القرآن: نفس کی پہچان اور اصلاح

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ.

’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔‘‘

(الاعلیٰ، 87: 14)

دین کے دو حصے ہیں:

  1. حرام چیزوں سے بچنا
  2. نیک کاموں کو کرنا

نیک کام کرنا آسان ہے جبکہ گناہ چھوڑنا مشکل ہے۔ اس کا عملی نظارہ ہم روز مرہ زندگی میں کثرت کے ساتھ کرتے ہیں مثلاً ستائیسویں کی رات ہوتی ہے تو لاکھوں لوگ اس رات نیکی کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ جمعہ کے دن لاکھوں لوگ مسجدوں میں نماز پڑھنے آجاتے ہیں۔ قربانی لاکھوں کروڑوں مسلمان کرتے ہیں، حج کے شوق میں پچیس یا تیس لاکھ لوگ چلے جاتے ہیں۔ کروڑوں لوگ صدقہ و خیرات کرلیتے ہیں۔ نیکی کے کاموں میں لاکھوں کروڑوں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

اگر لوگ اس کثرت کے ساتھ نیکیاں کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ خرابی کہاں سے جنم لیتی ہے؟ اصل مسئلہ (Problem) کہاں ہے؟ یاد رکھیں! اصل مسئلہ نیکی کرنے میں نہیں ہے بلکہ گناہ کو چھوڑنے میں ہے۔ نیکی انسان کرلیتا ہے لیکن گناہ نہیں چھوڑتا۔ جس چیز سے اللہ ناراض ہوتا ہے، اس کام سے بندہ تائب نہیں ہوتا۔ نیک کام پر ہر شخص کو تھوڑی بہت قدرت ہوتی ہے مگر نفسانی خواہشات اور گناہوں کو چھوڑنے کی قدرت و طاقت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف سچے لوگوں کا کام ہے۔ اس لیے اولیاء و صلحاء کی تعلیمات میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اے بندے اگر ہدایت کی راہ پر چلنا ہے تو پہلے گناہ ترک کر، تب تو ہدایت کے حصول میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ گویا طاعات کے ساتھ ساتھ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے برائیوں کو بھی خیر باد کہنا ہوگا۔

امام ابی عبداللہ حارث بن اسد المحاسبی نے ’’رسالۃ المسترشدین‘‘ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’اے بندے اللہ کا تقویٰ اختیار کر، اس کی اطاعت کے ساتھ اور اللہ کی اطاعت اختیار کر، اس کے تقویٰ کے ساتھ۔‘‘

یعنی تقویٰ نہیں ہوسکتا اگر بندہ اللہ کی بندگی و اطاعت میں نہیں ہے۔ اطاعت سے غافل ہو اور تقویٰ کی بات کرے تو وہ جھوٹا ہے۔ اسی طرح وہ نیک اعمال تو سرانجام دے مگر اپنے آپ کو برائیوں سے نہ بچائے، زندگی میں اللہ کی نافرمانی کرے اور خود کو متقی سمجھے تو وہ جھوٹا ہے۔

مزید فرمایا: مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں محنت کرتا ہے اور مہاجر وہ ہے جو اپنے گناہوں اور نافرمانی سے ہجرت کرنے والا ہے۔

یعنی بندے کو چاہئے کہ وہ اللہ کی اطاعت کے لیے مجاہد بن جائے اور اللہ کے تقویٰ کے لیے گناہوں اور نافرمانی سے ہجرت کرنے والا مہاجر بن جائے۔ گناہوں، نافرمانی اور حرص و لالچ کا وطن چھوڑ دے اور اللہ کی اطاعت اور تقویٰ کے گھر میں آجائے۔

افسوس! ایک طرف ہم حرص، حُبِ دنیا، گناہ اور نافرمانی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اور دوسری طرف عبادت، نماز، روزے، تسبیح کو بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ اس لیے تقویٰ اور اطاعت کو جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔

محاسبہ نفس کیونکر ممکن ہے؟

مزید فرمایا: ’’ہر خطرہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کر اور اپنے نفس کا محافظ بن جا‘‘۔

محاسبہ نفس کے لیے درج ذیل امور کو تربیت کے دائرہ میں لانا ہوگا:

1۔ خطرہ (خیال)

امام محاسبی نے مذکورہ فرمان میں محاسبہ نفس کے دوران جس خطرہ سے چوکنا اور ہوشیار رہنے کی تاکید کی ہے، اس سے مراد ہمارے ذہن میں آنے والا خیال ہے۔ روحانی اصطلاح میں ذہن میں آنے والا خیال ’’خطرہ‘‘ کہلاتا ہے۔ کوئی برا خیال آئے تو اس کو روکنا تصوف ہے۔ فرمایا کہ جب کوئی بھی برا خیال آئے تو اپنے دل و دماغ کے دروازے پر پہریدار، چوکیدار، سیکیورٹی گارڈ بن کر اس طرح کھڑے ہوجائو کہ جونہی وہ آئے، اسی وقت اسے جھٹک دو چونکہ وہ برا خیال ساری تباہی کا سبب بننے والا ہے۔

کسی بھی ذہنِ انسانی میں جب بھی پہلا برا خیال آتا ہے تو اس کو روکنا انسان کے لیے آسان ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارا کام ہے کہ وہیں اسے روک دیں، خواہ تعوذ پڑھیں، معوذ تین پڑھیں، استغفار کریں، وضو کریں، کسی بھی طریق سے اس برے خیال کو روک دیں، یہ سارے علاج ہیں۔

ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم اس برے خیال کو آنے سے نہیں روکتے۔ وہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے، پھر آتا ہے اور گزر جاتا ہے، اسی طرح سو بار آتا ہے اور گزر جاتا ہے لیکن ہم اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔

2۔ تصور (شہوت)

امام محاسبی فرماتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار آیا تھا تو وہ خطرہ تھا، اس کو روک دیتے تو محاسبہ ہوجاتا اور بچ جاتے لیکن چونکہ ہم نے اسے نہیں روکا اور وہ بار بار آتا رہے بالآخر وہ خیال، ایک تصور (Concept)، شہوت اور ایک Idea بن جاتا ہے۔

خیال جب تصور بن جائے تو اس کو بدلنا اور روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اکثر لوگ گلہ کرتے ہیں کہ بہت پریشان ہیں، برے برے خیالات آتے ہیں، اِن سے جان نہیں چھوٹتی۔ اِن سے جان نہ چھوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ اب وہ خیال رہا ہی نہیں بلکہ ذہن کا ایک تصور بن گیا ہے۔ خیال تب تھا جب وہ پہلی بار آیا تھا، اس وقت اس کا راستہ روکنا تھا مگر جب اسے نہیں روکا اور بار بار ذہن میں آنے دیا، تو اس تسلسل نے اس ’’خیال‘‘ کو ’’تصور‘‘ میں بدل دیا۔ پہلے وہ جھلک تھی مگر اب وہ ایک خاص رنگ کی عینک بن گیا ہے۔ جس طرح کسی بھی رنگ کی عینک لگاکر جس چیز کو بھی دیکھیں گے، وہ چیز بھی اسی رنگ کی نظر آئے گی، جس رنگ کی عینک ہے۔ اسی طرح جب وہ خیال؛ تصور میں بدلا تو وہ ایک خاص رنگ کی عینک بن گیا۔ اب وہ تصور ذہن میں آجانے کے بعد ہم جو شے بھی دیکھتے ہیں، اسی تصور کے مطابق نظر آتی ہے۔ یہاں سے شیطان اور نفس کا حملہ شروع ہوجاتا ہے۔

اگر اِس تصور کو بھی روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ تصور مضبوط ہوکر شہوت میں بدل جاتا ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں شہوت صرف جنسی خواہش کو نہیں کہتے بلکہ وہ دنیاوی خواہشات جو ہمارے ذہن میں پختہ ہوجائیں، شہوت کہلاتی ہیں۔ ارشاد فرمایا:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاج وَاﷲُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.

’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔‘‘

(آل عمران، 3: 14)

گویا عورتوں، بیٹیوں، مال و دولت، دنیا، جاہ و منصب کی محبتیں شہوت ہیں۔ پس اگر تصور پختہ ہوجائے تو وہ خواہشوں کو جنم دیتا ہے اور یہ خواہشات شہوت کا روپ دھار لیتی ہیں۔

اب بھی اگر محنت کریں تو اس تصور کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کا طریقہ نیک صحبت ہے لیکن اگر تصور اس نیک صحبت کے بارے میں خراب ہوگیا تو پھر کون بچائے گا؟ اگر تصور ہی اسی طبیب کے خلاف ہوگیا تو صحبت کا فیض بھی گیا۔ نفس اور شیطان سارے حربے کرتا ہے۔ شیطان دیکھتا ہے کہ اس کا بھلا کہاں سے ہوگا، وہیں سے اس کے ذہن میں خرابی ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ شیطان دیکھتا ہے کہ اس کا علاج کہاں سے ہونا ہے، وہ اسی کے بارے اس کا ذہن خراب کردیتا ہے۔ شیطان دیکھتا ہے کہ اس کو شفاء کہاں سے ملے گی، وہ اسی کے بارے میں اس کا تصور غلط کردیتا ہے۔ اس لیے کہ شیطان نے یہ عزم و ارادہ کررکھا ہے کہ

فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ.

’’سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔‘‘

(ص، 38: 82)

لہذا اپنی صحبتیں اور سنگتیں پاک رکھو اور غلط تصور قائم کرنے سے بچو۔ اس لیے کہ جب تصور غلط ہوجائے تو پھر تباہی کے سفر کا آغاز ہوجاتا ہے۔

3۔ ارادہ (ہمت)

خیال اور تصور کے بعد اگلی سٹیج ’’ارادہ‘‘ کی آتی ہے۔ یعنی وہ تصور پھر گناہ کا ارادہ کرواتا ہے۔ وہ گناہ جسمانی بھی ہے اور روحانی و شہوانی بھی ہے۔۔۔ وہ گناہ بے عملی کا بھی ہے اور نافرمانی کا بھی ہے۔۔۔ وہ گناہ بے ادبی کا بھی ہے اور ترکِ عمل، ترکِ عبادت اور فعل مناہی کا بھی ہے۔۔۔ گناہوں کے کرنے کا بھی گناہ ہے اور نیکیوں کو ترک کرنے اور سعادت چھوڑنے کا گناہ بھی ہے۔

اِن گناہوں میں سب سے بڑا گناہ بے ادبی ہے۔ سب سے پہلا اور سب سے بڑا گناہ جس نے کیا وہ ابلیس تھا۔ بے ادبی کے گناہ نے اسے ابلیس سے شیطان بنادیا۔ شیطان چونکہ خود بے ادبی کے گناہ کی زد میں آیا اور تباہ ہوا لہذا جب وہ کسی کو تباہ اور ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس بندے کی ہلاکت کے لیے اس کے دل میں گناہ کے ساتھ ساتھ بے ادبی بھی ڈال دیتا ہے۔ بے ادبی اس طرح ڈالتا ہے کہ جہاں سے بندے کو خیر ملنی ہے، اسی کے بارے میں انسان کو بے ادبی کا مرتکب کرا دیتا ہے۔ اگر اس جگہ کے بارے میں بندے کے دل میں بے ادبی آگئی تو اب اس کو وہاں سے خیر نہیں ملے گی، لہذا شیطان اس راستہ کو بند کردیتا ہے۔ بالآخر بے ادبی کا مرتکب ہونے پر گناہوں کی طرف ہمت بندھتی ہے اور گناہ کا ارادہ بندے کو ہلاکت کے کنارے پر کھڑا کردیتا ہے۔

4۔ صدور (فعل)

جب انسان ارادہ کرلے تو پھر صدور تک چلا جاتا ہے۔ صدور، فعل کو کہتے ہیں۔ گناہ کا عمل جب پہلی بار کیا تو یہ فعل ہوا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس فعل کی سطح پر بھی انسان بچ جاتا اور آگے نہ بڑھتا لیکن اس فعل کے بار بار کرنے سے وہ عمل عادت بن جاتا ہے۔ جس کے بعد انسان مکمل طور پر ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔

اس لیے امام محاسبی نے فرمایا:

حاسب نفسک فی کل خطرة

اے بندے اگر خیال؛ تصور و شہوت بن گیا تو گناہ سے بچنا مشکل ہے۔۔۔ اگر تصور؛ ارادہ بن گیا تو مزید مشکل ہوجائے گی۔۔۔ اور اگر ارادہ نے فعل کی صورت اختیارکرلی تو تباہی میں جاگرے گا۔۔۔ اور اگر فعل نے عادت کا روپ دھار لیا تو بچنے کی کوئی سبیل نہ ہوگی اور اب تو اس بد عمل کو چھوڑ نہیں سکے گا اور یہ تیری فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔ تیرے بچنے کا بہترین وقت وہ ہے کہ جب پہلی بار خیال آئے، اس کا محاسبہ کر۔ ہر سانس اور ہر لمحے پر اللہ کو اپنا نگہبان جان اور اللہ کی طرف متوجہ رہ، اسی صورت تو اپنے آپ کو محفوظ کرسکے گا۔

کبار اولیاء و ائمہ کا طرزِ عمل

ابن عربی فرماتے ہیں کہ ہم سے پہلے لوگوں کا حال یہ تھا کہ ہر رات جب نماز عشاء سے فارغ ہوکر بستر پر جانے لگتے تو پہلے مصلے پر بیٹھ کر صبح سے رات تک اپنا حساب کرتے۔ انہوں نے دفتر (کاپیاں) بنا رکھے تھے اور ہر روز کے اعمال کے حساب و کتاب کو کاپی میں لکھتے تھے اور آخر میں جمع نفی کرکے اپنا بیلنس بناتے اور ٹوٹل کرتے تھے کہ آج کُل کتنے نیک عمل کیے؟ کتنے گناہ کیے؟ کتنے لمحے غفلت میں گزارے؟ کتنے لمحات اللہ کو یاد کیا اور کتنے لمحات مولا سے غفلت برتی؟ کتنا وقت دنیا کی نذر کیا اور کتنا وقت آخرت کی نذر کیا؟ الغرض ہر رات اس کو لکھتے۔ پھر جہاں استغفار کی ضرورت ہوتی تو وہیں کھڑے ہوکر توبہ کرنے لگ جاتے۔۔۔ سجدے کی ضرورت ہوتی تو سجدے میں گر جاتے۔۔۔ معافی کی ضرورت ہوتی تو معافی مانگتے۔۔۔ یعنی حساب و کتاب کے نتیجے میں جو بیلنس سامنے آتا، بستر پر بعد میں جاتے، پہلے مصلے پر اس کی معافی مانگتے اور اس طرح اپنا حساب کرتے۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ ہم سے اگلے لوگوں کا معاملہ تھا، ہم نے دیکھا کہ اس میں ابھی کمی رہ گئی ہے، لہذا ہم نے اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کردیا اور وہ اضافہ یہ کیا کہ خطرات (خیالات) کا بھی حساب شروع کردیا کہ دن میں خیال کتنے آئے؟ کتنے نیک خیال آئے اور کتنے دنیا کے خیال آئے؟ حرص، لالچ، تکبر، گناہ، دوسرے کی تضحیک و تذلیل کے کتنے خیالات آئے اور نیک خیالات کتنے آئے؟ الغرض جو اچھا یا برا خیال ذہن میں آتا ہے، ہم اعمال کے ساتھ ساتھ ان خیالات کو بھی لکھ لیتے ہیں اور ان کا بھی اکائونٹ بناتے ہیں۔ اس طرح جو حساب سامنے آتا ہے، رات بستر پر جانے سے پہلے اللہ کے حضور رو رو کر اس کی بھی معافی طلب کرتے ہیں تاکہ قیامت کے دن اُس میزان پر کھڑے ہوکر حساب نہ دینا پڑے۔

یہی وجہ ہے کہ امام محاسبی تلقین کرتے ہیں کہ بندے تو بھی یہ عمل کر تاکہ تیری عادت سنور جائے، تیرے اندر صالحیت، تقویٰ، محاسبہ نفس آجائے اور تیرا حساب اللہ کی بارگاہ میں آسان ہوجائے۔

صحبتِ صالحہ کی ناگزیریت

اس پورے کام کو احسن انداز میں بجا لانے کے لیے ضروری ہے کہ صالحین کی مجلس اور سنگت میں بیٹھا کریں یعنی اپنی سنگت کو اچھا کریں۔ وہ مجلس جس میں غیبت، ٹھٹھہ و مذاق اور تنقید ہوتی ہو، کسی کی عزت اچھالی جاتی ہو، جس میں انسان اللہ کو بھول بیٹھے، جس میں دنیا کا حرص زیر بحث آتا ہو، ایسی تمام مجالس اور سنگتوں میں بیٹھنا چھوڑ دیں۔ بری سنگت وہ ہے جہاں بیٹھنے سے نیکی نہ بڑھے بلکہ گناہ بڑھے۔ لہذا خود فیصلے کرلیا کریں کہ جس مجلس میں بیٹھنے سے آخرت کی یاد میں اضافہ نہ ہو بلکہ دنیا کی یاد میں اضافہ ہو۔۔۔ جس میں بیٹھنے سے زبان کو تقویٰ نہ ملے بلکہ گناہ ملے۔۔۔ جس میں بیٹھنے سے دل میں رقت پیدا نہ ہو اور اللہ کی یاد نہ آئے بلکہ دنیا کی یاد آئے۔۔۔ سوچ و خیالات مثبت ہونے کی بجائے منفی ہوں۔۔۔ ایسی مجالس میں نہ بیٹھا کریں کیونکہ ایسی مجالس جہنم ہیں۔ جیتے جی کیوں جہنم میں جاکر بیٹھتے ہیں۔ وہ مجلس جس میں بیٹھنے سے نیکی بڑھے، اللہ کی عزت کی قسم! وہ مجالس جنت کے باغ ہیں۔ اگر چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں جنت کے باغوں میں بیٹھا کریں تو سن لیں نیک مجالس جنت کے باغ ہیں اور بری مجالس دوزخ کی آگ ہیں۔

صالحین میں شمولیت کی شرائط

حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:

کوئی شخص صالحین اور اللہ والوں میں شامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ چھ گھاٹیاں عبور نہ کرلے۔ وہ چھ گھاٹیاں کیا ہیں؟ فرمایا:

1. یغلق باب النعم ویفتح باب الشدة

پہلی گھاٹی یہ ہے کہ اپنے اوپر نعمت کا دروازہ بند کردے اور سختی کا دروازہ کھول لے۔

ہم نعمتوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور سختیوں سے گھبراتے اور کتراتے ہیں۔ اپنی سختیوں پر دوسروں کو طعنہ دیتے ہیں اور دوسروں کی نعمتوں پر ان سے حسد کرتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی ہے اور اس طرزِ عمل کے باوجود چاہتے ہیں کہ اللہ بھی راضی ہوجائے، ہم بھی صالح ہوجائیں اور تقویٰ بھی مل جائے۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔

2۔ دوسری گھاٹی کے متعلق آپ نے فرمایا:

یغلق باب العز ویفتح باب الزل

دوسری گھاٹی یہ ہے کہ اپنے اوپر عزت کا دروازہ بند کردے اور ذلت کا دروازہ کھول لے۔

یعنی طلبگارِ عزت نہ بن، ہر وقت اس گورکھ دھندے میں نہ پڑ کر کہ میری عزت بڑھ گئی یا کم ہوگئی، فلاں عزت نہیں کرتا اور فلاں اچھا سلوک نہیں کرتا۔ فرماتے ہیں کہ عزت کا غم چھوڑ دے اور اس کا دروازہ اپنے اوپر بند کردے۔ اس کے بجائے ذلت و بے عزتی کا دروازہ اپنے اوپر کھول دے۔ اگر کوئی تیری عزت نہ کرے تو تجھے خوشی ہو اور کوئی عزت کرے تو تعجب ہو۔

عزت کی چاہت کا دروازہ کیوں بند کردے؟ اس لیے کہ جتنی عزت زیادہ ہوگی تیرا نفس پھولے گا۔ تیرا ایمان ابھی اتنا پختہ نہیں ہے کہ تو عزت کو ہضم کرسکے۔ تو اس عزت کو اپنا حق سمجھنے لگ جائے گا، اس کو دوسروں کا کرم اور احسان اور ان کی بھلائی نہیں سمجھے گا بلکہ تو سمجھے گا کہ یہ میرا حق تھا کہ میری عزت ہورہی ہے۔ جس دن تو نے یہ سمجھا، اسی وقت تیرے نفس نے تجھے ہلاک و برباد کردیا۔

حضرت بایزید بسطامی اپنی مجلس سے اٹھ کر گھر جاتے تو راستے میں بادشاہ کا تخت آتا تھا۔ ہر روز بادشاہ آپ کو دیکھ کر کھڑا ہوجاتا، وزراء اور درباری بھی کھڑے ہوجاتے اور آپ خاموشی سے گزر جاتے۔ ایک دن بادشاہ کھڑا ہوا تو آپ نے اس کی طرف منہ کرکے تھوک دیا۔ بادشاہ اور درباریوں نے آپ کو برا بھلا کہا اور اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور کہا یہ بھی کوئی اللہ والا اور فقیر ہے جس کے پاس اخلاق اور تمیز ہی نہیں ہے۔

آپ کے مریدوں کو یہ بات بڑی عجیب لگی اور پوچھا کہ حضرت یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ آپ کی عزت کرتا تھا، پورا دربار کھڑا ہوتا تھا اور آج آپ نے اس کی طرف منہ کرکے تھوک دیا، ایسا کیوں کیا؟ فرمایا: ہر روز وہ میرے احترام میں کھڑا ہوتا تھا تو میں اپنے نفس کو دیکھتا تو اس کے اس عمل کا میرے دل و دماغ پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا تھا اور میں اس کے کھڑا ہونے پر کوئی خوشی یا فرحت محسوس نہیں کرتا تھا مگر آج میں نے دیکھا کہ اس کے کھڑا ہونے پر میرے نفس نے خوشی اور فخر محسوس کیا کہ یہ عزت و احترام میرا حق ہے، لوگ میرے لیے کھڑے ہوں، یہ میرا استحقاق ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ ان کے کھڑا ہونے میں میرا نفس مجھے ہلاک کررہا ہے، لہذا میں نے نفس کو سبق سکھانے کے لیے بادشاہ کی طرف منہ کرکے تھوک دیا۔ جب بادشاہ اور اس کے درباریوں نے میری اس حرکت پر مجھے گالیاں دیں اور برا بھلا کہا تب میں نے نفس سے پوچھا کہ اب بتا تیرا حق کہاں گیا؟ اس طرح میں نے اپنے نفس کا علاج کیا۔

جب لوگ عزت کریں اور نفس اسے اپنا حق نہ سمجھے بلکہ یہ سمجھے کہ مجھ پر احسان کررہے ہیں، میں تو اس قابل بھی نہیں ہوں تو ضرر نہیں ہے لیکن اگر نفس سمجھے کہ یہ میرا حق ہے اور جس دن لوگ عزت نہ دیں تو طبیعت میں ملال آئے کہ میرے لیے کھڑے نہیں ہوئے تو سمجھو نفس عزت کا طلبگار ہے۔ بس اس کا علاج یہ ہے کہ بندے تو عزت کا دروازہ اپنے اوپر بند کردے اور ذلت کا دروازہ کھول دے۔

حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ اس سے زیادہ اللہ کی بارگاہ سے بندے کو عزت نہیں مل سکتی کہ بندہ اپنے آپ کو ذلیل سمجھنے لگ جائے اور تذلیل سے بڑھ کر کوئی عزت نہ سمجھے۔ مراد یہ ہے کہ یہ سمجھے کہ میں سب سے کمتر ہوں، میرا شعور دوسروں سے کم تر ہے۔ سب سے بہترین عزت یہی ہے کہ بندہ اپنے آپ کو کمتر سمجھے۔

3۔ حضور غوث الاعظم نے صالحین میں شامل ہونے کے لیے تیسری گھاٹی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

یغلق باب الراحة ویفتح باب الجهد.

راحت و آرام کا دروازہ بند کردے اور محنت و مشقت کا دروازہ کھول دے۔

تو آرام اور راحت کو پسند کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آرام و راحت اور آسائشات کو اپنانے کے ساتھ ساتھ تو اللہ والا بھی بن جائے تو ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کہ اس کے لیے آزمائش و امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہذا راحت کا دروازہ بند کر اور محنت کا دروازہ کھول تاکہ اللہ کی بارگاہ سے تجھے راحت نصیب ہو۔

حضرت محمد بن فضیل سے کسی نے پوچھا کہ راحت کیا ہے؟ فرمایا: نفس کی خواہشوں سے چھٹکارا ہوجائے تو یہ راحت ہے۔

4۔ صالحین میں شمولیت کے لیے چوتھی گھاٹی یہ ہے کہ:

یغلق باب النوم ویفتح باب الیقضیٰ.

نیند کا دروازہ بند کردے اور بیداری کا دروازہ کھول دے۔

بندے رات کو جاگا کر۔ یہ جاگنا گپ شپ اور محفل کے لیے نہ ہو بلکہ تنہائی میں جاگا کر، اس لیے کہ تنہائی ہو اور اس کی یاد ہو تب جاکر انسان کو اس کی رضا، قربت اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔

5۔ صالحین میں شمولیت کے لیے جس پانچویں گھاٹی کو عبور کرنا پڑتا ہے اس کے متعلق حضور غوث الاعظم نے فرمایا:

یغلق باب الغناء ویفتح باب الفقر.

