الفقہ: آپ کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خاں ہزاروی

سوال: شہادتِ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کی شہادت پر غمزدہ ہونا کیسا ہے؟

جواب: شہادتِ حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کی شہادت یعنی شہداء کربلا کی شہادت پر اظہار افسوس کرنا، غمزدہ ہونا، پریشان ہونا جائز ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو خلافِ شریعت ہو۔ البتہ شہدائے کربلا کی شہادت پر ایسا غمزدہ ہونا جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا، منع ہے۔ حضور علیہ السلام نے مار پیٹ، ماتم، بال نوچنے اور اپنے آپ کو ایذاء دینے سے منع فرمایا ہے۔

لہٰذا آنسوبہانا، اظہار افسوس کرنا، غمزدہ ہونا، پریشان ہونا جائز مگر حد سے بڑھنے کی ممانعت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُیُوبَ وَدَعا بِدَعْوٰی الْجَاهِلِیَّةِ.

’’جو رخسار پیٹے، گریبان پھاڑے اور دورِ جاہلیت کی طرح چیخے چلائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

(بخاری، الصحیح، 1: 436، رقم: 1235)

معلوم ہوا کہ اگر کوئی مصیبت آئے تو واویلا اور چیخ وپکار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر کوئی فوت ہو جائے، اس پر بھی آنسو بہانا تو جائز ہے، لیکن رخسار پیٹنا، گریبان پھاڑنا جائز نہیں ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بھی اہلِ بیتِ اطہار نے صبر واستقامت کے ساتھ تمام مصائب وآلام کا سامنا کیا اور آقا علیہ السلام کے فرامین کے مطابق ہی غم اور پریشانی کے اظہار میں راہِ اعتدال پر قائم رہے۔

سوال: کیا اسلام میں مرثیہ اور نوحہ پڑھنا یا سننا جائز ہے؟

جواب: مرثیہ اور نوحہ کا کلام اچھا ہو تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔ یعنی کلام ایسا ہونا چاہیے جس میں شہدائے کربلا کے بارے میں درست سمت بتائی گئی ہو اور کسی اور محترم ہستی کے بارے میں برا بھلا نہ کہا گیا ہو۔ بعض دفع کچھ شدت پسند اہلِ بیت کی آڑ میں دوسرے صحابۂ کرام کے بارے میں نازیبا الفاظ بول جاتے ہیں۔ لہٰذا کلام پر منحصر ہے کہ سننے کے قابل ہے کہ نہیں۔ درست کلام ہو تو سن سکتے ہیں۔

سوال: سوگ تو تین دن کا ہوتا ہے لیکن پھر حضرت امام حسین علیہ السلام کا غم آج تک کیوں منایا جاتا ہے؟

جواب: حضرت امام حسین علیہ السلام کا غم اس لئے منایا جاتا ہے، کہ آپ کا واقعہ کوئی معمولی نہ تھا، کچھ صدمے اور غم ایسے ہوتے ہیں جو دنوں اور سالوں پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ تا عمر اور تا قیامت رہتے ہیں، اور اس کی مثالیں آج بھی لوگوں کے درمیان موجود ہیں۔ آپ علیہ السلام پر ظلم وستم ڈھایا گیا۔ چند گھنٹوں میں سارا خاندان ذبح کر دیا گیا۔ جس طرح آپ کی شہادت عام اور معمول کی شہادت نہیں، اسی طرح آپ علیہ السلام کا غم بھی عام اور معمولی نہیں۔ آپ اہل بیت ہیں۔ آپ کی شخصیت معمولی نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے ساتھ کیے جانے والے ظلم وستم کو بھلایا جا سکتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں حضرت امام حسین کی شہادت کا واقعہ تفصیل سے موجود ہے کہ آپ کی ولادت کے ساتھ ہی وصال کی خبر دی گئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی سیدنا امام حسین کو دیکھتے تو خوشی کے ساتھ غمزدہ ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے عزیز و اقارب کی سالانہ برسی مناتے ہیں، ان کو ایصال ثواب کرتے ہیں، تو کیا ایصال ثواب کرتے وقت یا جب ان کی وفات کا دن آتا ہے تو ہم سوگ نہیں مناتے؟ ہم غمزدہ نہیں ہوتے؟ ہم پریشان نہیں ہوتے؟ تو ایسے ہی جب سیدنا امام حسین علیہ السلام کا دن آتا ہے تو اس ظلم وبربریت سے بھرپور واقعہ کی وجہ سے سوگ منا تے ہیں اور غمزدہ ہوتے ہیں۔ اہل سنت سیدنا امام حسین اور شہدا کربلا کے ایصال ثواب کے لئے محافل کا انعقاد کرتے ہیں، 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھتے ہیں ، غمزدہ ہوتے ہیں، اور سنت کے مطابق سوگ مناتے ہیں۔

سوال: کیا محرم الحرام کے مہینے میں خاص کھانوں کا پکانا جائز ہے؟

جواب: امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی یاد، عقیدت اور محبت میں حسبِ توفیق کھانا تقسیم کرنا، پانی اور دودھ کی سبیلیں لگانا نہ صرف جائز ہے بلکہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

