سانحہ ماڈل ٹاؤن: قانونی جدوجہد‘ ایک جائزہ

نعیم الدّین چوہدری، ترجمان سانحہ ماڈل ٹاؤن لیگل ٹیم

سانحہ ماڈل ٹاؤن نواز، شہباز حکومت کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ اس کا مقصد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو حکومت کے ماورائے آئین وقانون طرزِ حکمرانی کے خلاف جدوجہد کو روکنا تھا۔ بیریرز کو ہٹا نا مقصد نہیں تھا کیونکہ بیریرز تو 2010ء میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پولیس نے خود اس وقت کے SP ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی نگرانی میں لگوائے تھے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ یہ ایک منفرد کیس ہے جس کی پاکستان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، اس لیے کہ اس میں اس وقت کے وزیر اعظم، وزیر اعلی، وزیر قانون پنجاب، پولیس کے اعلی افسران اور بیوروکریٹس ملوث ہیں۔

اگر یہ محض ایک حادثہ ہوتا تو سانحہ کے فوری بعد قتل وغارت گری میں ملوث پولیس افسران واہلکاران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں آتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سانحہ میں ملوث پولیس افسران واہلکاران کو بعد ازاں پرکشش عہدوں پر تعینات کیا گیا اور مراعات و ترقیاں دی گئیں ۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے جس میں نواز، شہباز حکومت نے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے معصوم اور نہتے بے گناہ کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس دہشت گردی پر مبنی خونی مناظر موقع پر موجود لوگوں کے علاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز کے ذریعہ براہ راست دیکھے۔ جس میں دو خواتین سمیت 14 افراد شہید کیے گئے اور 100 سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں، جن میں سے کچھ افراد اپاہج ہو چکے ہیں۔

  • ظلم و بربریت اور ریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ بجائے اس کے کہ حکومت اعترافِ گناہ کے ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی، الٹا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین پر ہی ایک جھوٹی FIR 510/14 درج کردی گئی اور زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کر کے دنیا کی تاریخ میں ظلم و نا انصافی کی نئی مثال قائم کردی۔ مقدمہ نمبر 510/14 میں جوائنٹ انوسٹی گیشن تشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں MI, ISIکی نمائندگی بھی شامل تھی۔ ان دونوں ایجنسیوں (ISI ,MI) نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ اس FIR کو Quash ہونا چاہیے۔

اس اختلافی نوٹ میں FIR کو Quash کرنے کی وجوہات بھی تحریر کی گئیں لیکن اس کے باوجود جنوری 2015ء میں اس جھوٹے مقدمہ کا چالان انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کیا گیا۔ حالانکہ اختلافی نوٹ کی موجودگی میں اس مقدمہ کا چالان انسداددہشت گردی کورٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح اس مقدمہ میں جنوری 2015ء سے لے کر اب تک پاکستان عوامی تحریک کے بے گناہ افراد تقریباً 350 پیشیاں بھگت چکے ہیں۔

