قاضی فیض الاسلام

30 جون 2019ء (اتوار) درد و الم اور رنج و غم میں ڈوبا ہوا وہ دن تھا جب تحریک منہاج القرآن کے ایک مایہ ناز سپوت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بھانجے اور مرکزی سیکرٹریٹ پر ڈائریکٹر فنانس کے عہدے پر فائز محترم عدنان جاوید نہایت ہی مختصر علالت کے بعد صرف 33 سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا لله وانا الیه راجعون.

محمد عدنان جاوید ڈائریکٹر فنانس کے انتہائی اہم اور حساس عہدہ پر گذشتہ 7 سال سے فائز تھے۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو وفاداری، وقار اور بہترین صلاحیت کے بھرپور استعمال سے اس طرح نبھایا کہ ان کا خلاء کوئی فرد واحد تو کبھی پر نہ کرسکے گا۔ شاید چند ذہین، باصلاحیت اور محنتی پروفیشنلز آنے والے وقت میں مل کر اس عظیم نقصان کی تلافی کے قابل ہوسکیں۔ مشن کے بہترین مفاد کے لیے کامل دیانتداری کے ساتھ ایک ایک لمحہ گزارنا ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہوا کرتی تھی۔ سالانہ عالمی میلاد کانفرنس، دس روزہ اعتکاف، اجتماعی قربانی، منہاج ویلفیئر فائونڈیشن اور اسی طرح دیگر پراجیکٹس کے فنڈز کے لیے ناظم اعلیٰ اور دیگر قائدین کے ساتھ مل کر پلاننگ کرنا اور اہداف کے حصول اور انہیں زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیزی کے لیے خرچ کرنے کے سارے عمل میں ان کا کلیدی کردار ہوتا تھا۔پراجیکٹس کے لیے مالیاتی اہداف کے حصول کے بعد وہ انتہائی عاجزی سے بالائی قیادت کو خوشخبری سناتے تو ان کی باطنی خوشی ان کے چہرے کی بشاشت سے واضح جھلک رہی ہوتی۔ اعلیٰ قیادت کے ساتھ مسائل ڈسکس کرتے تو ان کے حل کے لیے ان کی فائل میں ایک سے زائد آپشنز موجود ہوتی تھیں۔

وہ حقیقی معنوں میں ایک لیڈر تھے، انہوں نے شیخ الاسلام کے اس فلسفہ کو دل و دماغ میں جاگزیں کرلیا تھا کہ سالوں کی محنت اور عرق ریزی سے حاصل ہونے والی صلاحیت اور اختیارات کو حقیقی معنوں میں تقسیم کرنا اور اپنی مسلسل نگرانی اور رہنمائی میں قابل ٹیم بنانا اور اسے بڑھاتے چلے جانا ہی اصل کامیابی ہے۔ انہوں نے 20 کے قریب نوجوانوں کو اسی اصول کے تحت اپنا دست و بازو بنایا۔ آٹھ MBAs اور چار ایم فل (جن کی تکمیل قریب ہے) ان کی ٹیم کا حصہ ہیں اور ان کی تعلیمی ترقی کی وجہ عدنان جاوید ہی تھے۔

ان کی زبان پر اکثر انگلش کے دو الفاظ ہوتے ’No Issue‘۔ ان کا یہ سٹائل دوسروں کو یہ کہہ رہا ہوتا تھا کہ بڑی سے بڑی مشکل اور رکاوٹ انسان سے شکست کھانے کے لیے ہے۔ ان کا قلب، قلب سلیم تھا اور اس پر نفس کی بجائے روح کی حکمرانی تھی۔ جاہ و منصب کی طلب انہیں چھو کر بھی نہ گزری تھی، عجزو انکساری اور خالص ترین جذبات سے ہم آہنگ مسکراہٹ ان کے بارونق چہرے کا خاصہ تھی جو دوسروں کو پیغام دے رہی ہوتی تھی کہ ان کا باطن سکون اور اطمینان کی دولت سے لبریز ہے۔

مرکزی سیکرٹریٹ، تنظیمات، فورمز، منہاج ویمن کالج، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج ویلفیئر فائونڈیشن، منہاج یونیورسٹی، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، آغوش اور دیگر ذیلی اداروں میں فیصلہ سازی میں ان کا مرکزی کردار ہوتا تھا۔ اس لیے وہ ڈائریکٹر فنانس سے بہت بڑھ کر تحریک کی اعلیٰ ترین قیادت میں اہم ستون کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ شیخ الاسلام کی توجہ کا وہ مرکز تھے جس کی وجہ سے عدنان جاوید اور برکت لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔

درجنوں مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ ہمیشہ پرعزم رہتے اور موجودہ ذمہ داری کے تناظر میں ہر کوئی گواہ ہے کہ انہوں نے روایتی انداز سے ہٹ کر مشکلات کو آسانیوں میں بدلنے میں بنیادی رول ادا کیا۔ تحریکی ساتھیوں کے معاملات حل کرنے کے لیے وہ اپنے اختیارات سے بڑھ کر کردار ادا کرتے اور مختلف متبادل آپشنز کے ذریعے مسئلہ حل کرنے تک چین سے نہ بیٹھتے۔

زندگی میں ایک غفلت یقینا ان سے ہوتی رہی، اس کا سبب بھی ان کی تحریکی زندگی کی نہ ختم ہونے والی مصروفیات ہی تھیں۔ وہ اپنی صحت کا اچھا خیال نہ رکھ سکے اور اپنے اندر چھپی اور پنپتی ہوئی خطرناک بیماری کا بروقت ادراک اور تدارک نہ کرسکے البتہ وہ ایسے باصلاحیت، ذہین اور انتہائی پروفیشنل صحت مند افراد سے بدرجہا بہتر تھے جن کی منزل دنیاوی مناصب اور آسائشوں کے حصول تک محدود ہوتی ہے اور ان کی زندگی مقصدیت سے کلیتاً خالی ہوتی ہے۔ عدنان جاوید نے تحریک منہاج القرآن جیسی اجتماعیت میں گو بہت کم زندگی گزاری مگر وہ لاکھوں کارکنان اور قائدین کے لیے رول ماڈل بن کر داعیِ عدم کو لبیک کہہ گئے۔

33 سال کی نوعمری میں وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کی مرکزی قیادت میں اہم ترین مقام بنا چکے تھے۔ انہوں نے جو منصب حاصل کرلیا تھا انہیں شائد اس کا خود بھی احساس نہ تھا کیونکہ وہ تو اور آگے اور آگے کے سفر میں ایسی سوچ کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیتے ہوں گے۔ حقیقت میں یہی رویہ انسان کو بلندیاں عطا کرتا ہے۔ عدنان جاوید کم عمری میں ہی بڑا مقام حاصل کرچکے تھے۔ اللہ بھی یقینا ان سے راضی ہوچکا تھا اس لیے تو اخروی نعمتوں اور اپنا دیدار عطا کرنے کے لیے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ مزاج کی سادگی اور عجز و انکساری کے حسن نے ان کی شخصیت کی درجنوں جہتوں اور ہمارے درمیان دبیز پردہ حائل کر رکھا تھا جو ان کی جدائی نے مکمل طور پر ہٹا دیا ہے۔

گذشتہ 25 سال میں راقم نے شیخ الاسلام اور ان کے نور نظر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو کسی فرد کی رحلت پر اس قدر غمگین اور دل گرفتہ نہیں دیکھا جنازہ اور تدفین کے موقع پر شیخ الاسلام کی دعا نے خود ان کے قلب اطہر میں پنہاں غم کی شدت کو جس طرح ظاہر کیا اس سے وہاں موجود ہر شخص کا سینہ پھٹا جارہا تھا۔ شیخ الاسلام، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، شیخ حماد مصطفی اور شیخ احمد مصطفی العربی کی شدت غم بتارہی تھی کہ محترم عدنان جاوید کے لیے خاندانِ القادریہ کی شدید ترین محبت کس درجہ کی ہے۔ عدنان جاوید کے اخلاص اور وفاداری کو منہاج القرآن کا ہر کارکن بوسہ دیتا ہے اور اُن کے مقدر پر نازاں و فرحاں ہے۔

صدق، اخلاص، وفاداری، امانت، دیانت، خدمت، فراست و بصیرت، بردباری، کمال درجہ عجز و انکساری، حیاء اور تقویٰ سے مزین عدنان جاوید بھائی کا سفر آخرت دیدنی اور قابل رشک تھا۔ جانا تو سب نے ہے مگر وہ جس طرح روانہ ہوئے ایسی رخصتی لاکھوں کروڑوں میں کسی ایک کا مقدر ہوتی ہے۔

جنازہ میں شرکت کے لیے چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری خصوصی طور پر لندن سے تشریف لائے۔ شیخ الاسلام نے جنازے کے بعد ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کے دوران جو الفاظ استعمال فرمائے وہ عدنان جاوید ہی کا نصیب تھے۔ کسی بڑے سے بڑے تحریکی قائد، عہدیدار یا کارکن کے لیے ایسی دعا راقم نے کبھی نہیں سنی۔ جنازہ اور تدفین کے مناظر کا ہر لمحہ منہاج ٹی وی کے ذریعے شیخ الاسلام نے لندن میں دیکھا۔ یہ منظر بھی پہلی دفعہ دیکھنے کو ملا۔ تدفین کے بعد انہیں شیخ الاسلام نے جن دلی کیفیات اور دعائوں کے ساتھ اللہ کے سپرد کیا اس کو بیان کرنا احقر کے لیے ممکن نہیں۔

شیخ الاسلام نے حق فرمایا کہ عدنان جاوید (جنت میں ہمیشہ رہنے والا) کی قبر سے اردگرد کی قبور کو بھی فیوض و برکات نصیب ہوں گے اور عدنان جاوید ان میں سے ہوں گے جو اپنے خاندان کی شفاعت کا باعث بنیں گے۔

عدنان جاوید یقینا اپنے نام کے معنی اور مفہوم کو بہت زیادہ جانتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے عمل صالح اور تقویٰ سے اس کی لاج رکھی اس لیے میں یہ ضرور کہوں گا کہ عدنان۔۔۔۔ جاوید ہوگئے!

آخر میں دعا گو ہوں کہ عدنان جاوید کی قبر پر ہمیشہ کروڑوں رحمتوں کی برسات ہوتی رہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر لمحہ ان کے درجات میں بلندی کے سلسلہ کو جاری رکھے۔ بارگاہ الوہیت سے شیخ الاسلام کی فیملی، عدنان جاید کے والدین، بھائی، ہمشیرگان اور خاندان کے دیگر افراد اور منہاج القرآن فیملی کے لاکھوں سوگواران کو اس عظیم صدمہ پر صبر کی وافر دولت میسر ہو۔ (آمین ثم آمین)