الفقہ: مزارات پر پھول چڑھانے اور چراغاں کرنے کا حکم

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

تمام مخلوقات اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہیں، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِیهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ إِنَّهُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا.

’’ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بے شک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے‘‘۔

(بنی اسرائیل، 17: 44)

معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز اپنی زبان اور حال کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی پاکی بولتی ہے ہاں مگر ہر چیز کی تسبیح کو ہر ایک نہیں سمجھتا۔ اہل ایمان کی قبروں پر جو سبزہ گھاس وغیرہ ہے وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتا ہے اور اس کا ثواب قبر والے کو پہنچتا ہے۔ نیک ہے تو اس کے درجات بلند کیے جاتے ہیں، گناہگار ہے تو اس کی مغفرت ہوتی ہے اور عذاب میں تخفیف کا باعث ہے۔ قبروں اور مزارات پر لوگ پھول چڑھاتے ہیں اس کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ سبزہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر و تہلیل کرے گا اور اہلِ قبور کو اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک ہرا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ فرمایا:

إِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لاَ یَسْتَتِرُ مِنَ البَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَکَانَ یَمْشِی بِالنَّمِیمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِیدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا بِنِصْفَیْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ یُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا.

’’ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا، ایک پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں کیا؟ فرمایا کہ شاید ان کے عذاب میں تخفیف رہے جب تک یہ سوکھ نہ جائیں‘‘۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الجرید علی القبر، 1: 458، رقم:1295)

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

إِنَّ الْمَعْنَی فِیهِ أَنَّهُ یُسَبِّحُ مَا دَامَ رَطْبًا فَیَحْصُلُ التَّخْفِیفُ بِبَرَکَةِ التَّسْبِیحِ وَعَلَی هَذَا فَیَطَّرِدُ فِی کُلِّ مَا فِیهِ رُطُوبَةٌ مِنَ الْأَشْجَارِ وَغَیْرِهَا وَکَذَلِکَ فِیمَا فِیهِ برکَة کَالذِّکْرِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ مِنْ بَابِ الْأَوْلَی.

مطلب یہ کہ جب تک ٹہنیاں (پھول، پتیاں، گھاس) سر سبز رہیں گی، ان کی تسبیح کی برکت سے عذاب میں کمی ہوگی بنابریں درخت وغیرہ جس جس چیز میں تری ہے (گھاس، پھول وغیرہ) یونہی بابرکت چیز جیسے ذکر، تلاوت قرآن کریم، بطریق اولیٰ باعث برکت و تخفیف ہیں، وھو اولی ان ینتفع من غیرہ اس حدیث پاک کا زیادہ حق ہے کہ بجائے کسی اور کے اس کی پیروی کی جائے۔

(عسقلانی، فتح الباری، 1: 320)

شیخ انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں:

فِیْ(الدُّرِ الْمُخْتَارِ) اِنَّ اِنباتَ الشجرةِ مُسْتَحبٌّ... وَفِیْ (الْعَالَمْگِیْرِیَةِ) أنَّ اِلقاءَ الرِیَاحِیْنَ أیضًا مُفِیْد.

در مختار میں ہے قبر پر درخت لگانا مستحب ہے۔۔۔ اور فتاوی عالمگیری میں قبر پر پھول چڑھانا، ڈالنا بھی مفید ہے۔

(أنور شاہ کشمیری، فیض الباری شرح صحیح بخاری، 3: 72)

شیخ رشید احمد گنگوھی کا مؤقف درج زیل ہے:

ابن عابدین (شامی)نے فرمایا ہری جڑی بوٹیاں اور گھاس قبر سے کاٹنا مکروہ ہے جبکہ خشک جائز ہے۔ جیسا کہ البحر و الدرر اور شرح المنیہ میں ہے۔ الامداد میں اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب تک گھاس، پھول، پتے، ٹہنی سر سبز رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کریں گے اس سے میت مانوس ہوگا اور رحمت نازل ہوگی۔ اس کی دلیل وہ حدیث پاک ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر سبز ٹہنی کے دو ٹکڑے کرکے جن دو قبروں کو عذاب ہو رہا تھا، ایک ایک ٹہنی ان پر رکھ دی۔ اس ارشاد پاک کی پیروی کرتے ہوئے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قبروں پر پھول، گھاس، اور سر سبز ٹہنیاں رکھنا مستحب ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے یہ جو ہمارے زمانہ میں قبروں پر تروتازہ خوشبودار پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذکر کیا کہ حضرت بریدہ اسلمیj نے اپنی قبر میں دو ٹہنیاں رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔

(رشید أحمد گنگوهی، لامع الدراری علی جامع البخاری، 4: 380)

ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اور امام طحاوی نے حاشیہ مراقی الفلاح میں فرمایا ہے:

أَفْتَی بَعْضُ الْأَئِمَّةِ مِنْ مُتَأَخِّرِی أَصْحَابِنَا بِأَنَّ مَا اعْتِیدَ مِنْ وَضْعِ الرَّیْحَانِ وَالْجَرِیدِ سُنَّةٌ لِهَذَا الْحَدِیثِ.

ہمارے متاخرین ائمہ احناف نے فتوی دیا کہ قبروں پر جو پھول اور ٹہنیاں رکھنے کا دستور ہے اس حدیث پاک کی رو سے سنت ہے۔

  1. ملا علی قاری، مرقاة المفاتیح، 2: 53

  2. طحاوی، حاشیة علی مراقی الفلاح، 1: 415

امام طحاوی مذکورہ عبارت کے ساتھ مزید اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَإِذَا کَانَ یُرْجَی التَّخْفِیْفُ عَنِ الْمَیِّتِ بِتَسْبِیْحِ الجَرِیْدَةِ فَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ أَعْظَمُ بَرَکَةً.

اورجب ٹہنیوں کی تسبیح کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف کی امید ہے تو تلاوت قرآن کی برکت تو اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔

امام نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:

وَذَهَبَ الْمُحَقِّقُونَ مِنْ الْمُفَسِّرِینَ وَغَیْرهمْ إِلَی أَنَّهُ عَلَی عُمُومِهِ۔۔۔ وَاسْتَحَبَّ الْعُلَمَاء قِرَاءَة الْقُرْآن عِنْد الْقَبْر لِهَذَا الْحَدِیث؛ لِأَنَّهُ إِذَا کَانَ یُرْجَی التَّخْفِیْفُ بِتَسْبِیحِ الْجَرِید فَتِلَاوَة الْقُرْآن أَوْلَی.

محققین، مفسرین اور دیگر ائمہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث پاک عام ہے۔ ۔ ۔ علماء نے اس حدیث پاک کی روشنی میں قبر کے پاس تلاوت قرآن کو مستحب کہا ہے اس لیے کہ جب ٹہنی کی تسبیح سے تخفیف کی امید ہوسکتی ہے تو تلاوت قرآن سے بطریق اولیٰ امید کی جا سکتی ہے۔

(نووی، شرح صحیح مسلم، 3: 202)

ذیل میں زیرِ بحث مسئلہ سے متعلق فقہائے کرام کی آراء پیشِ خدمت ہیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

وَضْعُ الْوَرُوْدِ وَ الرِیَاحِیْنَ عَلَی الْقَبُورِ حَسَنٌ وَإِنْ تَصَدَّقَ بِقِیْمَةِ الوَرْدِ کَانَ أَحْسَنَ.

گلاب کے یا دوسرے پھول قبروں پر رکھنا اچھا ہے اور ان پھولوں کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ اچھا ہے۔

(الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، 5: 351)

پس یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ مسلمانوں کی قبروں پر پھول رکھنا، پتے، ٹہنیاں اور گھاس اگانا، رکھنا مسنون ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور اس کی جو وجہ بتائی کہ صاحب قبر کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور یہ عمل عام ہے قیامت تک اس کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی کلمہ گو اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انتہاء پسند ہیں اعتدال و توازن جو اسلامی احکام و تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ایک انتہا تو یہ ہے کہ سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلا سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر حرام قرار دے دیا جاتا ہے جو سراسر زیادتی اور احکامِ شرع کی خلاف ورزی ہے، دوسری طرف جائز و مستحسن بلکہ سنت سمجھنے والوں نے اس سنت کے ساتھ اتنی بدعات جو ڑ دیں کہ الامان و الحفیظ۔

مزاراتِ صالحین کے پاس موم بتیاں جلانے اور چراغ روشن کرنے کی اصل صرف یہ ہے کہ زائرین کسی وجہ سے دن کو زیارت قبور کے لیے نہیں آ سکتے، رات کو وقت ملتا ہے تو رات کے اندھیرے میں قبرستان اور صاحب مزار تک آرام سے پہنچنے کے لیے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کے وقت موم بتی یا چراغ وغیرہ کے ذریعہ روشنی کا انتظام کیا جاتا تھا تاکہ رات کو آنے جانے والوں، تدفین کرنے والوں اور زائرین کو تکلیف نہ ہو اور وہ روشنی میں بآسانی آ جا سکیں۔ یہ چراغاں عام راستوں میں قبرستانوں اور مساجد وغیرہ میں ہوتا تھا اور آج بھی بوقت ضرورت ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے اور اس کے جواز بلکہ استحباب میں کوئی شبہ نہیں۔

علامہ امام شیخ عبد القادر الرافعی الفاروقی الحنفی تقریرات الرافعی علی حاشیۃ ابن عابدین میں لکھتے ہیں:

’’اچھی بدعت (نئی بات)جو مقصود شرع کے موافق ہو سنت کہلاتی ہے۔ پس علماء اور اولیاء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا، ان کی قبروں پر پردے، عمامے اور کپڑے ڈالنا جائز ہے جب کہ اس سے مقصد لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت کا اظہار کرنا ہو تاکہ وہ صاحب قبر کو حقیر نہ سمجھیں۔ یونہی اولیاء و صلحاء کی قبر کے پاس قندیلیں اور شمعیں روشن کرنا، تعظیم و اجلال کی بنا پر ہے، سو اس میں ارادہ اچھا ہے۔ زیتون کے تیل اور موم بتیاں اولیاء اﷲ کی قبروں کے پاس روشن کی جاتی ہیں، یہ بھی ان کی تعظیم و محبت ہے، لہٰذا جائز ہے، اس سے روکنا نہیں چاہیے‘‘۔

(عبدالقادر الرافعی، تقریرات الرافعی علی حاشیه ابن عابدین، 2: 123)

علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

بَعْضُ الْفُقَهَاء ِ وَضْعَ السُّتُورِ وَالْعَمَائِمِ وَالثِّیَابِ عَلَی قُبُورِ الصَّالِحِینَ وَالْأَوْلِیَاءِ قَالَ فِی فَتَاوَی الْحُجَّةِ وَتُکْرَهُ السُّتُورُ عَلَی الْقُبُورِ وَلَکِنْ نَحْنُ نَقُولُ الْآنَ إذَا قَصَدَ بِهِ التَّعْظِیمَ فِی عُیُونِ الْعَامَّةِ حَتَّی لَا یَحْتَقِرُوا صَاحِبَ الْقَبْرِ، وَلِجَلْبِ الْخُشُوعِ وَالْأَدَبِ لِلْغَافِلِینَ الزَّائِرِینَ، فَهُوَ جَائِزٌ لِأَنَّ الْأَعْمَالَ بِالنِّیَّاتِ ، وَإِنْ کَانَ بِدْعَةً.

بعض فقہاء نے صالحین و اولیاء کی قبروں پر غلاف اور کپڑے رکھنے کو مکروہ کہا ہے۔ فتاویٰ الحجۃ میں کہا: قبروں پر غلاف چڑھانا مکروہ ہے لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظروں میں تعظیم و تکریم مقصود ہے تاکہ وہ قبر والے کو حقیر نہ سمجھیں اور عاجزی و انکساری پیدا ہو اور غافل زائرین میں ادب پیدا ہو تو یہ امور جائز ہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اگرچہ نئی چیز ہے۔

(ابن عابدین شامی، ردالمحتار، 6: 363)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمان کی قبر پر پھول چڑھانا بھی مسنون ہے اور زائرین کی سہولت کے لیے رات کو چراغ جلانا یا روشنی کرنا بھی کارِ خیر ہے۔ اس سے لوگوں کو آرام اور صاحبِ قبر کی عزت و عظمت کا اظہار ہوتا ہے یونہی غلاف چڑھانا بھی مزارات و صاحبان مزارات کی تعظیم و تکریم کا اظہار کرنا ہے مگر آج کل بعض مزارات و مقابر پر جو جہالت، فضول خرچی، گمراہی اور ماحول کی پرا گندگی و تعفن پیدا کیا جاتا ہے، وہ سراسر فضول، اسراف اور جہالت و گمراہی ہے۔