المواخات اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب

خصوصی رپورٹ: آفتاب احمد خان

مورخہ 8 جون 2019 ء کو ’’المواخات‘‘اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ کا باضابطہ آغاز ہوا، اس کے آغاز کی پر وقار تقریب منہاج یونیورسٹی لاہور میں انعقاد پذیر ہوئی۔ ’’المواخات‘‘ پراجیکٹ کے چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ’’المواخات‘‘ اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ کے خدوخال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور پہلے مرحلے پر موٹر سائیکل اور رکشا کی چابیاں بھی دی گئیں۔ افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر محمد اسلم غوری، کرنل (ر) محمد احمد، پراجیکٹ کے بزنس ڈائریکٹر آپریشن سید تنویر عباس تابش، میڈیا ڈائریکٹر منہاج القرآن نوراللہ صدیقی،منیجر آپریشن محمد حسن عباس،ڈاکٹر خرم شہزاد و دیگر شریک تھے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں اس پراجیکٹ کو عملی شکل دینے پر سید تنویر عباس تابش اور حسن عباس کو مبارکباد دی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کے مفہوم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں 40 فیصد حصہ حقوق اللہ سے متعلق ملتا ہے جبکہ بقیہ احکامات حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ بہترین عبادت اور خدمت انسانیت کی خدمت ہے۔ کسی کو روزگار دینا اور اس کے لیے کفالت کے اسباب پیدا کرنا یہ بہترین عبادت ہے۔ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ بیروزگاری ہے۔ خط غربت سے نیچے رہنے والے شہریوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اگرچہ کروڑوں لوگوں کے لیے روزگار مہیا کرنا ریاستی سطح پر ہی ممکن ہے تاہم پرائیویٹ سیکٹر میں اپنی مدد آپ کے تحت خدمات انجام دے کر بیروزگاری کے المیہ کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت ’’المواخات‘‘ اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔

ہماری مقتدور بھر کوشش ہے کہ ایسے ہاتھ ہوں جو دینے والے ہوں، لینے والے نہ ہوں۔ پاکستان کی سوسائٹی سماجی تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں تعلیم بھی مسئلہ ہے، اگر تعلیم ہو تو پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ کس اچھے ادارے سے ہے؟ اب صرف ڈگری کی بنیاد پر نوکری نہیں ملتی بلکہ ڈگری دینے والے مہنگے اداروں کا حوالہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ روزگار کے مواقع کا مہیا نہ ہونا بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ تعلیم کے مطابق روزگار جب تک نہیں ملتا تو پڑھے لکھے نوجوان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسا تعلیمی نظام وضع کیا جائے جو تکنیکی ہو، شارٹ کورسز ہوں اور نوجوانوں کو ڈگری کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بنایا جائے تاکہ کم ازکم وہ دوران تعلیم اپنے تعلیمی اخراجات بھی پورے کر سکیں۔

وقار اور عزت نفس کے تحفظ کے ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت ہی بہترین عبادت ہے۔ یہاں پر لوگ مدد تو کرتے ہیں مگر اس میں وقار نہیں ہوتا۔ کسی کو زکوٰۃ دینا یا خیرات دینا یہ کوئی باوقار مدد نہیں ہے۔ ’’المواخات‘‘ اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ ایک وقار کے ساتھ انسانیت کی خدمت کا عزم لے کر اٹھا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے شخصی ضمانت، آسان شرائط پر انٹرسٹ فری ’’پروڈکٹ بیسڈ‘‘ قرض دیا جائے گا اور پہلے مرحلہ پر بے روزگار نوجوانوں کو رکشے اور موٹر سائیکل دے رہے ہیں۔ قرض کی واپسی کی ماہانہ قسط جملہ واجبات کے ساتھ انتہائی کم اور قابل برداشت ہے۔ یہ پائلٹ پراجیکٹ ہے، بتدریج پراڈکٹ بیسڈ قرض کے اجراء کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے گی۔

’’المواخات ‘‘کا قیام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے انسانیت کی خدمت کے ویژن کے تحت روبہ عمل لایا گیا ہے۔ انٹرسٹ فری مائیکرو فنانس کے اس فلاحی منصوبہ کو منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سرپرستی حاصل ہے۔آبادی کا نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسا بڑا حصہ بھی ہے جو کالج ،یونیورسٹی تو نہیں گیا لیکن وہ رزق حلال کمانا چاہتا ہے۔ مارکیٹ میں بنک قرضہ دیتے ہیں لیکن وہ گارنٹی مانگتے ہیں، شخصی گارنٹی نہیں بلکہ پراپرٹی کی صورت میں۔ ایک آدمی جو پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں ہے وہ گارنٹی کہاں سے لائے؟ اور ایسے شخص کی گارنٹی بھی کون دیتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ’’المواخات‘‘ اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ کا اجراء کیا گیا ہے کہ رزق حلال کمانے میں ان کی مدد کی جائے، ان کا سہارا بنا جائے۔ یہ پراجیکٹ اس طبقہ کو مدد فراہم کرے گا جنہیں کمرشل بنک قرضہ دینے سے انکار کردیتے ہیں یا وہ کمرشل بنکوں کے ضابطوں کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا قرضہ پروڈکٹ بیسڈ ہو گا، ہم نقد رقوم فراہم نہیں کریں گے کیونکہ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی غریب آدمی جب کسی خاص مقصد کیلئے قرضہ لیتا ہے تو وہ پورا نہیں کر پاتا۔ گھر میں بیماری یا کسی اور ایمرجنسی کی وجہ سے وہ قرضہ اصل مقصد پر استعمال نہیں ہوپاتا۔ لہذا ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری مدد پائوں پر کھڑے کرنے کے لیے ہو گی، اگر کوئی رکشا چلا سکتا ہے تو اسے رکشے کے پیسے نہیں دینگے بلکہ رکشا خرید کر دینگے اور اسی طرح مستقبل میں برسرروزگار لانے کے جتنے بھی منصوبے بنیں گے وہ پروڈکٹ بیسڈ ہونگے۔اگر اس قوم کو ایک متحد اور پراعتماد قوم بنانا ہے تو پھر اسے پائوں پر کھڑا کرنے کی پالیسیاں بنانا ہونگی۔ مالی مدد کی بنیاد پر کوئی فرد یا خاندان کبھی خودکفیل نہیں ہو سکتا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مانگنے والے ہاتھ سے بہتر دینے والا ہاتھ ہے۔

اگر آپ کسی کی مالی مددکرینگے تو مالی مدد حاصل کرنے والے کو بھی علم ہے میں اس کو جس طرح بھی خرچ کر لوں جواب دہ نہیں ہوں، اگر آپ کسی کو قرض دیں گے اور اسے علم ہو گا کہ مجھے یہ قرض واپس کرنا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرے گا۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’المواخات‘‘ اسلامک مائیکرو فنانس پراجیکٹ کا نام ’’المواخات‘‘رکھنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اور قرآن مجید کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ مواخات مدینہ ہے۔ مواخات مدینہ میرے نزدیک محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ انصار مدینہ جو ایک لمحہ پہلے کسی کو نہیں جانتے تھے، وہ مہاجرین جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے، اس ماحول میں اجنبی تھے، وہ خالی ہاتھ اپنے عزیز و اقارب، مال و اسباب کو چھوڑ کر مدینہ آئے۔ دوسری طرف انصار جو میزبان تھے اور برسرروزگار تھے، اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کاروبار، کھیتی باڑی اور باغات کے مالک تھے۔ یہ دو طبقات تھے: ایک وہ طبقہ جس کے پاس سب کچھ تھا اور دوسرا وہ طبقہ تھا جس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ تشریف لاتے ہی دو کام انجام دئیے: انصار اور مہاجرین کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیاتو اس طرح مہاجرین کی جو عزیز و اقارب کے حوالے سے تنہائی تھی اس کا خاتمہ فرما دیا اور ان کو وسائل میں شریک کار بنا دیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان دونوں فیصلوں کو انصار مدینہ نے بخوشی قبول کیا اور اپنے مہاجر بھائیوں کیلئے وسائل مختص کر دئیے۔ آج کے زمانے میں بھی کوئی بھائی کبھی کسی کے نام جائیداد، کاروبار اور وسائل نہیں لگاتا مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بے مثال معجزے کے نتیجے میں انصار مدینہ نے اپنے مہاجر بھائیوں کیلئے اپنے وسائل اور گھر بار میں انہیں حصہ دار بنا دیا۔ اسی بھائی چارے کو فروغ دینے کی آج بھی ضرورت ہے۔ جن کے پاس کچھ ہے وہ اپنے وسائل ان کے لیے مختص کریں جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