میرا قائد میری نظر میں

خرم نواز گنڈاپور (ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شخصیت ہمارے لیے رول ماڈل ہے۔ ان کی سرپرستی میں تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے میں ایک نئی دنیا اور زندگی کے اسباق سے روشناس ہوا۔ وہ ایک محقق، محدث، معلم، منتظم، معیشت دان، سیاسی، سماجی امور کے ماہر نباض اور کہنہ مشق انتھک شخصیت ہیں۔ وہ متبسم چہرے کے ساتھ انتہائی گھمبیر مسائل کا قابلِ قبول حل تلاش کرنے میں ایک خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اللہ نے انہیں علم،حلم، فہم،فہم و فراست کے بے انداز خزانوں سے نوازا ہے اور علم و حکمت کے ان خزانوں سے ایک دنیا فیض یاب ہورہی ہے۔

قبلہ شیخ الاسلام کے ساتھ بیتنے والے یہ شب و روز زندگی کے خوبصورت لمحات ہیں۔ وہ عہدیداروں اور کارکنوں کے ساتھ اولاد کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ بیک وقت وابستگان کے مسائل سنتے، ان کا حل پیش کرتے، علمی، تحقیقی پراجیکٹس مکمل کرتے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے منہاج القرآن کے تنظیمی نیٹ ورک کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن ان سارے امور کی انجام دہی کے دوران ان کے چہرے پر کبھی تھکن کے آثار نہیں دیکھے۔ اللہ نے انہیں کمال ہمت، جرأت، حکمت، بصیرت سے نوازا ہے۔ شیخ الاسلام ہمارا حوصلہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ صحت و تندرستی کے ساتھ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔آمین

Brig (Retd) Iqbal Ahmed (Vice President MQI)

My association with Shaykh Ul Islam, Professor Dr. Muhammad Tahir ul Qadri dates back to December 2001, when I first met him for an interview to fill a senior post at Minhaj Ul Quran Secretariat. I had had no exposure to his personality prior to this meeting save for a few television episodes on religion that I had viewed. So, I started my association with a slate clear of any impressions. As the time passed I was fortunate to be in the close circuit comprising the senior management that formed Shaykh Ul Islam's immediate consultative and advisory body. This provided me with a unique opportunity to observe my Qaid from close quarters and gather impressions on various facets of his personality. As the time passed the clean slate of my perception started getting the imprints and the charisma of his personality unknowingly started to seep into me and a change for good started to happen within me. Shaykh Ul Islam's personality is so rich in values and matter that it is not possible to pen these in a page or so. However, an effort is made to give some reflections in the ensuing paragraphs.

Shaykh Ul Islam as a Human Being. A staunch lover of The Prophet (PBUH), the noble teaching of the Prophet are a glaring reflections in Shaykh Ul Islam's daily life. With fear of Allah supreme in all his dealings Shaykh Ul Islam is a symbol of a good Muslim and human being with highly noble virtues of head and heart. He is loving and kind to all irrespective of their cast creed and religion. Magnanimous at heart he is forgiving and compassionate ready to forgive and forget of human failings of any magnitude.

Shaykh Ul Islam As a Reformer. Cognizant of the Malaise of sectarianism and Mullah Brand hackneyed Islamic views /teachings Shaykh Ul Islam identified the cause as illiteracy and blind following of the masses in search of eternal salvation. To this end, besides authoring books and talks on diverse subjects Shaykh Ul Islam's two pronged comprehensive plan of formal and informal education is serving thousands; formally through One University, Ten Colleges and over 750 school under the banner of Minhaj Education Society and informally through an intricate network of Tanzeemats reaching down to Ward and Muhallas taking the teachings of true Islam to the door steps of the Masses. Empowerment of Women is another feather in the cap of Shaykh Ul Islam where he identified the potential of the 51% of the population and encouraged them to effectively play their role in reformation of the society. An elaborate network of Minhaj Women League Forum established at home and abroad is successfully spreading the message / teachings at the door steps as envisioned by the Quaid through regular talks by scholars, short courses on Quran and Hadees, Diploma courses of short and long durations.

Shaykh Ul Islam as a Scholar and Orator. Author of over 600 books Shaykh Ul Islam is an ocean of knowledge. His expertise is an all - encompassing covering diverse subjects on religion (Fiqh and Hadees), science, economics, medicine, geography, physics metaphysics and many more. Shaykh Ul Islam's writings are wholesome explicit imparting a deep understanding and vivid guidance to the reader. Shaykh Ul Islam is an orator par excellence he excels drawing substance from a rich memory vocabulary making it easy for the common audience to comprehend. 6000 lectures covering a wide spectrum of diverse subjects are a testament to his skills.

Shaykh Ul Islam as a Commander and Leader. When it comes to leading huge gatherings of followers and Tahreek workers I found Shaykh Ul Islam leading from the front with crystal clear vision about his Aims and Objectives. He remained unflinching and steadfast under extreme adverse situations with shells falling all around thus displaying the rare qualities of moral and physical courage.

Shaykh Ul Islam a Mujadid. When viewed upon the yard stick of religious achievements Syakh Ul Islam undoubtedly stands to qualify for a Mujadid of the present times with a place high amongst the Galaxy of leading Saints of the era.

احمد نواز انجم (نائب ناظم اعلیٰ)

تاریخ انسانیت گواہ ہے کہ حق اور باطل ہمیشہ برسر پیکار رہے ہیں۔طاغوتی اور شیطانی قوتیںہمیشہ سے انسان کو اپنے خالق اور معبودِ حقیقی کی راہ سے بہکانے اور انسانی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی سطح پربگاڑپیدا کرنے کے در پے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب طاغوت اور شیطنت کا اثر و نفوذ حد سے بڑھتا ہے تواللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے کسی بندہ مقبول کو بھیجتا ہے جو اس بگاڑ اور فتنے کا قلع قمع کرتا ہے اوربھولی بھٹکی انسانیت پھر سے راہ ِ ہدایت پر گامزن ہو جاتی ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لیکر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیa کی بعثت تک یہ فریضہ انبیاء علیہم السلام کے سپرد رہا۔ بعد ازاں یہ منصب امتِ مصطفوی میں سے کسی نہ کسی مقبولِ بارگاہ کے سپرد ہوتا رہاہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

بگاڑ ہمیشہ مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔کبھی جزوی ہوتا ہے تو کبھی کلی اور کبھی ظاہری احوال میں رونما ہوتا ہے تو کبھی باطنی احوال میں۔ چنانچہ مشیت ایزدی کے مطابق زوال اور بگاڑ کی نوعیت اور سطح کو سامنے رکھتے ہوئے حضور نبی اکرمa کے فرمان کے مطابق مجدد کو مبعوث کیا جاتا ہے۔

علماء نے مجدد کی درج ذیل نشانیاں بیان فرمائی ہیں:

  • اس کی پیدائش ایک صدی کے آخر میں ہوتی ہے اور اگلی صدی کے شروع میں اس کی تجدیدی کاوشوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔
  • وہ دل کا بڑا غنی ہوتا ہے۔اس کے سامنے دولت کا ڈھیر بھی لگا دیا جائے تو وہ اس کو ٹھوکر مار دیتا ہے اور اپنے مشن سے نہیں ہٹتا۔
  • اسے اللہ کی بارگاہ سے علمِ ظاہری میںبھی کمال حاصل ہوتا ہے اور علم باطنی میں بھی۔
  • اس کی کاوشوں سے اللہ تعالیٰ جل شانہ تھوڑے عرصے میں کثیر تعداد میں افراد کو ہدایت کا نور عطا فرماتا ہے۔

1985ء میں اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے مجھے شعور بخشا اور میں نے محسوس کیا کہ امت مسلمہ کے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ اللہ کی بارگاہ سے کوئی مجدد آئے جو اس کے بکھرے ہوئے شیرازے کو پھر سے مجتمع کرے۔ اسی کشمکش میں جب پہلی بار شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دیکھا اور سنا تو دل نے گواہی دی کہ آپ ہی اس دور کے مجدد ہیں۔چنانچہ رفاقت کا فارم پر کرکے میں بھی آپ کے کارکنوں میں باضابطہ طور پر شامل ہوگیا۔ جوں جوں آپ کی سنگت میں وقت گزرتا گیا میرا یقین پختہ ہوتا چلا گیا۔ الحمد للہ آج عرب و عجم میں اس حقیقت کی باز گشت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دورحاضر فتنوں کا دور ہے۔ امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر ایک ہمہ گیر زوال اور انحطاط کا شکار ہے۔ اس بگاڑ کی نوعیت جزوی نہیں کلی ہے۔ امت کے صرف ظاہری نہیں بلکہ باطنی احوال بھی باطل اور طاغوتی طاقتوں کے اثر و نفوذ کی زد میں ہیں۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو زوال اور انحطاط سے محفوظ ہو۔

اندریں حالات جب میں اپنے محبوب قائدکی ہمہ جہت، یکتائے روزگار، طلسماتی شخصیت کو دیکھتا ہوں اور ان کی اصلاحی اور تجدیدی تحریک کے اغراض و مقاصد، ان مقاصد کے حصول کیلئے کی جانے والی ہمہ گیر اور ہمہ جہت جدوجہد اور اس جدوجہد کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی سطح پررونما ہونے والے حیرت انگیزنتائج کو دیکھتا ہوں تومیرا دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ نے اپنے محبوبa کے نعلین پاک کے تصدق سے میرے اس عظیم قائد کو بیک وقت مجدد اور غوثِ وقت کے منصب پر فائز کیا ہے۔آپ مجمع البحرین ہیں۔آپ کو بیک وقت امت کے ظاہری اور باطنی بگاڑ کی اصلاح کیلئے اللہ کی بارگاہ سے خصوصی عنایات دے کربھیجا گیا ہے۔ آپ اس دور میں امت کیلئے سرکار مدینہa کا خاص تحفہ ہیں۔آپ کی شخصیت بھی رسول نما ہے اور آپ کی تحریک بھی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ

  • یہ صدی میرے عظیم قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی صدی ہے
  • یہ صدی باطل طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کے خلاف اسلام کی فتح کی صدی ہے
  • یہ صدی غلبہ دینِ حق اورامتِ مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کی صدی ہے

قاضی زاہد حسین (مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک)

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 69 ویں سالگرہ کے پرمسرت موقع پر کچھ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔ ان کی سنگت اور رفاقت میں گزرے ہوئے 36 برس تیزی سے گزر گئے لیکن اس تھوڑی سی مدت میں گزرے ہوئے انمول مواقع جب بھی یاد کرتا ہوں تو فضا معطر ہوجاتی ہے اور دل شاد ہوجاتا ہے۔ اس ہستی کے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ ہی قابل دید اور قابل ذکر ہے۔

اوائل دور کی بات ہے شیخ الاسلام نے جامع مسجد رحمانیہ طارق روڈ کراچی میں ماہانہ درس قرآن کا آغاز کیا۔ ٹی وی پروگرام فہم القرآن سے تو اپنا گرویدہ کرہی چکے تھے، ماہانہ درس قرآن میں بھی متلاشیان محبت الہٰی اور عشق رسولa جمع ہونے لگے تو ان مین سے ایک ناچیز بھی تھا۔

بھری جوانی، شلوار قمیص پر واسکٹ اور جناح کیپ زیب تن کیے ہوئے شیخ الاسلام محبت الہٰی اور عشق رسولa کے جام پلایا کرتے تھے اور ابتدا ہی سے باطل نظام کوجھنجھوڑنے والی للکاریں آج تک قلب و باطن کو عازمِ سفرِ انقلاب کیے ہوئے ہیں۔

مجھے جوں جوں شیخ الاسلام کی قربت و محبت میسر آتی گئی ہر لمحہ وہ مجھے تمام علمی، فکری، سیاسی اور مذہبی شخصیات میں منفرد و ممتاز دکھائی دینے لگے۔ میرا قائد سب سے منفرد شبنم کی طرح پاک اور اوج ثریا کی طرح بلند تصورات کا حامل اور تمام اوصاف میں یکتا ہیں۔

اس قلندر نے جس طرح لانگ مارچ اور انقلاب مارچ میں اس مروجہ باطل نظام کو ضربیں لگاکر اس کو بے نقاب کیا، اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ واحد لیڈر ہے جنہوں نے اس فرسودہ، ناکارہ اور ظالمانہ نظام کو حقیقی معنوں میں چیلنج کیا ہے اور سب اسی انتظار میں ہیں کہ کب شیخ الاسلام اس باطل فرسودہ نظام کی دیوار کو آخری دھکا دے کرریاست مدینہ کا خواب شرمندہ تعبیر کریں گے اور عالمی منظر نامہ پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔ 40 سال پہلے شروع ہونے والا انقلابی سفر جاری ہے اور ظلمت کے آسمان پر مصطفوی انقلاب کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔

بارگاہ الہٰی میں دعا ہے کہ شیخ الاسلام اور ان کے گھرانہ کا اقبال مزید بلند ہو اور ہمیں آخری سانس تک وقت کے مجدد، امام اور تجدیدی تحریک کی وفاداری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قاضی زاہد حسین (مرکزی صدر پاکستان عوامی تحریک)

یہ 1995ء کی بات ہے جب میں طالب علم تھا، ہوش سنبھالتے ہی ملک کے حالات کی فکر دامن گیر رہنے لگی، ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل اور انقلابی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس دوران ایک انقلابی آواز سنائی دی، وہ آواز میرے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تھی، اس آواز میں اتنا جادو تھا کہ میں اس آواز کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔ بعد ازاں قائد کی انقلابی فکر کو پڑھنے اور سننے کا موقع میسر آیا تو قائد انقلاب کی اس آواز میں ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے اور غریب عوام کا مقدر بدلنے کی واضح سمت نظر آئی کہ جب تک ملک میں رائج کرپٹ اور فرسودہ سیادی و انتخابی نظام نہیں بدلتا، ملک کسی بھی بڑی تبدیلی کی جانب گامزن نہیں ہوسکتا۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قائد تحریک کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک نے ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے سلوگن کے ساتھ فرسودہ انتخابی نظام کو توڑنے کے لیے قائد تحریک نے عظیم انقلابی جدوجہد کی، جس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ جدوجہد کے نتیجے میں کرپٹ اور عوام دشمن نظام کی دیوار میں دراڑیں تو پڑچکی ہیں مگر ابھی اس کی بوسیدہ عمارت کا زمیں بوس ہونا باقی ہے۔ اس مقصد کے لیے قائد انقلاب کی سیاسی فکر کو اس قوم تک پہنچانے کے لیے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ میں نے بحیثیت صدر پاکستان عوامی تحریک شمالی پنجاب اپنی انقلابی ٹیم کے ساتھ مل کر اس کرپٹ نظام پر آخری وار کرنے کی تیاری کا آغاز کردیا ہے اور ان شاء اللہ بہت جلد کرپٹ نظام کی بوسیدہ عمارت زمین بوس ہوگی اور جس انقلاب کا خواب میرے قائد نے دیکھا تھا، وہ انقلاب اس ملک و قوم کا مقدر بن کر رہے گا۔ ان شاءاللہ

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کو عمر خضر عطا فرمائے اور ہمیں اس عظیم قائد کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