عوام کی بنیادی ضروریات اور اسلامی تعلیمات

ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ

شرعاً بنیادی ضروریات کیا ہیں؟ ان کی مقدار کیا ہے؟ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کی کتنی اہمیت ہے اور اس معاملے میں حکومت کی ذمہ داری کیا ہے؟ اس بارے میں جاننے سے قبل یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسان کی بنیادی اور واقعی ضروریاتِ زندگی یا فقہاء کی زبان میں حوائجِ اصلیہ جن کے بغیر آدمی کا زیادہ دیر زندہ رہنا عام حالات میں مشکل ہوتا ہے، وہ کیا ہیں؟ حوائج اصلیہ میں بالعموم درج ذیل چار چیزیں شمار کی جاتی ہیں:

  1. روٹی
  2. پانی
  3. لباس
  4. مکان

(بدائع الصنائع، ابوبکر کاسانی، 4: 38)

انہی کے ذیل میں چند اور چیزیں بھی فقہاء کے نزدیک حوائج اصلیہ میں داخل ہیں۔ مثلاً: علاج معالجہ کے لیے طبیب کا معاوضہ، دوا کی قیمت، بیمار کے لیے خادم، کھانے پینے کے برتن، چولہا، گیس، ایندھن، جوتے، موسم کی مناسبت سے کپڑے، سالن پکانے کی متعلقہ اشیائ، گھر کا ضروری سامان، چارپائیاں، موسم کے مطابق بستر وغیرہ۔ کام کاج کے لیے خادم، سواری، کاریگروں کے لیے اس فن کے آلات، روشنی کے لیے دیا، علماء کے مطالعہ کے لیے کتابیں وغیرہ۔

(هدایه، مرغینانی، 1: 945)

بنیادی ضروریات کی مقدار

جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ ایک انسان کے لیے بنیادی ضروریات زندگی کی کتنی مقدار درکار ہوتی ہے؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی یعنی کھانا، پینا، کپڑا اور مکان وغیرہ کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کسی متعین مقدار اور نوعیت پر کوئی نص نظر نہیں آتی۔ تاہم قرآن مجید نے بیویوں کے نفقہ اور دیگر احکام میں ’’بالمعروف‘‘ کا جامع لفظ استعمال کیا ہے۔ (سورة البقرة: 233) یعنی اس نفقہ (روزینہ یا خرچہ) کی جزئیات و تفصیلات علاقہ، برادری یا لوگوں کے عام شریفانہ عرف اور دستور کے مطابق طے کی جائیں گی جو کسی قاعدہ شرعی کے خلاف نہ ہوں۔

ایک حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ ضروریات حالات کی مناسبت سے اتنی مقدار میں لازم ہیں جتنی ایک آدمی کو بقدر ضررت کافی ہوں۔ جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط، چنانچہ حضرت ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کی بیوی ہندہ نے ایک مرتبہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جب یہ شکایت کی کہ ان کا خاوند کنجوس آدمی ہے، وہ کھانے کو اتنا نہیں دیتا جو مجھے اور بچوں کے لیے کافی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خذی من مال ابی سفیان ما یکفیک وولدک بالمعروف.

’’تو ابو سفیان کے مال سے اتنا لے لیا کر جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے دستور کے مطابق کفایت کرجائے‘‘۔

(بخاری، صحیح، 5: 2052، رقم: 5049)

الغرض ضروریات میں اصولی چیز احتیاج کا لحاظ رکھنا ہے۔ جس آدمی کی جتنی احتیاج اور ضرورت ہوگی، اتنی ہی مقدار اس کے لیے لازمی ہوگی۔

حکومت کی ذمہ داری

نفلی صدقات، خیرات، مالی کفارات، ضرائب، خمس، خراج، جزیہ، قانون وصیت، قانون وقف اور تقسیم عفو وغیرہ سے شریعت اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے اندر بسنے والے ہر شہری کی بلا امتیاز و تفریق کم از کم بنیادی ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں۔ اگر کوئی آدمی ان ضروریات سے بوجوہ محروم ہوگا تو حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کو یہ ضروریات مہیا کرے۔

اسلامی ریاست نے اپنے کسی باشندے کو یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ تنہا یا لاوارث ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان عام فرمادیا تھا:

انا ولی من لاولی له.

’’جس کا کوئی ولی نہیں، میں اس کا ولی ہوں‘‘۔

نص کے تتبع سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی حکومت کی قلمرو میں بسنے والا کوئی چھوٹا بڑا فرد چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم (ذمی) جب زمین میں پھیلے ہوئے رزقِ الہٰی میں سے نہ اپنے ہاتھ سے اور نہ اپنے وسائل سے اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے اور نہ اسے اپنے اقرباء و دیگر باشندوں کی مالی امداد حاصل ہو تو اسلام حکومت کو اس بات کا پابند بناتا ہے اور اس کی ایک اہم ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ وہ ایسے ضرورت مند بندگانِ خدا کی بنیادی ضروریات کا اپنے حکومتی وسائل و اختیارات سے از خود معقول بندوبست کرے۔

محروم المعیشت لوگوں کو اپنی ضروریات کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر نہ لگانا پڑیں کیونکہ افراد معاشرہ کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ اس کے عوض وہ افراد سے کسی خدمت یا معاوضے کی طالب نہیں ہوتی۔ اسلام بنیادی ضروریات کی فراہمی سودے بازی کی بنیادوں پر نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں اسلام اور سوشلزم کے درمیان بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ سوشلزم بنیادی ضروریات فراہم کرتا ہے مگر افراد کی صلاحیت کار کی قیمت کے طور پر، ان کو روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرتا ہے مگر جانوروں کی طرح ان سے دن رات کام لے کر، اس کے بالمقابل اسلام افرادِ معاشرہ کو بنیادی ضروریات ان کا انسانی حق سمجھ کر فراہم کرتا ہے اور ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے صلاحیت کار کو جہاں چاہیں استعمال کریں اور پوری آزادی کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں حصہ لیں۔

اسلام میں حکمران (خلیفہ) یا حکومت (خلافت) فرمانروائے اعلیٰ (خداوند عرش) کی نمائندگی نیابت کا نام ہے۔ ظاہر ہے نائب یا قائم مقام یا خلیفہ کے فرائض اور ذمہ داریوں میں وہ تمام ذمہ داریاں شامل ہوں گی جو اس کا اصل یعنی خلیفہ بنانے والا سرانجام دیتا ہے تو رب العالمین جس نے حکومت یا حکمرا ن کو اپنا خلیفہ بنایا ہے، اس نے از راہ شفقت و کرم ایک بات یہ بھی اپنے ذمہ لے رکھی ہے کہ:

وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی ﷲِ رِزْقُهَا.

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے‘‘۔

(هود، 11: 6)

اسی چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا:

الخلق عیال الله.

’’تمام مخلوق اللہ کا عیال (کنبہ) ہے‘‘۔

(مشکوة المصابیح، ص: 425)

اور کسی کے ’’عیال‘‘ لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس کے سپرد ہوتی ہے۔ تو جب ساری مخلوق اللہ کا کنبہ (عیال) قرار پائی اور ان کے نان نفقہ یا ضروریات زندگی کو پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہوئی تو اللہ کے خلیفہ (حکومت) کی بھی ذمہ داری ہوگی کہ اس کی قلمرو میں کوئی متنفس بھوکا پیاسا نہ رہے۔ مشہور حنفی فقیہ سید علی زادہ نے امیر حکومت کے فرائض بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

ولا یدع فقیرا فی ولایته الا اعطاه ولا مدیونا الا قضی عنه دینه ولا ضعیفا الا اعانه ولا مظلوما الا نصره ولا ظالما الا منعه عن الظلم ولا عاریا الاکساه کسوة.

’’وہ اپنی مملکت کے اندر کوئی ایسا فقیر نہ چھوڑے جس کو عطا نہ کرے اور کوئی ایسا مقروض نہ چھوڑے جس کی طرف سے قرض کو ادا نہ کردے اور کوئی کمزور نہ چھوڑے مگر یہ کہ اس کی مدد کردے اور کوئی مظلوم نہ چھوڑے مگر یہ کہ اس کی مدد کرے اور نہ کسی ظالم کو ظلم کرنے دے اور کوئی ننگا نہ چھوڑے جس کو پہنا نہ دے‘‘۔

(اسلام کا اقتصادی نظام، از مولانا حفظ الرحمن سیوهاروی، ص: 129، 130)

المختصر اسلامی نقطہ نگاہ سے دو باتیں انتہائی قابل لحاظ ہیں:

  1. مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔
  2. تمام انسان اللہ کے نزدیک برابر ہیں۔

اب وہ اونچے طبقہ کے ہوں یا نیچے طبقے کے۔ اللہ ان کا پروردگار اور فرمانروا ہے اور وہ اس کے بندے اور رعایا ہیں۔

اسلامی حکومت معاشی زندگی کے دائرہ میں ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھنے پر مامور ہے۔ ایک تو اللہ کے کنبے کا کوئی فرد کھانے، کپڑے اور مکان وغیرہ سے محروم نہ رہے، دوسرے اللہ کے بندوں میں سب کو انسانیت کے عام حقوق میں برابر کا سمجھا جائے۔ اگر کوئی اسلامی حکومت اس کا خیال نہیں رکھے گی تو انسانیت کے بلند درجے سے گرجائے گی اور اخروی باز پرس میں ماخوذ ہوگی۔

غالباً اسی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:

لو ماتت شاة علی الفرات ضائعة لظننت ان الله سائلی عنها یوم القیامة.

’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی بکری بھی بے سہارا ہونے کی وجہ سے مرجائے تو میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے بارے میں مجھ سے جواب طلبی فرمائے گا‘‘۔

(ابن جوزی، سیرت عمر بن الخطاب، ص: 161)

گویا اسلام میں خلیفہ ان تمام لوگوں کی بنیادی ضروریات کا ذمہ دار اور کفیل ہے جن کا معاشرے میں اور کوئی ذمہ دار یا کفیل نہ ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الله ورسوله مولی من لاولی له.

’’اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر اس آدمی کا مددگار یا سرپرست ہے جس کا کوئی والی وارث نہ ہو‘‘۔

(جامع ترمذی، ابواب الفرائض، باب ماجاء فی میراث المال)

ایک حدیث میں فرمایا:

السلطان ولی من لاولی له.

’’بادشاہ (یا حکومت) ہر اس آدمی کا سر پرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو‘‘۔

(جامع ترمذی، ابواب النکاح باب ماجاء لانکاح الابولی)

اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

’’سلطان پر واجب ہے کہ جب اس کی رعایا تنگی میں مبتلا ہو اور فاقہ اور مصیبت سے دو چار ہو تو ان کی مدد کرے۔ بالخصوص قحط اور گرانی کے زمانہ میں کیونکہ ایسے حالات میں لوگ کسبِ معاش میں ناکام رہتے ہیں اور گذر اوقات کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں سلطان کو چاہئے کہ ان کوکھانا فراہم کرے اور ان کے خزانے سے انہیں مال دے کر ان کی حالت بہتر بنائے‘‘۔

(امام غزالی، التبر المسبوک، ص: 94)

جصاص نے احکام القرآن میں سورۃ یوسف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت یوسف علیہ السلام کا جو قصہ سنایا ہے اور ان کے بارے میں قحط کے زمانہ میں غذائی اشیاء کو محفوظ کرکے انسانوں میں بقدرِ ضرورت تقسیم کرنے کا جو واقعہ نقل کیا ہے، وہ اس بات پر دلیل ہے کہ ہر زمانہ میں حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ جب ا ن کو اندیشہ ہو کہ قحط کے سبب عوام ہلاک ہوجائیں گے تو ایسا ہی طریقہ اختیار کریں‘‘۔

(جصاص، احکام القرآن، ج:3، ص: 176)

دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ضروریاتِ زندگی کا انتظام

بنیادی ضروریات کی فراہمی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وسائل کے اندر نہایت ہی خوبصورتی سے ضرورت مند لوگوں کی بنیادی ضروریات کا انتظام فرمایا۔

سورۃ الاحزاب کی آیت 6 اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (یہ نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں) کے تحت علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اور قرطبی نے الجامع الاحکام القرآن میں بخاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب فتوحات ہونے لگیں اور بیت المال میں مال غنیمت آنے لگا تو آپ نے مذکورہ آیت کا حوالے دیتے ہوئے اعلانِ عام فرمایا:

من مات وترک مالا فلیرثه عصبته من کانوا فان ترک دینا او ضیاعا فلیاتنی فانا مولاه.

’’جو مومن بھی مال چھوڑ کر مرے گا اس کے وارث اس کے عصبہ (قریبی رشتہ دار) ہوں گے اور اگر وہ اپنے ذمہ دین (قرض) چھوڑ کر مرا یا بچے (جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو) چھوڑ کر مرا تو وہ دین اور یتیم بچے میرے ذمہ ہیں اور میں ہی ان کا والی ہوں۔ یعنی ان کی کفالت کروں گا اور ان پر مال خرچ کروں گا‘‘۔

(صحیح بخاری، کتاب فی الاستقراض باب الصلوة علی من ترک دنیا)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اعلان آج کے کسی مطلب پرست خود غرض ابن الوقت اور مصنوعی خیر خواہ سیاستدان کا نہ تھا۔ جو ووٹ کی خاطر دوران الیکشن طرح طرح کے سبز باغ دکھاتا اور پرکشش وعدے اور اعلان کرتا ہے اور جب غریب کے ووٹ سے اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اس منافق اور مفاد پرست کی حالت کچھ یوں ہوتی ہے کہ تو کون اور میں کون۔ مندرجہ بالا اعلان یا بیان اس لجپال غریب نواز اور یتیم پرور و غریب پرور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا جو زبانی دعوئوں کے نہیں بلکہ عمل اور صرف عمل کے قائل تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی محض وعظ و نصیحت اور غریبوں، کمزوروں، بھوکوں اور مظلوموں کے حق میں زور دار تقریر پر اکتفا نہیں کیا۔ صرف زبانی الفاظ اور جھوٹ موٹ کے ٹسووں سے غریب لوگوں کو کبھی بہلانے کی کوشش نہ فرمائی کیونکہ تقریر سے کسی بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا کرتا، نہ تقریر سے مصیبت زدہ اور مظلوم کی داد رسی ہوا کرتی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ زبان سے زیادہ عمل کے ذریعے غرباء و مساکین کی ہر طرح سے امداد، ہمدردی، غمخواری اور دلداری فرماتے رہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی عادت کریمہ تھی اور بعثت کے بعد بھی ساری زندگی یہی معمول رہا۔

دور نبوی کی عام مالی پالیسی

عہد نبوت میں مالیات سے متعلق عام طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی اور سرکاری پالیسی یہی نظر آتی ہے کہ جو کچھ آتا جب تک خرچ نہ کردیا جاتا اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چین نہ آتا۔ حاصل ہونے والا مال فوری طور پر ضرورت مندوں اور حقداروں میں تقسیم کردیا جاتا۔ اس چیز کی تائید خادمِ خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ:

بحرین سے خراج اور جزیے کا مال بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس مال کو مسجد (کے صحن) میں پھیلادو۔ بقول راوی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جتنے بھی اموال آئے، ان میں یہ سب سے زیادہ تھا۔ (محدثین نے ایک لاکھ درہم کا اندازہ لگایا ہے) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لائے تو (اپنی طبعی سیر چشمی اور غنائے نفس کی وجہ سے) مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ جب نماز ہوچکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ پس جو بھی نظر آتا اسے (اس کی ضرورت کے مطابق) عنایت فرمادیتے۔ آپ اس وقت تک وہاں سے نہ اٹھے جب تک کہ سارا مال تقسیم نہ ہوگیا اور ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔

ایک دوسری روایت میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ خوب جانتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک کی مبارک زندگی میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں) سب سے زیادہ مال کب آیا؟ آپ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رات کے پہلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک تھیلی آئی جس میں آٹھ سو درہم اور ایک پرچہ تھا، وہ تھیلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے پاس بھیج دی۔ اس رات آپ کے قیام کی میرے ہاں باری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عشاء کے بعد گھر واپس تشریف لائے اور حجرہ شریف میں اپنی نماز کی جگہ میں نماز شروع کردی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اور اپنے لیے بستر بچھایا ہوا تھا۔ میں آپ کا انتظار کرنے لگی لیکن آپ بہت دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ نماز کے بعد آپ اپنی نماز کی جگہ سے باہر تشریف لائے اور پھر وہیں واپس چلے گئے اور نماز شروع کردی۔ اس طرح بار بار کرتے رہے، یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ آپ نے مسجد میں جاکر نماز پڑھائی اور پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا وہ تھیلی کہاں ہے جس نے آج ساری رات مجھے پریشان کیے رکھا؟ چنانچہ تھیلی منگوائی اور اس میں جو کچھ تھا وہ سب تقسیم فرمادیا۔

(الهیثمی، مجمع الزوائد، 10: 325)

حکومتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عطاء و بخشش کا معیار

دنیا میں عام حکومتوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مالی پالیسیوں میں یہ فرق تھا کہ عام سلطنتو ںمیں محاصل کی عطاء و بخشش شاہانہ تقرب اور عیش پسند امراء کے موروثی استحقاق اور سعی و سفارش کی بنا پر ہوتی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ دولت مندوں کی دولت مندی اور فقراء کی محتاجی میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احکامِ الہٰی کے تحت جو اسلامی نظام قائم فرمایا اس میں دولت مندی اور تقرب نہیں بلکہ حاجت اور ضرورت کو معیار قرار دیا گیا کیونکہ ضعفاء کا حق اقویاء کے مقابلہ میں زیادہ توجہ کے قابل تھا۔ عرب میں لونڈیوں اور غلاموں کا کوئی حق نہ تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقوق میں ان کو بھی آزاد لوگوں کے ساتھ حصہ دیا۔

سلطنت کی آمدنی اور محاصل کو دیگر بادشاہوں کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح امانت تصور فرماتے اور کس طرح عام مسلمانوں کی ضرورت میں خرچ فرماتے؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلطنت کے مفتوحات و محاصل کو دنیا کے بادشاہوں نے ہمیشہ اپنی ذاتی ملک سمجھا اور اپنے ذاتی و خاندانی عیش و آرام کے سوا ان کا کوئی دوسرا مصرف نہ تھا اور اگر وہ اس میں سے دوسروں کو کچھ دیتے تھے تو اس کو اپنا احسان سمجھتے تھے۔ لیکن جو نظامِ سلطنت اسلام نے قائم کیا تھا، اس میں سلطنت کے سارے محاصل مال اللہ یعنی اللہ کا مال کہلاتے تھے اور صرف بیت المال کی ملکیت تھے اور مسلمانوں کے لیے تھے۔ زکوٰۃ، صدقہ، خراج اور جزیہ جو کچھ وصول ہوتا تھا وہ اگرچہ بحیثیت امیر سلطنت سب کا سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں آتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اپنی نہیں بلکہ باختلاف شرائط عام مسلمانوں کی ملکیت قرار دیا اور کبھی اس کو اپنے شخصی تصرف میں نہیں لائے۔زکوٰۃ کی ساری رقم اپنے اور اپنے اہل و عیال اور اپنے خاندان بنو ہاشم پر حرام فرمادی اور اس کو بحکم الہٰی عام غرباء اور اہل حاجت کا حق قرار دیا اور اس کو اعلانیہ ظاہر فرمایا۔ ارشاد فرمایا:

ما اوتیکم من شئی وما امنعکم ان انا الا خازن اصنع حیث ما امرت.

’’میں تم کو نہ کچھ دے سکتا ہوں نہ کچھ روک سکتا ہوں۔ میں صرف خزانچی ہوں۔ جس موقع پر صرف کرنے کا مجھے حکم دیا جاتا ہے وہاں صرف کرتا ہوں‘‘۔

(ابوداؤد، ج: 2، ص: 15، کتاب الخراج والامارة)

دوسرے موقع پر فرمایا:

انما انا قاسم والله یعطی.

’’میں تو صرف بانٹنے والا ہوں دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے‘‘۔

غنیمت کا مال بھی مجاہدوں ہی کو دے دیا جاتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف ایک خمس یعنی پانچویں حصے پر تصرف کا اختیار ہوتا تھا۔ اس تصرف کے معنی یہ ہیں کہ اس حصے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیت کے علاوہ ان نادار اور محتاج مسلمانوں کو دیا کرتے تھے جن کوجنگ کے قواعد کی رو سے مال غنیمت سے نہیں مل سکتا تھا۔ اس طرح لڑائی کے بغیر جو علاقہ اسلام کے تصرف میں آتا تھا وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصرف میں گو براہ راست دے دیا جاتا لیکن اس تصرف کا مقصد بھی یہی ہوتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی آمدنی اپنی صوابدید سے اپنی خانگی ضروریات میں صرف فرمانے کے بعد اسلام کی ضروریات ہی میں صرف فرماتے تھے اور اعلان فرمایا تھا کہ یہ مسلمانوں کی ضروریات ہی میں صرف ہوگی۔

اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین اور رئوف و رحیم بناکر مبعوث فرمایا تھا۔ مخلوقِ خدا کی ہمدردی، غمگساری، خیر خواہی اور شفقت و رحمت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ ثانیہ تھی۔ کیسے ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرورت مندوں، محتاجوں، غریبوں، مسکینوں، کمزوروں اور بھوکوں کی معاشی فلاح کا کوئی انتظام نہ فرماتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی غمخواری اور دردمندی کا یہ عالم تھا کہ جب تک بھوکے کو کھانا نہ کھلالیتے، ننگے کو کپڑا مہیا نہ فرمالیتے، مصیبت زدہ کی مصیبت دور نہ فرمالیتے، پریشان حال کی پریشانی کا علاج نہ فرمالیتے، ضرورت مند کی ضرورت نہ پوری فرمالیتے، محتاج کی احتیاج کا بندوبست نہ فرمالیتے، مشکل میں پھنسے ہوئے کو مشکل سے نہ نکال لیتے، درد سے کراہنے والوں کو چپ نہ کرالیتے، مظلوم کو ظلم سے نجات نہ دلوالیتے، خوف زدوں کے خوف کو دور نہ فرمالیتے، مقروض لوگوں کی ادائیگی قرض کا کوئی انتظام نہ فرمالیتے، یتامیٰ و بیوگان کی دیکھ بھال کی کوئی صورت پیدا نہ فرمالیتے، بے آسرا اور بے سہارا لوگوں کے لیے کوئی آسرا اور سہارا نہ بنا لیتے، مسافر و اجنبی کو ٹھہرا نہ لیتے، نہ کما سکنے والوں کی زیست کی کوئی شکل نہ بنالیتے، اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو چین نہ آتا۔

یہ محض لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شفقت علی الخلق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی و غمخواری کے طبعی جذبہ کی طرف قرآن نے یوں اشارہ کیا ہے:

عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ.

’’تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر گراں گزرتا ہے، (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘۔

(التوبة، 9: 128)