شہدائے ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے سیاسی رہنماؤں کا عزم

نوراللہ صدیقی

17 جون 2014ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے، اس دن ریاستی ادارے پولیس نے حکومتِ وقت کی ایماء اور ہدایت پر ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ اور نہتے شہریوں پر بارود کی بارش کی، دو خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ سمیت 14 افراد کو شہید اور 100 کو زخمی کر دیا جن میں بیشتر آج پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی زیر علاج اور معذور ہیں۔ قتلِ عام کا یہ منظر پوری قوم نے قومی میڈیا کے ذریعے براہِ راست دیکھا اور کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو اشکبار نہ تھی۔ سیاسی، سماجی، مذہبی حلقوں نے اس ظلم اور بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور سب نے ظلم اور بربریت کے ذمہ داروں کے خلاف کڑی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں متعدد اے پی سی بھی منعقد ہوئیں جن میں کم و بیش تمام بڑی جماعتوں نے شرکت کی اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سے اظہار یکجہتی کیا اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے موقف کی حمایت کی۔

5 ویں برسی کے موقع پر ہم زیر نظر تحریر کے ذریعے ایک بارپھر ان تمام جماعتوں کو ان کا وہ عہد یاد کروائیں گے جو انہوں نے انصاف کی فراہمی کے لیے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سے کیا تھا۔

آل پارٹیز کانفرنس 29 جون 2014ء

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد پہلی اے پی سی 29 جون 2014ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صدارت میں منعقد ہوئی، اس اے پی سی میں 33 سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں نے شرکت کی۔

  • چودھری شجاعت حسین نے اے پی سی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے شمالی وزیرستان کے فوجی آپریشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کروایا جس میں پرامن کارکنوں کا قتل عام کروا کر ریاستی دہشتگردی کی گئی۔
  • پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا انتہائی دردناک باب ہے، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس واقعہ کا ذمہ دار ہے، انہیں چاہیے فوری استعفیٰ دیں، یہ سیاست کا نہیں انسانیت کا معاملہ ہے، ظلم یہ ہے کہ قاتلوں نے مظلوموں پر ہی ایف آئی آر درج کروا دی۔
  • میاں محمود الرشید نے کہا کہ انہوں نے 17 جون 2014ء کو سانحہ کے وقت پنجاب اسمبلی میں زبردست احتجاج کیا اور آئندہ اجلاس میں اپنی تحریک التواء کے تحت اس اہم ایشو پر بحث کی جائے گی۔
  • شیخ رشید احمد نے اے پی سی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واسا کے گڑھے میں گرنے والے بچے کی خبر وزیراعلیٰ کو ہو جاتی ہے اور ان کے ہمسائے میں 14افراد شہید، 80 کو گولیوں سے زخمی کیا گیا اور حیرت ہے انہیں اس کا علم نہیں تھا۔ سب جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پر ظالم حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر آ کر ظلم کی رات کے خاتمہ تک جدوجہد کرنی چاہیے۔
  • سردار آصف احمد علی نے کہا کہ شہباز شریف نے جنرل ڈائر کا کردار ادا کرتے ہوئے کارکنوں کا قتل عام کیا، ان شہداء کاانصاف عدالتوں اور اسمبلیوں میں نہیں اللہ کے پاس اور سڑکوں پر ملے گا۔
  • ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سرکاری دہشت گردی سے پاکستان عوامی تحریک کے پرامن کارکنوں کا قتل عام کر کے انہیں اپنے مشن انقلاب سے دور رہنے کے لیے ڈرایا گیا۔
  • سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ وزیراعلیٰ (شہباز شریف) قاتل اعلیٰ ہے، شہداء کے ورثاء کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
  • مجلس وحدت المسلمین کے رہنما راجہ ناصر عباس نے کہا کہ خواتین کا حجاب نوچنا اور قتل کرنا مردوں نہیں بلکہ نامردوں کا کام ہے۔ ظالم شریف حکمرانوں نے ماڈل ٹاؤن میں یہی کیا۔
  • جماعت اسلامی کے رہنما نذیر احمد جنجوعہ نے کہا کہ موجودہ ظالم حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ریاستی دہشت گردی اور ظلم و بربریت کی انتہا کی۔
  • تحریک ہزارہ کے رہنما بابا حیدر زمان (مرحوم) کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن نے دورِ غلامی کی یاد تازہ کر دی، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں انسانیت کا خون بہایا گیا۔
  • علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا کہ عوامی تحریک کے پرامن کارکنوں کی شہادت کا قصاص لینا چاہیے۔ 14شہداء کا مطلب ہے انسانیت کا 14بار قتل عام ہوا۔
  • علامہ حامد سعید کاظمی نے کہا کہ پہلے دہشت گرد وردیوں میں نہیں ہوتے تھے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی وردیوں میں ریاستی دہشت گردی کی گئی۔
  • فاٹا سے اجمل وزیر نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث حکومتی عناصر عبرتناک انجام کے مستحق ہیں۔
  • احمد رضا قصوری نے کہا کہ حکمران سانحہ ماڈل ٹاؤن میں براہ راست ملوث ہیں اور مجھے یہ تختہ دار پر نظرآرہے ہیں۔
  • سابق وزیراعلیٰ و گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے کہا کہ اتنے بڑے قتلِ عام کی ذمہ داری براہِ راست وزیراعلیٰ پنجاب پر عائد ہوتی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی طاقت سے خوفزدہ ہو کر ریاستی دہشت گردی کی گئی۔
  • سندھ سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے ایم پی اے مائیکل جاوید نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے میں نے مسلم لیگ ن سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
  • اے پی سی میں ایم پی اے راحیلہ ٹوانہ، مسیحی رہنما جے سالک، سردار رمیش سنگھ، نے بھی خطاب کیا اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء سے اظہارِ ہمدردی کیا۔

ماڈل ٹاؤن ڈیکلریشن

6 اکتوبر 2015ء کو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانے کے لیے ایک متفقہ ڈیکلریشن جاری کیا گیا جس پر تحریک انصاف کی طرف سے اس وقت کے چیف آرگنائزر محترم چودھری محمد سرور نے دستخط کیے جبکہ پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے دستخط کیے۔ یہ ڈیکلریشن 4نکات پر مشتمل تھا۔ ڈیکلریشن کے مطابق:

  1. شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کو تیز کیا جائے گا۔
  2. عوام کے آئینی، جمہوری حقوق کے تحفظ اور ہر طرح کے استحصال کے خاتمہ کیلئے بھرپور سیاسی کردار ادا کیا جائے گا۔
  3. دہشتگردی، انتہا پسندی، کرپشن کے خاتمہ اور بلاتفریق احتساب کیلئے دونوں جماعتیں اپنا بھرپور قومی، سیاسی کردار ادا کریں گی۔
  4. اس ڈیکلریشن میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ دونوں جماعتیں ورثاء کو انصاف دلوانے کے لیے جدوجہد کو تیز کریں گی۔

اب تحریک انصاف حکومت میں ہے اور اس ضمن میں قائدِ تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ انصاف کے راستے میں جو مسائل اور مشکلات سابق دور حکومت میں تھیں وہ آج بھی ہیں۔

آل پارٹی کانفرنس (30 دسمبر 2017ء)

حصول انصاف کے لیے 30 دسمبر 2017ء کو آل پارٹی کانفرنس منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوئی جس میں درج ذیل متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا:

  1. سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے جس میں ن لیگ کی قیادت نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ سمیت بیوروکریٹس، پولیس افسران اور حکومت پنجاب کے اہلکاران ملوث ہیں جنہوں نے عدالتی حکم پر لگائے جانے والے بیریئر ہٹانے کی آڑ میں ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ماڈل ٹاؤن میں 100 افراد کو گولیوں سے زخمی کیا گیا، جن میں سے 14 افراد شہید ہو ئے۔
  2. اے پی سی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ 17 جون 2014ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں جن افراد کو شہید یا زخمی کیا گیا وہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان ہی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے شہری تھے جن کے انصاف کیلئے اجتماعی جدوجہد کرنا اے پی سی میں شریک تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اے پی سی اس سلسلے میں آئندہ پوری جدوجہد کو Own کرتی ہے، مزید یہ بھی سمجھتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے میںانصاف کی فراہمی قومی سطح پر نظامِ عدل کے نفاذ اور قانون کی بالا دستی کیلئے سنگِ میل ثابت ہوگی۔
  3. شہدائے ماڈل ٹاؤن کے مظلوم ورثاء ساڑھے تین سال کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد صرف جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ حاصل کر پائے ہیںجو اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ملزمان کے برسراقتدار رہتے ہوئے صاف و شفاف تحقیقات، ٹرائل اورحصول انصاف ناممکن ہے۔ 125 پولیس افسران کے سمن ہونے کے باوجود ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔یہاں تک کہ قتل عام کا منصوبہ بنانے والے حکومتی لیڈرز اور بیوروکریٹس میں سے بھی کسی ایک کو طلب نہیں کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکومت انصاف کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
  4. اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے شہباز شریف، رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام اور اس قتل عام کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے لہٰذا وہ اور سانحہ میں ملوث ان کے دیگرحکومتی حواری، جملہ شریک ملزمان اور بیوروکریٹس مستعفی ہو جائیں۔
  5. اے پی سی تمام صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے مطالبہ کرتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتلِ عام میں ملوث شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کے استعفوں کے مطالبہ پر مبنی قراردادیں منظور کروائیں۔
  6. سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 2 ایف آئی آرز درج ہیں اور پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دو جے آئی ٹیز بنائی گئی تھیں، ان جے آئی ٹیز میں شہداء کے ورثاء اور زخمیوں میں سے کسی کی گواہی ریکارڈ نہیں کی جا سکی یعنی مدعیان مقدمہ کی شہادت تاحال کسی جے آئی ٹی کے ریکارڈ پر نہیں ہے۔ فیئر ٹرائل کیلئے مضروبین، متاثرین اور مدعیانِ مقدمہ کی شہادت ریکارڈ پر لانا قانون کا ناگزیر تقاضا ہے۔ لہذا اے پی سی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کرتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک اذیت ناک انسانی المیہ ہے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انسانیت کے خلاف،سٹیٹ کے خلاف اور پبلک کے خلاف سنگین جرم پر سووموٹو ایکشن لیتے ہوئے قتلِ انسانی کے اس سانحہ کی صحیح اور مکمل تفتیش کیلئے غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیں جس کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کاایک معزز جج خود کرے۔
  7. اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ کسی اندرونی، بیرونی دباؤ کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان اور قومی دولت لوٹنے والے شریف خاندان کو کسی قسم کا کوئی این آر او نہ دیاجائے، کوئی ماورائے قانون ریلیف دیا گیا تو قوم اسے ہر گز قبول نہیں کرے گی۔