القرآن: فضائل اہلبیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 33)

یہ آیت کریمہ اہل بیت اطہار کے جمیع فضائل، رفعتوں، عظمتوں اور قدرو منزلت کے بیان کا منبع و مصدر اور سب سے اہم علمی اور قرآنی سرچشمہ ہے۔ یہ آیت کلمہ حصر ’’اِنَّمَا‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ ’’حصر‘‘ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ بات کی اہمیت اور تاکید کو بیان کرتا ہے۔ اس سے مقصود سننے اور پڑھنے والوں کو بھرپور طریقے سے متوجہ کرنا ہوتا ہے تاکہ جو بات بیان کی جارہی ہے، لوگ توجہ سے اسے سنیں، سمجھیں اور اپنے فکر و عقیدہ میں اس کو جگہ دیں۔

آیتِ کریمہ میں حصر اللہ کے ارادہ پر ہے۔ اللہ کے ارادے اور مخلوق کے ارادے میں فرق ہے۔ ارشاد فرمایا:

فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ.

’’وہ جو بھی ارادہ فرماتا ہے (اسے) خوب کر دینے والا ہے‘‘

(البروج، 85: 16)

اللہ جس چیز کا ارادہ فرماتا ہے وہ ہمارے ارادوں کی طرح نہیں ہوتا۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے پورا ہونے کے حوالے سے کئی سوال ہیں مثلاً: وہ ارادہ کب پورا ہوگا؟ پورا ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ کس قدر پورا ہوتا ہے اور کس قدر رہ جاتا ہے؟ کتنے زمانے کے بعد جاکر پورا ہوگا؟ یہ ہمارے ارادوں کا حال ہوتا ہے جبکہ اللہ کا ارادہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ کا ارادہ ازلی، ابدی اور قدیم ہے۔ وہ جس شے کا ارادہ فرماتا ہے، وہ شے ہوکر رہتی ہے۔ قرآن مجید نے یہ اصول بیان فرمادیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.

’’اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)‘‘۔

(یٰسین، 36: 82)

جب اللہ رب العزت یہ ارشاد فرمادیں کہ ’’میرا ارادہ تو یہی ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا اس نے ارادہ فرمایا ہے، اب اس ارادے کی تکمیل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی۔ یہ حتمی، قطعی اور یقینی ہے، یہ (بغیر کسی کمی و نقص کے) اکمل و احسن طریق سے پورا ہوکر رہے گا، اس پر Ifs اور Buts نہیں لگ سکتے اور نہ ہی بحث و تکرار اور مختلف قسم کے اصرار کی گنجائش رہتی ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اپنے جس ارادہ کا اظہار فرمایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ.

یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل بیت سے ہر قسم کا رجس دور کردینے اور انہیں اس سے پاک و صاف کردینے کا ارادہ کرلیا ہے۔

رجس سے مراد گناہ، شکوک و شبہات اور نقائص ہیں۔ جن سے اللہ رب العزت اہل بیت کو ہمیشہ کے لیے ایسا پاک اور صاف کردینا چاہتا ہے کہ ان چیزوں کی گنجائش بھی ان کی زندگیوں میں نہ رہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا:

’’وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا‘‘.

یعنی وہ اہل بیت کو ایسی کامل طہارت اور پاکیزگی عطا کردے جو نہ صرف عظیم اور کثیر ہو بلکہ بڑی عجیب بھی ہو۔ ایسی طہارت جو کبھی کسی نے دیکھی اور سنی نہ ہو۔ تَطْہِیْرًا کے لفظ میں تنوین مبالغہ کے لیے ہے کہ اللہ نے جو ارادہ کیا وہ بتمام و کمال پورا ہوگیا اور بطریقِ اعلیٰ و اولیٰ اللہ تعالیٰ نے اس کی تکمیل کردی۔

تطہیراً کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اہل بیت کو ایسی طہارت سے نوازا جو عرفِ عام کی پاکیزگی اور طہارت جیسی نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ بلند تر طہارت ہے۔ یہ طہارت ہماری سمجھ اور فہم و ادراک سے بھی بالا تر ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بیان کے بعد یُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے بڑی عظیم، نادر الوجود، عدیم المثال اورہمارے فہم و فراست سے بالا تر طہارت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت کو عطا فرمائی۔

اہل بیت سے کون مراد ہیں؟

اس آیت مبارکہ میں مذکور اہل بیت سے کون سی شخصیات مراد ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے اور اہل بیت کے تعین کے حوالے سے درج ذیل چار اقوال بیان کیے جاتے ہیں:

1۔ اہلِ بیت: آلِ علی، آل عقیل، آلِ جعفر، آلِ عباس

اہل بیت کے تعین کے حوالے سے ایک قول یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد وہ ہستیاں اور مبارک گھرانے ہیں جن پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ اور صدقات حرام قرار دیئے ہیں۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ مال سے نکلنے والا میل کچیل ہوتا ہے جو ان ہستیوں اور گھرانوں کے شایانِ شان نہیں اور ان کی عظمتوں کے منافی ہے۔ وہ چار گھرانے جو حضور علیہ السلام کے خانوادہ نبوت کا حصہ مانے جاتے ہیں، ان میں آل علی رضی اللہ عنہ، آل عقیل رضی اللہ عنہ، آل جعفر رضی اللہ عنہ اور آل عباس رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔ پہلے قول کے مطابق اہل بیت کا اطلاق ان چار گھرانوں کے افراد پر ہوگا۔ یہ قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام عینی رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیہ سے بھی مروی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کھیل رہے تھے، قریب ہی صدقہ و زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے کچھ کھجوریں پڑی تھیں ان میں سے کسی ایک نے کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ آقا علیہ السلام نے دیکھا تو اپنی انگلی مبارک ان کے منہ کے اندر ڈال کر اس کھجور کو نکال دیا اور فرمایا:

اما علمت ان آل محمد لا یاکلون صدقه.

’’تمہیں معلوم نہیں کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاسکتے‘‘۔

(صحیح بخاری، کتاب الزکوٰة، باب اخذ صدقة التمر، ج: 2، ص: 541، حدیث نمبر: 1414)

یہ حدیث مبارک اس بات کی تائید میں ہے کہ اہلِ بیت کا اطلاق ان مذکورہ گھرانوں پر ہوتا ہے۔ یہ معنی صحیح مسلم کی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے جسے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کا آخری حصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میں تمہیں اپنی اہل بیت کی محبت و مودت کے لیے اللہ کی یاد دلاتا ہوں کہ اللہ اور اس کے حکم کو میری اہل بیت کے بارے میں کبھی نہ بھولو‘‘۔

اس حدیث کے راوی حضرت حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آقا علیہ السلام نے اہل بیت کا اتنا عظیم ذکر فرمایا ہے، ان اہل بیت سے مراد کون ہیں؟ کیا آقا علیہ السلام کی ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں سے ہیں؟

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اس میں شک نہیں کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں سے ہیں:

ولکن اهل بیته من حرم صدقة.

’’مگر حقیقت میں اہل بیت سے مراد وہ سارے گھرانے اور افراد و نفوس ہیں جن پر صدقہ کو حرام کردیا گیا ہے۔‘‘

(شرح النووی علی صحیح مسلم، باب من فضائل علی بن ابی طالب، ص: 180)

پھر فرمایا:

وهم آل علی وآل عقیل وآل جعفر وآل عباس.

’’ یہ چار گھرانے آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔‘‘

2۔ اہل بیت: ازواجِ مطہرات اور آلِ پاک

اہلِ بیت کے تعین کے حوالے سے دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کی ذریت طیبہ (اولاد پاک) ہے۔

متفق علیہ حدیث ہے جسے حضرت ابو حمید الساعدی نے روایت کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:

اِنَّ اﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔

(السجده، 32: 56)

صحابہ کرام نے پوچھا:

یارسول الله کیف نصل علیک؟

یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قولو اللهم صل علی محمد وازواجه وذریته کما صلیت علی ابراهیم وعلی آل ابراهیم.

’’مجھ پر درود ایسے پڑھو: اے اللہ! محمد پر اور محمد کی ازواج مطہرات پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اور ذریت پر درود بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر درود بھیجا‘‘۔

(صحیح مسلم باب التسمیع والتحمید والتامین، ج: 1، ص: 306، حدیث: 407)

صحابہ کرام نے آلِ پاک پر درود و سلام پڑھنے کا نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑھنے کا پوچھا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر درود پڑھنے کے معنی میں اپنی ذات کے ساتھ اپنی ازواج اور اپنی اولاد کو بھی شامل فرمایا۔ اس وجہ سے نماز میں درود پڑھتے ہوئے ازواج اور ذریت کو بھی شامل کرتے ہیں، اس لیے کہ آل محمد میں ازواج بھی آجاتی ہے اور ذریت یعنی اولاد بھی آجاتی ہے۔

اس دوسرے قول کے مطابق آپ کی اولاد اور ازواج اہل بیت میں شامل ہوگئے اور بقایا گھرانے جیسے آل علی، آل جعفر، آل عقیل، آل عباس ہیں تو وہ اس قول میں شامل نہیں۔ گویا یہاں اہل بیت سے مراد صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد یعنی بنو فاطمہ شامل ہیں۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد و ذریت سیدہ کائنات سے چلی ہے، اس لیے بنو فاطمہ اس دوسرے قول کے مطابق اہل بیت میں آجاتے ہیں۔

3۔ اہل بیت: صرف ازواجِ مطہرات

اہل بیت کے تعین کے حوالے سے تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت صرف ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی۔ اس کے راوی حضرت عکرمہ ہیں جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔ اس قول کو ائمہ تفسیر و حدیث اور علماء امت نے قبول نہیں کیا کیونکہ یہ قول خارجی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت عکرمہ بازار و گلی کوچوں میں جاکر آواز بلند کرتے تھے کہ جو تم سمجھتے ہو (یعنی اہل بیت سے مراد حضرت علی، حضرت فاطمہ، حسنین کریمین) اس سے مراد وہ نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد صرف ازواج مطہرات ہیں۔ یہ قول مردود ہے، اسے اکابرین امت نے قبول نہیں کیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عکرمہ بربری تھے اور ان کا تعلق مراکو سے تھا، مراکو میں قیام کے دوران وہاں کے نجدہ الحروری نامی شخص جو خارجیوں کا بڑا لیڈر تھا، آپ اس کی صحبت میں 6 مہینے رہے اور اس کی خارجی فکر سے متاثر ہوگئے جس کے نتیجے میں ان کے بعض امور میں خارجی فکر کا غلبہ ہوگیا۔ خارجی فکر کی نمایاں خصوصیات میں بغضِ اہلِ بیت بھی شامل ہے۔ خارجیوں کے دل اہلِ بیت کی محبت سے خالی ہوتے ہیں اور یہ لوگ اہل بیت کی عظمت و رفعت اور ان کی شان کے قائل نہیں ہوتے۔ حضرت عکرمہ ان سے متاثر ہوئے تو اہل بیت کی شان میں نازل ہونے والی آیات و احادیث میں تاویل کرلیتے تھے۔ لہٰذا جس آیت میں اہل بیت کا ذکر آجائے اور اس کی تفسیر میں ان کی وہ تاویل آئے جو اہل بیت کی شان کو کم کرنے والی ہو تو اس میں ان کا قول قبول نہیں کیا جاتا۔ باقی امور میں یہ ثقہ اور معتبر ہیں، البتہ اہل بیت اطہار کے حوالے سے خارجی فکر سے متاثران کی تاویلات والے اقوال کو قبول نہیں کیا گیا۔

4۔ اہل بیت: صرف اہل الکِسَاء

اس قول کے مطابق اہلِ بیت سے مراد صرف اصحاب الکِسَاء ہیں۔ یعنی آقا علیہ السلام نے جن چار ہستیوں کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا تھا کہ یہ میری اہل بیت ہیں، اس قول کے مطابق اہل بیت سے مراد صرف یہی ہیں۔ ان کے نظریے میں صرف پنجتن یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک، سیدنا مولا علیٰ، سیدہ فاطمہ، امام حسن، امام حسین رضی اللہ عنہم ہی اہل بیت ہیں۔ یہ شیعہ حضرات کا قول ہے۔

یہ قول بھی تیسرے قول کی طرح انتہا پر ہے۔ تیسرے قول کو خوارج نے اپنایا ہے اور چوتھے قول کو اہل تشیع نے اپنایا ہے اور یہ دونوں اقوال مردود ہیں۔ تیسرے قول والوں نے اہل الکِسَاء کو اہل بیت سے نکال دیا اور اس قول کے قائلین نے ازواج مطہرات کو خارج کردیا۔

اس قول کو مردود کہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم پنجتن کو نہیں مانتے۔ انہیں ہم مانتے ہیں اور ہم پنجتن کہنا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ پنجتن کا لفظ حدیث پاک سے ثابت ہے اور یہ پنجتن اس آیت تطہیر میں شامل ہیں۔ اس وقت میں جو نفی کررہا ہوں وہ اس بات کی ہے کہ آیت کریمہ میں لفظ اہل بیت سے مراد صرف پنجتن نہیں ہیں۔

قولِ راجح: اہل بیت سے مراد ازواجِ مطہرات اور پنجتن ہیں

ان چار اقوال کا مطالعہ کرنے کے بعد اب آیئے ان میں سے قولِ راجح کو تلاش کرتے ہیں:

سورہ احزاب کی مذکورہ آیت نمبر33 جس میں اہل بیت کا ذکر اور ان کی شانِ تطہیر آئی ہے، اس آیت میں مذکور اہل بیت سے مراد پنجتن بھی ہیں اور ازواج مطہرات بھی ہیں۔ ان دونوں کو جمع کردیں تو اہل بیت کا معنی مکمل ہوجاتا ہے۔ اہل بیت سے صرف ازواج مطہرات مراد لینا اور پنجتن کو نکال دینا بھی درست نہیں ہے۔ اسی طرح اہل بیت سے صرف پنجتن مراد لینا اور ازواج مطہرات کو نکال دینا بھی درست نہیں۔ ایسا کرنا خود قرآن مجید کے سیاق و سباق کے خلاف ہے۔ صحیح اور راجح قول یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات بھی ہیں اور پنجتن بھی ہیں۔

آیتِ تطہیر کا مصداق ازواجِ مطہرات کس طرح ہیں؟

آیت تطہیر (الاحزاب: 33) کے مصداق ازواج مطہرات بھی ہیں، اس لیے کہ سورۃ احزاب کی تین آیات (32، 33،34) نازل ہی ازواج مطہرات کے بارے میں ہوئی ہیں۔ ان تینوں آیات کا سبب نزول امہات المومنین ہیں اور سبب نزول کبھی غایتِ نزول سے خارج نہیں ہوتا۔ جس کے لیے آیت نازل ہوئی ہو وہ آیت کے مقصود اور معنی سے خارج نہیں ہوتا بلکہ سبب نزول معنیٔ آیت کا حصہ ہوتا ہے کیونکہ اس کے لیے ہی آیت نازل ہوئی تھی۔

سوال یہ ہے کہ حدیث مبارک میں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ:

اَللّٰهُمَّ هٰؤلآءِ اَهْلُ بَیْتِیْ.

’’اے اللہ یہ اہل بیت ہیں۔‘‘

جبکہ ازواج مطہرات کی طرف تو اس طرح کی کوئی صراحت نہیں ملتی پھر ازواج مطہرات اہل بیت میں کیسے شامل ہوگئیں؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ زوجہ تو ہوتی ہی گھر والی ہے۔ ان پر تو سوال ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ کیسے اہل بیت میں شامل ہوگئیں؟ اہل بیت کا مطلب ہیـ ’’گھر والے‘‘۔ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ’’میری گھر والی نے یہ کہا‘‘ یعنی بیوی کو کہتے ہی گھر والی ہیں اور اسی گھر والی کا معنی ہے اہل بیت۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے، ارشاد فرمایا:

یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ.

’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو۔‘‘

(الاحزاب، 33: 32)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خطاب ہی نبی کی بیویوں سے کیا ہے، اس لیے کوئی ان کے اہل بیت سے ہونے کا انکار نہیں کرسکتا کیونکہ قرآن مجید کی ان آیات کا نزول بھی ان کے لیے ہوا اور خطاب بھی ان سے ہوا۔ لہذا اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ ازواج مطہرات اہل بیت ہیں۔

آیتِ تطہیر کا مصداق پنجتن کس طرح ہیں؟

ازواج مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کی وضاحت کے بعد اب سوال ہے کہ پنجتن اہل بیت میں کیسے شامل ہوئے؟ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تو شہزادی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما شہزادے ہیں، اس لیے اہل بیت میں شامل ہوگئے مگر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تو کزن اور داماد ہیں، وہ اہل بیت میں کیسے ہوئے؟

یاد رکھیں! یہ ہستیاں بھی قرآن مجید کی اسی آیت کریمہ آیتِ تطہیر سے ہی اہل بیت قرار پاتی ہیں۔ یہاں اس مغالطہ کا بھی ازالہ کردوں کہ بعض اوقات لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا تو قرآن مجید سے ثابت ہے، چار تن (سیدنا علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسنین کریمینl) کیسے اہل بیت ہوگئے؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے کہ یہ پنجتن اہل بیت ہیں۔

یاد رکھیں! حدیث سے ان کا اہل بیت ہونا بھی ثابت ہے مگر یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اس سے پہلے قرآن مجید ہی کے ذریعے ان کا اہل بیت کا حصہ ہونا ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت کی اصطلاح کو Extend (وسیع) کرکے اپنے امر سے ان چار شخصیات کو اہلِ بیت میں شامل نہیں کیا۔ بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ان چار ہستیوں کو اہل بیت میں شامل کرسکتے ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و اختیار کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

(النجم، 53: 3-4)

آپ جو کچھ شامل کرلیں تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ہوگا۔ مگر یاد رکھیں کہ اس طریق پر آقا علیہ السلام نے اہل بیت میں پنجتن کو اضافتاً شامل نہیں فرمایا بلکہ وہ بھی از روئے قرآن اہل بیت میں اصلاً شامل ہیں۔

لفظ اہل بیت سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 اور 34 دونوں میں نہیں آیا۔ ان دونوں آیات میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے، لفظ اہل بیت اور یُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا کی شان کا بیان آیت نمبر33کا مضمون ہے۔ آیت 32 اور 34 میں ازواج مطہرات کی فضیلت کا ذکر، دوسری عورتوں کے ساتھ ان کی عدم مثلیت کا ذکر کہ یہ دوسری خواتین جیسی نہیں ہیں، تقویٰ کا حکم آیا ہے، ترغیب و ترہیب آئی ہے، گفتگو کے طریقے، انداز اور احکام آئے ہیں اور اللہ کی آیات کی تلاوت اور یاد کرنے کی بات آئی ہے۔ ان سارے احکامات میں مخاطب ازواج مطہرات ہیں۔ آیت نمبر 33 جو آیت تطہیر ہے، اس کا سیاق و سباق اس امر پر غماز ہے کہ چونکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد خطاب ازواج مطہرات سے ہی ہے اس لیے آیت تطہیر کی مخاطب ازواج مطہرات بھی ہیں۔

یاد رکھیں! اس آیت کا خطاب صرف ازواج مطہرات سے نہیں بلکہ اس خطاب میں خود اللہ رب العزت نے ازواج مطہرات کے ساتھ مولیٰ علی، سیدہ فاطمہ، امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہم سب کو شریک فرمایا ہے۔ جس طرح اہل بیت میں ازواج مطہرات شریک ہوگئیں اسی طرح پنجتن کا بھی اہل بیت کا حصہ ہونا سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر33 (آیتِ تطہیر) کے اصل میں شامل ہے۔ آقا علیہ السلام نے اپنے فرمان کے ذریعے بعد میں ان کو شامل نہیں فرمایا۔ احادیث میں اہل بیت کے حوالے سے جو کچھ ارشاد فرمایا، وہ اس آیت کی تفسیر، تائید اور وضاحت میں فرمایا تاکہ کسی کو شک و شبہ نہ رہے۔ وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آیات کا نزول ازواج مطہرات کے لیے آرہا ہے لہٰذا کسی کو مغالطہ نہ ہو کہ اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات شامل ہیں۔ پنجتن اصل میں (قرآن کی رو سے) شامل ہیں، احادیث کی رو سے درجہ اضافی میں شامل نہیں ہیں۔

پنجتن بھی آیتِ تطہیر میں اصلاً شامل ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے ان آیاتِ کریمہ کے اسلوب میں غور کرنا ہوگا۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 32 میں خطاب کے سارے صیغے مونث کے ہیں، ایک صیغہ بھی مرد کے لیے نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا:

یٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.

’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا‘‘۔

(الاحزاب، 32: 32)

اس آیت میں لَسْتُنَّ، اتَّقَیْتُنَّ، تَخْضَعْنَ، قُلْنَ یہ سارے مونث کے صیغے ہیں۔

اسی طرح آیت نمبر 34 میں بھی تمام صیغے مونث کے استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ ﷲِ وَالْحِکْمَةِط اِنَّ ﷲَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا.

’’اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) سنت و حکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھا کرو، بے شک اللہ (اپنے اولیاء کے لیے) صاحبِ لُطف (اور ساری مخلوق کے لیے) خبردار ہے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 34)

اس آیت میں بھی وَاذْکُرْنَ اور بُیُوْتِکُنَّ مونث کے صیغے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سارے خطاب صرف ازواج مطہرات کے لیے تھے۔ اب علمی اعتبار سے بڑا دلچسپ نکتہ ہے کہ آیت نمبر32 اور آیت نمبر 34 میں بھی ازواج مطہرات سے خطاب ہے اور ان دونوں آیات کے درمیان میں آیت تطہیر ہے۔ آیت تطہیر آیت نمبر 32 بھی نہیں اور آیت نمبر34 بھی نہیں ہے بلکہ آیت تطہیر آیت نمبر33 کا عنوان ہے۔ اس آیت کے سیاق و سباق میں ازواج کو خطاب چل رہا تھا اور مونث کے صیغے استعمال ہورہے تھے مگر اس آیت نمبر33 یعنی آیت تطہیر میں خطاب یک لخت بدل گیا اور اب مونث کے بجائے مذکر کا صیغہ آگیا۔ ارشاد فرمایا:

لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.

اس آیت میں ’’عَنْکُمُ‘‘ بھی مذکر کا صیغہ ہے اور یُطَهِرَکُمْ بھی مذکر کا صیغہ ہے۔ گویا اس سے پہلے بھی مونث کے صیغے استعمال فرمائے اور اس کے بعد بھی مونث کے صیغے استعمال فرمائے، درمیان میں اس مقام پر آیت تطہیر میں مونث کا صیغہ ہٹا کر مذکر کا صیغہ لگادیا۔ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ اس جگہ پر خطاب صرف ازواج مطہرات کو نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر مخاطب صرف ازواج مطہرات ہوتیں تو مونث کا صیغہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیذہب عنکن اور ویطہرکن کہا جاتا جیسے پہلے مونث صیغے استعمال کیے۔

یاد رکھیں! ظاہری طور پر جب مذکر کا صیغہ آئے تو اس میں عورتیں شامل نہیں ہوتیں، صرف مرد شامل ہوتے ہیں لیکن عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ عورتیں اور مرد اکٹھے ہوں تو غلبہ ذکور کی وجہ سے وہاں مذکر کا صیغہ آجاتا ہے۔ مخاطب صرف عورتیں ہوں تو مونث کا صیغہ آتا ہے لیکن مذکر کا صیغہ دو صورتوں میں آتا ہے، جب صرف مرد مخاطب ہوں تب مذکر کا صیغہ آئے گا اور جب مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں تو پھر بھی مذکر کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے مخاطب کیا جاتا ہے۔

مذکورہ آیت تطہیر سے اب مونث خارج نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ آیت کے آگے پیچھے ازواج مطہرات کے لیے مونث کا صیغہ آرہا ہے، لہٰذا جب مذکر کا صیغہ درمیان میں آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں آکر کچھ مرد بھی اس خطاب میں شامل ہوگئے یعنی وہ لوگ جو آیت نمبر 32 اور آیت نمبر 34 میں نہیں تھے، وہ آیت نمبر 33 میں شامل ہوگئے۔ پس پنجتن کا اہل بیت میں شامل ہونا درجہ اصل میں ہے اور اسے اللہ نے خود اہل بیت میں شامل کیا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں شامل نہیں کیا۔ آقا علیہ السلام نے اس دائرے کو نہیں بڑھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، سیدہ فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ عنہا، امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو شامل کیا۔ پس مذکر کا صیغہ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات میں پنجتن کا اضافہ کیا۔

یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ پنجتن کا اضافہ ہوا تب اہلِ بیت بنے اور جب تک پنجتن اس میں شامل نہیں تھے، تب تک ازواج مطہرات تھیں، نساء النبی تھیں، وہ امہات المومنین تھیں، ان کے لیے اہل بیت کا صیغہ نہیں تھا، اہلِ بیت کا ٹائٹل اس وقت ملا جب ازواج مطہرات کے ذکر کے ساتھ پنجتن بھی شامل ہوگئے۔ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ کسی اور مقام پر بھی اگر ازواج مطہرات کا ذکر آیا ہے تو وہاں بھی اہلِ بیت نہیں کہا گیا بلکہ صرف ازواج اور امہات المومنین کہا گیا۔ اہل بیت کا ٹائٹل پورے قرآن میں فقط اسی جگہ استعمال ہوا ہے اور یہاں یہ ٹائٹل ازواج مطہرات کے ساتھ پنجتن کو شامل کرکے استعمال کیا گیا ہے۔

’اَللّٰهُمَّ هٰوُلآءِ اَهْلُ بَیْتِیْ‘ کی وضاحت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث مبارکہ میں حضرت علی، حضرت فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم ان چار نفوس قدسیہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

اللهم هولاء اهل بیتی.

’’اے اللہ یہ میری اہل بیت ہے۔‘‘

(المعجم الاوسط، باب من اسمه علی، ج: 4، ص: 236)

اس حدیث کے دو غلط معنی لیے گئے:

  1. بعض لوگوں نے یہ معنٰی لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ کے ذریعے ان چار نفوس کو اہل بیت میں شامل کیا۔ یہ معنٰی غلط ہے، اس لیے کہ پنجتن کا اہلِ بیت میں شامل ہونا بھی قرآن کی نص سے ثابت ہے۔
  2. کچھ لوگوں نے یہ معنٰی مراد لیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے مراد صرف پنجتن ہیں۔ اس معنٰی کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کو اہل بیت سے خارج کرنے کا سوچا گیا۔ یہ معنٰی بھی غلط ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو تو آیت کی شانِ نزول کے ذریعے ہی اہل بیت میں شامل فرماچکا ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے شامل کیا، ان کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خارج تو نہیں کرسکتے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھولاء اہل بیتی فرماکر صرف چار نفوس ہی کی طرف اشارہ کیوں فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ آیت مبارکہ میں ان کے اسماء مبارکہ نہیں آئے تھے تو حضور نے تصریح کردی کہ آیت مبارک میں اللہ نے جن کو میری اہل بیت میں شامل کیا ہے، ان میں سے ازواج مطہرات کو تو ہر کوئی جانتا ہے، اس لیے کہ ان کے بارے تو آیات اتریں، آیت تطہیر کی شکل میں اہل بیت کا عنوان دیا ہے مگر نام لے کر بتانے کا مقصود یہ تھا تاکہ پتہ چل جائے کہ ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ اور کون کون اہل بیت میں شامل ہے۔

صحیح مسلم کتاب الفضائل صحابہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر کالی کملی اوڑھی ہوئی تھی، اس میں اونٹوں کے کجاووں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ اتنے میں حسن مجتبیٰ آگئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کملی اٹھاکر ان کو اندر داخل کرلیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی کملی کے اندر داخل کرلیا۔ پھر سیدہ فاطمۃ الزہراء تشریف لائیں تو ان کو بھی کملی کے اندر داخل کرلیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو ان کو بھی کملی کے اندر داخل کرلیا اور ان چاروں کو داخل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت تطہیر کی تلاوت کی کہ

اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 33)

عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے کہ ایک کملی اتنی بڑی ہو کہ پہلے ہی ایک ہستی بیٹھی ہو، پھر چار اور بھی اس میں داخل کیے جائیں، یہ عام معمول نہیں ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اس آیت کی تفسیر بتانا چاہ رہے تھے۔

قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اُس میں کسی کا نام نہیں لیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کسی کا نام بھی نہیں لیتا بس گنتی کے چند پیغمبروں کے نام لیے اور جب کفار و مشرکین کو رد کیا تو سوائے ابولہب کے کسی کا نام نہیں لیا۔ قرآن ازواج مطہرات، صحابہ اور اہل بیت میں سے کسی کانام نہیں لیتا۔ اب آیت تطہیر کے ذیل میں اجتماعی طور پر نساء النبی آگیا تھا (اے نبی کی بیویو) تو خاص ہوگیا اور مغالطہ نہ رہا کہ ازواج مطہرات کی بات ہوئی ہے۔ اسلوب بیان میں عترت کے بھی اہل بیت میں داخل ہونے کی صراحت ہے مگر نام موجود نہیں۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نام لینا چاہ رہے ہیں، اس لیے ایک ایک کو پکڑ کر اپنی کملی میں داخل کیا تاکہ ساری دنیا دیکھ لے اور کسی کو شک و شبہ نہ رہے کہ آیتِ تطہیر میں مذکور اہلِ بیت میں یہ شخصیات بھی شامل ہیں۔

قرآن و حدیث سے پنجتن کا تصور

لوگ کہتے ہیں کہ پنجتن تو شیعوں کا تصور ہے، آپ کیوں ان کے نام لیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک کملی میں اِن پانچ تنوں کے اکٹھا ہونے کے منظر کو بیان کیا ہے۔

قرآن مجید کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں بھی پنجتن کا ذکر آیا ہے۔ جب نصاریٰ کا وفد مباہلہ کے لیے مدینہ آیا تو یہ آیت نازل ہوئی جسے آیتِ مباہلہ کہتے ہیں، ارشاد فرمایا:

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ.

’’آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں‘‘۔

(آل عمرن، 3: 61)

جب یہ آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو ’’نِسَآئَنَا‘‘ کی جگہ بلالیا، حسن و حسین کو اَبْنَائَنَا کی جگہ پر بلالیا اور خود اور حضرت علی کو اَنْفُسَنَا کی جگہ پر بلالیا۔ اس طرح یہ پانچ تن اکٹھے ہوئے۔ ان کو ساتھ لیا اور مباہلہ کے لیے تشریف لے آئے۔ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ نے پانچ تن ثابت کردیئے۔ تن مصطفی، تن علی المرتضیٰ، تن فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، تن حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ، تن حسین ابن المرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔

پس قرآن مجید نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں پنجتن کو اور ازواج مطہرات کوملاکر اہل بیت ڈکلیئر کردیا تھا اور چونکہ نام معلوم نہ تھے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان چاروں کو بلاکر اپنی کملی میں بٹھا کر اپنے دست اقدس سے اشارہ کرکے بتادیا کہ یہ میری اہل بیت ہیں تاکہ کسی کو اس بات کے تعین میں مغالطہ، شبہ اور اعتراض نہ رہے اور کل کوئی اس چیز پر اصرار نہ کرے کہ اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات شامل ہیں بلکہ اُسے معلوم ہوجائے کہ ازواج مطہرات اور پنجتن مل کر اہل بیت قرار پاتے ہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو 6 ماہ تک (بعض روایتوں میں 7 اور 8 ماہ کا ذکر بھی ہے) آقا علیہ السلام کا معمول تھا کہ ہر روز جب نماز فجر کے لیے نکلتے تو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر آوازدیتے:

الصلوة یا اهل البیت.

’’ اے اہل بیت نماز کا وقت ہوگیا‘‘۔

اور پھر یہ آیت پڑھتے:

اِنَّمَا یُرِیْدُ ﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا.

جمیع کتب تفسیر و احادیث میں ہے کہ:

نزلت فی خمسة فی رسول الله و علی و فاطمة و الحسن و الحسین.

’’یہ آیت پانچ تن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں نازل ہوئی‘‘۔

(المعجم الاوسط، باب من اسمه الحسن، ج: 3، ص: 380)

یہی وجہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے محبت و مودت کی حد درجہ تلقین فرمائی۔ محبت اہل بیت عمر بھر رہنی چاہئے، اس لیے کہ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی کا حصہ ہے مگر بطورِ خاص اس محبت کے اظہار کا موسم محرم الحرام کا مہینہ ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار تو ہم پورا سال کرتے رہتے ہیں مگر ماہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بطور خاص اظہارِ محبت کرتے ہیں۔ اس لیے جب اہل بیت سے محبت کے اظہار کا یہ مہینہ آئے تو اس کا بالخصوص اہتمام کیا کریں۔ اہل بیت کی محبت، عترت و ذریت پاک کی محبت بالخصوص حسنین کریمین کی محبت نہ صرف ہمارے ایمان کاحصہ ہے بلکہ عینِ ایمان ہے۔