تحریک منہاج القرآن کے قیام کی ضرورت و اہمیت

جی ایم علوی

محرم الحرام 1400ھ بمطابق 21 نومبر 1979ء جب افق پر نئی صدی ہجری کا آفتاب طلوع ہوا تو وطنِ عزیز میں ہر طرف بےیقینی کی صورت حال تھی۔ سرزمینِ پاک گوناگوں مسائل سے دو چار تھی۔ دین کی حقیقی روح اور اصل تعلیمات سے دوری، عالمی سطح پر فکری و نظریاتی پستی اور واضح مقصد نہ ہونے کے سبب مسلما ن بے توقیری کی زندگی گزار رہے تھے۔ مسلمان بحیثیت ملت معاشی، سیاسی اور معاشرتی میدان میں بڑی تیزی سے زوال پذیر تھے۔ خصوصاً پاکستانی معاشرہ میں درج ذیل برائیاں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی تھیں:

  • تنگ نظری اور اِنتہا پسندی شدت سے پروان چڑھ رہی تھی۔
  • فکرو عمل کا دائرہ کارمحدود ہوچکا تھا۔ ہر طبقے اور جماعت نے اپنے ذوق کے مطابق دِین کے ایک جزؤ کو کْل دِین بنا لیا تھا۔
  • مسلمانانِ پاکستان متعدد فرقوں میں بٹ چکے تھے۔
  • منبر و محراب سے لے کر سماجی مجالس تک تکفیری رویہ(یعنی اپنے سوا دوسروں کو کا فر قرار دینا)گفتگو کا لازمی حصہ بن چکا تھا۔ حد یہ ہوئی کہ وطنِ عزیز کے گلی کوچوں کے در و دیوار بھی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے نفرت انگیز نعروں سے آلودہ کیے گئے۔
  • روحانی مراکز علم و حکمت کا نور پھیلانے اور قلب و روح کا تصفیہ کرنے کے بجائے چند رُسوم و رواج اور توہمات کو متبادل دین بنا رہے تھے۔
  • روحانی مجالس اولیاء اللہ کی تعلیمات کے فروغ کی بجائے میلوں، سرکسوں اوردیگر غیر شرعی تقاریب میں تبدیل ہو چکی تھیں۔
  • اسلام کے تربیتی نظام ’’تصوف‘‘ کو روحانی بالیدگی اور باطنی تابندگی کے بجائے عقلی و فکری قویٰ کو معطل کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔
  • ملک کے عدالتی نظام میں عدل و انصاف کی حکمرانی دم توڑ رہی تھی۔ ڈیڑھ سو سالہ پرانے عدالتی نظام نے پورے ملک کو حکمرانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بااثر افراد کی ذاتی جاگیر میں تبدیل کردیا تھا۔
  • فرسودہ، گھسے پٹے اِنتخابی نظام اور کلچرکے ذریعے نااہل، دہشت گرد، لٹیرے اور ملک دشمن عناصر ایوانِ اقتدار تک اپنا راستہ ہموار کر چکے تھے اورتبدیلی کا ہر راستہ مسدود ہو چکا تھا۔
  • کرپشن، بدعنوانی، حرص وہوس اور لوٹ مار کا کلچر ملکی معیشت پر قرضوں کاگراں بوجھ مسلط کر چکا تھا۔
  • افرادِ معاشرہ کو ظلم و جبر، ناانصافی اور غربت کی زنجیروں میں جکڑ کر قوم سے ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کا جذبہ چھینا جا رہا تھا۔
  • قوم کو حق و صداقت کی پاسداری کے جذبے سے اِس قدر گریزاں کیا جا رہا تھا کہ سب بڑی دینی جماعتوں نے حق پرستی کو سیاست کا نام دے کر اپنے مقاصد سے نکال دیا اورشعوری و لاشعوری طور پر قوم کو اِس نظام جبر سے سمجھوتہ کرنے اور اِسی میں رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی۔
  • پاکستانی قیادت جہادِ افغا نستان کے نام پر ملک پر عالمی جنگ مسلط کر چکی تھی۔ جہاد افغانستان کے ثمرات کے طور پرکلاشنکوف اور ہیروئین کلچر عام ہو رہا تھا۔
  • ایک طرف فتنہ خوارج تیزی سے جڑیں مضبوط کر رہا تھا اور دوسری طرف فتنہ قادیانیت نئی توانائیوں کے ساتھ سر اٹھا رہا تھا۔

الغرض اِسلام اور اَمن دشمن طاقتیں اور نادان دوست مل کر ملک و قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی عالمی سازشوں میں مصروف عمل تھے۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں کی اِن سازشوں کے باعث وطن عزیز میں ہر روز ایک نیا فتنہ جنم لے رہا تھا اور اِن فتنوں اور سازشوں کی کوکھ سے آئے روز نئے نئے حادثات ومسائل جنم لے رہے تھے۔

