القرآن: دُعا اور آدابِ دُعا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد خلیق عامر

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَo

(البقرة، 2: 186)

’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیں۔‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیتِ دعا اور آدابِ دعا کے متعلق درج ذیل چار شرائط و آداب بطورِ خاص بیان کیے ہیں اور یہ آداب و شرائط ایسے ہیں جنہیں ہمارے شعور میں اچھی طرح جاگزیں ہونا چاہیے تاکہ ہمہ وقت پوری بیداری کے ساتھ ہمارا شعور ان سے آگاہ اور ان سے متعلق رہے اور کسی بھی وقت ہمارے شعور سے یہ چیزیں جدا یا خارج نہ ہوں۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا یقین

قبولیت و آدابِ دعا سے متعلق پہلی شرط اور ادب اللہ رب العزت کے فرمان ’’فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ میں مذکور ہے کہ وہ ذات ہمہ وقت ہمارے قریب ہے۔ گویا بندے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پہلا ادب یہ سکھایا کہ بندہ اس یقین کو پختہ کر لے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے دور نہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دور نہیں ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہمارے اتنے قریب ہے کہ اسے ہماری ہر حاجت و ضرورت کا علم ہے، ہمارے نفع و نقصان کو ہم سے بھی بہتر جانتا ہے اور ہماری ہر مشکل کو آسان کرنے پر قادر بھی ہے۔ اُس کے قریب ہونے کا یقین بندے کے دل و دماغ میں راسخ ہونا دعا کا پہلا ادب ہے جو قرآن مجید ہمیں سکھا رہا ہے۔

کوئی شخص یہ نہیں مانے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کو خود سے دور سمجھتا ہوں، ہر کوئی کہتا ہے کہ ہاں میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے مگر صرف زبان سے کہنے سے بات نہیں بنتی بلکہ بندے کا شعور، دماغ، فکر، سوچ اور ادراک ہر چیز اس بات کا کامل یقین کرے کہ اللہ تعالیٰ میرے قریب ہے۔ گویا وہ اپنے شعور کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کی قربت کا مشاہدہ کر رہا ہے، اس کا دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی قربت کے آثار کو دیکھ رہا ہے اور اس کے قلب و روح کی کیفیات میں احساس ہو کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے اور اللہ تعالیٰ بندے کے قریب ہے۔ یعنی یہ علم حقیقی احساس اور مکمل ادراک بن جائے کہ وہ مجھ سے اور میں اس سے دور نہیں ہوں۔

اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے احساس کی دلیل یہ ہے کہ وہ بندہ پھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ مثلاً: ایک بچہ یا بہن بھائی اپنے ماں باپ کی موجودگی کے احساس کی وجہ سے شرارتیں اور لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ اسی طرح سزا دینے پر قادر حاکم یا نگران کی موجودگی میں کوئی آدمی قانون نہیں توڑے گا۔ یورپی اور ترقی یافتہ ممالک میں سپیڈ چیک کرنے والے کیمروں کی موجودگی اور جرمانہ کے ڈر کے احساس کی وجہ سے کوئی بھی شخص قانون شکنی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ قانون کا شکنجہ اس کے قریب ہے اور وہ کسی چھوٹی سی غلطی پر بھی اس کی گرفت میں آجائے گا۔

پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اس لیے کہ پاکستان میں ہر شخص کو معلوم ہے کہ قانون، حاکم اور عدالت کمزور ہے، قانون میں کرپشن کے راستے ہیں، ہر ایک کو خریدا جاسکتا ہے لہذا میری گرفت نہیں ہوسکتی۔ اس بناء پر ہر وقت ملک میں قانون شکنی ہوتی رہتی ہے۔

مذکورہ امثال کو ذہن نشین کر کے ہر کوئی اپنے اور اپنے مولیٰ کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ بندہ اس لیے نافرمانی و گناہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے اور اسے ناراض کرنے والے اعمال کا مرتکب ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا کامل شعور اور یقین نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہے اور اگر اس بات پر رسماً ایمان ہے تب بھی اس کے دل اور دماغ پر اس تصور، علم، شعور اور ادراک کی حکومت اور غلبہ نہیں۔ اس کے دل و دماغ اور ذہن سے چونکہ یہ شعور اتر گیا ہے اور غفلت کے پردوں میں دب گیا ہے، اس لیے وہ روزمرہ کی زندگی میں گناہ کرتا ہے، غافل رہتا ہے، عبادت میں بے پرواہی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت بجا نہیں لاتا اور گناہ و نافرمانی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ وہ جس وقت یہ سارے بداعمال کرتا ہے، اس وقت اس کا یہ شعور غیر حاضر ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ اور سن رہا ہے۔ اس کا یہ یقین غفلت یا عدمِ التفات کے پردوں میں دبا ہوا ہے کہ میرے دل کے احوال و کیفیات سے بھی میرا مولیٰ واقف ہے۔

اس شعور کے مکمل طور پر بیدار نہ رہنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ درحقیقت بالواسطہ (indirctly) خود کو اللہ تعالیٰ سے دور سمجھ رہا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے آپ سے دور سمجھ رہا ہوتا ہے۔

مذکورہ آیتِ کریمہ میں اسی جانب متوجہ کیا جارہا ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اِن لوگوں کو بتادیں کہ میں ان کے اتنا قریب ہوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں ان کی سوچ، تصور، خیال اور تخیل سے بھی زیادہ ان کے قریب ہوں۔ میں ان کے اس فعل سے بھی قریب ہوں جو ان کے جسم، ہاتھ اور قدموں سے صادر ہو رہا ہے اور ان کے قلب کی کیفیات سے بھی قریب ہوں جن کا یہ حسد، بغض و عناد اور دل کے گناہوں کی شکل میں ارتکاب کر تے ہیں۔

’’فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ کے الفاظ فقط ایک عقیدے، ایک قول، ایک لفظ کی بات نہیں ہے بلکہ اسے ایک زندہ شعور بنانے کی ضرورت ہے۔ دل، دماغ، روح، سوچ، فکر اور رگ و ریشہ میں ہمہ وقت جاری خون سے بھی زیادہ مولیٰ ہمارے قریب ہے۔ پس یہ تصور ہر وقت، صبح و شام، لمحہ بہ لمحہ اتنا پختہ ہوجائے کہ کبھی اس میں غفلت نہ ہو اور اس سے بے خیالی پیدا نہ ہو تو اس کیفیت کا پیدا ہونا قبولیتِ دعا کی پہلی شرط ہے۔

2۔ توکّل

اللہ رب العزت نے اپنی قربت کے یقین کے تصور کو پختہ کروانے کے بعد مزید ارشاد فرمایا:

اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ.

(البقرة، 2: 186)

’’میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘

یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پکارنے والے کی پکار کا جواب نہ عطا فرمائے۔ لہذا اس تصور کو بھی پختہ کریں کہ ہم اللہ کو پکارنے والے، اس سے مانگنے و طلب کرنے والے اور اس سے ہمکلام ہونے والے ہیں۔ ہم اللہ کی طرف یہ جانتے ہوئے ملتفت و متوجہ ہوں اور اُسے پکاریں کہ وہ قریب ہے۔ پکارنے سے پہلے اس نے اپنے قریب ہونے کے تصور کو ہمارے دل و دماغ میں بٹھایا، تب کہا کہ میں ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے۔

آیت مبارکہ کے یہ الگ الگ ٹکڑے نہیں بلکہ ہم نے انہیں الگ الگ بنا دیا ہے۔ آیت مبارکہ میں مذکور ان حصوں کو جوڑ کر ایک عقیدہ، یقین، ایمان اور ایک دعا بنتی ہے اور اس کی قبولیت ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور اس سے دعا مانگنے کا دوسرا ادب یہ ہے کہ دعا اس یقین سے مانگیں کہ مولیٰ قریب ہے اور میں جو مانگ رہا ہوں، میری طلب و ضرورت اور میرے حق میں بہتری کو وہ مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ اس امر کا بھی مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے کہ مجھے کب چاہیے اور کب نہیں چاہئے؟ ممکن ہے میری اپنی ضرورت کے بارے میں میرا تجزیہ (Assesment) غلط ہو۔ وہ چونکہ میری جان سے بھی زیادہ میرے قریب ہے، سو اس کا جاننا میری Assesment سے زیادہ صحیح ہے اور اس کا علم میرے علم سے زیادہ درست اور بہتر ہے۔ اس لیے کہ انسان کو اپنی ضروریات کا علم اپنی کیفیات اور ذاتی تجزیات (Personal Assesments) کی بناء پر ہوتا ہے کہ کون سی شے اس کے لیے فائدہ مند اور بہتر ہے اور یہ شے اس کو کتنی جلدی مطلوب ہے جبکہ وہ رب ہماری شہ رگ اور جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے، اس لیے وہ ہماری حاجت کا ہم سے بھی بہتر علم رکھنے والا ہے۔

جب ہم یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ وہ ہمارے احوال، ضروریات، حاجات، رغبات، طلبات اور ہماری دعوات (پکار) کا ہم سے زیادہ واقف ہے، ہمارے نفع و نقصان کا وہ ہم سے بہتر جاننے والا ہے، تو ہمارا یہ تصور زندہ و تابندہ، جاری و ساری اور بیدار شعور بن جاتا ہے اور پھر یہیں سے ’’توکل‘‘ جنم لیتا ہے۔

مذکورہ آیت کا پہلا حصہ ’’فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘ ’’یقین‘‘ کی ایک فرع (Branch) تھی کہ وہ ہمارے قریب ہے اور اب اس کے ساتھ ’’توکّل‘‘ بھی شامل ہوگیا کہ جب وہ ہمارے حال اور ہماری ضرورتوں کو ہم سے بھی بہتر جانتا ہے تو بندہ اپنا سب کچھ اس پر چھوڑ دیتا ہے اور اسی پر توکّل کرتا ہے۔

جب بندہ سب کچھ اس پر چھوڑ دیتا ہے اور اس پر توکل کرتا ہے تو نتیجتاً اس سے عجلت اور تیزی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی الوہی حکمت کے پیش نظر بندہ کی دعا کی عدمِ قبولیت یا قبولیت میں تاخیر ہوجائے تو وہ بندہ شکوہ و شکایت نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ وہ میرے حال کو مجھ سے بہتر جانتا ہے اور مجھ سے بہتر کرنے والا ہے۔ اس سوچ سے اس کے اندر سے بے صبری اور عجلت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اِن خیالات سے پاک ہوجاتا ہے کہ میری دعا کے بعد اب تک ایسا کیوں نہیں ہوا؟ ویسا کیوں نہیں ہوا؟

یاد رکھیں! عجلت بندے کو بے چینی (Anxiety) کی طرف لے جاتی ہے اور بے چینی بڑھتے بڑھتے بندے میں پژمردگی، آرزدگی، ذہنی دباؤ (depression) پیدا کرتی ہے۔ depression سے بندے میں منفیت(negativity) آ جاتی ہے، اس کی سوچیں منفی ہو جاتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ ایمان ختم ہو جاتا ہے۔

عجلت اور بے چینی کے سبب پیدا ہونے والی ان جملہ نفسیاتی امراض کا علاج اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کے پہلے دو حصوں میں یقین اور توکل کی صورت میں بیان فرمادیا۔

3۔ اطاعت و فرمانبرداری

اسی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:

فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ.

(البقرة، 2: 186)

’’پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں۔‘‘

یقین اور توکّل سے اپنے ظاہرو باطن کو مزین کرنے کی ہدایت دینے کے بعد اللہ رب العزت نے دعا کی قبولیت کی تیسری شرط اور ادب یہ بیان فرمایا کہ اس کی فرمانبرداری اختیار کرو۔ صدقِ دل اور صالح عمل کے ساتھ اس کے بندے بن جاؤ، اس کے احکامات کی اطاعت بجا لاؤ، اس سے بے وفائی اور حکم شکنی چھوڑ کر اس کے فرمانبردار بندے بن جاؤ۔

یاد رہے کہ فرمانبرداری ایک ہمہ وقتی عمل ہے۔ فرمانبرداری اور دعا میں فرق ہے۔ دعا تو ہم اسی وقت کریں گے جب ہمیں کوئی طلب، ضرورت یا حاجت ہوگی، جب گناہوں کا بوجھ کندھوں پر محسوس ہوگا تو گناہوں کی معافی اور توبہ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ تنگدستی کی صورت میں رزق میں فراخی مانگیں گے، بیماری کی صورت میں شفا مانگیں گے۔ مشکلات کے وقت آسانیاں مانگیں گے۔ الغرض جب بھی کسی قسم کی کوئی ضرورت و حاجت ہمیں پیش ہوگی تو اسی وقت ہم دعا مانگیں گے۔ گویا دعا کے لیے حالات (situations)، اوقات (Times) اور لمحات (moments) ہوتے ہیں۔ جبکہ فرمانبرداری کے لیے ساعات، لمحات اور اوقات نہیں ہیں بلکہ پوری زندگی کے ہر ہر لمحہ پر فرمانبرداری غالب ہے۔ رات دن، صبح شام، خوشی غمی، دکھ سکھ، فراخی تنگی، سفر حضر، دشمنی دوستی، بیماری صحتمندی، الغرض کوئی بھی وقت، لمحہ، کیفیت، ساعت ہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں رہنا ہوگا۔ فرضی عبادات اور حقوق العباد کو ہمہ وقت نہ صرف اپنی ترجیحات میں رکھنا ہوگا بلکہ ان کو بروقت وسیع ظرف اور خوش دلی کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔

گویا اللہ تعالیٰ کی عبادت گزاری، طاعت اور وفاداری میں ہمہ وقت مستعد رہتے ہوئے اس کے حکم کو بجا لانا اور اس کی بندگی میں رہنا فرمانبرداری ہے اور دعا کی قبولیت کی شرائط و آداب میں شامل ہے۔

پہلی دو شرائط ’’یقین اور توکل‘‘ کا تعلق قلبی کیفیات سے تھا جبکہ یہ تیسری شرط عمل سے متعلق ہے کہ ہمارا کوئی عمل زندگی میں اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے خلاف نہ ہو۔

اگر ان تینوں شرائط کے حوالے سے ہم اپنا محاسبہ و موازنہ کریں تو ہمیں خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ ہماری دعاؤں کی عدم قبولیت کی راہ میں ہم خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لہذا ہمیں صبح و شام اپنا محاسبہ خود ہی کرنا ہوگا، اپنے اعمال پر نظر رکھنا ہوگی کہ کیا ہماری زندگی صبح و شام اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزرتی ہے۔۔۔؟ کیا ہم اپنے معاملات و معمولات میں اخلاقِ حسنہ کو اختیار کرتے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم لوگوں سے نرمی و محبت اور ایمانداری سے پیش آتے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم دھوکہ بازی، خیانت، دجل و فریب، بددیانتی اور خیانت سے اجتناب کرتے ہیں۔۔۔؟

ان تمام شرائط کو عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی ملحوظ خاطر رکھنے کا حکم ہے۔ باہمی رویوں میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ والدین، اولاد، شوہر، بیوی، رشتہ داروں، پڑوسیوں، اساتذہ، تلامذہ، بہن بھائیوں، امیر و غریب الغرض معاشرے میں بسنے والے ہر طبقہ کے حقوق کی ادائیگی کرنا اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے حکم میں شامل ہے۔ یعنی بات صرف عبادات ہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ معاملات اور اخلاق بھی فرمانبرداریِ الہٰہ کی ایک جہت ہیں۔ اگر بندہ کاملاً اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جائے تو دعا کی قبولیت کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔

ہم نے فرمانبرداری کو الگ موضوع بنا دیا ہے اور دعا کی قبولیت کو الگ موضوع بنا دیا ہے حالانکہ فرمانبرداری اور قبولیتِ دعا لازم و ملزوم ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں چونکہ ہم بیمار ہوئے ہیں سو صرف دعا سے ہی ہمیں شفا ملنی چاہیے۔۔۔ ہماری حاجت، پریشانی، دکھ اور مشکل محض دعا سے حل ہونی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاذ اللہ کوئی ہمارا پابند ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم فرمانبرداری کریں یا نہ کریں، اس کا قبولیتِ دعا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سوچ اور تصور کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں ربط نہیں رہا اور زندگی شکوؤں اور پریشانیوں سے بھر گئی ہے۔ اس آیت کریمہ نے ان سارے حصوں کو جوڑ کر ایک وحدت بنا دیا کہ اگر دعا کی قبولیت چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کرو۔

فرمانبردار بندوں کا حال آقا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا:

اگر کوئی شخص اللہ رب العزت کا اتنا فرمانبردار، ذاکر اور عبادت گزار بن جائے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر، عبادت، فرمانبرداری اور اطاعت میں اس کا مشغول رہنا اسے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سوال کرنے، دعا کرنے اور التجا کرنے کی بھی فرصت نہ دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی و غلامی میں بندہ اتنی تگ و دو کرتا رہے کہ اپنی حاجت اور سوال ہی بھول جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو اس کے سوال کرنے سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے۔

اس بندے کو بن مانگے کئی زیادہ عطا کرنے کے پیچھے راز یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ یہ شخص میری وفاداری، فرمانبرداری، ذکر، عبادت اور مجھ سے تعلق قائم کرنے میں اتنا مشغول ہو گیا ہے کہ اسے اپنی حاجت و ضرورت بھی یاد نہیں، اپنا مانگنا اور سوال بھی بھول گیا ہے تو وہ اس کے اس حال سے خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ میرا کتنا وفادار ہے اور اسے میری عبادت میں کتنی لذت آ رہی ہے، میرے ذکر میں کتنا کھو گیا ہے، میری یاد میں کتنا فنا ہے کہ میرے ذکر، عبادت اور فرمانبرداری کی لذت اور سرور میں اسے اپنی حاجت ہی یاد نہیں رہی تو وہ ایسے بندے کی بن مانگے جھولیاں بھرتا رہتا ہے۔ فرمانبرداری کے اندر قبولیت کا راز ہے اور ایک فرمانبردار بندے کا وہ مالک الملک خود کار ساز ہو جاتا ہے۔

4۔ کامل ایمان

قبولیتِ دعا کے تین آداب و شرائط بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:

وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ.

(البقرة، 2: 186)

’’اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں۔‘‘

اس آیت کریمہ میں ابتداء ہی سے اللہ رب العزت مومنین سے خطاب فرمارہا ہے مگر اس کے باوجود وہ ارشاد فرماتا ہے کہ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ مجھ پر ایمان لاؤ، تو اس کا معنی یہ ہے کہ جتنی باتیں میں نے تم سے پہلے کہی ہیں کہ میں تمہارے قریب ہوں تو اس کا یقین پختہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں ہر پکار کوسنتا ہوں تو اس کا یقین پیدا کرو، میں نے کہا کہ میری فرمانبرداری اختیار کرو، تمہارا ہر کام ہو جائے گا تو اس کا یقین پیدا کرو۔ جب اس معنی میں مجھ پر پختہ یقین رکھو لوگے تو:

لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ.

تم راهِ ہدایت پاجاؤ گے۔

گویا وہ بندے جنہوں نے دعا کی ان مذکورہ شرائط کو پورا کر دیا تو انہیں مراد مل جائے گی۔ اس آیت کریمہ نے مراد کے مل جانے تک کی ضمانت عطا فرمادی کہ اگر میرے بندے ان شرائط کو پوری کر لیں تو وہ یقیناً مراد پا جائیں گے۔

دعا عین عبادت ہے!

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

الدُّعَاءُ هُوَ العِبَادَة.

’’دعا عین عبادت ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَة.

’’دعا پوری عبادت کا مغز اور نچوڑ ہے۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی طرف التفات ہے، بندہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے، اپنے دل و دماغ اور قلب و روح کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا اور اس کا منگتا بنتا ہے۔ منگتا بننا اصل تذلل، خشوع و خضوع اور بندگی کا حسن ہے۔ بندہ اللہ سے تب ہی مانگتا ہے جب خود کو بے بس اور بے کس سمجھتا ہے اور مولیٰ کو مالک و قادر اور دینے والا سمجھتا ہے۔

درحقیقت دعا کے ذریعے بندے کا رشتہ اپنے مولیٰ سے قائم ہو رہا ہے۔ بندہ اس کی طرف متوجہ ہو کر مانگتا ہے کہ مولیٰ! میں بے بس ہوں، میرے اختیار میں کچھ نہیں، ہر شے تیرے ہاتھ میں ہے، تو مجھے عطا کر، تو میری مدد کر، تو مجھے ہدایت دے، تو مجھے ایمان، عملِ صالح کی توفیق، بخشش، رزق اور دنیا و آخرت کی نعمتیں عطا کر۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ سے یہ سب کچھ مانگتا ہے تو گویا اس کیفیت میں بندہ اپنے مولیٰ کے ساتھ ایک تعلق استوار کر رہا ہے اور یہی تعلق قائم کرنا ہی عبادت ہے۔

یقین، توکل، فرمانبرداری اور کامل ایمان کی مذکورہ شرائط کے ساتھ اگر کوئی دعا کرے تو یہ دعا کرنا از خود عبادت کہلاتا ہے۔ دعا کو عبادت قرار دے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ غافر کی آیت نمبر60 کی تلاوت فرمائی:

وََقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَ.

’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں موجود الفاظ: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ وہ بنیاد ہیں جس کی وجہ سے آقا علیہ السلام نے دعا کو عبادت فرمایا۔ اس آیت میں پہلے دعا کا حکم دیا کہ مجھ سے دعا کیا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، یہ حکم دے کر فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ

’’وہ لوگ جو میرے عبادت سے تکبر و سرکشی کرتے ہیں۔‘‘

یہاں لفظِ عبادت سے مراد دعا ہے یعنی جو مجھ سے مانگنے میں سرکشی کرتے ہیں، نماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں مگر مجھ سے مانگتے نہیں، میری بارگاہ میں منگتا نہیں بنتے، ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:

سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَ.

’وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے۔‘‘

معلوم ہوا کہ دعا خود عبادت ہے اور عملِ دعا اللہ رب العزت کو اس قدر پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے محترم و مکرم چیز کوئی اور نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لیسَ شیئٌ أکرَمَ علیَ اللهِ تعالیٰ منَ الدُّعاء.

(ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، باب ماجاء فی فضل الدعا، 5: 455)

’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ محترم و مکرم کوئی چیز نہیں۔‘‘

اگر مذکورہ آداب اور تقاضوں کے مطابق دعا کی جائے تو وہ یقینا اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔ لہٰذا کثرت کے ساتھ اللہ رب العزت کے حضور دعا کو معمول بنانا چاہیے۔

دُعا تقدیر کو بدل دیتی ہے!

دعا کے حوالے سے آقا علیہ السلام کا یہ فرمان بھی قابلِ توجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا یَرُدُّ القَضَاءَ إلَّا الدُّعَاءُ وَلَا یَزِیْدُ فِيْ العُمُرْ إلَّا البِر.

(ترمذی، السنن، باب ماجاء لا یردالقضا الا الدعا، 4: 448)

’’دعا کے علاوہ کوئی شے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو بدل نہیں سکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی شے عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی۔‘‘

تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کسی کی تقدیر بدلی ہے تو کسی نہ کسی نبی یا ولی کی دعا سے بدلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں عمر مقرر کر کے بھیجا ہے، جہاں عمر نے ختم ہونا ہے، انسان نے ختم ہو جانا ہے اور موت آ جانی ہے۔ مگر فرمایا کہ نیکی عمر کو بھی بڑھا دیتی ہے۔ یعنی نیک اعمال، لوگوں کے ساتھ بھلائی، صدقہ، احسان اور لوگوں کے حالات کو بہتر کرنے کی صورت میں نیکی کرنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔گویا نیکی کرنا خود ایک دعا بن گئی اور عمر میں اضافے کا باعث ہوگئی۔ دعا اللہ تعالیٰ کے حضور چونکہ سب سے اکرم (برگزیدہ) عمل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے قبول کرنے کے لیے منتظر رہتی ہے۔

دُعا مغفرت و بخشش کا ذریعہ ہے!

حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

قَالَ ﷲ یبنیٰ آدم، إِنَّکَ مَعَ دَعُوْتَنِيْ وَرَجَوْتَنِيْ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ فِیْکَ وَلَا أُبَالِيْ.

(ترمذی، السنن، باب فی فضل التوبه، 5: 548)

اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے بخشش اور مغفرت مانگتا رہے گا اور قبولیت کی امید رکھتا رہے گا تو جو بھی گناہ و لغزش تم سے سرزد ہوتی رہے، میں تمہاری امید اور دعا کے عمل کے باعث تجھے بخشتا رہوں گا۔

اگر گناہ یا خطا ہو جائے تو بندے کی شان نہیں ہے کہ وہ مایوس ہو۔ بندہ اگر مایوس ہوتو بندے کا مایوس ہونا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اور اس کی رحمت کی بے ادبی ہے۔ اس لیے کہ وہ فرمارہا ہے کہ میری رحمت کی کوئی حد نہیں، اگر تم مایوس ہو جاؤ تو گویا اس کی عظمت، اس کی شانِ الوہیت اور اس کی بخشش و مغفرت کی بے ادبی کر رہے ہو۔ اسی لیے مایوسی کو کفر کہا گیا ہے۔

مزید ارشاد فرمایا:

یٰبنیَ آدَم! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکْ السَّمَاء ثُمَّ اسْتَغْفِرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَکَ وَلَا أُبَالِيْ.

اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان تک بھی پہنچ جائیں اور پھر بھی تو مجھ سے استغفار کرے تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تیرے گناہ اتنے زیادہ ہوگئے، پھر بھی میں تمہیں بخش دوں گا۔

پھر فرمایا:

یٰبنَی آدَمُ! إِنَّکَ لَوْ أَعْطَیْتَنِيْ بِقُرَابِ الأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِيْ لَا تُشْرِکُ بِيْ شَیْئَا لأَتَیْتُکَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً.

اے ابن آدم! اگر تو اتنے گناہ کر دے، جتنی زمین کی وسعتیں ہیں، یعنی مشارق سے مغارب تک پوری زمین تیرے گناہوں سے بھرجائے اور اتنی کثرت سے گناہوں کے بعد تو میری بارگاہ میں مغفرت و بخشش کے لیے پیش ہو، بشرطیکہ تم نے مجھ سے شرک نہ کیا ہو، ایمان باللہ اور توحید پر قائم ہو اور تذلل، خشوع و خضوع اور میری رحمت و بخشش پر کامل یقین کے ساتھ مجھ سے معافی مانگے تو اس کثرتِ گناہ کے باوجود میں زمین کی وسعت کے برابر تجھے بخشش عطا کر دوں گا۔

یہ سب اس لیے ہے کہ اس کی بخشش و رحمت کی کوئی حد نہیں، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ گناہ کتنے تھے، بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ بندے کی امید اور یقین اس کی بخشش و رحمت پر کتنا ہے اور وہ اس سے کتنے یقین اور تسلسل سے بخشش و مغفرت مانگتا رہتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ بندے! اگر مجھ سے معافی مانگنے، دعا کرنے اور بخشش طلبی کا تیرا عمل نہ ٹوٹے تو میرا تجھے بخش دینے اور معاف کردینے کا عمل بھی نہیں ٹوٹے گا۔

  1. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ فُتِحَ لَهٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهٗ بَابُ الرَّحْمَةِ.

’’تم میں سے جس شخص کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا، پس اس کے لیے رحمت کا دروازہ کھول دیا گیا۔‘‘

یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ سے دعاکرنے اور کرتے رہنے کی توفیق دے دی گئی کہ وہ کبھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا نہ چھوڑے اور مایوسی کو قریب نہ لائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے پیغام رحمت ہے کہ اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ دعا کا دروازہ جس پر کھل گیا گویا اللہ نے اس پر رحمت کے سب دروازے کھول دیئے۔

  • اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی محبوبیت کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَمَا سُئِلَ ﷲُ شَیْئًا یُعْطَی أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ أَنْ یُّسْئَلَ العَافِیَّةَ.

’’ اور جتنی چیزیں بھی اللہ رب العزت سے مانگی جاتی ہیں ان میں سب سے بہتر چیز جو اللہ کو محبوب ہے، جس پر اللہ خوش ہوتا ہے وہ معافی ہے۔‘‘

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں مختلف خواہشات و تمناؤں کی دعائیں کرتے ہیں، ان سب چیزوں میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ دعا یہ ہے کہ ایک گناہگار اللہ سے معافی اور بخشش طلب کر لے۔ اللہ تعالیٰ معافی مانگنے پر اس کی رحمت سب سے زیادہ خوش ہوتی ہے۔

دعا دافع البلاء ہے!

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

إنَّ الدُّعَاءَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلْ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اﷲِ بِالدُّعَاء.

’’دعا اس مصیبت کے لیے بھی فائدہ مند ہے جو اتر چکی ہے اور اس کے لیے بھی فائدہ مند ہے جو ابھی نہیں اتری، پس اللہ کے بندو! اپنے اوپر دعا کرنا لازم کرلو۔‘‘

یعنی جن مصیبتوں میں ہماری زندگی گھر چکی ہے، ان کا خاتمہ بھی دعا کرتی ہے اور جو مصیبتیں ابھی نہیں اتریں اور جن کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ کیا حادثہ کب اور کہاں ہوجائے، دعا ان آنے والی تمام مصیبتوں کو بھی ختم کردیتی ہے۔ اسی لیے آقا علیہ السلام تاکید فرمارہے ہیں کہ دعا کرتے رہا کرو، اپنے دستِ سوال منگتے بن کر اپنے رب کے حضور دراز کرتے رہا کرو۔ اس عملِ دعا سے موجود تکالیف کو بھی اللہ تعالیٰ دفع کر دے گا اور جو تکالیف ابھی نہیں آئیں اور پردہ غیب میں ہیں، اللہ وہیں سے انہیں رد کر دے گا اور تمہیں ـپتہ بھی نہیں ہو گا کہ جو مصیبت آنی تھی وہ اس لیے نہیں آئی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعا کی وجہ سے پردہ غیب میں ہی اس کو دور کرنے کا اہتمام فرما دیا۔

دورِ خوشحالی کی دعا کی تاثیر

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ یَّسْتَجِیْبَ ﷲُ لَهُ عِندَالشَّدَائِدِ وَالکُرَبِ فَالیُکْثِر الدُّعَاء فِيْ الرَّخَاء.

’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ مشکلات اور تکالیف کے وقت اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے وقت میں اللہ سے زیادہ دعا کیا کرے۔‘‘

یعنی جب انسان پر بیماریاں، رزق کی تنگی، حادثات، مصیبتیں اور تکالیف آتی ہیں تو وہ چاہتا ہے کہ ان آزمائشوں اور مصیبتوں کے وقت اس کی دعا قبول ہوجائے، تو آقا علیہ السلام نے اس کا ایک راز ہمیں بتادیا کہ فَالیُکْثِر الدُّعَاء فِيْ الرَّخَائِ خوشحالی کے اوقات میں جب بیماری، پریشانی، مشکل، امتحان اور مصیبت نہیں ہوتی، بندہ خوش اور خوشحال ہوتا ہے تو ان اوقات میں وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ دعا کیا کرے۔ جو شخص خوشحالی کے اوقات میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا منگتا بنا رہے اور دعا کے عمل میں تسلسل رکھے تو اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کے صدقے سے مشکلات کے زمانے میں بھی اس کی پریشانیوں کو ٹال دے گا اور مشکلات کے زمانے کی دعاؤں کو قبول فرمائے گا۔ خوشحالی کے دور کی دعائیں، مشکلات کے زمانے میں کی جانے والی دعاؤں کی تاثیر اور قبولیت کو بڑھا دیتی ہیں اور انہیں طاقت و قوت دیتی ہیں۔

مستجاب الدعوات ہونے کا راز

آقا علیہ السلام کی تعلیمات اور ہدایات کی روشنی میں ذیل میں اُن چند امور کا ذکر کیا جارہا ہے جن پر عمل سے بندہ ہمیشہ کے لیے مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے اور اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں:

1۔ صلہ رحمی

ہمیشہ صلہ رحمی کریں اور قاطع رحم نہ بنیں۔ خونی رشتوں کو مت توڑیں۔ ہم خونی رشتوں میں بڑی نا انصافیاں کرتے ہیں۔ باہر بڑے اچھے کہلاتے ہیں مگر خونی رشتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، ان کی ضروریات کی پرواہ نہیں کرتے اور ان کی دلجوئی نہیں کرتے۔ ہم نے خونی رشتہ داروں کے درمیان محبت و الفت کو حسد اور بغض میں بدل دیا ہے اور ایک دوسرے سے بھلائی کرنے والے نہیں رہے۔ یہی صورت حال والدین سے ہوتی ہوئی اولادوں میں بھی منتقل ہوگئی ہے۔

ہم میں سے مالدار لوگ اپنا مال باہر خرچ کریں گے مگر اپنے رشتہ داروں، بہنوں، بھائیوں، اولاد، ماں باپ، اقارب حتیٰ کہ بعض بندے تو بیوی بچوں کی خوشحالی کے لیے بھی خرچ نہیں کرتے، انہیں تنگی دیتے ہیں یعنی گھر والوں کی جائز ضروریات میں تنگی دیتے ہیں مگر باہر بڑے سخی کہلاتے ہیں۔ لوگوں کو جہیز بھی دے رہے ہیں، میلاد پاک اور گیارہویں شریف پر بھی خرچ کررہے ہیں، صدقات و خیرات، نیکی کے کاموں پر بھی خرچ کر رہے ہیں اور سیاسی کاموں پر بھی بے تحاشہ پیسے لٹا رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسی سخاوتیں قبول نہیں جو فرائض کو نظر انداز کر کے کی جائیں۔

آقا علیہ السلام سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! سب سے بہتر صدقہ کیا ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا۔

پس خونی رشتوں پر خرچ کرنے اور ان کی بھلائی و دلجوئی کرنے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور بندہ مستجاب الدعوت بن جاتا ہے۔ خونی رشتوں میں بھلائی اور احسان کرنا اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں کی قبولیت کا یقین اور ضمانت فراہم کرتا ہے۔

2۔ حرام خوری سے پرہیز

مستجاب الدعوات ہونے کا دوسرا راز آقا علیہ السلام نے رزقِ حلال اختیار کرنے اور رزقِ حرام سے پرہیز کرنے کو قرار دیا۔ بھوک سے مر جائیں مگر حرام کا رزق نہ کھائیں، رشوت نہ لیں، غبن نہ کریں، اپنے کام میں بددیانتی نہ کریں، چوری نہ کریں، خیانت نہ کریں۔ جس بھی دفتر اور ذمہ داری پر آپ متعین ہیں اور آپ کے پاس ایک پیسہ بھی اگر آتا جاتا ہے تو وہ بھی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت ہے چونکہ آپ کو اس کے اوپر امین اور محافظ بنایا گیا ہے۔ اس میں خیانت کریں گے تو آپ کا رزق بھی حرام ہو گا، عبادتیں اور دعائیں بھی مردود ہوں گی اور دنیا و آخرت سب برباد کر بیٹھیں گے۔ جس شخص کا رزق حلال ہے، اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جس کا رزق حرام ہے، اس کی دعائیں رد کر دی جاتی ہیں۔

3۔ وقتِ دعا غفلت سے اجتناب

مذکورہ دونوں شرائط یعنی صلہ رحمی اور حرام خوری سے پرہیز دائمی زندگی سے متعلق ہیں۔ جبکہ مستجاب الدعوات ہونے کے تیسرے راز کا تعلق وقتِ دعا سے ہے کہ جب دعا کریں تو غافل دل کے ساتھ نہ کریں۔ ہم بعض اوقات لمبا وقت دعا میں لگاتے ہیں مگر دل اس دعا کے ساتھ شریک نہیں ہوتا۔ جو کچھ زبان کہہ رہی ہوتی ہے، دل اس کی لذت محسوس نہیں کر رہا ہوتا۔ دل، زبان کے ساتھ نہیں ہوتا، یعنی ہاتھ اٹھا کر دعا ہو رہی ہے مگر دل غائب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہوئے اگر دل اس کے حضور سے غائب ہو، جب منگتے کا دھیان ہی کہیں اور ہے تو وہ مالک ہماری جھولی میں خیرات کیسے ڈالے گا۔

یاد رکھیں! اس کی نظر ہمارے دھیان پر بھی ہے کہ دھیان حاضر ہے یا غائب؟ لہذا قلبِ غافل سے کبھی دعا نہ کریں، جب دعا کریں سب سے پہلے رجوع الی اللہ کریں، توجہ کے ساتھ دل کو حاضر کریں، اللہ تعالیٰ کی رحمت کو چشمِ تصور کے ساتھ دیکھیں اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے بابِ رحمت اور بابِ مغفرت پر کھڑا دیکھیں۔ دل کو مولیٰ کی بارگاہ میں حاضر کرنے کے بعد جو زبان سے کہیں، دل اس کے ساتھ شریک ہو۔ اس سے دعا کی اجابت و قبولیت بڑھ جائے گی۔

4۔ عجلت سے اجتناب

یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ دعا کریں تو اس میں استعجال نہ کریں کہ اس کی قبولیت جلدی ہو۔ میری دعا کب قبول ہو گی؟ اب تک کیوں نہیں ہوئی؟ یہ گلہ و شکوہ دعاؤں کی قبولیت کو روک دیتا ہے۔

جب فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کی حد کر دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی کہ باری تعالیٰ! اس کو غرق کر دے۔ اللہ رب العزت نے وحی فرمائی کہ موسیٰ تمہاری دعا ہم نے قبول کر لی۔ دعا تو فوری قبول ہوگئی اور پیغام بھی آگیا مگر حقیقتاً اس قبولیتِ دعا کا مظاہرہ اور فرعون کے لشکر سمیت غرق ہونے میں چالیس سال لگے۔ یعنی فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہونے کا واقعہ دعا کے قبول ہونے کے چالیس سال بعد پیش آیا۔ ان 40 سالوں میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں موسیٰ علیہ السلام نے ایک دن بھی کبھی شکوہ نہیں کیا کہ باری تعالیٰ تو نے وحی بھیجی کہ دعا قبول ہوگئی، مگر اتنا عرصہ گزر گیا، ابھی کچھ بھی نہیں ہوا۔

یاد رکھیں! یقین، نبوت کی شان ہے۔ اللہ کے مقرب بندے اور اہل اللہ کبھی ان چیزوں میں عجلت نہیں کرتے۔ ہمارا کام صدقِ دل اور یقین کے ساتھ دعا کرنا ہے، اگلا کام اللہ تعالیٰ کا ہے کہ وہ قبول کرے یا نہ کرے؟ کب کرے گا؟ جلد یا بدیر؟ یہ اللہ کی شان ہے، یہ اس کا حق ہے۔ بندے کا یہ حق نہیں ہے۔ لہٰذا دعا کرنے کے بعد گلہ و شکوہ نہ کریں۔ شکایت زبان کی بھی ہوتی ہے اور دل کی بھی ہوتی ہے۔ دل جب بے چین و مضطرب ہوتا ہے تو یہ دل کی شکایت ہے۔ بندے کا کام صرف عرض کر دینا ہے، قبولیت مالک پر چھوڑ دیں۔ جب استعجال اور عجلت نہیں کریں گے تو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اس بندے کے لیے قبولیت بڑھ جاتی ہے کہ بندہ وفاداری کا حق ادا کر رہا ہے۔

5۔ دعا میں احتیاط

وقتِ دعا جہاں یقین کا دامن بندے نے تھام رکھا ہو، وہاں اس امر کا بھی لحاظ رکھے کہ وہ چیز جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کا باعث ہو اور ایسا حال پیدا کر دے جو گناہ کا سبب بنے یا اللہ تعالیٰ سے دور کر دے تو کسی ایسی چیز کے لیے دعا نہ مانگیں۔ گناہ کے لیے دعا نہ مانگیں اور کسی ایسے کام کے لیے دعا نہ مانگیں جو گناہ کی طرف لے جائے۔

6۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر

مستجاب الدعوات ہونے کی ایک شرط اور تقاضا یہ بھی ہے کہ بندہ ہمیشہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر کاربند رہے۔ تحریک منہاج القرآن کی جملہ سرگرمیاں اسی نقطہ پر مرتکز ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر جس سوسائٹی، جس گھر، جس تنظیم و جماعت میں جاری رہے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور جس معاشرے سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ختم ہوجائے اس معاشرے کی دعاؤں کی قبولیت ختم ہو جاتی ہے۔

اگر گھر بیٹھ گئے اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا، برائیاں، منکرات، فحاشی، عریانی، ظلم، خیانت، بددیانتی، کرپشن کو عام ہونے دیا اور اس کو روکنے کے لیے جدوجہد نہ کی، گھر گھر تک آواز نہ پہنچائی تو آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لَیُوْشِکَنَّ ﷲُ أَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ ثُمَّ یَدْعُوْا خِیَارُکُمْ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ.

اللہ تعالیٰ ساری قوم اور سوسائٹی کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔ پھر اس ماحول میں تم دعا کرتے رہ جاؤ گے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔ پھر اولیاء و صالحین اور خیارِ امت بھی اپنے ملک و قوم اور سوسائٹی کے لیے دعائیں کریں تو ان کی دعائیں بھی اللہ قبول نہیں کرتا۔

(مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی )

اہل اللہ کی دعاؤں کو ان لوگوں کے حق میں روک لیتا ہے اور آخرت کے لیے اپنے مقرب بندوں کی ان دعاؤں کو ان نیک اعمال کی حیثیت سے قبول فرماکر اس پر انہیں اجر عطا فرماتا ہے۔

خلاصہ کلام

قبولیتِ دعا کی یہ شرائط انفرادی، قومی، اجتماعی اور معاشرتی اعتبار سے ہیں۔ ان شرائط کا تعلق وقتِ دعا سے بھی ہے اور پوری زندگی کے معاملات و معمولات سے بھی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں دعا کی حقیقت، اس کا سچا معنٰی و مفہوم سمجھنے کی توفیق دے اور ہمارے حال پر کرم فرمائے، ہمیں ہمہ وقت اپنی بندگی، تابعداری، فرمانبرداری اور وفاداری میں رکھے۔ آمین بجاہِ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم