الفقہ: نظرِ بد کی حقیقت اور لباسِ شرعی کی حدود و قیود

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: کیا ’’البغض فی اللہ‘‘ سے مراد گنہگاروں سے قطع تعلقی ہے؟ وضاحت فرمادیں۔

جواب: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللَّهِ، وَالْبُغْضُ فِی اللَّهِ.

’’تمام اعمال سے افضل اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت کرنا اور اﷲ کے لئے دشمنی رکھنا ہے‘‘۔

(أبو داود، السنن، کتاب السنة، باب مجانبة أهل الأهواء وبغضهم، 4: 198، رقم: 4599)

درج بالا روایت اور اسی مفہوم کی دیگر روایات میں بیان کردہ البغض فی اللہسے مراد گنہگاروں سے یکسر قطع تعلقی نہیں بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بندہ مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے صدقِ ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے محبت کرے جنہیں اللہ پسند فر ماتا ہے اور دشمنی و بغض بھی اسی سے رکھے جو اللہ تعالیٰ کا مبغوض ہے۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہمارے قلبی جذبات اور معاشرتی تعلقات کی بنیاد حسد، ذاتی عداوت و ناپسندیدگی یا نفع و نقصان پر نہیں، بلکہ خالصتاً رضائے الٰہی پر مبنی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی سے محبت و تعلق رکھا جاسکتا ہے تو وہ یقیناً اللہ کے انعام یافتہ بندے یعنی انبیاء ، صدیقین، شہداء ، صالحین، علمائے حق اور اولیاء اللہ ہوسکتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ان سے سچی محبت و عقیدت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقیناً ان کی اتباع و پیروی کرے گا اور اعمالِ صالحہ بجالائے گا۔ اسی طرح جو شخص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کسی سے بغض و عداوت رکھے گا تو وہ یقیناً دشمنانِ دین ہوں گے، جو خدا کے دین کو مٹانے اور اس کے نظام کو تہ و بالا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی صورت میں بندہ مومن کا فرض ہے کہ ان دشمنانِ حق کی بیخ کنی اور دین کی سر بلندی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروکار لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی دشمنانِ حق سے دوستی و تعلق رکھنے سے روکا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّمَا یَنْهٰکُمُ ﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰـتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ.

’’اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

(الممتحنه، 60 :9)

یہ حکم محاربین یعنی ان کفار کے بارے میں ہے جو مسلح ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں اور دینِ خدا کے خلاف اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پر برسرِ پیکار ہیں۔ جہاں تک غیرحربی کفار یا عام گنہگار افراد کا معاملہ ہے تو ان سے معاشرتی تعلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَا یَنْهٰکُمُ ﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْهِمْط اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

(الممتحنه، 60: 8)

جب اللہ تعالیٰ غیر حربی یعنی امن پسند اور غیرمسلح کفار سے معاشرتی مقاطع کا حکم نہیں دے رہا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے اور عدل و انصاف کا برتاؤ رکھنے میں کوئی حرج بھی قرار نہیں دیتا تو عام مسلمانوں سے معاشرتی قطع تعلقی کس بنیاد پر روا رکھی جاسکتی ہے؟ اگر گنہگار افراد سے قطع تعلقی کرلی جائے تو ان کی اصلاح کی کیا صورت رہ جائے گی؟ پھر دعوت و تبلیغ تو صرف صلحاء کے لیے رہ جائے گی اور ایسی صورت میں اسلام کی تعلیمات عام کرنے کی صورت کیا بنے گی؟

دعائے قنوت میں و نخلع و نترک من یفجرک (جو تیری نافرمانی کرے اس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں)سے مراد بھی یہی ہے کہ ہم گنہگاروں کے عملِ بد سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں نہ کہ ان سے معاشرتی قطع تعلقی کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔

درج بالا تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برے اعمال سے اجتناب کیا جائے۔ مسلمانوں اور دینِ حق کے خلاف برسرِ پیکار کفار سے دوستی و محبت نہ رکھی جائے۔ گنہگاروں اور غیرمسلموں سے قطع تعلقی کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے۔ لہٰذا گناہ سے نفرت کی جائے، گنہگاروں سے نہیں اور کفر سے قطع تعلقی کی جائے، پُرامن کفار سے نہیں۔

سوال: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نظرِ بد کی حقیقت کیا ہے؟

جواب: نظرِ بد یا نظر لگنا ایک قدیم تصور ہے جو دنیا کی مختلف اقوام میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے صدرِ اوّل میں دشمنانِ اسلام نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے عرب کے ان لوگوں کی خدمات لینے کا ارادہ کیا جو نظر لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جس چیز کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھتے ہیں ان کے دیکھتے ہی وہ چیز تباہ ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اور ان بدنیتوں کے تمام حربے ناکام ہوگئے۔ ان کی اس شرانگیزی کو قرآن میں اس طرح سے بیان کیا گیا:

وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌ.

’’اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔‘‘

(القلم، 68: 51)

اس آیت میں نظرِ بد میں نقصان کی تاثیر ہونے کا اشارہ ہے جو کسی دوسرے انسان کے جسم و جان پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الْعَیْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَیْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَیْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا.

’’نظر حق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر کو کاٹ سکتی ہے تو نظر ہے اور جب تم سے (نظر کے علاج کے لیے) غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کر لو۔‘‘

(مسلم، الصحیح، 4: 1719، رقم: 2188)

نظرِ بد کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نظرِ بد سے بچاؤ کے لئے جھاڑ پھونک یعنی دم درود کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دم کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

رُخِّصَ فِی الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَالْعَیْنِ.

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزوں کیلیے جھاڑ پھونک کی اجازت دی: نظر بد، بچھو وغیرہ کے کاٹے پر، پھوڑے پھنسی کے لئے۔

(مسلم، الصحیح، 4: 1725، رقم: 2196)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ

اَمَرَنِی رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم اَوْ اَمَرَ اَنْ یُسْتَرْقَی مِنَ الْعَیْنِ.

’’مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا یا حکم دیا کہ نظر بد لگنے کا دم کیا کرو۔‘‘

(بخاری، الصحیح، 5: 2166، رقم: 5406)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

اَنَّ النَّبِیَّ لی الله علیه وآله وسلم رَاَی فِی بَیْتِهَا جَارِیَةً فِی وَجْهِهَا سَفْعَةٌ فَقَالَ اسْتَرْقُوا لَهَا فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَةَ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے گھر کے اندر ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر نشانات تھے۔ ارشاد فرمایا کہ اس پر کچھ پڑھ کر دم کرو کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔‘‘

(بخاری، الصحیح، 5: 2167، رقم: 5407)

نظرِ بد سے علاج کے لئے معوذتین پڑھ کر دم کیا جائے اور یہ دعا بھی کی جائے جو حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام آکر آپ کو دم کرتے اور یہ کلمات کہتے:

بِاسْمِ ﷲِ یُبْرِیکَ وَمِنْ کُلِّ دَائٍ یَشْفِیکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ کُلِّ ذِی عَیْنٍ.

’’اللہ کے نام سے، وہ آپ کو تندرست کرے گا اور ہر بیماری سے شفا دے گا اور حسد کرنے والے حاسد کے ہر شر سے اور نظر لگانے والی آنکھ کے ہر شر سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے گا۔‘‘

قرآن مجید کی آخری دو سورتوں کو معوذتین کہتے ہیں اُن سے بھی نظربد کا علاج کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

اَنَّ النَّبِیَّ کَانَ یَنْفُثُ عَلَی نَفْسِهِ فِی الْمَرَضِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ فَلَمَّا ثَقُلَ کُنْتُ اَنْفِثُ عَلَیْهِ بِهِنَّ وَاَمْسَحُ بِیَدِ نَفْسِهِ لِبَرَکَتِهَا.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس مرض کے اندر جس میں آپ کا وصال ہوا، معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ جب آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں انہیں پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی اور بابرکت ہونے کے باعث آپ کے دستِ اقدس کو آپ کے جسم اطہر پر پھیرا کرتی۔‘‘

(بخاری، الصحیح،5: 2156، رقم: 5403)

درج بالا آیات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نظرِ بد کوئی وہمہ یا توہم پرستی نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کے اثرات ظاہر ہونے پر دَم کرانا درست ہے۔

سوال: لباس کی شرعی حدود و قیود کے متعلق آگاہ فرمادیں۔

جواب: سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ کوئی لباس انگریزی، عیسائی، ہندو یا یہودی نہیں ہے۔ ہر وہ لباس جو باپردہ ہو، گرمی سردی کی شدت سے بچائے اور پہنا ہوا اچھا لگے وہ اسلامی لباس ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس لیے مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنے والا ہر لباس پہنا جا سکتا ہے۔

اسلام ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے ثقافتی لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے، اگر وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں کیونکہ ہر علاقے، ثقافت اور کلچر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ اسلام کسی ایک علاقے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ ایک آفاقی دین ہے جس نے ساری دنیا میں قابلِ قبول بننا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام آفاقی انداز اپنائے۔ کسی ایک علاقے کے لباس، زبان اور رسوم کو لاگو نہ کرے۔

ہر دور اور ہر علاقے کے اپنے رنگ ہوتے ہیں، جو عربوں سے نہ بھی ملتے ہوں یا عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہ بھی ہوں تو وہ قابلِ قبول ہوتے ہیں۔اگر برِ صغیر پاک و ہند کے اکثر مسلمانوں کا لباس دیکھا جائے تو وہ شلوار قمیص ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شلوار قمیص پہننے کی کوئی مستند روایت نہیں ملتی اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا۔ اس کے علاوہ کھانے، پینے، سواری کرنے اور دیگر بہت سی اشیاء ہم ایسی استعمال کرتے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال نہیں کیا۔ جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑیاں، موٹر سائیکل، اے سی، پنکھے، کھانے پینے میں برگر، بوتل، پیزے وغیرہ اور ہزاروں ایسی اشیاء جن کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔

رہا لباس کا مسئلہ تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ مدینہ اور عرب علاقوں کے یہودی اور عیسائی جبّے پہنتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر جبہ پہننے کو ناجائز اور غیر اسلامی قرار نہیں دیا بلکہ خود پہن کر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی لباس غیر اسلامی نہیں ہے بشرطیکہ وہ باپردہ اور دیدہ زیب ہو۔

ٹائی لباس کا حصہ ہے، مذہب کا نہیں۔ کوئی بھی اس کو عیسائیت کا حصہ نہیں سمجھتا۔ اگر ٹائی عیسائیت کی علامت ہوتی تو عیسائی اپنے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو یہ نہ پہننے دیتے اور دوسری طرف ہر ٹائی پہنے ہوئے کو عیسائی سمجھا جاتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ پینٹ کوٹ اور ٹائی کو عیسائی لباس قرار دے دیا جائے اور ہر ٹائی لگانے والے کو عیسائی سمجھا جائے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان ہونے کے لیے کسی ایک لباس کو لازمی قرار نہیں دیا تو ہمارا بھی یہ فریضہ ہے کہ ہم امت پر تنگی نہ کریں۔