قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تصورِ پاکستان

محبوب حسین

تحریکِ پاکستان کی بنیاد اس نظریہ پر تھی کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں اور ان کی قومیت کی بنیاد اسلام پر ہے۔ اگرچہ یہ کوئی نیا تصور نہیں تھا کیونکہ مسلمان ہمیشہ سے خود کو ایک مستقل قوم سمجھتے آئے تھے اور انہوں نے اپنی اس حیثیت کو ختم کرکے خود کو کبھی دوسری قومیت میں ضم نہیں کیا۔ یورپ کے تصورِ قومیت کے تحت قومیت کی بنیاد زبان، نسل اور وطن پر ہوتی ہے اور مذہب کا قومیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ قومیت کا یہ تصور مسلمانوں کو قبول نہیں تھا کیونکہ اس طرح ان کا جداگانہ وجود بھی خطرے میں پڑتا تھا اور یہ تصور اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف تھا۔ مذہب اور سیاست اسلام میں دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی وطنیت کو اسلام کا کفن سمجھتے تھے اور مذہب و سیاست کے متعلق انہوں نے کہا تھا:

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے وطن کا نعرہ لگانے کی بجائے یہ نعرہ لگایا کہ ’’ہم مسلمان پہلے ہیں اور ہندوستانی بعد میں۔‘‘

مقصدِ قیامِ پاکستان

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تقاریر میں قومیت کے حوالے سے یورپ کے تصور کے بجائے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کا تصور اور علیحدہ ریاست کے قیام کے مقصد کو بخوبی واضح کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف دنیاوی مقصد حاصل کرنا نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کو عملی شکل دینا بھی اس کا ایک مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ

13 جنوری کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں پر ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘

ذیل میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تقاریر سے چند اقتباس درج کیے جارہے ہیں جن سے اس معاملے میں قائداعظم کے خیالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:

1۔ مارچ 1941ء میں قائداعظم نے ایک تقریر میں کہا:

’’ہم جس اہم جدوجہد میں مصروف ہیں وہ صرف مادی فائدوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ جدوجہد فی الحقیقت مسلم قوم کی روح کی بقاء کے لیے ہے۔‘‘

2۔ جون 1945ء میں انہوں نے کہا:

’’پاکستان کا منشا صرف آزادی و خود مختاری نہیں بلکہ اسلامی نظریہ ہے جو ایک بیش بہا عطیہ اور خزانے کی حیثیت سے ہم تک پہنچا ہے اور جسے ہمیں برقرار رکھنا ہے اور جس کی بابت ہمیں توقع ہے کہ دوسرے بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔‘‘

3۔ ستمبر 1945ء میں کہا:

’’قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے۔ مذہب، معاشرت، قانون، عدالت اور معاشیات غرضیکہ ہماری مذہبی رسومات سے لے کر روزمرہ کے معاملات تک ہر چیز پر اس کی عمل داری ہے۔ اسلام صرف روحانی احکام اور تعلیمات و مراسم تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک کامل ضابطہ حیات ہے جو مسلم معاشرے کو مرتب کرتا ہے۔‘‘

4۔ نومبر 1945ء میں انہوں نے کہا:

’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کررہے ہیں کہ وہ اپنے ضابطہ حیات، اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں۔‘‘

ہندوستان کے مسلمان جانتے تھے کہ پاکستان بننے سے برصغیر کے تمام مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ پاکستان سے صرف ان ساٹھ فیصد مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا جن علاقوں پر مبنی الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا جارہا ہے، باقی چالیس فیصد مسلمان آبادی ہندوستان میں اقلیت میں ہوگی اور ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں نے تحریکِ پاکستان کی پوری قوت سے حمایت کی۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ اس طرح اسلام کو جدید دور میں عملی شکل میں پیش کرنے کا موقع ملے گا اور وہ یہ امید رکھتے تھے کہ اگر پاکستان میں صحیح معنوں میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے نجات کا راستہ نکل آئے گا۔

ایک مرتبہ ایک نوجوان نے قائداعظم سے پوچھا:

’’میرے قائد! ذرا غور کیجئے، سارے غیر مسلم اس مطالبے کے شدید مخالف ہیں، ان کے پاس دولت ہے، قوت ہے، برطانوی حکومت بھی اس مطالبہ کی حامی نظر نہیں آتی اور خود مسلمانوں میں بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اسے ناممکن سمجھتا ہے تو آخر پاکستان کیسے بنے گا؟‘‘

قائداعظم نے جواب دیا:

’’میرے بیٹے! شروع میں ہر تحریک کی اسی طرح مخالفت ہوتی ہے۔ کانگریس نے جب آزادی کی تحریک شروع کی تھی تو کتنے آدمی اس کے ساتھ تھے؟ امریکہ نے جب آزادی کا نعرہ بلند کیا تو انگریز کتنے پریشان ہوئے تھے لیکن آج یہی انگریز امریکہ کے یومِ آزادی میں شریک ہوتے ہیں اور اسے مبارکباد دیتے ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ عوام کی آواز بنتا جارہا ہے۔ جو آج ہمارے مخالف ہیں کل تائید کریں گے۔ پاکستان ضرور بنے گا۔‘‘

قائداعظم کی یہ بات جلد ہی صحیح ثابت ہوگئی۔ قرار دادِ پاکستان کی منظوری کے سات سال بعد جب انگریزوں نے برصغیر کو آزاد کردینے کا فیصلہ کیا تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا۔ کانگریس کو بھی آخر کار اس مطالبہ کے آگے جھکنا پڑا۔

قائداعظم کی کانگرس میں شمولیت اور علیحدگی کی وجوہات

قائداعظم محمد علی جناح جدید دور کی وطنی سیاست سے آگاہ تھے۔ وہ بتدریج مطالعہ اور تجربات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ مسلمان ملت کے لیے ایسی جداگانہ تہذیب و تمدن کا مظاہرہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ زندگی کے تمام امور میں کامل آزادی سے بہرہ ور نہ ہوں۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ نے وہاں کی اقوام میں وطن پرستی اور وطن پرستی پر مبنی جمہوریت رائج کی۔ یہ جمہوریت سیکولرازم یعنی دینی تصورات سے بے نیاز طرز زندگی پر مبنی تھی۔ سیکولرازم سیکولر جمہوریت پروگراموں کی روشنی میں عام آبادی کی رائے تبدیل کرکے اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بناتی رہتی ہے۔ چنانچہ اس مغربی جمہوریت کے تصور کو بنیاد بناکر انگریزوں نے ہندوستان میں بھی سیاست کا آغاز کردیا جس کے نتیجے میں انڈین نیشنل کانگرس وجود میں آئی جو خود بخود ملک کے حریت پسند سیاست دانوں کا پلیٹ فارم بن گئی۔

قائداعظم بھی ابتداء میں ہندوستان کی آزادی کے قائل اور جمہوریت پسند ہونے کی حیثیت سے کانگرس سے ہی وابستہ تھے۔ لیکن کانگرس میں ہندو اکثریت کے طرزِ عمل نے قائداعظم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے محسوس کرلیا کہ ہندوستان میں یورپ کی فضا نہیں ہے۔ یہ معاشرہ تصورات و پروگراموں کی بنا پر رائے بدل کر اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنانے کی صلاحیت سے قاصر ہے۔ یہاں مغربی سیکولر جمہوریت کا تجربہ ایک ناکام تجربہ ہوگا۔ یہ طرزِ حکومت اکثریت کو ہمیشہ کے لیے غلبہ عطا کرے گا، جس میں اقلیت، ہمیشہ کے لیے اقلیت، محکوم اور تباہ حال رہے گی۔ قائداعظم اس احساس سے مجبور ہوکر اور سیاست سے بد دل ہوکر ہندوستان چھوڑ کر انگلستان چلے گئے، ان کے سامنے اس وقت تک دوسرا کوئی متبادل راستہ نہ تھا۔

انگلستان میں قیام کے دوران قائداعظم نے اسلام اور اس کے تصورِ سیاست کا مطالعہ کیا تو انہوں نے اندازہ کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا تصورِ قانون کس درجہ منصفانہ، بے خوف اور عدل پر مبنی ہے۔ انہوں نے سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان ایک اسلامی ریاست کے بانی تھے۔ چنانچہ اس مطالعہ کے بعد ان کے خیالات اسلامی تصور مملکت اور اسلامی تصور قانون کے بارے میں واضح تر ہوتے چلے گئے۔

اسی دوران ان سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خط و کتابت کا آغاز کیا اور ان کے سامنے اسلام کا تصورِ ریاست رکھا۔ انہوں نے ہندوستان میں مسلم ملت کا واحد حل اسلامی ریاست قرار دیا اور ساتھ ہی انہیں مجبور کیا کہ وہ ہندوستان واپس آکر اس مظلوم اور بے سہارا ملت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔ چنانچہ جب وہ انگلستان سے واپس آئے تو وہ ایک بدلے ہوئے انسان تھے، جن کا نصب العین مکمل طور پر واضح تھا یعنی ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام۔

وہ سیکولر جمہوریت کے تصورات کے تحت ہندو مسلم گروپوں کو ایک ہی قوم کے دو گروہ تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ان دونوں گروہوں کے جداگانہ قومیں ہونے کے مدعی تھے، وہ فرماتے ہیں:

’’ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہندو اور مسلم دو بڑی قومیں ہیں، جو قوم کی ہر تعریف اور معیار پر پورا اترتی ہیں۔ ہم دس کروڑ کی ایک قوم ہیں، مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ، فنِ تعمیر، اقدار، قانونی احکام، اخلاقی ضوابط، رسم و رواج، تقویم، (کیلنڈر) تاریخ، روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویہ نگاہ ہے اور بین الاقوامی قانون کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘

مسلمان علیحدہ تشخص کی حامل قوم

جب قیامِ پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو قائداعظم نے اس تحریک کے مختلف مراحل میں اپنے ان تصورات کا اظہار کیا:

1۔ 21 نومبر 1945ء فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہم مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ جہاں ہم صرف اپنے ضابطہ حیات، اپنے تہذیبی ارتقاء، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔‘‘

2۔ 24 نومبر1945ء کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔‘‘

3۔ اسلامیہ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’مسلم لیگ ہندوستان کے ان حصوں کی آزاد ریاستوں کے قیام کی علمبردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ وہاں وہ اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں۔‘‘

4۔ 29جون 1947ء کو سرحد کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے بیان دیا:

’’خان برادران نے اپنے بیانات اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہر آلود شوشہ چھوڑا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔‘‘

5۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی دعوت میں 26 جنوری 1948ء کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

’’میرے لیے وہ گروہ ناقابل فہم ہے جو شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستان میں دستور شریعت کی بنا پر نہیں بنے گا۔‘‘

الغرض قائداعظم پاکستان کی اسلامی ریاست ہونے کے بارے میں بہت واضح اور پرعزم تھے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ہی چلائی اور ہندوستان کی مسلم ملت نے اس خیال سے تحریکِ پاکستان کا ساتھ دیا کہ یہ ملک ایک اسلامی ریاست بنایا جائے گا۔ وہ مارچ 1940ء میں اگر یہ کہتے کہ پاکستان ہم لادینی نظریات کے فروغ کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان سے مراد اسلامی ریاست نہیں ہے تو قطعاً ممکن نہ تھا کہ ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان اتنی یکسوئی کے ساتھ ایک متحدہ پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتے اور اتنی قربانیاں دینے پر آمادہ ہوتے۔

ریاست کے اہم ستون

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کو تعمیرِ قوم کے لیے درج ذیل امور کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے فرمایا:

’’آیئے! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ تعمیرِ قوم کے لیے تین بڑے شعبے کون سے ہیں؟ جو ملک چلانے کے لیے ناگزیر ہیں:

پہلا ستون تعلیم ہے۔ بغیر تعلیم آپ بالکل ویسی حالت میں ہیں جیسا کہ کل رات یہ پنڈال اندھیرے میں تھا لیکن تعلیم کے ساتھ آپ اس حالت میں ہوں گے جیسا کہ اب دن کے اس چکا چوند اجالے میں ہیں۔

قائداعظم نے 27 نومبر 1947ء کو کراچی میں منعقد ہونے والی پہلی کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس کے موقع پر اپنے خطبہ صدارت میں قوم کی تعلیمی پالیسی کے خدوخال پر واضح روشنی ڈالی تھی۔ اس موقع پر آپ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ:

’’تعلیم اور صحیح قسم کی تعلیم‘‘ کی اہمیت پر جتنا زور دیا جائے کم ہے۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو سنجیدگی کے ساتھ تعلیم کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کی تشکیل ان خطوط پر کرنی چاہئے جو ہمارے قومی ذوق کے مطابق اور تاریخ و ثقافت سے ہم آہنگ ہوں۔‘‘

ریاست کا دوسرا اہم ستون یہ ہے کہ کوئی قوم بڑا کام نہیں کرسکتی جب تک وہ کاروبار، تجارت اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں معاشی طور پر مستحکم نہ ہو۔

استحکام ریاست کا تیسرا بڑا ستون یہ ہے کہ جب آپ علم کی روشنی سے منور ہوجائیں اور معاشی، تجارتی اور صنعتی اعتبار سے خود کو مضبوط اور مستحکم کرلیں تو آپ کو اپنے دفاع کے لیے تیار ہونا چاہئے۔ یعنی بیرونی جارحیت سے بچاؤ اور اندرونی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے تدبیرکرنی چاہئے۔

قوم ان تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، کسی قوم کی طاقت اور عظمت کا اندازہ بھی اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کے یہ تین ستون کتنے مضبوط ہیں اور قوم ان تینوں شعبوں میں کیا کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہے۔ ملک سے محبت، لوگوں کے ساتھ بھلائی اور وطن عزیز کے استحکام کے لیے سرگرم عمل رہنا سب سے بڑی سعادت ہے‘‘۔

4۔ اقلیتوں کے حقوق کی طرف متوجہ کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

’’پاکستا ن میں اقلیتوں کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی۔ خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ان کا مذہب عقیدہ اور ایمان پاکستان میں بالکل محفوظ و سلامت رہے گا۔ ان کی عبادات کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ان کے مذہب، عقیدے، جان و مال اور ان کی ثقافت کا مناسب تحفظ ہوگا۔ وہ بلا لحاظ رنگ و نسل ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔‘‘

11 اگست پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

’’حکومت کا پہلا فریضہ امن و امان برقرار رکھنا ہے تاکہ مملکت کی جانب سے عوام کو ان کی زندگی، جائیداد اور مذہبی اعتقادات کی تحفظ کی پوری پوری ضمانت حاصل ہو۔‘‘

درج بالا سطور میں قائد کے افکار کی توجیح بڑی واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ ان کے نزدیک ترقی کے لیے تعلیم ، معاشی استحکام، مضبوط دفاع اور اقلیتوں سمیت اپنی رعایا کے حقوق کی حفاظت کا مسئلہ ہر لحاظ سے ایسا مینارۂ نور ہے کہ جن کے ذریعے کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے۔

26 فروری کو امریکہ کے سفیر کی تقریر کے جواب میں فرمایا:

’’پاکستان کے لوگ کسی ایسی چیز کے طالب نہیں ہیں جو ان کی اپنی نہ ہو۔ ہم دنیا کی تمام آزاد اقوام کے لیے دوستی اور خیر سگالی کے جذبات رکھنے کے علاوہ اور کسی بات کے خواہش مند نہیں ہیں۔ ہم پاکستانی تہیہ کرچکے ہیں کہ اب جبکہ ہم نے مدتوں کی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرلی ہے تو اب ہم نہ صرف اپنے پاکستان کو مستحکم اور خوشحال بنانے کی انتہائی جدوجہد کریں گے بلکہ بین الاقوامی امن و خوشحالی کے لیے بھی جہاں تک ہم سے ممکن ہوگا پوری اعانت کریں گے۔‘‘

قائداعظم کی ہمت و حوصلہ، قانونی مہارت، تنظیمی صلاحیت اور دیانت داری آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ ثابت ہوگی اور ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