جمہوریت کا عالمی دن، پاکستان اور تصورِ ریاست مدینہ

چیف ایڈیٹر

رواں ماہ دنیا جمہوریت کا عالمی دن منارہی ہے اور پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے جمہوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان بنایا اور ان کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز جمہوری اقدار پر چلنے میں ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب محدود معنوں میں لیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید ملک بھر میں 11 یا 12 سو نمائندوں کے انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت اور اس عمل کو جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے۔ جمہوریت جمہور کا نظام ہے، جس نظام میں عام آدمی ضمیر کی آواز پر آواز نہ نکال سکے اور ریاست کے وسائل چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ جائیں، اعلیٰ عہدے اقربا پروری اور خرید و فروخت کی نظر ہو جائیں، اکثریت ایک کمرے کے گھر کو ترسے اور کچھ طبقات محلات کے مالک بن جائیں اور عام آدمی کو ضروریات زندگی سے محروم کر دیا جائے تو ایسے نظام کو جمہوریت نہیں کہتے۔ یہ اشرافیہ کا نظام ہے اور اس نظام کو تحفظ دینے کے لیے وہ ہر حد تک جاتے ہیں اور جائیں گے چونکہ یہ نظام ان کے مفادات کی تکمیل کا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ اس نظام سے اس حد تک چمٹے ہوئے ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اس لوٹ کھسوٹ کے نظام کے خلاف جب کلمہ حق بلند کیا گیا تو ماڈل ٹاؤن کو خون میں نہلا دیا گیا، لاشیں گرائی گئیں، عمر بھر کے لیے بے گناہ کارکنان کو معذور کر دیا گیا۔

اسی جمہوریت میں دہشت گردی اور انتہا پسندی نے پرپرزے نکالے اور یہ انتہا پسندی 70 ہزار سے زائد جانیں نگل گئی۔ اسی جمہوریت نے کرپشن کے لات ومنات پروان چڑھائے اور معاشی دہشت گرد پیدا کیے۔ اس جمہوریت نے عام آدمی کو خالص خوراک، صاف پانی اور خالص دوائی سے محروم کیا، منی لانڈرنگ کو ایک کاروبار کی شکل دی، سسیلین مافیا ز جنم دیے، گاڈ فادر پیدا کیے اور اداروں کے خلاف صف آراء ہونے والی پرائیویٹ ملیشیا پروان چڑھائی۔اس جمہوریت نے چند خاندانوں کو اتنا مضبوط کر دیا کہ وہ عدلیہ، فوج سمیت دیگر قومی اداروں سے لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور یہ تیاری محض الفاظ کی حد تک نہیں عملاً بھی ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ نظام عدل کی روح اور مرکز سپریم کورٹ پر مافیا نے حملہ کیا اور معزز ججز کو بھاگ کر جان بچانا پڑی اور پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس سنگین ترین جرم کے کسی ماسٹر مائنڈ کو سزا نہیں ملی۔جس نظام میں انصاف کے ادارے انصاف سے محروم ہو جائیں کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟

اس ظالم نظام کو ایک شخصیت نے چیلنج کیا اس کا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے، انہوں نے حقیقی جمہوریت کے قیام کی کنجی دھن، دھونس، دھاندلی سے پاک انتخابی نظام کو قرار دیا اور ان کی جدوجہد محض بیانات کی حد نہیں تھی۔ انہوں نے 23 دسمبر 2012ء کے دن مینار پاکستان کے سائے میں لاکھوں فرزندان پاکستان کے جلو میں آزاد، خودمختار اور آئینی الیکشن کمیشن کی تشکیل کا خاکہ پیش کیا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ ان کی جدوجہد آئین کے تابع ہے اور وہ آئین کے تناظر میں الیکشن کمیشن کے آئینی ادارے کی اصلاح اور فعالیت چاہتے ہیں اور پھر اپنے اس آئینی، انتخابی نظام کے خاکے میں حقیقی کے رنگ بھرنے کے لیے انہوں نے لاکھوں شہریوں کے ہمراہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کیا۔ اس لانگ مارچ کا بنیادی مقصد پاکستان کے عوام اور مقتدر اداروں کی توجہ غیر آئینی انتخابی نظام کی طرف مرکوز کرانا تھی اور پھر وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہوئے کہ اس وقت کی حکومت بمعہ وزیراعظم کابینہ اور اتحادیوں نے تحریری یقین دہانی کروائی کہ وہ تجویز کی گئی ترامیم پر قانون سازی کریں گے اورالیکشن کمیشن کو آزاد، خود مختار بنائیں گے۔ بعدازاں وہ اس پر عملدرآمد نہیں کر سکے تاہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قوم کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنے کے لیے جو کاوش کی اس میں وہ اخلاقی اعتبار سے فتح یاب ہوئے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کرپشن، اقرباپروری اور نااہلی کو حقیقی جمہوریت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے 2014ء کے انقلاب مارچ کے موقع پر ڈی چوک اسلام آباد میں انکشافات کیے کہ کس طرح پاکستان کے غریب عوام کی دولت کو لوٹ کر لانچوں، خصوصی پروازوں اور کیریئر کے ذریعے مختلف ملکوں کے کیسینوز تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے اسے ایک لیگل منی ڈیکلیئر کروا کر آف شور کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قومی دولت کی لوٹ مار کے حوالے سے جو حقائق بیان کیے تھے الحمدللہ آج پاکستان کی عدالتیں اس پر تصدیق کی مہریں ثبت کررہی ہیں اور ملکی خزانے کی لوٹ مار میں ملوث عناصر جیلوں میں بند ہیں۔ احتساب کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ریاست لوٹی گئی دولت کی ریکوری کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے یا کامیاب ہو سکے گی اس کا تعین آئندہ چند ماہ میں ہو سکے گا۔

آج بھی پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں ریاست کے وسائل اور انتظامات پر حقیقی معنوں میں ان کے عوام کا حق تسلیم کیا جائے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد بار مختلف مواقع پر کہا کہ ہمیں جمہوریت ہمارے دین اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک سیرت نے عطا کی ہے، ہمیں کوئی جمہوریت کا سبق نہ پڑھائے، بلاشبہ اسلام کا نظام حیات، نظام عدل و انصاف، نظام سیاست و ریاست فکری ساخت میں آج کی جمہوری تعریفوں سے بھی بلند تر ہے، یہ وہی اسلامی جمہوری نظام ہے جس میں بلاخوف ایک عام شخص خلیفہ وقت کے روبرو کھڑاہو کر ان سے سوال کرتا ہے کہ آپ کی پوری بات پھر سنیں گے پہلے یہ بتائیں کہ جو آپ نے کرتا زیب تن کررکھا ہے وہ کہاں سے آیا؟ اور پھر خلیفہ وقت اس کا جواب دیتا ہے۔ اسلام کا جمہوری نظام یہ ہے کہ نہ سوال کرنے والا کسی متوقع انتقامی کارروائی کے خوف کا شکار ہے اور نہ جواب دینے والا خود کو قانون، اقدار سے بالاتر سمجھتا ہے۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تصور پاکستان اور تصور جمہوریت کیا تھا، اس حوالے سے تاریخ پاکستان کے ایک معتبر اور معتمد محقق ڈاکٹر صفدر محمود کی ایک خوبصورت تحریر ذہنوں کو جلا بخشتی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’پاکستان میری محبت ‘‘ میں لکھتے ہیں: قائد اعظم نے تقسیم ہند سے قبل تقریباً 101 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا رہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے رہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیے۔ 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد بانی پاکستان کی تقریر فی البدیہہ تھی اور اس میں انہوں نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کیساتھ برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا، وہ دراصل میثاق مدینہ کی روح کے مطابق ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مذہبی اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق دئیے تھے۔قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ قانون کی حکمرانی، معاشی عدل اور انسانی مساوات کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام کابھی خاتمہ چاہتے تھے، وہ ہر قسم کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے، ان کا تصور پاکستان ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کا تھا جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر ہو یعنی جس میں نہ صرف غیر اسلامی قوانین اور رسومات کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے آئین، قانون اور ڈھانچے کی بنیاد بھی اسلامی اصولوں کی روح کی عکاسی کرے۔حقیقی جمہوریت قرآن و سنت میں بیان کیے گئے احکامات ربانی پر عمل پیرا ہونے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک سیرت سے رہنمائی لینے میں ہے۔