سوال: کیا سیدنا امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد ریاست کے خلاف بغاوت تھی؟

جواب: سیدنا امام حسین علیہ السلام نے ایک شرابی، زانی، ظالم، جابر، سفاک اور درندہ صفت حکمران یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا، یعنی اس کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے برائی کے کاموں میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن یزید چاہتا تھا کہ اگر نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری بیعت کر لیں تو باقی بہت سے لوگ بھی مجھے حکمران مان لیں گے، یعنی ووٹ دے دیں گے۔ لیکن سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اس کے غلط طرز زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے صاف انکار کر دیا اور یزید کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کو کہا۔ یزید جھوٹا اور مکار ہونے کی وجہ سے خود تو سامنے نہ آیا لیکن زبردستی بیعت کروانے کا منصوبہ بنا لیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام اپنی فیملی سمیت مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ انہیں ڈر تھا کہ مدینہ پاک میں کہیں خون نہ بہے۔ دوسری طرف اس دوران کوفہ والوں نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی کہ ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ لیکن آپ علیہ السلام ابھی مکہ میں تھے کہ حج کا مہینہ شروع ہو گیا۔ آٹھ ذوالحجہ کو پھر امام عالی مقام نے سوچا کہ یہاں بھی مسلمانوں کا اجتماع ہو گا کہیں ایسا نہ ہو کہ ظالم، سفاک یزید کی افواج سے ٹکر ہو جائے اور حرم پاک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں اسی لیے امن کے دامن کو تھامتے ہوئے آپ علیہ السلام نے کوفہ جانے کی غرض سے سفر شروع کر دیا۔ یزیدی لشکر نے آپ علیہ السلام کو کربلا کے مقام پر روک لیا۔ سات محرم الحرام کو آپ علیہ السلام پر پانی بند کر دیا اور یزید کی بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن آپ علیہ السلام نے انکار کر دیا حتی کہ دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر نے ظلم کے پہاڑ ڈھا دیئے اور آپ علیہ السلام کو فیملی اور ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے شروع سے آخر تک صبر اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آپ امن کے داعی تھے۔ آپ نے کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ گلیوں، بازاروں، اداروں یا محافل میں جا کر بے گناہ معصوم بچوں کو قتل کر دو، بوڑھے اور عورتوں کو قتل کر دو، لوگوں کے گھروں کو اڑا دو، دکانیں جلا دو، تعلیمی مراکز تباہ کر دو، فوجی ادارے برباد کر دو، مسجدوں میں نمازیوں کو قتل کر دو یا غیر مسلم اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں کو نیست و نابود کر دو۔ اگر ایسا کوئی بھی بیان جاری کیا ہو تو بحوالہ پیش کر دیں۔ اس پر ساری امتِ مسلمہ بلکہ غیر مسلم بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے صبر کی مثال قائم کر دی اور امن کا سبق دیا۔ خون خرابے سے بچنے کی غرض سے شہر مدینہ بھی چھوڑ دیا اور مکۃ المکرمہ بھی۔

لہذا معلوم ہوا سیدنا امام حسین علیہ السلام نے ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا جس میں ریاست سے بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہو۔ بیعت کرنے یعنی ووٹ دینے میں ہر کوئی آزاد ہوتا ہے، جس کو مرضی دے۔ ایسا تو خالق کائنات نے بھی نہیں کیا کہ زبردستی کسی سے کوئی کام کروائے۔ اچھائی اور برائی دونوں راستے انسان کے سامنے رکھ دیئے ہیں، جو چاہے اختیار کر سکتا ہے۔ یزید کون ہوتا ہے جو زبردستی نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیعت کرنے پر مجبور کرے؟

سوال: امامِ حسین علیہ السلام کا قاتل کون ہے؟

جواب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ آپ نے مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی خبریں دی ہیں۔ انہی اخبارِ غیبیہ میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے امت کو آگاہ فرما دیا تھا۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

یُقْتَلُ حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ عَلٰی رَأْسِ سِتِّیْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِی. رَوَاهُ الطَّبَرَانیُّ وَالدَّیْلَمِیُّ وَزَادَ فِیْهِ: حِیْنَ یَعْلُو الْقَتِیْرُ، الْقَتِیْرُ: الشَّیْبُ.

’’حسین بن علی علیہما السلام کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا۔ اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا۔‘‘

(طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 105، رقم: 2807)

حضرت عبیدہ علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لَا یَزَالُ اَمْرُ اُمَّتِی قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی یَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ یَثْلِمُهُ. رَجُلٌ مِنْ بَنِی اُمَیَةَ. یُقَالُ لَهُ یَزِیْدُ.

