تقریب رونمائی قرآنی انسائیکلوپیڈیا

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین

قرآن مجید کے 5 ہزار سے زائد موضوعات پر مشتمل، 8 جلدوں پر محیط، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عظیم الشان اور عدیم النظیر تالیف ’’قرآنی انسائیکلوپیڈیا‘‘ کی تقریب رونمائی 3 دسمبر 2018ء کو ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہوئی، جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی شرکت کی۔ تقریب میں آستانہ عالیہ بابا فرید گنج شکر پاکپتن شریف سے حضرت دیوان خواجہ مخدوم احمد مسعود چشتی، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، صوبائی وزیر مذہبی امور پنجاب صاحبزادہ سید سعید الحسن شاہ، آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، ایم کیو ایم کے سینئر رہنماء فاروق ستار، تحریک انصاف کے رہنما سید صمام بخاری، جماعت اسلامی کے رہنماء ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ کوٹ مٹھن شریف خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، سجادہ نشین گڑھی اختیار بخش خواجہ قطب الدین فریدی، صاحبزادہ پیر جمیل الرحمن چشتی، جمیعت علمائے اسلام کے ڈاکٹر مولانا محمد اجمل قادری، بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب صاحبزادہ عبدالخبیر آزاد، اقبال اکادمی پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں افضل حیات، مفتی عبدالقوی، صحافی و دانشور اوریا مقبول جان، کالم نگار قیوم نظامی، دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان، بیرسٹر عامر حسن، علامہ سید احمد اقبال رضوی، بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، شاعرہ و مصنفہ بشریٰ رحمن، شاعرہ و کالم نگارصوفیہ بیدار، شاعرہ و ادیبہ ڈاکٹر صغری صدف، رکن صوبائی اسمبلی خدیجہ عمر فاروقی کے علاوہ ملک بھر سے جید علماء و مشائخ، سجادگان، اسکالرز، قانون دان، دانشور، صحافی، کالم نگار، محققین و مصنفین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معزز مہمانوں نے خصوصی شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔

چیئرمین سپریم کونسل تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ممبر سپریم کونسل ڈاکٹر غزالہ حسن قادری، مرکزی قائدین و عہدیداران تحریک اور عوام الناس کی کثیر تعداد نے بھی اس تقریبِ سعید میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔

  • اس تقریب سعید میں تلاوت کی سعادت محترم قاری نور احمد چشتی نے حاصل کی جبکہ نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سعادت محترم محمد افضل نوشاہی نے حاصل کی۔ ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور نے استقبالیہ کلمات پیش کئے اور جملہ مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہتے ہوئے تقریب کی غرض و غایت کو بیان کیا۔ نقابت کے فرائض علامہ عبدالقدوس درانی، انوارالمصطفیٰ ہمدمی اور علامہ غلام مرتضیٰ علوی نے سرانجام دیئے۔
  • محترم انوارالمصطفیٰ ہمدمی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ان الفاظ میں منظوم خراجِ تحسین پیش کیا:

خدا کے کرم کی گھٹا میرا قائد
میرے مصطفی کی عطا میرا قائد

مدینہ کا اڑتا ہوا یہ پرندہ
جہاں جائے ماحول ہوجائے زندہ

قلم نے لکھی ہیں حکایات اُن کی
قصیدے انہی کے روایات ان کی

قلم اٹھ گیا تو اجالے بکھیرے
قدم اٹھ گئے تو اسی در کے ڈیرے

یہاں سوئے منزل نظر کس نے بخشی
جوانوں کو آہِ سحر کس نے بخشی

کبھی بحرِ قرآن سے گوہر نکالے
اشارات و اسرار لفظوں میں ڈھالے

معانی کے دربار سجنے لگے پھر
کتابوں کے انبار لگنے لگے پھر

وہ دیکھو صحیح و سنن کا خزانہ
حدیثوں کے مینار کا جگمگانا

عَلم علمِ قرآں کا لہرا گیا ہے
وہ انسائیکلوپیڈیا آگیا ہے

وہ تحقیق کے ایسے موتی جڑے ہیں
مضامیں قطاریں لگائے کھڑے ہیں

اظہارِ خیال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

تقریب کے آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنِ مجید کے علوم کی وسعت، علومِ قرآنی کی اہمیت و افادیت اور قرآنی انسائیکلوپیڈیا سے آشنائی کے حوالے سے تعارفی گفتگو فرمائی۔ آپ کے یہ زریں کلمات ذیل میں درج کئے جارہے ہیں:

’’لوحِ محفوظ دو ہیں: ایک عالمِ غیب میں ہے اور ایک عالمِ ظاہر، عالمِ شہادت میں ہے۔ عالمِ غیب کی لوحِ محفوظ کا تصور ہمارے ذہنوں میں کچھ نہ کچھ ہے مگر عالمِ شہادت میں یعنی دکھائی دینے والی اور پڑھی جانے والی لوحِ محفوظ قرآن مجید ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ.

’’اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔‘‘

(الانعام، 6: 59)

اس آیت میں اللہ رب العزت کا اپنی کتاب قرآن مجید کی نسبت اس کی جامعیت کے حوالے سے دعویٰ ہے۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے علم کی جامعیت کی وہ شان عطا کی ہے کہ قرآن مجید Universe of Knowledge ہی نہیں ہے بلکہ Universes of Knowledge ہے۔ یعنی علم کی ساری کائناتیں قرآن مجید کے اوراق میں ثبت ہیں۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰی عِلْمٍ هُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.

’’اور بے شک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل(یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔‘‘

(الاعراف، 7: 52)

اس آیت کریمہ نے قرآن مجید کا مقامِ علم متعین کردیا کہ قرآن کا علم، علمِ مفصّل (Detailed Knowledge of every thing) ہے۔ بہت سے لوگوں کو قرآنی علم میں اجمال نظر آتا ہے، تفصیل نظر نہیں آتی۔ اگر اجمال نظر آئے اور تفصیل نظر نہ آئے تو یہ ہمارے فہم کا نقص ہے، قرآنی علم کا نقص نہیں ہے۔ اس لیے کہ

فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیْم.

’’ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔‘‘

جس کو اللہ تعالیٰ نے جتنا علم عطا کیا ہے، وہ اسی قدر قرآن مجید کو جانتا اور اس سے معارف نکالتا ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر کوئی کسی کی شان سے متعلق بے خبری یا کمی و نقص کا اظہار کرے تو اس پر طعن نہیں کرتے، اس لیے کہ قاعدہ ہے کہ ’’جو جتنا جانتا ہے، وہ اتنا ہی مانتا ہے‘‘۔ کیونکہ جاننے والوں کی سطح میں کمی بیشی ہوتی ہے، اس لیے ماننے والوں کے مرتبے میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔ لوگ اتنی بات پر جھگڑتے ہیں جبکہ مجھے تو بڑی موافقت نظر آتی ہے۔

قرآن مجید ہی کے حوالے سے ایک اور مقام پر فرمایا:

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ.

