الفقہ: اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

اسلام الہامی ادیان میں آخری اور کامل دین ہے جو اخروی نجات کا ضابطہ ہونے کے ساتھ معاشرتی دستور العمل بھی ہے۔ اسلام کا مقصود انسانوں کے باہمی رحم و کرم اور عطف و مہربانی پر مبنی معاشرے کی تعمیر ہے جس کی قیادت محبت و بھائی چارے کے ہاتھ میں ہو اور اس پر خیر و بھلائی اور عطاء و کرم کا راج ہو۔ اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے۔ اسلام نے خاندان کی جڑیں مضبوط کرنے اور اس کی عمارت کو پائیدار بنانے کے جو اصول و ضوابط متعین کیے ہیں ان میں سے ایک صلہ رحمی ہے۔ صلہ رحمی سے مراد رشتوں کو جوڑنا، رشتے داروں اور اعزاء و اقربا کے ساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کرنا ہے۔

علمائے امّت کا اتفاق ہے کہ صِلہ رحمی واجب اور قطع رحمی حرام ہے۔ احادیث میں بغیر کسی قید کے رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان سے تعلق جوڑے رکھنے کا حکم آیا ہے۔ صلہ رحمی اتنی اہم معاشرتی قدر ہے کہ تمام شریعتوں میں اس کا مستقل حکم رہا ہے اور تمام امتوں پر یہ واجب ٹھہرائی گئی ہے۔ اولادِ یعقوب علیہ السلام کے توحید پر ایمان لانے اور والدین سے حسنِ سلوک کے بعد اعزا و اقرباء سے صلہ رحمی کا عہد لیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً وَّذِی الْقُرْبَی.

’’اور (یاد کرو)جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں کے ساتھ (بھلائی کرنا)۔‘‘

(البقرة، 2: 83)

یہ حکم امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی لازم کیا گیا اور صلہ رحمی کرنے والوں سے آخرت میں اُس حسین گھر کا وعدہ کیا گیا ہے جو گل و گلزار سے سجا ہوگا۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَیَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ.

’’اور جو لوگ ان سب (حقوق اﷲ، حقوق الرسول، حقوق العباد اور اپنے حقوقِ قرابت) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیّت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیں (یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے)۔‘‘

(الرَّعْد، 13: 21)

اور قطع تعلق کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ اللّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُوْلَئِکَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ.

’’اور جو لوگ اﷲکا عہد اس کے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) کو قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲنے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔‘‘

(الرَّعْد، 13: 25)

مزید یہ کہ قطع رحمی کو فساد فی الارض کے جیسے گھناؤنے جرم کے ساتھ ذکر کر کے اسے منافقت کی علامت قرار دیا اور اس کے مرتکبین کی تہدید کرتے ہوئے فرمایا:

فَهَلْ عَسَیْتُمْ إِن تَوَلَّیْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ.

’’پس (اے منافقو!) تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم (قتال سے گریز کر کے بچ نکلو اور)حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے (ان)قرابتی رشتوں کو توڑ ڈالو گے (جن کے بارے میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواصلت اور مُودّت کا حکم دیا ہے)۔‘‘

(مُحَمَّد، 47: 22)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ایک امتیازی اور نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلہ رحمی کرتے، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے اور ان کے ساتھ محبت و خیرخواہی سے پیش آتے۔ یہ خوبی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزاج مبارک میں رچ بس گئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک جزو لاینفک بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ قدرے گھبرا کر گھر تشریف لائے، اپنی مونس و غمخوار رفیقہء حیات حضرت خدیجہj کے سامنے پوری صورتِ حال رکھی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان الفاظ میں تسلی دیتی ہیں اور ہمت بندھاتی ہیں کہ:

کلا والله ما یخزیک الله ابدا، إنک لتصل الرحم، وتحمل الکل، وتکسب المعدوم، وتقری الضیف، وتعین علی نوائب الحق.

’’اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔‘‘

(بخاری، الصحیح، کِتَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ، رقم الحدیث: 3)

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز سے ہی ایمانیات کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کی دعوت کا بھی اہتمام فرمایا۔ چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے شروع میں ہی مکہ مکرمہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا آپ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نبی ہوں۔ میں نے پوچھا: نبی کا کیا معنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ نے اپنا رسول و پیامبر بنایا ہے۔ میں نے عرض کیا: اللہ نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صلہ رحمی کرنے، بتوں کو توڑنے اور اللہ کی توحید و یکتائی کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔

(مستدرک حاکم)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن امور کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کروائی، ان میں سے ایک صلہ رحمی بھی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو باتیں کیں ان میں سے جو میں نے سنا، سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! اے لوگو! سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، راتوں کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں تم نماز ادا کرو، اس طرح آسانی و سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان اچھی خصلتوں کی وصیت فرمائی:

بِأَنْ لَا أَنْظُرَ إِلٰی مَنْ هُوَ فَوْقِی وَأَنْ أَنْظُرَ إِلٰی مَنْ هُوَ دُوْنِی وَأَوْصَانِی بِحُبِّ الْمَسَاکِیْنِ وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ وَأَوْصَانِی أَنْ أَصِلَ رَحِمِی وَإِنْ أَدْبَرَتْ، وَأَوْصَانِی أَنْ لَا أَخَافُ فِی اﷲِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، وَأَوْصَانِی أَنْ أَقُوْلَ الْحَقَّ وَإِنْ کَانَ مُرًّا، وَأَوْصَانِی أَنْ أُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاﷲِ فَإِنَّہَا کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّةِ.

میں (دنیاوی حوالہ سے) اپنے سے اوپر والے کی طرف نہ دیکھوں بلکہ اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھوں، مجھے مساکین سے محبت رکھنے اور ان کے قریب رہنے کی وصیت فرمائی۔ اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلہ رحمی کروں اگرچہ وہ (رشتہ دار) مجھ سے منہ پھیر لیں، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں اﷲتعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں حق بات کہوں خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں لا حول ولا قوۃ إلا باﷲ کے ذکر کی کثرت کروں کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

(ابن حبان فی الصحیح، کتاب البر والإحسان، باب صلة الرحم، 2/ 194، الرقم: 449)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلہ رحمی کو رزق میں کشادگی کا سبب قرار دیا۔ امیر المؤمنین سیدنا علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم: من سره ان یمد له فی عمره و یوسع له فی رزقه، و یدفع عنه میتةالسوء فلیتق الله ولیصل رحمه.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے اپنی عمر دراز، رزق وسیع اور بری موت سے دور ہونے جیسے خوشی والے امور درکار ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور رشتوں کو جوڑے۔‘‘

(المسند لاحمد بن حنبل، 3: 266)

حضرت ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

ان اعجل الخیر ثوابا صلة الرحم حتی ان اہل البیت لیکونون فجره فتمنوا اموالهم و یکثر عددهم اذا تواصلوا.

بیشک سب نیکیوں میں جلد تر ثواب پانے والا عمل صلہ رحمی ہے۔ یہاں تک کہ گھروالے فاسق ہوتے ہیں اور ان کے مال ترقی کرتے ہیں ان کے شمار بڑھتے ہیں جب وہ آپس میں صلہ رحمی کریں۔

(السنن الکبری للبیهقی، 26/ 10)

درج بالا آیات و روایات سے صلہ رحمی کی اہمیت اور قطع رحمی کی ممانعت واضح ہوتی ہے۔ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے تعلق میں ہمیشگی کو ملحوظ رکھنا، ان کی مدد و خیرخواہی کرنا، ان کی غمی خوشی اور دکھ درد میں شریک ہونا، تقاریب و تہواروں میں انہیں مدعو کرنا، ان کی دعوتوں میں شرکت کرنا اور اس طرح کے دیگر امور صلہ رحمی میں شامل ہیں۔

صلہ رحمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ رشتے داروں سے ان کے رویے کے مطابق سلوک کیا جائے، اگر ایسا کیا جائے تو یہ درحقیقت مکافات یعنی ادلہ بدلہ ہے کہ کسی رشتے دار نے تحفہ بھیجا تو اس کے بدلے تحفہ بھیج دیا، وہ آیا تو بدلے میں اس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتًا صلہ رحمی یہ ہے کہ رشتے دار تعلق توڑنا چاہے تو اس تعلق کو بچانے کی کوشش کی جائے، وہ جدائی چاہے، بے اعتنائی برتے تب بھی اس کے حقوق و مراعات کا خیال رکھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لیس الواصل بالمکافئ، ولکن الواصل الذی إذا قطعت رحمه وصلها.

’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چُکائے، بلکہ جوڑنے والا وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑ دے۔‘‘

(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، 4: 98، رقم الحدیث: 5991)

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا تکونوا إمعة، تقولون: إن احسن الناس احسنا وإن ظلموا ظلمنا، ولکن وطنوا انفسکم، إن احسن الناس ان تحسنوا وإن اساء وا فلا تظلموا.

’’تم لوگ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔‘‘

(ترمذی، کتاب البرو الصلہ، باب ماجاء فی الاحسان والعفو، 3: 405، حدیث: 3014)

درج بالا احادیثِ مبارکہ سے صلہ رحمی کا یہی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ رشتے داروں کے برے سلوک کے باوجود صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے، جب وہ محروم کریں تب بھی انہیں عطا کیا جائے، وہ ظلم کریں تو معاف کیا جائے۔ اگر رشتہ دار روٹھیں، قطع تعلقی اختیار کرنا چاہیں، بول چال بند کر دیں تو خود ان کے پاس جاکر انہیں منایا جائے۔ یقیناً یہ رویہ نفس پر بہت گراں ہے اور شیطان ہمیشہ طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ایسا کرنے میں رکاوٹ بنا رہے گا مگر ان اعمال کا اجر خدا کے حضور بہت بڑا ہے۔ صلہ رحمی کا حکم اس اصرار اور اہتمام کے ساتھ دینے کا سبب بھی یہی ہے کہ اس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ احادیث بیان فرما رہے تھے، اس دوران فرمایا:

ہر قاطِع رِحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہماری محفل سے اُٹھ جائے۔ ایک نوجوان اُٹھ کر اپنی پُھوپھی کے ہاں گیا جس سے اُس کا کئی سال پُرانا جھگڑا تھا، جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تو اُس نوجوان سے پُھوپھی نے کہا: تم جا کر اس کا سبب پوچھو، آخر ایسا کیوں ہوا؟ (یعنی حضرت ابوہریرہ کے اعلان کی کیا حکمت ہے؟) نوجوان نے حاضر ہو کر جب پوچھا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس مجلس میں قاطِع رحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اُس قوم پر اللہ کی رحمت کا نزول نہیں ہوتا۔

(اَلزَّواجِرُ عَنِ اقتِرافِ الکبائِر، ج: 2، ص: 351)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ صلہ رحمی ہر مسلمان پر واجب ہے۔ رشتے داروں کی بے اعتنائی، ناشکری اور زیادتی کے باوجود ان سے حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، تاہم قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں قطع رحمی کرنے والے رشتے داروں کے متعلق تین طرح کے رویے ہوسکتے ہیں:

  1. کوئی رشتے دار اگر زیادتی کرے تو زیادتی کا بدلہ لے لیا جائے مگر تعلقات منقطع نہ کیے جائیں۔ مطلب یہ کہ اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو سلام دعا کرنے کی صورت باقی رہے۔
  2. ایسے رشتے دار کے ساتھ صرف غمی اور خوشی کا تعلق رکھا جائے اور عام حالات میں اس سے میل ملاقات نہ رکھی جائے۔ تاہم اگر کوئی شدید ضرورت سامنے آجائے تو اس کی مدد سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
  3. ایسے رشتے داروں کی زیادتیوں کو نظر انداز کیا جائے اور ان سے حسنِ سلوک اور مہربانی کا برتاؤ جاری رکھا جائے۔

ان میں سے پہلا رویہ اختیار کرنے پر انسان گناہ گار نہیں ہوگا۔ دوسرے رویے کا فائدہ یہ ہے کہ نیکی کے مواقع ضائع نہیں ہوں گے اور تیسرا رویہ احسان کا ہے جو فضیلت کا باعث ہے۔ اللہ کی رضا زیادہ زیادہ حاصل کرنا پیش نظر ہو تو اسی تیسرے رویہ کو اختیار کرنا چاہیے۔