وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍم بَعِیْدٍ.

’’(یہ اس لیے ہوتا ہے) تاکہ اﷲ ان (باطل خیالات اور فاسد شبہات) کو جو شیطان (لوگوں کے ذہنوں میں) ڈالتا ہے ایسے لوگوں کے لیے آزمائش بنا دے جن کے دلوں میں (منافقت کی) بیماری ہے اور جن لوگوں کے دل (کفر و عناد کے باعث) سخت ہیں، اور بے شک ظالم لوگ بڑی شدید مخالفت میں مبتلا ہیں۔‘‘

الحج، 22: 53

شیطان اور نفس اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ دل فتنے میں مبتلا ہو۔ یہ دونوں قوتیں دل کو مریض کرنا چاہتی ہیں جبکہ روح کی طاقت دل کو صحت مند کرنا چاہتی ہے۔

روحانی دل کے امور

ہر عضو کا ایک کام (Function) ہے اگر وہ صحیح کام کرے تو اس کا مطلب ہے وہ صحت مند ہے اور اگر وہ اپنا کام نہ کرے تو بیمار ہے۔ اسی طرح دل کا بھی اپنا کام (Function) ہے۔ جسمانی دل خون کی سرکولیشن کے لیے پیدا کیا گیا ہے جبکہ روحانی دل کو پانچ قسم کے امور لازم ہیں:

  1. وہ دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرے۔
  2. وہ اللہ کی طرف رجوع کرے۔
  3. وہ اللہ کی ملاقات کا شوق رکھے۔
  4. وہ اللہ کی طرف رغبت رکھے۔
  5. وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے۔

روحانی دل ان پانچ مقاصد کی خاطر زندگی کی تمام شہوتوں اور خواہشات کو قربان کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ جس طرح جسم کو صحیح، صحت مند اور طاقتور رکھنے کے لئے دنیاوی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح دل کو بھی صحت مند و توانا رکھنے کے لیے روحانی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ روحانی دل کی خوراک و غذاء اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے اور اللہ سے ملاقات کا شوق دل کی حیات ہے۔

شوقِ لقاء میں اگر دل کو لذت ملے تو یہ دل کی راحت ہے، ورنہ دعا کے طور پر تو ہر کوئی کہہ لے گا کہ اے اللہ! ہمیں اپنی ملاقات کا شوق عطا کر تاکہ ہم تیرا دیدار کرسکیں، اگر اس خواہشِ دیدار کی کیفیت میں دل کو راحت و سرور ملے تو سمجھیں کہ دل قلبِ سلیم ہے اور اگر دل کا التفات اور رجحان و رغبت اللہ تعالیٰ کے بجائے غیر کی طرف ہو تویہ دل کی بیماری ہے۔ یعنی اگر دل کی رغبت مال، حرص و لالچ، جاہ ومنصب، عزت وشہرت کی طرف ہو تو سمجھیں کہ دل بیمار ہے۔اگر غیر کی طرف دل جھک جائے تو سمجھیں مریض ہے اور اگر غیر کا التفات چھوڑ کر صرف اللہ کی طرف رجوع کرلے تو سمجھیں کہ اس کا علاج ہوگیا ہے۔ غیر کی طرف التفات نہ کرکے دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کرنا اس مر ض کی دوا ہے۔

حضرت یحییٰ بن معاذ نے فرمایا:

قلبِ سلیم کی علامت یہ ہے کہ جس بندے کی آنکھیں اللہ سے ملاقات اور اللہ کے دیدار کے بغیر ٹھنڈی ہی نہ ہوں، اس کا دل قلبِ سلیم اور قلبِ صحیح ہے اور جس شخص کی آنکھیں اللہ کی محبت اور اس کے شوقِ لقاء میں ٹھنڈی ہوگئیں، اس کو جو بھی دیکھے گا اس کی آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوں گی۔

قلبِ سلیم کی علامات

وہ دل جو صحیح معنٰی میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جھکنے والا ہے اور جس پر روح کی حکمرانی ہے، اس صحت مند دل اور قلب سلیم کی درج ذیل علامات ہیں:

1۔ اللہ کی یاد میں مصروف

قلبِ سلیم کی پہلی علامت یہ ہے کہ وہ کبھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔ ارشاد فرمایا:

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَکَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًاo

’’اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔‘‘

الکهف، 18: 28

یعنی جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اے بندے! ان کے پیچھے نہ پھرا کر، ان کی پیروی نہ کر، ان کا کہنا نہ مان، ان کی خدمت نہ کر۔ اس لیے کہ وہ پیروی کیے جانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔

جو دل ہر وقت اللہ کی یاد میں مست رہتے ہیں، وہی خدمت اور دیدار کے بھی لائق ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْهُمْج تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا.

’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے۔‘‘

الکهف، 18: 28

جو صبح وشام اپنے رب کے ذکر، اس کی یاد، بندگی اور خدمت میں گم رہیں۔ اے بندے! تو ان کی مجلس اور سنگت میں بیٹھ اور اپنی نظر بھی ان سے نہ ہٹا کیونکہ ان کی دید سے تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ اگر تیری آنکھیں اللہ کے ان بندوں سے ہٹ گئیں تو ترید زینۃ الحیوۃ الدنیا، تودنیا کی زینتوں میں گم ہوجائے گا۔ لہذا ان کو تکنا اللہ کو یاد رکھنے کا سبب ہوتا ہے۔

2۔ اللہ کے احکامات کی پیروی

قلبِ سلیم کی دوسری علامت یہ ہے کہ بندہ زندگی میںکبھی اللہ کی خدمت ترک نہ کرے بلکہ ہر وقت اللہ کی نوکری میں رہے۔ صبح سے شام اس کا وظیفۂ حیات اللہ کی رضا کے مطابق ہو۔ نماز پڑھنے کا وقت ہے تو نماز پڑھے، روزہ رکھنے کا وقت ہے تو روزہ رکھے، حلال کھائے، حرام سے بچے، جس طرف نہ دیکھنے کا حکم ہے، اس سے آنکھ بند کرے۔ جس کو چاہنے کا حکم ہے، اس کو چاہے، جدھر اللہ چلائے، ادھر چلے۔ جہاں بٹھائے، وہاں بیٹھے۔ جہاں سے روکے، وہاں سے رک جائے۔ ہر وقت اس کی خدمت میں رہے۔ جس کا دل ہمہ وقت اللہ کی خدمت میں اس طرح ہوجائے تو سمجھیں یہ صحت مند دل والا ہے۔

3۔ عدمِ اطاعت پر اظہارِ تاسف

قلب سلیم کی تیسری علامت یہ ہے کہ اگر کبھی اللہ کی خدمت کا ایک وظیفہ یا کوئی عمل ترک ہوجائے تو اس کے دل کو اتنا افسوس، دکھ اور غم ہو کہ جتنا کسی حرصِ دنیا رکھنے والے کو مال و دولت کے چھن جانے اور نقصان پر ہوتا ہے۔ اللہ کی بندگی کا شوق، رغبت اور چاہت اتنی شدت کی ہو کہ جتنی بھوکے کو کھانے کی چاہت ہوتی ہے اور پیاسے کو ٹھنڈے پانی کی طلب ہوتی ہے۔ سخت گرمی کے موسم میں شدتِ پیاس کی حالت میں بندے کو ٹھنڈے پانی کے حصول سے جتنی لذت ملتی ہے، اس سے کروڑ گنا بڑھ کر اس کو رب کی خدمت، محبت اور عبادت میں لذت ملے تو سمجھیں کہ وہ دل صحت مند دل ہے۔

4۔ دنیا کے غموں سے بے نیازی

قلبِ سلیم کی چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ بندہ جب نماز میں داخل ہو، اللہ کے ذکر، عبادت اور اللہ کی یاد میں محو ہو تودنیا کے سب غم اس طرح بھول جائیں جیسے کوئی غم تھا ہی نہیں۔ اس پیمانہ پر ہر بندہ اپنے آپ کو پرکھ سکتا ہے کہ اس کا دل مریض ہے یا صحت مند ہے۔ صحت و سلامتی والا دل وہی ہے جو دنیا کے سارے غم ذکرِ الہٰی، خدمتِ الہٰی اور عبادتِ الہٰی کے لمحہ میں بھول جائے۔ اس کا دل کبھی غیر سے مانوس نہ ہو۔ اس کو انس، رغبت، راحت، سکون اور لذت جب بھی آئے، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آئے اور وہ غیر کی طرف نہ جائے۔

