محمد یوسف منہاجین

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے شہر اعتکاف 2019ء میں 10 روزہ دروس

خصوصی رپورٹ: محمد یوسف منہاجین

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام امسال تزکیہ نفس، فہم دین، اصلاحِ احوال، توبہ اور آنسووں کی بستی 28 واں سالانہ شہر اعتکاف (2019ء) جامع المنہاج میں منعقد ہوا۔ ہزاروں مرد و خواتین سیدالسادات شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاو الدین القادری الگیلانی البغدادی کے زیر سایہ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صحبت و سنگت میں اعتکاف بیٹھے۔ مرکزی شہر اعتکاف جامع المنہاج میں آباد ہوا، جہاں مرد حضرات معتکف تھے جبکہ خواتین کے لئے منہاج کالج برائے خواتین ٹاون شپ میں الگ اعتکاف گاہ بنائی گئی تھی۔

چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نگرانی میں شہر اعتکاف کی 50 سے زائد انتظامی کمیٹیوں نے ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور (سربراہ شہر اعتکاف)، محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان (نائب صدر TMQ) اور محترم جواد حامد (ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن و اجتماعات اور سیکرٹری شہر اعتکاف)کی سربراہی میں معتکفین کے لیے احسن انتظامات کا فریضہ سرانجام دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خرابیِ صحت کی بناء پر اعتکاف میں بنفسِ نفیس شریک نہ ہوسکے تاہم ویڈیو لنک کے ذریعے روزانہ خطابات اور معتکفین سے ملاقاتوں نے اس بُعدِ مکانی کا احساس نہ ہونے دیا۔

  • شہراعتکاف میں ہونے والی جملہ علمی، فکری، تربیتی نشستوں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دروس و خطابات کے دوران محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، نائب صدر محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور، نائب ناظمین اعلیٰ محترم احمد نواز انجم، محترم شاکر مزاری، محترم رانا محمد ادریس، محترم محمد رفیق نجم، محترم جی ایم ملک، محترم الطاف حسین شاہ گیلانی، محترم جواد حامد (ناظم اجتماعات)، محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، محترم پروفیسر محمد نواز ظفر، محترم نوراللہ صدیقی، محترم عدنان جاوید، محترم ملک فضل، محترم پروفیسر محمد سلیم احمد چوہدری، محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی، محترم راشد حمید کلیامی، محترم سید امجد علی شاہ، محترم مظہر محمود علوی، محترم عرفان یوسف، محترم علامہ امداد اللہ خان قادری، محترم محمد میر آصف اکبر قادری، محترم حاجی منظور حسین مشہدی، محترم سہیل احمد رضا اور محترم شہزاد رسول سمیت جملہ مرکزی قائدین و عہدیداران، زونل قائدین و عہدیداران، علماء ، مشائخ، اساتذہ اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سٹیج کی زینت بنتے رہے۔
  • شہر اعتکاف میں مختلف اوقات میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں اور ممتاز شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔ ان میں علماء ، مشائخ، سیاستدان، وکلاء ، اساتذہ، طلبہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ صوبائی وزیر اوقاف محترم سید سعیدالحسن شاہ، صوبائی وزیر اطلاعات محترم صمصام بخاری، صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن محترم راجہ یاسر ہمایوں، ڈائریکٹر جنرل سپورٹس محترم ندیم سرور، سجادہ نشین آستانہ عالیہ بابا فرید گنج شکر محترم حضرت دیوان مخدوم احمد مسعود چشتی، افغانستان سے مشائخ و علماء کا وفد، ہندو رہنما پنڈت بھگت لال، مسیحی رہنما ڈاکٹر مجید ایبل، ایرانی قونصلیٹ سے ایرانی قراء اور دیگر مہمانانِ گرامی نے خصوصی شرکت کی اور شیخ الاسلام کی علمی و فکری خدمات اور شہر اعتکاف کی انفرادیت و امتیاز پر خصوصی اظہار خیال کرتے ہوئے مبارک باد دی۔

معتکفین کی علمی، فکری اور روحانی تربیت

حرمین شریفین کے بعد دنیائے اسلام کے سب سے بڑے اعتکاف میں معتکفین کی علمی و فکری تربیت کیلئے قرآن مجید، احادیث، عبادات، عقائد، اخلاق حسنہ اور فقہی مسائل پر مشتمل سوال و جواب کی خصوصی نشستیں بھی منعقد ہوئیں جن میں مفتی اعظم محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی شرکاء کے سوالات کے جواب دیتے رہے۔

نظامتِ تربیت، تحریک منہاج القرآن نے حسبِ معمول اس سال بھی شہرِ اعتکاف میں تربیتی حلقہ جات کا انعقاد، تنظیمی تربیتی نشستوں کا انعقاد، معتکفین کے لیے یومیہ شیڈول، وظائف اور خصوصی ہدایات پر مشتمل لٹریچرکی تیاری و فراہمی، عرفان الحدیث کورس کا آغاز اور خصوصی کلاس برائے کِڈز اور دیگر خدمات سرانجام دیں۔ معتکفین کے لیے قائم کیے گئے علمی و فکری حلقہ جات میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے لیے 120 معلمین نے تدریسی خدمات دیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی درج ذیل تین کتب تربیتی حلقہ جات میں بطور نصاب شامل رہیں:

  1. اربعین، تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم
  2. اسلام دین امن یا دین فساد؟
  3. طہارت اور نماز
  4. قرآنی انسائیکلو پیڈیا کے تعارف اور استفادہ کے طریقہ کار پر خصوصی لیکچر کا اہتمام بھی کیا گیا۔
  • شہرِ اعتکاف میں ہرسال تنظیمی و تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی مختلف زون سے تعلق رکھنے والے عہدیداران و رفقاء ، تمام فورمز کے ذمہ داران اور وابستگان، نئے رفقاء و معتکفین، معلمین حلقہ جات و جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے اساتذہ و طلبہ کے لیے تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری(چیئرمین سپریم کونسلMQI) اور محترم ڈاکٹرحسین محی الدین قادری (صدرMQI) ان نشستوں کی سرپرستی فرماتے رہے ہیں اور جملہ مرکزی قائدین بھی اِن نشستوں میں موجود رہے۔
  • شہر اعتکاف کی جملہ راتوں میں بعد از نمازِ تراویح اور بعد از خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عظیم الشان محافل قرأت و نعت منعقد ہوتی رہیں۔ جن میں قراء حضرات نے تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل کیا اور محمد افضل نوشاہی، شکیل طاہر، ظہیر بلالی، قاری امجد علی بلالی، شہزاد برادران اور دیگر نعت خوانان نے خوبصورت نعتیہ کلام پیش کئے۔ ان محافل میں محترم اختر حسین قریشی، معروف ادیب و شاعر محترم زاہد فخری، محترم قاری محمد یونس قادری، محترم مقدس کاظمی اور دیگر نامور ثنا خوانان مصطفیa نے خصوصی شرکت کی۔ ان محافل میں نقابت کی ذمہ داری محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی کی سربراہی میں نظامت دعوت و تربیت کے ناظمین نے ادا کی۔

خطابات و دروس شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

امسال شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہر روز نماز تراویح کے بعد شب ساڑھے 11 بجے معتکفین سے مخاطب ہوتے رہے۔ شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام نے حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب ’’بدایۃ الھدایہ‘‘ اور حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ  کی شہرہ آفاق کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ سے دروس ارشاد فرمائے۔ ذیل میں اِن جملہ دروس و خطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:

1۔ پہلی شب، 20 رمضان المبارک (اتوار)

موضوع: ہدایت کی ابتداء کیسے ہوتی ہے؟

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

’’اﷲ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘

(البقرة، 2: 257)

ولی کے کئی معانی ہیں ان تمام معانی میں سب سے اعلیٰ معنی ’’قریب‘‘ ہے۔ اللہ ولی ہے، اس معنی میں کہ وہ ہمارے قریب ہے۔ اللہ ہمارے قریب ہے، اس لیے اللہ ہمارا ولی ہے اور اگر بندہ اللہ کے قریب ہوجائے تو اس کو ولی اللہ کہتے ہیں۔ اللہ ہر ایک کا ولی ہے مگر ہر کوئی اللہ کا ولی نہیں۔ اس لیے کہ ہمیں یہ ادراک ہی نہیں کہ اللہ میرے قریب ہے اور اللہ میرا ولی ہے۔ جس وقت یہ ادراک و شعور مل جائے کہ اللہ میرے قریب ہے اور میری شہ رگ سے بھی زیادہ مجھ سے قریب ہے اور یہ خیال اندر جم جائے تو پھر بندہ کسی بھی لمحے میں اپنے آپ کو تنہا و بے یارو مددگار محسوس نہیں کرتا۔ اس لیے کہ مددگار وہی ہوتا ہے جو قریب ہوتا ہے۔

جس طرح بچے کو جب اپنے بڑے کے قریب ہونے کا معلوم ہوتا ہے تو وہ شرارت نہیں کرتا۔ اس طرح جب بندہ اللہ کے اپنے قریب ہونے کا احساس اپنے اندر پیدا کرتا ہے تو اس قربت کے احساس سے اس کے اند ر خوف جنم لیتا ہے اور وہ برائیوں سے اجتناب کرتا ہے۔ اس کیفیتِ خوف کو تقویٰ کہتے ہیں۔

تقویٰ صرف خوف کو نہیں کہتے بلکہ محبت بھی اس میں شامل ہے۔ جس طرح بچے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ میرا بڑا میرے قریب ہے اور اس میں اس قربت کی وجہ سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ مجھے بچالے گا۔ گویا اس کے اندر نقصان پہنچانے والے کے شر سے حفاظت کی امید پیدا ہوجاتی ہے۔ پس جب بندہ اللہ کو اپنے قریب محسوس کرتا ہے تو وہ ہر ایک سے بے خوف ہوکر صرف اور صرف اللہ کی ذات سے متعلق ہوجاتا ہے۔

گویا خوف و رجا احساسِ قربت سے جنم لیتا ہے۔ جب ایک عام آدمی کو قربت فائدہ دیتی ہے تو اس بندے کا عالم کیا ہوگا جس کو یہ احساس ہے کہ میرا مولیٰ میرے قریب ہے۔ پس جب بندہ من کل الوجوہ اللہ کے قریب ہوجائے اور اس قربت کو محسوس کرے تو ولی اللہ ہوجاتا ہے۔ اللہ کی قربت کا احساس ایک خزانہ ہے اور خزانہ ہمیشہ چھپا ہوتا ہے، ظاہر میں نہیں پڑا ہوتا۔ یہ خزانہ جس کو بھی ملتا ہے کھدائی سے ملتا ہے۔ اللہ نے اپنی قربت کا خزانہ دبیز تہوں میں چھپا کر رکھا ہے، اس کے لیے کھدائی درکار ہے، اس کھدائی کو ریاضت و مجاہدہ کہتے ہیں۔ ان تہوں کا ذکر سورۃ الاعراف میں زین للناس حب الشہوات کے الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔

دنیاوی زندگی کی تمام خواہشات کو شہوات کہتے ہیں۔ شہوت ایسی خواہش کو کہتے ہیں جو دل سے چمٹ جائے اور زندگی کی مضبوط طلب و تمنا بن جائے۔ یہ شہوت عام خواہش سے جنم لیتی ہے۔ اگر یہ خواہش صرف خیال تک رہے تو اس کو ’’الھویٰ‘‘ کہتے ہیں۔ ھویٰ؛ شہوت کا مصدر ہے۔ خواہش رکھنا برا نہیں بلکہ وہ خواہش بری ہے جو دل پر چھا جائے۔ اگر بندے خواہش پر غالب ہو تو یہ ھویٰ ہے اور اگر خواہش بندے پر غالب ہو تو یہ شہوت ہے۔ اگر خواہش دل کو بے سکون کردے تو یہ ھویٰ کا شہوت بن جانا ہے۔

مطلقاً شہوت کو بھی اللہ نے برا نہیں کہا۔ اس لیے کہ امید ہے کہ بندہ شہوت کو دبالے گا لیکن اگر شہوت مضبوط ہوجائے تو یہ محبت کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ اللہ نے قرآن میں ’’حب الشہوات‘‘ فرمایا کہ بندہ ان شہوتوں میں اس طرح گھر گیا ہے کہ رات دن ان ہی کے خیال اور محبت میں ڈوبا رہتا ہے۔ جب شہوت کے ساتھ محبت جمع ہوجائے تو پھر فتنہ پیدا ہوتا ہے اور انسان توازن کھو بیٹھتا ہے۔ قرآن نے فرمایا کہ شہوتوں کی محبت مزین ہوجائے تو یہ وہ تہیں بن جاتی ہیں جن کے نیچے اللہ کی قربت کا خزانہ دب جاتا ہے۔ گویا تین طرح کی تہیں ہیں:

  1. شہوت کی تہہ
  2. محبت کی تہہ
  3. تزئین کی تہہ

ہدایت کی ابتداء یہ ہے کہ اس بات کا شعور پیدا ہوجائے کہ میں اللہ سے دور ہوگیا اور پھر بندہ سوچے کہ یہ دوری کیسے ختم ہوگی اور قربت کیسے پیدا ہوگی؟ اس احساس کی بیداری کو ’’بدایۃ الہدایۃ‘‘ کہتے ہیں۔

2۔ دوسری شب، 22 رمضان المبارک (سوموار)

موضوع: تقویٰ کی ابتداء کیسے ہوتی ہے؟

اللہ رب العزت نے فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ حَقَّ تُقٰتِهٖ.

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔‘‘

(آل عمران، 3: 102)

تقویٰ کے بہت سارے معانی میں سے درج ذیل دو معنیٰ نہایت اہم ہیں:

  1. تقویٰ کو اللہ کی جہت سے دیکھنا (God consciousness)
  2. تقویٰ کو بندے کی جہت سے دیکھنا (Self vigilance)

جب بندہ تقویٰ کو اللہ کی جہت سے دیکھتا ہے تو وہ اپنے شعور میں اللہ کو حاضر و ناظر سمجھتا ہے اور جب اپنی جہت سے دیکھتا ہے تو اپنے نفس کا محاسب بنتا ہے۔

تقویٰ وہ مقام ہے جہاں مذکورہ دونوں معانی اکٹھے ہوجاتے ہیں کہ ایک طرف بندہ اپنے شعور میں اللہ کو حاضر و ناظر سمجھتا ہے اور دوسری طرف اپنے نفس کا محاسب بنتا ہے۔

بدایۃ الہدایہ کا آغاز امام غزالی نے اس نکتہ سے کیا ہے کہ اے طالب علم! اگر تو مجھ سے پوچھے کہ ہدایت کی ابتداء کیا ہے تو جان لے! کہ ہدایت کی ابتداء تقویٰ کا ظاہر ہے اور ہدات کی انتہاء باطنی تقویٰ، روح، عقل، فکر اور من کا تقویٰ ہے۔

اس موقع پر اس تصور کو درست کرلیں کہ کئی لوگ ظاہر کے تقویٰ کو چھوڑ کر صرف باطن کے تقویٰ پر زور دیتے ہیں، یہ بات ضلالت اور گمراہی ہے۔ ایسی بات وہی کرتے ہیں جو دین سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، دین پر عمل نہیں کرنا چاہتے اور شہوتوں اور شیطان کی اتباع کرنا چاہتے ہیں۔ دین کی ابتداء ہی ظاہر سے ہوتی ہے۔ زبان سے اقرار، نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا یہ سب ظاہری احکام شریعت ہیں۔ جب نیک عمل کیا ہی نہیں تو اس کو پرکھا کیسے جائے؟ پاس یا فیل تب ہوں گے جب پڑھائی کریں گے؟ دل، باطن، روح تب Relevant بنتا ہے جب ظاہر پاکیزہ ہو۔ جو لوگ بے دینی کو جواز دینا چاہتے ہیں، وہ ظاہری تقویٰ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے کہ برائی کرنے کے بعد جب ضمیر پر بوجھ آتا ہے تو اس بوجھ کو Justify کرنے کے لیے کہ بندہ خود ہی یہ بات گھڑ لیتا ہے کہ ظاہر کی کوئی حیثیت نہیں، اصل تقویٰ باطن کا ہے۔

یہی بولی ایک اور طبقہ بھی بولتا ہے اور یہ طبقہ دیکھنے میں دیندار نظر آتا ہے۔ یہ لوگ عامل، پیر بننے کا دعویدار ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ہر وقت نماز، روزہ میں ہیں، ظاہر کی کوئی نماز نہیں۔

یاد رکھیں! جس کے تن میں نماز نہیں، اس کے من میں نماز نہیں۔۔۔ جس کی زبان ذاکر نہیں، اس کا دل ذاکر نہیں۔۔۔ جس کا تن فرمانبردار، وفادار، تابعدار نہیں، اس کا من فرمانبردار و وفادار نہیں۔۔۔ جس کا تن نافرمان ہے، اس کے من کو جانچا ہی نہیں جائے گا۔

گویا ایک طرف سیکولر و لادین طبق ہے جو ظاہری تقویٰ و شریعت کو اہمیت نہیں دیتا اور دوسری طرف بظاہر دیندار طبقہ نظر آتا ہے جو پیری فقیری کا دعویدار ہے مگر تصوف، روحانیت کے نام پر خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ یاد رکھ لیں کہ جس کی ابتداء نہیں، اس کی انتہاء بھی نہیں۔۔۔ جو منزل تک پہنچتا ہے وہ راستے سے گزر کر جاتا ہے۔ اس لیے اس طبقہ کا یہ کہنا کہ نماز، روزہ ابتداء کی جگہ ہے اور ہم یہاں سے گزر چکے ہیں اور انتہا پر پہنچ چکے ہیں، لہذا ہم پر یہ احکامات لاگو نہیں ہوتے۔ یہ خیالات و عقائد سراسر بے دینی و گمراہی ہیں۔

الحمدللہ تعالیٰ منہاج القرآن میں بالعموم اور اس شہر اعتکاف میں بالخصوص اس علم اور محاسبہ نفس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ یہی وہ امتیاز و خصوصیت ہے جو منہاج القرآن کو بطور تحریک بقیہ تحریکوں سے منفرد کرتی ہے اور اس کے شہر اعتکاف کو دیگر جگہوں پر ہونے والے اعتکافات سے ممتاز کرتی ہے۔

3۔ تیسری شب، 22 رمضان المبارک (منگل)

موضوع: تقویٰ کیا ہے؟

امام غزالی بدایۃ الہدایہ میں فرماتے ہیں: تقویٰ اللہ کے اوامر کو بجا لانے اور نواہی سے اجتناب سے عبارت ہے۔ اللہ کے احکام کی دو اقسام ہیں:

  1. فرائض
  2. نوافل

فرائض میں واجبات اور نوافل میں سنن بھی شامل ہیں۔ فرض، رأس المال (اصلِ زر) ہے۔ پنجگانہ نماز ادا کرنا اصل ہے، اس میں کوئی رہ گیا تو خسارہ ہے اور اصل زر میں نقصان کا باعث ہے۔ اسی طرح روزہ، حج، زکوٰہ فرائض میں سے ہے۔ ان میں فرائض پر عمل کے ذریعے نجات حاصل ہوگی۔ اخروی فلاح و نجات کا دارو مدار فرائض کی ادائیگی پر ہے۔ ان کو بجا لائے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

یاد رکھیں! نفل کبھی فرض کا متبادل نہیں بن سکتے۔ حقوق اللہ کی طرح حقوق العباد میں بھی اللہ نے فرائض رکھے ہیں۔ یہ فرائض اوامر میں بھی ہیں اور نواہی میں بھی ہیں۔ جس نے فرض ترک کیا، اوامر و نواہی پر عمل نہ کیا تو ہزار نفلی کام بھی اس کا خسارہ پورا نہیں کرسکتے۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ نفل، نفع ہے۔ تجارت میں اگر اصل زر ہی ختم ہوجائے تو نفع کہاں سے آئے گا؟ اگر فرائض میں کوتاہی ہے تو نفلی عبادت کا کوئی اجر اور فیض نہیں۔ ہم نوافل ادا کرنے میں رغبت جبکہ فرائض سے کوتاہی برتتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ نفل سے درجات ملتے ہیں نہ کہ نجات حاصل ہوتی ہے۔ جب فرائض کی بجا آوری کے نتیجے میں اس کے فضل سے دوزخ کی آگ سے نجات ہوگی تب نوافل جنت میں درجات بلند کریں گے۔ جنت میں داخلے اور دوزخ سے چھٹکارے کا انحصار فرائض پر ہے نہ کہ نوافل پر۔

حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ نے فرمایا: جو شخص بھی میرے قریب ہوا اس کو یہ قربت میرے فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے ملی ہے۔ کسی اور شخص کو اس درجہ کی قربت نہیں مل سکتی جو قربت فرائض ادا کرنے والے کو ملتی ہے۔ شریعت کے اوامر و نواہی کو اس کے جمیع آداب کے ساتھ بجا لانا تقویٰ ہے۔ فرض، واجب، سنت، نفل، مباح کی ترتیب کے مطابق اللہ کے احکامات کو بجا لانا شریعت کے آداب میں سے ہے۔

فرائض سے حاصل ہونے والا قرب نوافل سے حاصل ہونے والے قرب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اللہ کی قربت کی راہ فرائض سے کھلتی ہے۔ اگر فرائض میں کمی رہ جائے تو نوافل بارگاہ الہٰی کے قرب کا دروازہ نہیں کھول سکتے۔ جب بندہ فرائض میں کوتاہی نہ کرے اور فرائض جملہ احکام و آداب کے ساتھ ادا کرے تو اس کے بعد نفل شمار کیے جاتے ہیں۔

ہماری زندگی کا المیہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملہ میں فرائض سے کوتاہی برتتے اور انہیں نظر انداز کرتے ہیں جبکہ دیگر نفلی کاموں کو لگن سے کرتے ہیں۔ اس سے ہماری زندگی میں نیکیوں کا توازن (Balance) خراب ہوجاتا ہے۔

4۔ چوتھی شب، 23 رمضان المبارک (بدھ)

موضوع: تقویٰ اور آدابِ شریعت

حضور غوث الاعظم کی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں تقویٰ کا معنیٰ و مفہوم ایک اور جہت سے یوں بیان کیا گیا ہے کہ آداب شریعت کی حفاظت کرنا اور اللہ کے احکام کو بجا لانے میں آداب کو ملحوظ رکھنا تقویٰ ہے۔

شریعت کے آداب کیا ہیں؟ امام غزالی نے ’’بدایۃ الہدایہ‘‘ میں اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی ہے۔ آیئے! اِن میں سے چند آداب کا تذکرہ کرتے ہیں:

عبادات و اطاعات کے لیے طہارت نہایت ضروری امر ہے۔ شریعت نے اس حوالے سے بھی بندہ مومن کو بیت الخلا میں داخل ہونے، باہر نکلنے، وضو اور غسل کے آداب بتائے ہیں۔ یہ آداب دیکھنے میں نہایت معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ان اعمال کی بجا آوری میں اِن کے آداب اور طریقوں کو ملحوظ رکھنا تقویٰ ہے۔

حضرت بایزید بسطامی نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ فلاں جگہ اللہ کا ولی ہے، اس کی زیارت کے لیے چلتے ہیں۔ جب وہاں گئے تو وہ ولی مسجد میں داخل ہوتے ہوئے بائیں قدم کو اندر رکھ رہے تھے۔ آپ واپس لوٹ آئے۔ فرمایا: جس کو دوست کے گھر کا ادب نہیں، اس کو دوست کا ادب کیا ہوگا؟

اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے کسی کو قبلہ رخ منہ کرکے تھوکتے دیکھا تو واپس لوٹ آئے اور فرمایا کہ جس کو اللہ کے گھر کا ادب نہیں، اس کو اللہ کا ادب کیا ہوگا؟

یہ آداب اور شعور و آگہی کی یہ سطح پریکٹس کرتے کرتے پیدا ہوتی ہے۔ جب اس کی طبیعت بن جائے تو پاؤں کو خود ادب مل جاتا ہے۔ ان خیالات کو پختہ کریں، اس سے ارادہ بنتا ہے، ارادہ سے افعال بنتے ہیں، افعال سے آداب بنتے ہیں اور آداب سے زندگی بنتی ہے۔ دوران نماز دنیاوی دھیان کو ترک کرنا ادب ہے۔ یہ دھیان رہے کہ وہ ناظر فی القلب ہے۔ اس کے حضور کھڑے ہوتے ہوئے دل غافل نہ ہو۔ نماز میں جس قدر خشوع و خضوع ہے، وہ اسی قدر قبول ہے۔ نماز کو فانہ یراک کے مصداق پڑھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ نماز میں دل کا حاضر نہ ہونا نماز کی بے ادبی ہے۔ ارکان نماز میں عجلت نہ کریں، مکمل طریقے سے ادا کریں۔ یہ نماز کا ادب ہے۔

قیامت والے دن آداب کے بغیر پڑھے جانے والی نماز دوزخ سے تو بچالے گی مگر آداب کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے اللہ کے حضور قربت کے درجات نہیں ملیں گے۔ اسی طرح بقیہ عبادات اور معاملاتِ زندگی کے ہر حصہ کے آداب ہیں۔ شریعت کے جملہ احکام خواہ فرض، واجب، سنت، نفل جس سطح کے بھی ہیں، ان کو ان کے تمام آداب کے ساتھ بجا لانا تقویٰ ہے۔

اسی طرح اعضائے جسمانی کے بھی آداب ہیں کہ یہ کہاں، کیسے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوئے؟ کیا ان کو اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کیا گیا؟ قوت، طاقت، صلاحیت، عقل ہر چیز کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کرنا ادب ہے۔ ہر چیز کے استعمال کے آداب کو بجا لانا تقویٰ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان آداب کا زندگی کے ہر لمحہ اور موقع پر ملحوظ رکھنا مشکل ہے؟ نہیں، اس لیے کہ ہر کام جس کی پریکٹس آدمی نہیں کرتا، وہ کام اس کے لیے مشکل ہے لیکن جس کام کا بندہ عادی بن جائے، پریکٹس کرے تو پھر اس کو کرنا مشکل نہیں رہتا۔ روزمرہ امور میں ہم بہت ساری چیزوں کو استعمال کرنا نہیں جانتے مگر جس کی پریکٹس کرتے ہیں بالآخر اس کے ماہر بن جاتے ہیں۔ جو نہیں سیکھے گا، اس کے لیے وہ کام عمر بھر مشکل رہے گا اور جو سیکھے گا اس کے لیے آسان ہے۔ دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جو سیکھے بغیر آسان ہو۔ سیکھ کر ہی بندہ کے لیے ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔ یہی پوزیشن آدابِ شریعت کی ہے کہ جو نہیں سیکھتے ان کے لیے مشکل اور جو سیکھتے ہیں اُن کے لیے ان میں کیف و چاشنی اور سرور و لذت ہے۔

جسمانی اعضاء کا آداب یہ ہے کہ ان کو اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کریں۔ زبان، کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق استعمال کریں۔ کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا؟ اس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق کریں۔ دنیاوی معاملات میں وہ بولیں جس میں برائی نہ ہو بلکہ خیر ہو۔ دھوکہ و فریب اور جھوٹ نہ ہو۔

خرابی اس وقت جنم لیتی ہے جب ہم تصورات، خیالات، معیارات غلط صحبتوں سے لیتے ہیں جس کی وجہ سے دین کی اقدار کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب برائی کے کام گوارا ہونے لگیں تو جان جائیں اللہ کے دین کی غیرت کم ہورہی ہے۔ اپنے اندر اعتماد کی کمزوری کی وجہ سے بندہ دنیاداروں سے معیارات لیتا ہے جبکہ اسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں سے اور ان کی تعلیمات سے معیار لے۔

5۔ پانچویں شب، 24 رمضان المبارک (جمعرات)

موضوع: تقویٰ کی فضیلت

ظاہری تقویٰ ہدایت کی ابتداء کا موجب اور باطنی تقویٰ ہدایت کی انتہاء کہلاتا ہے۔ ہر سعادت اور اخروی نعمت کا مدار تقویٰ پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو عام حسنات و خیر کا مجموعہ بنایا ہے۔ انسانی زندگی میں جو جملہ حسنات اور اخروی سعادتیں جنم لیتی ہیں ان کی بنیاد تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے بغیر دین، روحانیت اور خیر کی کوئی عمارت قائم نہیں ہوتی۔ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جو شخص تقویٰ کا حامل ہوجاتا ہے، اسے اللہ کی محبت و معیت دونوں نصیب ہوتی ہیں۔

جنت میں اللہ متقین کو صدق کی نشستوں پر بٹھائے گا۔ یہ لوگ اللہ کی معیت و قربتِ خاصہ میں بیٹھے ہوں گے اس لیے کہ اہل تقویٰ ہی صاحبانِ احسان ہیں۔ متقی کا ہر عمل خیر پر ہوتا ہے، یہ جو بھی عمل کرتا ہے اللہ اس کو بغیر تاخیر کے قبول کرتا ہے۔ عمل کرنا بندے کا کام ہے، قبولیت بندے کے بس کی بات نہیں، اس لیے کہ اس کے شرائط و تقاضے ہیں مگر اللہ نے قرآن میں دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے کہ متقین کا ہر عمل بغیر تردد کے قبول ہوگا۔ اس لیے کہ متقی ہی صاحبِ قبول ہے۔

قربانی کے گوشت کے حوالے سے اللہ نے فرمایا کہ اللہ کو گوشت نہیں بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ گویا تقویٰ جس عمل میں بھی ہوگا، اس کے قبول ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ تقویٰ اس لیے ہمیشہ قبول ہوتا ہے کہ جنت متقین ہی کے لیے ہے۔ تقویٰ کے عظیم ثمرات و برکات میں سے ایک یہ ہے کہ تقویٰ سے علمِ لدنی کا چشمہ نکلتا ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو اساتذہ کی درس و تدریس، کتب کے مطالعہ اور ظاہری ذرائع علم سے نہیں ملتا بلکہ اللہ کی بارگاہ سے الہام و القاء ہوتا ہے۔ یہ علم ظاہری ذرائع سے نہیں ملتا بلکہ تقویٰ سے ملتا ہے۔ یہ علم سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتا ہے۔ تقویٰ سے اللہ مَن میں فرقان پیدا کرتا ہے۔ فرقان حق و باطل میں تمیز کرنے کو کہتے ہیں۔ ہر علم فرقان نہیں، ہر صاحبِ علم فرقان کے مرتبہ پر نہیں ہوتا۔ فرقان وہ نعمت ہے کہ اللہ کی طرف سے بندے کو الہام کی جاتی ہے اور بندہ پڑھے بغیر جان جاتا ہے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل؟ تقویٰ انسان میں ایسی باطنی صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ بندہ کے مَن اور باطن میں موجود نور اس کو مسئلہ کا اصل حل عطا کردیتا ہے۔

ہم دنیا میں پریشانیاں ختم کرنے کے لیے دنیاوی طریقے ڈھونڈتے ہیں تو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کو فراموش کردیتے ہیں اور جب اِن مسائل کا حل دین میں ڈھونڈتے ہیں تو پیر، فقیر اور وظائف اختیار کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو میں نہ صرف تمام پریشانیوں سے نکال دوں گا بلکہ اُن کی مالی ضرورت کو بھی ایسی جگہ سے پوری کردوں گا کہ اِن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔

ہر شخص تقویٰ کے وظیفہ کو اختیار کرے تو اللہ رزق، علم، عمل، مال، راحتِ جان، نیکی، صحت، رحمت، فراخی طبیعت، خوشحالی اور اطاعت و عبادات کا رزق عطا کرے گا۔ یاد رکھیں! اللہ کے ہاں کرامت تقویٰ کا نام ہے۔ کرشمے کا نام نہیں۔ فرمایا:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ﷲِ اَتْقٰـکُمْ.

’’بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔‘‘

(الحجرات، 49: 13)

افسوس! ہم کرشموں میں کرامت ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ تمام اولیاء نے کرشموں اور خوارق العادات کو کرامت قرار نہیں دیا۔ حضرت فضیل بن عیاض سے پوچھا گیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ فرمایا:

کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک وہ ظاہر و باطن میں پُرامن نہ ہوجائے۔ بندہ متقی اس وقت ہوتا ہے جب اس کے دشمن بھی اس سے اس طرح امن پائیں جس طرح اس کے دوست اس سے امن پاتے ہیں۔

6۔ چھٹی شب، 25 رمضان المبارک (جمعہ)

موضوع: علمِ نافع کیا ہے؟

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.

’’کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘

(الزمر، 39: 9)

وہ علم والے کون ہیں جن کی اللہ نے ایسی فضیلت بیان کی ہے؟ یہ لوگ صاحبانِ علمِ نافع ہیں۔ جو علم اللہ کی قربت عطا کرے، وہ علم علمِ نافع ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ اے طالب! تجھے زندگی میں جب بھی فرصت ملے تو اپنے اوقات کو درج ذیل چار درجات میں تقسیم کر:

1۔ ان میں سے سب سے افضل حالت یہ ہے کہ اپنے وقت کو علمِ نافع حاصل کرنے میں لگا۔ وہ علم جو تمہیں دین میں استحکام و استقامت دے، اس کو علم نافع کہتے ہیں۔

امام غزالی علمِ نافع کی شرائط بیان کرتے ہیں کہ:

  • علم نافع وہ ہے جو تیرے اندر اللہ کے خوف کا اضافہ کردے۔ معلوم ہوا جس علم سے تقویٰ اور خوف الہٰی میں اضافہ نہ ہو، وہ معلومات کا ڈھیر تو ہوگا مگر علمِ نافع نہ ہوگا۔
  • علم نافع وہ ہے کہ جس کے ذریعے بندہ اپنے نفس کے عیوب و کمزوریوں اور شہوات کو جان لے۔ علم کا معنی جاننا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کو جاننے سے وہ علم، علمِ نافع بنا؟ فرمایا: اپنے عیوب کو جاننے سے وہ علم، علمِ نافع بنا۔ ہمارے عیوب ہمارے نفس میں اس طرح ہیں جس طرح بیج زمین کے اندر موجود ہیں۔ جب ظاہر ہوں گے تو اس وقت تک وہ جڑ پکڑ چکے ہوں گے۔ جب بندہ عیوبِ نفس کو جانے گا تب ہی اس کے نقصانات سے بچاؤ کے لیے بھاگ دوڑ کرے گا۔ خطرناک چیز سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ پہلے اس خطرہ کا احساس و شعور اپنے اندر پیدا کرے۔ تب جاکر وہ ان سے بچنے کی تدبیر کرے گا۔
  • علم نافع آخرت کی رغبت کو بڑھاتا ہے۔ علم نافع بصیرت کی آنکھ کھولتا ہے، اعمال اور نفس کی آفات سے آگاہ کرتا ہے۔ شیطان کے مکرو فریب سے علمِ نافع آگاہ کرتا ہے۔ علمِ نافع بتائے گا کہ لوگ کس طرح دین کے نام پر دنیا کماتے ہیں، لہذا اس سے بچو۔ شیطان اس کے طریقے سکھاتا ہے جبکہ علم نافع اس کے نقصان سے آگاہ کرتا ہے اور اس مکرو فریب کے حوالے سے بصیرت عطا کرتا ہے۔ گویا علمِ نافع سارے راز انسان کو بتادیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ علمِ نافع میں عملِ صالح اور نسبتِ صالح شامل ہے۔ جو علم بلا عمل ہو، وہ غیر نافع اور بعض اوقات ضرر رساں بھی ہوجاتا ہے۔
  • علمِ نافع کی حفاظت کے لیے درج ذیل چار شرائط ہمیشہ ملحوظ رہیں:
  1. اس علم نافع کو حاصل کریں
  2. اس پر عمل کریں
  3. اس کی تعلیم دیں
  4. اس کی دعوت دیں

امام غزالی فرماتے ہیں کہ جس نے مذکورہ 4 کام کیے وہ آسمانوں میں بھی عظیم سمجھا جاتا ہے یعنی زمین و آسمان کی عظمت کا حصول ان مذکورہ 4 امور میں مضمر ہے۔ یہ چار امور انسان کے علم نافع کو محفوظ بناتے ہیں۔

2۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ وقت کی تقسیم میں دوسرے درجہ کا کام وظائف و نفلی عبادات ہیں۔ گویا علم کا درجہ نفلی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ فرمایا: علمِ نافع کے حصول کے بعد وقت بچے تو پھر نفلی عبادات کی طرف متوجہ ہوں۔ نوافل کی ادائیگی کا یہ درجہ بندے کو عابدین و صالحین میں شامل کردے گا۔

3۔ اوقات کی تقسیم میں تیسرے درجہ کا کام یہ ہے کہ ایسے کام کرے جس سے مسلمانوں کا بھلا ہو۔ یعنی خدمتِ انسانیت کے لیے مصروفِ عمل ہوجائے۔ یہ اعمال، نفلی عبادات سے افضل ہیں۔ فرمایا: یہ کام بذاتِ خود عبادات ہیں۔ اس لیے کہ بندے کی ہر حاجت رضائے الہٰی کے لیے پوری کرنا عبادت ہے۔

4۔ جس بندے کو مذکورہ تین کام نصیب نہیں ہوئے یعنی علمِ نافع کا حصول، نفلی عبادت اور خدمت انسانیت نصیب نہیں ہوئی تو وہ یہ کرے کہ اللہ کے حکم کے مطابق حلال و حرام کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے معمول کے کام کرے، روز گار کمائے، مگر یہ خیال رکھے کہ اس کے اعمال سے لوگ محفوظ رہیں اور کسی کو اس کی زبان اور ہاتھ سے نقصان نہ پہنچے۔ کسی دوسرے پر تنقید، طنز، تہمت، الزام لگانے سے پرہیز کرے۔ یعنی اپنا کام کر، کسی کے کام میں ٹانگ نہ اڑا۔ اگر فرائض میں کوتاہی نہیں کی اور نافرمانی نہیں کی تو اپنے کام سے کام رکھنے سے بھی جنت کا دروازہ کھل جائے گا۔ درجے نہ سہی مگر دوزخ سے بچ جائے گا۔ یہ دین میں یہ سب سے نچلا درجہ ہے۔

7۔ 27 ویں شب رمضان: عالمی روحانی اجتماع

تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 27 ویں شب لیلۃالقدر کا عالمی روحانی اجتماع یکم جون 2019ء ہفتہ کو منعقد ہوا، جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب کیا اور دعا کی۔ اجتماع میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سمیت مختلف مکتبہ فکر اور مختلف سیاسی، سماجی تنظیموں کے رہنماؤں اور عامۃ الناس کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ثناء خوان مصطفیaنے بارگاہ سرور کونینa میں گلہائے عقیدت پیش کیے اور قراَء حضرات نے تلاوت قرآن کریم کی سعادت حاصل کی۔ نظامت دعوت کے ناظم علامہ محمد اعجاز ملک نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نئی شائع ہونے والی کتب کا تعارف پیش کیا۔

خطاب شیخ الاسلام، موضوع: توبہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے توبہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:

بندہ جب غفلت سے نکل جائے، مال و دولت کی بجائے اللہ پر بھروسہ رکھے اور اس کے دل میں استغناء آجائے تو اس تبدیلی کا نقطہ آغاز توبہ ہے۔ توبہ نیند سے بیدار ہوجانے کا نام ہے۔ توبہ احساس دلاتی ہے کہ میں خسارے میں ہوں۔ نافرمانی کا احساس اور شعور بیدار ہوجانا یہ زبانی الفاظ کا نام نہیں بلکہ شعور کا نام ہے۔ توبہ کا مطلب رجوع کرنا ہے۔ ان چیزوں سے رجوع کرنا یا ترک کردینا جن کو اللہ نے حرام کردیا ہے۔

الرجوع من المذموم. الرجوع الی المحمود.

اے لوگو! اپنی ہوائے نفس کو چھوڑ کر میری طرف رجوع کرلو۔ توبہ بذات خود ایک کامل عمل ہے۔ اس پراسس میں بندہ برا عمل چھوڑ کر نیک عمل پر چلتا ہے۔ اللہ نے ہمیں سچی اور صاف توبہ کرنے کا حکم دیا جس میں آلودگی، گندگی اور ملاوٹ نہ ہو۔ توبہ کرلی پھر اس گناہ کو دوبارہ کرنے کا ارادہ بھی رکھا تو یہ توبہ نہیں۔ جب توبہ کرلی تو اس کے بعد اس کا ارادہ بھی ترک کرنا حقیقی توبہ کا تقاضا ہے۔

تمام کبائر اور صغائر سے توبہ کرنا توبۃ النصوح ہے۔ ہر وہ چیز جس سے اللہ نے منع کیا ہے وہ گناہ کبیرہ ہے۔ یعنی اللہ منع کرے اور مومن اسے ہلکا گناہ سمجھے، یہ اللہ کے حکم کی توہین ہے۔ ہر وہ چیز جو اللہ کی ناراضگی و غضب کا موجب بنے، جس پر حد مقرر کی جائے وہ گناہ کبیرہ ہے۔ ہر وہ عمل جس پر اللہ نے آخرت میں سزا کی وعید سنائی، جیسے سود، یتیم کا مال کھانا، قطع رحمی، حقوق والدین، چوری، چغلی جھوٹی گواہی یہ تمام گناہ کبیرہ ہیں۔ قتل، بدکاری، روزہ چھوڑنا، قوت و صلاحیت کے باوجود دشمن سے پیٹھ پھیر جانا، نیکی کا حکم نہ دینا، گناہ سے نہ روکنا، گناہ سے بے خوف ہوجانا، حرام جانوروں کو کھانا، سونے کا استعمال، ریشمی کپڑا پہننا بھی گناہ کبیرہ میں شامل ہے۔ جبکہ گناہ صغیرہ میں غیر معمولی قہقہے، تجسس، بے صبری، فاسق کی محفل میں بیٹھنا، عزت دار کی عیب جوئی، حسد، جھگڑالو طبیعت شامل ہیں۔

حدیث مبارکہ ہے کہ مومن گناہ کو پہاڑ کی طرح بڑا دیکھتا ہے اور منافق مکھی کی طرح معمولی دیکھتا ہے۔ ایمان گناہ کو بڑا کرکے دکھاتا ہے جبکہ نفاق گناہ کو چھوٹا کرکے دکھاتا ہے۔ بندے کو چاہئے کہ گناہ کو اس زاویے سے دیکھے کہ کس کی نافرمانی ہے۔ چھوٹی ذات کی نافرمانی ہوتی تو گناہ کی نوعیت بھی چھوٹی ہوتی، اگر ذات عظمت والی ہو تو نوعیت بھی بڑی ہوتی ہے۔

توبہ کی پہلی شرط ندامت ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ دل رقت آمیز ہوجائے، دل میں نرمی آجائے، تمام وقت عملاً سب گناہوں کو ترک کردے اورجو گناہ کیے دوبارہ اس کی طرف پلٹ کر نہ جائے۔ کسی سے پوچھا گیا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ میری توبہ قبول ہوگئی؟ فرمایا: توبہ کی پہلی علامت یہ ہے کہ زبان پاک ہوجائے۔

دوسری علامت یہ ہے کہ دل میں حسد نہ رہے۔

تیسری علامت یہ ہے کہ بری صحبت و سنگتیں چھوڑ دے۔ اگر توبہ کے بعد اسی سنگت میں پھر گیا جہاں سے گناہ ملا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ توبہ نہیں کی۔ اگر توبہ کے بعد ذوق و شوق نیکی کی طرف بڑھ رہا ہے، جس تعلق نے اسے گناہ کے کرنے پر آمادہ کیا تھا، ا س سے الگ ہورہا ہے تو یہ توبہ کی قبولیت کی علامت ہے۔

چوتھی علامت یہ ہے کہ اپنی طرف دیکھے کہ کیا احکام الہٰی کی طرف مائل ہورہا ہے؟ اگر انسانیت کی خدمت کرنا اور ظلم ختم کرنا محسوس ہوتو یہ توبہ کی قبولیت کا اشارہ ہے۔ ظالم وہ ہے جو گناہ کے بعد توبہ نہیں کرتا اور جو توبہ کرلے، وہ اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔

8. آٹھویں شب، 27 رمضان المبارک (اتوار)

موضوع: محاسبہ نفس کیوں ضروری ہے؟

انسان کے اندر گناہ کی طرف پلٹ جانے کا ملکہ بھی ہے اور نیکی کی راہ پر آجانے کے بعد اس پر قائم رہنا بھی انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ ان دونوں صورتوں میں توازن کیسے رکھنا ہے؟ اصل امتحان یہ ہے۔ جس طرح دھوپ اور سایہ کے درمیان ایک باریک لکیر ہوتی ہے ، اسی طرح انسانی زندگی میں نیکی اور برائی کے درمیان ایک باریک حدِ فاصل ہے۔ اس حدِّ فاصل کی حفاظت کرنا تقویٰ ہے۔ یہاں نور اور نیکی کے پہلو کو غالب کرنا اصل امتحان ہے تاکہ آدمی پھسل کر حدِّ فاصل سے دوسری طرف ظلمت میں نہ جاگرے۔

انسان کو نیک و صالح صحبت اور نیک اعمال کی بدولت جو کچھ میسر آئے اس تبدیلی کو محفوظ رکھنے کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے:

1۔ اس حال کو برقرار رکھنے کے لیے انسان کو ’’صبر‘‘ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ صبر کی کئی اقسام ہیں، مثلاً: مشکلات میں صبر، غربت میں صبر، آزمائشوں میں صبر وغیرہ۔ غربت میں صبر کرنا چھوٹا صبر ہے جبکہ آسائش میں صبر کرنا بڑا صبر ہے۔ آسائشوں کا صبر ہے کہ بندہ وسائل کو اللہ کی نافرمانی میں خرچ نہ کرے۔

صبر ایک جامع اصطلاح ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے حال کی محافظت کرنا اصل صبر ہے۔ امیری میں صبر، فقیری میں صبر، دکھ میں صبر، سکھ میں صبر۔ صبر ضبطِ نفس ہے، نفس کو دائرہ (Discipline) میں رکھنا کہ یہ گناہوں کی طرف نہ جائے۔

بندے کو جو کچھ ملا ہے وہ مقدور ہے اور جو نہ ملے وہ مقدور نہیں بلکہ وہ خواہش ہے۔ اب ملنے میں خواہ تنگی ہے یا خوشحالی، اس میں بندہ صبر کرے اور نفس کو کنٹرول میں رکھے۔ زبان شکایت نہ کرے اور جسم کے اعضاء گناہ کے مرتکب نہ ہوں۔

گویا مذکورہ تین چیزیں (صبر، زبان کنٹرول میں رکھنا اور اعضاء کو کنٹرول میں رکھنا) اگر بندہ اللہ کی رضا کے مطابق ضبط میں رکھے تو بندے کی محنت؛ نعمت و راحت میں بدل جاتی ہے۔ اذیت؛ راحت بن جاتی ہے۔ نہ ملنے کے اندر ہی بندہ مل جانے کا مزہ لیتا ہے۔ ناخوشگواری؛ خوشگواری بن جاتی ہے۔ گویا Approach بدل جاتی ہے۔ اس Approach کو حاصل کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنا آڈیٹر خود بن جائے۔ جو بندہ ہر روز خود اپنا آڈٹ کرے تو اس کا External آڈٹ نہیں ہوگا۔ اگر بندہ اپنا محاسبہ خود کرے تو کل قیامت والے دن محاسبہ و گرفت سے بچ جائے گا۔

2۔ تبدیلی کے بعد نیکیوں کے اثرات کو محفوظ رکھنے کے لیے صبر کے ساتھ ساتھ محاسبہ نفس بھی ضروری ہے۔ بندہ اگر محاسبہ کرتا رہے تو نیکیاں اس کی عادت بن جاتی ہیں۔ نیکیوں کا راستہ کھل جاتا ہے اور گناہوں کی طرف جانے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

3۔ نیکیوں کے اثرات کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جو نعمتیں ملیں، بندہ ہمیشہ اس پر اللہ کا شکر گزار بندہ بنا رہے۔ خالی گلاس پر نگاہ رکھنے کے بجائے بھرے ہوئے پر نظر رکھیں۔ جو خالی پر نظر رکھے گا، اللہ اس کو خالی رکھتا ہے کیونکہ ایسا بندہ بے صبر اور شکوہ سے معمور ہوتا ہے اور جو بھرے ہوئے پر نظر رکھتا ہے تو نہ صرف اللہ اس کو بھرا رکھتا ہے بلکہ جو خالی ہے اس کو بھی بھردیتا ہے۔ فرمایا:

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ.

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔‘‘

(ابراهیم، 14: 7)

ہمیشہ بھرے ہوئے حصے کو تکتے رہیں۔ نیز یہ کہ زبان سے بھی شکر کے کلمات ادا کرتے رہیں۔ دل معترف رہے اور زبان واما بنعمۃ ربک فحدث کے مصداق شاکر رہے۔ جسم نیکی کے عمل میں مصروف رہے تو یہ شکر ہے۔ اگر مذکورہ تین چیزیں (صبر، محاسبہ نفس اور شکر) اختیار کرلیں تو روحانی تبدیلی کے بعد کی زندگی میں حفاظت میسر آجاتی ہے۔

9۔ نویں شب، 28 رمضان المبارک (سوموار)

موضوع: طاعات اور معاصی کے اعتبار سے لوگوں کے احوال و طبقات

جنت و دوزخ میں جانے اور عذاب و سزا کے حوالے سے مومنین کے درج ذیل طبقات ہیں:

1۔ ایک طبقہ وہ ہے جو عذاب پائے گا اور گناہ و معاصی کی سزا بھگت لینے کے بعد جنت میں اس کا داخلہ ہوگا۔ یہ طبقہ حساب کے نتیجے میں عذاب کا مستحق مگر مومن ہونے کی وجہ سے سزا کے بعد بالآخر جنت میں جائے گا۔

2۔ دوسرا طبقہ بغیر عذاب مگر بعدالحساب جنت میں جائے گا۔ اس طبقہ کی طاعات زیادہ ہوں گی، برائیاں کم ہوں گی لہذا حساب دینے کے بعد جنت میں جائیں گے۔

3۔ تیسرا طبقہ بغیر حساب جنت میں جائے گا۔ احادیث نبویہ میں اس کے بڑے عدد بیان کئے گئے ہیں۔ اس زمرہ میں داخل ہونے کا حق ان کو ملے گا جو ہر روز خود احتسابی سے گزرتے ہیں۔ یہ طبقہ اللہ کے اوامر و نواہی پر لبیک کہتا ہے، نیکیاں کرتا ہے اور اپنے آپ کو معاصی سے بچاتا ہے۔ یہ طبقہ اللہ کا پورا فرمانبردار ہے۔ یہ لوگ کامل ثواب و جزا کے حقدار ہوں گے۔ اس طبقہ سے اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو یہ اگلے دن توبہ کرکے فوراً محاسبہ کرتے ہیں۔ اس طبقہ کو دوہرا اجر ملے گا۔ اوامر پر عمل کرنے کا اجر اور برائیوں سے بچنے کا اجر۔

  • عذاب پانے والوں کے تین طبقات ہیں:
  1. عذاب پانے والوں کا پہلا طبقہ وہ ہے جو نیکی اور طاعت کے امور سے انکار کرتا ہے، نیکیاں نہیں کرتا مگر گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ جوابدہی اور باز پرس کئے جانے والوں میں سے سب سے زیادہ برے ہیں اور ان کو دوہرا عذاب ہوگا۔ اوامر کو چھوڑنے کا عذاب اور برائیاں کرنے کا عذاب۔
  2. عذاب پانے والوں میں سے دوسرا طبقہ وہ ہے جو نہایت عجیب ہے۔ کثرت کے ساتھ لوگ اس میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ طبقہ نیکیاں، واجبات، احکامات، نوافل اور خدمتِ انسانیت بجا لاتا ہے مگر گناہوں کا ارتکاب بھی کرتا ہے۔ یہ لوگ کبائر و صغائر دونوں طرح کے گناہوں میںملوث ہوتے ہیں۔ گویا دینی وضع قطع بھی ہے اور کرپشن بھی ہے۔ یہ ایک Critical case ہے، یہ کرانک انفیکشن ہے۔ اس مرض سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ طبقہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی برائیاں کرتا ہے۔ اس کو اس جرأت پر اللہ کی طرف سے سزا دی جائے گی۔ اِن کے گناہ، نیکیوں کو کھاتے چلے جاتے ہیں۔ وہ گناہ جن کا تعلق حق تلفی سے ہے۔ حق تلفی وسیع المفہوم ہے اس میں صرف مال ناحق کھانا نہیں بلکہ غیبت، حقارت، نفرت، حسد، لالچ، کبر سب حق تلفی میں شامل ہے۔ ایسے شخص کی نیکیوں کا وزن نہیں کیا جائے گا بلکہ جس جس پر دنیا میں اس نے کسی طرح کا بھی اس نے ظلم کیا تھا، حق تلفی کی تھی اور تلافی نہیں کی تھی، ان محرومین کی تلافی کے لیے اس کی نیکیاں ان مظلومین کے نامہ اعمال میں ڈال دی جائیں گی یہاں تک کہ اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں بچے گی۔ آقاa نے حدیث مبارکہ میں اس شخص کو مفلس قرار دیا ہے یعنی جس کی ساری نیکیاں ردِ مظالم میں چلی جائیں، وہ مفلس ہے۔
  3. عذاب پانے والوں میں سے تیسرا طبقہ وہ ہے جو نیکیاں کرنے سے بھی گریز اور گناہوں سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ان کو بھی اللہ عذاب دے گا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے احکام کو ہلکا جانا اور اس کے احکام کو رد کردیا۔ یہ طبقہ اگر گناہ نہیں کرتا تو وہ اللہ کی نافرمانی سمجھ کر نہیں رکے بلکہ اُن کا مزاج ہے۔ اس لیے معاصی سے رکنے پر بھی اس کو اجر نہیں ملتا۔ دنیا میں اس کے لیے خیر ہے، آخرت میں عذاب سے بچ گیا مگر اس پر اجر نہیں ملتا۔

یاد رکھیں! طاعات و معاصی کے حوالے سے توازن قائم کرنا دین کو مضبوط کرنا ہے۔ توازن قائم نہ کرنا دین کو کمزور کرتا ہے۔ لہذا طاعات کو محفوظ کریں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ طاعات کو آداب کے ساتھ بجا لائیں۔

اگر نیکیاں اور طاعات محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور توبہ، تقویٰ، دین، بچانا چاہتے ہیں، نیکیوں کو ہمیشہ کے لیے اختیار کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اچھی صحبت و سنگت اختیار کریں۔ بری صحبت دین کو کاٹتی ہے اور اچھی صحبت دین کو مضبوط کرتی ہے۔ تمام اولیاء کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں لت پت لوگوں کی سنگت سے اجتناب کریں، وہ ہمارے دین کو بھی کمزور کردیں گے اور ہمارے اندر سے اللہ کا حیا بھی کم کردیں گے۔ اُن کے ساتھ بیٹھیں جن کی صحبت ہمارے دین کو مضبوط کرے۔

اللہ تعالیٰ نیک صحبتوں کے ذریعے ہمارا حامی و ناصر ہو۔

شہرِ اعتکاف کی متفرق سرگرمیاں

شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات اور نظامتِ تربیت کے زیر اہتمام علمی و فکری اور تربیتی حلقہ جات کے علاوہ بھی کئی علمی و فکری سرگرمیاں اور پروگرامز منعقد ہوئے جن کی مختصر رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

  1. 31 مئی 2019ء بروز جمعہ شہر اعتکاف میں جمعۃ الوداع کا عظیم الشان پروگرام منعقد ہوا۔ جس میں چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے ہزاروں معتکفین سمیت جمعہ کے لیے خصوصی طور پر تشریف لانے والے احباب سے خطاب کیا۔ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی نافرمان اقوام دردناک عذاب میں مبتلا ہوئیں، اللہ تعالیٰ جس فرد یا قوم سے ناراض ہوتا ہے تو اسے خوف، بے بسی اور ہزیمت گھیر لیتی ہے۔ معاشی تنگی اور غربت بھی اللہ کے عذابوں میں سے ایک عذاب ہے۔ آج ہم معیشت کی تباہی کا رونا روتے ہیں، مہنگائی، بیروزگاری کی تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن ہم نے ان تکالیف سے نکلنے کیلئے اپنے اعمال پر توجہ دینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ برکتیں اور آسودگی اللہ کی نافرمانی ترک کرنے سے میسر آئیں گی۔ جب ہم نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات، خیرات، صبر، شکر، اعتدال، تقویٰ، رواداری، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اوصاف سے متصف ہونگے تو اللہ کی نعمتوں کا نزول شروع ہو جائیگا۔‘‘
  2. 27 مئی کو تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری خواتین کی شہراعتکاف میں تشریف لے گئے جہاں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’معاشرے کی تشکیلِ نو میں منہاج القرآن ویمن لیگ کا کردار‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس موقع پر خواتین اعتکاف گاہ کے سربراہ محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، منہاج القرآن ویمن لیگ کی رہنماء فضہ حسین قادری، منہاج القرآن ویمن لیگ کی صدر فرح ناز، ناظمہ سدرہ کرامت اور جملہ خواتین رہنما بھی موجود تھیں۔
  3. تحریک منہاج القرآن کے شہراعتکاف میں دوسرے روز 27 مئی 2019ء کو چئیرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری سے خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور کراچی سے تشریف لائے ہوئے سیکڑوں معتکفین نے خصوصی ملاقات کی۔ اس موقع پر جملہ مرکزی قائدین بھی موجود تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے ’’کامیابی میں خوف و رجا کے کردار‘‘ پر خصوصی گفتگو فرمائی۔
  4. تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شہرِ اعتکاف میں 29 مئی کو مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے معتکف طلبہ سے ملاقات کی اور ان سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علم حاصل کرنا بڑی بات نہیںبلکہ علم کی مقصدیت کو حاصل کرنا بڑی بات ہے۔ نوجوان زمانہ طالب علمی کے ہر لمحے کو بامقصد بنائیں، ہر لمحہ حصولِ علم میں گزاریں۔ تحریک منہاج القرآن نوجوانوں کے دلوں میں عشق مصطفیaکی شمع کو روشن کررہی ہے۔ ہم نوجوانوں کو بے عملی کی زندگی سے باہر نکالنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ نوجوانوں کے دلوں میں تعلیمات محمدیaکی روح کو داخل کرنا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔
  5. شہر اعتکاف میں منہاج القرآن یوتھ لیگ کے سالانہ ٹریننگ سیشنز ’’جوانوں کو میری آہ سحر دے‘‘ کے عنوان سے 30 مئی کو دو مقامات پر منعقد ہوئے جس میں منہاج یوتھ لیگ کی قیادت نے لیکچرز دیئے۔
  6. شہراعتکاف میں 31 مئی 2019ء کو 26 ویں شب رمضان المبارک میں ایوارڈ تقریب منعقد ہوئی، جس میں تحریک منہاج القرآن کے اُن مرکزی قائدین و سٹاف ممبران کو ایوارڈز سے نوازا گیا جن کو مرکز پر خدمات سرانجام دیتے ہوئے 18 سال یا اس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ علاوہ ازیں اندرون و بیرون ملک اعلیٰ کارکردگی کی حامل تنظیمات و کارکنان کو بھی محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے ہاتھوں ایوارڈز، شیلڈز اور میڈلز سے نوازا گیا۔
  7. امسال منہاج القرآن ویمن لیگ کے فورم ایگرز کے زیراہتمام شہر اعتکاف میں کڈز اعتکاف میں بھی سات سال سے لے کر 10 سال کے سینکڑوں بچوں نے خصوصی شرکت کی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دروس تصوف اور خطابات کو سماعت کیا۔ ان بچوں کی علمی، فکری اور روحانی تربیت کے لیے بھی خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔
  8. شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور جملہ معتکفین نے شہدائے انقلاب کے لیے مغفرت و بلندی درجات کی خصوصی دعا کی۔ اس موقع پر ظلم اور ناانصافی پر مبنی نظام کی وجہ سے سرگودھا میں قید کئے جانے والے اسیرانِ انقلاب کی رہائی کے لیے بھی خصوصی دعا کی گئی اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ شہدائے ماڈل ٹاون کے انصاف اور اسیران انقلاب کی رہائی کے لیے ہم اپنی آئینی و قانونی کاوشیں ہر سطح پر جاری و ساری رکھیں گے اور اس کے لیے کسی بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ شہدائے ماڈل ٹاون کو ابھی تک انصاف نہ ملنا اور مظلومین کو گرفتار کیا جانا اس امر کا عکاس ہے کہ ظالمانہ نظام کے ہوتے ہوئے کوئی بھی تبدیلی حقیقی تبدیلی نہیں کہلا سکتی۔ اس موقع پر شہدائے انقلاب اور اسیرانِ انقلاب کی فیملیز کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا کہ وہ جرأت اور ہمت کے ساتھ حق پر کھڑے ہیں اور بڑے سے بڑا خوف اور لالچ بھی ان کے قدموں کو ڈگمگا نہیں سکا۔
  9. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دوران اعتکاف اندرون و بیرون ملک موجود جملہ تنظیمات و کارکنان کو شب بیداریوں کے احیاء کی خصوصی ہدایات جاری فرمائیں کہ پورے جوش و خروش اور ولولہ و جذبہ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ماہانہ شب بیداریوں کے سلسلہ کو ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک شروع کریں۔ ہر تنظیم ماہانہ شب بیداری کے پروگرام کا انعقاد ضروری کروائے گی اور یہ عمل اس کی تنظیمی کارکردگی کا لازمی حصہ قرار پائے گا۔

شہرِ اعتکاف میں اعلیٰ خدمات پر شیخ الاسلام کی مبارکباد

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف میں اعلیٰ کارکردگی پر درج ذیل قائدین کو خصوصی مبارکباد پیش کی۔

  1. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف میں بہترین اور شاندار انتظامات پر سربراہ شہر اعتکاف ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور، خواتین اعتکاف گاہ کے نگران محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، سیکرٹری شہرِ اعتکاف محترم جواد حامد اور جملہ منتظمین کو خصوصی مبارکباد دی۔
  2. شہر اعتکاف میں ہونے والے شیخ الاسلام کے جملہ خطابات اور شہر اعتکاف کی دن بھر کی جملہ سرگرمیاں منہاج TV کے ذریعے براہ راست نشر کی گئیں۔ علاوہ ازیں منہاج سائبر ایکٹویسٹ کی ٹیم نے سوشل میڈیا کے جملہ ٹولز کے ذریعے شہر اعتکاف کی سرگرمیاں اور شیخ الاسلام کے خطابات کے اہم نکات کو بھرپور طریقے سے لوگوں تک پہنچایا۔ شیخ الاسلام نے اس اعلیٰ کارکردگی پر محترم نوراللہ صدیقی (ڈائریکٹر میڈیا)، محترم عبدالستار منہاجین (ڈائریکٹر انٹرنیٹ بیورو)، محترم ثناء اللہ، محترم احسن بابا، محترم شہباز طاہر اور ان کے جملہ ٹیم ممبران کو خصوصی مبارکباد دی۔
  3. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جملہ نائب ناظمین اعلیٰ، یوتھ لیگ، ایم ایس ایم، ویمن لیگ، علماء کونسل، نظامت دعوت، نظامت تربیت اور نظامتِ مالیات کو بھی شہر اعتکاف کے اعلیٰ انتظام و انصرام اور اس میں فعال کردار اد اکرنے پر خصوصی مبارکباد اور دعاؤں سے نوازا۔
  4. شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مرکزی نائب ناظم اعلیٰ محترم رانا محمد ادریس اور ان کے جملہ ناظمین کو مبارکباد دی جنہوں نے رمضان المبارک کے دوران 54 شہروں میں عظیم الشان دروسِ عرفان القرآن منعقد کیے، اسی طرح نظامتِ تربیت کے محترم پروفیسر محمد سلیم احمد چوہدری، محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی اور ان کی پوری ٹیم کو تربیتی کورسز پر مبارکباد سے نوازا۔
  5. شیخ الاسلام نے خواتین اعتکاف گاہ میں شریک جملہ خواتین معتکفات کو بھی خصوصی مبارک باد دی اور منہاج القرآن ویمن لیگ کی پوری ٹیم کو خصوصی مبارکباد سے نوازا جن کی کاوشوں سے ہزارہا خواتین شہر اعتکاف میں شریک ہوئیں۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے کڈز اعتکاف کے انعقاد کو بھی خوش آئند قرار دیتے ہوئے ویمن لیگ اور ایگرز کی ٹیم کو مبارکباد اور دعاؤں سے نوازا۔
  6. منہاج ویلفیئر فاونڈیشن نے شہر اعتکاف میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد بھی کیا ، جہاں معتکفین مریضوں کے لیے ڈاکٹرز کی سہولت کے ساتھ ساتھ فری ادویات بھی دی جاتی رہیں۔ شیخ الاسلام نے محترم سید امجد علی شاہ اور MWF کی پوری ٹیم کو بھی مبارک باد دی۔
  • تحریک منہاج القرآن کا 28 واں سالانہ شہراعتکاف مورخہ 4 جون بروز سوموار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہو ا۔ نماز مغرب کے بعد منعقد ہ خصوصی تقریب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لندن سے ویڈیو لنک پر رقت آمیز دعا کرائی۔ اس موقع پر ملک پاکستان کی سلامتی و ترقی، قیام امن، بھائی چارہ، یکجہتی اور فروغِ دین و ملت کے لیے خصوصی دعائیں بھی کی گئیں۔