القرآن: کیفیاتِ قلبی اور برکات صحبت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

خَتَمَ ﷲُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰی سَمْعِهِمْ وَعَلٰٓی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.

’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے‘‘۔

(البقرة، 2:7)

ا س آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے کفر کا سبب بیان کیا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سچائی کے ساتھ عناد و تعصب رکھتے ہیں اور اُسے کسی بھی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اُن کے اس عناد، تعصب، شدت اور تنگ نظری کے باعث اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ ان کے دل کا دروازہ جہاں سے ہدایت اور بھلائی نے داخل ہونا تھا، جہاں سے اُن کو خیر ملنی تھی اور بھلائی کی بات سمجھ میں آنی تھی، وہ دروازہ اب بند ہو گیا اور اس پر مہر لگ گئی ہے۔

اس بات کو اب علی سبیل التنزل بیان کرتا ہوں کہ حق کو قبول نہ کرنے کے باعث کافروں پر تو بڑی پختہ مہر لگ گئی اور آخری حد ہو گئی مگر ہم مسلمان بھی تو اپنے ظاہر و باطن پر ایسے خیالات اور اعمال وارد کرتے ہیں کہ جن کا نتیجہ بالآخر دلوں پر مہر لگنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ گناہ، نفس پرستی، حرص، طلبِ دنیا، عناد، ایک دوسرے کے لیے بغض، غیبت، نافرمانیاں، غفلتیں اور وہ بد اعمال و افعال جو ہم زندگی میں کرتے ہیں، یہ رفتہ رفتہ ہمارے دلوں پر مہر کی کیفیات پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ کسی عملِ بد کے مرتکب ہونے پر سب سے پہلے ہمارے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگتا ہے، پھر ایک پردہ آتا ہے، پھر دوسرا پردہ پڑتا ہے اور پھر مزید پردے پڑتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر یہ پردے دل کو ہدایت قبول کرنے سے محروم کر دیتے ہیں۔۔۔

دل پر پردے پڑ جانے کے باعث دل ہدایت کو قبول کرنے، حق کو سمجھنے، حق و باطل میں فرق کرنے اور حق کی طرف رغبت کرنے کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دل کی یہ صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے ،ویسے ویسے اُس پر وعظ و نصیحت بے اثر ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ حق بات کو جاننے، دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود قبول نہیں کرتا۔ ایسے لوگ ظاہری طور پر قوتِ سماعت و بصارت رکھنے کے باوجود اندھے اور بہرے کہلاتے ہیں۔ یہ medical sense میں بہرے اور نابینا نہیں ہوتے، دیکھتے ہیں مگر نہیں دیکھتے، سنتے ہیں مگر نہیں سنتے۔ مراد یہ ہے کہ سننے کا اثر اور دیکھنے کا فائدہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ ہم روزمرہ زندگی میں اکثر ان لوگوں کو جو ہماری بات پر کان نہیں دھرتے، یہ کہتے ہیں کہ ’’کیا تمہیں میری بات سنائی نہیں دیتی‘‘، ’’کیا تم بہرے ہو‘‘، اسی طرح صاف دکھائی دینے کے باوجود کسی چیز بارے لاپرواہی برتنے پر ہم اکثر کہتے ہیں کہ ’’اندھے ہو‘‘؟ ’’دیکھ نہیں رہے‘‘۔

اسی طرح کفار بھی ظاہری اندھے اور بہرے نہیں تھے، حق بات ان کے سامنے عیاں تھی، معجزات کو اپنے سامنے ہوتا دیکھ رہے تھے، مگر سب کچھ دیکھ کر بھی نہیں مانتے تھے۔ گویا ایسا سننا اور دیکھنا جو انسان کو فائدہ دیتا ہے اور انسان کی رائے کو بدل دیتا ہے، وہ اس فائدے اور صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

اس صورتِ حال تک پہنچنے کی ابتدا دل کی حالت کے بگڑ جانے سے ہوتی ہے۔ دل کی حالت جب بگڑتی ہے تو نہ کان ہدایت کو سن سکتے ہیں اور نہ آنکھیں حق کو دیکھ سکتی ہیں۔ کانوں اور آنکھوں کی یہ محرومی نتیجہ کے طور پر بعد میں سامنے آتی ہے، بگاڑ کی ابتدا اس سے قبل دل سے ہوچکی ہوتی ہے۔

اللہ رب العزت نے خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ کے الفاظ بیان فرماتے ہوئے دل کے لیے مہر کا لفظ استعمال فرمایا۔ مہر ایک سخت چیز ہے، جس شے پر لگ جائے وہ چیز Seal ہوجاتی ہے یعنی اب نہ کوئی چیز اس میں داخل ہو سکتی ہے اور نہ اس سے نکل سکتی ہے۔ دل پر مہر لگنے کا مطلب ہے کہ اب اس دل کے اندر موجود شکوک و شبہات، وہم، گمراہی اور تذبذب کے جراثیم باہر نہیں نکل سکتے، اب وہ اندر ہی رہیں گے اور اسی طرح باہر جو کچھ بھی ہدایت، خیر، وعظ و نصیحت، تربیت کرامات، بزرگی اور اچھے عمل کی صورت میں موجود ہے، اُن کی تاثیر دل میں داخل نہیں ہوسکتی۔ اس طرح کی مہر کافروں کے دلوں پر لگتی ہے۔

وعظ و نصیحت اور برکاتِ صحبت سے محرومی کا سبب

وہ اثرات جو مہر لگ جانے کے سبب کفار کے لیے ظاہر ہوتے ہیں، ہم بغیر کفر کے اُس قسم کے اثرات اپنے دل میں پیدا کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے تو مہر لگنے کو بیان کیا مگر جب مسلمانوں کو اِس قسم کے اثرات سے واسطہ پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دلوں پر پردے پڑ جانے سے تعبیر کیا۔ ارشاد فرمایا:ا:

وَّجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِهِمْ اَکِنَّةً.

’’اور ہم ان کے دلوں پر (بھی) پردے ڈال دیتے ہیں‘‘۔

(الإسراء، 17: 46)

یعنی جب پردے پڑ جائیں تو اس کا نتیجہ بھی یہی نکلتا ہے کہ اب نہ تو کوئی چیز دل میں داخل ہوسکتی ہے اور نہ کوئی چیز باہر آ سکتی ہے۔ دل جس برے حال کو پہنچ گیا، وہیں کھڑا رہے گا۔ لہٰذا اب جو کچھ مرضی کریں، جس بھی ماحول میں رہیں، جس بڑی سے بڑی نیک صحبت میں رہیں، یہ چیزیں دل پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ اس لیے کہ جب دلوں پر ہی پردہ پڑ گیا ہے تو اب صحبت کی برکات دل میں کیسے داخل ہوں گی اور حال کو کیسے بدلیں گی؟ گویا ہم نے دل کو صحبت سے ملنے والی برکت، نصیحت سے ملنے والے فیض اور تعلیم و تلقین سے ملنے والی ہدایت سے خود کو محروم کر دیا ہوتا ہے۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ فلاں کی صحبت میں اتنا عرصہ گزر گیا مگر دل کا حال نہیں بدلا، لیکن اتنا نہیں سوچتے کہ جب دل پر ہی پردہ پڑ گیا ہے تو حال کہاں سے بدلے؟ اُس دل پر پردہ پڑ جانے کے سبب اس میں کچھ داخل ہی نہیں ہورہا، کچھ داخل ہو گا تو حال بدلے گا۔

معلوم ہوا کہ اپنے حال کے نہ بدلنے کا سبب ہم خود ہیں۔ ہم اپنے اعمال، کرتوتوں، غلط نیتوں، غلط کاموں، غلط سوچوں، ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد، حلال و حرام کی تفریق ختم کرنے، شبہات میں پڑنے اور وہ جو کچھ ہم زندگی میں کرتے ہیں، ان سب کے ذریعے رفتہ رفتہ اپنے دل پر پردے ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ صحبت، وعظ و نصیحت اور تربیت کی تاثیر نے انسان پر جس جگہ سے اثر انداز ہونا تھا ہم نے اپنی بدبختی سے اپنے لیے خود ہی وہ دروازہ بند کرلیا۔ پس دل جب خراب ہوجاتے ہیں تو اُن پر مہر لگ جاتی ہے یا اُن پر پردے پڑ جاتے ہیں، نتیجتاً صحبت، وعظ و نصیحت، کلمات و کرامات بھی اُن پر اثر نہیں کرتے۔

یہ اسی طرح ہے جیسے بعض لوگ قرآن پڑھ کر بھی گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

یُضِلُّ بِهٖ کَثِیْرًا وَّیَهْدِیْ بِهٖ کَثِیْرًا.

’’(اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے‘‘۔

(البقرة، 2: 26)

قرآن تو سراپا ہدایت ہے اور هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اور هُدًی لِّلنَّاسِ کے مصداق نہ صرف متقین کے لیے ہدایت ہے بلکہ ہر ایک کے لیے حق و باطل کو واضح بیان کرنے والا ہے۔ قرآن سے بڑھ کر تو کوئی منبعِ ہدایت نہیں ہے۔ کسی ولی، قطب، غوث کی صحبت قرآن مجید کی قوتِ ہدایت اور تاثیر سے بڑھ کر طاقتور اور بلند نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ ہر ایک کی ہدایت قرآن مجید سے ماخوذ اور قرآن کے فیض کا حصہ ہے۔ قرآن مجید جو سراپا ہدایت اور منبعِ ہدایت ہے، اب اگر وہ خود کہتا ہے کہ مجھے پڑھ کر اور میری بیان کردہ مثالوں کو سن کر کئی لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری قرآن مجید پر عائد نہیں ہوتی بلکہ ہم خود اس گمراہی کے ذمہ دار ہیں۔ قرآن تو قرآن ہے، ہر ایک پر نازل ہو رہا ہے، ہر ایک کو نصیحت دے رہا ہے اور ہر ایک کو وعظ سنا رہا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر قرآن کو پڑھ کر گمراہ کون ہورہا ہے؟ یاد رکھیں! گمراہ وہ ہو رہے ہیں جن کے دلوں نے ہدایت قبول کرنے کی اپنی صلاحیت ختم کرلی ہے جبکہ ہدایت وہ حاصل کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے دلوں کا دروازہ بند نہیں کیا تھا اور اپنے اعمال کے ذریعے اپنے دل کا حال نہیں بگاڑا تھا۔ جو لوگ اپنے دل کا حال بگاڑ لیتے ہیں اُن کا حال گندی زمین کی طرح ہوتا ہے جس میں ہر طرف غلاظت ہے۔ جب بارش برستی ہے تو ہر جگہ کی طرح وہاں بھی برستی ہے مگر اس زمین کی حالت اور کیفیت کی وجہ سے وہاں سے بدبو اور تعفن پیدا ہوتا ہے جبکہ صاف ستھری اور زرخیز زمین پر اسی بارش کے ہونے سے ہریالی آ جاتی ہے۔ بارش تو سراپا زندگی ہے اور زندگی کا فیض دینے والی ہے مگر اس سے فیض وہی لے گا جس کی اپنی زمین ٹھیک ہوگی۔

یہ ایک ایسا تصور ہے جس کو ہم کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لاتعداد مرتبہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں، کئی نیک اور صالح افراد کی صحبتیں اختیار کرتے ہیں مگر جب اِن کی تاثیرات نہیں ملتیں تو اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے، بس یہی چاہتے ہیں کہ جس کی صحبت میں ہیں، وہی سب کچھ کرے۔۔۔ اس کی دعا سے یہ ہو جائے۔۔۔ وظیفہ سے یہ ہو جائے۔۔۔ نسبت اور رفاقت سے یہ ہوجائے۔۔۔ الغرض ہم اپنا حال درست کرنے کے بجائے دوسروں کو ہی اپنی اِس کیفیت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کہ کمی اُن میں ہے یا سب کچھ وہی کریں گے۔ اس تصور پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم طویل مدت سے جس ماحول میں رہ رہے ہیں، وہاں ہماری تربیت صحیح رخ پر نہیں کی گئی۔ ہمیں conceptual clarity نہیں دی جاتی۔ اگر محض صحبت، تربیت، تلقین اور وعظ سے ہر ایک کے لیے ہدایت کی صورت میں نتیجہ نکلنا ہوتا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 برس کی تبلیغ اور صحبت سے کوئی ایک بھی کافر نہ رہتا۔ نہ کوئی ابوجہل بچتا اور نہ ابولہب رہتا بلکہ سب مسلمان ہوجاتے۔ اس ماحول میں معجزات بھی تھے، صحبت بھی تھی، کرامات و بزرگیاں بھی تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق و کردار بھی تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آقا علیہ السلام کا وجودِ اقدس بھی تھا، جس سے بڑھ کر تاثیر دینے والا، ہدایت پر لانے والا وجود عالمِ خلق میں کوئی نہیں ہو سکتا مگر وہاں بھی جن کا نصیب تھا وہ مومن ہوئے، صحابی بن گئے اور جن کا نصیب نہیں تھا وہ کافر اور مشرک رہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ اَ اَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَo

’’بے شک جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘۔

(البقرة، 2: 6)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ ساری ذمہ داری ہدایت مہیا کرنے والے، تعلیم و تلقین اور نصیحت کرنے والے اور نبی یا ولی کی صحبت کی نہیں ہوتی، وہ تو اپنا فیض اسی طرح دے رہے ہیں جیسے بارش حیات دے رہی ہے اور سورج روشنی دے رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی غلاظت کا ڈھیر ہے تو اس بارش سے اس کا اندر ہی ظاہر ہوگا اور اگر کوئی اندھا ہے تو اُس کو روشنی کے باوجود کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اب اس میں بارش اور سورج کی روشنی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جو خود غلاظت کا ڈھیر اور اندھے ہوں وہ بارش اور سورج کی روشنی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی تو ہیں جو اپنے من میں موجود زرخیزی کی بناء پر اس بارش سے مستفید ہورہے ہیں اور بینائی کے سبب سورج کی روشنی سے منور ہورہے ہیں۔

اسی تصور کو مزید مثالوں سے بھی واضح کرتا ہوں۔ کئی مریض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی حسِّ ذائقہ اور حسِّ شامہ (سونگھنے کی حِس) ختم ہو جاتی ہے۔ اگر حسِّ ذائقہ ختم ہو جائے تو جتنے مرضی ذائقہ دار (tasty) کھانے کھائیں، ذائقہ کی حس سے محروم فرد کو ذائقہ ہی نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ وہ ذائقہ کی حِس سے ہی محروم ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ذائقہ کیا ہے۔ اسی طرح سونگھنے کی حس سے محروم فرد کو جتنی مرضی اچھی خوشبو سونگھنے کے لیے دیں، اُسے وہ محسوس ہی نہیں ہوگی حالانکہ اُس پرفیوم یا گلاب کے پھول کی خوشبو ختم تو نہیں ہوگئی۔

استاد جب کلاس میں پڑھاتا ہے تو اسی استاد سے پڑھنے والے شاگرد نتائج کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ کئی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوتے ہیں، کئی A+ گریڈ لیتے ہیں، کئی فیل ہوجاتے ہیں، حالانکہ استاد ساروں کو پڑھا یکساں ہی رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاگردوں میں سے جس کی جتنی صلاحیت و ذہانت اور قبول کرنے و سمجھنے کی استعداد ہے، وہ اسی تناسب سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

اسی طرح قلبی و روحانی اعتبار سے بھی ہر چیز اپنی جگہ پر قائم ہے۔ صحبت، وعظ و نصیحت، تلقین، تربیت سب کچھ ہے مگر جس نے وصول کرنا تھا اس نے اپنی بداعمالیوں، بغض، عناد، عداوتوں اور ظاہری و باطنی خرابیوں کی وجہ سے اپنے اندر سیاہیاں پیدا کر کر کے اتنے پردے اپنے قلب اور روحانی صلاحیتوں پر چڑھا لیے ہیں کہ اِن کے فوائد اسے حاصل نہیں ہورہے۔

غفلت اور نافرمانیوں کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ، وَبَیْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ، لَا یَعْلَمُهُنَّ کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُهَاتِ، فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ، کَالرَّاعِی یَرْعَی حَوْلَ الْحِمَی، یُوشِکُ أَنْ یَقَعَ فِیهِ، أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی، أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّهُ، أَلَا وَهِیَ الْقَلْبُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

’’حلال چیزوں کا حکم بالکل واضح ہے اور حرام چیزوں کا حکم بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ امورمتشابہ ہیں جن کی (حلت و حرمت) کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص اس قسم کی غیر واضح اشیاء سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شخص اس قسم کے امور کو اختیار کرنے لگے وہ حرام میں جا پڑے گا جیسا کہ کوئی چرواہا (کسی ممنوعہ) چراگاہ کے آس پاس جانوروں کو چرائے تو ہو سکتا ہے کہ جانور چراگاہ میں جا پہنچیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ سے مراد اُس کی حرام کردہ اشیاء ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے‘‘۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، بَاب: فَضْلِ مَنْ اسْتَبْرَأَ لِدِینِهِ، 1: 28، رقم: 52)

اس حدیث مبارکہ میں مذکور مشتبہات سے مراد وہ حصے ہیں جو بندے کو clear نہیں ہوتے اور اکثر لوگ اُن مشتبہات کی حدود کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرمادیا کہ جس شخص نے شکوک و شبہات والی اِن چیزوں سے پرہیز کیا تو اُس نے اپنی عزت اور دین کو بچالیا اور جو ان مشتبہات میں پڑ گیا تو ڈر ہے کہ وہ حرام میں داخل ہو جائے گا۔ اس لیے کہ یہ اشیاء چونکہ حلال و حرام کے درمیان میں ہوتی ہیں، اس لیے ہوسکتا ہے کہ بے دھیانی میں بندہ حرام کی حدود میں داخل ہوجائے۔

یہی وجہ ہے کہ ائمہ نے مکروہ اور مباح کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ:

المکروه عقبة بین العبد والحرام. فمن استکثر من المکروه تطرق إلی الحرام.

’’مکروہ؛ بندے اور حرام امور کے درمیان گھاٹی ہے۔ جو کثرت کے ساتھ مکروہ کام کرے گا وہ حرام کی طرف راستہ کھول لے گا‘‘۔

یعنی کثرت سے مکروہات میں پڑنا بندے کو حرام امور کے ارتکاب کی طرف لے جائے گا۔ مثلاً: یہ سمجھ کر کہ یہ حرام تو نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے، لہذا کرلینے میں کوئی حرج نہیں، خواہ وہ کھانے پینے کی چیز ہو یا لباس، خواہ وہ گفتگو ہو یا لوگوں کے ساتھ معاملات اور تعلقات، جو بھی امور مکروہات میں آتے ہیں، جب آدمی ان مکروہات و ناپسندیدہ میں کثرت سے داخل ہوگا تو اُس کے لیے حرام کا راستہ کھل جائے گا۔

اسی طرح مباح کے متعلق فرمایا:

والمباح عقبة بینه وبین المکروه، فمن استکثر من المباح تطرق الی المکروه.

’’مباح؛ بندے اورمکروہ کے درمیان ایک گھاٹی ہے، جو کثرت کے ساتھ مباحات میں پڑے گا اُس کا راستہ مکروہات کی طرف کھل جائے گا‘‘۔

(عسقلانی، فتح الباری، 1: 127، عینی، عمدة القاری، 1: 301)

یعنی جو جتنی سہولت کی طرف جائے گا، جتنا غافل ہو گا، دین کے قیام اور دین کی قدروں کو محفوظ کرنے کے لیے سختی نہیں کرے گا، جتنا لچکدار ہوگا، مباحات پر زیادہ گزارا کرے گا اور اس طرزِ عمل پر ہی زندگی کا زیادہ حصہ گزارنے والا ہوگا تو وہ لازماً مکروہات میں داخل ہو جائے گا۔

اسی لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:

’’اپنے اور حرام کے درمیان ایک دیوار اور ڈھال کھڑی کر دو جو تمہارے دین اور عزت کی حفاظت کرے‘‘۔

اِن تمام چیزوں سے اجتناب اور پرہیز کا حکم اس لیے دیا جاتا ہے کہ ان سارے امور کا اثر دل پر مترتب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے حلال و حرام، بداعمال، اخلاق سیئہ اور ظاہری و باطنی ساری چیزوں کے مضمون کا بیان دل کے سنورنے اور بگڑنے کی حالت پر ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَةً. إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّهُ. وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.

’’آگاہ رہو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ سنور جائے تو سارا جسم سنور جاتا ہے۔ اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار ہو جائو کہ وہ دل ہے‘‘۔

قلب کے معانی

قلب (دل) کے تین معانی ہیں:

  1. بعض لوگوں کا دل اس معنیٰ میں قلب ہے کہ اس کی حالت ہر وقت بدلتی رہتی ہے۔ یہ دل ایک حال پر قائم نہیں رہتا۔ ایسے دل کو بڑی مضبوطی سے تھامنا پڑتا ہے۔ اس دل کے احوال مسلسل پھرتے رہتے ہیں، کبھی یہ چاہتا ہے اور کبھی نہیں چاہتا۔۔۔ کبھی یہ آگے بڑھتا ہے اور کبھی جھکتا ہے۔۔۔ اسی کیفیت کی وجہ سے اس کا نام قلب ہے کہ اس کے احوال میں مسلسل تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
  2. بعض لوگوں کا دل اس معنی میں قلب ہے کہ

لأنه خالص ما في البدن وخالص کل شيء قلبه.

’’جسم میں خالص ترین چیز دل ہے اور ہر چیز میں جو خالص ترین چیز ہوتی ہے اُس کو قلب کہتے ہیں‘‘۔

یعنی تمام چیزوں میں سب سے زیادہ خالص، صاف اور pure کو قلب کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے دل کو اللہ تعالیٰ اس معنیٰ کی بنیاد پر قائم کرتا ہے کہ اُن کا دل بڑا pure ہوتا ہے۔ یہ اتنا خالص و شفاف اور پاک و صاف ہوتا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گرد و غبار اور حرام، تعصب، عناد، بغض، عداوت اور برائی کا کوئی تصور بھی موجود نہیں ہوتا۔ ایسا دل صاف و شفاف سورج کی طرح ہوتا ہے۔

  1. بعض لوگوں کا دل اس معنی میں قلب ہوتا ہے کہ

لأنه وضع في الجسد مقلوبا.

’’یہ جسم کے اندر الٹا رکھا گیا ہے‘‘۔

(عسقلانی، فتح الباری، 1: 128، عینی، عمدة القاری، 1: 298)

عام طور پر ایسا عضو یا کوئی چیز جس کا ایک حصہ نوک دار ہو تو اس کو رکھتے ہوئے نوک والا حصہ اوپر کی طرف اور پیندے والا حصہ، base, foundation نیچے کی طرف ہوتی ہے لیکن اگر دل کی شکل پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آم کی شکل کا ہے اور اسے اس طرح جسمِ انسانی میں رکھا گیا ہے کہ اس کا پیندے (foundation) والا حصہ اوپر کی طرف ہے اور نوک دار حصہ نیچے کی طرف ہے، یعنی یہ الٹا رکھا گیا ہے۔

عرفاء اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ یہ الٹی رغبت رکھتاہے۔ یعنی اس دل کے حامل ہمیشہ الٹا ہی سوچتے ہیں، اسی بناء پر انہیں ہمہ وقت مشکل درپیش رہتی ہے۔ ایسے حاملینِ قلب کو اپنے احوال میں مضبوطی کے لیے نہایت زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔

اِسی تمام تصور سے یہ واضح ہوگیا کہ سارے احوال کا مدار بنیادی طور پر دل پر ہے۔ دل کی اصلاح اگر نہیں کریں گے تو بے شک جتنے مرضی اعمالِ صالحہ اور عبادات کرتے چلے جائیں، قلب و باطن میں تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔ روزمرہ امور میں ہم بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جن کی ساری زندگی نعت پڑھنے، تلاوت قرآن کرنے، تقاریر کرنے اور عوام کو وعظ و نصیحت کرنے میں گزر رہی ہوتی ہے لیکن اپنا حال یہ ہوتا ہے کہ قلب و باطن میں قساوت اور تاریکی موجود ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے دلوں پر أکنّۃ اور غشاوۃ (پردے) ہوتے ہیں، جس بناء پر ان کے اندر تبدیلی نہیں آرہی ہوتی۔

یاد رکھیں! جب دل میں تبدیلی نہ آئے تو باقی زندگی میں بھی تبدیلی نہیں آتی۔ تبدیلی دل سے شروع ہوتی ہے۔ لہذا اپنے دل کے احوال کو درست کریں، اللہ تعالیٰ، مخلوق اور اپنے نفس کے معاملے میں ہر لحاظ سے اپنے دل کو پاک و صاف کریں، اسی صورت ہمارا قلب و باطن امن و سکون کا گہوارہ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی آماجگاہ بن سکتا ہے۔