5۔ غمِ الہٰی کا غلبہ

صحت مند دل کی پانچویں علامت یہ ہے کہ بندے کو ہر غم چھوڑ کر صرف ایک ہی غم ہو۔ تجارتِ دنیا میں نفع ہوتا ہے یا نقصان، ثمراتِ دنیا ملتے ہیں یا نہیں، بندہ ان کو دنیا کے ضابطوں کے مطابق ڈیل بھی کرے مگر ان کا غم دل کو نہ لگائے۔ اگر کوئی غم دل کو لگے تو وہ ایک ہی غم ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کا غم ہو کہ کہیں میرا مالک مجھ سے ناراض نہ ہوجائے، مجھے اپنے دیدار سے محروم نہ کردے اور مجھ پر خفا نہ ہوجائے۔

6۔ خلوص اور صدقِ نیت

قلب سلیم کی چھٹی علامت یہ ہے کہ بندے کی حسنِ نیت اس کمال درجے پر ہو کہ وہ جو کام بھی کرے اس میں نیت خالص اور لوجہ اللہ ہو۔ کسی سے سنگت اور دوستی بنائے تو وہ بھی صرف اللہ کے لئے ہو، کسی سے محبت کرے تو وہ بھی صرف اللہ کے لئے، کسی سے دشمنی کرے تو بھی اللہ کے لئے، مال کمائے تو بھی اللہ کے لئے، خرچ کرے تو بھی اللہ کے لئے، کسی کے پاس جا کر مجلس میں بیٹھے تو بھی اللہ کے لئے اور کسی کو چھوڑ دے تو بھی اللہ کے لئے۔ لہٰذا جب دل درست اور صحت مند ہوجاتا ہے تو وہ کثرتِ عمل کی بجائے حسنِ عمل کی طرف خیال کرتا ہے۔ وہ اعمال اور ثوابوں کے ڈھیر کے پیچھے نہیں جاتا بلکہ وہ اس عمل کی خالصیت پر توجہ دیتا ہے۔

یاد رکھیں! یہ بھی دل کا مرض ہے کہ بندہ ثواب اور درجات کی تجارت میں لگا رہتا ہے۔ اگر دل صحیح ہوجائے تو اسے نہ دنیا کے درجات سے دلچسپی رہتی ہے اور نہ جنت کے محلات سے۔ اس کی دلچسپی، لذت، راحت، خوشی، کیف اور سرور صرف اس بات میں ہے کہ جو کروں خالص اللہ کے لئے کروں تاکہ وہ راضی ہو جائے۔

قلبِ سلیم کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

قلبِ سلیم اور صحت مند دل کے حصول کے لیے بھی اسلامی تعلیمات ہمیں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ دل کو صحت مند کرنے اور قلبِ سلیم کے درجہ پر فائز کرنے کے درج ذیل طریقے ہیں:

  1. صحبتِ صالحہ
  2. حسنِ نیت

1۔ صحبتِ صالحہ

صحبتِ صالحہ اللہ والوں کی صحبت ہے اور اللہ والوں کی صحبت ہی حقیقت میں اللہ کی صحبت ہے۔ جو لوگ اس کی یاد زندہ کر لیتے ہیں وہ اللہ کے ہم جلیس ہوجاتے ہیں، مگر افسوس کہ ہم نے اس کی یاد مردہ کر دی ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اپنے مابین خود ہی غفلت کا حجاب اور پردہ ڈال دیا ہے، حالانکہ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ جو لوگ غفلت کا پردہ اٹھا دیتے ہیں، ان کو اس کی قربت اور ہم نشینی نصیب ہو جاتی ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

اَ لْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍم بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ.

