23 مارچ یومِ پاکستان: قائدِ اعظم کا تصورِ پاکستان

ڈاکٹر صفدر محمود

زمانہ گواہ ہے کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک سچے، کھرے اور بااصول انسان تھے۔ ان کے بدترین دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کے معترف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانان برصغیر ان پر جان چھڑکتے تھے اور ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میرے نزدیک قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی راست گوئی اور عظمت کردار سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی جس کے کئی شواہد ملتے ہیں۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کوئی روحانی یا مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے کبھی ایسا دعویٰ کیا۔ وہ بار بار کہتے رہے کہ میں ’’مولانا‘‘ نہیں ایک عام مسلمان ہوں۔ نمود و نمائش، منافقت اور دہرے معیار سے نفرت کرتے تھے۔ ان کی تقریریں اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے باطن اور دل کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے تھے کیونکہ وہ ایک بے لوث انسان تھے اور ان کے پیش نظر صرف اور صرف قومی مفاد تھا جس کے حصول کے لیے انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک جدوجہد کی۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور ان کے مزاج کو ذہن میں رکھ کر ان کی تقریریں پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقاء اور عظمتِ اسوۂ حسنہ، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی جیسے احساسات و تصورات ان کے ذہن پر نقش تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریریں ان الفاظ اور ترکیبات کے ذکر سے بھری پڑی ہیں۔

بدقسمتی سے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے اس پہلو کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس لیے میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ 1939ء میں کی گئی تقریر کے چند فقرے نمونے کے طور پر پیش کررہا ہوں۔ انہیں پڑھیے اور ان الفاظ کے باطن میں جھانکئے تو آپ کو اصل جناح کا سراغ ملے گا۔ وہ جناح جو بظاہر انگریزی بولتا، مغربی لباس پہنتا اور مغربی طور طریقوں پر عمل کرتا تھا لیکن باطنی طور پر کیا تھا۔ قائداعظم کے الفاظ تھے:

’’مسلمانوں! میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی۔ میں آپ کی داد اور شہادت کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے مدافعتِ اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تو مسلمانوں کی حمایت کا فرض بجالائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بیشک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں علمِ اسلام کو سر بلندرکھتے ہوئے مسلمان مرے۔‘‘

یوم حساب، خدا کے حضور سرخروئی کا خیال، مسلمانوں اور اسلام کی سربلندی کا علم بلند کیے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضائے الٰہی کی تمنا صرف اور صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو سر تا پا سچا مسلمان اور پکا مومن ہو اور جس کا باطن خوفِ خدا کے نور سے منور ہو۔ غور کیجئے کہ جب قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تقریر کی اس وقت ان کی عمر تقریباً 53 سال تھی اور ان کی شہرت اوجِ ثریا پر تھی۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سیاست میں مذہب کے عمل دخل کو پسند نہیں کرتے تھے۔ 7فروری 1935ء کو مرکزی قانون ساز اسمبلی میں آزاد رکن کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’میں حزب مخالف کے قائد سے پوری طرح متفق ہوں کہ مذہب‘ نسل اور زبان کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے‘ مذہب انسان اور خدا کا معاملہ ہے لیکن براہ کرم غور کیجئے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں‘ وہ مذہب کا معاملہ نہیں بلکہ میں تو اقلیت کی بات کر رہا ہوں جو ایک سیاسی مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے مسائل ہیں اور ہمیں ان مسائل کو حل کرنا ہے۔‘‘

اسی تقریر میں آگے چل کر اقلیت کی تشریح کرتے ہوئے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

’’اقلیت کا مذہب‘ تمدن‘ کلچر اور بعض اوقات آرٹ میوزک بھی اکثریت سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے اقلیت کو تحفظات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں محمدعلی جناح مسلمانوں کے بحیثیت اقلیت تحفظات کیخلاف تھے لیکن کانگرس اور ہندو اکثریت کے ارادے بھانپنے کے بعد قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے خیالات میں تبدیلی آئی جو ارتقائی عمل کا حصہ ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو اقلیت کے چکر سے نکال کر ایک منفرد قوم کی حیثیت سے پیش کیا اور اسی قومیت کے حوالے سے ایک علیحدہ خطہ زمین کے حصول کو اپنی منزل بنا لیا۔

دراصل قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو زندگی بھر اقلیتوں کے مسئلے سے واسطہ رہا اور وہ اس سے نبٹنے کی کوششیں کرتے رہے۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت تھے اور اس اقلیت کے سب سے بڑے رہنما محمد علی جناح تھے۔ چنانچہ متحدہ ہندوستان کا خواب ٹوٹنے کے بعد (جس کا نقطہ عروج 1928ء کی نہرو رپورٹ کو قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے پارٹنگ آف دی ویز یعنی راستوں کی علیحدگی قرار دیا تھا) قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پہلے پہل مسلمان اقلیت کے حقوق اور بعدازاں مسلمان قوم کے حقوق کیلئے اس وقت تک مسلسل لڑتے رہے، جدوجہد کرتے رہے جب تک قیام پاکستان کے امکانات واضح نہیں ہوئے۔ مسلمان اقلیت سے مسلمان قوم کے سفر میں 1940ء کی قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان ایک طرح سے اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے بعد قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اور مسلم لیگ کا موقف یہ رہا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ہر تعریف‘ معیار اور تصور کے مطابق ایک قوم ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قومیت کی اہم ترین بنیاد مذہب تھی۔

اسی طرح جب قیام پاکستان کا مرحلہ قریب آیا تو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کیلئے سب سے اہم سوال اور مسئلہ پھر اقلیتوں کا تھا کیونکہ پاکستان میں بھی کئی مذہبی اقلیتیں آباد تھیں اور ادھر ہندوستان میں بھی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ہی تھی جس کے تحفظ کیلئے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پریشان رہتے تھے۔ چنانچہ قیام پاکستان سے چند ماہ قبل اور چند ماہ بعد تک ان سے بار ہا اقلیتوں کے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے رہے جس کی وہ بار بار وضاحت کرتے رہے۔ اس دور میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جو تقاریر کیں یا بیانات دیئے ان کا صحیح مفہوم سمجھنے کیلئے ان کا مطالعہ اس مسئلے کے تناظر میں کرنا چاہئے۔

اس ضمن میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن اور فکر کو سمجھنے کیلئے ان کی اس پریس کانفرنس کا حوالہ دینا ضروری ہے جو انہوں نے پاکستان کا گورنر جنرل نامزد ہونے کے بعد 14 جولائی 1947ء کو نئی دہلی میں کی۔ اقلیتوں کے ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’میں اب تک بار بار جو کچھ کہتا رہا ہوں اس پر قائم ہوں‘ ہر اقلیت کو تحفظ دیا جائے گا۔ ان کی مذہبی رسومات میں دخل نہیں دیا جائے گا اور ان کے مذہب‘ اعتقاد‘ جان و مال اور کلچر کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے برابر کے شہری ہوں گے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ:

’’آپ جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال قبل سیکھ لی تھی۔‘‘

سوال یہ ہے کہ تیرہ سو برس قبل مسلمانوں نے کون سی جمہوریت سیکھی تھی؟ کیا وہ سیکولر جمہوریت تھی یا اسلامی جمہوریت؟ان دونوں تصورات میں ایک واضح فرق ہے جسے ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ کہ مغربی جمہوریت کے مطابق مذہب اور سیاست ایک دوسرے سے بالکل الگ اور لاتعلق ہوتے ہیں، یہ لوگوں کا انفرادی معاملہ سمجھا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لیے اس کی سیاست بھی اسلامی اصولوں کے تابع ہے۔

اس بحث کی ایک اہم کڑی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ہے جو انہوں نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا صدر منتخب ہونے پر اسمبلی میں کی۔ یہی وہ تقریر ہے جس کی توضیح یا تشریح کر کے کچھ حضرات یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کیلئے سیکولر جمہوری نظام چاہتے تھے جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اس توضیح سے اس بنیاد پر اختلاف کرتا ہے کہ اول تو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سے ہرگز یہ مفہوم نہیں نکلتا اور دوم یہ تاثر غیر منطقی ہے کیونکہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم لیڈر کی ایک تقریر کو ان کی دوسری لاتعداد تقریروں اور بیانات سے جو انہوں نے اس سے قبل یا بعدازاں دیئے‘ الگ یا علیحدہ کر کے صحیح نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ اگست کی تقریر میں کیا کہا جو اس قدر بحث و نزاع کا سبب بن گیا۔ دراصل انہوں نے اس تقریر میں ان بنیادی مسائل کی نشاندہی کی جو پاکستان کو اس وقت درپیش تھے اور اسکے ساتھ ساتھ بابائے قوم (فادر آف نیشن) ہونے کے ناطے کچھ نصیحتیں بھی کیں۔ اس تقریر کا مکمل ادراک حاصل کرنے کیلئے پوری تقریر کو اسکے سیاق و سباق اور پس منظر میں پڑھنا ضروری ہے۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

’’ہم آپ کی مدد سے اس اسمبلی کو مثالی بنائینگے، اس اسمبلی نے بیک وقت دستور سازی اور قانون سازی کے فرائض سرانجام دینے ہیں جس کے سبب ہم پر نہایت اہم ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ حکومت کا پہلا فرض امن عامہ قائم کرنا ہے تاکہ شہریوں کی جائیداد اور مذہبی اعتقادات کی حفاظت کی جا سکے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے۔ اس اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرنے ہیں۔ ایک اور لعنت بلیک مارکیٹنگ یعنی چور بازاری ہے جس کا تدارک آپ کو کرنا ہے۔ اسی طرح ہمیں اقربا پروری اور ظلم و زیادتی کو بھی کچلنا ہے۔ مجھے علم ہے کہ کچھ لوگوں نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔میرے نزدیک اس مسئلے کا اور کوئی حل نہیں تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر ہم پاکستان کو خوشحال اور عظیم ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ہمہ وقت عوام کی خوشحالی اور بہتری پر توجہ دینا ہو گی۔ اگر آپ ماضی کی تلخیوں کو دفن کر کے رنگ و نسل اور عقیدے کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر تعاون اور برابری کی فضاء میں کام کرینگے تو آپکی ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہو گی۔ اگر ہم اس جذبے کے ساتھ کام کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثریت اور اقلیت،مسلمان اور ہندوکے درمیان تضادات ختم ہو جائیں گے کیونکہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں بھی پٹھان‘ پنجابی‘ شیعہ‘ سنی وغیرہ ہیں۔ اسی طرح ہندوؤں میں برہمن‘ وشنا‘ویش، کھتری‘ شودر‘ بنگالیا اور مدراسی ہیں۔ یہی تقسیم ہندوستان کی آزادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔ آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کسی مذہب‘ ذات یا عقیدے سے تعلق ہے‘ اس سے حکومت کا سروکار نہیں۔ کسی زمانے میں انگلستان کے حالات نہایت خراب تھے اور وہاں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور وہ اپنے ملک کے یکساں شہری ہیں۔ اگر آپ بھی اپنے سامنے یہی آئیڈیل رکھیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرق مٹ جائے گا‘ مذہب کے حوالے سے نہیں کیونکہ ہر شخص کا اپنا مذہب ہوتا ہے بلکہ سیاسی حوالے سے کیونکہ سبھی ایک ریاست کے شہری ہونگے۔‘‘

11اگست کی تقریر کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تقریرفی البدیہہ کی تھی۔ نہ ہی اسے ضبط تحریر میں لایا گیا تھا اور نہ ہی اس کے لیے تیاری کی گئی تھی۔ خود قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقریر میں کہا:

’’ میں فی الحال کوئی سوچا سمجھا بیان نہیں دے سکتا۔ میں چند ایک ایسی باتیں کہوں گا جو میرے ذہن میں آئیں گی۔‘‘

اس سے ظاہر ہے یہ کوئی پالیسی بیان نہیں تھا نہ ہی کوئی غورو خوض کے بعد لکھی ہوئی تقریر تھی۔اس تقریر کا بنیادی نکتہ تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق تھے، جس پر اس سے قبل قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ متعدد بار روشنی ڈال چکے تھے۔ وہ وقتاً فوقتاً اقلیتوں کے مساوی حقوق کے ضمن میں میثاق مدینہ کی مثال دیتے رہے تھے اوروہ اس سلسلے میں ہمیشہ میثاق مدینہ سے ہی رہنمائی اور فکری روشنی حاصل کرتے تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کے بقول اس میثاق میں تمام شہریوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر برابر کے حقوق دئیے گئے تھے۔ موجودہ دور میں مذہب سے بالاتر ہو کر سب شہریوں کو برابری کا درجہ دینا ایک سیکولر اصول سمجھا جاتا ہے لیکن آج سے طویل عرصہ قبل حضور نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے میثاقِ مدینہ کا حصہ بنا کر اسلامی اقدار کا جزو بنا دیا تھا۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ تھیوکریسی کی مخالفت کی کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا تصور موجود نہیں۔ علامہ اقبال توجمہوریت کو اسلامی اصولوں اور فریم ورک کے قریب پاتے ہیں اور اجتہاد کا اختیار بھی منتخب نمائندوں یعنی پارلیمنٹ کے سپرد کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو ایک ماڈرن اسلامی جمہوری ملک بنانا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک اسلامی اور جمہوری اصولوں میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو یہ راز کھلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں میں کبھی بھی لفظ سیکولرازم استعمال نہیں کیا جبکہ اسلام ان کی تقریروں اور تحریروں کا محور نظر آتا ہے۔

اس تقریر کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نفسِ مضمون اور مدعا اقلیتوں کو احساسِ تحفظ اور بحیثیت شہری برابری کا پیغام دینا تھا اور قوم کو اتحاد کی تلقین کرنا تھاجس میں پاکستان کی ترقی کا راز مضمر ہے کیونکہ ہندوستان میں یہ پراپیگنڈہ جاری تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو گی جہاں اقلیتوں کو غلام بنا کر رکھا جائے گا۔ اس تقریر میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کا ذکر کیا جو کہ عیسائیت کے دو فرقے ہیں، وہ اسلام اور ہندومت کی مانند دو مختلف مذاہب نہیں۔ اس تقریر سے قبل اور بعدازاں بھی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اقلیتوں کو یقین دہانیاں کراتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے کہ رواداری Tolerance اسلام کا بنیاد اصول ہے۔

چنانچہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے 14 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر ماؤنٹ بیٹن کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے بھی اپنے اسی نقطہ نظر کو دہرایا۔ ماؤنٹ بیٹن نے اقلیتوں کے حوالے سے مغل بادشاہ اکبر کی فراخدلی کا ذکر کیا تھا جس کے جواب میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

’’اکبر بادشاہ نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ اس کا آغاز تیرہ سو برس پہلے ہو گیا تھا جب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح کے بعد نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے فراخدلانہ سلوک کیا اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘

یہاں بھی انہوں نے میثاق مدینہ کا حوالہ دیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رہنما اور رول ماڈل قرار دیا۔ کچھ ہی دنوں بعد قائداعظم نے یہ باتیں اپنے ایک انٹرویو میں دہرائیں جو انہوں نے 25اکتوبر 1947ء کو ’’رائٹر‘‘ کے نمائندے کو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا:

’’میں دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریر (11 اگست) میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ اقلیتوں سے پاکستان کے شہریوں جیسا سلوک کیا جائے گا اور ان کو وہی حقوق حاصل ہونگے جو دوسروں کو حاصل ہونگے۔ پاکستان غیرمسلم اقلیتوں میں احساس تحفظ اور اعتماد پیدا کرنے کیلئے سب کچھ کرے گا۔‘‘

مشکل یہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات 11 اگست والی تقریر کی تشریح و توضیح پر تو بہت زور صرف کرتے رہے ہیں لیکن 25 اکتوبر والی تقریر کا ذکر نہیں کرتے جس میں خود قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ اگست کی تقریر کے حوالے سے اپنے مدعا کی وضاحت کی تھی۔ مختصر یہ کہ ہمارے دانشوروں کا ایک طبقہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی محض ایک تقریر کے چند فقروں کو اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے اپنا من پسند مفہوم نکال لیتا ہے اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اس سے قبل یا بعد میں کی گئی تقریروں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ یہ بدنیتی نہیں تو اور کیا ہے؟

یوں تو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تقاریر میں بہت سے حوالے ملتے ہیں جن سے اندازہ ہو گا کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے خیالات میں ایک تسلسل تھا اور وہ مسلسل پاکستان میں اسلامی جمہوری نظام کا تصور پیش کرتے رہے بلکہ وعدہ کرتے رہے لیکن اس حوالے سے چند ایک اقتباسات پیش کررہا ہوں جن سے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی سوچ اور ویژن سمجھنے میں مدد ملے گی۔

  • نومبر 1945ء میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پشاور میں کہا:

’’آپ نے سپاسنامہ میں مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان میں کونسا قانون ہو گا۔ مجھے آپ کے سوال پر سخت افسوس ہے۔ مسلمانوں کا ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک کتاب ہے، یہی مسلمانوں کا قانون اور بس۔۔۔اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہو گا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کیخلاف نہیں ہوگا۔‘‘

  • 14 فروری 1947 ء کو شاہی دربار سبی، بلوچستان میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔‘‘

  • 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’اگرہم قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کریں تو بالآخر فتح ہماری ہو گی.... میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں۔‘‘

25 جنوری 1948ء کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے استقبالیہ میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے وکلاء کے سامنے ان حضرات کو بے نقاب کیا جو ان کے حوالے سے غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے۔ اس وقت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کے گورنر جنرل بھی تھے ،اسلئے ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ ’’پالیسی بیان‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ان الفاظ پر غور کیجئے اور ان الفاظ کے آئینے میں ان چہروں کو تلاش کیجئے جنہیں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے شرارتی اور منافق کہا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

’’میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہو گی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے اسلئے کسی کو بھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘

  • فروری 1948ء میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے امریکی عوام کے نام ایک ریڈیو پیغام میں یہ واضح الفاظ کہہ کر نہ صرف ہر قسم کے شکوک و شبہات کی دھند صاف کر دی بلکہ اس بحث کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سمیٹ دیا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس سکی حتمی شکل و صورت کیا ہو گی؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا، جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو برس قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شاندار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انہی سے رہنمائی حاصل کی جائیگی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیوکریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہو گی۔‘‘

قائداعظم مسلسل یہ کہتے رہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جمہوریت، مساوات اور انصاف ہم نے اسلام سے سیکھا ہے اور اسلام نے جمہوریت کی بنیاد 1300 برس قبل رکھ دی تھی، اسلئے ہمارے لئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہونگے اور یہ کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں، عیسائیوں سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا ہم اس پر عمل کرینگے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں رکھی جائے گی وہ سازشی اور منافق ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر تمام شکوک و شبہات کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہو گا اور اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقاریر میں سماجی انصاف اور مساوات پر بہت زور دیا جو ان کے تصور پاکستان کا ناگزیر حصہ ہے۔