ریٹائرمنٹ کے اعلان سے ایک نئی روایت کا قیام

خصوصی رپورٹ

بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو بنی نوع انسانیت اور اہلِ وطن کے لیے کچھ اہداف مقرر کرتی ہیں اور پھر اللہ کی تائید و نصرت سے وہ اپنی زندگی میں ہی ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی انہی خوش قسمت ہستیوں اور شخصیات میں سے ایک ہیں۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت کا مختصر الفاظ میں اگر احاطہ کیا جائے تو ہم انہیں ایک ریفارمر قرار دیں گے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دین اور سیاست میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ اگر ان کی خدمتِ دین پر مختصر سی نگاہ ڈالی جائے تو انہوں نے امت کے شعور کو اجاگر کرنے کے لیے ایک ہزار سے زائد کتب تحریر کیں، عالمی معیار کی یونیورسٹی، کالجز اور سیکڑوں تعلیمی ادارے بنائے اور ویلفیئر کے بین الاقوامی معیار کے ادارے قائم کیے، انہوں نے بیک وقت دین، سیاست اورفلاح عامہ کے لیے عظیم کام کیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات اور قلم کی وجہ سے آج ہزاروں خاندان برسرِ روزگار ہیں، ان کی ذات علمی، روحانی، تربیت کا منبع ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انہوں نے پوری دنیا میں اسلام کے پرچم کو سربلند رکھنے کیلئے عالمگیر تنظیمی نیٹ ورک کا جو خواب آنکھوں میں سجایا تھا، 39 سال کے مختصر عرصہ میں انہوں نے اس خواب میں تعبیر کے رنگ بھر دئیے۔ آئیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نظام کی اصلاح کے لیے انجام دی جانے والی خدمات اور قائم کیے جانے والے اداروں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں:

عوامی تحریک کاقیام اور ایجنڈا

 پاکستان عوامی تحریک 25 مئی 1989ء میںقائم ہوئی۔ اول روز سے اس کی جدوجہد وطنِ عزیز سے کرپشن ،استحصال ،دھن، دھونس اور دھاندلی پر مبنی انتخابی نظام کے خاتمے ،جامع اصلاحات اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے تھی۔ جائز و ناجائز طریقے سے اقتدارکا حصول کبھی بھی عوامی تحریک کے پیش نظر نہیں رہا۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مروجہ سیاست کے برعکس سیاست کو تجارت نہیں بننے دیا۔عوامی تحریک تشکیل دینے سے قبل بھی ان کا انقلابی ایجنڈا بڑا واضح تھا۔

عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے دسمبر 2012ء میں مینار پاکستان پر ایک عظیم الشان جلسہ / عوامی استقبال کا انعقاد ہوا۔ اتنا بڑا انسانی سمندر مینار پاکستان پر اس سے پہلے دیکھا گیا اور نہ آئندہ دیکھا جا سکے گا۔اس عوامی استقبال میں الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق ترتیب و تشکیل دینے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان ہوا اور پھر جنوری 2013ء میں لاکھوں عوام اسلام آباد گئے اور اس وقت کی حکومت نے انتخابی نظام کو آئین کے تابع کرنے کے لیے تحریری معاہدہ کیا۔ اس طرح اس لانگ مارچ کے ذریعے نظامِ انتخاب کی کوتاہیاں اور قباحتیں عوام الناس تک پہنچیں۔اس کے بعد عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے سیکڑوں شہروں میں غیر آئینی انتخابی عمل کے خلاف پرامن ریلیاں نکالی گئیں۔ 2014ء میں انقلاب مارچ کیا گیا اور اس نظام کا اصل چہرہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قوم کو دکھایا۔ 2014ء کا انقلاب مارچ پاکستان کی سیاسی، احتجاجی تحریک میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

بیداریٔ شعور مہم اور اداروں کا قیام

ٍ 1993ء کے آغاز میں جامع عوامی تعلیمی منصوبہ کا اعلان کیا گیا، یہ بیداری شعور مہم کا حصہ تھا،اس پر تسلسل سے کام جاری ہے، جامع اصلاحات آئینی نظام انتخاب اور حقیقی جمہوریت کی ترویج کیلئے پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے بیداری شعور مہم چلائی گئی۔ قوم کو ایجوکیٹ کرنے اور شرح خواندگی میں اضافہ کے لیے ملک بھر میں 600 سے زائد ماڈل تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جن میں منہاج یونیورسٹی لاہور،کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج گرلز کالج،آغوش گرائمر سکو ل جیسے ممتاز تعلیمی ادارے قابلِ ذکر ہیں۔ آج لاکھوں طلبہ ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ہزاروں اساتذہ قوم کے بچوں اور بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کررہے ہیں۔ مزید تعلیمی منصوبے، سکولز اور کالجز قائم کیے جارہے ہیں۔تعلیمی شعبہ میں شیخ الاسلام کی یہ وہ عظیم خدمت ہے جس پر پاکستان کے عوام فخر کر سکتے ہیں۔

پاکستان عوامی اتحاد کی تشکیل/ دیگر الائنس

پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سربراہی میں پاکستان کی سیاست میں قابل ذکر اتحاد قائم ہوئے، اس ضمن میں پاکستان عوامی اتحاد تشکیل پایا۔ اس کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، ڈیموکریٹک نیشنل الائنس بھی بنے۔ نوابزادہ نصراللہ، محترمہ بینظیر بھٹو اور دیگر ممتاز سیاسی شخصیات اس میں شامل تھیں۔ ان پلیٹ فارمز سے شہر شہر جا کر جلسے کیے گئے اور عوامی شعور اجاگر کیا گیا۔ عوام کی توجہ کرپشن اور دھاندلی سے پاک نظام کی طرف مبذول کروائی گئی۔نظام کی تبدیلی کو عوامی نعرہ بنایاگیا۔ استحصالی نظام کے خلاف پہلے کبھی کسی نے بات نہ کی تھی ،یہ سوچ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دی۔

انتخابی سیاست میں حصہ اور نتیجہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1989ء میں عوامی تحریک کی داغ بیل ڈالتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم دو الیکشن لڑیں گے اور دیکھیں گے کہ اس نظام کے تحت کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ 1990ء اور 2002ء میں ہونے والے دو الیکشن لڑنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ نظام پڑھے لکھے مڈل کلاس کے نمائندوں کو منتخب نہیں ہونے دے گا، اس نظام کے تحت وہی لوگ برسراقتدار آسکتے ہیں جن کے پاس منی لانڈرنگ، کرپشن، منشیات، لوٹ مار کا پیسہ ہے اور جن کے پاس بندوق اور ڈنڈا بردار افرادی قوت ہے ،یہ نظام ان کا ہے جو انتظامی مشینری کو خرید سکتے ہیں یا ڈرا کر اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں۔ لہٰذا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے اپنی حکمت عملی کے تحت بیداری شعور مہم کو اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کے اندر اور باہر بے مثال تعلیمی ادارے قائم کیے اور مزید کیے جارہے ہیں۔

انتخابی سیاست سے الگ رہنے کا فیصلہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے 2002ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ قومی اسمبلی صرف ایک ڈیبیٹ کلب ہے، یہاں پر مراعات کے لیے اور اپنے جائز و ناجائز کاروبار بڑھانے کے لیے ریاستی اور جمہوری طاقت کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے تو انہوں نے ان مراعات اور اسمبلی کو ٹھوکر مار دی اور پاکستان کے عوام اور مسلم امہ کے لیے عالمگیر بیداری شعور مہم کا آغاز کیا۔

انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کی جدوجہد

اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد بیداری شعور مہم میں مزید تیزی لائی گئی مگر اس دوران ملک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی نے گھیر لیا، ہمارے بازار، مارکیٹیں، مساجد ،خانقاہیں نیز اقلیتی عبادت گاہیں، فورسز کے مرکزی دفاتر اور سویلین ادارے خودکش دھماکوں کی لپیٹ میں آگئے۔ ہر سمت ایک خوف و ہراس کا عالم تھا،اس دوران انہوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فکری و نظریاتی سطح پر عالمگیر جدوجہد کا آغاز کیااورنئی نسل کو فتنہ تکفیریت سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ اس سے بچنے کی سوچ بھی دی۔ 2010ء میں انسداد دہشتگردی کے خلاف ایک جامع فتویٰ دیا، امن نصاب دیا اور پوری دنیا میں امن کانفرنسز منعقد کر کے دنیا پر واضح کیا کہ اسلام ایک پرامن دین ہے، اس کا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ان کے اس بیانیے کو غیر مسلم ممالک اور حلقوں میں پذیرائی ملی۔

بیداری شعور مہم کے اہداف

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بیداری شعور کی مہم کا یہ دورانیہ 2004ء سے لیکر 2012ء تک پوری شدت کے ساتھ جاری رہا، اس کے بعد انہوں نے سیاسی، انتخابی نظام کو کرپشن اور دھاندلی کے لا حق کینسر کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا، کرپشن کے خاتمے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات اور آئین کے آرٹیکل 62اور 63 کی اہمیت کو اجاگر کیا اور آج یہی آرٹیکل کرپشن کے خاتمے کے لیے پہلی سیڑھی بنے۔

انتخابی نظام بدلنے کے لیے تحریری معاہدہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سیاست کو کرپشن اوردھاندلی زدہ انتخابی نظام سے پاک کرنے کیلئے 2013ء میں لانگ مارچ کیا ، اس مارچ میں لاکھوں افراد جن میں خواتین بھی شریک تھیں، اس لانگ مارچ کا اختتام اس وقت کی حکومت کے ساتھ انتخابی اصلاحات کے ضمن میں8نکات پر مشتمل ایک تحریری معاہدہ سے ہوا اوراس وقت کی حکومت نے نظام انتخاب کے اندرموجود نقائص کو تسلیم کیا، اس معاہدے میں وزیراعظم ،کابینہ کے وزراء اور حکومتی اتحادی شامل تھے۔8 نکاتی معاہدے میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ ضروری قانون سازی کر کے الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق کردار کی ادائیگی کے قابل بنایا جائے گا۔ سیاسی محاذ پر یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی ، حکومت عوامی دباؤ پر معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی۔

آئین کا آرٹیکل 62 اور 63

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سیاسی، عوامی جدوجہد کی وجہ سے عوام کی توجہ آئین کے ان آرٹیکلز کی طرف گئی جن کا کبھی ذکر نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس بات پر زور دیا کہ جو نمائندے آئین کے آرٹیکل 63,62 پر پورا نہیں اترتے، انہیں رکن پارلیمنٹ بننے کا یا رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس آرٹیکل پر اس سے پہلے کبھی بات نہیں کی گئی تھی اور پھر بعدازاں کرپٹ ترین پولیٹیکل عناصر انہی آرٹیکلز کے تحت نااہل ہوئے اور ان کا احتساب شروع ہوا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی پرعزم سیاسی جدوجہد اور اشرافیہ کے خلاف احتجاجی لائحہ عمل پر انہیں سنگین نتائج کی نہ صرف دھمکیاں دی گئیں بلکہ اس وقت کی کرپٹ ایلیٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کیا۔ سینکڑوں پولیس اہلکاروں اور افسران نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پرحملہ کیا ،14لوگوں کو شہید کیا، سیکڑوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعدازاں کرپٹ اشرافیہ نے معافی تلافی کے لیے رابطے کیے جنہیں مسترد کر دیا گیا اورآج بھی حصولِ انصاف کی جدوجہد جاری ہے۔

فیڈرل کونسل اور سنٹرل ورکنگ کونسل سے مشاورت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیگر سیاسی جماعتوں کے موروثی نظام سیاست کے برعکس عوامی تحریک کی باگ ڈور اس کے کارکنوں کے ہاتھ میں دی ہے۔ یہاں پر کوئی کونسلر کا عہدہ نہیں چھوڑتا، ڈاکٹر صاحب نے ایم این اے شپ اور پارٹی کی صدارت سے ریٹائرمنٹ لے کر ایک نئی روایت قائم کی ہے۔