شیخ الاسلام کے شب و روز

شیخ حماد مصطفیٰ

اللہ رب العزت کا خاص کرم اور عنایت ہے کہ ہمیں شیخ الاسلام کی سرپرستی اور صحبت میں شب و روز بسر کرنے کی سعادت میسر ہے۔ ان کے زیر سایہ بیتنے والے لمحے زندگی کے بیش قدر اور یادگار ہیں اور ہر لمحہ سیکھنے کی سعادت سے عبارت ہے۔ ماہنامہ منہاج القرآن کے قائد نمبر کیلئے مجھ سے یہ فرمائش کی گئی کہ شیخ الاسلام کے ساتھ گزرنے والے لمحات کے بارے میں اظہار خیال کروں۔ یہ بھی سوال کیا گیا کہ ان کی تالیف و تصنیف اور تدریسی مراحل کس طرح انجام پاتے ہیںاور شیخ الاسلام کے 24گھنٹے کے معمولات کیا ہیں اور فراغت کے لمحات میں وہ اپنا وقت کس طرح بسر کرتے ہیں؟ بالخصوص میرا اور شیخ احمد کا ان کے ساتھ وقت کیسے گزرتا ہے؟ متفرق امور کے بارے میں سوالات کیے گئے ہیں۔ میں مختصر بیان کیے دیتا ہوں۔

سب سے پہلے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ شیخ الاسلام انتھک جدوجہد کرتے ہیں اور ان کے شب و روز کا غالب حصہ تصنیف و تالیف میں گزرتا ہے۔ وہ اپنے کھانے، پینے میں حد درجہ احتیاط اور اعتدال سے کام لیتے ہیں، آپ کم خوراک بھی ہیں اور کم خواب بھی۔ وہ دیگر معمولات زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی طبیعت میں بھی ایک خاص نظم و ضبط رکھتے ہیں اور یہ نظم و ضبط ان کی خوراک میں بھی نظر آتا ہے۔ وہ بہت سادہ ناشتہ فرماتے ہیں، کام کے دوران ایک کپ چائے لے لیتے ہیں اورکبھی کبھار وٹامنز پرمشتمل ایک خاص مقدار ’’طبی سفوف‘‘ کی لے لیتے ہیں، مرغن غذائوں کا آپ کے معمولات زندگی سے کچھ لینا دینا نہیں۔

اس وقت تفسیرِ قرآن اور انگریزی میں ترجمہ قرآن کے پراجیکٹس چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ بخاری شریف کی شرح کا کام بھی جاری ہے۔ وہ بیک وقت چار سے پانچ پراجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ نمازوں کے اوقات کے علاوہ رات گئے تک مذکورہ پراجیکٹس پر علمی، تحقیقی کام جاری رہتا ہے۔ بسا اوقات صحت کے حوالے سے کچھ مشکلات حائل ہوتی ہیں تو علاج اور چیک اپ کے لیے بھی کچھ وقت نکالتے ہیں، تاہم 24گھنٹے کا بیشتر حصہ تالیف و تصنیف میں گزرتا ہے، بعض اوقات تہجد تک کام جاری رکھتے ہیں۔

جب ہم شیخ الاسلام کو اس عمر میں صحت کے مسائل کے ساتھ اس قدر سخت محنت کرتے دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ہم نوجوان ہیں اور ہمیں سخت محنت اور مشقت کی عادت ڈالنی ہے۔ جہد مسلسل کا یہ پیغام تحریک سے وابستہ جملہ نوجوانوں اوررفقائے کار کیلئے بھی ہے کہ ہمیں حصولِ علم، فروغ علم اور خدمتِ خلق و خدمت دین کے کام کو زندگی کے آخری سانس اور لمحے تک جاری رکھنا ہے۔ حصولِ علم، دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کے کام کا تعلق عمر کے کسی مخصوص حصے سے نہیں ہے جب شیخ الاسلام اس قدر زیادہ محنت اور کام کے بعد یہ فرماتے ہیں کہ میںآج بھی اپنے آپ کو طالب علم سمجھتا ہوں تو ہمیں اس پر خوشگوار حیرت بھی ہوتی ہے اور مسرت بھی کہ ان کے تجدیدی کام کی ایک دنیا معترف ہے، وہ وقت کے مجدد اور شیخ الاسلام ہیں،ان کی کہی ہوئی بات اتھارٹی ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو طالب علم سمجھتے ہیں۔

