فقہ کیا ہے اور فقیہ کون؟

منظرالاسلام ازہری

امام غزالی عالم اسلام کی وہ معروف شخصیت ہیں، جن کے ذکر کے بغیر علم و فن کا کوئی بھی شعبہ مکمل نہیں ہوتا ہے۔ درجنوں علوم و فنون میں مہارتِ کاملہ ہونے کی وجہ سے ان کو تاریخ اسلام میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ برصغیر میں عام طور پر انہیں اصلاحِ احوال کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور حوالے میں ان کی معروف کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ پیش کی جاتی ہے، مگر احیاء علوم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو جس مقصد سے پڑھا جائے، اس میں اس مقصد سے متعلق پورا مواد ملتا ہے۔

میں نے اس کتاب کے باب اول کے مندرجات کے فقہی پہلو پر توجہ مرکوز کی تو مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملااور اس نتیجے پر پہنچا کہ آج کے انتشارزدہ ماحول میں علماء اگر اس کتاب کے فقہی پہلو کو توجہ سے پڑھ لیں اور ٹھنڈے دل سے غور بھی کریں تو یقیناً اس آسیب زدہ ماحول سے نکلنے میں انہیں مدد ملے گی۔

فرضِ عین علم کیا ہے؟

امام غزالی کہتے ہیں کہ جس علم کے ذریعے آخرت کی طرف توجہ کی جاسکتی ہے وہ علم؛ ’’علمِ معاملہ‘‘ اور ’’علمِ مکاشفہ‘‘ ہے۔ ’’علمِ مکاشفہ‘‘ وہ علم ہے جس سے معلومات کا کشف کیا جاسکتا ہے اور ’’علمِ معاملہ‘‘ ایسے علوم ہیں جن پر کشف کے ساتھ ساتھ عمل کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ’’علمِ معاملہ‘‘ کی جو اہمیت ہے، کسی بھی علم کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہے اور اسی کا حصول فرض ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو جن چیزوں کے عمل کا حکم دیا ہے اس کا تعلق تین چیزوں سے ہے:

  1. عقیدہ
  2. فعل یا کسی کام کا کرنا
  3. ترک یا کسی کام کا چھوڑ دینا

1۔ عقیدہ: جب انسان سنِ بلوغ کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو جس وقت اور جس گھڑی وہ بالغ ہوتا ہے تو سب سے پہلی چیز جو اس پر اس وقت واجب ہوتی ہے وہ ہے کلمہ طیبہ کی سمجھ اور اس کا اقرار اور یہی اس کے لیے اس وقت فرض کا درجہ رکھتا ہے۔

2۔ فعل: اس بالغ شخص کو چند لمحوں بعد ظہر کے وقت کا سامنا ہوگا، جیسے ہی ظہر کا وقت آئے گا، اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ ظہر کاوقت، طہارت کا طریقہ اور نماز کی معرفت حاصل کرے۔ تاہم اگر اس وقت ان تمام چیزوں کی ادائیگی میں مصروف ہوگا تو وقت ہی ختم ہوجائے گا اس لیے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان چیزوں کو وقت سے پہلے حاصل کرلے۔

3۔ ترک: حالات کے تجدد کے اعتبار سے اس علم یعنی کسی چیز کے چھوڑنے کا علم حاصل کرنا ضروری ہوگا اور یہ چیز لوگوں کے حالات کے اعتبار سے الگ الگ ہوگی۔ مثلاً: ایک گونگے کے لیے یہ جاننا ضروری نہیں کہ کس بات کی ادائیگی زبان سے حرام ہے، اسی طرح اندھے شخص پر یہ جاننا ضروری نہیں کہ کس چیز کو دیکھنا حرام ہے۔

امام غزالی فرضِ عین علم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

العلم بکیفیة العمل الواجب، فمن علم العلم الواجب و وقت وجوبہ فقد علم العلم الذی هو فرض عین.

’’واجب پر عمل کی کیفیت کا علم حاصل کرنا فرض ہے، جس نے واجب علم حاصل کرلیا اور اس کے واجب ہونے کی گھڑی کی معرفت حاصل کرلی تو اس نے فرضِ عین علم حاصل کرلیا‘‘۔

(احیاء علوم الدین)

اس تفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ امام غزالی کے نزدیک مذکورہ تین علوم جو عمل کی کیفیت سے متعلق ہیں، ان کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے۔

فرضِ کفایہ علم کیا ہے؟

فرضِ عین کی تفصیل کے بعد امام غزالی نے اس علم کا بیان کیا ہے جس کا تعلق فرضِ کفایہ سے ہے اوراس کے تحت، علمِ حساب، طب، کھیتی باڑی، کپڑے کی سلائی اور بنائی وغیرہ کا ذکر کیا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ علمِ محمود کا ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے لکھا ہے کہ علمِ محمود کی چار اقسام ہیں:

  1. اصول
  2. فروع
  3. مقدمات
  4. متممات

اصول کے تحت قرآن، سنت، اجماع اور آثار صحابہ ہیں۔

فروع کے تحت ان چیزوں کا بیان کیا جو ان اصول کی روشنی میں معنی کی گہرائی تک پہنچا نے میں مددگار ثابت ہوسکے۔ اس میں مصالحِ دنیا اور مصالحِ آخرت کی معرفت کے علوم شامل ہیں۔

مقدمات ایسے علوم ہیں جو قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسرار و رموز حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، ان کی مثال لغت اور نحو کا علم ہے۔

متممات ایسے علوم ہیں جن کی حیثیت کسی چیز کو درجہ کمال پر پہنچانے کی ہے ۔ اس کے تحت علم قراء ت، تفسیر، اصول فقہ، اصول حدیث ہیں۔

امام غزالی کے مطابق یہ سب گرچہ علمِ محمود کی قسمیں ہیں، تاہم یہ سب فرضِ کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

علمِ فقہ کا حصول فرضِ کفایہ ہے

ان مقدمات اور ان کے تحت ذکر کیے گئے علوم کا غور سے جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمارے درمیان معروف علمِ فقہ کی حیثیت فرضِ کفایہ کی ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کا سیکھنا ہر شخص پر ضروری نہیں، پورا علاقہ اور معاشرے میں ایک یا چند لوگوں کا اس علم کو حاصل کرنا کافی ہوگا۔ اس ضمن میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تصریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب لوگ اپنی تخلیق کے مقاصد کو بھول گئے اور نفس پرستی میں مبتلا ہوگئے تو جھگڑا اور فساد بھی ہونے لگا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی ضرورت پیش آئی جو ان معاملات کو رفع دفع کریں اور صلح اور مصالحت کا کام انجام دیں۔ اس کام کے لیے اس شخص کو ایک قانون کی بھی ضرورت پڑے گی، جس کی روشنی میں وہ صلح و مصالحت کا کام انجام دیں گے۔ اسی قانون کی معرفت اور اس کی تشریح فقہا کے ذمہ ہے۔

اس لیے فقیہ ایسے شخص کو کہا جائے گا جس کی نگاہ سیاسی قوانین پر بڑی گہری ہو اور جب لوگ نفس پرستی کا شکار ہوکر آپس میں لڑ پڑیں تو اس کے حل کرنے پر اسے پوری قدرت حاصل ہو۔ غرض کہ ایک فقیہ؛ حاکم کے لیے معلم کی حیثیت رکھتا ہے، وہ حاکمِ وقت کی رہنمائی کرتا ہے، اس کا تعلق دین سے ضرور ہے، مگر یہ تعلق دنیا کے واسطے سے ہے، اس لیے علمِ فقہ کا تعلق دین سے بلا واسطہ نہیں بلکہ دنیا کے واسطے سے ہے۔

اس تفصیل کے بعد فنِ فقہ کی تعریف امام غزالی نے ان الفاظ میں کی ہے:

معرفة طرق السیاسة والحراسة.