اِحیاء اِسلام کی جدوجہد کا تسلسل

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ باطل جتنا بھی مضبوط ہو جائے، چاہے وہ دنیا بھر کی طاقت اور وسائل جمع کر لے، بالآخر وہ حق کے مقابلے میں ناکام و نامراد رہتا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صبر ورضا اور اِستقامت کا مظاہرہ کرنے والے اَہل حق کی مدد خود اللہ رب العزت فرماتا ہے۔ اللہ ر ب العزت اہل حق کی نصرت و اِعانت کے لیے ہر عہد میں ایک ایسی نابغہ روزگار ہستی پیدا فرماتا ہے جو اللہ کے فضل و کرم سے طوفانوں کا رْخ موڑ کر انسانیت کی تقدیر بدل دیتی ہے۔ اس عہد ساز شخصیت کے علم و حکمت اور دانش و بصیرت سے محض ایک طبقہ اورقوم نہیں بلکہ پوری اِنسانیت فیض پاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو خوش خبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اﷲَ یَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا.

’’اللہ تعالیٰ اِس اْمت کے لیے ہر صدی کے آغاز میں کسی ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس (اْمت) کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ ‘‘

(ابوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، 4: 109، الرقم: 4291)

پیغمبرِ اسلام کے اس فرمان کی حامل ہستی مجدد کہلاتی ہے۔ یہ مجددہی ہو تا ہے جو نئی صدی کے نئے چیلنجز کا مقابلہ کرتا ہے اور اِسلام کی مٹتی ہوئی اقدار کوپھر سے زندہ کرتا ہے۔ نئی صدی ہجری کی اِبتداء سے جہاں اَمن دشمن طاقتیں اپنی شیطانی سازشوں کی منصوبہ بندی میں مصروف عمل تھیں وہاں اللہ رَب العزت کی کرم نوازی ہوئی کہ 1980 میں ہی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں عظیم تجدیدی تحریک کی بنیاد رکھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں یہ تجدیدی تحریک وطنِ عزیز اور پوری اْمت مسلمہ کے لیے طلوعِ صبحِ نو اور اِنسانیت کے لیے اَمن و سلامتی کی نویدِ جاں فزا ثابت ہوئی۔

اللہ رب العزت نے امتِ محمدیہ کو ہمہ جہت خصوصیات کی حامل ایک ایسی ہستی عطا فرمائی جس نے گزشتہ نصف صدی میں ملکی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والے ہر فتنے اور آنے والے ہر چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے تجدید کا حق ادا کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایسی ہستی ہیں جنہوں نے ایک ہزار کتب تحریر کر کے یو رپ اور عرب و عجم کے شمعِ علم و حکمت کے پروانوں کی علمی تشنگی بجھائی۔ انہوں نے علم حدیث پر قلم اٹھایا تو تدوینِ حدیث کی تاریخ میں ایسے ایسے رشحات قلم عطا کیے کہ انسانیت دنگ رہ گئی۔ ’’جامع السنہ‘‘ کی صورت میں علوم الحدیث کے ذخیرے میں ایک غیر معمولی اور جاوداں باب کا اضافہ کیا۔ محض چالیس سال سے بھی کم عرصہ میں کسی سرکاری مدد کے بغیر دنیا بھر میں مؤثر سیکڑوں تنظیمی اور تعلیمی اداروں پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا۔ وہ ایسی شخصیت ثابت ہوئے جنہوں نے اپنے صوفیانہ کردار و اخلاق سے شرق تا غرب لاکھوں فرزندانِ اسلام کو محبت کی لڑی میں پرو کر انہیں خدمت ِ دین کے جذبے سے سرشار کر دیا۔

مجددِ رواں صدی نے نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار لاکھوں افراد کو عالم گیر مصطفوی انقلاب کا نعرہِ مستانہ دے کران میں تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ اسی طرح عقیدہ ختم نبوت کے خلاف سازشیں ہوں یا فتنہ قادیانیت، فتنہ انکارِ حجیت حدیث ہو یا انکارِ علمِ تصوف، کسی نے سود کا متبادل نظام مانگا یا احتساب کا لائحہ عمل، ملکی تعلیمی مسائل کا حل ہو یا نصاب تعلیم کی پیچیدگیاں، 70سالہ بوسیدہ عدالتی نظام کے مسائل ہوں یا مقروض معیشت کے مسائل، انتخابی نظام میں اِصلاحات ہوں یا نظام اِنتخاب، بین الاقوامی سطح پر گستاخیِ رسول کافتنہ ہو یا اِہانتِ قرآن کافتنہ، پوری دنیا میں دہشت گردی کا ناسور ہو یا تہذیبوں کے تصادم کا خطرہ، یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی integration کا معاملہ ہو یا ان کے معاشی استحکام کے مسائل، غیرمسلموں سے تعلقات کے مسائل ہوں یا رؤیتِ ہلال کے جھگڑے، ملکی عدالتوں میں گستاخ ِرسول کی سزا کے تعین کا معاملہ ہویا قادیانیوں کے اِسلامی شعائر کے اِستعمال کافتنہ، گستاخی اہل بیت کا فتنہ ہو یا خلفاء راشدین و صحابہ کرام کی شانِ اَقدس میں اہانت کا معاملہ، الغرض پچھلی نصف صدی میں یہی وہ فقید المثال ہستی ہیں جنہوں نے ہر اٹھنے والے فتنے کا سرکچل دیا۔ انہوں نے ہر مسئلہ پر خواہ وہ علمی، فقہی، معاشی حتیٰ کہ سائنسی ہی کیوں نہ ہو اِنسانیت کی کامل راہنمائی کرتے ہوئے ہر چیلنج کا بھرپورمقابلہ کیا۔

اصلاحِ معاشرہ میں منہاج القرآن کا انقلابی کردار

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نئی صدی ہجری کی ابتداء میں اسلام کے اِحیاء کے لیے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل قرآن و سنت کی عظیم فکر پر مبنی دعوت و تبلیغ حق، اصلاح احوالِ امت اور فلاح معاشرہ کی ایسی پر امن ترقی پسندتجدیدی تحریک جس کی منزل ترویج و اقامت اسلام ہے۔

منہاج القرآن کے درج ذیل مقاصد ہیں:

  1. دعوت و تبلیغ ِحق
  2. اصلاح احوالِ امت
  3. تجدید و احیاء دین
  4. ترویج و اقامت اسلام
  5. فروغ علم
  6. اتحاد امت
  7. عالمی قیام امن

اِس تحریک نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں اپنے 38 سالہ سفر کے دوران جو کامیابیاں حاصل کیں اُن کا مختصرجائزہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ماضی کے سفر کو دیکھ کرمستقبل کے وژن کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

1۔ فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تحریکِ منہاج القرآن

ایک مسلمان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق ہے۔ اِیمان کے وجود، اعمال کی قبولیت اور قربِ الٰہی کا انحصار اسی تعلق کی مضبوطی پراستوار ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے گزشتہ صدی کے دوران مسلمانوں کو اپنے مرکز ایمان سے دور کرنے کے لیے دو فتنوں ’’قادیانیت اور خارجیت‘‘ کی تخم ریزی کی۔ ان دونوں فتنوں کو پروان چڑھانے کے لئے بد قسمتی سے وطن عزیز پاکستان کو مرکز بنایا گیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن کی 37 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں یہ دونوں فتنے پنپ نہیں سکے۔ یوں تو فتنہ قادیانیت کے خلاف ملک بھر کے مسلمانوں نے بھرپور جدوجہد کی اور قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر اِس فتنے کا خاتمہ کر دیا تھا۔ 1984ء اور 1988ء میں جب اِس فتنے نے دوبارہ سر اٹھایا تو کمرہ عدالت میں دلائل دینے ہوں یا مینار ِپاکستان کے گراؤنڈ میں عالمی ختم نبوت کانفرنس میں مناظرے و مباہلے کا چیلنج ہو، اس تجدیدی تحریک نے ہر میدان میں ا ِس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس پر مستزاد ہزاروں صفحات پر مشتمل کئی مؤقر اور تاریخی کتب کے ذریعے اِس فتنے کی حقیقت سب پر طشت ازبام کی۔

تحریک منہاج القرآن کی سب سے بڑی جدوجہد خارجی فکر کے خلاف ہے۔ قریب تھا کہ خارجی فکر سینوں میں روشن محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغوں کو گل کرتے ہوئے مسلمانوں کو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایمان کے نور سے محروم کر دیتی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عِلمی اور عَملی دونوں سطحوں پر جدوجہد کرتے ہوئے دنیا بھر میں ہزاروں میلاد کانفرنسزسے فکری اور روحانی خطابات کیے، گلی محلوں میں لاکھوں محافلِ میلاد منعقد ہوئیں، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عشق و محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عقیدہ رسالت، اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے درجنوں کتب تحریر کی گئیں۔ 38 برس سے مسلسل عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، امت کے کردار و اَخلاق میں اِتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرزور دیا گیا، دنیا بھر میں ہزاروں حلقات ِدرود اور منہاج القرآن کے مرکز پر گوشہ درود قائم کر کے اِس اْمت کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹتا ہوا تعلق نہ صرف دوبارہ جوڑا بلکہ مضبوط تر کیا۔ آج رسول نما تحریک کی 37سالہ جدوجہد کے نتیجے میں خارجی طرزِفکر کو شکست ِ فاش ہو چکی ہے ۔ بیرونی امداد پر خارجیت کو فروغ دینے والے اپنی غلطی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں اور تیزی سے عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ مجددِ رواں صدی کی شبانہ روز کاوشوں سے پوری دنیا پر خارجیت کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے اور نئی نسلیں اِس فتنے سے محفوظ ہو رہی ہیں۔