’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)۔‘‘

الزخرف، 43: 67

یعنی قیامت کے دن اللہ والوں کی دوستی اور رفاقت کے سوا کوئی صحبت اور دوستی کام نہیں آئے گی، صرف اللہ والوں کی سنگت قائم رہے گی اور اللہ والوں کے پاس گذرے ہوئے لمحے کام آئیں گے۔ قلبِ سلیم کے حصول کی شرط ہے کہ ابرار کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اس کے لیے اللہ رب العزت نے اصول دیتے ہوئے فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo

’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔‘‘

الفاتحه، 6-7

یعنی اگر ہدایت لینی ہے تو ان کی صحبت میں رہو جن پر میرا انعام ہوتا ہے اور ان کی صحبت چھوڑ دو جن پر میں غضبناک ہوتا ہوں۔ یہ نہیں کہ دونوں سنگتیں ساتھ چلیں، اگر اس طرح کیا تو پھر کمائی بھی نقصان میں بدل جاتی ہے۔

جلیسِ صالح کی مثال عطار کی دکان کی طرح ہے۔ اگر آپ عطار کے پاس بیٹھیں تو کچھ نہ کچھ کستوری عنبر دے گا۔ اگر خوشبو نہیں دے گا تو کم از کم خوشبو کے حلے تو آہی جائیں گے، محروم نہیں لوٹو گے۔ جبکہ برے لوگوں کی مجلس اور صحبت لوہار کی دوکان کی طرح ہے۔ اگر اس کے پاس بیٹھو گے تو وہ تمہارے کپڑے جلا دے گا، اگر کپڑے نہیں جلائے گا تو کم از کم اس سے گرم ہوا اور حرارت کی شدت تو تم تک ضرور پہنچے گی۔

حضرت کعب بن الاحبار فرماتے ہیں کہ:

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ کَتَبَ کَلِمَتَیْنِ وَوَضَعَهُمَا تَحَتَ الْعَرْشِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ وَلَمْ یُعْلِمَ الْمَلَائِکَةَ عَنْ عِلْمِهِمَا وَاَنَا اَعْلَمُ بِهِمَا.

مخلوق پیدا کرنے سے بھی پہلے اللہ نے اپنے عرش کے نیچے دو باتیں لکھ دی تھیں۔ وہ دو باتیں ایسی تھیں جو نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی نہیں بتائی تھیں۔

سمرقندی، تنبیه الغافلین باحدیث سیدالانبیاء والمرسلین، ص: 4390

پوچھا گیا: وہ دو باتیں کون سی تھیں؟ فرمایا:

  1. ایک بات اللہ تعالیٰ نے یہ کہی کہ ایک شخص نے کثرت سے نیک عمل کئے مگر بعد میں فاسق و فاجر ہوگیا اور اللہ کے نافرمانوں کی صحبت میں جا بیٹھا تو اس کے تمام عمل رائیگاں جائیں گے اور اس کو فاسقوں اور فاجر لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
  2. دوسرا کلمہ اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا تھا کہ اگر کسی نے زندگی میں گناہ کیے تھے، فسق و فجور کیے تھے، اِس ساری گناہوں بھری زندگی کے بعد اسے خیال آگیا کہ صحبتِ ابرار اختیار کروں اور پھر وہ نیکوں کی صحبت میں چلا گیا تو اللہ اس کے تمام گناہ مٹا دے گا اور وہ قیامت کے دن ابرار کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

اس لیے جب سنگت اور صحبت کا فیصلہ کرو تو سوچا کرو کہ کس کی سنگت اور دوستی کے حلقہ میں داخل ہورہے ہو۔ اس صحبت و سنگت کے اثرات قلب پر پڑتے ہیں اور دل کے اثرات نے قیامت تک اپنا کام کرنا ہے۔ لہٰذا سنگت، دوستی اور کسی مجلس میں بیٹھنے کا جب فیصلہ کرو تو دیکھ کر کرو کہ اس کی دوستی، صحبت، سنگت اور مجلس دل پر کیا اثر کرے گی۔

صحبت کے اثرات

اولیاء اللہ اور عرفاء نے کہا ہے کہ:

  • اگر دنیا داروں کی مجلس و صحبت میں بیٹھنا شروع کرو گے تو رفتہ رفتہ یہ مجلس آپ کے دل میں دنیا کی محبت و رغبت پیدا کرے گی۔ چوبیس گھنٹے مال و دولت کی بات کریں گے، نئے منصوبے اور نئے کلام ان کی مجلس و صحبت میں سننے کو ملیں گے، گویا ان کی مجلس و صحبت میں بات دنیا ہی کی ہوگی۔
  • اگر فقراء کی مجلس میں بیٹھو گے تو دل میں اللہ کی فکر آئے گی۔
  • غریبوں کی مجلس میں بیٹھو گے تو دل میں اللہ کا شکر آئے گا اور اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو گے۔
  • اگر بادشاہ، امرائ، وزراء اور سلاطین کی مجلس میں بیٹھو گے تو دل میں تکبر، سختی اور رعونت آئے گی۔
  • عورتوں کی مجلس میں زیادہ بیٹھو گے تو دل میں شہوت آئے گی۔
  • بچوں اور جوان لڑکوں کی صحبت میں بیٹھو گے تو لعب و لھو کی رغبت پیدا ہوگی، دل کھیل تماشے کی طرف راغب ہوگا۔
  • غافل، گنہگار، فاسق، دائمی شرابی، زانی اور دنیا بھر کے گناہ کرنے والوں کی مجلسوں اور صحبتوں میں بیٹھو گے تو گناہ کرنے پر دل جاری ہو جائے گا۔ کبھی چھوٹا سا گناہ کرنے پر بھی خوف آتا تھا، لیکن اب بڑے سے بڑا گناہ کرنے پر بھی ڈر نہیں آئے گا اور گناہ کرنے کی جسارت پیدا ہو جائے گی۔
  • صالحین کی مجلس میں بیٹھو گے تو عبادتوں کا شوق پیدا ہوگا، اللہ کی یاد پیدا ہوگی، آخرت کا خوف اور خشیت پیدا ہوگی۔
  • علماء و صالحین کی مجلس میں بیٹھو گے تو علم آئے گا۔

الغرض جس کی بھی صحبت اختیار کریں، ہر صحبت اثر چھوڑتی ہے اور وہ اثر دل پر ہوتا ہے۔ یا وہ صحبت دل کو مریض کرتی ہے یا دل کو صحیح اور سلیم کرتی ہے۔ صالح اور نیک صحبت چونکہ ہر وقت اللہ کی یاد کی صحبت ہے، لہذا اللہ والوں کی مجلس اور صحبت میں جب بھی بیٹھیں گے تو وہ کسی نہ کسی طریق میں اللہ کی بات سنا دیں گے، اللہ کی اطاعت کی بات سنا دیں گے، کبھی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں گے اور کبھی اس کے حسن و جمال کا، کبھی آخرت کا، کبھی اس کے دیدار کا، کبھی اس کی عنایات کا ذکر، الغرض کسی نہ کسی طریق پر ان کی بات اللہ کی بات پر ختم ہوگی۔ یاد رکھیں! صحبتِ صالح شکلوں اور جبوں، قبوںسے نہیں ہوتی بلکہ دل سے صحبت بنتی ہے۔ بلھے شاہ صاحب کہتے ہیں:

باروں دھوویں لتاں گوڈے تے تیرے اندر رہی پلیتی
دنیا دارا رب دے نال وی تو چار سو وی چا کیتی

صحبت کی سادہ علامت یہ ہے کہ جس مجلس میں بیٹھیں اور جب اٹھ کر واپس جائیں تو دل کا حال دیکھیں، اگر دل اللہ کی طرف راغب کرکے جا رہے ہیں تو پھر پلٹ کر بھی آنا، اس لیے کہ یہ صحبت اللہ کی یاد دلانے والی صحبت تھی اور اگر ساری ساری رات بیٹھے اور دل اللہ کی اور آخرت کی طرف راغب ہونے کی بجائے غفلت میںمبتلا رہا، نمازیں چھوٹنے لگیں، عبادت ترک ہونے لگی، للہیت نہ رہی تو سمجھیں کہ زہر کھا رہے ہیں۔

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو! جب کسی کی صحبت اور سنگت کو اختیار کرو تو پہلے یہ فیصلہ کرو کہ یہ سنگت اور صحبت قیامت کے دن بھی کام آئے گی یا نہیں؟ اگر وہ سنگت و صحبت قیامت میں کام آنے والی ہو تو اسے اختیار کرو، ورنہ چھوڑ دو۔ اس لیے کہ جس دوستی نے قیامت کے دن کام نہیں آنا، وہ دوستی یہاں بھی بے کار ہے۔

ایسی مجلس میں بیٹھیں جہاں دل کی زندگی کا خیال رکھا جائے، جہاں دین کی فکر ہو، آخرت کی فکر ہو، اصلاح کی بات ہو، نیکی اور بھلائی کی بات ہو، اللہ کا ذکر، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دین کی بات ہو۔ اگر مجالس کے ایسے موضوعات ہوں تو دل زندہ ہوگا۔

دل کو زندہ یامردہ کرنے کا پہلا علاج صحبت ہے۔ایسی صحبت اختیار نہ کریں جس میں برائی کی با ت ہو۔ جو شخص دوسرے کی برائی دیکھتا ہے، وہ مرتے دم تک اپنی برائی نہیں دیکھ سکے گا۔ اسے ایک ہی برائی نظر آئے گی اپنی یا دوسرے کی۔ جن کو آخرت کی فکر ہوتی ہے وہ صرف اپنی برائی دیکھتے ہیں، انہیں دوسروں کی برائی کا فکر ہی نہیں ہوتا۔

2۔ حسنِ نیت

صحبت صالحہ کے بعد دوسری بڑی اہم چیز جو سلامتی قلب اور دل کو زندہ کرنے کے لئے ہے وہ حسنِ نیت ہے۔ حسنِ نیت مومن کے عمل سے بھی زیادہ اعلیٰ اور قیمتی چیز ہے۔ حضور علیہ السلام  نے فرمایا:

نِیَّةُ الْمُوْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِهٖ وَعَمَلَ الْمُنَافِقِ خَیْرٌ مِّنْ نِیَّتِهٖ.

’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بھی بہتر ہوتی ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘

المعجم الکبیر، ج: 6، ص: 185

عمل کم ہو اور اس میں حسنِ نیت زیادہ ہو تو وہ قلیل عمل بھی کثیر بن جاتا ہے۔منافق کا عمل زیادہ دکھائی دے گا مگر نیت حسین وجمیل صاف شفاف نہیں ہوگی، خالص نہیں ہوگی، نیت میں ریا ہوگی، دکھاوا ہوگا، ملاوٹ ہوگی۔ مومن کا عمل قلیل ہوگا مگر حسن نیت کی وجہ سے وہ قلیل عمل کثیر بن جائے گا۔ اگر انسان ہرکام میں حسنِ نیت رکھے تو دل کا مرض دور ہوتا ہے اور دل صحت مندہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا.

’’اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔‘‘

الدهر، 76: 8

آیت مبارکہ میں تلقین و تاکید ’’علی حبہ‘‘ پر ہے۔ کھانا ہر کوئی کھلاتا ہے مگر کھانا کھلانے سے بات نہیں بنتی۔ فرمایا: علٰی حبہ یعنی کس نیت سے کھلایا ہے، اس کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر نیت مولا کی رضا ہے تو ایک سوکھی روٹی کا کھلا دینا بھی ہزار روپے کے خرچ کرنے سے اعلیٰ ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

ان بدلاء امتی، لم یدخلوا الجنه بکثرت صوم ولا صلاة ولکن یدخلوها برحمة اللہ وسلامة الصدور وسخاوة الانفس والرحمة لجمیع المسلمین.

’’میری امت کے ابدال اور بہت سے اولیاء نماز، روزہ کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی رحمت اور دلوں کی سلامتی اور نفوس کی سخاوت اور تمام مسلمانوں کیلئے پیکرِ رحمت ہونے کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔‘‘

کنزالعمال، ج:12، ص:85، رقم: 34605

اگر ہم قلبِ سلیم کے حصول کے لیے صحبتِ صالحہ اور حسنِ نیت کو اپنالیں تو ہمارا دل بھی قلبِ سلیم کے درجہ پر فائز ہوسکتا ہے اور پھر یہی قلبِ سلیم ہمارے لیے روزِ قیامت نفع بخش ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو صحت عطا فرمائے اور ہمیں روحانی امراض سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم