نوجوان نسل کی تربیت: فکرِ اقبال کی روشنی میں

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

اکیسویں صدی میں ہم نے اپنی نوجوان نسل کی علمی و فکری اور نظریاتی تربیت کس طرح کرنی ہے؟ اس حوالے سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اور سوچ بہت اہم ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس قوم کی تعمیر کا راستہ صرف اقبال ہی کا راستہ ہے۔ ہمارے پاس تعمیرِ زندگی، حالات کو سمجھنے اور بطورِ تہذیب اپنے آپ کو آگے لے کر چلنے کی فکرِ اقبال کے علاوہ کوئی ایسی سبیل موجود نہیں ہے جہاں ہمیں ہمارے سوالات کا جواب ملتا ہو اور مسائل کا ایک قابلِ فہم حل میسر آسکے۔ یہ کہنا بے جا اور مبالغہ نہیں ہوگا کہ اگر ہم اقبال کو نظر انداز کرکے آگے بڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تہذیبی، سیاسی اور ملّی طور پر آج سے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے رہ کر سوچ رہے ہیں۔ اگر ہم اقبال کو ردّ کرکے مستقبل میں قدم رکھتے ہیں تو ہم بہت ہی فکری پسماندگی کے ساتھ قدم رکھ رہے ہوں گے۔

اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دور یعنی مستقبل میں ہمارا کوئی بامعنی و بامقصد کردار ہو تو ہمیں نسلِ نو کی تربیت کے ذریعے نسلِ نو کے شعور میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ ہم نے انہیں مقصدیت سے آشنا کرنا ہے اور انہیں ان کے منصب کا احساس دلانا ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں کرلیتے اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوگا اور ہم جو کچھ بھی کرتے چلے جائیں وہ سارے کا سارا Cosmetics اور Ritual کی حد تک رہ جائے گا، اس سے کوئی واضح تاثیر نہیں ہوگی۔

جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ ہم نے نسلِ نو کے اندر ایک مقصدیت پید اکرنی ہے اور انہیں ان کے منصب سے آشنا کرنا ہے تو یہ امر ذہن میں رہے کہ پاکستان کا قیام جس مقصد کے لیے ہوا ہے اور ہمارے بانیان کے پیش نظر جو بڑا مقصد تھا، نسل نو کے شعور میں اسی مقصد کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر ہم اس مقصد کے حصول کا احساس اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم منزل کی طرف چل پڑے ہیں۔

قیامِ پاکستان کا مقصد

پاکستان کا قیام کس مقصد کے لیے ہوا؟ بہت سارے حوالے ہیں جو یہاں بیان کیے جاسکتے ہیں مگر میں یہاں صرف ایک حوالہ دینا چاہوں گا۔ جب قرار دادِ پاکستان منظور ہوگئی اور برصغیر کی مسلمان سیاسی قیادت نے اپنی منزل کا تعین کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا تو 43-1942ء میں قائداعظم نے ایک کمیٹی قائم کی جس کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ اس منشور (Manifesto) کے خدوخال کو طے کرے جس کے تحت آنے والی ریاست نے وجود میں آنا ہے۔ جب اس کمیٹی نے وہ Manifesto تشکیل دیا تو اس میں بہت سی باتیں تھیں جس میں سے ایک بات یہ تھی کہ مستقبل میں اس ریاست کا نظریاتی تشخص کیا ہوگا؟ اس کی Ideology کیا ہوگی؟ بعد ازاں علامہ راغب الاحسن کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ساٹھ صفحات پر مشتمل اس Manifesto کا ایک خلاصہ تیار کیا تھا جو لیاقت علی خان کو پیش کیا گیا تاکہ وہ اس منشور کے بارے میں قائداعظم کو بریف کرسکیں۔ اس منشور (Manifesto) میں نظریہ (Ideology) کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ:

’’اس ریاست کی Ideology فکرِ اقبال ہوگی۔ جس کے مطابق ہم نے Social Justice یعنی سماجی انصاف کو اس نوزائیدہ ریاست کے اندر یقینی (Ensure) بنانا ہے۔‘‘

اگر ہم نے واقعی اقبال کی فکر کو کسی حقیقت میں بدلنا ہے تو ہمیں کسی ادارے، کسی حکومتی سرپرستی اور حکومتی اقدام کا انتظار کیے بغیر اپنی نسلِ نو کے اندر ایک منظم (Systematic) طریقے سے وہ شعور اور احساس پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے اسے اپنے منصب سے آگہی ہو، وہ اپنی عظمت اور زندگی کی مقصدیت سے آشنا ہو اور اس مقصد کے لیے جینا شروع کرے۔ جب اسے مقصد کا شعور ملے گا تو راستہ کی طلب اور پیاس بھی پیدا ہوجائے گی اور جب پیاس پیدا ہو تو پھر اس پیاس کا حل بھی نکل آتا ہے۔ لیکن اگر اس کے بغیر ہم کوئی فکری غذا دینے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے کہ وہ ان کا جزوِ بدن نہیں بنے گی۔

