حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اطاعت و بندگی کا حق ادا کر دیا

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے انسان کو چار تعلقات کے ساتھ اس کائنات میں پیدا فرمایا اور پھر ان تعلقات کو سازگار رکھنے کے لیے ان سے متعلق کچھ حقوق تفویض کیے اور ان کی بجا آوری انسان پر لازم قرار دے دی جس کے نتیجے میں انسانِ کامل کا سفر طے ہوتا ہے۔ وہ چار تعلقات درج ذیل ہیں:

  1. پہلا تعلق انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔
  2. دوسرا تعلق انسان کا اپنی ذات کے ساتھ ہے۔
  3. تیسرا تعلق انسان کا اس کائنات میں دوسرے انسانوں کے ساتھ ہے۔
  4. چوتھا تعلق انسان کا اس کائنات کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائی۔

ان چاروں تعلقات اور ان کے حقوق کی بجا آوری میں انسان عمر گزارتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایک عام انسان سے اٹھا کر انسانِ کامل یا مردِ مرتضیٰ کے مقام پر فائز فرمادیتا ہے۔ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام نے یقینا ان چاروں تعلقات اور ان سے متعلق حقوق کی بجا آوری میں پوری عمر صرف کی لیکن معرکہ کربلا بالخصوص وہ واقعہ ہے کہ جہاں پر امام عالی مقام نے ان چاروں تعلقات اور ان سے متعلق حقوق کو بدرجہ اولیٰ اکٹھے ادا فرمادیا۔

ان حقوق کو آپ نے اس قدر اعلیٰ درجہ کے ساتھ ادا کیا کہ پھر راہِ مرتضائیت میں اللہ رب العزت نے آپ کو وہ مقام عطا فرمادیا کہ اس کے بعد ایسا مقام نہ کسی کو دیا اور نہ قیامت تک کسی کو عطا فرمائے گا۔

ذیل میں امام عالی مقام کے کردار و سیرت کا جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے معرکہ کربلا میں ان چاروں حقوق کو کس احسن انداز میں ادا کیا:

1۔ امام عالی مقام اور حقوق اللہ کی ادائیگی

امام عالی مقام نے اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق حق کو نہایت احسن انداز کے ساتھ میدان کربلا میں ادا فرمایا۔ اس حق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

(الذاریات، 51: 56)

اللہ رب العزت کے ساتھ بندگی کا تعلق یوں تو انسان عبادات کے ذریعے احکام شریعت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عمر بھر ادا کرتا رہتا ہے اور ہر وہ انسان جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے وہ لازماً بندگی بجا لاتا ہے۔ لیکن وہ اعلیٰ بندگی کیا ہے جو عام بندگی سے جدا ہوجاتی ہے۔ وہ اعلیٰ بندگی یہ ہے کہ انسان شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام اس طرح بجا لائے کہ اس کے دل میں کوئی بوجھ نہ ہو، وہ ان احکام پر عمل کرتے ہوئے دل میں گھٹن اور تنگی محسوس نہ کرے بلکہ بغیر کسی بوجھ کے ان احکام کی بجا آوری میں مصروف رہے جس بندگی کا حق امام عالی مقام نے میدان کربلا میں ادا کردیا وہ فقط اعلیٰ بندگی نہ تھی بلکہ وہ بندگی کا بھی کمال تھا۔ اعلیٰ بندگی تو یہ تھی کہ عمل پیرا ہوتے وقت دل میں گھٹن کا احساس نہ ہو مگر بندگی کا کمال یہ ہے کہ گھٹن کا احساس تو دور کی بات ہے جب منشاء یار سمجھ آجائے تو انسان دیوانہ وار اس کی طرف عمل پیرا ہونے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ بوجھ اور گھٹن کے برعکس اس سے پیار، جنون اور عشق ہوجائے تو اسے بندگی کا کمال کہتے ہیں۔ بندگی کا ایک حق وہ ہے جو ایک عام انسان ادا کرتا ہے۔ اسے ادنیٰ درجے کی بندگی کہتے ہیں، ایک بندگی کا حق وہ ہے جسے صالحین و مقبولین ادا کرتے ہیں، اسے اعلیٰ درجے کی بندگی کہتے ہیں اور جب یہی بندگی ایک امام بجا لائے تو یہ نہ عام بندگی ہوسکتی ہے نہ اعلیٰ بندگی بلکہ اسے بندگی کا کمال کہتے ہیں۔

یہی وہ منشاء یار تھا کہ امام عالی مقام خانوادہ رسول کو لے کر کربلا کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ذرا وہ منظر دیکھئے کہ کربلا معلی جانے کے لیے مدینۃ المنورہ سے روانہ ہورہے ہیں، جانتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے، صحابہ کرام امام عالی مقام کو روک رہے ہیں کہ نہ جائیں، جانا ہے تو اکیلے جائیں، خانوادے کو ساتھ نہ لے جائیں۔ مگر آپ اپنے ارادے پر ڈٹے رہتے ہیں۔ پھر مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں وہاں پر بھی صحابہ آپ کو نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یزید کی حکومت کے مظالم، طرزِ حکومت ہر شے نگاہ کے سامنے ہے پھر بھی آپ کے قدم لرزاں نہیں ہوتے۔ آپ اپنے خانوادے کے ساتھ میدان کربلا کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ بچپن سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سن رکھا ہے کہ میدان کربلا میں ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں گے، شہادتیں ہوں گی مگر اس تمام علم کے باوجود امام عالی مقام اس مقتل کی جانب دوڑے چلے جارہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ یہ حکم ہے مصطفی کا، یہ منشاء ہے خد اکا، یہاں صرف میں نے قربان نہیں ہونا بلکہ اس میدان میں علی اصغر کو بھی لُٹانا ہے، علی اکبر کو بھی لُٹانا ہے، امام حسن کے شہزادوں کو بھی لُٹانا ہے، سروں کو نیزے پر بھی چڑھنا ہے، یہ سب جانتے ہیں مگر منشا یار سے پیار ہے۔

جب منشا یار نگاہوں کے سامنے ہو تو کسی نقصان کا خیال نہیں آتا بس اک جنوں ہوتا ہے کہ منشا یار ادا کرنے میں کہیں دیر نہ ہوجائے، پس اس سوچ اور نظریہ کے تحت امام عالی مقام نے بندگی کا بدرجہ کمال حق ادا فرماکر میدان کربلا میں اللہ رب العزت کے ساتھ اس تعلق کا حق ادا کردیا۔

2۔ امام عالی مقام اور حق النفس کی ادائیگی

دوسرا تعلق ایک انسان کا اپنی ذات سے متعلق ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ.

’’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو۔‘‘

(المائدة، 5: 105)

عموماً جب انسان زندگی گزارتا ہے تو اس کی جان کے اس پر کئی طرح کے حقوق ہوتے ہیں جو وہ ادا کرتا ہے۔ روزگار کما کر جسم کی افزائش کرنا جان کا حق ہے۔ جسم کو ڈھانپنے کے لیے اچھا لباس پہنناجان کا حق ہے، اپنے آپ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا جان کا حق ہے، اچھی صحبت تلاش کرنا جان کا حق ہے۔

یہ تو اس کی ظاہری جان کے حقوق ہیں جنہیں وہ ادا کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح اس کے کچھ باطنی حقوق بھی ہیں جیسے روزے رکھنا، اپنی روح کو پاکیزہ کرنا، گناہوں سے بچنا، نمازیں پڑھنا، قرآن مجید کی تلاوت کرنا، گریہ و زاری کرنا، مناجات کرنا، اپنے افکار کو سچا اور ستھرا کرتے رہنا یہ بھی جان کا باطنی حق ہے۔ ایک عام انسان اپنی بندگی بجا لانے کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق حقوق ادا کرتا رہتا ہے۔

جیسے بندگی کے مختلف درجات ہیں اسی طرح انسانوں میں مختلف طبقات ہیں۔ کوئی اپنی جان کا حق فقط خوراک اور لباس تک سمجھتا ہے۔۔۔ کوئی جان کا حق اچھی صحبت کے تلاش کرنے تک رکھتا ہے۔۔۔ کوئی سمجھتا ہے کہ طہارت اور پاکیزگی میری جان کا حق ہے، کوئی عبادت، ریاضت اور روزہ کو بھی اپنی جان کا حق سمجھتا ہے۔۔۔ مگر جو عارف، کامل اور رمز آشنا ہوجاتے ہیں انہیں سمجھ آجاتی ہے کہ یہ سارے حقوق چھوٹے ہیں، اس جان اور نفس کو مقام رضا پر فائز کرنا اس جان کا سب سے بڑا، اعلیٰ اور آخری حق ہے۔

امام عالی مقام عمر بھر اپنے نفس کے حقوق، شریعت کے مطابق ادا کرتے رہے لیکن انہیں یہ معلوم تھا کہ اس جان کا سب سے اعلیٰ، ارفع اور آخری حق یہ ہے کہ اس نفس کو اس مقامِ رضا پر فائز کردیا جائے جو مقام صبر سے بھی بڑھ کر ہے۔ اسی لیے آپ نے میدان کربلا میں پورا خانوادہ راہِ خدا میں پیش کرکے صبر کی تمام حدیں پار کردیں اور آخر میں اپنی جان کا آخری حق ادا کرکے آپ مقام رضا پر فائز ہوئے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بڑی بڑی ہستیاں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتی ہیں مگر آپ وہ ہستی تھے جنہیں خونِ مصطفی اور قربتِ مصطفی میسر تھی، ان کی گود اور تعلیم ہی کا فیض تھا کہ وہ ان منازل کو طے کرکے مقام رضا پر فائز ہوگئے۔

3۔ امام عالی مقام اور حقوق العباد کی ادائیگی

تیسرا حق جو ایک انسان کا دوسرے انسانوں سے متعلق ہے اور جس کی ادائیگی اس پر فرض اور واجب ہے، اس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا ﷲَ اِنَّ ﷲَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.

’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

(المائدة، 5: 2)

امام عالی مقام نے میدان کربلا میں دیگر انسانوں سے متعلق جو حق ادا کیا، اس کو سمجھنے کے لیے اس زمانے کے حالات کو جاننا ضروری ہے۔ یہ دور وہ تھا کہ جب آقا علیہ السلام کے بعد خلفائے راشدین کا قائم کردہ نظامِ عدل، نظامِ سیاست، نظامِ معیشت اور نظامِ معاشرت الغرض سب نظاموں کو یزید نے تہہ و بالا کردیا تھا، لوگوں کی بے دریغ جانیں لی جانے لگیں، کرپشن کا بازار گرم تھا، خوف و ہراس کی کیفیت تھی، بدبخت یزید طاقت کو حق سمجھتا تھا، حیاء کا فقدان تھا، بے حیائی عام ہوگئی تھی، اسلامی شعائر اور اقدار کا مذاق اڑایا جاتا تھا، ہر وہ شے جو تاجدار کائنات نے عطا فرمائی تھی یہ اس کو ختم کرنے لگ گیا تھا۔ لوگ اس سے خوفزدہ تھے، ہر کسی کو اپنی جان کا خطرہ تھا، کسی میں ہمت نہ تھی کہ یزید کے سامنے حق کی آواز بلند کرسکے۔ انہی حالات پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

کھڑا ہے خاموش ہر کوئی یزید وقت کے آگے
اب حسین ہی چلا آئے تو کوئی بات چلے

ان حالات میں ہر ایک کی خاموش نگاہ اس شہزادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تھی کہ یہی خانوادہ ہے، جو اس کو چیلنج کرسکتا ہے۔ اس خوف کے ماحول میں امام حسین نے علمِ حق بلند فرمایا۔ چیلنج کے ساتھ اس کی بیعت سے انکار کیا اور پھر اس کو علی الاعلان غلط کہا اور فرمایا کہ تم کرپٹ ہو، تم قاتل ہو، تم دین دشمن ہو، تم بے حیا ہو، تم اسلام کی اقدار ختم کرنے والے ہو۔

یہی وہ چیلنج تھا جو امام عالی مقام کو اپنے خانوادہ کے ساتھ میدان کربلا تک لے گیا اور وہاں پر پھر معرکہ بپا ہوا۔ معرکہ کربلا میں امام عالی مقام نے اپنی اور اپنے خانوادے کی جانوں کے نذرانے شاہانہ انداز سے پیش کرکے آپ نے دوسرے انسانوں کا حق بھی میدان کربلا میں ادا فرمادیا۔

کوئی کسی کا حق وقت دے کر ادا کرتا ہے۔۔۔ کوئی مال دے کر اداکرتا ہے۔۔۔ کوئی کسی کا حق جان دے کر ادا کرتا ہے۔۔۔ مگر تاریخ انسانی میں ایسا حق کسی نے بھی ادا نہ کیا ہوگا کہ اپنی جان بھی دی، اپنے شہزادوں کی جان بھی دی بلکہ اپنے خانوادہ کے بہتر (72) تنوں کو قربان کردیا۔ امام عالی مقام شہید ہوکر بھی فتح یاب ہیں اور یزید اپنا تخت بچا کر بھی ہار گیا۔ اسی لیے آج ہر کوئی حسین حسین کرتا ہے اور یزید کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ یوں امام عالی مقام نے یہ تیسرا حق جو دوسرے لوگوں سے متعلق تھا وہ بھی میدان کربلا میں ادا فرمادیا۔

4۔ امام عالی مقام اور کائنات سے متعلقہ حقوق کی ادائیگی

چوتھا حق انسان کا اس کائنات سے متعلق ہے جس میں ہم رہتے اور بستے ہیں، اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جو انسان ادا کرتا ہے۔ جس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ.

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔‘‘

(آل عمران، 3: 190)

اس کائنات پر اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی بنیاد متضاد رویوں، جذبات اور اشیاء پر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر رات ہے تو اس کے مدمقابل دن ہے، اندھیرے کے مدمقابل روشنی ہے، بدبو کے مدمقابل خوشبو ہے، جہالت کے مدمقابل علم ہے، ظلم کے مدمقابل امن ہے، استحصال کے مدمقابل استحکام ہے، نفرت کے مدمقابل محبت ہے، گمراہی کے مدمقابل ہدایت ہے۔

الغرض کائنات میں کوئی بھی شے ایسی نہیں ہے جس کے مدمقابل اللہ تعالیٰ نے کچھ پیدا نہ فرمایا ہو۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کائنات کا نظام ہی یہی ہے کہ وہ ایک شے پیدا فرماتا ہے اور پھر اس کے مدمقابل اس کا Opposite لاتا ہے۔ تاریخ میں جو جو شے Negative تھی خدا نے اس کا Positive پیدا فرمایا۔ کیونکہ اگر Negative کا Positive نہ آئے تو کائنات کا نظام رک جائے۔ اُس دور میں یزید Negativities کا مجموعہ تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کا Positive نہ آتا۔ امام عالی مقام نے یزید کے مدمقابل آکر نظام کائنات کو بچالیا۔ اگر روشنی نہ آئے اور اندھیرا برقرار رہے تو کائنات کا نظام تہہ و بالا ہوجائے۔ اسی طرح نمرود کے مد مقابل ابراہیم علیہ السلام نے آنا تھا کیونکہ کائنات کا نظام چلنا تھا، فرعون کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام نے آنا تھا کیونکہ کائنات کا نظام چلنا تھا، جب یزید تھا تو اس کے مد مقابل حسین علیہ السلام نے آنا تھا کیونکہ کائنات کا نظام چلنا تھا۔ یوں امام عالی مقام نے جہاں پر عبدیت کا حق، اپنی ذات کا حق اور دیگر انسانوں کا حق ادا کیا وہاں معرکۂ کربلا میں اس کائنات کا حق بھی ادا کردیا۔

بدبخت یزید بربریت کا استعارہ تھا اور امام عالی مقام انسانیت کی پہچان ہیں۔۔۔ وہ بدبخت خیانت کا نمائندہ تھا، امام عالی مقام امانت کے نمائندہ ہیں۔۔۔ یزید ظلم و جبر کا نمائندہ تھا اور امام عالی مقام عدل کی پہچان ہیں۔۔۔ یزید سراسر جفا تھا اور امام عالی مقام سراسر وفا ہیں۔۔۔ یزید مطلق العنانی کا نام تھا اور امام حسین مساوات انسانی کا نام ہیں۔۔۔ یزید حق تلفی کا نام تھا اور امام حسین حق دینے کا نام ہیں۔۔۔ یزید جان لینے کا نام تھا اور امام حسین جان دینے کا نام ہیں۔۔۔ یزید نفرت کا نام تھا اور امام حسین محبت کا نام ہیں۔۔۔ یزید دین اسلام اورمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن تھا اور امام عالی مقام اس دین کو بچانے والے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادے ہیں۔ یہ وہ فرق تھا جس سے نظام کائنات ہمیشہ سے چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔

یہ واقعہ اللہ رب العزت کے علم میں تھا۔ اس کی خبر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی غلاموں کو بھی اس سے آگاہ فرمادیا تھا۔ قربانیوں اور شہادتوں کے واقعات کے رونما ہونے کی داستان واقعہ کربلا سے قبل ہر ایک کے علم میں تھی مگر اس کے باوجود امام عالی مقام نے راہِ رخصت اختیار نہ کی بلکہ رضائے الہٰی اور رضائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کے لیے اور دین اسلام کی حفاظت کی خاطر راہِ عزیمت کے مسافر بنے اور اسلام کو قیامت تک کے لیے زندہ کردیا۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اہل بیت اطہار کو وہ مقام عطا فرمادیا کہ اہل بیت پاک کی محبت ہر مسلمان پر لازم قرار دے دی۔ اللہ نے اہل بیت کی قربانیوں کی داستان کو ایسا زندہ کیا کہ قیامت تک کوئی ان قربانیوں کی خاک تک بھی نہیں پہنچ پائے گا۔

اہل بیت سے تعلق کی جہات

اہل بیت پاک کی زندگیوں سے اہل ایمان کے دو طرح کے تعلق ہیں:

1۔ ایک تعلیم و تربیت کا تعلق ہے کہ آپ نے ہمیں غیرت سے جینا سکھادیا، خوف سے جھکنا منع فرمادیا، ظالموں کے آگے ڈٹ کے کھڑا ہونا سکھادیا، مظلوم کا سہارا بننا سکھادیا، حق کے لیے ڈٹ کر مرجانا سکھادیا اور ظالم کے آگے نہ جھکنا آپ نے اپنے عمل سے سکھادیا۔

2۔ دوسرا تعلق محبت کا ہے۔ آپ نے جو کربلا میں قربانیاں دی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں ان کی محبت واجب اور فرض کردی ہے، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ان کی محبت اس لیے فرض کردی کیونکہ آپ کی ہستیاں ہیں ہی محبت کے قابل۔ ارشاد فرمایا:

قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.

’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘۔

(الشوریٰ، 42: 32)

سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے محبت کے تین درجے بیان کئے:

1۔ سب سے کمزور محبت تقلیدی محبت ہے۔ یعنی دیکھا دیکھی کی محبت۔ اپنی محبت کو اسی طرف ڈال دیا جس طرف زمانہ جارہا ہے۔ سب سے زیادہ حملے بھی اسی پر ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے پاس دلائل نہیں ہیں۔

2۔ محبت کا دوسرا درجہ تحقیقی محبت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شخصیت کے کارہائے نمایاں دیکھے کہ فلاں شخصیت نے یہ قربانی دی ہے، اتنا کام کیا ہے، معاشرے کی فوز و فلاح کے لیے اتنے میادین میں کام کیا ہے، علمی، فکری، تربیتی، اصلاحی، معاشرتی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس وجہ سے ان سے پیار کرنا تحقیقی محبت ہے۔ یہ بھی کمزور درجہ ہے لیکن تقلیدی سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ دلائل اکٹھے کرکے محبت قائم کی۔ یہ معیارِ محبت بھی مضبوط نہیں ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ جن چیزوں کو دیکھ کر محبت کی تھی، اُن چیزوں کو زوال آگیا یا وہ اس درجہ کی نہ رہیں۔ مثلاً کسی کے حُسن کی وجہ سے اس سے محبت کی اور بعد ازاں بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے حُسن نہ رہا تو محبت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

3۔ سب سے اعلیٰ درجے کی محبت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے دل میں ڈالی جاتی ہے۔ یہ محبت نہ کسی تحقیقی امور کی طلبگار اور نہ بھیڑچال کو دیکھتی ہے۔ چاہے کوئی زمانے میں اکیلا ہی کیوں نہ کھڑا ہو، ہر کوئی اس کی مخالفت ہی کیوں نہ کررہا ہو حتی کہ سارا جہاں اس کے خلاف ہوجائے مگر پھر بھی اس کی محبت نہ ڈگمگائے۔ یہ محبت سب سے اعلیٰ درجے کی ہے بلکہ محبت کا کمال ہے جس پر پھر کوئی حملہ آور نہیں ہوسکتا۔

اہل بیت پاک سے محبت کا درجہ یہ ہونا چاہئے کہ دن ہو یا رات ہر وقت ان سے والہانہ اور جنونی پیار ہو، ان سے محبت کا تذکرہ ہو، ان کے بارے میں محبت بھری باتیں ہوں، ان کا نام سنیں تو دل مچل اٹھے، امام عالی مقام یاد آئیں تو آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس طرح کی محبت ہوجائے تو یہ محبت وہ ہوگی جو اللہ نے دلوں میں ڈالی ہے۔ لہٰذا اپنے ایمان اور محبت کو اعلیٰ درجے پر قائم کریں، نہ تقلیدی رہنے دیں اور نہ تحقیقی۔ سارا جہاں کیوں نہ مخالفت کررہا ہو پھر بھی ڈٹ کر اور جم کر اہل بیت کے ساتھ کھڑے رہیں۔ شہادت امام عالی مقام کا یہی پیغام ہے کہ غیرت و حمیت سے جینا ہے اور آقا علیہ السلام اور اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت کرنا ہے۔