الفقہ: اسلام میں قضا و قدر کا تصور

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: جب تقدیر لکھ دی گئی ہے تو پھر دعا مانگنے اور تدبیر اختیار کرنے کا کیا فائدہ اور اس کا حکم کیوں دیا گیا؟

جواب: قدر اور تقدیر کا لغوی معنیٰ اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے۔

(راغب اصفهانی، المفردات، 395)

اس سے مراد کائنات اور بنی نوع انسان کے احوال کا وہ علم ہے جواللہ تعالیٰ کے پاس لوحِ محفوظ میں لکھا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍo

اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔

(یٰسین، 36: 12)

لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہر چیز تقدیر کہلاتی ہے جس تک عام مخلوق کی رسائی نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

کَتَبَ اﷲُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِینَ اَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَی الْمَاء ِ.

اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا اور عرش پانی پر تھا۔

(مسلم، الصحیح، 4: 2044، رقم: 2653)

یعنی اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے بارے میں جو کچھ لوحِ محفوظ پر لکھ رکھا ہے، اُسی کو تقدیر، قضاء وقدر یا مقدّر کہتے ہیں۔

اقسامِ تقدیر

تقدیر کی تین اقسام ہیں:

ذیل میں ان کا مختصر تعارف بیان کیا جارہا ہے:

  1. تقدیر مبرم حقیقی
  2. تقدیر مبرم غیر حقیقی
  3. تقدیر معلق

1۔ تقدیر مبرم حقیقی

یہ آخری اور اٹل فیصلہ ہوتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ناممکن ہے۔ اسی لیے جب فرشتے قومِ لوط پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی بارگاهِ خداوندی میں عرض کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے عذاب نازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

یٰٓـاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاج اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَج وَاِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ.

’’(فرشتوں نے کہا:) اے ابراہیم! اس (بات) سے درگزر کیجیے، بے شک اب تو آپ کے رب کا حکمِ (عذاب) آچکا ہے، اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا‘‘۔

(هود،11: 76)

چونکہ یہ عذاب تقدیر مبرم حقیقی تھا، اس لیے ٹل نہ سکا۔

2۔ تقدیر مبرم غیر حقیقی

تقدیر مبرم غیر حقیقی تک خاص اولیاء اﷲ اور اکابرین کی رسائی ہوسکتی ہے جن کی دعائوں سے یہ بدل جاتی ہے۔ حضرت سلمانg سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

لَا یَرُدُّ الْقَضَاء َ إِلَّا الدُّعَاء ُ وَلَا یَزِیدُ فِی الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ.

تقدیر کو دعا ہی بدل سکتی ہے اور نیکی ہی سے عمر بڑھتی ہے۔

(ترمذی، السنن، 4: 448، رقم: 2139)

گویا یہ تقدیر اﷲ تعالیٰ کے خاص لوگوں کی دعائوں سے تبدیل ہو سکتی ہے۔

3۔ تقدیر معلق

تقدیر کی تیسری قسم تک اکثر اولیاء وصالحین اور نیک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یَمْحُوا ﷲُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ۔

’’اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔‘‘

(الرعد، 12: 39)

اس لیے تقدیر معلق اولیاء کی دعائوں، والدین کی خدمت اور صدقہ وخیرات وغیرہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی بخشش ومغفرت اور بہتری کے لئے ہر لمحہ دعا کرتے رہنا چاہیے۔ دعا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بندہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے آپ کو بے بس، لاچار اور عاجز پیش کرتا رہے تو احساسِ بندگی قائم رہتا ہے۔

امام ابن حجر عسقلانی، فتح الباری میں علامہ طیبی کا قول نقل کرتے ہیں:

هُوَ إِظْهَارُ غَایَةِ التَّذَلُّلِ وَالِافْتِقَارِ إِلَی اﷲِ وَالِاسْتِکَانَةِ لَهُ.

’’اﷲکی بارگاہ میں غایت درجہ تواضع، محتاجی اور عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا دعا کہلاتا ہے۔‘‘

(عسقلانی، فتح الباری، 11: 95)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَ.

’’اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘

(المومن، 40: 60)

دعا سے تقدیرِ مبرم غیر حقیقی اور تقدیرِ معلق میں تبدیلی ممکن ہے۔ دعا عقیدہ توحید میں پختگی و قربِ الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موت و حیات، بھوک و تونگری، معاش و معاشرت سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ تقدیر اصلاً یہی علمِ الٰہی ہے۔ ان کے بارے میں خدا تعالیٰ سے دعا کرنا ان کو بدل سکتا ہے۔ دعا بذات خود عبادت بھی ہے، دعا کی قبولیت یا عدمِ قبولیت اپنی جگہ ہے لیکن دعا کرنے کا الگ اجر و ثواب بھی ہے۔

تقدیر و تدبیر میں راهِ اعتدال

تدبیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ سوچ بچار، عاقبت اندیشی، غور و فکر اور انجام بینی کے ہیں۔ اصطلاحاً کسی کام کے کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر غور و فکر کرنا تدبیر کہلاتا ہے۔

مذہبی مباحث میں عموماً تدبیر کا لفظ تقدیر کے مقابلہ میں آتا ہے۔ ایک زمانے تک تقدیر و تدبیر مباحث کا مقبول ترین موضوع رہا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو انسان کو مطلق خود مختار قرار دیتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ امور کی انجام دہی ہمارے اختیار میں ہے، تقدیرِ الٰہی کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہ ’’قدریہ‘‘ کہلائے۔ ان کے مقابل ’’جبریہ‘‘ تھے جو انسان کو مجبورِ محض قرار دیتے۔ انِ کے نزدیک انسان کے تمام امور تقدیرِ الہٰی کے تحت ہیں، انسان خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ تقدیر و تدبیر کی اس بحث میں راهِ اعتدال یہ ہے کہ انسان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ امورِ دنیا کی انجام دہی کے لیے اپنی عقل اور تجربے کی روشنی میں تدابیر اختیار کرے۔ لیکن ہر تدبیر کی کامیابی اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکمت کی مرہونِ منت ہے۔ انسان تدبیر کا مکلف ہے، لیکن اس کا توکّل اپنی تدبیر کی بجائے خدا پر ہونا چاہیے۔

سوال: جب انسان کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو یہ اپنے برے اعمال کا ذمہ دار کیونکر ہوسکتا ہے؟

جواب: قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ اسے وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے، اس کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوتا ہے۔اس کے لیے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔

یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکامِ شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا، اس لیے کہ ہمیں شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کو ہم بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علمِ غیب سے ہے جو ہمارے بس میں نہیں پھر جو چیز ہم جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی ہمیں دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے، اگر ہم اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علمِ الٰہی کا جسے ہم جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر غلط راہ اختیار کر رہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا تو ہمیں کیسے پتہ چل گیا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ کیا ہم نے لوحِ محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے اور جس کے انجام سے باخبر ہیں، اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:

تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اس غلط سوچ نے ہمارے معاشرے کو جہنم زار بنا دیا ہے۔

عمل سے فارغ ہوا مسلمان بنا کے بہانہ تقدیر کا

غربت، پسماندگی، جہالت، بیروزگاری، ظلم، ڈاکے، قتل، اغوا، آبرو ریزیاں، تخریب کاریاں، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے تمام شیطان تقدیر کا غلط مفہوم نکال کر ہی اپنی کرتوتوں کا جواز نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی کو ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ مظلوم کو دب دبا کر ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا کہیں حکم دیا بلکہ مظلوموں کو ظالموں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا :

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ ﷲَ عَلٰی نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ.

ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔

(الحج، 22: 39)

مسئلہ جبرو قدر

بعض لوگ اپنی برائیوں سے بھری زندگی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے خصائل کی تشکیل کے حوالے سے بھی بے بس ہے لہٰذا ایسے انسان کو گناہ و ثواب اور خیروشر کی کڑی آزمائش میں ڈالنا ظلم ہے۔ ان احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں عقل، فہم، دانش، شعور، حواس اور وحی کے ذریعے اچھے برے کا تمام علم دے دیا گیا۔ سیدھے راستہ کی نشاندہی بھی فرما دی اور اس پر چلنے کا انجام بھی، برا راستہ بھی بتا دیا اور اس کو اپنانے کا خطرناک نتیجہ بھی۔ ہمیں علم، شعور اور ارادہ واختیار دے دیا کہ سمجھو اور جس راستے کو چاہو اختیار کر لو۔ یہ اختیار فرشتوں کو نہیں ملا، انسانوں کو ملا ہے۔ اس میں انسانوں کی عزت و عظمت ہے کہ وہ بے اختیار پتھر یا کسی مشین کا کل پرزہ نہیں بلکہ بااختیار، باشعور، مقتدر ہستی ہے لیکن اکثر انسانوں نے اللہ کی ان عطا شدہ نعمتوں کی ناقدری کی اور ان کا غلط استعمال کیا اور بجائے فائدے کے اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا۔

جیسے لوہے سے ہم نے ایک نہایت ضروری اور کار آمد مفید آلہ چھری بنائی، اب اس کا استعمال ہمارے اختیار میں ہے۔ چاہیں تو گوشت، سبزیاں وغیرہ کاٹ کر زندگی کو سہولتوں سے متمتع کریں اور چاہیں تو اپنے یا کسی اور بے گناہ کے پیٹ میں گھونپ کر چراغِ زندگی گل کر دیں۔ قصور نہ لوہا بنانے والے خدا کا ہے اور نہ چھری بنانے والے کا، قصور اس احمق کا ہے جس نے خالق کی نافرمانی کی، دوسرے انسانوں سے بہتر استعمال کا سبق نہ لیا اور کسی خیر خواہ کے مشورے پر بھی توجہ نہ دی۔ عقل و فہم اور شعور کا بھی خون کیا اور پندِ ناصح کو بھی درخور اعتنا نہ جانا۔ انسان ابتدائے آفرینش سے فریبِ نفس کا شکار ہے۔ جان بوجھ کر غلط کاریاں کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور طفل تسلیوں کے طور پر اس قسم کی منفی سوچوں میں مگن رہتا ہے۔ پرتجسس ذہن وہ نہیں جو منفی سوچ سوچے بلکہ صحیح تجسس وہی ہے جو مثبت ہو۔

انسان بھی عجب ہے کہ جب صبح سویرے اٹھتا، ناشتہ کرتا اور دفتر، دکان، کارخانے، سکول، کالج، کھیت، زمین، باغ، منڈی کی طرف وقتِ مقررہ پر روزی کمانے اور مستقبل سنوارنے کے لیے ہمت کر کے چل پڑتا ہے تو اس وقت ایسی منفی سوچ نہیں سوچتا۔ کام سے فارغ ہو کر، گھر پہنچتا، کھانا کھاتا اور وقت پر سوتا ہے مگر کبھی ان مصروفیات پر منفی سوچ کی گرد پڑنے نہیں دیتا اور ہر کام وقت پر کرتا ہے لیکن جونہی دینی فرائض انجام دینے کی باری آئی، نفس ہزاروں وسوسے پیدا کرتا ہے اور انسان کو احساسِ ذمہ داری سے عاری کرتا ہے، کبھی اپنی کوتاہیوں کو تقدیر کے پلڑے میں ڈالتا ہے اور کبھی ماحول کی آلودگی کے ذمے لگاتا ہے۔

یہ سب بہانے اور نفس کی خود فریبیاں ہیں۔ وسوسوں سے دامن بچائیے۔ ہدایاتِ نبوت پر یقین کے ساتھ کار بند ہونا سیکھیے اور سکون سے زندہ رہیے۔ نیک عمل کیجیے اور گناہوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیے۔ ان وساوس سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صحبت بھی ہے۔ کسی بزرگ کی صحبت اختیار کریں۔ اپنی زندگی سنوارئیے اور دوسروں کا بھلا کیجیے۔

ہم حکمِ خداوندی کے پابند ہیں، علمِ خداوندی کے نہیں

تقدیر کے حوالے سے یہ سوال بھی اکثر ہمارے ایمان کو متزلزل کرتا رہتا ہے کہ رزق کمانے کے لیے حلال و حرام ذرائع اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے مگر مقدار میں اضافہ یا کمی انسان کے اختیار میں نہیں۔ اس امر کو سمجھنے کے لیے تقدیر کا لغوی معنی پر غور کریں، اس کا معنی اندازہ لگانا، مقرر کرنا ہے، اس کا تعلق محض اللہ کے علم سے ہے۔ عام انسانوں کو اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ کے علم میں کیا مقرر ہے۔

دوسری چیز ہے: اللہ کا حکم، جس کا بندوں کو وحی کے اور آثار کائنات کے ذریعے علم ہے۔ ہم حکمِ خدواندی کے پابند ہیں، علمِ خداوندی کے نہیں۔ حکم ہے نماز پڑھو، ہم پر نماز پڑھنا فرض ہے۔ ہم یہ فرض اپنے اختیار سے بجا لائیں گے یا خواہشِ نفس اور شیطان سے مغلوب ہو کر ترکِ نماز کریں گے؟ یہ ہے اللہ کا علم یعنی تقدیر۔ رزق کمانے کا مسئلہ بھی غور کریں تو اس سے سمجھ میں آ جائے گا کہ رزق کے بارے حکم ہے :

کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰـکُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِیْهِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِیْج وَمَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْهِ غَضَبِیْ فَقَدْ هَوٰی.

(اور تم سے فرمایا:) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس پر میرا غضب واجب ہوگیا سو وہ واقعی ہلاک ہوگیا۔

(طه، 20: 81)

یہ حکم بالکل واضح ہے۔

وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ.

اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو۔

(البقرة، 2: 188)

یہ ہے حکم ممانعت، جو بالکل واضح ہے۔ اب اللہ کا کمالِ علم یہ ہے کہ اسے معلوم ہے ان واضح احکام کے باوجود، کون حلال کی پابندی کرے گا اور کون اپنے اختیار سے ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا؟ بندے کو کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ میں نے کیا کیا غلطی کی، کب کی، کیوں کی؟ ان تمام امور کو رب تعالیٰ ازل سے جانتا تھا۔

انسان ان واضح احکام و ہدایات کے ہوتے ان کے خلاف کیوں کرے؟ اور علم الٰہی جس کا اسے کوئی پتہ نہیں، اسے ترک حکم یا حکم کی خلاف ورزی کا کیوں بہانہ بنائے؟

در اصل ہمارے دینی امور میں بے حسی ہمیں ایسے وساوس کا شکار کرتی ہے۔ دنیا کمانے میں تقدیر کا سہارا کوئی نہیں لیتا، تگ و دو کرتا ہے۔ دین کے معاملہ میں بہانے بنائے جاتے ہیں۔ لہٰذا تقدیر کی فکر نہ کریں، احکامِ شرع کی تعمیل کی فکر کریں۔ کیا سود خور یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ میری تقدیر میں سود خوری لکھی ہوئی تھی۔ کہا جائے گا: آپ کو تقدیر یعنی علمِ الٰہی جو غیب ہے، وہ نظر آ گیا اور قرآن میں حرمتِ سود کا واضح حکم نظر نہ آیا۔

کیا قاتل یہ کہہ کر چھوٹ جائے گا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونا تقدیر میں تھا۔ کہا جائے گا: حرمتِ جان اور قتل کا حرام ہونا تو قرآن میں واضح طور پر موجود تھا، جس کے آپ مکلف تھے، کیا نوشتہ تقدیر بھی آپ کے سامنے ایسا ہی واضح تھا جس پر آپ نے عمل کیا؟ حکمِ شرع پر عمل کرنا تو قرآن میں موجود ہے، کیا تقدیر کے مطابق عمل کرنے کا بھی قرآن و سنت میں کہیں حکم ہے؟ پس احکامِ شرع پر عمل کریں جس کا حکم ہے، تقدیر علمِ خدواندی کا نام ہے، اسے سپردِ خدا کریں۔