تحریک منہاج القرآن کے امتیازات

محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے دین کی خدمت، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نوکری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی نصرت کی توفیق مرحمت فرمائی اور اُس توفیق کو ایک اجتماعی شکل دیتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کا قیام فرمایا۔ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ تحریک منہاج القرآن توفیقِ الٰہی کی ایک اجتماعی شکل ہے۔ یہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور کی دین نہیں ہے۔ رفقاء و کارکنان کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ میری دین ہے۔ میں تو خود اس مشن کا خدمت گزار اور نوکر ہوں۔ ایک خدمت گزار دوسرے خدمت گزاروں اور نوکروں کو کیا دے سکتا ہے۔ یہ دین ہے ہمارے مالکوں کی اور ہمارے مالک اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جن کی توفیق سے یہ تحریک وجود میں آئی۔

خیر کا کوئی کام بھی زندگی میں اللہ کی توفیق کے بغیر نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ ہیں جو چاہتے بھی ہیں مگر توفیق نصیب نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی چھوٹا یا بڑا کام جو اللہ کی رضا کا باعث ہو، اللہ کی طرف لے جائے، اللہ کے دین کو زندہ کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت عطا کرے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خدمت کرے، جس سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی نصیب ہو۔ اللہ کی طرف سے توفیق نصیب ہوئے بغیر ممکن نہیں۔

آج کا یہ دور اخلاقی قدروں کی تباہی، گمراہی، روحانی قدروں کی بربادی، ہلاکت، مادیت، فکری انتشار، اخلاقی زوال، بے مقصدیت اور شیطنت کا دور ہے جس میں شیطان قوتیں، شیطانی فکر اور شیطانی کردار غالب ہے۔ یہ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں ہم دین اسلام کی تجدید و احیاء کی اس عظیم تحریک، تحریکِ منہاج القرآن سے وابستہ ہیں۔

یہ اس کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں فتنوں کے دور میں فتنوں سے بچنے کے لیے منہاج القرآن کی صورت میں تدبیر عطا فرمائی۔ تحریکِ منہاج القرآن کے حوالے سے درج ذیل چند ایک بنیادی نکات ہمیشہ کارکنان و رفقاء کے پیشِ نظر رہنے چاہئیں:

1۔ میرا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

منہاج القرآن کی صورت میں قائم اس مشن سے میرا اپنا کوئی بھی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ میں نے اپنی ذات کے لیے اس مشن سے کچھ نفع نہیں لینا ہوتا۔ میں نے رفقاء و کارکنان کے عطیات سے نہ کبھی کوئی نذرانہ لیا اور نہ ہی اپنی کتابوں اور خطابات کی آمدنی سے کوئی پیسہ لیا۔ میرا ہر کام وقف فی سبیل اﷲ ہے۔ دنیا بھر کے مصنفین، علمائ، اسکالرز، رائٹرز، شاعر، فلسفی، سائنٹسٹس، ڈاکٹرز، مفسر، محدث، اپنی تحریری و تقریری خدمات پر کچھ نہ کچھ رائیلٹی لیتے ہیں مگر میں نے اس طرح کی رائلٹیز کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ میری صرف ایک ہی رائلٹی ہے اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کی تلاش ہے۔ میری رائلٹی ان کا ایک تبسم و مسکراہٹ ہے۔

2۔ مکینِ گنبدِ خضریٰ اور اولیاء کا فیضان

دوسری بات یہ ذہن نشین رہے کہ ہماری تحریک میں رفاقت کا نظام ہے، یہاں پیری مریدی نہیں ہے۔ لہذا مجھے اپنے مرید زیادہ سے زیادہ بنانے کا بھی لالچ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اﷲ کی عزت کی قسم اور آقا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے گنبد خضریٰ کی قسم! حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف سے ملنے والی روحانی بشارت و نوید کے سبب منہاج القرآن کا ہر رفیق براہِ راست حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ  کا مرید ہے۔ وہ شخص جو اِس مشن کا سچے دل سے خادِم ہے اور اس کی رفاقت، رُکنیت، سنگت، خدمت، نوکری میں آگیا اور تن من دھن، استقامت، صدقِ دل، ایمان داری اور وفا داری کے ساتھ اس مشن سے وابستہ ہوگیا اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں دین، تقویٰ، ایمان، عمل صالح اور اخلاق پر چل پڑا تو خواہ وہ کسی اور شیخ و بزرگ کا مرید پہلے ہے تب بھی اور اگر بیعت نہیں کی تب بھی، دونوں صورتوں میں منہاج القرآن کا ہر رفیق براہِ راست حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ  کا مرید ہے۔

اس مشن پر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا براہِ راست فیض بھی ہے اور بالواسطہ فیض بھی ہے۔ صحابہ کرام، خلفائے راشدین، اہل بیت اَطہار، حضور داتا گنج بخش علی ہجویری، بابا فرید الدین گنج شکر، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت اویس قرنی، حضرت بایزید بسطامی الغرض قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤ الدین تک کل سلاسل و طرق کے اولیاء کا فیض اس تحریک کو حاصل ہے۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ میں ایک ایک بزرگ کا نام گن گن کر بتا رہا ہوں۔ یہ نام میں ویسے ہی ان بزرگوں کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے نہیں بتا رہا بلکہ چُن چُن کر یہ نام اس لیے بولے کہ ان سب کا فیض عملاً اس تحریک میں شامل ہے۔

3۔ تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہے

یہ بات بھی سمجھ لیں کہ جس طرح کوئی فرد بطور مجدد تجدید کرتا ہے، ویسے ہی ایک جماعت بھی تجدید کا کام کرتی ہے اور اس کے ذمے بھی مجددانہ کام ہوتا ہے۔ تجدید اِجتماعی شکل میں بھی ہوتی ہے اور انفرادی شکل میں بھی ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں حسبِ ضرورت اور کام کی نوعیت کے پیشِ نظر تجدیدی کام کے دائرے ہوتے ہیں۔ جب دین کے کسی ایک حصہ، گوشہ، موضوع، میدان اور شعبہ کی قدریں مٹتی اور پامال ہوتی ہیں تو ان اقدار کو زندہ کرنے، ان کے اَز سر نو اِحیاء اور نِشأۃ ثانیہ کے لیے اﷲ تعالیٰ تجدید کی ذمہ داری کسی کو سونپتا ہے۔

اُس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تحریک منہاج القرآن اِس صدی کی تجدیدی تحریک ہے۔ اس صدی میں احیائے اسلام، تجدید دین اور اُمتِ مسلمہ کی اصلاح کا کام اس کے ذمہ ہے۔ اس تحریک کے ذمہ دین کے عقیدہ، قدر و منزلت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ، عظمت و رفعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ، عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ اور ادب و تعظیم و تکریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ کا احیاء کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس صدی کے شروع میں پھر سے بدعقیدگی، گستاخی اور مادیت کی گرد میں اصل عقیدہ چھپ گیا تھا۔۔۔ لوگوں کا قلب صاحبِ گنبدِ خضریٰ سے کٹ گیا تھا۔۔۔ دین کی روحانی کے بجائے مادی تعبیر ہونے لگ گئی تھی۔۔۔ روحانی قدریں مٹ گئی تھیں۔۔۔ روحانیت، تصوف، طریقت و معرفت سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیا تھا۔۔۔ تصوف اور طریقت کا نام لینے اور طریقت کے کام کرنے والے کے عمل کو دیکھ کر لوگ طریقت کو چھوڑنے لگے تھے۔۔۔ تصوف کا نام لینے والوں کے حالات دیکھ کر لوگ تصوف سے بدظن ہوگئے تھے۔۔۔ جن کے پاس درست عقیدہ تھا، وہ علم سے محروم ہوگئے اور قصوں، کہانیوں اور فتوئوں پر آگئے۔۔۔ عقیدہ سچ تھا مگر علم و عمل نہ رہا۔ یعنی علم اور عمل صالح سے عاری ہوگئے۔۔۔ نماز، روزہ، تقویٰ، خوفِ اِلٰہی، خشیت الہی، اطاعت رسول، اتباع رسول، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے عمل کی تاکید کرنا اور اسلام کی ان بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کرنا ہمارا طرز نہ رہا بلکہ خالی تقریریں، وعظ، فتوے، غصہ، ناراضگی اور جلال رہ گیا۔ لہٰذا مسلکِ حقہ کے ترجمانوں کی کم علمی، کم عملی اور بے عملی دیکھ کر عامۃ الناس سچے عقیدے کو چھوڑنے لگے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور محبت کے تذکروں کی مجلسیں اجڑ گئی تھیں۔ صحیح اور سچے عقیدے والے لوگ دفاعی پوزیشن (defensive) پر آگئے تھے اور انہیں اپنا دفاع مشکل تھا۔ ان میں کوئی صاحبِ علم ڈھونڈنے کو نہ ملتا تھا۔ لوگ طعنے دیتے اور کہتے تھے کہ اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد تم میں کون ہے؟ ہمارے ہاں کوئی صاحبِ تصنیف و تالیف نہ تھا، کوئی صاحبِ کلام و قلم نہ تھا، ہر طرف ویرانی تھی۔ عملی میدان دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ لوگ روحانیت، تصوف اور معرفت کی باتیں فتوئوں کے ڈر سے گھبرا کر نہ کرتے تھے۔ کالج و یونی ورسٹی تک آپ کی بات پہنچانے والا کوئی نہ تھا۔ جدید علم، منطق، فلسفہ، عقل، حکمت، سوشیالوجی، ماڈرن زبانوں، سائنس، ایمبریالوجی، کاسمولوجی، فزکس، کیمسٹری، میڈیکل سائنس الغرض ہر ہر جہت اور جدید انداز سے ہر محاذ پر دوسرے لوگ غالب تھے۔ ہمارے لوگ پرانے قصے کہانیوں والے اور جاہل و اَن پڑھ تصور ہوتے تھے۔

چودھویں صدی ہجری کے آغاز سے قبل پچھلے پورے پچاس سال کی یہ تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ اس پچاس سال کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں موجودہ صدی یعنی چودھویں صدی کا آغاز ہوا۔ 1401 ہجری انگریزی سال کے مطابق 1980ء تھا اور اسی سال 17 اکتوبر 1980ء کو تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی گئی۔ اِدھر نئی صدی کا آغاز ہوا، ادھر رب کائنات نے اِس صدی کی تجدید کا آغاز فرما دیا۔ آج الحمدللہ مسلک و عقیدہ حقہ ہر حوالے سے تحریک کی خدمات کی بدولت defensive پوزیشن پر نہیں بلکہ offensive پر ہے اور مذکورہ ہر ہر محاذ پر منہاج القرآن کی علمی، فکری اور تحقیقی خدمات اظہر من الشمس اور زبان زدِ عام ہیں۔

4۔ مزاحمت، حق ہونے کی علامت ہے

اس مشن اور تحریک کی کراچی سے پشاور تک ہر ایک نے مخالفت کی۔ اپنوں اور غیروں دونوں نے بڑھ چڑھ کر مخالفت کی اور ہر ایک نے راستہ روکا۔ طرح طرح کے فتوے لگائے گئے۔ واجب القتل کے فتوے دیے، مرتد کہا، خارج اَز اِسلام بنایا، اجماعِ اُمت کا مخالف بنایا۔ خدا کی قسم! اگر اس تحریک کے پیچھے خدا کا فضل اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تائید و شفقت نہ ہوتی تو جتنی مخالفت اس تحریک کی ہوئی، یہ کبھی کی دفن ہوچکی ہوتی۔ حکمران، جاگیردار، سرمایہ دار، تاجر، مال دار، بڑی بڑی گدیاں، بڑے بڑے علمائ، مدرسے،دھڑے، اخبار،رسالے، میڈیا سب ہمارے مخالف رہے۔ ان حالات میں خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ ہمیں حاصل رہا اور حاصل ہے اور ان شاء اللہ حاصل رہے گا۔ اتنی مخالفت ہو اور پھر بھی تحریک پروان چڑھتی چلی جائے۔ سارا جہان راستے روکے، گولیاں چلائے، عدالتیں استعمال کرے، اخبارات استعمال ہوں، رسالے لکھے جائیں، مزاحمتیں اور سازشیں ہوں، کردار کشی ہو، ہر طوفان اٹھایا جائے مگر تحریک کو روکا نہ جاسکے۔۔۔ یہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔؟ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد و نصرت کا اس سے اور بڑا ثبوت کیا ہے۔۔۔؟ اس تحریک کے حق ہونے اور اس صدی کی تجدیدی تحریک ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے۔۔۔؟ اس تحریک کو کوئی نہیں روک سکا اور کوئی روک سکے گا بھی نہیں۔ تمام دنیائے مخالفت جمع ہوجائے پھر بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے قافلے کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ کے حضور ہماری عاجزی ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ سب اﷲ کا کرم اور آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کا صدقہ ہے۔

میری پوری زندگی میں جدوجہد کا ایک مرحلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں مزاحمت نہ آئی ہو۔ ہمیشہ مزاحمت ہوئی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مزاحمت کبھی آگے بڑھنے کا راستہ نہیں روک سکی۔ حق کی پہچان ہی یہ ہے کہ اسے مزاحمت ہوتی ہے جبکہ باطل کو مزاحمت نہیں ہوتی۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لوٹ مار کو کوئی مزاحمت نہیں جبکہ ایمانداری کو مزاحمت ہے۔۔۔ غنڈہ گردی، بدمعاشی کو کوئی مزاحمت نہیں جبکہ شرافت کو مزاحمت ہے۔۔۔ کرپشن کو کوئی مزاحمت نہیں جبکہ دیانت داری کے لیے مزاحمت ہے۔ ہر محاذ پر جب حق کی آواز بلند کرتے ہیں تو مزاحمت کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ باطل، حق کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے، لہٰذا حق کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

باطل چونکہ باطل ہے، جھوٹا ہے اس لیے اُس کو ہر وقت فکر اور ڈر رہتا ہے کہ میرا صفایا اور خاتمہ نہ کر دیا جائے، لہذا اس وجہ سے وہ مزاحمت کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حق کو بھی تو باطل سے یہی خطرہ ہوتا ہے کہ باطل مجھے ختم نہ کردے، لہذا حق کو بھی چاہئے کہ وہ بھی مزاحمت کرے؟ یاد رکھیں! حق کو کبھی کسی کا خطرہ و خوف نہیں ہوتا۔ حق کو اپنے حق ہونے کی وجہ سے اور اپنے اندر موجود سچائی کی طاقت کی وجہ سے اتنا اعتماد و اعتبار ہوتا ہے کہ باطل پہاڑ کی طرح بھی ہو تو حق اس سے خطرہ محسوس ہی نہیں کرتا۔ وہ ایک چھوٹا سا پتھر ہو کر بھی اپنے آپ کو پہاڑ سے زیادہ طاقتور سمجھتا ہے۔ اُس کے اندر حق، سچائی، ایمان، امانت اور دیانت کی طاقت ہوتی ہے۔ سچائی کی طاقت ایٹم بم کی طرح ہے۔ اُس کے اندر بڑا confidence ہوتا ہے، لہٰذا وہ اپنے لیے باطل کو thre صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم t نہیں سمجھتا۔

تاریخ گواہ ہے کہ باطل جتنا بھی طاقتور سامنے کھڑا ہو، حق کو کبھی اس سے خوف و خطرہ محسوس ہی نہیں ہوا۔ حضرت موسیٰ اور فرعون، حضرت ابراہیمؑ اور نمرود، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفارِ مکہ، امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید یہ تمام کردار اس بات کے براہین قاطعہ ہیں۔

حق کے خلاف مزاحمت زندگی میں کسی مرحلے پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ آقا علیہ السلام کے لیے تادمِ وصال مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ مکہ معظمہ میں تھے تو مزاحمتوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہجرت کروائی۔ ہجرت کر کے اڑھائی تین سو میل دور ایک نیا شہر آباد کیا، اُس کو ریاست اور سلطنت بنایا مگر مزاحمت وہاں بھی نہیں رکی۔ غزوات و سرایا کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ پھر باطل نے جب دیکھا کہ حق طاقتور ہوتا جا رہا ہے تو داخلی مزاحمتیں بھی شروع ہو گئیں، قبائل کی مزاحمتیں بھی شروع ہو گئیں پھر اندرونی اور بیرونی سازشوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا۔ الغرض مزاحمتیں ہی مزاحمتیں رہیں۔ حتیٰ کہ فتح مکہ کے بعد بھی مزاحمت نہیں رکی اور حیات مبارکہ کے آخری سال تک مزاحمتوں کا سامنا رہا۔ لہذا ان مزاحمتوں سے کارکنان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ آپ کی تحریک اور مشن کے حق پر ہونے کی علامت ہے۔

5۔ تحریک منہاج القرآن اور معاصر جماعتوں کا موازنہ

آج برصغیر پاک و ہند کیا بلکہ دنیا بھر کی تحریکوں، ان کے بانی، قائدین، کارکنان اور خدمات کے دائرہ کار کا تحریک منہاج القرآن سے موازنہ کرلیں کہ اپنے قیام کے ابتدائی 39 سالوں میں تحریک نے کہاں تک کامیابی حاصل کی اور ملک و قوم کو کیا دیا اور دوسری جماعتوں یا تحریکوں نے کیا خدمات انجام دیں؟ جب ہمارے 39سال کا کسی بھی تحریک کے 39 سالوں کے ساتھ موازنہ کریں گے تو یہ امر واضح نظر آئے گا کہ کوئی بھی جماعت یا تحریک اتنے عرصہ میں پورا ملک تو در کنار، دو چار ڈویژنز تک بھی نہ پہنچی ہو، ان سے ایک دار العلوم بھی نہ بن پایا ہو، مشکل سے اس ملک میں اسے چند لوگ جاننے لگے ہوں گے یا دس بارہ، بیس پچیس دفاتر کھلے ہوں گے، گویا نہایت ہی محدود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم chievements ہوں گی جبکہ دوسری طرف آج منہاج القرآن کے 39سال کو دیکھیں تو دنیا کے پانچوں براعظم میں اس کا وجود ہے۔ دنیا کے سو (100) ممالک میں اس کا باقاعدہ نیٹ ورک اور غلغلہ و تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں اس کی نمائندگی موجود ہے۔ ان ممالک میں منہاج القرآن کے دفاتر، مراکز، تعلیمی و تربیتی ادارے، اسلامک سنٹرز اور مساجد قائم ہیں۔ اسی طرح پاکستان کا ایک ضلع بھی ایسا نہیں جو تحریک کے وجود سے خالی ہو۔ اکثریت اَضلاع وہ ہیں جہاں اس کا عظیم نیٹ ورک ہے۔

پاکستان میں منہاج القرآن کے مرکز اور سیکڑوں اسکولز قائم ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں پاکستان کی سب سے بڑی اسلامک یونی ورسٹی منہاج یونیورسٹی ہے۔ اس کے برابر کوئی دار العلوم، کوئی دینی ادارہ، کوئی اسلامک یونی ورسٹی نہیں ہے۔ اس کو جامعۃ الازہر (مصر) نے اپنی ڈگری کے برابر declare کر دیا ہے۔ اس کے گریجوایٹ بغداد، مصر، دمشق کی یونی ورسٹیوں میں exchange پروگرام پر آتے جاتے ہیں۔

اسی طرح تحریک کے زیر اہتمام منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کا دنیا بھر میں نیٹ ورک ہے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی نے ملک بھر میں تعلیمی ادارہ جات قائم کررکھے ہیں۔ ادارہ منہاج القرآن کے تحت دعوتی و تربیتی حلقہ جات ہوتے ہیں۔ ایک ہزار تصانیف کا کام ان 39 سالوں میں مکمل ہوا، جن میں سے ہر موضوع پر مشتمل 550 سے زائد تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ جملہ جہات پر ہونے والے اس قدر جامع علمی و تحقیقی کام کی گذشتہ کئی صدیوں میں مثال نہیں ملتی۔

علیٰ ہذا القیاس چھ ہزار سے زائد موضوعات پر لیکچرز ہیں۔ ماضی و حال میں جہاں بھی نگاہ دوڑائیں تو اگر کوئی صاحبِ تصنیف ہے تو ان کے خطابات نظر نہیں آئیں گے اور جو خطیب ہوئے، ان کی کوئی تصنیف نظر نہیں آئے گی۔ اسی طرح جو خطاب کرنے والے ہوئے ان کی تدریس نظر نہیں آئے گی اور جو تدریس کرنے والے ہوئے، وہ بطور مربی (تربیت کرنے والے) نہیں۔ جس سمت بھی نظر اٹھا لیں، ایک میدان میں کام ہوگا۔ کوئی تبلیغ میں ہے تو تصنیف نہیں ہے اور اگر تدریس ہے تو تعلیم و تربیت نہیں ہے۔ آپ جس عالم، محقق، مفسر کا چاہیںبائیو ڈیٹا دیکھ لیں، آپ کو اس سے مختلف بات نہیں ملے گی مگر تحریک منہاج القرآن دنیا کی واحد تحریک ہے جہاں یہ تمام جہات اکٹھی ہیں۔ یہاں کثیر تصانیف، چھ ہزار موضوعات پر خطاب، تدریس، تقریر، وعظ و نصیحت، تعلیم و تربیت، انسانی فلاح و بہبود، معاشرتی خدمات، سیاسی جدوجہد، معاشرتی اصلاح، روحانی اصلاح، تعمیرات، اداروں اور تنظیمات کا قیام الغرض ہر چیز نظر آتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے مالی معاملات کو کسی بھی حکومت اور ریاست کی کسی قسم کی کوئی بھی معاونت حاصل نہیں ہے۔ پچھلے سو سال کی تاریخ میں کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس میں یہ ساری خوبیاں جمع ہوں۔

اسی طرح گذشتہ 14 سو سال کے مجددین کی تاریخ پر بھی نظر دوڑائیں تو یہی نظر آتا ہے کہ ان کے کام اور خدمات کی جہات بھی محدود اور یک رخی تھیں جبکہ تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام ہر جہت پر بیک وقت کام ہورہے ہیں۔

6۔ یہ سب تمہارا کرم ہے آقا!

ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ ان تمام مصروفیات کے ہوتے ہوئے اتنی کتابیں، اتنی تصانیف و تالیفات کس طرح ممکن ہیں؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ کچھ خبر نہیں، اُس مالک کو خبر ہے۔ میں نکتہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تمام کام طاہر القادری نہیں کرتا۔ یہ میری مجال، سکت، صلاحیت اور قابلیت نہیں بلکہ یہ جن کا کام ہے وہی کرواتے ہیں۔ جن کے دین کی تجدید ہے، انہی کے فیض سے ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی کوئی اور توجیہ ہمارے پاس نہیں ہے۔

اگر ذہن میں خیال آئے کہ شاگرد معاونت کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سا عالمِ دین ہے جس کے دنیا میں شاگرد نہیں ہیں۔ اگر شاگردوں کی معاونت سے سیکڑوں کتابیں آجاتی ہیں تو ہر عالم، محقق، فاضل ہستی کے شاگرد اور مرید ہوتے ہیں، تو ان میں سے ہر کوئی اس طرح کرلیتا۔ کیا باقیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے؟ کیا صرف منہاج القرآن کے پاس کمپیوٹر ہیں اور باقیوں کے پاس کمپیوٹر نہیں ہیں؟ کون سی نئی سہولت ہے جو اوروں کے پاس نہیں اور ہمارے پاس ہے؟

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ماجرا ہے کہ وہاں خدمات کا دائرہ کار نہایت ہی محدود اور یہاں ہر سمت و جہات میں خدمات کا ایک انبار ہے اور سارے کام بیک وقت ایک رفتار سے ہورہے ہیں؟ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ یہ انسانی بس کی بات نہیں۔ یہ امرِ آسمانی ہے کہ اس صدی میں منہاج القرآن کے ذریعے اسلام کی تجدید ہونا ہے۔ اس لیے اﷲ کے امر اور آقا علیہ السلام کے معجزے سے یہ تکمیل ہورہی ہے۔ یہ معجزۂ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، ہم کچھ نہیں ہیں۔ امرِ الٰہی ہے کہ تجدید ہونی ہے، لہذا کام ہورہا ہے۔ جب اﷲ کا امر ہوتا ہے تو پھر ہر ناممکن، ممکن ہوجاتا ہے۔

پیغام

اس صدی میں دین اسلام کی تجدید تحریک منہاج القرآن کے ہاتھوں اﷲ تعالیٰ کروا رہا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس قافلے میں شریک ہوگئے۔ لوگ آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے، سواریاں چڑھتی ہیں، اترتی ہیں مگر ہر ایک کو منزل نصیب نہیں ہوتی۔ خوش نصیب ہے وہ جو اس گاڑی پر چڑھے گا اور منزل پر جاکر اترے گا۔

تحریک منہاج القرآن کے 39 ویں یوم تاسیس پر کارکنان و رفقاء کو یہ پیغام ہے کہ ہر ایک کو اﷲ نے کوئی نہ کوئی صلاحیت، استعداد اور خوبی ودیعت کی ہے، جس کے پاس جو صلاحیت ہے اُسے چاہئے کہ وہ اُس کو اِس مشن کے فروغ کے لیے استعمال کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور روحانیت کے اس مشن کی رفاقت میں آکر تجدید دین اور احیائے اسلام کے اس مشن کے لیے دن رات ایک کردیں اور حقیقی معنی میں اسلام کی حقیقی اور سچی تعلیمات کے علمبردار بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم