مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ بالعموم اور بالخصوص نوجوان نسل ایمان کی تاثیر سے کیوں محروم ہے؟

جواب: آج کے دور میں ایمان کی تاثیر سے دوری کی بنیادی وجہ نوجوان نسل کا ایمان کے معنی و مفہوم سے نا واقف ہونا اور بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کا ایمان کی حفاظت، اس کے تقاضے اور شرائط کو پورا نہ کرنا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام دشمن طاقتوں کی نظریاتی، ثقافتی اور جذباتی سہ جہتی یلغار بھی امت مسلمہ کی بالعموم اور نوجوان نسل کی بالخصوص ایمان کی تاثیر سے محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ کیونکہ نظریہ کسی بھی قوم، مذہب، تحریک یا تنظیم کے لئے اساسی درجہ رکھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقوام نظریے کی بنیاد پر بنتی اور قائم رہتی ہیں۔ جونہی نظریاتی اساس کمزور ہوئی، زوال و انتشار قوموں کا مقدر بن جاتا ہے۔

اس کی ایک سادہ اور عام فہم مثال یہ ہے کہ ایک درخت کی نشوونما کا دارومدار اس کی جڑ پر ہوتا ہے۔ جڑ ہی درخت کی زندگی اور تروتازگی کا ذریعہ ہے، اگر جڑ میں نقص واقع ہو جائے تو درخت مرجھانا شروع ہو جائے گا اور پھر رفتہ رفتہ اس کے پتے، ٹہنیاں، پھل، پھول جس حالت میں ہوں گے بوسیدہ ہو کر زمین پر گر پڑیں گے۔ اگر جڑ مضبوط ہو تو پودا توانا اور پھلدار ہوگا، اس سے خوراک حاصل کرنا دوسروں کے لئے حیات بخشی کا سامان بنے گا۔

بات ساری تاثیر کی ہے۔ جس طرح درخت میں ساری تاثیر جڑ اور تنے کی ہوتی ہے، تاثیر اچھی ہو گی تو درخت پھل، پھول بھی اچھے دے گا اور اگر تاثیر میں نقص واقع ہو جائے تو درخت خشک ہو جائے گا، یہاں تک کہ لوگ اس کو کاٹ کر ختم کر دیں گے۔ اسی طرح نظریہ بھی قوموں کے ثقافتی، تہذیبی، مذہبی اور معاشرتی بقا اور سلامتی کی علامت ہوتا ہے۔

لہٰذا اگر موجودہ دور میں امت مسلمہ ایمان کی حلاوت پانا اور بحیثیت مجموعی ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے بنیادی نظریات اپنا کر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا وگرنہ گمراہی و پستی اور ذلت و غلامی اس کا مقدر بن جائے گی۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :

إِنَّ اللّهَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ.

بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔

(الرعد، 13: 11)

سوال: اللہ تعالیٰ کے حکم اور رضا میں کیا فرق ہے؟

جواب: اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ صادر کیا ہے، وہ احکام (حکم کی جمع) ہیں۔ جیسے ارشاد ہے:

1. یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّهَ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِ مِنکُمْ.

’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق)صاحبانِ اَمر کی‘‘۔

(النساء، 4: 59)

2. یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُواْ لِلّهِ إِن کُنتُمْ إِیَّاهُ تَعْبُدُونَ.

’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو‘‘۔

(البقرة، 2: 172)

3. یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ.

’’اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘۔

(آل عمران، 3: 130)

یہ احکامِ الٰہی کی چند ایک مثالیں ہیں۔ قرآنِ مجید میں بے شمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رضا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام، صریح اور واضح انداز میں بیان کر دیے ہیں اور انسان کو بتا دیا ہے کہ اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے میں راضی ہوتا ہوں، مگر انسان کو ان اوامر و نواہی کے بجالانے پر مجبور نہیں کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّکُمْ فَمَن شَاءَ فَلْیُؤْمِن وَمَن شَاء َ فَلْیَکْفُرْ.

اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔

(الکهف، 18: 29)

اور فرمایا:

وَهَدَیْنَاهُ النَّجْدَیْنِO

اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔

(البلد، 90: 10)

اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں پر انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بخشی ہے، ان پر اسے اجر دینے اور مواخذہ کرنے کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطاکردہ ہے اور اس کا استعمال اگر انسان، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرے تو اس سے رضائے الٰہی عطا ہوتی ہے۔ رضا، اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کی جانب سے ہوتی ہے قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رضوان کا لفظ مخصوص کیا ہے۔ بندے کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے راضی ہو، دین مبین اسلام سے راضی ہو، اللہ کے اس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ر اضی ہو جنہوں نے یہ دین مبین ہم تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے یقین رکھے اور اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرے۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اپنا نصب العین بنائے اور اس کی خاطر پیہم کوشش کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔

سوال: ایمان کا ادنیٰ و اعلیٰ درجہ کیا ہے؟

جواب: حدیث جبریل میں احسان کے مفہوم میں ایمان کے ادنیٰ و اعلیٰ درجے کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ جب جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ احسان کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَنْ تَعْبُدَ اﷲِ کَأنَّکَ تَرَاه، فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَاِنَّه یَرَاکَ.

’’(ایمان کا اعلیٰ درجہ یعنی احسان یہ ہے) کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اور (ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ) اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو (یہ یقین رکھو کہ)وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، باب سوال جبرئیل علیه السلام، 1: 27، رقم: 50)

حدیث جبریل میں مذکور لفظ عبادت سے اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ عبادت اور بندگی سے مراد وہی امور ہیں جنہیں عرف عام میں عبادات سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اور انہی عبادات کا بجا لانا انسانی زندگی کا نصب العین ہے تو یہ تصور غلط ہے۔ قرآنی تصورِ عبادت اور اسلامی مفہوم بِرّ اس قدر وسیع ہے کہ یہ انسان کی فکری اور عملی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ اسلام کا پیش کردہ تصورِ بندگی انسانی زندگی کو درج ذیل خصائص کا جامع دیکھنا چاہتا ہے:

  1. صحتِ عقائد: انسان کا عقیدہ صحیح ہونا چاہے جس میں اللہ تعالیٰ، آخرت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر ایمان لانا ضروری ہے۔
  2. محبتِ الٰہی: اللہ سے ٹوٹ ٹوٹ کر محبت کرنی چاہیے جس کا ثبوت خلق خدا کے حق میں نفع بخشی، فیض رسانی اور مالی ایثار و قربانی کے ذریعے فراہم کیا جائے۔
  3. مالی ایثار: اللہ تعالیٰ نے جو رزق عطا کیا ہے اس سے حاصل کردہ وسائلِ دولت، مستحق رشتہ داروں، یتامیٰ و مساکین، غرباء و فقراء اور غلامی و محکومی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کی آزادی، معاشی بحالی اور آسودگی پر خرچ کیے جائیں۔
  4. صحتِ اعمال: تمام احکام شریعت یعنی نماز، روزہ وغیرہ ارکان اسلام کی پابندی کی جائے۔
  5. ایفائے عہد: ضروری ہے کہ انسان جو عہد اور فیصلہ کرے عزم و ہمت کے ساتھ اس پر ثابت قدم رہے۔
  6. صبر و تحمل: چاہے کتنے ہی مصائب و شدائد اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے انسان کو چاہیے کہ تمام غیر معمولی حالات میں بھی صبر و تحمل اور عزم و استقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔

مذکورہ بالا خصائص، اجزائے دین کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان تمام اجزاء کا مجموعہ نیکی اور اصل عبادت ہے۔ گویا اصل عبادت اور بندگی ایک اکائی کا نام ہے اور زندگی کے جملہ معاملات مذہبی ہوں یا دنیوی اس کُل کے مختلف اجزاء ہیں۔ جس طرح کسی اکائی سے کوئی ایک جز اگر الگ ہو جائے تو اسے کُل کا نام نہیں دیا جا سکتا اسی طرح عبادت الٰہیہ پر محیط زندگی کے کسی ایک پہلو کو دوسروں سے لا تعلق کر کے کامل بندگی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

لہٰذا ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان پوری زندگی اس طرح بسر کرے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اس طرح بسر کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔

ایمان کے اعلیٰ اور ادنیٰ مدراج کو درج ذیل حدیث مبارکہ بھی واضح کرتی ہے، جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ رَأی مِنْکُم مُنکَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِه، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِه، وَ ذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان.

’’تم میں سے جو شخص خلافِ شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا ردّ کرے، اور اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، باب بیان کون النهی عن المنکر من الایمان، 1: 69، رقم: 49)

مذکورہ حدیث مبارکہ میں ایمان کے درجات کو بڑے ہی احسن پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

سوال: کیا سال مکمل ہونے سے پہلے بھی زکٰوۃ ادا کی جاسکتی ہے؟

جواب: اگر کوئی شخص سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ کی پیشگی ادائیگی کرنا چاہے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ:

أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی تَعْجِیلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِی ذَلِکَ.

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 104، رقم: 822)

امام مالک رحمہ اﷲنے پیشگی زکوٰۃ دینے سے اختلاف کیا ہے لیکن احناف نے اس حدیث مبارکہ کو جواز کی دلیل بنایا ہے:

وَلَنَا مَا رُوِیَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ الْعَبَّاسِ زَکَاةَ سَنَتَیْنِ وَأَدْنَی دَرَجَاتِ فِعْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْجَوَازُ.

’’ہماری دلیل یہ روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دوسال کی زکوٰۃ پیشگی لی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کا کم ازکم درجہ جواز کا ہے‘‘۔

(علاء الدین الکاسانی، بدائع الصنائع، 2: 51)

اسی طرح امام شمس الدین سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَتَعْجِیلُ الزَّکَاةِ عَنْ الْمَالِ الْکَامِلِ الْمَوْجُودِ فِی مِلْکِهِ مِنْ سَائِمَةٍ أَوْ غَیْرِهَا جَائِزٌ عَنْ سَنَةٍ أَوْ سَنَتَیْنِ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذَلِکَ.

’’تمام مال جو کسی کی ملکیت میں ہو خواہ مویشی ہوں یا کوئی اور مال ہو، اس میں سے پیشگی زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے، چاہے ایک سال کی ، دوسالوں کی یا زیادہ سالوں کی ہو‘‘۔

(سرخسی، المبسوط، 2: 176)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ایک سال کی پیشگی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