مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

غلام مرتضیٰ علوی، مرکزی ناظم تربیت

اللہ رب العزت کی رحمت فیصلہ کرتی ہے کہ سر زمینِ مصر میں لاکھوں جبینیں جو بتوں کے سامنے سربسجود ہیں، انہیں توحید آشنا کیا جائے اور انسان کو اِس ذلت و پستی سے نکالا جائے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں۔ رحمت حق نے اہل مصر کو نعمتِ ایمان سے سرفراز کرنے کے لیے مصر سے ہزاروں کلومیٹر دور ملک فلسطین کی بستی کنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کو خواب دکھایا کہ 11 ستارے سورج اور چاند اسے سجدہ کررہے ہیں۔ اللہ نے چند سال کی عمر میں یہ خواب دکھا کر اس پر واضح کردیا کہ تمہیں اللہ ایسے کام کی ہمت اور توفیق عنایت فرمائے گا جس پر سورج و چاند تمہیں سجدہ کریں گے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے والد گرامی یعقوب علیہ السلام کو سنایا تو انہوں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا وہ تمہارے خلاف سازش کریں گے۔

جو خدشہ تھا وہی ہوا۔ جب خواب بھائیوں کے علم میں آیا تو انہوں نے سوچا کہ پہلے تو ہم یہ برداشت کررہے ہیں کہ باپ ہم دس بھائیوں سے زیادہ تنہا یوسف سے پیار کرتا ہے اور اب نبوت بھی یوسف علیہ السلام کو ملے گی اور ہمیں یوسف کو سجدہ بھی کرنا پڑے گا۔ وہ حسد میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے یوسف علیہ السلام کو باپ کی نگاہوں سے دور کرنے کے لیے کافی غورو فکر کے بعد کنویں میں پھینکنے کا پروگرام بنایا۔ انہوں نے یوسف علیہ السلام کو بے دردی سے کنویں میںلٹکایا اور رسی کاٹ دی۔ اُدھر رحمت حق نے جبرائیل کو حکم دیا کہ میرے یوسف کو تکلیف نہ پہنچے۔ جبرائیل علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی حفاظت کی اور اللہ نے اپنے بندے یوسف علیہ السلام کو 3 دن کنویں میں باحفاظت رکھا اور پھر مصر جانے والے ایک قافلے کو اُس کے متعین راستے سے بھلا کر کنوئیں کے پاس لایا اور پانی کی تلاش میں یوسف علیہ السلام کو قافلے کے سپرد کردیا۔

بھائیوں نے دیکھا کہ یوسف علیہ السلام کو قافلے والوں نے نکال لیا ہے تو انہوں نے چند دراھم کے عوض بیچا اور بعد ازاں قافلے والوں نے یوسف علیہ السلام کو مصر کے بازار میں بیچ کر منافع کمایا۔ دوسری طرف اس رحمن و رحیم رب نے مصر کے وزیر خزانہ قطفیر کے گھرانے میں بیٹے کی جگہ خالی رکھی تھی اور یوں مصر کے وزیر خزانہ (عزیز مصر) نے یوسف علیہ السلام کو خریدا اور گھر لاکر اسے بیٹا بنالیا اور اسی طرح اس کہانی کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔

بھائی یوسف علیہ السلام کو جلا وطن کرنے میں کامیاب ہوئے، قافلے والے مال کمانے میں کامیاب ہوئے لیکن درحقیقت یہ اُن کی کامیابی نہ تھی بلکہ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت ومنشاء سے اہلِ مصر کو دولت ایمان سے سرفراز کرنے کے لیے یوسف علیہ السلام کو مصر میں بلانے کے اسباب قائم فرمائے۔ ارشاد فرمایا:

وَکَذٰلِکَ مَکَّـنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِهٖ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.

’’اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین (مصر) میں استحکام بخشا اور یہ اس لیے کہ ہم اسے باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی علمِ تعبیرِ رؤیا) سکھائیں، اور اﷲ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

(یوسف، 12: 21)

اس آیت میں اللہ رب العزت نے تین باتوں کا واضح اعلان فرمایا:

  1. یوسف کو مصر میں ٹھکانا عطا کیا۔
  2. اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔
  3. اکثر لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد پر قدرت رکھتا ہے۔ جسے وہ عظمت اور فضیلت عطا کرنا چاہے تو ساری کائنات مل کر بھی اُسے اس کے فیصلے پر عملدرآمد سے روک نہیں سکتی۔

اگلہ مرحلہ آتا ہے سارا مصر حسن یوسف پر فریفۃ ہوجاتا ہے۔ ایسے میں عزیز مصر کی زوجہ آپ کی جسمانی محبت میں مبتلاء ہوجاتی ہیں اور آپ کا قرب پانا چاہتی ہیں۔ عزیز مصر کی زوجہ نے یوسف علیہ السلام کا قرب پانے کے لیے کئی حربے استعمال کئے لیکن یوسف علیہ السلام نے اخلاص اور پاکدامنی سے شر کی ہر سازش کو ناکام بنادیا۔ جب عزیز مصر کی زوجہ نے دیکھا کہ میرا ہر حربہ ناکام ہوچکا ہے تو اُس نے آپ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنے محل کے سات دروازے بند کئے، انہیں تالے لگائے اور حجرہ خاص میں یوسف علیہ السلام کو تنہا کرکے اپنی قربت کی طرف دعوت دی۔ اس لمحے بند دروازوں کو دیکھ کر سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے مولیٰ کو پکارا اور عرض کی کہ باری تعالیٰ میں تیری اطاعت اور فرمانبرداری پر قائم رہنا چاہتا ہوں تو مجھے اس کے شر سے محفوظ فرما۔

اللہ رب العزت نے فرمایا میرے بندے تو اسباب کا محتاج ہے، میں خالق ہوں میں کسی سبب کا محتاج نہیں، قدم اٹھانا تیرا کام ہے اور بند دروازے کھولنا میرا کام ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے قدم اٹھایا تو اور جس بند دروازے کی طرف بڑھے وہ دروازہ خود بخود کھلتا چلا گیا۔

دروازے کے پاس محل کے دوسرے لوگ بھی مل گئے، زلیخا نے جب اُن لوگوں کو دیکھا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی پر الزام لگادیا۔ اس صورتِ حال میں حضرت یوسف علیہ السلام سے اپنی بے گناہی پر ثبوت طلب کیا گیا تو انہوں نے قریب ہی موجود ایک شیر خوار بچے کی طرف اشارہ کردیا۔ بچہ بھی حضرت یوسف علیہ السلام کا اشارہ دیکھ کر بول اٹھا:

اِنْ کَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ. وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ.

’’اگر اس کا قمیض آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہے۔ اور اگر اس کا قمیض پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچوں میں سے ہے‘‘۔

(یوسف، 12: 26-27)

اللہ رب العزت نے اپنے بندے کو نہ صرف عزیز مصر کی زوجہ کے شر سے محفوظ رکھا بلکہ بچے سے گواہی دلواکر آپ کی عزت و ناموس کو عزیز مصر کی نگاہوں میں بحال رکھا۔ جب عزیز مصر کی زوجہ کی تمام چالیں ناکام ہوگئیں اور وہ مصر کے اشرافیہ کی نگاہوں میں بدنام ہوگئیں تو اُس نے یوسف علیہ السلام کو جیل بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں پر کہانی کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا۔

یوسف علیہ السلام کی نگاہ اپنے عظیم مقصد پر مرکوز تھی۔ آپ نے دیکھا کہ پہلے ایک عزیز مصر کی زوجہ تھی اب دیگر عورتیں بھی برائی کی دعوت دینے میں شریک ہوگئیں ہیں تو آپ نے اللہ کے حضور عرض کی باری تعالیٰ:

رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْهِ.

’(اب زنانِ مصر بھی زلیخا کی ہمنوا بن گئی تھیں) یوسف (علیہ السلام) نے (سب کی باتیں سن کر) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں۔‘‘

(یوسف، 12: 33)

جب رب کائنات نے ایک طرف زنان مصر کی سازشیں اور دوسری طرف سیدنا یوسف علیہ السلام کی طہارت اور پاکدامنی پر استقامت دیکھی تو اس نے اہلیانِ مصر کی تقدیر بدلنے اور اپنی قدرت کاملہ دکھانے کے لیے اپنی منصوبہ بندی کو آگے بڑھایا۔ خالق نے یوسف علیہ السلام کی مشن کی تکمیل کے لیے ایک ایسی جماعت کا انتخاب کیا جو نیک و پارسا نہ تھے، متقی و پرہیزگار نہ تھے بلکہ بڑے بڑے جرائم کے مرتکب افراد تھے اللہ نے پورے مصر کے سب سے بڑے مجرموں کا انتخاب کرکے بتادیا کہ میں جس کو چاہوں جس منصب کے لیے چاہوں اور جیسی ذمہ داری چاہوں عطا کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے مصر کی سب سے بدنام جیل میں قید سب سے بڑے مجرموں کو یوسف علیہ السلام کا صحابی بناکر جماعتِ حق تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور یوسف علیہ السلام کی قید کو ترجیح دینے کی درخواست قبول فرماتے ہوئے اللہ رب العزت نے جواب دیا:

فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ.

’’سو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی اور عورتوں کے مکر و فریب کو ان سے دور کر دیا۔‘‘

(یوسف، 12: 34)

اللہ نے اپنے بندے کو عزیز مصر کے محل سے نکال کر قید خانے میں منتقل کردیا۔ قید خانے میں یوسف علیہ السلام نے مظلوموں کی مدد، قید خانے کی صفائی اور نظام کی بہتری میں وہ کردار ادا کیا کہ آپ جیل میں تمام قیدیوں کی ہر دل عزیز شخصیت بن گئے۔ مجرم اپنے گناہوں کی توبہ کے لیے آپ کی ذات میں وسیلہ تلاش کرنے لگے۔

قید خانے میں دو قیدی اور لائے گئے جن پر بادشاہ کو زہر دینے کا الزام تھا۔ ان قیدیوں کو خواب آیا تو دونوں نے اپنا اپنا خواب یوسف علیہ السلام کو سنایا اور آپ سے تعبیر پوچھی۔ یوسف علیہ السلام نے ان کو تعبیر بتائی۔ جس کے بارے میں آپ کو یقین تھا کہ وہ رہائی پائے گا اور دوبارہ بادشاہ کی خدمت پر مامور ہوگا اسے فرمانے لگے:

اذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ فَاَنْسٰهُ الشَّیْطٰنُ ذِکْرَ رَبِّهٖ.

