منہاج ایجوکیشن سوسائٹی سالانہ اجلاس2018ء

راشد کلیامی

منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیراہتمام Annual Assembly 2018 الحمراء ہال مال روڈ لاہور پرمورخہ 8 ستمبر 2018ء کو منعقد ہوئی، جس میں ایم ای ایس کے قائم سکولوں میں زیرتعلیم ہونہار بچوں کو اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر شیلڈز، ایوارڈز اور فرید ملت سکالر شپ کے تحت نقد انعامات دئیے گئے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی اینول اسمبلی کی صدارت منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کی۔ ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن طارق حمید بھٹی مہمان خصوصی تھے۔

پروگرام میں بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، خرم نواز گنڈاپور، ڈی جی ایم ای ایس راشد حمید کلیامی، دیوان غلام محی الدین، قاسم شاہ، جمشید چیمہ، ممبر صوبائی اسمبلی سعدیہ سہیل رانا، مسرت جمشید چیمہ، بیرسٹر عامر حسن، ڈاکٹر علی وقار، سیف اللہ بھٹی، فاروق اعوان، اکرام غوری، عدنان جاوید، ہارون ثانی، عتیق الرحمن، امجد علی، جی ایم ملک، جواد حامد، شہزاد رسول، سہیل احمد رضا اور راجہ زاہد محمود نے خصوصی شرکت کی۔

تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ واریت اور ہر نوع کے لسانی، صوبائی تعصب کے خاتمے کیلئے یکساں نصابِ تعلیم کے نفاذ کی اہمیت ایک قوم بنانے کیلئے خشتِ اول کی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحرائے عرب کے متصادم قبائل کو ایک کتاب پر اکٹھا کیا۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 80ء کی دہائی میں یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز کیا اور اس ویژن پر منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی صورت میں عمل کیا اور قومی سطح پر اس حوالے سے مسلسل30 سال بیداریٔ شعور مہم چلائی۔

ماضی میں تعلیم کے شعبے کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ تعلیم کے فنڈ عیاشی کے منصوبوں پر خرچ کیے گئے۔ کسی بھی قوم کو تقسیم کرنے کیلئے اس کے نصاب کو اور طریقۂ تدریس کو تضادات کا شکار بنایا جاتا ہے۔برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد سے قبل اس پورے خطہ میں ایک طرز کا نظامِ تعلیم رائج تھا، امیر اور غریب کیلئے ایک ہی طرز کے سکول تھے، اساتذہ، طلبہ، نصابِ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ امت مسلمہ کو لڑانے اور کمزور کرنے کیلئے پہلا وار نصاب تعلیم پر کیا گیا اور اسے اردو اور انگریزی میں تقسیم کیا گیا۔ انگریز کے امتیازی نظام تعلیم کے نفاذ سے اسلامیان برصغیر دوسرے درجے کی قوم اور شہری بن کر رہ گئے۔ دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے فرقہ واریت بھی داخل ہوئی اور پھر برصغیر کے مسلمانوں کو 1857ء سے لے کر 1947ء تک کن سماجی ناہمواریوں، سیاسی، معاشی استحصال اور محرومیوں کا سامنا رہا، یہ سب تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہے۔

قوم کے دانشوروں اور پڑھے لکھے حلقوں کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ دہرے، تہرے نظام تعلیم کے ذریعے جو ٹیڑھی اینٹ رکھی گئی اسے درست کیے بغیر ایک قوم بننے کا تصور حقیقی معنوں میں اجاگر نہیں ہو سکے گا۔گزشتہ3 دہائیوں میں مختلف افراد اور جماعتیں حکومت میں رہیں، ان کے لیے یہ امتیازی نظامِ تعلیم اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی قوم سود مند تھی کیونکہ غاصب انگریز کی طرح ان کے لاشعور میں بھی یہ بات موجود تھی کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘۔ قومی اتحاد و یکجہتی کو یہ عناصر اپنی موت سمجھتے تھے۔اس وقت ہم اپنے اطراف میں جو طبقاتی کشمکش، سیاسی، سماجی تصادم، انتہا پسندی، بے یقینی اور محرومیاں دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ دہرا، تہرا نظامِ تعلیم ہے۔ جب تک یہ تفریق ختم نہیں ہو گی اس وقت تک ہم نہ تو حقیقی معنوں میں ایک قوم کے قالب میں ڈھل سکتے ہیں اور نہ ہی شرح خواندگی اور معیار تعلیم بڑھانے کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

2000ء کے اوائل میں2015 ء تک شرح خواندگی اور شرح داخلہ کے 100فیصد اہداف کے حوالے سے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز طے کیے گئے تھے اورپاکستان بھی اس دستاویز پر دستخط کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہے۔ آج 2018ء ہے مگرتعلیم کے حوالے سے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول میں خطہ کے اندر پاکستان کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ یہ بات تکلیف دہ ہے کہ آج سے 10 سال قبل بھی قومی سطح پر شرح خواندگی 58 فیصد تھی اور آج بھی یہ شرح 58 فیصد ہے اور 100 فیصد انرولمنٹ کا حصول بھی ابھی محض ایک خواب ہے۔

مدارس اور تعلیمی اداروں کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں ہونی چاہئیں ورنہ انتہا پسندی اور تنگ نظری کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ مدارس کے بچوں کو بھی انجینئرز، ڈاکٹرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، بینکرز اور پروفیسرز بننا چاہیے۔1947ء میں پاکستان میں صرف 189 مدارس تھے جبکہ 2002ء میں ملک میں غیر اندراج شدہ مذہبی مدارس کی تعداد 13 ہزار ہوچکی تھی، 2008ء میں یہ تعداد 40 ہزار سے تجاوز کرگئی اور آج یہ عدد 50 ہزار سے بڑھ چکا ہے۔ یہ مدارس اپنے اپنے مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہوئے مختلف گورننگ باڈیز کے تحت چل رہے ہیں۔ ان مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات کے لیے وقتاً فوقتاً مطالبے ہوتے رہے ہیں لیکن نائن الیون کے بعد اس رجحان میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور اصلاحات کے حوالے سے پالیسیاں بھی بنتی رہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوسکا۔ ان ہزاروں مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں بچوں کو سوسائٹی اور ترقی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے۔

آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت 5 سے 16 سال کی عمر کے بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ ریاست اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کررہی اور نتیجتاً پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیمی اداروں کے نام پر علم فروشی کے مراکز قائم کر لیے ہیں اور اپنے بچوں کیلئے علم کے متلاشی والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن طارق حمید بھٹی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس شعبے میں بھی ہیں اس سے محبت کریں، سخت محنت کریں، اپنی ذات، اپنے خاندان اور ملک سے مخلص رہیں تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو طاقتور اور خوشحال ہونے سے نہیں روک سکتی۔

تقریب میں MES کے ملک بھر سے مختلف سکولوں کے بچوں نے ملی نغمے، ٹیبلو اور خاکے پیش کر کے شرکائے تقریب کو مسحور کیا۔ ڈی جی منہاج ایجوکیشن سوسائٹی راشد حمید کلیامی نے تقریب میں شرکت پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اورایم ای ایس کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ پروگرام میں پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات، اساتذہ کرام اور منتظمین کو اعلیٰ کارکردگی پر انعامات، شیلڈز اور سوئنرز بھی دیئے گئے۔