’’فقہ ایسا علم ہے جس کے ذریعے سیاست اور حفاظت کی معرفت حاصل ہو‘‘۔

غرض کہ فقیہ، اسلام، نماز، زکوۃ اور حلال و حرام کی بھی جب بات کرتا ہے تو ان حالات میں بھی اس کی نگاہ دنیا سے تجاوز کرکے آخرت تک نہیں پہنچتی۔ احوالِ قلب اور اسرارِ باطن سے فقیہ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فقیہ اگر احوالِ آخرت سے متعلق کلام کرتا ہے تو اس کے کلام میں گہرائی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے علم میں پختگی ہوتی ہے، کیونکہ احوالِ آخرت اس کا میدان ہی نہیں۔ اس کا کام نکاح، طلاق، حدود، ظہار، لعان۔۔۔ تزئین و آرائش، مصوری، فوٹو گرافی، لائوڈ اسپیکر۔۔۔ حلیہ، ظاہری شکل و صورت، لباس، جبہ قبہ، عمامہ و پگڑی، ٹائی۔۔۔ ٹرین اور ہوائی جہاز پر نماز پڑھنا یا نہیں پڑھنا۔۔۔ روزہ اور حالتِ روزہ میں انجکشن لگوانا یا نہیں لگوانا۔۔۔ گروہ بندی، جماعت بندی، حق کا دعویداربننا۔۔۔ پیری مریدی جائز ہے یا نہیں۔۔۔ پیروں کی قدم بوسی جائز ہے یا نہیں۔۔۔ اپنے ہی پیر کو قطب، غوثِ زمانہ ماننا اور اس کے منوانے پر اصرار کرنا۔۔۔ دین کے نام پر بڑی بڑی مجلسیں منعقد کرنا کروانا۔۔۔ اعراس منعقد کرنا اور اس کے جائز و ناجائز ہونے پر کتابچے اور رسائل چھاپنا۔۔۔ مزارات و قبے بنوانے کے عمل کے جائز و ناجائز ہونے پر بحث کرنا۔۔۔ سونے و چاندی سے مزارات کے گنبدوں کے نقش و نگار پر بحث و مباحثہ کرنا۔۔۔ فسخِ نکاح کا حکم دینا۔۔۔ نمازِ جنازہ میں شریک ہونے اور نہ ہونے کی طویل بحث کرنا۔۔۔ اور ان تمام مسائل میں اختلاف کی وجہ سے تکفیر و تضلیل کرناہے۔

جس شخص کو بھی ان علوم میں مہارت ہوگی اور جو بھی دین کا لباس پہن کر ان معاملات میں اپنی مہارت کا دعویدار ہوگا امام غزالی کی نگاہ میں اسے علم آخرت کی ہواتک نہیں لگی ہوگی اور ان علوم میں مہارت کے تمام دعویدار علمِ دنیا کے ماہر کہلائیں گے۔ وہ فقیہ بھی ہوں گے، مگر ان کا فقہ دنیا کی ترجمانی کرے گا۔۔۔ وہ مفتی ہوں گے، مگر ان کا فتویٰ دنیا کے مسائل پر مبنی ہوگا۔۔۔ وہ عالم ہونے کے دعویدار بھی ہوں گے، مگر وہ دنیا کے عالم ہوں گے۔

امام غزالی کے نزدیک کون سا علم فرض ہے؟

امام غزالی کے نزدیک علمِ معاملہ کا تعلق دل کے احوال سے ہے، اور اس میں داخل علوم بھی دو طرح کے ہیں:

ایک قسم کا تعلق ایسے علوم سے ہے جس کی معرفت اچھی بات ہے ۔ اس کی مثال: صبر، شکر، خوف، امید، رضا، زہد، تقویٰ، قناعت، سخاوت وغیرہ ہے۔

دوسری قسم میں ایسے علوم ہیں جو قابلِ تحقیر ہیں، اس کی مثال محتاجگی کا ڈر، بغض، حسد، عناد، دشمنی، کینہ، ریاست طلبی، تکبر، غصہ، فخر، اور ریا کاری وغیرہ ہے۔

ان میں سے پہلی قسم یعنی ایسا علم جو قابل تعریف ہے، اس کے بارے میں امام غزالی کہتے ہیں کہ وہی منبعِ اطاعت اور قربت ہے اور ان دونوں قسموں کا علم، اس کے حقائق کی معرفت، اس کے اسباب، اس سے بر آمد ہونے والے نتائج اور اس سے حاصل برائی کا علاج کا جاننا، در حقیقت علمِ آخرت کی معرفت میں گہرائی پیدا کرنا ہے ۔ علمائے آخرت کے فتووں میں جہاں علم کا حاصل کرنا فرضِ عین قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد یہی علمِ آخرت ہے۔ غرض کہ ’’علمِ معاملہ‘‘ جس کا تعلق قلب کے احوال کی معرفت سے ہے، اس کا علم حاصل کرنا فرض عین ہے۔ اس علم کی معرفت سے دوری اختیار کرنا قادرِ مطلق اور بادشاہِ آخرت کی نگاہ میں اپنی بربادی اور ہلاکت کا سامان پیدا کرنا ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی ظاہری اعمال کی معرفت سے دوری اختیار کرنے کی وجہ سے دنیوی فقیہ ہلاکت اور تباہی کا فتوی صادر کرتاہے۔

غزالی کا فقیہ کون؟

امام غزالی کی اس تصریح سے واضح ہوگیا کہ علم معاملہ ہی اصل علم ہے کیونکہ اس کا تعلق احوالِ قلب سے ہے اور قلب کی اصلاح کا تعلق آخرت سے ہے ۔ علمِ آخرت کے اوصاف امام غزالی نے جس قدر بیان کیے ہیں اس کا مفاد تقویٰ اور رجوع الی اللہ ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حقیقی فقیہ کون ہے اور اس کے اوصاف کیا ہیں؟ حقیقی فقیہ وہی کہلا ئے گا جس کا دل فکرِ آخرت کا آئینہ دار ہوگا، جس کا ہر کام رضا ئے مولا اور جس کی ہر سانس خوفِ الہٰی کا سرچشمہ ہوگی۔ اسی تسلسل میں ایک مقام پر امام غزالی نے حقیقی فقہا کی تعریف کی طرف بڑے واضح الفاظ میں تصریح کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

ایک مرتبہ فرقد سبخی نے حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے اس کا جواب دیا۔ فرقد نے کہا: آپ کو معلو م ہے کہ فقہا آپ سے اس مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

ثکلتک امک فریقد، وهل رایت فقیها بعینک؟ انما الفقیه الزاهد فی الدنیا، الراغب فی الآخرة، البصیر بدینه، المداوم علی عبادة ربه، الورع الکاف نفسه عن اعراض المسلمین، العفیف عن اموالهم، الناصح لجماعتهم.

’’فرقد برا ہوتیرا، کیا تم نے کوئی فقیہ دیکھا ہے؟ فقیہ ایسا شخص ہوتا ہے جو دنیا سے کنارہ کش ہو، فکرِ آخرت ہی اس کے لیے سب کچھ ہو، اپنی دین داری کا اسے پورا خیال ہو، پابندی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت بجالاتا ہو، مسلمانوں کی عزت کا محافظ ہو، ان کے مال و دولت میں حرص وہوس سے دور ہو اور امت کی نصیحت میں اپنا وقت صرف کرتا ہو‘‘۔

امام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے اپنے ان جملوں کے ساتھ گویا امام غزالی کی رائے پر مہر ثبت کردی ہے اور بڑی صراحت کے ساتھ حقیقی فقیہ کا چہرہ بھی دکھادیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا حقیقی فقہ اور حقیقی فقہاکی کوئی مثال بھی مل سکتی ہے یا نہیں؟ امام غزالی نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ انہوں نے اپنی بحث کے دوران حقیقی فقہاکی مثال بھی دی ہے، جن میں امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا نام سر فہرست ہے۔ پھر ان تمام حقیقی فقہا کی زندگی کس طرح فکرِ آخرت کا آئینہ دار تھی، اس تمام کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

اسی ضمن میں امام غزالی نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ چند ایسے الفاظ ہیں جن کا استعمال غلط معنوں میں عام ہوگیا ہے، ان میں سے ایک لفظ ’’فقیہ‘‘ بھی ہے۔ امام غزالی کے مطابق جس شخص کو جزئیات پر عبور اور فرعی مسائل ازبر ہوں، عہدِ اوّل میں اس پر فقیہ کا اطلاق نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ فقیہ کا اطلاق اسی شخص پر ہوتا تھا جو احوالِ قلب کا عالم اور فکرِ آخرت کا نمونہ ہو۔

حقیقی فقیہ کے بارے میں میری رائے

قارئین کرام، آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ امام غزالی نے فقہ اور فقہا کی دو قسمیں کردی ہیں:

  1. فقہائے دنیا
  2. فقہائے آخرت

ان کی نگاہ میں حقیقی فقیہ وہی ہے جو صرف احوالِ قلب کا عالم اور فکرِ آخرت کا آئینہ دار ہو۔ دوسری طرف فقہائے دنیا کے ضمن میں انہوں نے فقہ کی تعریف میں سیاسی بصیرت کا بھی ذکر کیا ہے۔ راقم الحروف جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام غزالی کی دو الگ الگ تعریفوں کو یکجاکر کے فقہ کی تعریف اس طرح کرتاہے:

الفقه معرفة طرق السیاسة والحراسة والاطلاع علی احوال القلب، والرغبة فی الآخرة.

’’سیاسی بصیرت، احوال قلب پر آگاہی اور آخرت سے لو لگانے کا نام فقہ ہے‘‘۔

غرض کہ میرے نزدیک فقہ؛ سیاسی بصیرت اور فکرِ آخرت کے مجموعے کا نام ہے۔ لہٰذا فقیہ ایسا جامع شخص کہلائے گا جس کو دنیا کے تمام معاملات کا علم ہو۔۔۔ حالاتِ زمانہ سے پوری طرح باخبرہو۔۔۔ عصری سیاست پر اس کی گہری نگاہ ہو۔۔۔ حاکم وقت کی طرز حکمرانی اور اس نظریہ حکمرانی کی بنیاد کا واقف کار ہو۔۔۔ اور ان تمام اوصاف کے ساتھ ساتھ احوالِ قلب کا عارف اور خوفِ خدا سے اس کا دل لرزہ براندام ہو۔

سیاسی امور میں بصیرت اس لیے ضروری ہوگی کہ حاکمِ وقت کی صحیح رہنمائی کرنا اس کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اگر سیاسی امور اور حالاتِ زمانہ پر اس کی گہری نگاہ نہیں ہوگی تو وہ کس طرح حاکم کی رہنمائی کرسکے گا۔۔۔؟ دوسری طرف خوفِ خدا بھی اس کے لیے ضروری ہے تاکہ محض دنیا داری اس کا مقصد نہ بن جائے۔

میری تعریف کی بنیاد پر ایک فقیہ کے لیے جس طرح خدا ترس ہونا ضروری ہے اسی طرح سیاسی بصیرت اور دنیوی احکام میں مہارت بھی ضروری ہے۔ یہ دونوں خوبیاں جس عالم کے اند ر پائی جائیں گی، وہی راقم کی نگاہ میںفقیہ ہوگا اور اسی پر عالم ربانی اور مفتی کی تعریف بھی صادق آئے گی۔

خود امام غزالی نے مثال میں جن حقیقی فقہا کو پیش کیا ہے ان کی زندگی بھی ان دونوں طریقوں کی معرفت کا نمونہ ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ہی لے لیجیے جس طرح شب بیداری، عبادتِ الہٰی، گریہ وزاری، اور خشیت الہٰی ان کی پہچان تھی۔ اسی طرح سیاسی مسائل پر گہری نظر اور حالاتِ زما نہ سے آشنائی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے نبوی شہر میں زندگی بسر کرنا وقف کردیا تھا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس درجہ وارفتہ ہوئے کہ اہلِ مدینہ کے عمل کو اپنے فقہی اصول میں شامل کرلیا ۔ دوسری طرف معروف عباسی خلیفہ ان سے علمی استفادہ کرتا تھا اور امام مالک اس کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔

امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھما اللہ بھی خشیتِ الٰہی، تقویٰ اور فکرِ آخرت کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی بصیرت اور حالات زمانہ سے پوری طرح باخبر تھے۔

خود امام غزالی کا بھی اپنا یہی حال تھا کہ زہدو تقویٰ، احوالِ قلب اور فکرِ آخرت اس قدر ان کی شخصیت میں رچی بسی تھی کہ احیاء علوم الدین جیسی انسائیکلوپیڈیا تیار کردیا اور دوسری طرف سیاسی بالغ نظری کا یہ حال تھا کہ عباسی خلیفہ کی مسند نشینی کی تقریب میں شرکت کی اور ملکی حالات اور سیاسی امور پر جامع نصیحت کی بلکہ اس موضوع پر ایک جامع کتاب ’’فضائح الباطنیہ‘‘ بھی ترتیب دی، جس میں عباسی خلیفہ مستظہر باللہ کو نصیحت کی۔ غرض کہ حقیقی فقیہ کے لیے سیاسی بصیرت میں مہارت کے ساتھ ساتھ خشیتِ الٰہی سے بھی متصف ہونا ضروری ہے۔

امام غزالی کی احیاء علوم الدین کا بابِ علم اہلِ علم اور بالخصوص بر صغیر کے مدارس کے فضلا کے لیے ایک سبق ہے۔ دینی علوم کے نمائندوں سے گذارش ہے کہ احیاء علوم الدین کے پہلے باب کا بغور مطالعہ کریں اور بارگاہ ایزدی میں اخلاص کے ساتھ رجوع کریں۔