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر، شاعری اور آپ کی نثر اتنی جامع ہے کہ اس کے اندر ہمیں نہ صرف نوجوان نسل کی مجموعی تربیت بلکہ نوجوان نسل کے لیے تعلیمی نظام کو سدھارنے اور تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے سارے پہلوئوں کا احاطہ ملتا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ مروّجہ تعلیمی نظام کی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر

شیدائی غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر

اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر

علامہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے اب بتایا جارہا ہے کہ تعلیم حاصل کرو تمام ملّی مسائل بھی حل ہوجائیں گے اور اجتماعی امراض بھی دور ہوجائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس تعلیم کی مجھے بات بتائی جارہی ہے، وہ تعلیم معبودِ حاضر کی پوجا کی بات کرتی ہے اور جو معبودِ غائب یعنی ذاتِ حق ہے اور جو نظام مبنی بر وحی ہے، مجھے اس سے دور کرتی اور محسوسات میں قید کرتی ہے۔

افسوس! آج انسان نے یہ ’’بڑا کام‘‘ کیا ہے کہ جو زندگی کی معمولی ضرورتیں تھیں، ان کو زندگی کا بڑا حصہ دے دیا ہے اورجو زندگی کی اصل اور بڑی ضرورت تھی، اس کو زندگی کے چند لمحے بھی نہیں دیئے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر ایسے تعلیمی نظام ہی سامنے آتے ہیں جیسے ہمارے ہاں رائج ہیں۔ موجودہ تعلیمی نظام پر چلنے کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟ بقولِ اقبال:

لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری
‘‘رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد‘‘

یعنی یہ تعلیمی نظام تو میں نے اپنالیا اور اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے تھوڑی دیر رک گیا کہ اپنے پائوں سے کانٹا نکال لوں۔۔۔ کانٹا پتہ نہیں نکلا کہ نہیں نکلا، لیکن جب میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ قافلہ بہت دور جاچکا تھا جس کا میں حصہ تھا، اب شاید اس کی گرد بھی مجھے نظر نہیں آرہی۔ یعنی اس تعلیمی نظام نے ہماری زندگیوں کو ہماری بنیادی منزل اور بنیادی مقصد سے دور کردیا۔

علامہ محمد اقبال کی چار انقلابی تحریریں

سوال یہ ہے کہ نوجوان نسل کو فکرِ اقبال سے روشناس کرنے کے لیے بات شروع کہاں سے کرنی ہے؟ اس کا اہتمام کیسے کرنا ہے؟

اس کے لیے ہمیں اپنی نسلِ نو کے اندر ایک اجتماعی احساس پیدا کرنے کی تحریک شروع کرنی ہے جسے علامہ اجتماعی ’خودی‘ کہتے ہیں۔ اس کے لیے ابتدائی قدم یہ ہے کہ تعلیمی اداروں، اساتذہ کی تربیت کی ورکشاپس اور میڈیا کے ذریعے معاشرے میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی درج ذیل چار تحریریں نوجوان نسل کے اندر عام کرنے کی کوشش کریں:

  1. علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا خطبۂ الٰہ آباد
  2. ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ Sociological View of Muslim Community
  3. اسلام اور وطنیت
  4. جاوید نامہ کی آخری نظم ’’خطاب بہ جاوید‘‘

جب تک کہ ہم علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام کو لوگوں کے شعور کا حصہ نہیں بنائیں گے، لوگوں کے لیے ضرورت کے طور پر پیش نہیں کریں گے، لوگوں کو ان کے مسائل کے حل کی جگہ کی نشاندہی نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم مقصدیت سے ناآشنا رہیں گے۔

1۔ خطبہ الٰہ آباد کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

اگر میں ایک جملے میں اس کا تعارف عرض کروں تو وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام جس بنیادی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے وجود میں آیا، وہ ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ ہے اور اگر آپ اس کلمہ طیبہ کی سیاسی تعبیر کسی تحریر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو خطبہ الٰہ آباد میں ملے گی۔ خطبہ الٰہ آباد کی تین حیثیتیں ہیں:

  1. اس کا پہلا حصہ وہ ہے جس میں علامہ نے اس دور کے مسائل کو بیان کیا، جو اس وقت ان کے سامنے تھے۔
  2. اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جس میں علامہ نے اُن مسائل کا حل پیش کیا اور یہ حصہ قیامِ پاکستان تک Relevant رہا۔
  3. اس کا تیسر احصہ ہماری تہذیب سے متعلق ہے۔ یہ حصہ وہ ہے جس کو بیان کرنے سے پہلے علامہ نے یہ کہہ دیا:

میری باتوں کو کسی جماعت کے رہنما، یا کسی رہنما کے کارکن کے طور پر نہ سنئے گا بلکہ میں تم سے یہ باتیں ملتِ اسلامیہ کے مافی الضمیرکے اظہار کے طور پر کررہا ہوں۔ اسلام ایک تقدیر ہے اور اس کا فیصلہ کسی اور طاقت کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا۔ اس طرح کرنا ایک موت ہے اور ہم یہ قبول نہیں کرسکتے۔

یہ خطبہ الٰہ آباد ہماری قومی اور ملی زندگی کے ساتھ اتنا Relevantہے کہ کاش ہم اس کا کوئی شعور دے سکتے۔ افسوس کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پورے نصاب میں کہیں ہمیں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

2۔ مسلم سوسائٹی بطور سوسائٹی کیا ہے؟

اپنی دوسری تحریر ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں علامہ محمد اقبال بتاتے ہیں کہ اسلامی سوسائٹی کے Constitutionsکیا ہیں؟ اسلامی سوسائٹی بنتی کیسے ہے؟

3۔ اسلام اور وطنیت

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تیسری تحریر ’’اسلام اور وطنیت‘‘ ہے۔ جس میں علامہ فرماتے ہیں کہ مقامِ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کیا ہے؟ مقام محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یہ ہے وہ کام جو انسانیت صدیوں نہ کرسکی، ایک ہستی نے 23 سال کے عرصے میں کرکے دکھادیا۔ وہ کام یہ ہے کہ ہم نے ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جو رنگ و نسل کا پجاری نہ ہو، جو علاقے اور زبان کی قید میں نہ ہو، جو نسلِ انسانیت کے احترام پر استوار ہو اور ایسا معاشرہ صرف اسلام قائم کرسکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا خطبہ حجۃ الوداع ایسے معاشرے کے بیان کی خوبصورت مثال ہے۔

افسوس! ہم کن بتوں میں پڑے ہوئے ہیں جن بتوں نے پاکستان بننے کے بعد ہمارے وجود کو دو لخت کیا اور آج تک وہی صورتحال چلی آرہی ہے۔ ہم ایک بت کو ختم کرتے ہیں تو وہ اور بچے دے دیتا ہے۔

اگر ہم علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کو نسلِ نو کے سامنے واضح کردیں تو ان کے شعور کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔

4۔ خطاب بہ جاوید

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی چوتھی تحریر جس کا مطالعہ نسلِ نو کی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، وہ ’خطاب بہ جاوید‘ ہے یعنی نئی نسل سے کچھ باتیں۔ نوجوانوں کے لیے یہ پورا پروٹوکول آف لائف ہے۔ آج کے جوان کو کیسا ہونا چاہئے؟ علامہ اس میں ایک ایک بات بتا رہے ہیں کہ ان میں رزقِ حلال ہونا چاہئے، ان میں صدقِ مقال ہونا چاہئے، ان میں شرم و حیا ہونی چاہئے، ذکر اور فکر کی کثرت ہونی چاہئے:

حفظ جاں ہا ذکر و فکر بے حساب
حفظ تن ہا ضبطِ نفس اندر شباب

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ایک ایک بات کو اتنے موثر انداز میں یہاں بیان کرتے ہیں کہ آپ کو لگے گا کہ اقبال بات نہیں کررہا بلکہ رومی بات کررہا ہے، سعدی اور ثنائی بول رہا ہے، کوئی ہمارے دورِ اوّل کا عطار بول رہا ہے۔ علامہ کے لہجے کے درد و سوز کا عالم یہ ہے کہ جب اس نظم کو ختم کرتے ہیں تو فرماتے ہیں:

سرِّ دین مصطفی گویم ترا ہم بقبر اندر دعا گویم ترا!

اے نوجواں مسلم! میں نے زندگی بھر یہ کیا کہ تمہیں یہ سمجھا سکوں کہ دین کا مطلب کیا ہے؟ اور تیرے ساتھ میری محبت کا عالم یہ ہے کہ میں قبر میں جا کر بھی تیرے لیے دعائیں کرتا رہوں گا۔

اقبال زمین کے نیچے جاکر بھی اس امت کے نوجوان کو یاد رکھنا چاہتا ہے۔ لہذا اے نوجوانوں! تم اسے مت بھولو جو قبر میں بھی جاکر تمہارے لیے دل سوزی رکھتا ہے۔ اقبال کو تھوڑا سا وقت تو دے دو، تھوڑا سا اس کی فکر کو سمجھ لو، تمہاری اقبال مندی لوٹ آئے گی۔

’خطاب بہ جاوید‘ میں علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تقویٰ کو سمجھنانے کے لیے ایک مثال دی ہے کہ سلطان محمود بیگڑہ ہندوستان کی ایک ریاست کا حکمران تھا۔ جیسا کہ ہر بڑے راجے، مہاراجے اور شہزادے کا ایک شوق ہوتا ہے، اس کا شوق یہ تھا کہ وہ گھوڑے پالتا تھا اور اس کے پاس بڑے اعلیٰ نسل کے گھوڑے تھے۔ اس کا ایک گھوڑا جس پر وہ خود سواری کرتا تھا، بیمار ہوگیا۔ اس نے اس گھوڑے کا بڑا ہی علاج کروایا لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ بالآخر ایک ایسا طبیب آیا جس نے چند دنوں میں گھوڑے کو صحت مند کردیا۔ سلطان محمود کی خدمت میں وہ گھوڑا پیش کیا گیا کہ یہ ٹھیک ہوگیا ہے تو وہ بڑا خوش ہوا اور اس نے پوچھا کہ یہ گھوڑا ٹھیک کیسے ہوا؟ ہم نے تو بڑے بڑے طبیب اور بڑی بڑی دوائیں آزمائیں، سب بے اثر رہیں؟

طبیب نے کہا کہ میں نے اس کو ایک ایسی دوائی دی ہے جس میں شراب بھی تھی۔ سلطان نے جب یہ سنا کہ اِسے شراب سے تیار کردہ دوائی دی گئی ہے تو اس نے حکم دیا:

اب اس گھوڑے کو میرے اصطبل سے نکال دو۔ میں زندگی بھر اس گھوڑے پر نہیں بیٹھوں گا۔

علامہ کہتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہوتا ہے۔

اگرچہ پیرِ حرم وِردِ لا اِلٰہ دارد
کجا نگاہ کہ برندہ تر ز پولاد است

’’پیرِ حرم کے پاس لا اِلٰہ ہے لیکن اس کے پاس وہ نگاہ نہیں ہے جو فولاد پر بھی پڑے تو فولاد پگھل جائے۔‘‘

جب تک ہمارے کردار کے اندر اقبال کی فکر نہیں آئے گی، اس وقت تک ہم مقصد آشنا نہیں ہوسکتے۔ ہم نے نوجوان کے اندر اس کردار کی طاقت کو پیدا کرنا ہے۔ یعنی یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مثالی نوجوان ہو لیکن خدا کے تصور اور ظاہری اور باطنی طہارت سے خالی ہو۔ اسی طرح علامہ کہتے ہیں کہ جب سچائی گفتگو میں ہو تو صدقِ مقال ہے اور جب سچائی عمل میں آئے تو رزقِ حلال ہے، اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ رزقِ حلال اور صدقِ مقال سے بندۂ مومن کی جلوت و خلوت میں جان آتی ہے، جرأت آتی ہے اور حق گوئی آتی ہے۔ اسی لیے علامہ نے کہا:

عزمِ ما را بہ یقیں پختہ ترک ساز کہ ما
اندر ایں معرکہ بے خیل و سپہ آمدہ ایم

’’اے میرے اللہ! میں اپنے قافلے کو لے کر میدانِ عمل میں اتر گیا ہوں، میرے پاس کچھ نہیں، کوئی ہتھیار نہیں، تو یقین کی طاقت عطا کر۔‘‘

اس کی مثال قیام پاکستان ہے کہ جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ کردار کی طاقت تھی جس نے یہ کرامت کر دکھائی۔

ہمیں بہت ہی عملی انداز میں آگے چلنا ہے اور وہ عملی (Practical) انداز یہ ہے کہ ہم کم از کم علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب تحریروں کو نوجوانوں میں لے کر جائیں، اس طرح شاید ہم وہ ذہن تیار کرنے کے قابل ہوجائیں جن کی ترجیح فکرِ اقبال ہو۔ ہمارے کرنے کا جو کام ہے وہ ہم کریں تو پھر اللہ تعالیٰ خود اس کے نتائج عطا فرمائے گا۔ اس لیے کہ اس کا فرمان ہے کہ تم مجھے بھولو گے تو میں تمہیں بھولوں گا اور اگر تم مجھے یاد رکھو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ جب بندہ اس کے لیے سنجیدہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس بندہ کے لیے سنجیدہ کردیتا ہے۔

خدا آں ملّتے را سروری داد
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت

بہ آں ملّت سروکارے ندارد
کہ دہقانش برائے دیگراں کشت

’’اللہ تعالیٰ اُس قوم کو سرداری عطا فرماتا ہے جو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھتی ہے اور اُس قوم سے کوئی سروکار نہیں رکھتا جس کے کسان دوسروں کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔‘‘