اس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ علم ایک ایسا سمندر ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں اور ہمیں اپنی زندگی کا ہر لمحہ مطالعہ کتب میں گزارنا چاہیے۔ ہم شیخ الاسلام کے ساتھ نسبت پر فخر کرتے ہیں تو ان کے ساتھ تعلق استوار رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم ان کی کتب کا مطالعہ کریں، ان سے سیکھیں، ائمہ کِبار کی کتب ہوں،فلسفہ، سائنس، تصوف، تفسیر، عقائد، اصول و فنون جس موضوع پر بھی کتابیں ہوں انہیں اس انداز سے پڑھیں اور تصور کریں کہ ہم ان کی صحبت میں بیٹھے ہیں، ایسی نیت کے اثرات بھی ہوں گے اور ثمرات بھی۔

ہمیں اس بات پر فخر بھی ہے اور اس پر سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ ہمیں شیخ الاسلام کی صحبت میں اٹھتے، بیٹھتے علم و حکمت کے ایسے موتی بھی ملتے ہیں جو مطالعہ کتب سے نہیں ملتے۔ ان کی گفتگو کا ایک ایک حرف علم و حکمت کا نچوڑ ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ صحبت ظاہری بھی ہوتی ہے اور باطنی بھی۔ کوئی مصنف چاہے ہزار سال پہلے ہی وفات کیوں نہ پا چکا ہو مگر جب آپ ان کی کتب عقیدت، محبت سے پڑھتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو ان کی صحبت میں بیٹھا پاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ امامِ بخاری کی کتب زیر مطالعہ ہوں یا دیگر ائمہ، محدثین، محققین کی کتابیں پڑھ رہے ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی کچہری میں بیٹھے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ کسی سے محبت محض دعوئوں سے نہیں ہوتی، جس سے آپ محبت کرتے ہیں اس کے رنگ میں بھی اپنے آپ کو رنگ لیں، اگر آپ اہل اللہ اور اہل علم سے محبت کرتے ہیں تو ان کی کتابیں پڑھیں، ان کے احوال کو جانیں اور اعمال پر عمل کریں، ان کی کتابوں سے بھی ان کی صحبت میسر آتی ہے۔

اگرچہ شیخ الاسلام کا اوڑھنا بچھونا ان کا تجدیدی، علمی، تحقیقی کام ہے لیکن اس کے باوجود وہ باقی امور اور فیملی کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں۔ جو ان کے ہمراہ ہیں، جو امریکہ میں ہیں، برطانیہ میں ہیں، آسٹریلیا میں ہیں، پاکستان میں ہیں، وہ سب کی خیریت دریافت کرتے ہیں، ان کے دکھ، سکھ اور معاملات زندگی میں شریک ہوتے ہیں۔ رشتہ دار کسی بھی خطہ میں کیوں نہ ہوں، تحریکی ساتھی، رفقائے کار، اراکین، وابستگان وہ سب سے وٹس ایپ پر رابطہ رکھتے ہیں۔ فرصت کے لمحات میں وہ پاکستان میں ڈاکٹر حسن محی الدین، ڈاکٹر حسین محی الدین سے دن بھر کی مصروفیات اور مختلف پراجیکٹس پر فون پر گفتگو فرماتے ہیں۔ اسی طرح تحریک کے جملہ رہنما اور قائدین سے بھی براہ راست رابطہ کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ تنظیمی، تحریکی معاملات ہوں تو بات کریں اور خیریت پوچھیں بلکہ تنظیمی امور سے ہٹ کر بھی خیر ،خیریت کیلئے بھی فون کرتے ہیں ، قائدین اور وابستگان کی فیملیز کے حوالے سے بھی خبر رکھتے ہیں، اسی طرح پوری دنیا کے تحریکی، تنظیمی، قائدین سے بھی خیر، خیریت پوچھتے رہتے ہیں اور رابطوں کو منقطع نہیں ہونے دیتے۔

جمعتہ المبارک کے دن شیخ الاسلام بطور خاص پوری دنیا کے رفقاء اور وابستگان سے ٹیلیفونک ملاقات کر لیتے ہیں اور دنیا بھر کے ذمہ داران کو بھی علم ہوتا ہے کہ جمعتہ المبارک کے دن گفتگو آسان ہے۔ اسی دن وہ مسائل کے ضمن میں بھی بات کر لیتے ہیں اور ضروری امور پر مشاورت بھی کرتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا کہ ان کی سرپرستی اور صحبت میں رہنا ہمارے لیے ایک بڑا اعزاز اور سعادت ہے۔ شیخ الاسلام ہمارے تعلیمی معاملات کے بارے میں حد درجہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ہمارے یونیورسٹیز اور سکولز کے متعلق معاملات اور معمولات کے بارے میں دریافت فرماتے رہتے ہیں، کلاسز کے ماحول اور زیر بحث آنے والے تدریسی لیکچرز سے متعلق بھی معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ ہماری تدریسی مصروفیات سے متعلق تفصیل سے سوالات پوچھتے ہیں اور ہمارے دیگر سماجی، مشاغل سے متعلق بھی دریافت فرماتے رہتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ایک اعزاز ہے کہ وہ ہماری دینی تربیت بھی فرماتے ہیں اور دینی و شرعی علوم کے ضمن میں بھی خوب دلچسپی لیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے قیمتی وقت سے ٹائم نکال کر ہمیں براہ راست پڑھاتے اور تربیت فرماتے ہیں۔

میں نے ستمبر 2016 ء میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں داخلہ لیا ،ٹورنٹو یونیورسٹی کینیڈا کی ٹاپ یونیورسٹی ہے، اس کا شمار دنیا کی 18بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے دو کیمپس ہیں، ایک کیمپس گھر سے 30منٹ کے فاصلے پر ہے اور دوسرا بڑا کیمپس ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ بڑے کیمپس تک جانے کے لیے پہلے گھر سے گاڑی کے ذریعے ٹرین تک اور پھر انڈر گرائونڈ ٹرین کے ذریعے بڑے کیمپس تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اسی طرح فقط آنے جانے کیلئے ساڑھے 3گھنٹے کا وقت درکا ہوتا ہے۔ جب داخلہ لینے کا فیصلہ ہوا تو اس پر شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اگر میں اپنے دل سے پوچھوں تو میرا دل کہتا ہے کہ سہولت گھر کے قریب ترین کیمپس میں ہے مگر عقل سے پوچھوں تو وہ کہتی ہے آپ دور والے کیمپس میں جائیں تاکہ آپ کو سفر کرنا پڑے، حصول علم کیلئے زیادہ محنت اور مشقت کرنی پڑے، محنت اور مشقت سے علم کے ساتھ ساتھ انسان کو بڑے سبق اور تجربات حاصل ہوتے ہیں، اس سے اکیڈیمک اور پروفیشنل لائف میں نکھار آتا ہے۔ آپ کی ان ہدایات اور رہنمائی کے ذریعے میں نے دور والے کیمپس میں داخلہ لینے کو ترجیح دی اور روزانہ ساڑھے تین گھنٹے سفر پر صرف ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں انٹرنیشنل ریلیشنز میں میری ڈگری کا آخری سال چل رہا ہے، اسی سال ان شاء اللہ میری گریجوایشن بھی مکمل ہو جائے گی اور پھر اسکے بعد اللہ کے اذن سے ماسٹرز کے لیے یو کے جائوں گا۔

اس گفتگو کا مقصد قارئین اور رفقائے کار کو یہ پیغام دینا ہے کہ شیخ الاسلام نے اپنے لیے کبھی آسان راستہ چنا اور نہ ہی اپنی اولاد کے لیے آسانیوں اور سہولتوں کو ترجیح دی۔ جہد مسلسل کا یہی پیغام تحریک کے جملہ وابستگان کیلئے بھی ہے کہ سخت محنت کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنائیں۔ جیسا کہ ابتداء میں کہا کہ ایک صحبت ظاہری ہوتی ہے اور ایک صحبت باطنی ہوتی ہے، باطنی صحبت سچی صحبت ہوتی ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے، یہی راستہ کامیابی اور کامرانی کا ہے۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ ہمارے شیخ الاسلام کے ساتھ شب و روز کیسے گزرتے ہیں ؟اس کا ایک حصہ تو میں نے بیان کر دیا کہ ہم اپنے اپنے تدریسی امور کی انجام دہی پر Focused ہوتے ہیں اور جن دنوں میری یونیورسٹی کی کلاسز نہیں ہوتیں، ان دنوں میں اپنا وقت شرعی علوم کی تحصیل اورتدریس کے لیے وقف کرتا ہوں اوراللہ کا شکر ہے وقت کے مجدد سے دینی، شرعی تعلیم حاصل کرنے کی سعادت میسر ہے۔

شیخ الاسلام اپنے کینیڈا قیام کے دوران بہت کم ملاقاتیں کرتے ہیں، خطابات ،کانفرنسز اور اجتماعات کے لیے بھی بہت کم وقت دیتے ہیں، کینیڈا ان کا گوشہ تنہائی ہے، یہاں ان کی ساری توجہ تصنیف و تالیف اور تدریس کے امور پر ہوتی ہے مگر وہ ظاہری طور پر نہیں مل رہے ہوتے لیکن وہ تمام تحریکی ساتھیوں، وابستگان، متعلقین کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، بالخصوص شہدائے ماڈل ٹائون کے ورثاء اور حصول انصاف کی جنگ کا حصہ وکلاء اور عہدیداروں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ یہ سب دعائوں میں رہتے ہیں۔ خاص کر اسیران انقلاب کے لیے وہ ہمیشہ دعائیں کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک عظیم مقصد کیلئے قربانیاں دیں،حضرت امام حسین ؓ کی سنت پر عمل پیرا ہوئے۔ وہ ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی تکالیف سے نجات دے اوران کے اہلخانہ کو مصائب و آلام سے بچائے۔ ان کی اسیری کی وجہ سے وہ بہت دکھی ہوتے ہیں اور ان کے آرام اور ریلیف کیلئے مرکزی قائدین کو ہدایات بھی جاری کرتے رہتے ہیں۔

شیخ الاسلام کو جہاں اللہ نے ایک مجدد کی حیثیت سے اصلاحِ احوال، اصلاحِ امت اور تجدیدِ دین کی توفیق بخشی ہے، وہاں انہیں ایک دردمند، شفیق دل سے بھی نوازا ہے مگر ان کی شفقت بے جا اور بلاجواز نہیں ہوتی۔ جہاں اصلاح اور سمجھانا ناگزیر ہوتا ہے تو وہ وہاں سختی بھی اختیار کرتے ہیں۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کے دو متضاد لیکن خوبصورت پہلو ہیں: ایک طرف نظم و ضبط کے ضمن میں پہاڑ اور لوہے کی طرح سخت ہوں تو دوسری طرف سمندر کی طرح نرم بھی ہوں اور بہائو کی فراوانی ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ’’ان اللّٰہ یامرکم بالعدل والاحسان‘‘ آپ کی طبیعت اور تربیت کا یہ مرکزی نقطہ ہے کہ انسان اپنی شخصیت اور روز مرہ کے امور میں عدل سے کام لے اور احسان بھی کرے۔ انہی دونوں پیمانوں کے میلاپ سے اعتدال قائم ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ کے خاص مقربین، اولیاء صالحین اور برگزیدہ بندے انہی اوصاف اور کمالات کا پرتو ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کے سروں پر شیخ الاسلام کا سایہ تادیر قائم و دائم رکھے اور ہم ان کے خطابات، ارشادات، تقریروں، تحریروں سے علم و حکمت کے موتی چنتے رہیں اور اپنے دین اور دنیا کو سنوارتے رہیں۔