’’اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آ جائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔‘‘

(یوسف، 12: 42)

سیدنا یوسف علیہ السلام نے جب اس قیدی کو بادشاہ کے ہاں سفارش کے لیے کہا تو اللہ رب العزت کو آپ کی یہ ادا پسند نہ آئی۔ اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل امین کو قید خانے میں یوسف علیہ السلام کے پاس بھیجا اور کہا کہ میرے یوسف سے چند سوال پوچھو۔ جبرائیل امین نے یوسف علیہ السلام سے عرض کی کہ اللہ پوچھ رہا ہے کہ اے یوسف آپ کو زندگی کس نے عطا کی۔ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔

جبرائیل امین نے پوچھا کہ اللہ پوچھ رہا ہے کہ آپ کو باپ کی آنکھوں کا تارہ کس نے بنایا؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔

جبرائیل امین نے سوال کیا کہ آپ کو آپ کے بھائی قتل کرنا چاہتے تھے، کس نے آپ کی جان بچائی؟ فرمایا: اللہ نے۔

جبرائیل امین نے پوچھا کہ آپ کو کنویں میں سے کس نے نکالا؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے۔

پوچھا کہ زلیخا کے محل میں عورتوں کے شر سے آپ کو کس نے بچایا؟ فرمایا: اللہ نے۔

اس پر جبرائیل امین نے عر ض کی کہ وہی رب العزت آپ سے پوچھتا ہے کہ میرے یوسف اگر آج تک ہر موقع پر میں نے بچایا ہے تو کیا میں آپ کو قید خانے سے نہیں نکال سکتا۔ آپ اس قیدی کے ذریعے بندے (بادشاہ) کی طرف کیوں متوجہ ہوئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس پر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی اور عرض کیا: اے جبرائیل کیا اللہ ناراض ہے؟ جبرایل امین نے کہا: نہیں، ناراض نہیں ہے لیکن اسے آپ کا بندے کی طرف متوجہ ہونا پسند نہیں آیا۔ اس پر اللہ رب العزت نے فیصلہ فرمایا:

فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ.

’’نتیجتاً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے۔‘‘

(یوسف، 12: 42)

یوں اللہ رب العزت نے اپنے بندے کا قید خانے میں قیام کئی سال بڑھا دیا۔ اللہ رب العزت نے نہ سالوں کا تعین کیا اور نہ ہی اسے قید قرار دیا بلکہ صرف یہ فرمایا کہ وہ کچھ عرصہ (سال) مزید ٹھہرے رہے۔

جیل میں اللہ نے یوسف علیہ السلام کا قیام کیوں بڑھایا؟ قیام کے زمانے کا تعین کیوں نہ فرمایا؟ آزمائش یا تکلیف یا تربیت کی مدت کے تعین کا انحصار کس پر ہوتا ہے؟ قدرت منتظر تھی کہ اصحابِ یوسف کی تعداد مکمل ہو تو انہیں اپنی منزل کے حصول کے لیے رہائی عطا کی جائے۔ مجرموں کی تربیت کرکے انہیں محب وطن شہری بنانے، انہیں 7 سال کی قحط کی مشقت بھری زندگی میں جدوجہد کرنے اور مصری قوم کو دنیا اور آخرت سنوارنے کے اہل بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے قید خانے میں آپ کا قیام بڑھادیا۔

اللہ تعالیٰ نے لفظ بضع کا استعمال کیا جو کہ عربی لغت میں 3 سے 9 سال کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا مدت کا تعین مقصود نہ تھا بلکہ آنے والی مشکلات کے پیش نظر تیاری کے لیے وقت مقصود تھا۔ اللہ رب العزت نے جب دیکھا کہ اب یوسف علیہ السلام کے کردار و اخلاق سے تقریباً تمام قیدیوں نے قبولِ اسلام کرلیا ہے اور یوسف علیہ السلام کی تربیت سے قوم کے بڑے مجرم، قوم پر آنے والے عذاب کو ٹالنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں تو خالق کائنات نے یوسف علیہ السلام کو مصر کا مالک و مختار بنانے کے لیے اپنے اولوہی منصوبے کو حتمی شکل دی۔

بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں 7 دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور اسی طرح گندم کے 7 خوشے ہیں جو دانوں سے بھرے ہیں اور 7 بالیاں ہیں جو کہ سوکھی ہوئی ہیں۔ وہ مسلسل ایسے خواب آنے سے سخت پریشان ہوا تو اس نے ملک کے تمام تعبیر بتانے والے معبروں کو بلایا مگر وہ خواب کی تعبیر نہ بتاسکے جب وہ سب عاجز آگئے تو پھر اس شخص کو یوسف علیہ السلام کی یاد آئی جیسے آپ علیہ السلام نے کہا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا۔ وہ شخص بادشاہ سے اجازت لے کر جلدی سے قید خانے پہنچا اور یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کا سارا خواب سن کر تعبیر پوچھی۔

یوسف علیہ السلام نے خواب سنانے والے کو نہ طعنہ دیا اور نہ شرمندہ کیا کہ تمہیں تو کئی سال پہلے کہا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا اور تم بھول گئے۔ آپ نے یہ طعنہ بھی نہ دیا کہ جس ملک میں مجھے ناحق کئی سالوں سے جیل میں قید کیا گیا، ہے میں ان پر آنے والی تکلیف کا حل کیوں بتاؤں۔ آپ علیہ السلام نے ان کے کسی عمل کا طعنہ نہ دیا بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ آنے والی قحط کی آزمائش سے باخبر کیا، سالہا سال خوشحالی میں غلہ جمع کرنے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ گندم کو خراب ہونے بالیوں سمیت جمع کرنے کی ترکیب بتائی اور کفایت شعاری سے بچانے کے لیے مکمل لائحہ عمل عطا کیا۔

پچھلی مرتبہ تعبیر بتانے کے بعد یوسف علیہ السلام نے اسی شخص سے فرمایا تھا کہ بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا لیکن اس دفعہ آپ نے کوئی مطالبہ نہ کیا۔ پہلی مرتبہ جب اپنا ذکر کیا تھا تو اللہ نے قید کئی سال بڑھا دی اور جب اس کی رضا پر راضی رہے تو اسی لمحے رہائی کا پیغام آگیا۔

بادشاہ نے زلیخا کی طرف سے یوسف علیہ السلام پر لگائے گئے الزام کی تحقیق کی اور بالآخر آپ کو بے گناہ پایا۔ جب آپ پر لگایا گیا الزام غلط ثابت ہوگیا تو آپ قید خانے سے بادشاہ کے محل میں پہنچ گئے۔ جب بادشاہ سے ملاقات ہوئی تو اُس نے آپ کو وزارتِ خزانہ (زراعت و خزانہ) کا مالک و مختار بنادیا۔ جب یوسف علیہ السلام کو خزانہ کا قلمدان مل گیا تو اللہ رب العزت نے اپنا وہی جملہ دھرا کر فرمایا:

کَذٰلِکَ مَکَّـنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ.

’’اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین (مصر) میں استحکام بخشا۔‘‘

(یوسف، 12: 21)

یعنی اللہ رب العزت نے قتل کا ارادہ کرنے والوں، مصر کے بازار میں غلام بناکر بیچنے والوں، سازشیں کرنے والوں اور سالہا سال قید رکھنے اور اذیت دینے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:یوں ہم نے یوسف علیہ السلام کو مصر میں اقتدار اور تمکن عطا کیا اور ہم اپنے فیصلوں کی تکمیل پر قدرت رکھتے ہیں۔

قصہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قابل توجہ پہلو

اس پورے واقعہ میں حسب ذیل پہلو قابل توجہ ہیں:

  1. خالق کائنات نے یوسف علیہ السلام کی جدوجہد کی ابتداء سے انتہاء تک ہر مرحلے پر خوابوں کے ذریعے رہنمائی کی اور انہیں اس کی تعبیر کا علم بھی عطا فرمایا۔
  2. بھائی حسد میں مبتلا ہوکر یہ سوچتے رہے کہ ہم نے کنعان سے نکال کر یوسف علیہ السلام کو باپ کی نظروں سے دور کردیا۔ لیکن اللہ نے اسی تکلیف کو یوسف علیہ السلام کی ترقی کا راستہ بنادیا۔
  3. حسد ایسی لعنت ہے جو کہ انبیاء کی اولاد کو بھی سگے بھائیوں کو قتل کرنے کے لیے تیار کردیتی ہے۔
  4. بھائیوں کا یوسف علیہ السلام پر تشدد، کنویں میں پھینکنا اور قافلے والوں کو فروخت کرنا ان مع العسر یسرا (ہر تکلیف کے بعد آسانی ہے) کے فرمان خداوندی کی روشنی میں اصلاً یوسف کو کنعان سے مصر منتقل کرنے کا ذریعہ بنا۔
  5. اس ساری کہانی سے واضح ہوتا ہے کہ پوری دنیا کی شیطانی طاقتیں جمع بھی ہوجائیں تو وہ رب کے فیصلے کو بدل نہیں سکتیں۔
  6. شر سے بچنے کا ہر راستہ جب بند ہوجائے اور انسان اللہ پر توکل کرکے جدوجہد جاری رکھے تو اللہ بند دروازے کھول دیتا ہے۔
  7. اللہ رب العزت کے پلان کے مطابق وقتِ مقررہ پر ہی رہائی میسر آتی ہے۔
  8. انسان کا کام جہدِ مسلسل کرنا ہے، کس مرحلے کو کتنا طویل ہونا ہے اور کتنی اور کیسی مشکلات آنی ہیں، یہ خالق طے کرتا ہے۔
  9. وہ رسی کے کٹنے تک صبر آزماتا ہے اورپھر گرنے سے پہلے فرشتوں کی مدد اتار دیتا ہے۔
  10. وہ غلامی سے گزار کر آقا بنانے اور تختے سے تخت پر بٹھانے پر قادر ہے۔
  11. وہ ہاتھ لگوائے بغیر تالے کھلواتا ہے اور دشمن کو انجام دکھا کر اہلِ حق کو منزل عطا کرتا ہے۔
  12. اللہ رب العزت اولوالعزم انبیاء اور صالحین کو بچپن سے بڑھاپے تک مسلسل آزمائشوں سے گزارتا ہے۔ آزمائشیں جس قدر طویل ہوتی ہیں، عظمت و رفعت بھی اسی قدر بلند عطا ہوتی ہے۔
  13. اس قصہ سے ایک واضح پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ حاسدین کو بالآخر حق کے سامنے جھکنا پڑتا ہے۔
  14. دشمن کی ہر سازش اور حق کے راستے کی ہر تکلیف اہلِ حق کی تربیت اور کامیابی کا زینہ بنتی ہے۔
  15. قصہ یوسف ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہر بند دروازہ میں ایک راستہ کھلا ہوتا ہے۔

جب وہ زیر خنجر ذبح نہ ہونے دے، کنویں میں ڈبو کر بھی مرنے نہ دے، بازاروں میں فروخت کرواکر شہزادہ بنادے، جب بند دروازوں میں سے بھی راستے بنادے، جب وہ زمانے کے مجرموں کو قوم کا مسیحا بنادے، جب معمولی سی بات پر دشمن کو عاجز کرکے اہل حق کے سامنے جھکادے اور جب حال میں بٹھا کر مستقبل دکھا دے تو پھر قافلۂ حق کا ہر رفیق تن من سے پکار اٹھتا ہے۔

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے،
وہی خدا ہے

یقین اپنی معراج پر پہنچ کر وجد کرتے ہوئے کہتا ہے:

پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا سہارا تیرا

راہ حق کے مسافر کو جب یہ دکھائی دے کہ کوئی ہے جو اسے اپنی نگاہوں میں رکھے ہوئے ہے کوئی ہے جو اسے ہر لمحے گرنے سے بچا رہا ہے۔ جب یہ صدا سنائی دینے لگے (فانک باعیننا) تو پھر اس قافلے کو منزل پر پہنچنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

جب اپنا قافلہ عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے راستہ وہیں سے نکلے گا

وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

معزز قارئین اب آئیں قصہ یوسف کی روشنی میں ایک اور مصر (ملک) کی کہانی سنتے ہیں۔ ایک آزاد قوم تھی جس کو غلام بنالیا گیا۔ ظلم و جبر اور غلامی کے 70سال گزر چکے تھے اس کے اندرونی خلفشار اور نااتفاقی سے اس کا نجات دہندہ وطن چھوڑ کر جاچکا تھا۔ اسے راضی کرنے کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں ایسے میں رب کائنات کی رحمت کو جوش آیا اور اس نے اس قوم کے نجات دہندہ کو خواب دکھایا آنکھیں بند ہوئیں تو رحمۃ للعالمین خود خواب میں تشریف لائے اور فرمایا محمد علی جناح اٹھو اور برصغیر جاکر مسلمانان ہند کے لیے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ یوں واضح حکم دیا کہ تعبیر پوچھنی نہ پڑی اور آپ پاکستان تشریف لائے اور اقبال کے خواب کو چند سالوں میں تعبیر دے کر دنیا کے نقشے پر دوسری اسلامی ریاست قائم کرکے دکھادی۔

کچھ ہی عرصہ گزرا اور وہ اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ کے بعد آنے والے اس خطہ زمین کو حقیقی اسلامی نظریاتی ریاست نہ بناسکے۔ قوم اور امت مسلمہ پر زوال کے سائے گہرے ہونے لگے اور اس نوزائیدہ ریاست کو کچلنے کے منصوبے بننے لگے تو ایک ہستی نے غلاف کعبہ تھام کر اللہ کے حضور گڑ گڑا کر عرض کی: باری تعالیٰ ایک ایسا بیٹا عطا فرما جو اس قوم اور امت کے دکھوں کا مداوا کرسکے جو احیاء اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکے۔ درد بھری اس التجا پر اللہ نے کرم کیا اور ڈاکٹر فریدالدین قادری کو رحمۃ للعالمین نے خواب میں خوشخبری عطا فرمائی کہ ہم آپ کو اس التجا کے نتیجہ میں طاہر کی بشارت دیتے ہیں۔ اس خوشخبری کے نتیجہ میں 19 فروری 1951ء میں ڈاکٹر فریدالدین قادری کے گھر میں اللہ نے بیٹا عطا فرمایا جس کا نام انہوں نے محمد طاہر رکھا۔

محمد طاہرالقادری نے 22 سال کی عمر میں دینی و عصری علوم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ انقلابات عالم اور قرآن و حدیث کا انقلابی مطالعہ مکمل کرکے 1973ء میں ملک اور دنیا کے نظام کو بدلنے کا عزم کرلیا تھا۔ 1980ء میں نئی ہجری صدی کے آغاز کے موقع پر منہاج القرآن کے نام سے احیاء اسلام کی عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی۔

معزز کارکنان تحریک 1980ء سے 2018ء تک ان 38 سالوں میں سینکڑوں آزمائشیں آئیں مخالفتوں کے طوفان آئے مگر ہر آزمائش میں کارکنان کی ثابت قدمی نے انہیں نئی منزلیں عطا کی۔

اگر ہم اس 38 سالہ سفر کو دیکھیں تو دو طرح کی آزمائشیں نظر آتی ہیں:

  1. یہاں بھی بھائی حسد میں مبتلا ہوئے اور کئی طبقات آج تک حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔
  2. اتحاد امت کا علم بلند کیا تو شیعیت کے فتوے لگائے گئے۔
  3. عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فروغ دیا تو کفرو شرک کے فتوے لگائے گئے۔
  4. جب جاپان سے امریکہ تک دنیا بھر میں امت کے احیاء کے لیے قدم اٹھایا تو بیرون ملک قیام کے طعنے دیئے جانے لگے۔
  5. قوم کا اللہ سے رشتہ بندگی مضبوط کرنے، توبہ و استغفار اور عبادت کا ذوق پیدا کرنے کے لیے سالانہ اجتماعی مسنون اعتکاف شروع کیا تو فتویٰ کا بازار گرم ہوگیا۔
  6. دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق علمی، فکری، اعتقادی اور جدید سائنسی علوم کی روشنی میں جب ترجمہ قرآن عرفان القرآن منظر عام پر آیا تو قدامت پرست حاسد طبقے نے ترجمہ عرفان القرآن کے خلاف پروگرام کئے۔
  7. ہزاروں علماء، متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نے کفرو شرک کے فتوے لگائے اور شیخ الاسلام کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
  8. تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطاؤں، نوازشات (خوابوں اور بشارات) کا آج تک مذاق اڑایا جاتا ہے۔
  9. قوم اور امت کی راہنمائی کے لیے 1000 سے زائد کتب کا ذخیرہ تیار کیا تو حاسدین نے کہا کہ اپنے طلبہ سے کتابیں لکھ کر اپنے نام سے چھپوالیتے ہیں۔

اس علمی، فکری اور دینی جدوجہد کے ساتھ ساتھ جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تبدیلی نظام کی جدوجہد کی خاطر سیاست میں قدم رکھا تو ملک بھر کا سیاسی طبقہ بھی آپ کے مخالف ہوگیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے جب 1989ء میں تبدیلی نظام کی جدوجہد کا آغاز کیا تو ظلم وجبر کے اس نظام نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر تبدیلی کے سارے دروازے بند کردیئے:

  1. جب نظام کو بدلنے کی عملی جدوجہد کے لیے پاکستان عوامی تحریک بنائی تو نظام کے محافظوں نے نعرہ لگایا یہ تو اچھے لوگ ہیں انہیں سیاست میں نہیں آنا چاہئے۔
  2. سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا علَم بلند کیا تو کینیڈین نیشنیلٹی کا الزام لگاکر ملک بھر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا۔
  3. بڑے بڑے سیٹھ اور ملک قیمت لگانے کے لیے آئے مگر اس مرد حق کو خریدا نہ جاسکا۔
  4. 5 سے زائد قاتلانہ حملے کئے لیکن اللہ نے جان بچالی۔
  5. ایک سابقہ ڈکٹیٹر نے جیتنے والے گھوڑوں کی فہرست دے کر کہا انہیں عوامی تحریک میں شامل کرلیں اور جیت کر اسمبلی میں آجائیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا میں اس نظام سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر دور میں کردار کشی کی گئی اور عدالتی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
  6. جب 23 دسمبر 2012ء کو پوری دنیا کے سامنے جعلی اور مک مکا کی جمہوریت اور فرسودہ استحصالی اور ظالمانہ نظام انتخاب کے خلاف نعرہ بلند کیا تو پورے ملک کے میڈیا نے دہری شہریت اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا الزام لگادیا۔
  7. تبدیلی نظام کا شعور بیدار کرنے کے لیے جب لانگ مارچ کیا تو جاتی عمرہ میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اتحاد کرکے طاہرالقادری اور عوامی تحریک کی مخالفت اور کردار کشی کی مہم کا آغاز کردیا۔
  8. 2013ء کے الیکشن میں جب عوامی تحریک اس کرپٹ سسٹم سے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو پھر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا الزام لگایا گیا۔
  9. اعلاء کلمہ حق کا فریضہ ادا کرنے اور کرپٹ نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کو منظم کرنے اور انقلابی جدوجہد کو حتمی مرحلے میں داخل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 11 مئی 2014ء کو جب یوم اقامت منایا اور ملک بھر میں 60 مقامات پر لاکھوں افراد کو جمع کرکے تبدیلی نظام کا پیغام دیا تو ظلم و جبر پر لرزہ طاری ہوگیا۔
  10. دوسری طرف اندرونی اور بیرونی طاقتوں نے دیکھا کہ ہم نے ہر حربہ استعمال کرچکے ہیں یہ شخص نہ بکتا اور نہ نظام سے سمجھوتہ کرتا ہے۔ یہ شخص اگر اپنی جدوجہد سے عوام میں شعور پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس نظام کا تختہ الٹ جائے گا لہذا اس کو اور اس کی جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے اور پھر شر اور شیطان 17جون2014ء کو اپنی پوری قوت اور طاقت لے کر اعلاء کلمہ حق کی اس آواز کو ہمیشہ کے لیے دبانے کے لیے آگیا۔

قصہ یوسف کو دہرائیں تو سمجھ آتا ہے کہ کنویں میں لٹکنے اور رسی کے کٹنے تک صبر آزمایا جاتا ہے اور اگر کوئی ثابت قدم رہے تو پھر پانی میں ڈوبنے کے بعد بھی زندہ بچا لیا جاتا ہے۔ 17 جون کو جب گولیوں کی بوچھاڑ آئی اور لاشیں گرنے لگیں تو رب کائنات نے دیکھا کہ یہ تو جان سے بھی گزر گئے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑا تو پھر اللہ نے ان کی شہادت کے صدقے تحریک کو ایک نئی زندگی عطا کیا۔

چشمہ یہیں سے نکلے گا

عظیم انقلابی کارکنوں! اگر ہم جبرائیل امین کی طرف سے یوسف علیہ السلام سے کئے گئے سوالوں کی روشنی میں اپنے اوپر اللہ کے ہونے والے کرم کو دیکھیں تو یقین اور مستحکم ہوجاتا ہے۔ ہمیں 1990ء الیکشنز میں کامیابی نہیں ہوئی تو 1998ء میں ہمیں نئی زندگی کس نے عطا کی؟ اللہ نے، جب 2003ء میں پھر کامیابی میسر نہ آئی کیا اس خالق نے ہمیں 23 دسمبر 2012ء کو ایک نئی زندگی نہیں عطا کی۔ 2013ء کے پہلے دھرنے کے بعد جب ہم انتخابی نظام کی تبدیلی کا معاہدہ اور اقرار کرواکر واپس آئے تو اس وقت کے قوم کے طعنوں کے باوجود ہمیں کس نے دوبارہ دوسرے دھرنے کے لیے منظم ہونے کی جرات عطا کی اللہ نے، کیا 17 جون اور 30-31 اگست کی رات بے پناہ حکومتی ظلم و ستم کے باوجود اس نے ہمیں پھر سے اٹھ کھڑے ہونے اور نظام سے ٹکرانے کی ہمت نہیں عطا کی؟

کیا خالق کائنات نے ظلم کروانے والوں کو اقتدار سے محروم کرکے قید خانے نہیں پہنچادیا؟ جس شخصیت پر قاتلانہ حملے کئے جائیں، ہر موڑ پر اسے جھکنے پر مجبور کیا جائے، جس تحریک کی کرہ ارضی پر سب سے زیادہ مخالفت کی جائے، اس تحریک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے سرعام میڈیا کی موجودگی میں گولیاں مار کر 14 شہید اور سینکڑوں زخمی کردیئے جائیں۔ تمام سیاسی جماعتیں جس کے خلاف متحد ہوجائیں پھر بھی زندہ رہے اور 38 سال مسلسل جدوجہد جاری رکھے۔ یہ سب فقط اس وجہ سے ہے کہ

مجھ کوجھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

تحریک منہاج القرآن کا 38 سالہ ماضی بتاتا ہے کہ ہر موڑ پر اللہ اور اس کے حبیب کے کرم سے اسے صفحہ ہستی سے مٹنے سے نہ صرف بچایا بلکہ اللہ نے ہر آزمائش کے بعد تحریک کو پہلے سے بڑھ کر قوت عطا فرمائی۔ باطل نظام اور اس کے محافظ جتنے چاہیں دروازے بند کرلیں، ظلم و ستم کا جتنا چاہیں بازار گرم کرلیں انصاف کے حصول میں جیسی چاہیں رکاوٹ ڈال لیں۔ اللہ اور اس کے حبیب کی مدد و نصرت سے کامیابی کا چشمہ یہیں سے نکلے گا اور اہل حق کو کامیابی میسر آئے گی۔

جو خالق ابراہیم کے لیے آگ کو گلزار بنادے، نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کشتی میں بٹھا کر بچالے جو یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھ سکتا ہے جو زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد دے سکتا ہے جو رب مریم علیہا السلام کو بند کمرے میں بے موسمی پھل عطا کرتا ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیتا ہے جو اسماعیل کی ایڑیوں سے چشمے نکال سکتا ہے جو چھری کے نیچے سے اسماعیل کو زندہ بچالیتا ہے جو یوسف علیہ السلام کو بھائیوں، کنویں اور زوجہ عزیز مصر کے شر سے بچاسکتا ہے وہی خالق و مالک ان شاء اللہ مدد فرمائے گا اور راستہ نکال دے گا، سابقہ 38 سالوں میں ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی ہمت عطا کرنا، زندہ رکھنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ خالق تحریک منہاج القرآن کو اپنی منزل عطا کرے گا۔

حقیقی تبدیلی کی امید۔۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری

پچھلی نصف صدی میں اس امت اور انسانیت کو جو چیلنجز درپیش ہوئے، جتنے فتنے آئے اور جو مسائل پیدا ہوئے ان کا جواب تنہا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیا۔ ہمیں نصف صدی کا لمحہ لمحہ یاد ہے جب اس قوم کو سیاسی چیلنج درپیش ہوئے تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے 70 سالہ سیاسی مسائل کا حل دیا، دہشت گردی اور خوارج کے خلاف فتویٰ دیا، دہشت گردوں سے مذاکرات کے ڈھونگ کو بے نقاب کیا۔ احتساب کے لیے ہر حکومت کو واضح لائحہ عمل دیا، ملکی تعلیمی مسائل کا واضح اور آسان حل دیا، 10 لاکھ افراد کو شریک اقتدار کرنے کا منصوبہ دیا۔ انتخابی نظام میں اصلاحات اور اس کا طریقہ کار واضح کیا۔

جب وطن عزیز عملی فتنے اٹھے تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ خزانہ علم کی بدولت ہر فتنے کا مقابلہ کیا۔ کئی صدیوں سے طاری علمی و فقہی جمود کا خاتمہ کیا، کسی نے حجیت حدیث سے انکار یا ضعف حدیث کا فتنہ گھڑا، کسی نے تصوف کو افیون کہا یا کسی نے اسے متبادل دین قرار دیا۔ کسی نے فقہ حنفی کی عملی ثقاہت پر اعتراض کیا یا امام اعظم ابوحنیفہ کی ذات پر، شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے دلائل کی قوت سے ہر فتنے کا مقابلہ کرکے اس فتنے کا خاتمہ کیا۔

جب ملک بھر کے علماء رجم کو حد ثابت نہ کرسکے، قادیانیوں کی درخواست خارج نہ کرواسکے، گستاخی رسالت کا قانون نہ بنواسکے تو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہر موقعہ پر عدالت میں کئی دنوں کے دلائل سے قوانین بنوائے۔

جب وطن عزیز کو معاشی چیلنج درپیش ہوئے وہ چاہے بلاسود بنکاری نظام ہو یا کرپشن کے خاتمے کا لائحہ عمل، عوامی معاشی مسائل کا حل ہو یا ملکی قرضوں کی ادائیگی کا معاملہ شیخ الاسلام نے ہر ہر میدان میں قوم اور حکمرانوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔

فرقہ واریت کا جن آزاد ہوجائے، یا فتنہ قادیانیت سر اٹھانے کوئی اہلبیت اطہار کی گستاخی کرے یا صحابہ و خلفائے راشدین کی شان و عظمت کے خلاف زبان کھولے، کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر اعتراض کرے یا شان و عظمت اولیاء کو تسلیم نہ کرے۔ جب امت سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام کی آمد اور ظہور کے عقیدہ کے حوالے سے تشکیک کا شکار ہوجائے یا خارجیت کا بڑھتا ہوا طوفان ان تمام اعتقادی پہلوؤں پر قوم حتی کہ پوری امت مسلمہ کی تنہا جس ہستی نے راہنمائی کی اور ان فتنوں کا خاتمہ کیا وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذات ہے۔

لاکھوں مسلمانوں کا یورپی معاشرے میں Adjust ہونا، اس معاشرے میں اپنی نسلوں کو حلال و حرام کی تمیز پر قائم رکھنا، دیگر مذاہب کے ساتھ Integration کیسے ممکن ہے؟ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے ناسور کے باعث مسلمانوں کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔ یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے مزدور طبقات کی نسلیں بھی مزدور ہی رہیں گی یا مستحکم ہوکر معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ خصوصاً یورپ کی سرزمین سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر یورپ کے مسلمانوں کا کیا کردار ہونا چاہئے۔

یورپی معاشرے میں نئی نسلوں کی دینی تعلیم و تربیت کے مسائل ہوں یا یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر رہنے کے معاملات، یورپی نوجوانوں سے تنگ نظری اور انتہا پسندی کو کیسے ختم کیا جائے، برطانیہ میں اہانت قرآن کا معاملہ ہو یا انڈیا میں بڑھتا ہوا خارجی فتنہ الغرض یہ وہ مسائل تھے جو امت مسلمہ کو درپیش تھے۔ شرق سے غرب ایک ہستی ہے جس نے امت کے مسائل کو سمجھا اس پر تحقیق کی اور امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے نہ صرف راہنمائی کی بلکہ پوری دنیا کے دورے کئے، دنیا بھر کی یونیورسٹیز، بارکونسلز، حکومتی اور سول اداروں، پارلیمنٹ اور عوامی سطح پر منعقدہ کانفرنسز، اجتماعات اور سیمینارز سے خطابات کئے اور یورپ میں مسلمانوں کو عزت وقار سے جینا سکھایا۔

عالمی سطح پر دہشت گردی کا بڑھتا ہوا ناسور ہو یا مذاہب کے درمیان تصادم کی فضاء (Clash of Civilization) شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے انسانیت کی بہتری کے لیے بین المذاہب رواداری کو اس قدر فروغ دیا کہ آج یہ فتنے بھی دم توڑ چکے ہیں۔

الغرض پچھلی نصف صدی کے مسائل فتنوں اور چیلنجز کا جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پوری امت حتی کہ انسانیت کی حقیقی راہنمائی کی۔

معزز کارکنان تحریک جیسے اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کو گذشتہ نصف صدی میں ملک و قوم، امت مسلمہ حتی کہ پوری نسل انسانی کی راہنمائی کرنے انہیں ہر طرح کے فتنوں اور چیلنج سے نمٹنے کا سلیقہ عطا کیا ہے۔ ان شاء اللہ اسی طرح اللہ ہی کے کرم سے اگلی نصف صدی تک انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ بھی منہاج القرآن ہی ادا کرے گا۔ نہ صرف اس پوری صدی میں بلکہ صدیوں تک منہاج القرآن اپنی شناخت کے ساتھ قائم رہے گا اور امت کی راہنمائی کا فریضہ ادا کرتا رہے گا۔

Vision 2025 اور ہماری منزل

پاکستان عوامی تحریک، تحریک منہاج القرآن کا سیاسی ونگ ہے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کے وژن اور راہنمائی میں مصطفوی انقلاب کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ پاکستان عوامی تحریک محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری تشخص رکھنے والی تحریک ہے۔ پاکستان عوامی تحریک آئین قانون اور جمہوریت پر پختہ یقین رکھتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کی منزل نظام کی تبدیلی ہے۔ حالیہ الیکشن میں پاکستان عوامی تحریک نے دیکھا کہ ساری سیاسی جماعتوں بشمول تبدیلی کی خواہشمند تحریکوں نے اسی فرسودہ گلے سڑے نظام کو ہی بحال رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ساری جماعتوں نے مل کر آئین کی شقوں 62,63 کو عملاً کالعدم قرار دے دیا ہے۔

امیدواران کے نئے اور پرانے فارموں اور حلف ناموں میں تبدیلی کے کھیل میں انہوں نے دوبارہ ہر کرپٹ بدعنوان اور رسہ گیروں کو الیکشن لڑنے کا پورا پورا موقعہ دیا اور ہر جماعت نے الیکشن فنڈ اور پارٹی فنڈ کے نام پر امیدواروں سے کروڑوں خرچ کرکے الیکشن جیتے عوامی تحریک نے ایسے سیاسی کلچر جو آئین اور قانون کے صریحاً خلاف ہو حصہ بننے کے لیے تیار نہی ہے۔ تحریک منہاج القرآن پاکستان عوامی تحریک اور اس کے تمام فورم کی جدوجہد کا مقصد اولین نظام کی تبدیلی ہے۔ ہم نے کسی بھی مرحلے میں اس کرپٹ نظام سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ لہذا شیخ الاسلام نے پاکستان عوامی تحریک سمیت تمام فورمز کو Vision25 کے مطابق افرادی قوت میں غیر معمولی اضافے کا ہدف دیا ہے۔ افرادی قوت میں اضافے کا ہدف وہی ہے جو شیخ الاسلام نے جماعت انقلاب کے دیا تھا یعنی ایک کروڑ نمازیوں کا ہدف۔ اس ہدف میں سے 2025ء تک تحریک اور اس کے تمام فورمز کی ذمہ داری ہے کہ وہ 10 لاکھ افراد کو تحریک کا رفیق بنائیں اور 20 لاکھ افراد کو مشن سے وابستہ کریں۔ گویا 2025ء تک 30 لاکھ نمازیوں کی تیاری مکمل کرنی ہے۔ لہذا تمام فورمز کے تمام کارکنان اپنی جدوجہد کو تیز تر کریں تاکہ ہم 2025ء تک اپنا ہدف مکمل کرلیں۔ یہ جدوجہد اس یقین کے ساتھ کریں کہ جس رب العالمین نے ماضی میں اہل حق کو غالب کیا وہ رب اب بھی اس پر قادر ہے بلکہ اس کا فیصلہ ہے۔

کَتَبَ ﷲُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ.

’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقینا میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوکر رہیں گے۔‘‘

(المجادلة، 58: 21)

یہ تحریک بھی اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مصطفوی انقلاب کے لیے سرگرم عمل ہے جوکہ اسی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی مددو نصرت سے ان شاء اللہ تحریک اپنی منزل تک پہنچے گی۔