میری امت میں دین و انصاف کی قدریں قائم رہیں گی، حتیٰ کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا۔ یہ پہلا شخص ہوگا جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا۔

(أبو یعلی، المسند، 2: 176، رقم: 871)

تاریخ، علم، نقل اور عقل اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ امامِ حسین علیہ السلام کو یزید نے ہی شہید کرایا۔ واقعۂ کربلا کوئی اچانک پیش آنے والا حادثہ نہیں تھا۔ ملوکیت کی سوچ کو پروان چڑھانے اور دین کی اقدار کو پامال کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کی گئی تھی۔ جس میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اقتدار کے حصول کے لیے خون بہانے سے بھی دریغ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حاکم کی نگاہ میں کھٹکنے والے چند افراد میں امام حسین علیہ السلام بھی شامل تھے۔ اسی سوچ نے واقعہ کربلا کی بربریت کو جنم دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن اور یزید کے حامی روزِ اوّل ہی سے یزید کو معصوم ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے تلاش کرتے رہے ہیں۔ وہ اہلِ بیت کے خونِ ناحق کا بدنما دھبہ یزید کے دامن سے دھونا چاہتے ہیں۔ اس لیے کبھی وہ واقعہ کربلا کی روایت کو مشکوک بناتے ہیں اور کبھی امامِ عالی مقام علیہ السلام کی شہادت کا الزام ان کا ذکر کرنے والوں پر دھرتے ہیں۔ مگر یہ کوششیں نہ کبھی پہلے بارآور ہوئی ہیں اور نہ ہی اب ان سے کسی فائدے کی امید ہے۔

سوال: اہل بیت اطہار اور اولیاء عظام کی اہانت کے مرتکب کا کیا حکم ہوگا؟

جواب: اہل بیت کو عزت وتوقیر، تقدس وحرمت سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ملا ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَحِبُّونِی بِحُبِّ اﷲِ وَاَحِبُّوا اَهْلَ بَیْتِی بِحُبِّی.

’’مجھ سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میرے سبب محبت کرو۔‘‘

(ترمذی، السنن، 664:5، رقم: 3789)

اسی طرح حسنین کریمین علیہما السلام کی اپنے ساتھ نسبت وتعلق اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ اَبْنَایِ مَنْ اَحَبَّهُمَا اَحَبَّنیِ وَمَنْ اَحَبَّنِی اَحَبَّهُ اللّٰه وَمَنْ اَحَبَّهُ اللّٰه اَدْخَلَهٗ الْجَنَّۃَ وَمَنْ اَبْغَضَهُمَا اَبْغَضَنِی وَمَنْ اَبْغَضَنِی اَبْغَضَهٗ اللّٰه وَمَنْ اَبْغَضَهٗ اللّٰہ اَدْخَلَهٗ النَّارَ.

’’حسن اور حسین علیہما السلام میرے بیٹے ہیں۔ جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے اللہ سے محبت کی، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے حسن وحسین علیہما السلام سے بغض رکھا۔ اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا۔ گویا اس نے اللہ تعالیٰ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ سے بغض رکھا اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا۔‘‘

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 181، رقم: 4776)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ تصور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں تھا وہ بعد ازوصال بھی ہمیشہ سے اسی طرح قائم ودائم ہے۔ یوں ہی بغض وعداوت اور دشمنی وعنادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش بھی قائم ہے۔ یہی طرزِ عمل ازواجِ مطہرات، اہلِ بیتِ عظّام اور خلفائے راشدین کے لئے بھی پایا جاتا ہے۔ جو کوئی ان ذواتِ مقدسہ کی بے ادبی وگستاخی کرتا ہے وہ دنیا وآخرت میں ذلیل اور رسوا ہوگا۔ قرآن حکیم میں ازواجِ مطہرات کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا۔

یٰـنِسَآء َالنَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ.

’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو۔‘‘

(الاحزاب، 33: 32)

دنیا میں بے شمار عورتیں اپنی عزت و عظمت، تقوی وطہارت اور صالحیت وروحانیت کے اعتبار سے ایک دوسری سے فائق وبرتر ہوں گی، مگر ازواجِ مطہرات کے مقام ومرتبے اور فضیلت وحیثیت کو قیامت تک کوئی خاتون نہیں پہنچ سکتی۔ کیونکہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت کی عظیم نسبت وشرف حاصل ہے۔ اس نسبت کی وجہ سے ان کی عزت وتکریم اور ادب وتعظیم بھی درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتکریم اور ادب ہی شمار ہو گا اور ان کی توہین وتحقیر بھی خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین وتنقیص شمار ہوگی۔

لہٰذا ازواج مطہرات، اہلِ بیت اطہار، خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی و گستاخی کرنے والا گمراہ اور بے ایمان ہے، اس کواسلامی عدالت میں تعزیراً سزادی جائے گی جو حد سے بھی سخت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اولیائے کرام کی بے ادبی وگستاخی کرنے والا گمراہ اور بدعقیدہ ہے۔ اس کو بھی جو مناسب ہو تعزیراً سزا دی جائے گی۔

یہ امر ذہن نشین رہے کہ مذکورہ بالا تمام سزائیں بذریعہ عدالت تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد لاگو کی جائیں گی، کسی کو بھی اپنے طور پر کوئی سزا لاگو کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