مینارِ پاکستان پر عظیم الشان 36 ویں عالمی میلاد کانفرنس

رپورٹ: محبوب حسین

تحریک منہاج القرآن کی پہچان اور انفرادیت محبت و عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے جشنِ میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام نہایت تزک و احتشام سے کیا جاتا ہے۔ الحمدللہ تحریک منہاج القرآن نے بھرپور ذوق و شوق کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت و الفت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری نبھانے کا پیغام نہ صرف دنیا بھر میں پہنچایا ہے بلکہ جشن آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاشرتی ثقافت کا اہم حصہ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی کے ساتھ ساتھ ولادتِ باسعادت کی مقصدیت و اہمیت کے تصور کو بھی تحریک اجاگر کررہی ہے اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشنی لیتے ہوئے آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرمسرت ساعتوں کو منانے کے ساتھ ساتھ اتحاد و یکجہتی، محبت و رواداری، امن و آشتی اور قوتِ برداشت کی تعلیمات کو بھی دنیا بھر میں عام کررہی ہے۔

اللہ رب العزت کے پیارے حبیب اور محسن کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر اظہارِ تشکر کے لئے اس سال بھی حسبِ روایت ماہ ربیع الاول کا چاند طلوع ہوتے ہی تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور مینارۃ السلام کو برقی قمقموں اور روشنیوں سے سجایا گیا۔ یکم ربیع الاول سے لے کر دس ربیع الاول تک مرکزی سیکرٹریٹ سے مشعل بردار ریلیاں نکالی گئیں، ان ریلیوں میں کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور مرکزی قائدین و سٹاف ممبران کے ساتھ ساتھ اہل محلہ بھی شریک ہوئے۔ نماز عشاء کے بعد مرکزی سیکرٹریٹ کے صفہ ہال میں روزانہ محافل میلاد کا انعقاد کیا گیا جس میں مرکزی قائدین، کارکنان، سٹاف ممبران اور عوام الناس کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ ان محافل کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا، اس کے بعد ذکر و نعت اور درود وسلام کے ذریعے عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلوب و اذہان کو منور کیا جاتا اور رقت آمیز دعا کے بعد ضیافتِ میلاد کا اہتمام بھی کیا جاتا۔

اس ماہ مبارک میں تحریک منہاج القرآن اور اس کے جملہ فورمز سے وابستہ کارکنان و وابستگان نے پوری دنیا میں قائم مراکز میں بھی محافل میلاد کا انعقاد کیا۔

36 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس

ان تمام محافل کا عروج و کمال اپنے اندر فیوض و برکات سموئے ہوئے گیارہ اور بارہ ربیع الاول کی درمیانی شب 9 نومبر 2019ء لاہور کے تاریخی مقام مینار پاکستان پر عالمی میلاد کانفرنس کی صورت میں جلوہ گر ہوا جس میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور احباب، علماء و مشائخ، اقلیتی نمائندوں، وکلائ، سیاستدان، تاجر برادری، طلبہ، اساتذہ اور خواتین و حضرات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔

36 ویں عالمی میلاد کانفرنس کے انتظام و انصرام کے حوالے سے نا ظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور، نائب صدر تحریک محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خاں اور ناظم اجتماعات محترم جواد حامد کی زیر نگرانی 50 سے زائد انتظامی کمیٹیاں مصروفِ عمل رہیں۔ عالمی میلاد کانفرنس منہاج TV سے براہ راست نشر کی گئی۔ علاوہ ازیں منہاج سوشل میڈیا کی ٹیم بھی کانفرنس کی لمحہ بہ لمحہ کاروائی کو سوشل میڈیا کے ذریعے نشر کرتی رہی۔ 36 ویں عالمی میلاد کانفرنس کے احوال پر مبنی رپورٹ نذرِ قارئین ہیں:

36 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس کا پروگرام دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا آغاز عشاء کے بعد ہوا اور رات بارہ بجے تک جاری رہا۔ اس سیشن میں ملک کے نامور قراء حضرات نے تلاوتِ قرآن مجید اور ثنا خوانانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کی سعادت حاصل کی۔ دوسرے سیشن کا آغاز رات تقریباً 12 بجے ہوا جو صبح نماز فجر تک جاری رہا۔ اس سیشن میں تلاوت، نعت اور میلاد و سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خطابات ہوئے۔ پروگرام میں نقابت کے فرائض منہاج القرآن علماء کونسل، نظامتِ دعوت، نظامت تربیت کے سکالرز، محترم صاحبزادہ ظہیر احمدنقشبندی اور نائب ناظم اعلیٰ محترم محمد رفیق نجم نے سرانجام دیئے۔

کانفرنس میں رات بھر تلاوت اور نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ جاری رہا۔ محترم صاحبزادہ تسلیم احمد صابری، محترم محمد افضل نوشاہی، بلالی برادران، شہزاد برادران اور ملک کے نامور ثنا خوانانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اپنے انداز سے ہدیۂ عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔

کانفرنس میں چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، نائب صدر منہاج القرآن محترم بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم اعلیٰ منہاج القرآن محترم خرم نواز گنڈا پور، نائب ناظم اعلیٰ محترم انجینئر محمد رفیق نجم، محترم احمد نواز انجم، محترم جی ایم ملک، جملہ نائب ناظمین اعلیٰ، جملہ فورمز کے سربراہان اور مرکزی قائدین سٹیج کی زینت تھے۔

مہمانانِ گرامی میں صوبائی وزیر مذہبی امور محترم سید سعیدالحسن شاہ، رکن پنجاب اسمبلی محترم صمصام علی بخاری، علماء، مشائخ، اقلیتی نمائندے اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب شامل تھے۔

کانفرنس میں محترم سہیل احمد رضا (ڈائریکٹر انٹر فیتھ ریلیشنز TMQ) کی خصوصی دعوت پر تشریف لانے والے دیگر مذاہب کے نمائندہ افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مسیح برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے محترم پروفیسر ریورن ٹونی ویلیم (Press veteran church آف پاکستان) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

میں آج کے اس خوبصورت موقع پر مسیح قوم کی طرف سے آپ سب کو عید میلاد کی مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ جس دور میں لوگ دوسروں کی خوشیاں چھیننے کے درپے ہیں، ایسے دور میں اپنی خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ میں جب یہاں آرہا تھا تو میں یاد کررہا تھا کہ کس طریقے سے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے پاکستان میں بین المذاہب مکالمہ اور ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ ان کے اقدام، کاوش اور کوششوں کی وجہ سے آج یہ ممکن ہوا کہ میں مسیحی برادری کی جانب سے یہاں آکر اپنے مسلم بھائیوں کو مبارکباد پیش کررہا ہوں۔

جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے ان کی زندگی میں ہمیشہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات بہت مثبت رہے ہیں۔ چاہے وہ حبشہ میں مسلمانوں کو بھیجنا ہو، چاہے وہ میثاقِ مدینہ ہو یا نجران کے مسیح وفد کے ساتھ ان کی وہ یادگار بیٹھک جس میں انہوں نے نجران کے وفد کو نہ صرف اپنے پاس خانۂ خدا میں آنے کا موقع دیا بلکہ جب ان کی عبادت کا وقت ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے اس وفد کو موقع دیا کہ وہ اپنے وقت پر خانۂ خدا کے اندر ہی اپنی عبادت کریں۔ یہ وسعتِ قلبی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر تھی اس سنت کو آج جب میں یہاں کھڑا ہوں تو مجھے لگ رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب بخوبی نبھا رہے ہیں کہ انہوں نے آج موقع دیا کہ ایک ایسا شخص جو کہ غیر مسلم ہے وہ آپ کے درمیان آسکے۔ اس خوبصورت موقع پر یہ چاہتا ہوں کہ اس پیغام کو اور زیادہ پھیلایا جائے۔ یہ محبت و اپنائیت کا پیغام ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنی خدمات کے وسیلے سے نہ صرف پاکستان کے طول و عرض میں بلکہ دنیا بھر میں فروغ بخشا ہے۔

ہندو برادری کی نمائندگی محترم پنڈت بھگت لال کھوکھر نے کرتے ہوئے کہا: آج کی اس مقدس میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس میں آپ سب کے لیے، پورے عالم کے لیے اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول مانگتا ہوں۔ تمام امتِ مسلمہ کو مبارکباد کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے ہی مالکِ کائنات نے کائنات کو تخلیق کیا۔ میں اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں چند نعتیہ اشعار پیش کرنا چاہوں گا:

میرے سینے کی دھڑکن ہیں، میری آنکھوں کے تارے ہیں
سہارا بے سہاروں کا، خدا کے وہ دلارے ہیں

سمجھ کر تم فقط اپنا انہیں تقسیم نہ کرنا
نبی جتنے تمہارے ہیں، اتنے ہمارے ہیں

سبق جس نے محبت کا ہر اک انسان کو سکھلایا
مقدس راستہ دے کر دین، دنیا میں پھیلایا

مجھے اپنا کہو، چاہے مجھے تم غیر کہہ دینا
نہیں ہے جو محمد کا، ہمارا ہو نہیں سکتا

عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

صدر منہاج القرآن یوتھ لیگ محترم مظہر محمود علوی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کل قیامت کے دن مال و دولت نفع بخشی کا باعث نہیں بنے گی بلکہ اللہ کی بارگاہ میں پاک صاف دل نفع بخشی کا باعث بنے گا۔ وہ دل جو قلبِ سلیم ہے یہی بخشش اور نفع بخشی کا ذریعہ بنے گا۔ کوئی دل اس وقت ہی قلبِ سلیم کے مقام پر فائز ہوتا ہے جب اس دل کے اندر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہوگی۔ اگر اس دل کے اندر دنیا کی محبت ہوگی تو یہ دل قلبِ مریض بن جائے گا۔ اس دل کو قلبِ سلیم بنانے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ سے آشنائی بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں شیخ الاسلام کے خطابات اور کتب ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ شیخ الاسلام کی جملہ کاوشیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کے فروغ، اصلاحِ احوال اور انسان کو قلبِ سلیم کے مالک قلب کا حامل بنانا ہے۔ منہاج یوتھ لیگ سٹڈی سرکلز فار یوتھ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہے۔

صدر منہاج القرآن علماء کونسل محترم علامہ امداداللہ خان قادری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ اللہ کا فضل ہے کہ شیخ الاسلام نے عقائد سے لے کر معاملات تک، معاملات سے لے کر عبادات تک ہر موضوع پر ایسا قلم اٹھایا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ کا مجددانہ کام، آپ کی کاوش اور محنت کے سبب رہتی دنیا تک آپ کا یہ کام اور نام تابندہ رہے گا۔ کوئی دور ایسا تھا کہ جب عقائد کی بات ہوتی تو چند مخصوص کتابوں سے حوالہ جات پیش کیے جاتے تھے۔ آج الحمدللہ بڑے بڑے علماء کرام، مدرسین، فاضلین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو عمر خضر عطا فرمائے کہ انہوں نے علم کا سمندر جمع کرکے ہمارے ہاتھ میں تھمادیا ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کی نمائندگی کرتے ہوئے محترمہ ثناء حفیظ نے کہا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق ہی ہماری زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ ایمان کا وجود، اعمال کی قبولیت اور قربِ الہٰی کا انحصار اسی تعلق پر استوار ہے۔ گذشتہ صدی میں قریب تھا کہ خارجی فکر سینوں میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغوں کی روشنی کو گُل کرکے مسلمانوں کو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایمان کے نور سے محروم کردیتی کہ ایسے میں اللہ رب العزت نے امتِ محمدیہ کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ہمہ جہت خصوصیات کی حامل ایک ایسی ہستی عطا فرمائی جس نے گزشتہ نصف صدی میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والے ہر فتنے اور آنے والے ہر چیلنج کا مقابلہ کرکے تجدید کا حق ادا کیا۔ شیخ الاسلام نے اس امت کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کو اپنے اخلاق اور سیرت و کردار کو سیدہ فاطمۃ الزہراء علیہ السلام کے نقوشِ سیرت پر استوار کرنے کا پیغام دیا ہے۔ آپ نے آج کی عورت کو ماتھوں پر سجدوں کا نور، دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کا سرور، آنکھوں میں ایمان کی چمک، چہروں پر عصمت و حیا کا رعب اور طہارت و استقامت کو بطور دائمی کردار اپنانے کا درس دیا۔

مرکزی صدر MSM محترم چوہدری عرفان یوسف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پورے پاکستان کے اندر میلاد کا جو غلبہ، شان و شوکت اور کلچر بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں یقینا اس میں تحریک منہاج القرآن کا بہت بڑا کردار ہے۔ شیخ الاسلام نے 39 سال پہلے جو پودا لگایا تھا، آج اس کے اثرات عالمی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ آج پاکستان کے تعلیمی اداروں کے اندر محافل ذکر اور محافل میلاد سجائی جاتی ہیں، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے زیر اہتمام طلبہ کے اندر پانچ ہزار درود سرکلز کا انعقاد ہوتا ہے۔ MSM کا پلیٹ فارم آج تعلیمی اداروں کے اندر فروغِ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ آج ہمارے زوال کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیماتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ دیا جن کو اپناکر ہم سپر پاور بنے تھے۔ آیئے! آج ہم یہاں سے ایک عزم لے کر جائیں اور ذات و تعلیماتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے جوڑیں۔

ناظم اعلیٰ محترم خرم نواز گنڈا پور نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے جملہ مہمانان گرامی اور شرکاء کانفرنس کو خوش آمدید کہا اور جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے عالمی میلاد کانفرنس کے انتظام و انصرام پر منہاج القرآن کی جملہ تنظیمات، فورمز بالخصوص محترم جواد حامد اور انکی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کی کہ جن کی شبانہ روز کاوشوں سے اس عظیم اجتماع کا انعقاد ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجاگر کرنے کی تحریک ہے۔ جس کا مطمع نظر یہ ہے کہ:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں عشقِ محمد سے اجالا کردے

39 سال پہلے جب تحریک منہاج القرآن کی ابتداء ہوئی تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس ملک کی گلی گلی، قریہ قریہ، نگر نگر میں محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق رسول کا جو پودا لگایا، آج اس کی خوشبو سے اس ملک کا قریہ قریہ مہک رہا ہے۔ شیخ الاسلام کا زریں کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے علم اور عمل دونوں سطحوں پر جدوجہد کرتے ہوئے دنیا بھر میں ہزاروں میلاد کانفرنسز میں علمی، فکری اور روحانی خطابات کئے۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عشق و محبت رسول، عقیدۂ رسالت اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے درجنوں کتابیں تحریر کیں اور دنیا بھر میں ہزاروں حلقات درود اور گوشہ درود قائم کرکے اسی امت کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے ٹوٹا ہوا تعلق نہ صرف جوڑا بلکہ مضبوط کردیا۔ آپ نے دہشت گردی کا تدارک اور امن کے فروغ کے لیے عالمی میڈیا پر سیکڑوں انٹرویوز اور دنیا بھر میں ہزاروں کانفرنسز کے ذریعے اسلام کا پرامن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔

تحریک منہاج القرآن اپنے قائد کے اس عظیم مشن میں پیش پیش ہے اور اس مشن کی خاطر ہر سال ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ ایک عظیم الشان اجتماع منا کر یہ عہد کرتی ہے کہ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو پودا تحریک منہاج القرآن نے لگایا، اس پودے کو پانی دینا، اس کی حفاظت کرنا بھی تحریک کا فرض ہے اور تحریک فروغِ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عالمی میلاد کانفرنس ہو، گوشہ درود ہو یا ملک بھر میں حلقات درود و فکر کا اہتمام، اپنی تمام تر کاوشیں ہمیشہ بروئے کار لاتی رہے گی۔

صوبائی رہنما پاکستان تحریک انصاف محترم صمصام علی بخاری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام کا خطاب روح پرور ہوتا ہے جو علم بھی دیتا ہے اور تربیت بھی کرتا ہے۔ یقین کیجئے کہ میرا اور ان کا محبت کا جو رشتہ ہے وہ ہر دن کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلِ بیت اطہار کے ذکر کو جس طرح فروغ دیا ہے وہ واقعی ہی Revival (تجدید)ہے۔ اس کے لیے میں تحریک کے ایک ایک فرد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ ایک ایسے آدمی کی تقلید کررہے ہیں جو آپ کو صراطِ مستقیم پر چلارہا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘، یقین جانیے کہ وہ نمی ڈاکٹر صاحب کی گفتگو پیدا کرتی ہے۔

خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

36 ویں عالمی میلاد کانفرنس کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’قرآن اور ادب و تعظیمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا.

’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین) کی مدد کرو اور آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو‘‘۔

(الفتح، 48: 8-9)

پہلی آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار شانیں بیان فرمائی ہیں:

پہلی شان: رسالت، دوسری شان: شہادت، تیسری شان: خوشخبری سنانے والا، چوتھی شان: ڈر سنانے والا۔

یعنی اے لوگو! ہم نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاہد، مبشر اور نذیر بناکر اس لیے مبعوث کیا تاکہ تم ان کے ذریعے اللہ پر ایمان لے آئو۔ دوسری آیت کریمہ میں خطابِ الہٰی امت کی طرف ہوگیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا پیغام لے کر تمہارے پاس تشریف لے آئیں تو تم پر لازم ہے کہ کمال درجہ تعظیم و توقیر کے ساتھ ان کی مدد و نصرت کرو اور ایسے مددگار بن جائو کہ جب ان کے دشمن ان پر ہاتھ اٹھائیں تو نہ صرف تم ان کا دفاع کرو بلکہ ان کی مدد بھی کرو۔

اس مدد و نصرت سے مراد مجرّد اور مطلق مدد نہیں جو عام طور پر لوگ سوسائٹی میں کمزور و ناتواں لوگوں کی کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد ایک خاص مدد ہے جو انسان اپنی محبت و تعظیم کے بدلے میں بجا لاتا ہے۔ لہذا تُعَزِّرُوْہُ کے ذریعے یہ حکم دیا جارہا ہے کہ تمہارے اندر محبتِ دین کا ایسا جذبہ ہو کہ تم اس دین کے پیغام کو فروغ دینے والے اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات و اشکالات کا حقیقی معنی میں ازالہ کرنے والے بن جائو۔

پھر فرمایا: وَتُوَقِّرُوْہُ کہ ان کی اس قدر تعظیم و توقیر کرو کہ تمام حدیں پار کرجائو، صرف ایک حد برقرار رہے کہ انہیں خدا اور خالق نہ بنائو، اس کے علاوہ تعظیم و توقیر میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ تُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ کے الفاظ میں مبالغہ پایا جاتا ہے جیسے اللہ رب العزت نے اپنی تسبیح بیان کرنے کے لیے فرمایا: وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا۔ یعنی اے لوگو! جیسے تم صبح و شام اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے میری تسبیح بیان کرتے ہو ویسے ہی میرے محبوب کی تعظیم و توقیر بھی بجا لائو۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کا حکم دے کر امت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب سکھا رہا ہے۔

اس آیت کریمہ کے تحت چار حکم آئے ہیں:

پہلا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مشترک ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائو۔

دوسرا اور تیسرا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص ہے کہ میرے حبیب کی تعظیم و توقیر کرو۔

چوتھا حکم اللہ کے لیے خاص ہے کہ اس کی تسبیح بیان کرو۔

حضرت ابن عباس نے تُعَزِّرُوْہٗ کی تفسیرمیں وَتُجَلِّلُوْہ کا لفظ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑائی بیان کرو۔ کتنی بڑائی؟ اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔

حضرت امام جعفر الصادق نے تُعَزِّزُوْہٗ کا لفظ استعمال کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانو۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس قدر عظمت جانو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو اس قدر بلند مانو کہ تمہاری عقلیں اس کا احاطہ کرنے سے قاصر آجائیں۔

مفسرین نے وَتُعَزِّرُوْہٗ کی تشریح میں عَزِّمُوْہ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جس کا مطلب ہڈی ہوتا ہے۔ جیسے انسانی جسم ہڈیوں پر قائم ہے، اسی طرح ایمان کا وجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بڑائی کا اقرار کرنے سے قائم رہ سکتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو بڑا جانو۔ تمہاری عقل پست ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بلند ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر بحث نہ کرو۔ صرف ایک حد رکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو خدا نہ جانو باقی تمام حدیں چھوڑ دو۔ اس لیے کہ جب خود خدا نے حد نہیں رکھی تو ہم حد قائم کرنے والے کون ہوتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر بلایا تو حد قائم کردی مگر جب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر بلایا تو حدیں ختم کردیں۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور معجزہ وہ ہوتا ہے جس کے سمجھنے سے عقل عاجز آجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کی حقیقت یہ ہے کہ چاند کو اشارہ کریں تو وہ دو ٹکڑے ہوجائے مگر عقل نہیں سمجھتی کہ یہ کیا ہے۔۔۔؟ درخت جھک کر سلام کریں تو عقل نہیں سمجھتی۔۔۔ پتھر کلمہ پڑھیں تو عقل نہیں سمجھتی کہ یہ کیا ہے۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر چلے جائیں تو یہ بہت بڑا معجزہ ہے جس پر عقل عاجز آجاتی ہے۔۔۔ لہذا فرمایا: میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو اتنا بلند جانو کہ تمہاری عقلیں عاجز آجائیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات سے کتبِ احادیث بھری پڑی ہیں۔ صحابہ کرام کے عقیدے کا عالم یہ تھا کہ ان کی عقل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کا احاطہ نہیں کرسکتی تھیں۔ ادب کی دینِ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔ تاریخ میں کئی مثالیں ملتی ہیں کہ کبار اولیاء و صلحاء کسی نہ کسی قرینۂ ادب کی وجہ سے ولایت کے اعلیٰ مقام پر پہنچے۔ الغرض قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر ادب کے احکامات ملتے ہیں۔

قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بیان کیا کہ فرعون نے اس وقت کے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کے لیے اکٹھا کیا اور وہ تمام جادوگر اپنے شاگردوں سمیت بڑی تعداد میں پیش ہوئے۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے دو مکالموں کو بیان کیا ہے۔ پہلا مکالمہ جادوگروں کا فرعون کے ساتھ ہوا کہ اگر ہم غالب آگئے تو کیا اجرت ملے گی؟ قرآن مجید میں ہے کہ

وَجَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰـلِبِیْنَ. قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ.

’’اور جادوگر فرعون کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: یقینا ہمارے لیے کچھ اجرت ہونی چاہیے بشرطیکہ ہم غالب آجائیں۔ فرعون نے کہا: ہاں! اور بے شک (عام اجرت تو کیا اس صورت میں) تم (میرے دربار کی) قربت والوں میں سے ہو جاؤ گے‘‘۔

(الاعراف،7: 113-114)

فرعون نے انہیں دنیا کی دولت و عزت اور اپنی قربت سے نوازنے کا وعدہ کیا۔

دوسرا مکالمہ جادوگروں کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔ قرآن مجید میں ہے کہ

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ.

’’ان جادوگروں نے کہا: اے موسیٰ! یا تو (اپنی چیز) آپ ڈال دیں یا ہم ہی (پہلے) ڈالنے والے ہوجائیں‘‘۔

(الاعراف، 7: 115)

اس مکالمہ میں انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے باقاعدہ اجازت طلب کی کہ پہلے آپ اپنے کمال کا اظہار کریں گے یا ہم اپنے جادو کو ظاہر کریں؟

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے جادوگروں کی طرف سے بولے جانے والے مؤدبانہ کلمات کا ذکر کیا ہے حالانکہ وہ جادوگر یہ الفاظ نہ بھی بولتے تو کوئی فرق نہ پڑتا، اس لیے کہ وہ تو کافر ہی تھے۔ وہ یوں بھی کر سکتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوکر پوچھنے کی بجائے براہِ راست حملہ کردیتے۔ مگر انہوں نے رسول کا ادب کیا، جس کے صلہ میں اللہ نے ان کو ایمان کی دولت سے نواز دیا۔ یہ ادب انہوں نے حالتِ کفر میں کیا لیکن اللہ نے ان کے اس ادب کو بھی رائیگاں نہ جانے دیا اور اس کا صلہ بصورتِ ایمان اُن کو عطا کردیا۔ اگر حالتِ کفر میں ادب کا صلہ یہ ملتا ہے تو اگر کوئی حالتِ ایمان کے ساتھ ادب بجا لائے تو اس کے صلہ کا عالم کیا ہوگا۔۔

اب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منانے کا اجر بھی سن لیں۔ ابولہب نے جب اپنے بھائی کے گھر بچے کی پیدائش کی خبر لینے کے لیے اپنی لونڈی کو بھیجا اور اس نے واپس آکر بیٹے کی خوشخبری دی تو اس نے بھتیجے کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ نامی لونڈی کو آزاد کردیا۔ جن دو انگلیوں کے اشارے سے لونڈی کو آزاد کیا، اس کے مرنے کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور اس کے احوال پوچھے تو اس نے کہا کہ سخت عذاب میں مبتلا ہوں لیکن ہر سوموار کو اِن دو انگلیوں سے جن سے میں نے ثویبہ کو آزاد کرنے کا اشارہ کیا تھا، ان سے نکلنے والے چشمے سے اللہ تعالیٰ مجھے سیراب کرتا ہے اور عذاب میں تخفیف کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں اگر کافر کو بھی اجر مل رہا ہے تو مومن اگر اس خوشی کو منائے گا تو اس کو ملنے والے اجر و ثواب کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