’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔‘‘

(النحل، 16: 89)

یعنی قرآنی علم، علمِ مبیِّن بھی ہے اور علمِ مبیَّن بھی ہے۔

مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں قرآنی علم کا علمِ جامع ہونا بیان کیا گیا، دوسری آیت میں قرآنی علم کو علمِ مفصّل قرار دیا گیا اور تیسری آیت میں واضح کیا کہ اس کا علم، علمِ مبیِّن بھی ہے اور علمِ مبیَّن بھی ہے۔ یعنی یہ ہر موضوع کا احاطہ بھی کرتا ہے، ہر شے کی تفصیل بھی دیتا ہے اور ہر بیان کو نہایت وضاحت کے ساتھ بھی بیان کرتا ہے۔

  • قرآن مجید کے مذکورہ دعویٰ پر تائیدی دلیل کے طور پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ذکر کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

انزل القرآن علی سبعة احرف لکل آیة منها ظهر وبطن ولکل حد مطلع.

(ابن حبان، الصحیح)

یعنی قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا۔ ہر آیت کے اندر معانی، مطالب، مفاہیم کے سمندر ہیں لیکن ہر آیت کے کچھ معانی ومضامین ایسے ہیں جو عام فہم رکھنے والے انسانوں کو ظاہری علم کے ذرائع سے معلوم ہوجاتے ہیں اور کچھ معانی اتنی گہرائی میں ہیں کہ انہیں عام آدمی اپنے سطحی فہم و ادراک سے نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے لیے فہم و معرفت کی بڑی گہرائی، گیرائی، پختگی، وثوق، استحکام اور وسعت چاہئے۔

پھر فرمایا کہ ہر ایک معنی کی حدود ہیں یعنی ایک جگہ سے وہ شروع ہوتا ہے اور ایک جگہ پر وہ ختم ہوتا ہے اور ہر حد کے لیے ایک مطلع ہے جہاں سے اس شان کے معنی شروع ہوتے ہیں اور پھر اس کے بعد اگلے موضوع کی شان شروع ہوتی ہے۔ قرآن مجید چونکہ کلامِ الہٰی ہے، اس لیے جس طرح حسنِ الہٰی کی کوئی حد نہیں ہے، اس طرح معانیِ قرآن کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔

دور بدلتے رہیں گے، صاحبِ علم و فہم انسان آتے رہیں گے، ہر شخص اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق قرآن مجید کے سمندر سے علم کے موتی نکالتا رہے گا مگر ہر آنے والے زمانے میں لوگوں کو معانی کے وہ نئے موتی ملیں گے جو پہلے کسی پر آشکارا نہ ہوئے تھے۔ گویا معانیِ قرآن کا تسلسل کبھی ختم نہ ہوگا۔

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

سَلُوْنِیْ فَوَاللّٰه لا تَسْئَلُوْنِیْ عَنْ شئِی اِلَّا اَخْبَرْتُکُمْ به.

لوگو! جو چاہتے ہو، مجھ سے پوچھ لو، اللہ کی قسم میں تمہیں اس کا جواب قرآن سے دے دوں گا۔

دوسرے مقام پر فرمایا کہ

یہ اس لیے ہے کہ میں نے اس قرآن مجید کو اتنا پڑھا ہے اور اس کو اس قدر تفصیل سے جانتا ہوں کہ کون سی آیت کب اور کس بارے میں نازل ہوئی؟ صبح یا شام، سفر یا حضر، صحرا، پہاڑ کہاں نازل ہوئی؟ اس کے دامن میں کیا ہے اور اس کے معانی کی حدود کیا ہے؟ گویا واضح فرمادیا کہ جو سوال کرو گے میں تمہیں قرآن سے اس کا جواب دے دوں گا۔ (امام عبدالرزاق، المصنف)

  • حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے قرآن کے مرتبۂ علم کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:

لَوْ ضَاعَ عقَالَ بَعِیْر لَوَجَدْتُهٗ فِیْ کِتَابِ اللّٰه.

’’اگر میرے اونٹ کی نکیل بھی گم ہوجائے تو میں قرآن سے معلوم کرلیتا ہوں۔‘‘

مذکورہ فرامین قرآن مجید کے ان تینوں دعوؤں (جامعیت، مفصّل ہونا، وضاحت) کی تائید و توثیق ہے جو قرآن مجید نے اپنی بابت بیان فرمائے ہیں۔

  • حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’یہ قرآن تمہارے لیے اجر، ذکر ونصیحت، نور و ہدایت بھی ہے اور تمہارے اوپر فریضۂ الہٰیہ بھی ہے، اگر تم اس قرآن کے پیچھے چلو گے تو تمہیں قربِ الہٰی میں جنت تک پہنچادے گا اور اگر قرآن تم سے پیچھے رہ جائے گا تو تم دوزخ تک پہنچ جاؤ گے۔‘‘

  • حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پوچھا گیا:

اِنَّ اُمَّتَکَ سَتُفْتَتَنُ مِنْ بَعْدِک. مَاالْمَخْرَج مِنْهَا؟

’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی امت میں آپ کے بعد اگلے زمانوں میں بڑے فتنے آئیں گے۔ امت اس وقت ان فتنوں سے کیسے بچے؟ اس کی نجات کا راستہ کیا ہوگا؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

الکتاب العزیز، هوالذکر الحکیم، والنور المبین والصراط المستقیم.

یہ قرآن مجید انسان کو فتنوں سے نکال دے گا۔ یہ بڑی حکمت پر مبنی نصیحت ہے، بہت ہی روشن نور ہے جو علم، فکر، خواہشات، عقل کے سب اندھیروں کو دور کردیتا ہے اور منزل پر پہنچادینے والا بڑا سیدھا راستہ ہے۔

  • حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ:

لوگو! قرآن مجید کو تھام لو، قرآن عقل کو فہم دینے والا ہے، قرآن حکمت و دانائی کو روشن کردینے والا ہے، قرآن سینے میں علم کے چشمے پھوٹ دینے والا ہے۔ قرآن سے علم و معرفت کے ایسے چشمے پھوٹتے ہیں کہ جن سے اندھوں کو بینائی نصیب ہوتی ہے، بہروں کو سماعت نصیب ہوتی ہے اور مہر زدہ دلوں کو اللہ تعالیٰ انفتاح و انشراح عطا فرماتا ہے اور پھر فرمایا:

وَهِیَ اَحْدَثُ الکُتب بالرَّحْمٰن.

یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی وحی کا Updated Version ہے۔ یہ وحی الہٰی کا Latest Edition ہے۔ یعنی جب تک کائناتِ انسانی رہے گی، اس ایڈیشن کے بعد کسی اور صحیفۂ ہدایت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کی تفصیل ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنت اور حدیث سے ملتی ہے۔

قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی اہمیت و انفرادیت:

قرآن مجید کے مرتبۂ علم کو جاننے کے بعد آیئے اب قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے حوالے سے چند باتیں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں:

اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں 5ہزار سے زائد موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن اسے اگر تفصیلی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ 20ہزار سے زائد موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا میں عقائد، اعمال، اخلاق، عبادات، معاملات، حقوق، واجبات، معاشرت، تہذیب و ثقافت، سیاست و حکومت، عدالت، تجارت، انسانی زندگی کے نجی اور اجتماعی مسائل، قومی و بین الاقوامی مسائل تک ہر وہ چیز جو آپ کے ذہن میں سوال بن کر ابھرے گی، آپ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی 4 سو صفحات پر مشتمل فہرست میں اپنے موضوع کو پالیں گے اور پھر متعلقہ صفحہ پر اس موضوع پر وہ تمام آیاتِ قرآنیہ یکجا اس باب میں موجود ہوں گی جو پورے قرآن مجید میں مختلف مقامات پر متفرق اور منتشر صورت میں موجود ہیں۔

اس انسائیکلوپیڈیا سے آشنائی کے باب میں اور اس کے طریقہ کار اور موضوعات کی وضاحت میں قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی تیسری جلد سے چند مثالیں بیان کرتا ہوں:

1۔ انسانی جسم کا رحم مادر میں حیاتیاتی ارتقاء کس طرح ہوتا ہے؟ اس موضوع کو درج ذیل عناوین میں تقسیم کرکے اس پر قرآن مجید کی تمام آیات کو یکجا پیش کیا گیا ہے:

  1. رحمِ مادر میں انسان کو وجود کیسے ملتا ہے اور اس کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟
  2. نطفہ کس طرح نطفہ امشاج میں بدلتا ہے؟
  3. خلیاتی تقسیم کس طرح ہوتی ہے؟
  4. انڈے کی رحمِ مادر میں منتقلی کس طرح ہوتی ہے؟
  5. جونک کی طرح وہ معلق وجود کس طرح بنتا ہے؟
  6. نطفہ سے لے کر پیدائش تک رحمِ مادر میں انسان کی تخلیق کے چھ ارتقائی مرحلے کون سے ہیں؟

(یاد رہے کہ انسان کی تخلیق کے ان مراحل کا علم مائیکروسکوپ کی ایجاد کے بعد سائنس کو 1941ء کے بعد ہوا جبکہ 1400 سال قبل جب سائنس کا وجود تک نہ تھا تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اُن دبیز پردوں میں چھپے ہوئے تخلیقی مراحل کو بیان فرما دیا۔)

  1. رحمِ مادر میں جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
  2. بچے کو قوتِ سماع، قوت بصارت، قوتِ لمس، قوتِ گویائی اور سمجھنے کی صلاحیت کیسے ملتی ہے؟

ہر جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا کہ:

وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ.

’’اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔‘‘

(النحل، 16: 78)

انسان کو یہ معلوم نہ تھا کہ رحمِ مادر میں موجود بچے کو قوتِ سمع اور بصارت میں سے پہلے کون سی قوت ملتی ہے؟ پچھلی صدی میں سائنس کو معلوم ہوا کہ جب حواس کے اعضاء قائم ہوتے ہیں تو سب سے پہلے کان سنتے ہیں، اس کے بعد آنکھ کھلتی ہے جبکہ قرآن مجید نے ایک جگہ بھی ’’بصر‘‘ کو ’’سمع‘‘ سے پہلے یعنی ’’دیکھنے‘‘ کو ’’سننے‘‘ سے پہلے بیان نہیں کیا ہر جگہ ’’سمع‘‘ (سننے) کو پہلے اور ’’بصر‘‘ (دیکھنے) کو بعد میں بیان کیا۔ گویا ان الفاظ کی قرآنی ترتیب نے 14 سو سال پہلے اس امر کا اعلان فرمادیا کہ رحمِ مادر میں سننے کی طاقت پہلے اور دیکھنے کی طاقت بعد میں حاصل ہوتی ہے۔

میں نے قرآن مجید کی 50 برس ایک طالب علمانہ خدمت کی ہے، اللہ کی عزت کی قسم میں نے ایمبریالوجی کو قرآن کے علم کے سامنے سجدہ ریز دیکھا، میں نے Cosmology کو قرآن کو سجدہ کرتے دیکھا، میں نے Astronomy، Botany، بیالوجی، مائیکروبیالوجی، فزکس، آسٹروفزکس، کیمسٹری، بائیو کیمسٹری، علمِ نباتات، علمِ جمادات، علمِ حیوانات، علمِ معادن، انسان کی تخلیق کا علم، کائنات کا علم، فضا، خلا، سیاروں اور ستاروں کا علم، الغرض جس علم اور سائنس کو دیکھا، میں نے ہر علم کو قرآنی علم کے سامنے سجدہ ریز پایا۔ یہ سجدہ ریز کس طرح پایا؟ اس طرح کہ خود اس علم کو حقائق کی معرفت آج ہوئی جس سے وہ Develop Scientific Knowledge بنا مگر آج جو معرفت علم و سائنس کو ہورہی ہے، وہ 14 سو سال قبل قرآن مجید اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں بیان ہوچکی ہے۔

2۔ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا سے شناسائی کے حوالے سے دوسری مثال میں اعضائے انسانی کی دیتا ہوں:

قرآن مجید میں جہاں جہاں اعضائے انسانی کی بات آئی ہے، ہر ایک عضو کی ہیڈنگ قائم کرکے اس عضو کے بارے میں قرآن مجید کی جملہ آیات کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اس باب میں پورے قرآن مجید میں متفرق طور پر بیان کردہ اعضائے جسمانی مثلاً:

جلد، بال، گوشت، ہڈیاں، چہرہ، سر، پیشانی، آنکھ، کان، رخسار، ناک، ہونٹ، دانت، ٹھوڑی، گردن، گلا، ہاتھ، انگلیاں، کہنی، انگلیوں کے جوڑ، سینہ، پیٹ، دل، پیٹھ، پشت، پہلو، ٹخنوں، پاؤں سے متعلقہ آیات کو ایک جگہ بیان کردیا گیا ہے۔

الغرض قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی فہرست کے ذریعے اس موضوع سے متعلق سارا قرآن مجید آپ کو ایک باب میں ملے گا۔

3۔ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا سے تیسری مثال ’’علمِ کونیات‘‘ سے دیتا ہوں کہ کائنات کیسے بنی؟

اس موضوع پر درج ذیل عناوین قائم کرکے ان پر متعلقہ آیات کو یکجا بیان کردیا گیا ہے:

  1. کائنات کی ابتدائی دخانی حالت کا بیان
  2. ایک دھماکے سے کائنات کی ابتداء ہونا
  3. تخلیقِ کائنات کے چھ مراحل سے کائنات کا گزرنا اور مسلسل وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جانا
  4. کششِ ثقل (Gravitation force) کے کام کرنے کا طریقہ اور اس میں موجود توازن کا بیان
  5. کائنات کا توازن اور اس کی وسعت پذیری کا بیان
  6. زمین و آسمان ایک دوسرے سے جدا کیسے ہوئے؟
  7. سات آسمانی طبقات کیسے بنے؟
  8. کسی سہارے کے بغیر کائنات پست و بالا کیسے بنی؟
  9. آسمان دنیا کی تزئین کیسے ہوئی؟
  10. زمین کے طبقات کیسے بنے؟
  11. کائنات کا اختتام (End) کیسے ہوگا؟
  12. سیاہ شگاف (Black Hole) کی حقیقت کیا ہوگی؟
  13. قوانینِ طبیعات کیا ہیں؟
  14. نظریہ اضافیت (Theory of Relativity) کا بیان

(اسے پچھلی صدی میں آئن سٹائن اور نیوٹن زیر بحث لائے۔)

  1. رفتار، قوت کشش، تسخیر خلا، نوری سال کا تصور، اجرام فلکی، زمین و آسمان کا نظام، نظامِ شمسی کے حیرت انگیز نظام، سیاروں، ستارہ ثاقب، کہکشائیں، ستاروں کے سفر کی منازل کا تذکرہ، سائے کے بڑھنے، گھٹنے کا تذکرہ

سائنس ان حقائق کا ادارک آج کررہی ہے مگر اللہ رب العزت نے 14 سو سال پہلے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر جو کتاب نازل فرمائی، اس میں اس حوالے سے جملہ تفصیلات کو ان کی جزئیات سمیت بیان فرمادیا ہے۔ الغرض اس انسائیکلوپیڈیا میں علم کونیات اور علم فلکیات سے متعلقہ ان جملہ امور پر قرآنی آیات کو ایک باب میں یکجا کردیا گیا ہے۔

4۔ اسی طرح اگر اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں ’’معدنیات‘‘ کے باب کو دیکھیں گے تو اس میں لوہے، سیسہ، تانبہ اور دیگر دھاتوں اور ان سے بننے والی اشیاء سے متعلقہ جملہ قرآنی آیات کو ان اشیاء کے عناوین کے تحت یکجا بیان کردیا گیا ہے۔

5۔ اسی طرح ’’نباتات‘‘ کے باب میں درختوں، بیج، گھٹلی، سبزہ، چراگاہیں، شجرکاری، درختوں، باغوں اور پھلوں کے احوال، مختلف اقسام کی چیزوں میں نر اور مادہ کے احوال، کھجور اور انگور کا نظام، کیلے، انجیر، زیتون اور انار کا نظام، ان تمام امور سے متعلقہ قرآنی آیات کو اس انسائیکلوپیڈیا میں یکجا بیان کیا گیا ہے۔

6۔ المختصر یہ کہ آپ کوئی بھی موضوع لے لیں، سائنس، اخلاقیات، غزوات، سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قوموں کے عروج و زوال، اخلاق حسنہ وسیۂ، جملہ حقوق العباد، اختلاف و تناؤ کی صورت میں حقوق، وراثت، الغرض جہاں جہاں انسان کا تعلق ہے، اس پر قرآن وضاحت عطا کرتا ہے اور اِن تمام موضوعات کو اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں بیان کردیا گیا ہے۔

  • اس انسائیکلوپیڈیا کی پہلی جلد میں موجود فہرست پوری 8جلدوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ پہلی پانچ جلدیں موضوعاتی اعتبار سے قرآنی آیات کے مجموعہ پر مشتمل ہیں جن کی وضاحت میں نے مذکورہ امثال سے کردی ہے۔ آخری تین جلدیں ’’معجم‘‘ یعنی الفاظ کے اعتبار سے ہیں۔ جن میں آپ کسی بھی لفظِ قرآنی کے ذریعے متعلقہ آیتِ قرآنی تک پہنچ جائیں گے۔ یعنی اس انسائیکلوپیڈیا کی آخری تین جلدیں قرآن مجید کا ابجدی اشاریہ ہیں۔
  • اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو گھر گھر پہنچائیں۔ ہر شخص قرآن مجید سے جڑ جائے تاکہ قرآن مجید سے کٹا ہوا تعلق بحال ہو اور براہ راست قرآن سے اخذِ علم کا کلچر پیدا ہوجائے۔ ہر وہ شخص جو عربی اور عربی لغت نہیں جانتا مگر وہ مسلمان ہونے کے ناطے قرآن مجید بغیر مغالطہ و گمراہی لینا چاہتا ہے تو اس انسائیکلوپیڈیا نے اسے اس طرح قرآن مجید کے علوم تک پہنچادیا ہے جیسے انگلی پکڑ کر بچے کو ساتھ لے جایا جاتا ہے۔

اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے بعد اب قرآن مجید پر فقط علماء کا اجارہ نہیں رہا بلکہ امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہر فرد کا اجارہ ہوگیا ہے۔ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا نے ہر شخص کی رسائی قرآن مجید تک کردی ہے۔ ہر شخص اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کے فروغ و تشہیر کے لیے محنت کرے۔ میری آرزو ہے کہ پاکستان میں کوئی گھر اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا سے خالی نہ رہے۔

  • اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی طرح حدیث کا بھی 15جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا تیار ہوچکا ہے۔ ان شاء اللہ اگلے سال ربیع الاول میں وہ بھی منظر عام پر آجائے گا، جس میں 40سے 50 ہزار تک موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

مہمانانِ گرامی کے اظہارِ خیالات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اس افتتاحی اور تعارفی گفتگو کے بعد اس تقریب میں شریک ہر طبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے مہمانان گرامی نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و فکری خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ذیل میں مہمانانِ گرامی کے اظہارِ خیالات کو نذرِ قارئین کیا جارہا ہے:

محترم ڈاکٹر طاہر حمید تنولی (سربراہ شعبہ تحقیق اقبال اکیڈمی)

آج کی یہ تقریب قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق مزید پختہ کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ یہ منہاج القرآن کا خاصہ ہے اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پوری زندگی کی جدوجہد کا طرۂ امتیاز اور پہچان ہے کہ قرآن حکیم اس ملت کا مزاج بنے اور اس ملت کے لہو میں اترے۔ اس ملت کے اٹھنے بیٹھنے کا عنوان قرآن حکیم کی تعلیم ہو۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا اس آرزو کی ایک عملی شکل ہے۔

قرآنی مضامین اور علوم و فنون کا احاطہ کرنا ناممکن ہے مگر اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں جس انداز سے مضامین کا احاطہ کیا گیاہے، وہ اپنے اندر ایک شانِ ندرت اور شانِ امتیاز رکھتا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا سے قرآن مجید کے مضامین سے آگہی ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پڑھنے والے کی ایک Approach اور ایک زاویہ نگاہ بنتا ہے، نیز پڑھنے والے کا تصورِ کائنات Develop ہوتا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا بنیادی عقیدہ، تصورات، تصورِ زندگی، مقاصد، آرزوئیں کیاہونی چاہئیں اور ان کی تکمیل کس طرح ہونی چاہئے؟ الغرض عقائد، عبادات، معاملات، سائنسز، علوم سب کا تذکرہ ہمیں اس انسائیکلوپیڈیا میں ملے گا۔

میں بطور خاص اس انسائیکلوپیڈیا میں موجود تصورِ تقدیر پربات کروں گا۔ اس تصورِ تقدیر نے صدیوں تک اس ملت کے اندر مغالطے پیدا کئے اور آج بھی جس تصورِ تقدیر کو لے کر ہم عملاً چل رہے ہیں، یہ تصور تقدیرِ وہ نہیں ہے جو قرآن مجید نے ہمیں دیا ہے۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے جب ہم قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو پڑھتے ہیں تو جس ترتیب کے ساتھ اس حقیقت کو اس کتاب میں بیان کردیا گیا ہے، وہ ہمارے اندر اُس تصورِ تقدیر کو تازہ کرتا ہے جس کو پڑھنے والا ایک ایسے انسان میں ڈھلتا ہے جو اس کائنات پر حاکم ہو، جو اس کائنات کا مقتدر اور صاحبِ اختیار انسان ہو۔

تقدیر کے موضوع پر اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں قائم کی گئی موضوعات کی ترتیب کو پڑھنے سے حقیقی تصورِ تقدیر بایں طور بھی اجاگر ہوتا ہے کہ بندہ تزکیہ کے عمل سے گزرتا ہے، بے عملی سے نکلتا ہے اور عمل کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ نیز یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی امید کے اس دامن کو تھامے رکھتا ہے کہ اللہ کا علم انسان کے علم پر حاوی ہے۔

اس انسائیکلوپیڈیا کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اسے جامعات میں طلبہ کے نصاب اور ان کے نظام تربیت کا حصہ ہونا چاہئے۔

محترم اوریا مقبول جان (تجزیہ کار/ کالم نگار/ اینکر پرسن)

قرآن مجید کا یہ دعویٰ کہ ہم نے اس کتاب میں ہر چیز کا ذکر کردیا ہے، یہ دعویٰ بہت بڑا دعویٰ ہے اور یہ دعویٰ اس وقت تک عام آدمی تک پوری بصیرت کے ساتھ تک نہیں پہنچتا جب تک قرآن مجید کے مضامین کو کھول کر لوگوں کے سامنے بیان نہ کیا جائے۔

مدتوں ہمارے ہاں تفاسیر لکھی گئیں اور تفاسیر میں لوگوں نے اپنے علم کے خزانے لٹائے، اس وقت کی ضرورت ہی یہی تھی کہ تفاسیر لکھی جائیں، اس لیے کہ لوگوں کے پاس ان کو پڑھنے کا وقت تھا لیکن اب وقت اور حالات تبدیل ہوچکے ہیں، سائنسی دور ہے، تیز رفتار دنیا ہے۔ اسی تناظر میں گذشتہ 20/25 سال سے میرے سامنے یہی سوال تھا کہ اللہ تعالیٰ کس شخص کو منتخب کرتا ہے کہ وہ قرآن مجید کا کوئی ایسا ریفرنس لے کر آجائے کہ اس تیز رفتار زمانہ کے اندر ہر شخص کو اس کے موضوع سے متعلقہ ہر شے فوری میسر آجائے۔ مثلاً:

مجھے توحید، رسالت، قوانینِ اسلام یا الحاد پر کچھ پڑھنا ہے تو مجھے اس پر قرآنی آیات ایک ساتھ اکٹھی مل جائیں۔ اس حوالے سے اشارات بہت ملتے ہیں مگرجس نظم، ترتیب اور اظہارِ بیان کے ساتھ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے اور پھر پورے قرآن مجید سے اس پر متفرق آیات کو یکجا کرکے شامل کیا گیا ہے، یہ امر حیرت کی انتہا ہے۔

گذشتہ دنوں میں جب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا انٹرویو کررہا تھا تو میرے اوپر حیرت کا ایک جہاں کھل رہا تھا کہ ایک طرف قرآنی انسائیکلوپیڈیا ہے اور آنے والے دنوں میں حدیث پر انسائیکلوپیڈیا بھی منظر عام پر آنے والا ہے، مجھے یوں لگ رہا ہے کہ اس شخصیت کے ذریعے کسی نہ کسی شکل میں خواہشات کی تکمیل ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ قرآن مجید کی خدمت منتخب لوگوں سے لی جاتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کا ایک دعویٰ ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دعویٰ کی توفیق ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو ضرور دیں گے، اقبال نے کہا تھا:

گر دلم آئینۂ بے جوہر است
گر بحرفم غیر قرآں مضمر است

روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا

’’اگر میرے دل کا آئینہ کسی خوبی سے خالی ہے اور اگر میرے دل میں قرآن مجید کے علاوہ کوئی ایک حرف بھی موجود ہے تو اے اللہ مجھے قیامت کے دن رسوا اور خوار کر دینا اور مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاؤں کے بوسے سے بھی محروم کر دینا۔‘‘

یقینا اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے بعد اس دعویٰ کا اطلاق ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس انسائیکلوپیڈیا کا نور عطا فرمائے اور میں نے یہاں جو حاضری دی ہے، اس کے صدقے اللہ تعالیٰ میری مغفرت کرے۔

محترم چوھدری محمد سرور (گورنرپنجاب)

میرے لئے یہ لمحہ عزت و تکریم کی معراج ہے کہ میں ایک ایسی پرنور و پروقار تقریب میں حاضر ہوں جس کی سعادت بہت کم انسانوں کے حصے میں آتی ہے۔ اس تقریب میں حاضری باعثِ عزت و وقار ہے اور آخرت میں بھی نجات، انعام اور سرخرو ہونے کا سبب ہے۔

شیخ الاسلام نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی صورت میں قوم کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ بلاشبہ یہ عظیم کام نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن ا س سے بھی اہم کام یہ ہے کہ انہوں نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو عوام تک پہنچایا اور ان کے دلوں اور ذہنوں پر قرآن کے ابدی پیغام کو ہمیشہ کے لیے ثبت کرنے کی پرخلوص سعی کی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی شخصیت کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔

محترم سید سلیمان گیلانی (معروف شاعر)

محترم سید سلیمان گیلانی نے منظوم انداز میں خراج تحسین کچھ یوں پیش کیا:

شیخ الاسلام کی تحریروں میں ہے وہ پیغام
ایسا پیغام کہیں جس کو سراسر الہام

ان کے پیغام کا ہے مرکزی نقطہ توحید
یہی نقطہ ہے اوجِ بشریت کی کلید

ان کا پیغام ہے پیغامِ نبوت کا امین
رہنما اک یہی پیغام ہے دنیا ہو کہ دین

ان کے پیغام میں ہے مکی حجازی کی تڑپ
مومن و مخلص و جانباز کی غازی کی تڑپ

ان کی آواز ہے اقبال کی آواز کے ساتھ
ان کی پرواز ہے شاہین کی پرواز کے ساتھ

ڈھونڈنے نکلو گے بھی تو تم یقینا ہے محال
ان کی تصنیفوں کی دنیا میں نہیں آج مثال

تاکہ قرآن کی دنیا میں تفاہیم ہوں عام
فائدہ جن سے اٹھا پائیں خواص اور عوام

لائے ہیں علمی خزائن کا نیا مجموعہ
جن کو وہ کہتے ہیں قرآن کا ہے موسوعہ

شیخ الاسلام کی محنت کا نتیجہ دیکھیں
آٹھ جلدوں کا یہ انسائیکلوپیڈیا دیکھیں

محترم سید صمصام شاہ بخاری (رہنما پاکستان تحریک انصاف)

یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا دور حاضر میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ میں شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کے تمام ساتھیوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا طرہ امتیاز قائم رکھا اور آج وہ پھر ایسے کام کے ساتھ آئے ہیں جو ہر مسلمان کے لیے فائدہ مند ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو زندگی عطا فرمائے۔

محترم قیوم نظامی (دانشور، ادیب، مصنف)

یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا ڈاکٹر صاحب کا عظیم کارنامہ ہے۔ اس کا انداز اس قدر عام فہم ہے کہ اس سے طلبہ و سکالرز یکساں استفادہ کرسکتے ہیں۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ میں آپ کے اس عظیم کام پر آپ کو نذرانہ عقیدت پیش کرسکوں۔ میں اپنی کم مائیگی کا اعلان کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال کے اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

محترم جنرل (ر) اعجاز اعوان (دانشور، دفاعی تجزیہ کار)

اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کا جو سلسلہ جاری کیا، وہ امت کے لیے روحانی ارتقاء ہے۔ لوح محفوظ کا آخری باب قرآن مجید کی شکل میں ہمارے پاس آیا۔ ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ایک حد تک محدود ہیں۔ اس سے آگے ہم سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے، لیکن طاہرالقادری صاحب نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں جو کاوش کی ہے، اس سے ہر عام و خاص علومِ قرآن کو سمجھ سکتا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد اس امتِ مسلمہ میں اللہ تعالیٰ کچھ ایسے بندوں کو چن لیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو اس کی مخلوق تک پہنچانے کے لیے کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم ایسی ہی ایک شخصیت سے وابستہ ہیں جو قرآن مجید سے ہمارے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

محترم مولانا سید عبدالخبیر آزاد (خطیب بادشاہی مسجد لاہور)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں جو کام کیا ہے، یہ ایک عظیم کام ہے۔ شیخ الاسلام جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو جو بھی پڑھے گا، اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس سے پہلے آپ نے عرفان القرآن کی شکل میں ترجمہ قرآن پیش کیا۔ آپ کی 550 سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں، مصر میں آپ کی شخصیت پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ جو علمی کام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب نے کیا ہے، یہ پوری امتِ مسلمہ پر ان کا احسان ہے۔

یہ انسائیکلوپیڈیا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی ضرورت تھی۔ توحید باری تعالیٰ اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ  پر کیا گیا ان کا علمی فکری کام بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اب صرف علماء ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ اور ہر بندہ اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ اور پڑھ سکتا ہے۔ یہ کام ان کی نصف صدی کی محنت کا نچوڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انسائیکلوپیڈیا کو گھر گھر لے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ شیخ الاسلام ہمیشہ امن، رواداری، محبت کے لیے دنیا کے سامنے اسلام کا پیغام بنے ہیں۔ آج بھی ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے علماء و زعماء یہاں بیٹھے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب ڈاکٹر صاحب سے محبت کرتے ہیں، اس لیے کہ آپ ایک علمی شخصیت ہیں اور آج ہم پوری دنیا میں اس کا اجالا دیکھ رہے ہیں۔

محترم ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)

قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی صورت میں جس عظیم الشان کام کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سرانجام دیا ہے، اس کے بارے میں میں قرآن مجید ہی کی آیت مبارکہ سے انہیں خراج تحسین پیش کروں گا کہ

اِنَّ ذٰلِک مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر.

’’یہ بہت بڑے کاموں میں سے ایک کام ہے۔‘‘

ہمارا معاشرہ قرآن مجید کو صرف کتابِ تلاوت اور کتابِ برکت کے طور پرجانتا ہے، بلاشبہ یہ کتابِ تلاوت و برکت ہے مگر یہ کتابِ ہدایت و حکمت اور کتاب علم و عمل بھی ہے۔ یہ کتابِ ذکر وفکر بھی ہے، یہ کتاب تفکر و تدبر بھی ہے، یہ کتاب قانون و دستور بھی ہے۔ اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں ان تمام موضوعات پر سب کچھ موجود ہے۔ یہ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ اہلِ علم ہمارے اندر موجود ہیں اور دینی ضروریات کے مطابق اپنی خدمات کو انجام دے رہے ہیں۔

محترم خواجہ معین الدین کوریجہ (آستانہ عالیہ کوٹ مٹھن شریف)

صدیوں بعد جب کوئی شخصیت پیدا ہوتی ہے تو اس کے سامنے سارا علم، دانش اور ادراک جواب دے جاتا ہے۔ جو شخصیت صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے تو پھر صدیاں اس کے کام کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی ایک تقریب میں اس شخصیت اور ان کی خدمات پر مکمل بات کرسکیں۔ میں شیخ الاسلام کی خدمت میں صرف یہ شعر عرض کروں گا کہ:

دوستی کا دعویٰ کیا، عاشقی سے کیا مطلب
ہم تیرے فقیروں میں، ہم تیرے غلاموں میں

محترمہ ڈاکٹر غزالہ حسن قادری (ممبر سپریم کونسل MQI)

قرآن مجید ایک عظیم الشان کتاب ہے جو تمام کائنات کے علوم اور مسائل کے حل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس صورت حال میں اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی کیا خصوصیت و افادیت ہے؟ اور ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟

بدقسمتی سے گزشتہ کچھ صدیوں سے قرآنی علم اور انسانی زندگی اور نئے پیش آمدہ مسائل کے درمیان تعلق ختم ہوچکا ہے۔ انسانی معاشرہ بہت زیادہ گھمبیر ہوچکا ہے، قرآنی علوم کو آسان اور عام فہم انداز میں عوام تک نہیں پہنچایا گیا۔ بالخصوص نئی نسل اپنی معاشرتی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کی طرف رجوع نہیں کرتی، اس لیے کہ انہیں اس کو سمجھنے اور اس کے مفاہیم و مطالب تک پہنچنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی علوم بھی ہر آئے روز کمزور سے کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمیں حاصل اسلامی علم اس حد تک کم ہے کہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ ہم تمام مجموعی طور پر قرآنی علوم کا اپنی عملی زندگیوں میں اطلاق کرنے اور اس کو عامۃ الناس تک پہنچانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم فرمایا اور ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسا مجدّد عطا فرمایا جس نے ہمارے تعلق کو قرآن مجید سے مضبوط کرنے کے لیے علمی و فکری کاوشیں کیں۔ انہوں نے نہایت ہی عام فہم، آسان اور پراثر طریق سے اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں قرآنی علوم کو بیان کیا۔ انہوں نے بدلتے ہوئے زمانے کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق اور ہر خاص و عام کی ذہنی سطح کے مطابق اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو ہماری ہدایت و رہنمائی کے لیے مرتب کیا۔ انہوں نے نئی نسل کا تعلق قرآن مجید سے قائم کیا۔ ہم جہالت کی خلیج میں تھے مگر شیخ الاسلام نے ہمیں قرآنی علوم کی روشنی کے ذریعے ان اندھیروں سے نکالا۔

اگر ہم آج مایوسی یا تنہائی کا شکار ہیں، اصلاح کے حوالے سے فکر مند ہیں، قرآنی ہدایت کے طالب ہیں تو اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو اٹھائیں تو مایوسی اور تنہائی سے نکلنے اور اصلاح اعمال و احوال کے موضوعات کے تحت نہ صرف اپنی ان خامیوں اور نقائص کے اسباب کو قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں معلوم کرسکتے ہیں بلکہ ان اندھیروں سے نکلنے کا قرآنی راستہ بھی ہمیں یہ انسائیکلوپیڈیا ایک نظم کے تحت فراہم کرتا ہے۔ میں تمام خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ الاسلام کے اس عظیم کام پر ان کو سلام پیش کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمرِ خضر عطا فرمائے۔

محترم ڈاکٹر فاروق ستار ( سینئر رہنماء ایم کیو ایم)

آج میں اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں کہ اس تقریب میں شریک ہوں۔ آج کراچی سے لاہور آتے ہوئے میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد میرے دل میں بہت سے سوالات تشنہ نہیں رہے بلکہ ان کے جواب مل گئے۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا ایک روشن کوریڈور ہے جو انسان کو دینی و دنیاوی منازل تک پہنچاتا ہے۔ مذہب کے نام پر جو بہت سی دکانداری اور ٹھیکیداری ہو رہی ہے، اس کے لیے قرآنی انسائیکلوپیڈیا بہت مؤثر جواب ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے حوالے سے گفتگو کے ذریعے میری بہت ساری جستجو، تفکر اور تشویش کا بندوبست ہوگیا۔ آپ نے میرے ایک بہت بڑے سوال کا جواب اپنی گفتگو میں دے دیا کہ ہمیں لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، ان کے ذہنوں کے دریچوں کو کھولنا ہے، انہیں سوچنے اور سمجھنے کا موقع دینا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ جانیں اور پھر اس سے بڑھ کر وہ زیادہ مانیں بھی۔ آپ نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں ایک کوریڈور بناکر لوگوں کو اس رستے پر چلانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ میں آپ کی ان خدمات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

ایک چینی محاورہ ہے کہ ہم لوگوں کو محتاج نہ بنائیں بلکہ انہیں آزاد کریں، انہیں مچھلیاں پکڑ پکڑ کر نہ دیں بلکہ مچھلیاں پکڑنے کا فن سکھائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے مذہب کے نام پر جاری اجارہ داری، ٹھیکیداری کو ختم کردیا اور میری بہت بڑی خواہش کی تکمیل کا آپ نے بندوبست کردیا، اس پر میں ذاتی طور پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

آپ نے پہلے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کا دین سے کوئی تعلق نہیں، اس فتویٰ کی صورت میں آپ نے ہمیں قرآن مجید سے جوڑا اور آج پھر ایک دفعہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے ذریعے پوری امت مسلمہ کو قرآن مجید سے جوڑنے کا بندوبست فرمادیا۔

اپنے ہاتھوں میں لیے شمعِ یقین آئیں گے
اب پیمبر نہیں آئیں گے، آپ ہی آئیں گے

محترمہ ڈاکٹر صغریٰ صدف (شاعرہ، ادیبہ)

آج تک ہمیں قرآن مجید پڑھایا اور سمجھایا ہی نہیں گیا حالانکہ ہم وہ قوم ہیں جنہوں نے انسانیت کی امامت کرنا تھی۔ بڑا عالم کبھی بھی کسی ایک فرقہ کی بات نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو اپنے دامن میں سموتا چلا جاتا ہے۔ یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا ایک کتاب نہیں بلکہ معجزہ ہے ، کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسے انداز سے ایسے موضوعات بیان نہیں کیے گئے۔

محترم صوفیہ بیدار (کالم نویس، شاعرہ)

مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس روز کے لیے پیدا کیا کہ اتنی بڑی تصنیف کے لیے کچھ الفاظ کہہ سکوں۔ 1980ء کی دہائی میں جب میں پی ٹی وی میں نیوز کاسٹر تھیں تو ہم ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے پروگرام فہم القرآن کی ریکارڈنگ کا انتظار کرتے تھے۔ آپ نے جس موضوع پر بھی بات کی تو یہ آپ کی ہی شان ہے کہ اس کا حق ادا کردیا۔

آپ نے اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا میں خواتین کے حقوق اور عائلی زندگی کے موضوعات اور مسائل کے عنوانات کو بھی بیان کیا ہے جن کے بارے میں قرآن مجید ہمیں براہ راست رہنمائی عطا فرماتا ہے۔ مجھے ان میں سے خواتین کے کئی حقوق کا علم پہلی بار ہوا ہے، اس سے پہلے میں ان سے ناآشنا تھی۔ آپ نے قرآن مجید کے صفحات کو اس طرح کھولا ہے کہ

رخ سے نقاب اٹھا کہ بڑی دیر ہوگئی
ماحول کو تلاوتِ قرآں کئے ہوئے

آج آپ کو دیکھا تو آپ پر ناز ہوا۔اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔

محترم خالد پرویز (صدر انجمن تاجران آل پاکستان)

قرآنی انسائیکلوپیڈیا ایک پیغام اور اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف دین داروں سے ہی اصل دین ملتا ہے۔ دین دار اور صاحبِ علم ہی آپ تک صحیح بات پہنچاسکتے ہیں۔ یہ کتاب وہ تاریخی کام ہے، جو منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کیا مگر یہ کام ریاستیں اور حکومتیں نہ کر سکیں۔ اگر کسی نے اپنی پریشانیاں دور کرنی ہیں تو وہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا پڑھ لے، اس کتاب میں اس کے تمام مسائل کا حل ہے۔

اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کو تمام تاجر اپنے دفاتر اور گھروں میں رکھیں۔ یہ کتاب آپ کو رہنمائی اور راستہ عطا کرے گی۔ شیخ الاسلام کی جملہ خدمات قابل تحسین ہیں۔ ان کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ جس جذبے کے ساتھ ان کے کارکنان کام کررہے ہیں، میں ان تمام کو سلام پیش کرتا ہوں۔

محترم خواجہ غلام قطب الدین فریدی (آستانہ عالیہ گڑھی اختیار بخش)

عمرہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا از بزم عشق یک دانائے راز آید بروں

میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ اتنے عظیم مقصد کے لیے منعقد کئے جانے والی اس تقریب میں اظہار خیال کررہا ہوں۔ بہت سے مفسرین اور تفاسیر آئیں لیکن قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں منفرد کارنامہ صرف قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے حصے میں آیا ہے۔ یہ انسائیکلوپیڈیا اپنے اندر بہت ساری خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ خوبیاں بھی لیے ہوئے ہے کہ اس کو پڑھنے سے قرآن مجید سے ہمارا تعلق جڑ جائے گا اور اپنے تمام مسائل کے حوالے سے تمام آیات قرآنیہ یکجا ایک باب میں مل جائیں گی۔ میں شروع ہی سے آپ کا نہایت عقیدت مند ہوں۔ میں نے جب پہلی مرتبہ انہیں دیکھا تو میری کیفیت یہ تھی کہ

کتنے حسین ہیں وہ لوگ کہ جو آئے ایک بار
تو نظروں میں کیا سمائے کہ دل میں اتر گئے

میری خوش بختی ہے کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں، آج اس کا اقرار بھی کررہا ہوں۔ اس محبت کا انکار بھی ان الفاظ میں کرتا ہوں کہ:

اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں

انہوں نے ہر میدان میں کارنامے سرانجام دیئے ہیں، میری نظر میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ:

یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے

یہ عشق، محبت، امن و آشتی، تحمل و بردباری کی دولت کو عام کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ تحمل و بردباری سے تمام چیزوں کا سامنا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ دراز فرمائے اور ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔

پروانہ بات کر گیا جلنے کی آڑ میں
کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور اختصار ہے

محترم ڈاکٹر محمد اجمل قادری (جمیعت علمائے اسلام۔س)

عاشقِ قرآن جناب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ پیاری اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں کہ ایک شام میرے ہاں شیرانوالہ دروازہ لاہور میں حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی تشریف فرما تھے۔ یہاں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی تشریف آوری ہوئی تو حضرت نے مجھے فرمایا کہ ’’جب تک زندگی رہے ان سے یاری نبھاتے رہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی مبارک زندگی خود ایک مستقل قرآنی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے قادریوں کی طرف سے بہت سارے قرض اتار دیئے۔ آج کی یہ تقریب صرف ایک قرآنی انسائیکلوپیڈیا ہی کی تقریب نہیں بلکہ ایک لمبے سلسلہ کی شروعات ہیں۔ آج کی تقریب ہمیں یہ بات یاد دلاتی ہے کہ اللہ جب مہربان ہوتا ہے تو قادریوں سے وہ کام لیتا ہے جو غیر قادریوں سے ممکن نہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے علم، عمل اور صحت میں مزید وسعت عطا فرمائے۔

محترمہ بشریٰ رحمن (ادیبہ/ شاعرہ، دانشور)

فخرِ ملت جنابِ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس روحانی تقریب کو سجا کر سب دل والوں کو اس میں مدعو کرلیا۔ یہ اس امر کا اظہار ہے کہ دل اور روح کا آپس میں ایک گہرا رابطہ ہے۔ جب تم اپنے دل کو اپنی روح سے علیحدہ کرلیتے ہو تو پھر تمہیں سجدہ میں یہ صدا آتی ہے کہ:

تیرا دل تو ہے صنم آشنا تمہیں کیا ملے گا نماز میں

جب دل اور روح کے رابطہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو یاد کرتے ہیں تو پھر تمہاری عبادت مکمل ہوتی ہے۔ اس روحانی محفل میں میری سماعت کے علاوہ کوئی حِس باقی نہ تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جب بات کررہے تھے تو میری قوتِ گویائی جواب دے گئی تھی۔ بات وہی ہے جو دل میں اترتی ہے۔ شیخ الاسلام جب گفتگو فرمارہے تھے تو مجھے لگتا تھا کہ ان کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ آسمان سے اتر رہا ہے اور دلوں پر طاری ہورہا ہے۔ آپ نے اکیسویں صدی میں سب سے بڑی اور محترم کتاب لکھ کر ہمارے کئی مسائل کو حل کردیا۔ یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا نسل در نسل قیامت تک دلوں اور ذہنوں کو زندہ کرتا رہے گا، نگاہوں میں نور بھرتا رہے گا، ہاتھوں کو توانائی عطا کرتا رہے گا۔ میں انہیں مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہوں۔

محترم سردار عتیق احمد خان (سابق وزیراعظم آزاد کشمیر)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی صورت میں ایک عظیم کام کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے کئی بڑے کام ان سے لیے ہیں۔ اگر آپ نے اس ملک کے ہر خاص و عام، پڑھے لکھے اور ان پڑھ کو آئین کا آرٹیکل 63/62 یاد کرا دیا ہے جو 70 سال سے لکھا ہوا تھا لیکن کسی کے منہ سے اس انداز سے نہ سنا تھا تو مجھے یقین ہے کہ یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا بھی اللہ کی توفیق سے ہر گھر میں پہنچے گا اور پڑھا جائے گا۔ اس لیے کہ

لہجے کا درد دل میں اترتا چلا گیا
پھر یوں ہوا کہ مجھ کو پرستار کر گیا

میں جب شیخ الاسلام کے اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا پر غور کررہا تھا تو میں اس حقیقت تک پہنچا کہ جو شخصیت شیخ الاسلام کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے یہ بلاشبہ عظیم شخصیت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ایک اور بہت بڑی شخصیت چھپاکر رکھی ہے جن سے اس نے اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کا کام لیا ہے۔

یاد رہے کہ مضامین قرآن آسان بھی ہیں اور پیچیدہ بھی ہیں۔ مضامین قرآن کی کئی اقسام ہیں، مضامین قرآن مکی، مدنی، سفری، حضری، لیلی، نہاری، شمسی، قمری، ارضی، سماوی، انفرادی، اجتماعی، نفسیاتی اور اصولی تقسیم میں موجود ہیں۔ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں کہ ان کو قرآن مجید سے الگ الگ تلاش کرے اور پھر موضوع کے اعتبار سے ایک باب کے تحت ان کو یکجا بیان کردے۔ اس لیے کہ یہ مضامین ضرب و حرب والے بھی ہیں اور امن و آشتی والے بھی۔۔۔ اس میں میں تحت الارض بھی ہیں اور فوق الارض بھی۔۔۔ یہ تحت السریٰ اور فوق العرش تک کے علوم ہیں، ان سب کا قرآن مجید نے احاطہ کیا ہے اور احادیث نے ان کی تفصیل بیان کی ہے۔

مضامین قرآن کا اس طرح ترتیب دینا ایک بہت بڑا کام ہے۔ شیخ الاسلام کی اس کاوش سے یہ آسانی پید اہوگئی ہے کہ پہلے دنیا ہمارے کردار و سیرت کو دیکھ کر اسلام پر طعن کرتی تھی اور اب دنیا اس قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے ذریعے قرآن مجید کے کسی بھی موضوع پر اس کی اصل تعلیمات کو دیکھ کر مسلمانوں کو پہنچانے کی کوشش کرے گی اور اس حقیقت تک پہنچے گی کہ اگر مسلمانوں میں کوئی کمی بیشی ہے تو یہ ان کی ذاتی ہے مگر اصل پیغام حقیقی اور سچا ہے۔ اس لیے کہ ہماری نااہلیاں اسلام کے کھاتے میں پڑ رہی ہیں حالانکہ اسلام، امن، تحمل، عدمِ تشدد اور برداشت کا مذہب ہے۔

میرا یقین ہے کہ آج تہذیبوں کے تصادم کو ٹالنے کے لیے اگر کوئی کوشش ہوگی تو یہ قرآنی انسائیکلوپیڈیا وہاں ضرور Consult کیا جائے گا۔ شیخ الاسلام ایک متحمل اور مہذب سوسائٹی کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔ میرا یقین ہے کہ یہ انسائیکلوپیڈیا گلوبل ویلج کی تشکیل میں بھی دنیا کا مددگار ثابت ہوگا۔

محترم سید سعید الحسن شاہ (صوبائی وزیر مذہبی امور)

آج کی یہ مقدس مجلس، جو قرآنی انسائیکلوپیڈیا کی رونمائی کے لیے ہے، اس کا سہرا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سر ہے۔ انہوں نے خدمتِ قرآن کے باب میں وہ عظیم کام سرانجام دیا ہے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ خدمتِ قرآن میں شیخ الاسلام کی توفیقات میں مزید اضافہ کرے۔ اس پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

شاہِ عرب پر دل میرا قربان ہوگیا
ہر مغفرت کے واسطے سامان ہوگیا

الفاظ تو خدا کے ہیں، لب ہیں حضور کے
بولی جو بولی آپ نے قرآن ہوگیا

  • اس عظیم الشان اور فقیدالمثال تقریب کا اختتام آستانہ عالیہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر پاکپتن شریف سے تشریف لائے ہوئے حضرت خواجہ دیوان مخدوم احمد مسعود چشتی کی خصوصی دعا سے ہوا۔