  1. اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اُسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں۔ اس المناک واقعہ کی تحقیقات کی شکل میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرائے گئے ان کو قانون کے مطابق کڑی سزادی جائے گی ۔اگر مجھے اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے توایک سیکنڈ سے پہلے عوام کی عدالت میں حاضر ہوں گا اور جو بھی اس تحقیقاتی رپورٹ میں مجھے تجویز کیاگیا، میں اسے من وعن قبول کروں گا۔
  2. وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ پر مشتمل یک رکنی انکوائری ٹربیونل قائم کیا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے تحقیقات کے دوران انکوائری ٹربیونل آرڈیننس 1969 کے سیکشن 11 کے تحت گورنمنٹ آف پنجاب سے بذریعہ لیٹر 9/TOIمورخہ 20-06-2014 کو Additional Power مانگی لیکن گورنمنٹ آف پنجاب نے بذریعہ لیٹر نمبر Jud 11-III 9-53/2014 مورخہ 27-06-2014 یک رکنی انکوائری ٹربیونل کو ایڈیشنل اختیارات دینے سے انکار کر دیا۔
  3. سانحہ ماڈل ٹاؤن کے فوری بعد سانحہ کے متاثرین اندراج مقدمہ کے لئے تھانہ فیصل ٹاؤن میں گئے لیکن FIR کا اندراج نہ ہو سکا۔ ایڈیشنل سیشن جج جسٹس آف پیس کے حکم کے باوجود بھی FIR کا اندراج نہ ہوا کیونکہ اس سانحہ میں اُس وقت کی حکومت اور بااثر اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے۔ حکومتی وزراء (پرویز رشید، عابد شیر علی، خواجہ سعد رفیق) نے سیشن کورٹ کے اس حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ پٹیشن دائر کی جو لاہور ہائی کورٹ نے مورخہ 26 اگست 2014ء کو خارج کردی۔ حکومتی وزراء کی رٹ کے اخراج کے باوجود پولیس نے FIR در ج نہ کی کیونکہ اس سانحہ میں اُس وقت کے وزیر اعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب، وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے۔
  4. دھرنا کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے مورخہ 28 اگست 2014ء کو FIR 696/14 درج ہوئی۔ دھرنا کے دوران مذاکرات میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ JIT غیر جانبدار اور مدعی فریق کے اتفاق رائے سے بنائی جائے گی مگر حکومت نے وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنے من پسند اور زیر اثر افسران پر مشتمل JIT تشکیل دی۔ JIT کا سربراہ عبدالرزاق چیمہ پہلے لاہور اور گوجرنوالہ میں انہی ملزمان کے ماتحت اپنے فرائض سرانجام دے چکا ہے۔ لہذا اُس کی سربراہی کا اعلان ہوتے ہی پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اِس پر باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور حکومت کو غیر جانبدار JIT تشکیل دینے کا وعدہ یاد کرایا گیا مگر حکومت اپنی مرضی کی تفتیشی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے اِس JIT کو تبدیل کرنے پر رضامند نہ ہوئی۔ جس پر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو بذریعہ تحریری لیٹرز غیر جانبدار JIT بنانے کے لئے بارہا درخواستیں ارسال کی گئیں لیکن ان درخواستوں کو نظر انداز کردیاگیا اور اس JIT سے اپنی مرضی کے مطابق یک طرفہ غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیار کروائی گئی۔

مشتاق احمد سکھیرا آئی جی پنجاب جو ہمارا ملزم بھی ہے، اس نے اس مقدمہ کی تفتیش کے لیے JIT تشکیل دی اوراس مقدمہ میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، سابق وفاقی و صوبائی وزراء اور وہ پولیس افسران جو بطور ملزمان نامزد تھے، بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی۔

  • اس JIT نے عدالت میں صرف 2 پولیس اہلکاران کا چالان اور 4 پولیس اہلکاران کا اس مقدمہ میں اشتہاری ہونے کی وجہ سے چالان پیش کیا۔ اس طرح اس کیس میں صرف 6 پولیس اہلکاران کا عدالت میں چالان پیش کیا گیا۔ چالان دسمبر2015ء میں انسداددہشت گردی کورٹ میں پیش ہوا تو تمام پولیس افیسرز اور گورنمنٹ کے بااثر افراد کو اس کیس سے نکال دیا گیا اور پاکستان عوامی تحریک کے 42 کارکن جو مقدمہ نمبر 510/14 (پولیس مدعی) میں بحیثیت ملزم پیش ہو رہے تھے، ان 42 کارکنان کو بھی اپنا مقدمہ 696/14 میں بھی ملزم قراردے دیا گیا۔ ان 42 کارکنان کے خلاف انسداد دہشت گردی کورٹ میں چالان پیش کیاگیا تو اپنے ہی مقدمہ میں ادارہ منہاج القرآن اور PAT کے کارکنان کی ضمانتیں کروائی گئیں۔

عوامی تحریک کے کارکنان کا ناحق چالان کرنے سے اس وقت کے حکمرانوں کی مکمل بد دیانتی سامنے آگئی تو استغاثہ دائر کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ مورخہ 15 مارچ 2016ء کو انسداددہشت گردی کورٹ میں استغاثہ دائر کردیاگیا۔ اس استغاثہ میں 56 زخمی و چشم دید گواہان کے بیانات مورخہ 20 دسمبر 2016ء کو مکمل ہوئے۔

  • مورخہ 7 فروری 2017ء کو انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124 ملزمان کو طلب کرلیا، جس میں اس سانحہ میں ملوث کانسٹیبل سے لے کر آئی جی تک شامل ہیں، ان کے ساتھ ساتھ دیگر افرادجس میں DCO کپٹن (ر) عثمان، TMO نشترٹاؤن علی عباس، AC ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو بھی شامل ہیں، ان کو بھی طلب کیا گیا لیکن جن افراد کے حکم سے یہ ریاستی دہشت گردی ہوئی، ان کو انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور نے طلب نہ کیا۔ گورنمنٹ اوربیورو کریسی کے اُن 12 افراد کو طلب نہ کرنے پرلاہور ہائی کورٹ میں Criminal Revision دائر کی گئی جو کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مورخہ 26 ستمبر 2018ء کو خارج کردی۔ ہم لاہور ہائی کورٹ کے اس آرڈرکے خلاف سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ میں گورنمنٹ اور بیوروکریسی کے خلاف کیس زیر سماعت ہے، جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
  • مشتاق احمد سکھیرا سابق آئی جی پنجاب کو انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور نے استغاثہ کیس میں طلب کیا تو آئی جی مشتاق احمد سکھیرانے بھی اپنی طلبی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ مورخہ 26 ستمبر 2018ء کو آئی جی مشتاق احمد سکھیرا کی Criminal Revision بھی لاہور ہائی کورٹ نے خارج کردی تو آئی جی مشتاق احمد سکھیرا Criminal Revisionخارج ہونے کے بعد انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش ہوگیا اور اس طرح استغاثہ کا ٹرائل DE NOVO ہوگیا اور اس طرح استغاثہ کیس میں آئی جی مشتاق احمد سکھیرا اور تمام ملزمان پر مورخہ 15 اکتوبر 2018ء کو دوبارہ فرد جرم عائد ہوئی۔

اس سے پہلے استغاثہ کیس میں جتنی بھی کاروائی ہوئی تھی وہ تمام کاروائی ملزم آئی جی مشتاق احمد سکھیرا کے انسداد دہشت گردی کورٹ میں پیش ہونے کی وجہ سے دوبارہ ہونی ہے اور اس طرح استغاثہ کیس میں اب دوبارہ مستغیث اور دیگر گواہان کے بیانات ہوں گے۔

  • جسٹس علی باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے جو تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو ارسال کی تھی اور جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیا گیا تھا، اس رپورٹ کے حصول کے لئے سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے لاہورہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی۔ جس کی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی جج لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کی اور سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ، گورنمنٹ آف پنجاب کو حکم دیا کہ فوری طور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو رپورٹ مہیا کی جائے لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود گورنمنٹ آف پنجاب نے شہداء کے متاثرین کو رپورٹ فراہم نہ کی بلکہ اس آرڈر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کردی جس کی لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین نے سماعت کی اور گورنمنٹ کی اپیل مورخہ 24 نومبر 2017ء کو خارج کر دی۔

انٹرا کورٹ اپیل کے خارج ہونے کے بعد گورنمنٹ نے مجبور ہو کر اس رپورٹ کو پبلک کردیا اور سانحہ ماڈ ل ٹاؤن کے متاثرین کو بھی رپورٹ فراہم کردی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تمام قتل وغارت گری کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا ہوا ہے۔

اس رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس شامل ہیں۔ یہ تمام دستاویزات جو جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ تھیں، افسوس کہ وہ سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں۔ ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصول کے لئے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ دائر کی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیر سماعت ہے۔

  • رانا ثناء اللہ نے اس انکوائری ٹربیونل کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آمد کے سلسلہ میں سب کمیٹی بن چکی تھی اور اس ضمن میں کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز کر رہی تھی، سوچ و بچار کر رہی تھی اور سپیشل برانچ کی رپورٹ اس میں ڈسکس ہو رہی تھی۔
  • اس ضمن میں Execution کیلئے اور اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے IG پنجاب خان بیگ سے بات کی تو اس نے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں مورخہ 14 جون 2014ء کو IG خان بیگ کو OSD بنا دیا گیا۔ مورخہ 14 جون 2014ء کو ہی مشتاق احمد سکھیرا کا نام بطور IG فائنل ہوا اور اس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔

اسی طرح اُسی دن مورخہ 14جون2014 کو DCO احمد جاوید قاضی کو بھی تبدیل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے بھی قتل عام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ان کی جگہ نیا DCO کیپٹن(ر) عثمان کو لگا دیا گیا اور وہ آپریشن میں بھی خود شریک تھا۔ DCO اور IG کو تبدیل کرنے اور نئے IG اور DCO کو ایک ہی دن میں لگانا 17جون2014ء کا وقوعہ کروانے کی منصوبہ بندی کو ثابت کرتا ہے۔

٭ مورخہ 16جون 2014ء کو رانا ثناء اللہ نے سول سیکرٹریٹ میں میٹنگ کی اوراس میٹنگ میں سپیشل برانچ کے نمائندہ نے رپورٹ پیش کی کہ ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری 23 جون 2014ء کو پاکستان آرہے ہیں اورحکومت کے خلاف تحریک چلانے جارہے ہیں اور PAT ورکرز گرمجوشی سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آمد کے سلسلہ میں استقبال اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے زبر دست تیاریوں میں مصروف ہیں تو رانا ثناء اللہ نے اس میٹنگ میں کہا کہ ہم کسی بھی صورت ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ خواہ اس کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانا پڑا تو ہم گریز نہیں کریں گے۔

شہباز حکومت نے آئی جی پنجاب کو تبدیل کرکے پولیس کو کور کیاپھر کیس کو کنٹرول کرنے کے لیے پراسیکیوشن کو بھی کور کیا اور مورخہ 17جون 2014ء کو وقوعہ کے دن ہی سید احتشام قادر شاہ کی بطور پراسیکیوٹر جنرل خصوصی تقرری کی گئی۔

٭ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں موقع پر موجود پولیس افسران،اہلکاران جنہوں نے قتل وغارت گری کی تھی، ان کو انسداددہشت گردی کورٹ نے طلب کیا تھا، ان کے ٹرائل کا بھی آغاز ہو چکا ہے لیکن جن کے حکم اور جن کی ایماء پر اور جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے اور اصل حقائق کو منظر عام پر لانے اور اصل ملزموں تک پہنچنے کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسر نو انوسٹی گیشن ضروری تھی کیونکہ اس سے پہلے والی JITنے انوسٹی گیشن حقائق کے برعکس، جانبدار اوریکطرفہ کی تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔

علاوہ ازیں وہ تمام ریکارڈ جو گورنمنٹ کے اداروں اور ان با اثر ملزمان کے زیر قبضہ تھا اور جس تک مدعی پارٹی کی رسائی ہر گز ممکن نہیں تھی، اس ریکارڈ سے مقدمہ کی تفتیش کو تقویت ملتی ہے، اس ریکارڈ کو بھی پہلی والی JITنے تفتیش کاحصہ نہیں بنایا تھا۔ ہمارے پاس جو ثبوت اور شہادتیں میسر تھیں وہ انسداد دہشت گردی کورٹ میں دے دی تھیں لیکن کچھ ایسی شہادتیں اور ثبوت ہیں جن تک ہماری رسائی ناممکن ہے اور جو جے آئی ٹی یا عدالت کے ذریعہ سے ہی سامنے آسکتی ہیں۔

٭ اس مقصد کے لیے تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثارکو اپنی والدہ، پھوپھو اور دیگر شہداء کے انصاف کے لئے اور نئی JITکی تشکیل کے لئے درخواست دی۔ مورخہ 6اکتوبر 2018ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اس درخواست پر سماعت کی اور مورخہ 19نومبر2018ء کو بسمہ امجد کی درخواست پر ایک لارجر بنچ تشکیل دے دیا ۔جس کی سربراہی خود چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس تھی۔

٭ مورخہ 5دسمبر2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجربنچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں اس درخواست پرسماعت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ نمبر 696/14میں نئی JITتشکیل دی اور بعد ازاں مورخہ 3جنوری 2019ء کو گورنمنٹ آف پنجاب نے JITکا نوٹیفکیشن جاری کر دیا اس JITنے مورخہ 14جنوری سے لے کر 20 مارچ تک تفتیش کی۔

٭ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کیلئے بننے والی نئی جے آئی ٹی نے اصل ملزموں تک پہنچنے کے لیے مختلف پہلوؤں پرتفتیش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کیا سازش کار فرما تھی؟ اس وقوعہ کے پیچھے کون کون سازشی عناصر موجود ہیں؟ اور یہ سازش کہاں سے چلی اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد ہوا؟

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انوسٹی گیشن کیلئے JIT کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے تمام ثبوت زبانی و دستاویزی شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے۔ JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے والے ملزمان بشمول شریف برادران اور رانا ثناء اللہ سے بھی تفتیش کی۔

٭ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز نواز شریف اور شہباز شریف اورراناثناء اللہ سے جب جے آئی ٹی نے انوسٹی گیشن کی تو کچھ قوتیں متحرک ہو گئیں کہ ان کو جے آئی ٹی گنہگار ٹھہرا کر انسداد دہشت گردی کورٹ میں چالان پیش نہ کر دے اور انکے ٹرائل کا آغاز نہ ہوجائے۔ لہذا ان قوتوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کرواکر جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا اور یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل تک کامعلوم نہ ہوسکا۔

یہی وجہ ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل موجود نہیں تھے۔ جب ایڈووکیٹ جنرل کو معلوم ہوا تو وہ فوری طور پر عدالت میں پہنچ گئے لیکن ایڈووکیٹ جنرل نے جب فل بینچ کے سامنے یہ ساری صورتحال سامنے رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

٭ ڈویژن بینچ نے مورخہ 24جنوری 2019ء کو اس رٹ کی maintainability پر سوالات اٹھادیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں بننے والی جے آئی ٹی کے خلاف ہم کس طرح سماعت کرسکتے ہیں تو پٹیشنر کے وکلاء نے تیاری کیلئے کورٹ سے ٹائم مانگ لیا۔

مورخہ 31 جنوری 2019ء کو ڈویژن بینچ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے ملزمان کے وکلاء نے request کی کہ ہم چیف جسٹس کو درخواست دینا چاہتے ہیں کہ اس کیس میں لارجر بینچ بنایا جائے۔

مورخہ 20 فروری 2019ء کو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو فل بینچ بنانے کیلئے درخواست دی گئی۔ حالانکہ یہ درخواست ریگولر طریقے سے جوڈیشل سائیڈ پر اوپن کورٹ میں دینی چاہیے تھی اور اوپن کورٹ میں اس درخواست کو لگنا چاہیے تھا لیکن اوپن کورٹ میں یہ درخواست نہیں دی گئی۔

مورخہ 5 مارچ 2019ء کو یہ درخواست ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کی Noting کے ساتھ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے سامنے پیش کی گئی ۔اوراس درخواست کو ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر لگادیا گیا اور اس کیس کو چیف جسٹس نے خود بخود ہی Take up کرلیا اور فل بینچ تشکیل دے دیاگیا۔

  • مورخہ 13 مارچ 2019ء کو سینئر ممبر فل بینچ کے پاس یہ کیس جاتا ہے تو سینئر ممبر فل بینچ 22 مارچ کے لیے اس کیس کو فکس کردیتے ہیں لیکن یہ کیس Regular weekly لسٹ میں نہیں آتا بلکہ 22 مارچ کو Supplementary List کیس کی سماعت سے آدھاگھنٹہ پہلے نکلتی ہے اور فل بینچ اس کیس کی سماعت کرتا ہے اور ایڈووکیٹ جنرل کو سنے بغیرہی JIT کے نوٹیفیکیشن کو معطل کر دیا جاتا ہے۔
  • ہم نے فل بنچ کی تشکیل کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ کے ذریعہ چیلنج کیا ہوا ہے۔اس رٹ کی Maintabily کے حوالے سے رجسٹرار آفس لاہور ہائی کورٹ نے اعتراض لگا دیا تھا۔ اب یہ رٹ ASa Objection Case چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پاس زیر سماعت ہے۔

مورخہ  2 مئی 2019 کو Urgent کیس کے طور پر لگا لیکن چیف جسٹس کی صحت کی خرابی کی وجہ سے چیف جسٹس رخصت پر چلے گئے جس کی وجہ سے اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔ اسی طرح 6 مئی، 7 مئی، 8 مئی 2019 کو کیس فکس ہوا لیکن چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی رخصت پر ہونے کی وجہ سے اس کیس کی سماعت نہ ہو سکی۔اس کے بعد ابھی تک اس کیس میں تاریخ پیشی مقرر نہیں ہوئی ہے۔

اس طرح JIT کی تشکیل کے خلاف جورٹ دائر ہوئی ہیں وہ بھی فل بنچ لاہور ہائی کورٹ کے پاس زیر سماعت ہے۔ جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ مورخہ 22 مارچ 2019ء کے خلاف جس میں فل بنچ نے JIT کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کیا ہے، اس فیصلہ کے خلاف ہم نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کر دیا ہے۔

سانحہ کے ذمہ داران کو دی جانے والی مراعات

اس وقت کی ظالم نواز، شہباز حکومت کے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے اور پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی جدوجہد کو بزورِ بازو روکنے کے لیے آئی جی پنجاب خان بیگ نے آپریشن کرنے سے انکار کر دیا تو سپیشل ٹاسک کے لیے خصوصی طور پر قتل وغارت گری کے لئے مشتاق احمد سکھیرا کو بلوچستان سے ٹرانسفر کیا گیا حالانکہ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کا گریڈ 21 ویں تھا اور یہ پوسٹ 22 ویں گریڈ کی تھی۔ بعد ازاں مشتاق احمد سکھیرا کو مراعات کے طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی ٹیکس محتسب لگا دیا گیا جو کہ ایک Constitutional post ہے جبکہ دوسری طرف خان بیگ کو ریٹائرمنٹ تک OSD رکھا گیا۔

  • سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے پرسنل سیکرٹری توقیر شاہ کو بھی خصوصی طور پر نوازتے ہوئے WHO میں نمائندہ مقرر کردیا گیا۔
  • اسی طرح اس وقت کے ڈی سی او احمد جاوید قاضی نے بھی آپریشن کرنے سے انکار کر دیا تھا تو کیپٹن (ر) عثمان کو بطور ڈی۔سی۔ او لایا گیا اور اس وقوعہ کے بعد کیپٹن (ر) عثمان کو مراعات کے طور پر صاف پانی پراجیکٹ سربراہ بنایا گیا اور سپیشل پیکج پر دس لاکھ روپے ماہانہ دیے گئے۔
  • اسی طرح خصوصی طور پر تعینات پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر شاہ کی 3 سال کیلئے خصوصی تقرری کے بعد ان کو سپیشل پیکیج اور مراعات کے طور پر تقریبا 10 لاکھ روپے ماہانہ دیے گئے۔ مورخہ 17 جون 2017ء کو 3 سال مکمل ہونے پر پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر شاہ کو مزید توسیع نہ مل سکتی تھی۔ مورخہ 22 جون 2017ء کو حکومت پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب نے گورنر پنجاب سے آرڈیننس جاری کروایا۔ آرڈیننس کے سیکشن 6 کے تحت حکومت پنجاب اور وزیر اعلی کو Amendment کا اختیار دے دیا گیا جس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں مزید 2 سال کی توسیع کر دی گئی اور یہ توسیع اس لیے دی گئی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل کو نہ صرف توسیعِ ملازمت دی گئی بلکہ مزید ترمیم بھی کی گئی کہ پراسیکیوٹر جنرل کی رائے کو کورٹ اہمیت دے گی اور پراسیکیوٹر جنرل ملزمان کی سزا بھی تجویز کرے گا۔

نواز، شہباز حکومت کا قتل و غارت گری کروانا اور بعد ازاں اپنے آپ کو تحفظ دینے کیلئے قانونی منصوبہ بندی کرنا یہ تمام اقدامات، تقرریاں، برطرفیاں، تبادلے، خصوصی مراعات، توسیعِ ملازمت، آرڈیننس اور ترمیمات یہ سب واضح کرتے ہیں کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اس پورے وقوعہ اور سانحہ کے ذمہ دار ہیں اور اس وقوعہ سے پہلے تیاری اور اس کے بعد تحفظ دینے کے اقدامات ان کے جرم کو ثابت کرتے ہیں۔ اس وقوعہ کی پولیس ہی صرف ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جس کی ایماء پر تمام وقوعہ ہوا ہے۔