قدوۃ الاولیاء حضور پیر صاحب، حیات و تعلیمات

یومِ وصال (23 ذوی القعدہ) کی مناسبت سے خصوصی تحریر

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نبوت و رسالت اللہ تعالیٰ کی بہترین نشانیاں ہیں اور مقصدِ رسالت کی شان کو اجاگر کرنے والا انسانوں کا گروہ، طبقہ یا کوئی جماعت ہے تو وہ اولیائے اللہ کی پاک و عظیم ہستیاں ہیں۔ ان پاک ہستیوں کی حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو نسبتیں ہوتی ہیں:

  1. جسمانی
  2. روحانی

جسمانی نسبت کی بدولت یہ نفوسِ مقدسہ ساداتِ کرام کی مسندِ عزت و تکریم پر فائز ہوئے اور روحانی نسبت کے ذریعے تقربِ خداوندی کے حامل یہ اولیاء اللہ انسانیت کو انبیاء کرام اور رسل عظام علیہم السلام کے عظیم الشان کارناموں سے روشناس کر کے مقتدائے عالم بن گئے۔ جہاں یہ دو نسبتیں متصل ہوجائیں وہاں بغداد شریف کے روحانی و نورانی نقشے ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے جد امجد سیدنا عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی طرح دونوں ہی نسبتیں حاصل تھیں۔ آپ کو سید الطرفین ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا اور مقامِ ولایت کے بھی عظیم مقام و مرتبہ پر متمکن تھے۔

سرزمین عراق کے مقدس شہر بغداد شریف کے باب الشیخ میں واقع حرم دیوان خانہ قادریہ میں شیخ المشائخ نقیب الاشراف سیدنا محمود حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ کے گھر اولاد نرینہ میں سب سے چھوٹے اور چھٹے بیٹے کی 18 ربیع الاول 1352ھ کو ولادت باسعادت ہوئی۔ اپنے وقت کے سرخیل عظیم المرتبت اور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی دولت کے حقیقی وارث جلیل القدر خانوادہ گیلانیہ بغدادیہ نے نومولود کو ’’طاہر علاؤالدین‘‘ کے نام سے موسوم کیا جو بعد ازاں مریدین، معتقدین اور متوسلین میں ’’حضور پیر صاحب‘‘ کے محترم و مکرم نام سے معروف ہوئے۔

16 ویں پشت سے آپ کا خاندانی سلسلہ حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز سے آپ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ المشائخ عبدالعزیز قادری جیلانی کے واسطہ سے جاملتا ہے اور 28 واسطوں کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔

خاندانی حالات

سلسلہ قادریہ کے عظیم روحانی مرکز عراق کے شہر بغداد شریف میں محاسنِ اخلاق، ہمہ جہتی صلاحیتوں اور تمام تر خوبیوں کے حامل موجودہ خاندان گیلانیہ کو گزشتہ کئی صدیوں سے نقیب الاشراف ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس خاندان کے افراد نے سیاست، علم و ادب، زہد و عبادت، تبلیغ و اشاعت دین، دفاعِ ملک و ملت اور مملکت کو بطریقِ احسن چلانے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، جس سے ان کی شہرت اطرافِ عالم میں پھیل گئی۔

نقیب الاشراف اور متولیان اوقاف دربار غوثیہ کا رتبہ، عزت و عظمت، رعب و دبدبہ، ہیبت و تمکنت، شان و مرتبت اور جاہ و جلال کے اعتبار سے بادشاہوں اور حکمرانوں سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بڑے بڑے بادشاہ اور نواب اس خاندان عالیہ کے افراد سے اپنی نسبت قائم کرنے میں فخر و سعادت سمجھتے تھے۔

خاندان گیلانیہ میں جو سب میں باعتبار عمر بڑا، شان کے لحاظ سے عظیم اور اصلاح و تقوی کے سبب مشہور و معروف اور خیرو فلاح میں ممتاز ہوتا ہے، وہ نقیب الاشراف کے عہدہ پر متمکن ہوتا ہے۔ اس کے فرائض منصبی میں دربار غوثیہ کے جملہ معاملات کی خبر گیری رکھنا اور ناداروں اور فقیروں کی مالی اعانت کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کے ہاں نقابت ایک شریف عہدہ ہونے کی بنا پر قابل تکریم گردانا جاتا ہے۔ جس طرح شاہان وقت کے ناموں سے پہلے His Majesty لکھا اور بولا جاتا ہے اسی طرح نقیب الاشراف کے نام سے پہلے His Holiness کا سابقہ بطورِ تکریم لکھا اور بولا جاتا ہے۔

’’حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی شیخ المشائخ سیدنا محمود حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ (1355ھ) نقیب الاشراف کے عہدہ پر متمکن رہے۔ آج بھی یہ عہدہ اسی خاندان کے پاس ہے۔ حضرت سیدنا محمود حسام الدین کی رحلت کے بعد یہ عہدہ آپ کے سب سے چھوٹے فرزند دلبند سیدنا طاہر علاؤالدین قدس سرہ کو پیش کیا گیا جو سیاست اور حکومتی عہدوں سے الگ تھلگ رہ کر تادم واپسیں تبلیغ اسلام اور مخلوق خدا کو علوم معرفت و حقیقت کی دولت سے فیض یاب کرنے میں مشغول و مصروف رہے۔ ہندوستان، پاکستان، سیلون، افریقہ، افغانستان اور دیگر ممالک اسلامیہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہوئی ہے چونکہ آپ ایک بحر بیکراں کی طرح دنیا کو فیض یاب کرنا چاہتے تھے لہذا آپ نے نقیب الاشراف کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی۔‘‘

دینی اور روحانی تعلیم

حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ نے دینی تعلیم کی تحصیل و تکمیل دریائے دجلہ کے کنارے واقع مسجد سید سلطان علی میں کی۔ آپ کے اساتذہ میں ملا سید آفندی، مفتی قاسم القبی، سید خلیل الراوی جیسی معروف علمی شخصیات شامل ہیں۔ مدرسہ دربار غوثیہ میں آپ نے مفتی دولۃ العراقیہ سے بھی اکتساب علم کیا۔ روحانی تعلیم آپ نے اپنے جلیل القدر والد گرامی شیخ طریقت سیدنا محمود حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی توجہات کے زیر اثر حاصل کی۔ کثرت عبادت و ریاضت کے ذریعے آپ نے بہت جلد تمام منازل سلوک طے کرلیں۔ اوائل عمری میں ہی آپ نماز عشاء کے بعد حضور سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس کے سامنے متوجہ ہوکر کھڑے ہوجاتے اور ساری رات نماز فجر تک وہاں اسی حالت میں قیام فرما ہوکر کسب فیض کرتے رہے ہیں۔ آپ کے والد گرامی نے آپ کی روحانیت میں ترقی اور علمی و عملی کامیابیوں کے پیش نظر آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اپنے والد بزرگوار کے علاوہ بھی آپ نے دیگر کئی روحانی شخصیات سے اکتساب فیض کیا۔

پاکستان میں قیام

بغداد شریف (عراق) میں دربار عالیہ غوثیہ کے جنوبی دروازہ کے عین مقابل سڑک (شارع گیلانی) پر ایک عالی شان عمارت جہاں آپ کے آباء و اجداد آباد رہے ہیں، آپ رہاش پذیر رہے۔ 1956ء میں آپ اپنے جد امجد سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حکم کے مطابق اشاعتِ دین حق اور انسانیت کی رشد و ہدایت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے پاکستان تشریف لائے اور عارضی مسکن کے طور پر شہر کوئٹہ (بلوچستان) دربار غوثیہ شارع الگیلانی کو منتخب فرمایا۔

اولاد پاک

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین فرزندان ارجمند حضرت السید محمود محی الدین الگیلانی (1968ء)، حضرت السید عبدالقادر جمال الدین الگیلانی (1969ء)، حضرت السید محمد ضیاء الدین الگیلانی (1976ء) اور تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔

تصنیفات

آپ نے رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ درج ذیل تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی مفید علمی ورثہ چھوڑا ہے:

  1. محبوب سبحانی
  2. تحفہ الطاہریہ اوراد قادریہ
  3. سوانح عمری حضرت غوث الاعظم (انگریزی)
  4. فتوح الغیب کا انگریزی ترجمہ
  5. شجرہ ہائے قادریہ اور اوراد و وظائف
  6. اخلاق و اوصاف حمیدہ

آپ میں خلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صفات اور جمالِ یوسفی کی تمام رعنائیاں موجود تھیں۔ آپ کی ذات گرامی میں وہ سب اوصافِ حمیدہ موجود تھے جو صرف اولیائے عظام کی عظیم ہستیوں میں ہی ہوسکتے ہیں۔ آپ تزکیہ نفس، تصفیہ باطن، صدق و اخلاص، زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کا ایک درخشندہ پیکر تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ، زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی کے لیے مینارہ نور تھی۔ آپ منبع فیوض و برکات، چشمہ روحانیت اور درخشاں و تابندہ ستارہ علم فقرو تصوف تھے۔ کشف و کمالات اور عرفان و آگہی کی دولت بے بہا سے مالا مال تھے۔ آپ کی محبت آمیز اور شیریں گفتار کے زیر اثر ملاقات کا شرف حاصل کرنے والا سب دکھ، درد اور غم و آلام بھول جاتا۔ آپ بڑے متقی، پرہیزگار، شب زندہ دار، شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سخت پابند تھے۔ راست گوئی، صدق مقال اور اکل حلال کی پر زور تلقین فرماتے۔ آپ کے طرز عمل پر کسی بڑے سے بڑے معترض کو بھی اعتراض کا موقع نہ مل سکا۔

علماء اور مشائخ کی نظر میں

  • اس ذی شان ہستی کا مقام و مرتبہ پوچھئے مجدد دین و ملت الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفی رضا خان سے کہ جب حضرت شیخ المشائخ ایک مرتبہ بریلی تشریف لائے تو ریلوے اسٹیشن سے دربار حضرت الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تک آپ کی کار کو لاکھوں عقیدت مند باری باری کاندھوں پر اٹھا کر لائے اور جب تک حضرت شیخ المشائخ کا بریلی میں قیام رہا مفتی اعظم ہند ننگے پاؤں رہے۔ حضور پیر صاحب کے بریلی شریف قیام کے دوران خانوادہ اعلیٰ حضرت کی بہت سی بزرگ شخصیات نے آپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ ان میں حضرت مولانا اختر رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔
  • حضرت شیخ المشائخ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مفتی اعظم ہند کے حسن عقیدت کا تذکرہ گلستان اولیاء کے مصنف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

مئی کا مہینہ اہل بریلی کے لیے بڑا ہی مبارک تھا۔ ہر شخص کی تمنا تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جلوس کی اگلی صفوں تک پہنچ جائے۔ لیکن یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ جلوس کے آگے دو عجوبہ روزگار ہستیاں جن میں ایک جوان اور دوسری ضعیف، آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔ یہ منظر بڑا ہی دلکش اور فرحت انگیز تھا۔ اہل بریلی نے دیکھا کہ اس جوان شخصیت کے پیچھے پیچھے چلنے والی عمر رسیدہ سفید ریش اور نورانی چہرہ شخصیت برہنہ پا چل رہی ہے۔ جیسے ایک غلام اپنے آقا کی تابعداری میں چلتا ہو۔ اس بزرگ کو جو اپنے وقت کے امام الفقہا اور ولی کامل تھے، ان کو اس سے پہلے کبھی ایسی نیاز مندانہ حالت میں نہیں دیکھا تھا، اس بزرگ کی شان تو یہ تھی کہ ان کے دربار میں بڑے بڑے جید عالم اور مقتدر ہستیاں ہاتھ باندھے باادب کھڑی رہتی تھیں۔ یہ بزرگ ہستی تو وہ تھی جس کی آواز کو دنیائے اہل سنت میں حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا عالم تو یہ تھا کہ جس طرف نظر اٹھاتے لوگ فرط عقیدت سے اپنی گردنیں جھکالیتے۔ اس بزرگ کے مریدوں کی تعداد 90 لاکھ سے بھی زائد ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں ان کے عقیدت مند اور مرید موجود ہیں۔ ان کی شہرت کا ڈنکا پورے عالم اسلام میں بج رہا ہے۔ یہ بزرگ اپنے مکان سے جب نماز پڑھنے مسجد کو جاتے تو راستے میں سینکڑوں لوگ ان کی قدم بوسی کے لیے بے تابانہ دوڑتے، کوئی قدم چومتا اور کوئی ان کا دست مبارک اپنے سر پر رکھ لیتا۔ جب یہ کسی جگہ سے گزرتے تو لوگ دونوں جانب قطاریں بناکر کھڑے ہوجاتے، ٹریفک جام ہوجاتی اور دوکان دار اپنی اپنی دکانوں سے نیچے اتر آتے۔ جب تک ان کی سواری وہاں سے گزر نہ جاتی یونہی دست بستہ کھڑے رہتے۔ ان کا اسم گرامی مولانا مصطفی رضا خان ہے اور جوان ہستی سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ تھے جن کا اکرام یہ بزرگ ہستی کررہی تھی۔

  • اسی طرح جب حضور پیر صاحب جامعہ حزب الاحناف تشریف لاتے تو مفتی اعظم پاکستان حضرت ابوالبرکات مولانا سید احمدقادری رحمۃ اللہ علیہ درس حدیث منقطع کرکے ہاتھ باندھے آپ کی بارگاہ میں بیٹھ جاتے۔ علاوہ ازیں حضرت مولانا ضیاء الدین قادری دربار سیدنا غوث الاعظم کی خدمت کے علاوہ اس خانوادے کی ذاتی خدمت و غلامی میں سالہا سال تک بغداد شریف رہے۔ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا شوکت علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ حضور پیر صاحب کے والد گرامی (حضرت سیدنا محمود حسام الدین الگیلانی نقیب الاشراف) کے حلقہ ارادت میں تھے۔

اقوال و فرمودات عالیہ

  1. معرفت خداوندی اتباع شرع محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پوشیدہ ہے۔
  2. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و غلامی سے ہی محبت الہٰی کی منزل نصیب ہوتی ہے۔
  3. اس درویش کی طبیعت ایسی ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور کسی دنیا دار پر خواہ وہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، بھروسہ نہیں کرتا۔
  4. بھوکا شخص ہر ایک کو بھوکا سمجھتا ہے اور بے عزت شخص ہر ایک کو بے عزت سمجھتا ہے۔
  5. دلوں میں نفاق، حسد، عناد اور ریاکاری ہو تو پھر کوئی عمل بھی نیکی کا اجر نہیں پاسکتا۔
  6. ہر اسلامی حکومت یا اسلامی سربراہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نائب ہوتا ہے اور حکومت و اقتدار لوگوں کے پاس خالصتاً امانت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی امانت کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق صحیح ڈگر پر چلانے کے لیے بعض افراد کو اس کا اہل سمجھتے ہوئے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ منتخب حکومت اور اقتدار کے منصب پر اسی وقت تک قائم رہ سکتے ہیں جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے تابع رہیں اور انہیں نافذ کرتے رہیں۔
  7. اگر شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ہمارے ظاہر و باطن میں یکسانیت اور اتحاد پیدا ہوجائے تو عالم اسلام میں بھی یگانگت اور اتحاد کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
  8. دھوکہ، چوری اور جھوٹ سے فوراً نتیجہ تو (حسب خواہش) نکل آتا ہے لیکن یہ بالآخر عزت کو ختم کردیتے ہیں اور انسان کو تباہ کردیتے ہیں۔
  9. چھوٹے بچے کے پاس 10 روپے بھی ہوں تو سمجھتا ہے کہ میں پورا شہر خرید سکتا ہوں، یہی حال ایک کم ظرف شخص کا ہوتا ہے کہ اسے تھوڑا سا مال یا عزت بھی مل جائے تو سمجھتا ہے کہ قارون یا فرعون بن گیا ہوں اور حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے۔

شریعت اور حقیقت

شریعت اور حقیقت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

شریعت اور حقیقت اہل طریقت کے لیے اصطلاحات ہیں۔ شریعت تو ظاہری عمل اور حال کی صحت کو ظاہر کرتی ہے اور حقیقت باطن کے احوال صحت مند ہونے یا نہ ہونے کو۔ اس لیے ایک مومنِ حقیقی میں ہر دو کا اجتماع ضروری ہے مگر آج کل شریعت اور طریقت کے قائل اور منبع دو الگ الگ گروہ ہیں۔ ایک تو ظاہری علماء ہیں جو شریعت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ دوسرا گروہ ملحدوںکا ہے جو حقیقت کو جائز اور صحیح سمجھتا ہے اور اس کو روا رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقت بغیر شریعت کے سمجھ میں آسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت کتنی ہی قوت سے منکشف کیوں نہ ہو پھر بھی بجز شریعت، حقیقت کا منکشف ہونا قطعی ناممکن ہے کیونکہ حقیقت تو شریعت پر مکمل طور پر مطابقِ سنت نبی علیہ السلام عمل درآمد کرکے نور باطنی پالینے کا نام ہے۔

شریعت کسی بھی حال میں کسی شخص سے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو ساقط نہیں ہوسکتی اور اس کی تعمیل ہر حالت میں فرض ہے۔ پس حقیقت سے مراد باطنی اور حقیقی صفات کی تکمیل اور تزکیہ قلب اور مخالفت نفس ہے جو تصوف کا بنیادی منشا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر دنیا کے فنا ہونے تک اس حکم میں تغیر و تبدل نہیں اور حصول اخلاص کے لیے ہمیشہ لازمی رہے گا کیونکہ اخلاص بھی حسن نیت کے بغیر ناممکن ہے۔ پس یہی حقیقت ہے۔

شریعت بندہ کے افعال و اعمال ظاہری ہیں چونکہ حقیقت خداوند تعالیٰ کی طرف سے نگہداشت، توفیق، رہنمائی اور عفت و حفاظت کا نام ہے، لہذا وجود حقیقت کا قیام شریعت کے بغیر محال ہے اور اسی طرح شریعت کا قیام حقیقت کے روحانی اور اخلاقی آداب بجا لانے کے بغیر محال ہوگا۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے کوئی شخص جب تک کہ روح اس کے جسم میں جاری و ساری رہتی ہے وہ زندہ ہے مگر جب وہ علیحدہ ہوجاتی ہے تو وہ بے جان بلکہ مردہ ہوجاتا ہے۔ لہذا شریعت اور حقیقت دونوں ایمان و انسان کے لیے منزلہ روح و جسم کے ہیں جیسے کہ جسم اور روح کی تمام قدرو قیمت ایک دوسرے کے وصل و اتحاد سے ہوتی ہے، اسی طرح شریعت بلا حقیقت یا حقیقت بلا شریعت نفاق اور گمراہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔‘‘

(العنکبوت، 29: 69)

پس شریعت مجاہدہ ہے اور ہدایت و مشاہدہ اس کی حقیقت ہے جو باالفاظ دیگر ظاہر کی باطنی رہنمائی ہے۔ جب مجاہدہ نہ ہوگا تو مشاہدہ کہاں سے ملے گا۔ جب شریعت ترک کردی جائے گی تو حقیقت کے وارد ہونے کے کیا معنی؟ لہذا شریعت اگر ایک دینی چیز ہے تو حقیقت سراسر دینی۔ حقیقت نے آخری دم تک شریعت کے احکام سے کسی حکم کو نظر انداز نہیں کیا تو صرف باطنی نماز اور روزہ کا سبق دینے والے اور شریعت پر عمل نہ کرنے والے پیر نہیں بلکہ ملحد، کافر، بے دین، عیش پرست، تن اور شہوت پرست ہیں جو سادہ لوح مسلمانوں کو گناہگار بنارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے مکرو شر سے بچائے۔

حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور تحریک منہاج القرآن

تحریک منہاج القرآن کے ساتھ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق روحانی سرپرست کا تھا اور ہے۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پیر طریقت بھی تھے اور اس ادارے کا سنگ بنیاد 1983ء میں ان ہی کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا تھا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ان کے موجودہ مقام و مرتبے تک پہنچنے میں ان کے پیر طریقت حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ نے کیا کردار ادا کیا؟ تو انہوں نے جواباً کہا:

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم اور عنایات سے جو روحانی فیوض و برکات حاصل کئے ہیں، میں بہ دل و جان یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرے لیے ان تمام تر فیوض و برکات کا ذریعہ حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہی تھی۔ حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ہر قدم پر روحانی اعتبار سے سنبھالا ہے‘‘۔

شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ دنیائے ولایت کے اس آفتاب درخشاں کا نام ہے جس کی تابدار کرنوں کے فیض سے احیائے اسلام اور تجدید دین کی عظیم تحریک ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت قلیل عرصے میں اس مشن کو وہ اٹھان ملی کہ آنے والا ہر لمحہ اس تحریک کی مقبولیت اور وسعت کا پیامبر بن گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی عبقری اور نابغہ روزگار شخصیت کی تمام تر علمی، فکری، تحریکی اور انقلابی سوچ دراصل اس انقلابی بیعت کا نتیجہ ہے جو انہوں نے حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دست اقدس پر کی۔

1987ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے یورپ اور کویت کا کامیاب دورہ کیا تو مخالفین بلبلا اٹھے اور انہوں نے تحریک منہاج القرآن کی عالمی سطح پر اٹھان کو دیکھ کر معاندانہ پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ شیخ الاسلام کی ذات اور تحریک منہاج القرآن کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان حالات میں حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا کرم دیکھیں کہ آپ نے پاکستان میں موجود سلسلہ قادریہ کے وابستگان اور علماء و مشائخ کے نام ایک پیغام جاری کیا جس میں آپ نے ادارہ منہاج القرآن کے کام پر اطمینان کا اظہار کیا اور علماء و مشائخ سلسلہ قادریہ کے وابستگان کو آپس میں محبت کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی اور ادارہ کو نقصان پہنچانے والوں کو آپ نے سلسلہ قادریہ سے خارج فرمادیا۔ تمام مشائخ، علماء اور مریدوں سے سچے دل سے ادارے کی خدمت کی اپیل کی۔ یہ تحریک منہاج القرآن پر شیخ المشائخ کا کتنا بڑا کرم تھا کہ آپ باطنی اور روحانی طور پر بھی بانی تحریک کو نوازتے رہے اور ظاہری طور پر بھی تحریک منہاج القرآن اور بانی تحریک کی دلجوئی اور سرپرستی فرماتے تھے۔

19 جون 1988ء کو لندن میں ہونے والی منہاج القرآن انٹرنیشنل کانفرنس کی صدارت قبلہ حضور شیخ المشائخ نے فرمائی اور یہ آپ کی ہی روحانی توجہات اور فیوضات کا اثر تھا کہ یہ کانفرنس بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد رنگ اختیار کرگئی اور اس میں دنیا کے 36 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ملت اسلامیہ کی آنکھوں نے ایک بار پھر اتحاد و یگانگت اور غلبہ دین حق کی بحالی کے لیے امت کے نمائندہ افراد کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھا۔

ححضرت قبلہ سیدنا حضرت طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک منہاج القرآن پر اپنی ظاہری حیات میں جتنا کرم فرمایا اس پر تحریک منہاج القرآن جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے اپنے اس عظیم روحانی سرپرست کی توجہات اور فیوضات سے اپنے کٹھن سے کٹھن مرحلے طے کئے ہیں اور اب بھی اس کی جملہ کامیابیاں حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی فیوضات ہی کی مرہون منت ہیں۔