2۔ دینی علوم کے فروغ میں تحریکِ کا کردار

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح دینی علوم کے فروغ میں تحریکِ منہاج القرآن کا کردار آفاقی ہے۔ رسم و رواج اور روایت پرستی کے بجائے منہاج القرآن نے علم کے اِحیاء کا فریضہ بخوبی سرانجام دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے معمولاتِ زندگی کے بیسیوں موضوعات پر 1,000 سے زائد کتب تحریر فرمائیں جن میں سے 550 سے زائد کتب اردو، عربی اور انگریزی میں شائع ہو چکی ہیں، جبکہ باقی اشاعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ دیگر زبانوں میں ہونے والے تراجم ان کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر 7,000 سے زائد ایمان افروز خطابات فرمائے۔ دنیا بھر میں ہزاروں کالجز، یونیورسٹیز اور اداروں میں اسلام کے ہر ہر پہلو پر لیکچرز دیے۔ دنیا بھر میں ہزار ہا لائبریریز اور سیل سینٹرز قائم کیے گئے۔ حدیث، تصوف، فقہ اور عقائد اِسلامیہ کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے کا علمی و فکری بنیادوں پر مقابلہ کیا گیا۔ علم الحدیث میں 30 جلدوں پر مشتمل جامع السنہ کی صورت میں تدوین حدیث کے باب میں 14 سوسالہ اسلامی تاریخ میں غیر معمولی کام کیا۔ قرآن مجید کا جدید علمی، فکری، سائنسی اور تفسیری شان کا حامل ترجمہ کیا گیا جب کہ تفسیر پر کام تیزی سے جاری ہے۔ الغرض تحریکِ منہاج القرآن نے ہزارہا خطابات، سیکڑوں کتب، تعلیمی اداروں اور لائبریریز کے قیام کے ذریعے دینی علوم کے رجحان کو پھر سے زندہ کیا ہے۔

3۔ تعلیم وتربیت کے فروغ میں تحریک کا کردار

اگر ہم 40 سال قبل کے پاکستانی معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو ہر طرف جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے دکھائی دیتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاک سرزمین پر اسلامی تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ قرآن و حدیث سے بات کرنے کو تقلید کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ علم دینی اور عصری دو مختلف اکائیوں میں بٹ چکا تھا اور دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو چکی تھی۔ یہ روش ایک طرف تو معاشرے کو دین سے بیزار سیکولر بنا رہی تھی تو دوسری جانب صدیوں پرانے نصاب کے حامل اور عصری تقاضوں سے بے خبر مدارس تھے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس ماحول میں پاکستانی معاشرے کوعصری اور دینی تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مکمل تعلیمی نظام اور سیکڑوں تعلیمی ادارے دیئے۔ واضح رہے کہ منہاج القرآن دنیا کی وہ واحد NGO ہے جس نے دنیا بھر میں تعلیمی ادارے اپنے نام پر قائم کیے ہیں۔ اس ضمن میں ایک چارٹرڈ یونیورسٹی، بیسیوں کالجز، سیکڑوں سکولز اور دنیا بھر میں اسلامک سینٹرز نئی نسل کی کردار سازی میں مصروفِ عمل ہیں۔ یہ منہاج القرآن کی عظیم جدوجہد کا ثمر ہے کہ آج سیکڑوں اداروں میں دینی و عصری تعلیم کو یکجا کیا جا چکا ہے۔ آج علماء اورا سکالرز قرآن و سنت سے تحقیق کو قبول کر رہے ہیں جب کہ جمود کے قفل ٹوٹ چکے ہیں۔

4۔ بین المسالک امن اور رواداری کا فروغ

1980ء کی دہائی میں مسلکی منافرت اپنے عروج پر تھی۔ ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوئے لگانا عام تھا۔ دوسرے مسلک کے فرد کے ساتھ گفتگو کرنا، اْس سے تعلق رکھنااور حتی کہ دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز کی اَدائیگی تک کو جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اِسلام دشمن قوتوں کی سازشوں اور نادان دوستوں کی وجہ سے گزشتہ 40 سال میں کئی مواقع ایسے بھی آئے ہیں کہ قریب تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری شروع ہو جائے اور بات چلتے چلتے خانہ جنگی تک پہنچ جائے۔ متنازع اور نفرت آمیز موضوعات پر سیکڑوں تصانیف شائع ہوئیں، جہادکے نام پر کئی فسادی تنظیمیں بنیں، کئی جیش اور سپاہ بنیں، پْرامن تنظیموں اور سیاسی تنظیموں نے بھی اپنے عسکری ونگز قائم کیے اور ہزاروں مسلکی جماعتوں کے رہنما اور کارکن قتل ہوئے۔

منہاج القرآن نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں ان مایوس کن حالات میں اَمن و رواداری اور محبت کی ایسی شمع جلائی کہ کل تک ایک دوسرے کو کافر و مشرک کہنے والے آج سیاسی و مذہبی جدوجہد ایک پلیٹ فارم پر کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے خدمت دین کے لیے اپنے دروازے ہر مسلک اور ہر مذہب کے لیے کھلے رکھے۔ کبھی اعلامیہ وحدت کی شکل میں باہمی اشتراک کا سبق دیا، تو کبھی تحفظِ ناموس اہلبیت اور تحفظِ ناموس صحابہ کی صورت میں منافرت پھلانے والے ہر فتنے کا تدارک کیا۔ یہ شیخ الاسلام کی ذات ہی ہے جنہوں نے کبھی دفاع شانِ علی رضی اللہ عنہ کی صورت میں گستاخی اہلبیت کے فتنے کا خاتمہ کیا تو کبھی دفاع شانِ صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صورت میں ناموس صحابہ کا تحفظ کیا۔ گزشتہ نصف صدی کی پاکستانی تاریخ سے منہاج القرآن کا مساوات، بھائی چارے اور امن و آشتی پر مبنی کردار کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

5۔ اصلاح ِاحوال میں تحریکِ کا کردار

تحریک منہاج القرآن بنیادی طور پر قرآن و حدیث کی فکر پر مبنی اصلاحِ اَحوال کی عالمگیر تحریک ہے۔ 38 سال قبل جب معاشرہ محفلِ ذکر، شب بیداری، اِجتماعی مْسنون اِعتکاف، نفلی اعتکاف، تربیتی کیمپ اور روحانی اجتماعات جیسے عنوانات سے نا آشنا تھا، اْس دور میں منہاج القرآن نے اپنی مجددانہ جدوجہد کا آغاز دروس تصوف اور ماہانہ شب بیداریوں سے کیا۔ طویل مدت تک ملک بھر میں ہفتہ وار محافل ذکر، ماہانہ شب بیداری، تربیتی کیمپوں کا انعقاد تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک جاری رہا۔ جبکہ بیرونی دنیا میں لاکھوں نوجوانوں کی اصلاح احوال کی جدوجہد الد ایہ کیمپوں کے ذریعے کئی سالوں سے جاری ہے۔ سالانہ مسنون اعتکاف میں ہزار ہا افراد 24 گھنٹے عبادت و بندگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ تین دہائیوں سے 27 رمضان المبارک کے موقع پر سالانہ روحانی اجتماع لاکھوں لوگوں کی توبہ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ تصوف اور اخلاق حسنہ کے عنوان پر ہزاروں لیکچرز آج بھی اصلاح احوال کا باعث بن رہے ہیں۔

اِس پرفتن معاشرے میں رہتے ہوئے لاکھوں کارکنان کے کردار و عمل میں اِس قدر تبدیلی پیدا کرنا کہ معاشرہ اْن کے کردار و عمل کی مثال دے، الحمد للہ یہ تحریک منہاج القرآن کا اصلاح احوال کی عظیم جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

6۔ عقائد اسلامی کا دفاع اور فروغ

قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستان میں آنے والی خارجی فکر نے سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے عقائد خصوصاً عقیدہ رسالت کے مختلف پہلوؤں پر کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایسے ماحول میں ہر عقیدے کا علمی اور عَملی دونوں انداز سے دفاع کیا۔ انہوں نے ہر عقیدے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں متعدد کتب تحریر فرمائیں۔ ’’کتاب التوحید‘‘کے نام سے عقیدہ توحید کی وضاحت پر اردو زبان میں سب سے ضخیم تصنیف تحریر فرمائی۔ انہوں نے عقائد اوراْن سے متعلق موضوعات پر ایک سو سے زائد کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہزاروں مقامات پر لاکھوں افراد کے مجمع عام سے خطابات کے ذریعے عقائد ِاسلامیہ کا دفاع کیا۔ گستاخی رسالت اور قادیانیت کی صورت میں پیدا ہونے والے اعتقادی فتنوں کا عدالت میں مقابلہ کرتے ہوئے اْن کے خلاف قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

7۔ دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خاتمے میں کردار

موجودہ دور میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی کے مکروہ فتنہ نے پہنچایا ہے۔ جس وقت اِس فتنے کے بیج بوئے جارئے تھے اْس وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان دنیا بھر میں اَمن و محبت کے چراغ جلا رہے تھے۔ جب وطن عزیز میں دہشت گردی کی لہر کا آغاز ہوا تو عالمِ کفر نے اِس فتنے کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر دینِ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی ۔ اس سنگین صورت حال میں مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے صدی کے سب سے بڑے فتنے کے تدارک کے لیے عالمی میڈیا پر سیکڑوں انٹرویوز اور دنیا بھر میں ہزاروں کانفرنسز، اجتماعات میں لیکچرز اور دہشت گردی و فتنہ خوارج کے خلاف فتویٰ اور دہشت گردی کے خلاف چار درجن کتب پر مشتمل امن نصاب کے ذریعے تن تنہا مجددانہ کردار ادا کیا ہے۔ یوں انہوں نے دنیا بھر سے مجددِ رواں صدی کا کردار تسلیم کرایا۔

8۔ عوامی شعور کی بیداری میں کردار

گزشتہ 70 سالوں سے پوری قوم ظلم اور جبر کی چکی میں پس رہی تھی۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے مفادات کے سبب ظالمانہ نظام کا حصہ بن کر اس کے محافظ کا کردار ادا کررہی تھیں۔ کوئی بھی سیاسی اور دینی جماعت اِس ظالمانہ نظام سے ٹکر لینے کے لیے تیار نہ تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت رکھنے والی مذہبی جماعتوں نے طلبِ حقوق کی جنگ کو سیاست کا نام دے کر اپنے مقاصد سے نکال دیا تھا۔

تحریک منہاج القرآن نے مذہبی و اخلاقی خدمات کے ساتھ ساتھ اس ماحول میں نظام کی تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد کا علم بھی بلند کیا۔ ظالم حکمرانوں نے خوف و ہراس پھیلانے اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے روکنے کے لیے17 جون 2014ء کو سیاسی ظلم و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے مردوزن کی تمیز کیے بغیر نہتے کارکنوں پر گولیوں کی بارش کردی جس سے14 شہید اور 100 کارکن زخمی ہوئے۔ مصطفوی انقلاب کے مقصد کی تکمیل کے لیے انقلاب مارچ کا اہتمام کیا گیا تو ملک بھر سے معصوم اور بے گناہ کارکنوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور انقلابی قافلوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ بعد ازاں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے 70 دن پر مشتمل انقلابی دھرنے میں شدید موسم، آتشیںو گولیوں، شیلنگ، کھانے، پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی شدید کمی استقامت سے برداشت کر کے شجاعت کی انمٹ داستان رقم کر دی۔ آج کوئی بھی طبقہ کسی بھی شکل میں احتجاج کرے، آئین کی شق 62، 63 کے نفاذ میں کوئی بھی آواز بلند ہو، کسی ٹی وی چینل پر نظام کی تبدیلی کا تذکرہ کیا جائے تو یہ سب درحقیقت قائدِ انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جرأت و بہادری کی للکار کی بازگشت ہوتی ہے۔

9۔ بین المذاہب رواداری کا فروغ

بین المذاہب رواداری اور امن کے فروغ میں منہاج القرآن کا کردار 38 سالہ انقلابی جدوجہد پر محیط ہے۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان نفرتوں کے خاتمے کے لیے مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم اور شعبہ انٹرفیتھ ریلیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کی مرکزی مسجد میں مسیحی برادری نے اپنے مذہب کے مطابق عبادت بجا لائی۔ 24 ستمبر 2011ء کو لندن میں ہونے والی عالمی ’رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس‘ میں چھ بڑے مذاہب کو جمع کر کے عالمی اَمن کی دعا کی گئی۔ یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی عظیم جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر اْمتِ مسلمہ کے خلاف نفرت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور دْوسرے مذاہب مسلمانوں کے قریب آنا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے تہواروں کے مواقع پر اپنے ہاں ضیافتوں کا اِہتمام کرتے ہیں، پاکستان کے گرجا گھروں میں بھی محافلِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد شروع ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ توہین آمیز خاکوں کے خلاف مسیحیوں نے مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں پروگرام منعقد کیے۔ اِسی طرح 2010ء میں Facebook پر توہین آمیز خاکے بنانے کا مقابلہ کرانے کے اِعلان پر آرگنائزر کو خود مغربی دْنیا کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، نتیجتاً ناپاک جسارت پر مبنی یہ مقابلہ منسوخ کر دیا گیا۔

اِسی مذہبی رواداری کا نتیجہ ہے کہ اب یورپ میں مسلمانوں کے دِینی تہواروں کے موقع پر غیرمسلم ممالک کے حکمران اور قائدین مسلمانوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور اْن کے لیے نیک تمناؤں کا اِظہار بھی کرتے ہیں۔ اِسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم تک نے عیدالاضحی ٰکے موقع پر وزیراعظم سیکرٹریٹ میں پہلی بار عید ملن پارٹی کا اِہتمام کیا جس میں مسلم عمائدین کو دعوت دی گئی۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب سارے پروگرام کے دوران میں برطانیہ کا مشہور نعت خواں گروپ ’عاشقِ رسول‘ درود و سلام کا وِرد کرتا رہا۔ مغربی حکومتوں اور دِیگر سیاسی شخصیات اور سماجی و معاشرتی تنظیموں کی طرف سے اْن ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے عید ملن پارٹیز کا اِہتمام ایک معمول بن چکا ہے۔

10۔ عالمی سطح پر تحفظ ناموس رسالت میں کردار

جب وطن عزیز میں تحفظ ناموس رسالت کا چیلنج پیش آیا توشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علمی و عملی دونوں محاذوں پر ناموسِ رسالت کا حقیقی دفاع کیا۔ واضح رہے کہ گستاخی رسالت پر موت کی سزا کا قانون اس سے قبل موجود نہ تھا۔ 1985ء میں وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون پر بحث کا آغاز ہوا تو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس پر تین دن تک مسلسل بھرپور دلائل دئیے۔ عدالت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دلائل کی روشنی میں حتمی فیصلے تک پہنچی اور قانون کا مسودہ تیار کیا گیا جسے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے بطور آرڈیننس جاری کیا۔ بعد ازاں قومی اسمبلی نے منظور کرکے 295–C قانون کی شکل میں نافذ کر دیا۔

اسی طرح جب بین الاقوامی سطح پر اَمن اور انسانیت دشمن طاقتوں اور طبقات کی جانب سے گستاخی رسالت کے ذریعے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عالمی رہنماؤں کو خطوط تحریر کرکے تمام مذاہب کے رہنماؤں کے احترام کے لیے قوانین واضح کرنے کی دعوت دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے چند سال قبل ڈنمارک میں منعقدہ کانفرنس میں یہودیوں اور مسیحیوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ انبیاء کی گستاخی کی سزا کے قانون کی ابتداء سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور اقدس میں ہوئی۔ ان کے دور میں اللہ، نبی اور آسمانی کتاب کی گستاخی پر سنگ سار کرنے کی سزا مقرر تھی اور اس قانون پر سزائیں بھی دی گئیں۔ یہ قانون سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک جاری رہا۔ شیخ الاسلام نے واضح کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بنائے ہوئے قانون کو جاری (continue) رکھا ہے۔ اس علمی جدوجہد کے نتیجے میں الحمد للہ اب گستاخی کے اس فتنے کا سد باب ہو گیا ہے۔

11۔ عالمگیر دعوتی و تنظیمی نیٹ ورک کا قیام

جس دورمیں خدمت دین کی جدوجہد کو تنظیمی سطح پر فعال کرنے کا افراد معاشرہ میں کو ئی مزاج نہیں تھا، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُس دور میں منہاج القرآن کے نام سے تنظیمی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 38 سالوں میں یونین کونسل سے لے کر عالمی تنظیمات کا جال بچھا کر لاکھوں کارکنان اور عہدیداران کو منظم انداز میں احیاء اسلام کی خاطر جدوجہد کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ تحریکِ منہاج القرآن معاشرے میں رضاء الٰہی کے حصول کی خاطر خدمت دین کا فریضہ سر انجام دینے کے لیے لاکھوں عہدیداران کی تربیت کر کے انہیں اِصلاح معاشرہ اور نا م کی تبدیلی کے لئے جدوجہد کا جذبہ پیدا کر رہی ہے۔ لاکھوں کارکنان کے ذریعے امن و محبت اور رواداری کے فروغ کی جدوجہدیقیناً وطن عزیز اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی نوید لائے گی۔

12۔ یورپ میں اسلام کا دفاع

پاکستان سے یورپ اور امریکہ میں نقل مکانی کرنے والے مسلمان کسی دوسرے مسلک یا مذہب کی مذہبی تقاریب میں شریک نہیں ہوتے تھے حالانکہ بدلتے تقاضوں کے مطابق اب انہیں ایک ایسے معاشرے میں ایڈجسٹ ہونا تھا جہاں اس کا پڑوسی غیر مسلم تھا۔ جہاں میلوں تک کوئی مسجد موجود نہ تھی، جہاں حلال گوشت تلاش کرناجوئے شیر لانے کے مترادف تھا، جہاں سکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جہاں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے کہ پھر کسی نائن الیون (11/9) کے بعد ہمیں راتوں رات ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ اپنے ایمان کا تحفظ کرنا، نسلِ نو کا ایمان بچانا، ان کی دینی تعلیم و تربیت کرنا اور پھر انہیں بہترین عصری تعلیم دے کر معاشرے کا مفید شہری بنانا ایک ایسی آزمائش تھی جس کی سنگینی کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔

تحریک منہاج القرآن نے 100سے زائد ممالک میں تنظیمات اور دفاتر قائم کرکے یورپ میں بسنے والوں کو خدمت دین کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم عطا کیا، بیرونی دنیا میں70سے زائد ممالک میں مساجد، اسلامک سینٹرز اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے جہاں بچوں اور ان کے والدین کے لیے روزانہ اور ہفتہ وار کلاسز کی شکل میں دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ ہفتہ وار حلقہ درودوفکر، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپ، سیمینار اور پروگراموں کا ایسا جال بچھایا کہ نوجوان نسل کودینی و اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آیا۔ منہاج یونیورسٹی کے سیکڑوں اسکالرز کو دنیا بھر میں بھجوا کر یورپ میں مسلمانوں کی اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا مستقل بندوبست کیا۔ بیسیوں ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دئیے، سیکڑوں یونیورسٹیز، کالجز اور اداروں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت اوراسلام کے تصور ِجہاد پرمؤثر اور فکر انگیز خطابات کیے اور ان مواقع پر سوال و جواب کی نشستیں بھی منعقد کی گئیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے الہدایہ کیمپوں کے ذریعے یورپ کے مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تنگ نظری سے بچاتے ہوئے امن و رواداری کا حقیقی درس دے کر یورپ میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کردیا۔ اس انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں یورپ کے مسلمانوں کا وقار بلند ہوا اور انہیں عزت و احترام اورجرأت کے ساتھ جینا نصیب ہوا ہے۔

13۔ دنیا بھر میں فلاح انسانیت میں تحریکِ کا کردار

تحریک منہاج القرآن کے قیام کا مقصد نظام کی تبدیلی کے ذریعے اِقتدارمحب وطن لوگوں کو منتقل کرنا اور وطن عزیز کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست میں تبدیل کرناہے۔ تحریک منہاج القرآن جہاں فلاحی معاشرے کے لیے تبدیلی نظام کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے وہاں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فلاح انسانیت کا بیڑہ بھی اٹھائے ہوئے ہے۔ منہاج ویلفیئرفاؤنڈیشن کے ذریعے دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کاقیام، مستحق طلبہ کو اسکالر شپس، بے سہارا/غریب خاندانوں کے لیے اجتماعی شادیوں کابندوبست، زلزلہ اور سیلاب زدگان کی امداد، آغوش (یتیم بچوں کی کفالت کا پاکستان کاسب سے بڑا ادارہ)، بیت الزہرء، فری ایمبولینس سروس، ڈسپینسریز، بلڈ بینک، زچہ بچہ ہسپتال اور خواتین کے لیے دستکاری سینٹرز جیسے سیکڑوں پراجیکٹس گزشتہ کئی عشروں سے کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مذکورہ بالا خدمات تحریک منہاج القرآن کی 38 سالہ تجدیدی خدمات کا ایک معمولی سا تعارف ہے۔ دیکھا جائے تو عالمی سطح پر انسانی خدمات کی بیسیوں جہات ایسی ہیں جن کا تعارف یہاں طوالت سے بچنے کے لیے شامل نہیں کیا جا رہا۔ انسانیت کی فلاح کے لئے یہ تمام تر خدمات تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کی شان دار کارکردگی ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کے کارکنان نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے اپنے قائد کے حکم پر38 سالوں سے ہر ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ تحریک ِ منہاج القران انٹرنیشنل کا شاندار ماضی اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جانے والا وژن تحریک کے کارکنان کے لیے قطعاً مشکل ہدف نہیں ہے۔

تحریکِ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی تین دہائیوں سے جاری جدوجہدبتاتی ہے کہ یہ تحریک کوئی روایتی سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں مقامی سطح سے لے کر عالمی افق تک تمام چیلنجز سے نبرد آزما تجدیدی تحریک ہے۔ اس کا عزم مصطفوی انقلاب ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری کے تجدیدی کارواں کے راہرو ہیں۔ اللہ رب العزت کا ہم پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ ہمیں مجددِ رواں صدی کی قیادت میسر آئی۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ حقائق خود بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں نہ تو کوئی قائد ہمارے قائد جیسا، نہ ہی کوئی تحریک ہماری تحریک جیسی اور نہ ہی کسی جماعت کے کارکن ہمارے جرأت و بہادری اور استقامت کے پیکر کارکنوں جیسے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی توانائیوں کو مجتمع کر کے قائدِ انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنا تن من اور دھن تحریک کے نام پر وقف کر دیں۔ حقائق بتا رہے ہیں کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب تحریکِ منہاج القرآن کے جھنڈے تلے مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہوگا۔ ظلم، ناانصافی اور ظالمانہ سیاسی نظام کی ظلمتیں اپنی موت آپ مر جائیں گی اور دنیا بھر میں ہر طرف علم و نور اور اَمن و آشتی کے لہراتے ہوئے پھریرے دورِ خلافتِ راشدہ کی یاد تازہ کر رہے ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