چاہئے کہ وہ مالداری کا دروازہ بند کردے اور فقر کا دروازہ کھول دے۔

اے بندے تو دنیا کی مالداری کے حرص میں لگا ہوا ہے کہ فلاں مالدار ہوگیا، اس کے پاس اتنی گاڑیاں، اتنے مکان، سہولتیں، آسائشیں، راحتیں، سکون ہے اور میرے پاس یہ نہیں۔ تو دوسروں پر حسد کرتا، اِن نعمتوں کے حاصل کرنے کے لیے لالچ کرتا، حرام و حلال کی تمیز ختم کرتا ہے تو یہ بربادی و ہلاکت ہے۔ تجھے چاہئے کہ دوسرے کے پاس یہ نعمتیں دیکھے تو حسد سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر یہ سمجھے کہ یہ اس پر اللہ کی نعمت ہے۔ اپنے لیے اس کو یہ سمجھ کر طلب نہ کرے کہ یہ بڑی آزمائش ہیں۔ ان چیزوں کی خود طلب نہ کرو، حرص نہ کرو بلکہ یہ سمجھو کہ اگر یہ چیزیں مجھے مل جاتیں تو میں اللہ کو بھول جاتا اور اس آزمائش میں خدانخواستہ ناکام ہوجاتا۔ فرمایا: اپنے اوپر فقر کا دروازہ کھول۔ مال کم ہوگا تو پوچھ گچھ بھی کم ہوگی، زیادہ ہوگا تو پوچھ گچھ بھی زیادہ ہوگی۔

6۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے چھٹی گھاٹی کے متعلق فرمایا:

یغلق باب الامل ویفتح باب الآخرة.

دنیا سے امید کا دروازہ بن کر اور آخرت کی یاد کا دروازہ کھول۔

یہ سوچ کہ ’’یہ بھی ہوجائے، وہ بھی ہوجائے‘‘، اس سوچ و امید کا دروازہ بند کر اور موت و آخرت کا دروازہ کھول دے۔ موت کی تیاری کر اور ایسی زندگی بسر کر کہ جس میں موت کی تیاری ہو۔

آفت و مصیبت کیسے آتی ہے؟

حضور غوث الاعظم، منصور بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آفت، بلا اور مصیبت انسان کی زندگی میں تین طریقوں سے داخل ہوتی ہے:

  1. طبیعت کی خرابی
  2. عادت کی ملازمت
  3. صحبت کا فساد

پوچھا گیا کہ طبیعت کی خرابی کیا ہے؟ فرمایا:

حرام کا مال کھانا طبیعت کی خرابی ہے۔ اس سے انسان کی ہلاکت آتی ہے۔

پوچھا گیا کہ عادت کی ملازمت کیا ہے؟ فرمایا:

غیبت کرنا عادت کی ملازمت کرنا ہے۔ لہذا غیبت، چغلی اور کسی کی برائی نہ کیا کرو۔ اگر برائی کرنی ہے تو اپنے من میں اپنی برائی کو دیکھو، دوسرے کی برائی کو نہ دیکھو۔ دوسرے کی باتیں ہی چھوڑ دو، دوسروں کے بارے سوچنا ہی چھوڑ دو، اگر سوچنا ہے تو اچھا سوچو، کہو تو خیر کہو اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو خاموش رہو۔

پھر پوچھا گیا کہ صحبت کا فساد کیا ہے؟ فرمایا:

نفس جو کہے کرتے چلے جانا، صحبت کا فساد ہے۔

بندے تیرا نفس تیرا قید خانہ ہے۔ اگر تو اس سے نکل آئے تو سمجھو ہمیشہ کی راحت میں آگیا، یہ تیری جنت ہوگی۔ آفاتِ نفس میں سے بڑی آفت جو انسان کو ہلاک و تباہ کرتی اور اللہ کی قربت کی سعادت سے محروم کرتی ہے وہ خود پسندی اور اپنی تعریف کا اچھا لگنا ہے۔ فرمایا: بندے یہ بڑی آفتِ نفس ہے۔ اگر راہِ حق پر چلنا ہے تو نفس کو اس آفت سے بچ جا۔

اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

محاسبۂ نفس کا طریقہ

اپنے اندر ڈوب کر اپنے آپ کو ٹٹول کر دیکھ لو کہ اپنے اندر کیا ہے۔۔۔؟ چراغِ معرفت لے کر مَن کی حقیقتوں کا سراغ لگالو۔ اے بندے! دل کے اخلاص اور اللہ کی توفیق کا چراغ لے کر اپنے نفس کے اندھیرے کو دیکھ کہ کیا کیا آفتیں تیرے ساتھ ہیں۔۔۔؟ تو کن کن آفتوں میں مبتلا ہے۔۔۔؟ جب آفتوں کی خبر ہوجائے اور تلاش کرلے تو پھر اس کا علاج بھی کرلے گا۔ بندہ ایک طرف تو ہلاکت میں مبتلا ہے اور دوسری طرف اس پر اس کو تفتیش، درد اور افسوس بھی نہیں، یہ شعور بھی نہیں کہ وہ تباہی میں گرتا چلا جارہا ہے۔ شعور ہو تو پھر خیال اور تشویش بھی پیدا ہوگی اور علاج بھی کرلیا جائے گا۔ لہذا خود کو ہلاکت سے نکالنے کا خیال اپنے اندر پیدا کریں، یہ خیال جب تڑپ میں بدلے گا تو اسی قدر انسان محنت کرے گا۔ اس کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے:

  1. معائنہ: اپنے نفس کا معائنہ کریں کہ میرے نفس کی کیا کیا خواہشات ہیں۔ جب معائنہ کرتے رہیں گے تو پھر کہیں نہ کہیں سمجھ آجائے گی کہ یہ یہ خرابی ہے۔
  2. ملاحظہ: معائنے سے خرابی کی تھوڑی سی نشاندہی ہوجائے تو پھر ملاحظہ کیا کریں، خوب غورو فکر کرکے اس بیماری کی تہہ میں چلے جائیں کہ خرابی کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ معائنہ کے نتیجے میں ملاحظہ تک پہنچیں۔
  3. مراقبہ: جب ملاحظہ سے تشخیص ہوجائے کہ یہ مرض ہے تو پھر مراقبہ کریں۔ خرابی کی جڑ کو تلاش کریں کہ یہ کہاں کہاں سے آتی ہے۔۔۔؟ کون سی خوراک نقصان دیتی ہے۔۔۔؟ کون کون سا مرض اس کو اور بڑھاتا ہے۔۔۔ کون کون سی خواہش اس تکلیف کو اور بڑھاتی ہے۔۔۔؟ اس سبب اور وجہ تک پہنچیں کہ یہ کیونکر پید اہوئی۔۔۔؟ کس شے سے یہ مرض دور ہوگی اور کس چیز سے مزید بہتر ہوگی۔۔۔؟
  4. مجاہدہ: جب یہ تین کام (معائنہ، ملاحظہ اور مراقبہ) ہوجائیں تو اگلے تین کام شروع کریں۔ جب تشخیص بھی کرلیں اور اس کا علاج بھی جان لیں تو پھر مجاہدہ کریں۔ جس علاج سے آپ کو آگاہی ہوجائے وہ علاج شروع کریں۔ علاج کے لیے جن چھ دروازوں کے کھولنے اور بند کرنے کے متعلق سیدنا غوث الاعظم نے رہنمائی فرمائی، ان کے لیے محنت کرنا مجاہدہ ہے۔ مجاہدہ سے مرض کا علاج کریں، بہتری ہوجائے گی۔
  5. محاسبہ: جب مجاہدہ سے صحت مند ہوجائیں تو پھر محاسبہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں اور ہر وقت روز سونے سے پہلے اپنی کاپی بنالیں۔ پچھلی خرابیوں کا ازالہ کریں اور آئندہ ہر روز اپنا حساب کرکے سوئیں۔
  6. مشاہدہ: اس طریقہ پر علاج کرنے سے بالآخر مشاہدہ نصیب ہوگا، پردہ اٹھا دیا جائے گا اور اس کے حُسن کا جلوہ کرلیں گے۔

یاد رکھیں! وہ اپنا حُسن اس وقت تک کسی کو نہیں دکھاتا جب تک کوئی بندہ اپنے اندر کو حسین نہ بنالے۔ لہذا اندر خوبصورتی پیدا کریں گے تو پھر اس کی خوبصورتی نظر آئے گی۔۔۔ اندر حُسن پیدا کریں تاکہ اس کے حُسن کو دیکھ سکیں۔۔۔ اندر روشنی پیدا کریں تاکہ اس کی روشنی کو دیکھنے کی ہمت ہوسکے۔

مشاہدہ کے بعد پھر مزید درجات ملتے ہیں، مواجہ نصیب ہوتا ہے اور پھر مکالمہ تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس مقام پر وہ فرمائے گا کہ اب بول بندے تو کیا کہتا ہے؟ جو تو کہے گا اُسی کو اپنی رضا اور تیری تقدیر بنادوں گا۔ اسی لیے اقبال نے کہا:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے