’’اسلامی اخلاقیات تجارت‘‘پر تبصرہ

ظہیر انجم

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری معاشی ماہر، ماہر تعلیم، دینی سکالر اور فلاسفر ہیں، انہوں نے 2006ء میں پیرس کی ایک معروف یونیورسٹی سے عالمی معیشت میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں تدریسی و تحقیقی خدمات انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے آسٹریلیا کی معروف یونیورسٹی وکٹوریا یونیورسٹی میلبورن سے انٹرنیشنل فری ٹریڈ کے موضوع پر اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ انہوں نے ای سی او کی طرز پر پاکستان، ایران، ترکی اور نوآزاد وسطی ایشیائی ریاستوں کے معاشی اتحاد اور ان کا تقابل کرتے ہوئے ایک معاشی ماڈل دیا جو عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد، مفید اور قابل عمل خوشحالی کا معاشی روڈ میپ ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی مسلم ممالک اور ان کے عوام کے اقتصادی و معاشی مسائل پر گہری نظر ہے۔ وہ دولت مشترکہ کی طرز پر مسلم ممالک کے مشترکہ سماجی، سیاسی، اقتصادی بلاک کے پرزور حامی ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے قابل ذکر تحقیقی کام بھی کررکھا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کی تعلیم بھی معروف عالمی سکالرز سے حاصل کی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان کے والد محترم بھی ہیں اور استاد بھی۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے حال ہی میں ’’ اسلامی اخلاقیات تجارت‘‘ کے عنوان سے سوا پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک انتہائی مفید کتاب تحریر کی ہے۔ تجارتی اخلاقیات کے موضوع پر غالباً یہ پہلی جامع کتاب ہے جس میں تاجر کی دینی، قومی، سماجی ذمہ داریوں، اس کے منافع کی جائز حد اور کنزیومر کے حقوق کے ضمن میں قرآن و سنت کی روشنی میں استدلال کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی کتاب ’’اسلامی اخلاقیات تجارت ‘‘معاشی، سماجی انصاف، امانت، دیانت، صداقت، جذبہ اخوت کے ضمن میں اسلامی فلسفہ تجارت کے خدوخال کو اجاگر کرتی ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اسلامی ممالک کے عوام، حکومتوں، بینکوں اور تجارتی حلقوں کو درپیش اسلامی بینکاری، سود، معاہدات اور معیشت و تجارت سے متعلق بنیادی امور کو انتہائی عام فہم اور سادہ زبان میں قرآن و حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ واحد کتاب ہے جو ایک عام کاروبار کرنے والے سے لے کر بڑے تاجر اور صنعتکار کے مطالعہ کے لیے انتہائی مفید ہے۔

اس کتاب کے اہم نکات کا خاکہ درج ذیل ہے:

رضائے الٰہی کے لئے معاملات کی انجام دہی

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مذکورہ کتاب کے ذریعے اس سوچ اور فکر کو نمایاں کیا ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ بھی قرآن و سنت کے دائرہ سے باہر نہیں ہے اور نہ ہی انسانی زندگی کے 24گھنٹوں پر مشتمل لمحات دائرہ اسلام سے باہر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اسلامی طریقہ کار کے مطابق 8گھنٹے کی نیند پوری کرتا ہے، کاروبار کرتا ہے یا 24گھنٹوں میں قیام وطعام کے عمل سے گزرتا ہے اور اگر وہ یہ فرائض قرآن و سنت کے بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق انجام دے تو وہ عبادت کے دائرے میں آجاتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اخلاقیات کے اسلامی تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر بندہ مومن پر لازم ہے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے درست کام کرے۔ ہرایک پر لازم ہے کہ وہ اپنے کاروباری لین دین اور اپنی ذاتی اور عوامی زندگی میں عمدگی کے ساتھ معاملہ کرے۔

تاجروں کے لیے اچھی نیت کی اہمیت

خلوص نیت مذہب کے بنیادی اور لازمی عناصر میں سے ایک ہے۔ اسلام فرائض کی ادائیگی کا محور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو قرار دیتا ہے۔قرآن مجید اوراحادیث مبارکہ میں بھی سچائی، راست بازی اور نیت کی پاکیزگی پر زور دیا گیا ہے۔ اس لیے ایک تاجر، دکاندار، صنعت کار اچھی نیت کے ساتھ اپنے کاروباری معاملات کو آگے بڑھائے اس میں خیر بھی ہو گی اور برکت بھی۔

اسلام میں کاروبار اور تجارت کی اہمیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود تجارت کو اپنے پیشے کے طور پر اپنا کر اس کی اہمیت کو عملی طور پر اجاگر فرمایا ہے، قرآن مجید میں عربوں کے ہر موسم میں جاری رہنے والے تجارتی سفروں کا ذکر ہے جو ان کے لیے خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک نعمت تھی۔

اسلامی اخلاقیات تجارت کا پہلا اصول حسن نیت اور دوسرا انصاف پر مبنی باہمی معاملہ ہے کہ آپ کسی کا مال ہڑپ مت کرو، اس میں تباہی اور ہلاکت ہے۔ آج شعوری یا لاشعوری طور پر دو کاروبار کرنے والے افراد ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا اپناحق سمجھتے ہیں یا وہ پارٹنر جوبراہ راست کاروباری سرگرمی کا حصہ نہیں اور وہ سرمایہ کاری میں برابر کا حصے دار ہے اس کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھا کر حاصل کرنے والے منافع کو کم ظاہر کر کے یا نقصان ظاہرکر کے اس کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، قرآن کی نظر میں یہ انتہائی قبیح فعل ہے اور اللہ نے اس جرم کے مرتکبین کو تنبیہہ کی ہے کہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔

خوش خلقی اور تجارتی معاملات میں نرمی

اسلامی اخلاقیات تجارت کا تیسرا اصول خوش خلقی اور تجارتی معاملات میں نرمی برتنا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ’’اللہ ایسے شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو جب کچھ خریدتا ہے تو نرمی برتتا ہے، جو جب کچھ بیچتا ہے تو نرمی برتتا ہے اورجب کسی سے ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے تو نرمی اختیار کرتا ہے‘‘

اظہار تشکر اور محصولات کی ادائیگی

وہ تاجراور دکاندارجو بے پناہ منافع کمانے اور دولت کمانے کے باوجود نقصان کا مصنوعی رونا روتے ہیں اور ان کے ذمہ اسلام اور ریاست کے جو واجبات ہیں انہیں ادا کرنے سے انحراف کرتے ہیں انہیں علم ہونا چاہیے کہ اسلام نے صاحب حیثیت پر عشر و زکوۃ کی ادائیگی، حج، قربانی، صدقات، فطرانہ کی جو ذمہ داری عائد کی ہے اور اگر وہ اس سے انحراف کرے گا تو وہ جواب دہ ہو گا۔ ریاست میں قوانین کے تابع کاروبار کرنے والے شخص کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ ریاستی محصولات کی ادائیگی سے کنارہ کش ہو اور جو واجبات ریاست نے اس کے ذمہ ٹھہرائے ہیں، اسے ادا نہ کر کے وہ رزق حلال کمانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا یعنی کسی بھی شکل میں ٹیکس چوری ایک سنگین جرم ہے۔واجبات کی ادائیگی اسلامی اخلاقیات تجارت میں شامل ہے۔ مسلمان تاجروں کے لیے لازم ہے کہ وہ بلاتوقف اپنی تجارتی سرگرمیوں کے دوران بھی ذکر خدا اور فرائض کی ادائیگی سے غافل نہ ہوں حتیٰ کہ کاروباری لین دین کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہیے۔

رزق حلال کی اہمیت

فی زمانہ رزق حلال سے مراد گاہک کو جائز منافع پر خالص اور پورے ناپ تول کی چیز فراہم کرنا ہے۔سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ وقت پر دفتر جائیں اور دفتری اوقات کار میں کوئی اور کام نہ کریں، رشوت ستانی سے بچیں، لوگوں کو تنگ کرنے کی بجائے ان کے جائز کام بلاتاخیر کریں، اس عمل میں جہاں کہیں بھی کوتاہی یا دھوکہ دہی ہو گی تو اس سے حاصل شدہ رزق حلال نہیں کہلائے گا۔

اپنے وسائل میں دوسروں کو شریک کرنا

شراکت داری اسلامی اخلاقیات تجارت کا ایک اہم اصول ہے۔ اسلام دولت کے ارتکاز سے منع کرتا ہے اور اسلامی اخلاقیات تجارت وسائل کی تقسیم پر استدلال کرتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا معاشرتی ڈھانچہ عطا فرمایا جس میں افراد اپنے آپ کو وسائل کا امانت دار سمجھتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے لوگوں کو دل کھول کر خیرات دینے کی تلقین فرمائی ہے جو برے حالات کاشکار ہوں تاکہ وہ بھی صاحب ثروت لوگوں کو حاصل نعمتوں سے فیض یاب ہو سکیں۔

اجرت کی بروقت ادائیگی

اسلامی اخلاقیات تجارت کا یہ اہم ترین اصول اور ضابطہ ہے کہ ملازمین کو ان کے کام کا معاوضہ فوری ادا کر دینا چاہیے کہ جب وہ اپنا کام مکمل کر لیں، اجرت کو روکے رکھنا یا تاخیری حربوں کا استعمال کسی بھی کام کرنے والے کی پریشانی کا باعث بنتا ہے اور اسلام کی نظر میں یہ جبر کی ایک قسم ہے۔ کاروباری حضرات کو کسی بھی صورت اپنے ملازمین کی اجرت کی بروقت ادائیگی میں تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مزدور کی اجرت اسے اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو‘‘

اگر صاحب ثروت حضرات کسی مزدور یا اپنے ملازمین کو ان کے کام کا معاوضہ بروقت ادا نہیں کرتے تو پھر وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں ظالم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

’’کسی بھی صاحب ثروت کی طرف سے ادائیگی میں تاخیر ناانصافی ہے‘‘

ایک اور حدیث مقدسہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محنت کشوں کے استحصال کے خلاف خبردار فرمایا ہے:

’’ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے روز محشر میں تین قسم کے لوگوں کے سخت خلاف ہوں گا ان میں سے ایک وہ جو کسی کو اجرت پر رکھے اور اس سے پورا کام کروائے اور پھر اسے اس کی اجرت نہ دے۔‘‘

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کاروباری اداروں کے مالکان ایک تحریری معاہدہ کے مطابق ملازمین کو ان کی مقررہ وقت پر اجرت کی ادائیگی سے انکاری ہوتے ہیں اور وہ معاوضہ کی ادائیگی کے ضمن میں عذر پیش کرتے ہیں، یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے، محنت کا حق ادا کرنے والوں کو بروقت اور پورا معاوضہ ادا کرنا یہ مالکان کی قانونی و دینی ذمہ داری ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجرم ہیں۔ یقینا آج کی اس جدید دنیا میں ملکی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔

اسلامی اخلاقیات تجارت کے ضمن میں مذکورہ بالا مختصر نکات یہ ہیں:

  1. کاروباری معاملات میں جھوٹ نہ بولا جائے
  2. ناپ تول میں کمی نہ کی جائے، جائز منافع تک محدود رہا جائے
  3. کاروبار نیک نیتی کے ساتھ کیا جائے جس کا مقصد اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ دوسروں کی مدد کرنا بھی مقصود ہو
  4. صاحب حیثیت لوگ کم حیثیت والے لوگوں کے لیے کاروبار کے مواقع پیدا کریں کیونکہ اسلام کا اخلاقی تجارتی نظام دولت کے ارتکاز کے خلاف ہے
  5. صاحب حیثیت لوگ اپنی وہ دولت اور وسائل جو ان کی ضروریات سے بڑھ کر ہیں وہ اس کا ایک حصہ فلاحی کاموں کے لیے مختص کریں تاکہ ضرورت مند بھی مستفید ہو سکیں
  6. ریاستی واجبات کی ادائیگی بھی کاروباری اخلاقیات اور فرائض کا حصہ ہے اور یہ کہ مزدور کو اس کی محنت کا پورا اور بروقت معاوضہ دیا جائے
  7. اسلام ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری کی سخت ممانعت کرتا ہے، کیونکہ ذخیرہ اندوز اپنے ناجائز منافع کے لیے ریاست میں انتشار کا باعث بنتا ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے تابع زندگی گزارنے اور ایک اچھا باعمل مسلمان بننے کی توفیق دے۔