اولین رفقائے تحریک سے خصوصی گفتگو

انٹرویوز: نوراللہ صدیقی

کسی بھی جماعت، تحریک اور مشن کے فروغ کیلئے جہاں آئیڈیالوجی مرکز نگاہ ہوتی ہے وہاں آئیڈیالوجی دینے والی شخصیت کا ذاتی کردار،اعمال اورافعال مرکزی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نصب العین اور نظریات لیڈر شپ کی شخصی خوبیوں اور کریڈیبلٹی کے اردگرد گھومتے ہیں اور اسی شخصی کردار کی بنیاد پر عامۃ الناس کی توجہ حاصل کرتے اور مقبول عام ہوتے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح وہ بولی نہیں بولتے تھے جو برصغیر کے عام مسلم طبقہ کی تھی اور بانی پاکستان وہ لباس بھی نہیں پہنتے تھے جو برصغیر کے عام مسلمان پہنتے تھے مگر برصغیر کے ہر پڑھے لکھے اور ان پڑھ مسلمان کا اس بات پر یقین تھا کہ قائداعظم جو کہتے ہیں،جو بولتے ہیں اور جو کرتے ہیں، اس میں خلوص، دردمندی، فکر مندی اور خالصیت ہے۔ بانی پاکستان کے اسی شخصی کردار نے نہ صرف انہیں اپنے مشن میں کامیابی عطا کی بلکہ انہیں قائداعظم ؒ جیسے منصب پر فائز کیا۔

امسال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 69ویں سالگرہ کے موقع پر ماہنامہ منہاج القرآن کی طرف سے ان احباب سے خصوصی گفتگو کی گئی ہے جنہوں نے ابتدائی دور میں شیخ الاسلام کے دست راست بن کر ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی اور مشن کے فروغ کیلئے چار سے پانچ دہائیوں تک اپنی بہترین تنظیمی،تحریکی خدمات انجام دیں۔ ہم نے ان سینئر احباب سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ 70ء کی دہائی میں محاذِ حریت پلیٹ فارم سے مصطفوی انقلاب کے لیے شروع کی جانے والی جدوجہد جو بعدازاں منہاج القرآن کی صورت میں پوری دنیا میں پھیلی، اس کے ابتدائی احوال اور خدوخال کیا تھے؟ انہوں نے اس ابتدائی زمانے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو کس طرح پرعزم پایا اور کس جذبے کے ساتھ ان کے ہمرکاب بنے رہے؟ ان احباب سے یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی کہ 70ء کی دہائی میں جس نظریے (مصطفوی انقلاب)کا قلوب و اذہان کی بنجر کھیتی میں بیج بویا گیا وہ کس طرح بیج سے تن آور درخت بنا، جس کی چھاؤں سے آ ج دنیا کے 100سے زائد ممالک کے عوام مستفید ہورہے ہیں۔

ہمارے کوشش اور خواہش تھی کہ جملہ احباب کے ساتھ فرداً فرداً اس ضمن میں نشست کا اہتمام کیا جاتا، تاہم وقت کی قلت کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ تاہم اس بات کا عہد کر لیا ہے کہ ہر سال ایسے تمام سینئرز احباب کے ساتھ گفتگو کی جائے گی جن کا منہاج القرآن کی بنیادوں میں خون اور پسینہ دونوں شامل ہیں۔ اس ضمن میں قابل احترام حافظ نذیر احمد سفیر یورپ، حاجی محمد سلیم قادری، حاجی امین القادری،غلام سرور قادری، حاجی سکندر اقبال، عبدالحمید قادری، محترم صبغت اللہ قادری،جی ایم ملک، محترم شفقت اللہ صاحب سے گفتگو ہوئی۔ درج بالا سینئر احباب سے گفتگو کیلئے خصوصی تعاون اور کوآرڈینیشن پر محترم جی ایم ملک صاحب، محترم شاہد لطیف صاحب، محترم شہزاد رسول صاحب اور عین الحق بغدادی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ ان کے تعاون اور کوآرڈینیشن سے مذکورہ بالا احباب سے گفتگو کی سعادت میسر آئی۔

محترم حاجی محمد امین قادری صاحب سے فیصل آباد میں ان کی رہائش گاہ پر 5گھنٹے سے زائد کا سیشن ہوا جہاں ان کے صاحبزادے احمد بلال اور کاشف بھی موجود تھے۔ اسی طرح جھنگ میں محترم صبغت اللہ قادری صاحب کا صدقِ دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ ان کے تعاون اور شفقت سے محترم غلام سرور قادری صاحب، سکندر اقبال صاحب اور عبدالحمید قادری صاحب سے 7گھنٹے کی طویل نشست ممکن ہو سکی۔ اسی طرح لاہور میں محترم حاجی محمد سلیم صاحب کی رہائش گاہ پر منہاج القرآن اور قبلہ شیخ الاسلام کے شب و روز کے بارے میں گفتگو ہوئی۔

اگرچہ ہیروز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے جان،مال کی قربانیاں دے کر منہاج القرآن کے پودے کو تن آور درخت بنایا۔ ان شااللہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ہر سال منہاج القرآن کے یوم تاسیس کے موقع پر ابتدائی دور کے ہیروز، شیخ الاسلام کے دست راست اور قابلِ قدر شخصیات کو خصوصی عشائیہ میں مدعو کیا جائے اور ان سے ابتدائی دور کی باتیں سنی جائیں۔ ذیل میں ان مذکورہ احباب سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے:

ہم اوائل عمری سے ہی ان سے روحانی موضوعات پر گفتگو سنا کرتے تھے (غلام سرور قادری)

غلام سرور قادری صاحب قبلہ شیخ الاسلام کے زمانہ طالب علمی کے ساتھی ہیں، ان سے جھنگ میں ملاقات ہوئی۔ محترم غلام سرور قادری صاحب نے بتایا کہ شیخ الاسلام سے میری شناسائی کا آغاز 1968ء میں ہوا، جب میری عمر 15سال تھی اور قبلہ کی عمر 17سال تھی۔ اس عمر میں وہ ہمیں تصوف پر لیکچر دیتے تھے، وہ ہم سے حضور سیدنا غوث الاعظم کے مقام و مرتبہ پر گفتگو کرتے تھے۔ ہمارے لیے یہ باتیں جہاں دلچسپی اور توجہ کا باعث ہوتی تھیں وہاں ہم حیرت زدہ بھی ہوتے تھے کہ یہ کھیل کود کی عمر تھی جس میں وہ ہم سے علمی موضوعات پر باتیں کرتے تھے، ان کی ان باتوںکی وجہ سے ہم قبلہ شیخ الاسلام سے اس قدر مانوس تھے کہ ہم عمر ہونے کے باوجود دل میں کبھی ہمسری کا خیال تک نہ آتا تھا۔ ہم عشاء کی نماز مسجد میں ادا کرتے اور پھر ہم دوستوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے اس دوست کا ہر لحاظ سے خیال رکھنا ہے اور حفاظت کے تقاضوں کے تحت انہیں کبھی کہیں اکیلے نہیں جانے دینا۔ ہماری سوچ سے یہ بعید ہے کہ ایسے خیالات اور ایسی سوچ ہمارے دلوں میں کس طرح آئی؟ عشاء کی نماز کے بعد ہم سارے دوست ان کے ساتھ گھر تک جاتے، جب تک وہ گھر کے اندر داخل نہ ہو جاتے اور اندر سے کنڈی لگنے کی ہمیں آواز نہ آجاتی، ہم دروازے پر کھڑے رہتے اور جب ہمیں اطمینان ہو جاتا کہ وہ اندر چلے گئے ہیں اور کنڈی لگ گئی ہے تو پھر ہم اپنے گھروں کو واپس جاتے۔

محترم غلام سرور قادری صاحب نے بتایا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بچپن میں ہی صوم و صلوۃ کے پابند تھے اور ان کی طبیعت بچپن میں ہی صدقہ خیرات کی طرف مائل تھی۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ اس وقت 110روپے میں کھیر کی دیگ پکتی تھی اور ہم دوست مل کر 110روپے جمع کرتے اور ہر مہینے گیارہوریں شریف کا کسی ایک گھر میں ختم دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس میں کوئی تعطل نہیں آیا اور یہ سارا عمل کرتے ہوئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ڈاکٹر طاہرالقادری آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔ ہم نے بزم قادریہ کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے، یہ سارا عمل اس تنظیم کے تحت کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا 1973ء میں قبلہ شیخ الاسلام کی طرف سے تربیت کا باقاعدہ آغاز ہوا، زمانہ طالب علمی میں وہ انقلاب کی باتیں کرتے تھے اور ہم کاپیوں پراس کے نوٹس لیتے تھے۔ مصطفوی انقلاب کے حوالے سے وہ جن افراد سے باتیں کرتے تھے، ان کی تعداد 12 سے 13 تھی۔ ایک موقع پر انہوں نے ہم سے یہ حلف لیا کہ آپ ہمیشہ اس مشن سے وابستہ رہیں گے، جس وقت یہ حلف لیا اس وقت میری عمر 22سال اور شیخ الاسلام کی عمر 24سال تھی،وہ مجھ سے دو سال بڑے تھے۔ گفتگو اور تربیت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ اس دوران 1976ء میں محاذ حریت کا قیام عمل میں لایا گیا اور مسجد کٹرا بیروالا میں دروس قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ تاریخ جھنگ کے مطابق مسجد کٹرابیروالا اس جگہ تعمیر کی گئی جہاں شیر شاہ سوری اپنا خیمہ لگاتے تھے۔

غلام سرور قادری نے مزید بتایا کہ محاذ حریت کے عہدیداروں کا انتخاب ووٹنگ کے ذریعے ہوا، وہ نامزدگیوں اور ’’پک اینڈ چوز‘‘ پر یقین نہیں رکھتے تھے، ہر کام میں مشاورت کرتے تھے اور ہر مسئلے کا ان کے پاس متبادل حل ہوتا تھا۔ مشاورت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک بار ہم سے مشورہ مانگا کہ مصطفوی انقلاب کے لیے مجھے جھنگ سے لاہور منتقل ہونا ہو گا، وہاں کام کرنے کے مواقع زیادہ ہیں اور انہوں نے لاہور شفٹ ہونے کے لیے باقاعدہ مشاورت کی اور پھر اتفاق رائے سے انہوں نے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کی شخصیت میں اس قدر جمہوریت، ساتھیوں سے وفا شعاری اور احترام تھا کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے متعلق بھی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے تحریکی احباب سے مشاورت کی، وہ فیصلے مسلط نہیں کرتے تھے۔

سرور قادری صاحب نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ 14اگست 1976ء کے دن یوم آزادی کے موقع پر جھنگ میں محاذ حریت کے پلیٹ فارم سے جلسہ کیا جائیگا، جلسے کی تشہیر کی مجھے ذمہ داری دی گئی، پروگرام کے مطابق مجھے تانگے میں بیٹھ کر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اس پروگرام کی تشہیر کرنی تھی مگر مقامی انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب میں نے اس کا ذکر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے کیا تو انہوں نے سنتے ہی کہا کہ اس میں پریشانی والی کون سے بات ہے، ایک خالی گھی کا ڈبہ اور ایک ڈنڈا لیں اور پیدل اس کی تشہیر شروع کر دیں اورمیں نے پھر اسی طرح کیا، میں ٹین کا خالی ڈبہ پکڑے جھنگ کے مختلف چوراہوں پر اسے ڈنڈے سے بجاتا اور جب لوگ متوجہ ہو جاتے تو جلسے میں شرکت اور خطاب سننے کی دعوت دیتا۔

غلام سرور قادری صاحب نے بتایا کہ شیخ الاسلام اعلیٰ پائے کے منتظم تھے،ہر مرحلہ پر ہمیں مسئلے کا متبادل حل بھی دیتے تھے، وہ اپنے مقصد اور مشن میں اس طرح پرعزم تھے کہ جیسے وہ اس کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ جب شیخ الاسلام نے لاہور کا سفر کیا تو میں بھی ان کے ہمراہ تھا، شادمان میں ڈاکٹر محمد علی کی رہائش گاہ اور مسجد رحمانیہ میں دروس قرآن کا سلسلہ شروع ہوا تو میں شرکاء کی افطاری کا انتظام بھی کرتا، سبزیاں بھی خریدتا، پھر اس کی ہاتھ سے لکھی ہوئی خبریں اخبارات کو دینے کے لیے بھی خود جاتا اور اس سارے عمل کو مکمل کرنے کے لیے جن اخراجات کی ضرورت ہوتی تھی اس کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا۔ اس سارے عمل میں سونے کے لیے محض 3سے 4گھنٹے ہی مل پاتے تھے۔ ہم طعام کے لیے جو سبزیاں خریدتے تھے، ان کے نرخ بھی ساتھ لکھتے تھے تاکہ سب کو اخراجات کے بارے میں علم ہو کہ جو بھی ڈونیشن آتی ہے اس کا استعمال کیسے اور کہاں کیا جاتا ہے؟ شیخ الاسلام بھی حساب کتاب پر پوری نظر رکھتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 77ء کی تحریک میں بڑے بڑے جلسے ہوتے تھے اور بڑے بڑے علماء جب نوجوان طاہرالقادری کا خطاب سنتے تو اس کے بعد وہ خود کہتے تھے ’’اب ہم کیا بولیں اور کیا کہیں؟‘‘ جلسہ کے شرکاء بڑے بڑے خطبا کے برعکس ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب سننے کیلئے آتے تھے اور پھر ہر بڑے اور اہم جلسے میں نوجوان طاہرالقادری کا خطاب آخر میں ہوتا تھا۔ ان پر بچپن ہی سے اللہ کا فضل تھا، وہ اپنے ہم عصروں میں بھی عزت، احترام اور شفقت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور ان کا احترام دل اور جان سے ہوتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب بھی پرانی مسجد عیدگاہ یا کٹرابیر والا مسجد میں ان کا درس قرآن ہوتا تو وہ ساؤنڈ سسٹم کا خود جائزہ لیتے تھے، جب تلاوت قرآن پاک شروع ہوتی یا نعت پڑھی جارہی ہوتی تو آپ اٹھ کر باہر آجاتے اور ساؤنڈ سسٹم کا جائزہ لیتے کہ آیا آواز ٹھیک طرح سے آرہی ہے اور باہر سننیوالوں کو کسی دقت کا سامنا تو نہیں؟وہ اس بات پر ضرور باز پرس کرتے تھے کہ ساؤنڈ سسٹم معیاری ہونا چاہیے۔

غلام سرور قادری نے مزید کہا کہ 1986ء میں جھنگ میں منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جسے اس وقت کی بعض مسلکی جماعتوں نے ناکام بنانے کی سرتوڑ کوشش کی، یہاں تک کہ جھنگ کے تاجروں اور دکانداروں کی دکانوں کے شٹروں کے نیچے پمفلٹ پھینکے اور انہیں تلقین کی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں۔ یہ پمفلٹ اتنی بڑی تعداد میں بانٹے گئے کہ اس دھمکی کے ساتھ کانفرنس کے انعقاد کا پیغام بھی ہر دکان اور ہر گھر تک پہنچ گیا اور اکثریت یہ سوچ کر اس کانفرنس میں شریک ہوئی کہ آخر اس میں ایسا کیا ہے کہ روکا جارہا ہے؟

انہوں نے بتایا کہ ایک بار میرے گھر کے باہر محاذ حریت کا جلسہ تھا، اشتہار کے پیسے نہیں تھے، میں نے 50 چھوٹے اشتہار جلسے میں شرکت کی دعوت کے مضمون کے ساتھ ہاتھ سے لکھے، اشتہار کو دیواروں پر چسپاں کرنے کے لیے گوند کی ضرور ت تھی، اس کے لیے بھی پیسے نہیں تھے،میں نے گھر سے آٹا لیا، گرم پانی میں گھول کر اس کا پیسٹ بنایا اور پھر دیواروں پر خود ہی چسپاں کرتا رہا۔ یہ بات جب میرے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے علم میں آئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آج ہمارے پاس 5 روپے نہیں ہیں مگر ایک وقت آئیگا کروڑوں روپے کے منصوبے اللہ ہمارے ہاتھوں سے مکمل کروائے گا۔ ہم یہ بات سن لیتے تھے اور دل ہی دل میں کہتے تھے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ اور آج لحمداللہ کروڑوں نہیں اربوں کے منصوبے اللہ تعالیٰ ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے مکمل کروا رہا ہے۔ اگرچہ اس وقت ہم دل و جان سے ساتھ تھے ،محنت کررہے تھے مگر ان دعوئوں پر یقین نہیں آتا تھا، اب سوچتے ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، مقصد خالص ہو، جہدِ مسلسل ہو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔

انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا جو ظاہر تھا وہی باطن تھا اور ان کے دل میں خوفِ خدا، عشقِ مصطفیa کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ان کا دل دنیا کی چاہت سے خالی ہے اور ان کے اسی کردار نے انہیں دنیا بھرکی آنکھ کا تارا بنا دیا ہے۔

غلام سرور قادری صاحب نے ایک ایمان افروز اور روح پرور واقعہ بھی سنایا کہ ایک بار حضور سیدنا قدوۃ الاولیاء حضرت طاہر علائو الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کی زیارت کے لیے ہم بھی ان کے ہمراہ کوئٹہ گئے۔ حضور سیدنا قدوۃ الاولیا ء آپ سے بہت محبت اور شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ ہم سب کھانا تناول کررہے تھے ،حضور سیدنا قدوۃ الاولیا ء اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آمنے سامنے بیٹھے کھانا کھارہے تھے، دونوں کے ہاتھ میں لقمے تھے اور کچھ دیر کے بعد حضور پیر صاحب ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہوئے کہ میں آپ کے کھانا ختم کرنے کا انتظار کررہا ہوں تو ڈاکٹر صاحب نے بھی کہا کہ میں تو آپ کے کھانا ختم کا انتظار کررہا ہوں۔ شیخ اور مرید کے درمیان ادب اور محبت کا ایسا منظر پھر دوبارہ ان آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ مجھے فخر ہے کہ میں ان کے بچپن کا ساتھی ہوں اور مصطفوی انقلاب کی جدوجہد میں آج بھی ان کا ہم سفر ہوں۔

ہمارے ہم عمر ہونے کے باوجود علمی و روحانی طور پر وہ ہم سے زیادہ مضبوط تھے (حاجی سکندر اقبال قادری)

حاجی سکندر اقبال قادری صاحب بھی جھنگ کے رہائشی ہیں اورقبلہ شیخ الاسلام کے زمانہ طالب علمی کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ جھنگ کی ابتدائی، انقلابی سرگرمیوں اور جدوجہد میں وہ بھی شانہ بشانہ تھے۔ انہوں نے بھی قبلہ شیخ الاسلام کے زمانہ طالب علمی سے متعلق بہت ساری باتیں سنائیں، گفتگو کرتے ہوئے ان کے چہرے سے ادب، محبت اور اشتیاق کے جذبات نمایاں تھے۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے اس نسبت اور مصاحبت پر نازاں و فرحاں نظر آتے تھے۔ انہوں نے بتایا:

قبلہ فرماتے تھے کہ ہمارا مشن دنیا بھر میں پھیلے گا اور میں اس قدر مصروف ہو جاؤں گا کہ اس طرح ہم آپس میں بات چیت نہیں کر سکیں گے جیسے آج کل کرتے ہیں۔ اس پر میں دل ہی دل میں کہتا، آپ بھی یہیں ہیں اور ہم بھی یہیں ہیں۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ ان کی نظر کیا ہے اور ان کو کیا عطا ہوا ہے۔ ہم بھی دیکھتے تھے، وہ بھی دیکھتے تھے مگر ہمارے اوران کے دیکھنے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ میں نے ان کے کٹرا بیر والامسجد میں ہونے والے دروس سنے۔ وقار، متانت، سنجیدگی، دردمندی، علمیت بچپن سے ہی ان کے چہرے سے جھلکتی تھی۔ وہ بچپن میں بھی سوچ سمجھ کر الفاظ اداکرتے تھے۔ وہی بات کہتے تھے جو کہی جانی ہوتی تھی، غیر ضروری گفتگو اور غیرضروری الفاظ ان کی زبان سے کبھی ادا ہوتے نہیں سنے۔ میں اس بات پر حیرت زدہ ہوتا تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری بھی جھنگ کی سرزمین سے ہیں، ہم بھی جھنگ سے ہیں، ہمارا اٹھنا، بیٹھنا ماحول ایک جیسا ہے یہ اتنے شائستہ، شستہ، مہذب، تہذیب یافتہ ،اہل اللہ، حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبے اور سنجیدہ، فہمیدہ کیسے ہیں؟

وہ زمانہ طالب علمی میں ہی ان موضوعات پر خطابات کرتے جو علماء کے موضوعات ہوتے تھے۔ میں نے ان سے پہلا باضابطہ خطاب اعلیٰ حضرت احمد رضا خان فاضل بریلویؒ کے علمی نظم کے موضوع پر سنا۔ اس خطاب کے بعد میرا دل ان کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ ہم ان کی آمد، ان سے ملنے اور گفتگو کا انتظار کرتے تھے۔ وہ بہت معاملہ فہم تھے، اللہ نے انہیں ایک اعلیٰ منتظم کی اہلیت سے بھی نوازا تھا کہ وہ ہر مسئلے کا متبادل حل دیتے تھے۔ اسی طرح ایک موقع پر ہم نے جھنگ میں ایک کانفرنس کرنی تھی اور اس دوران جھنگ کی سرزمین شیعہ، سنی کے جھگڑے سے دو چار تھی۔ ہم نے تمام مسالک پر مشتمل کانفرنس کرنی تھی جس جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا اس کی تمام دیواروں پر ایک مسلک کے لیے کافر کافر کے نعرے لکھ دئیے گئے تھے، ہم پریشان تھے کہ ان کو کیسے مٹائیں؟ جب یہ معاملہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کے علم میں لایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں پریشانی والی کون سے بات ہے۔ دیواروں کے ساتھ ’’قناتیں‘‘ کھڑی کر دیں اور اس طرح پل بھر میں ہم اس مشکل سے باہر نکل آئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے قول اور فعل، ظاہر اور باطن میں کبھی کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔ زمانہ طالب علمی میں تو ان کے ساتھ تعلق محبت اور الفت پر مبنی تھا، ایک دفعہ میں نے 27 رمضان المبارک کو ان کا ایک خطاب سنا، جس کا عنوان تھا: ’’رونے والی آنکھ ‘‘۔ اس خطاب نے اتنا رولایا کہ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے روتے بے حال ہو گیا، صبح تک آنکھ سے آنسو جاری تھے اور جب فجر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو طبیعت ہلکی پھلکی تھی۔ یوں لگا کہ دل کا سارا میل اور زنگ اتر گیا ہے۔ میں اس ایک رات جتنا رویا بعدازاں آج کے دن تک کا رونا جمع کر لوں تو اس ایک رات کے رونے سے کم ہی نکلے گا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین سے محبت کا جو پودا ہمارے دلوں کی بنجر زمین پر اگایا، دینی فرائض کی ادائیگی اور منہاج القرآن کی خدمت سے اس کی افزائش میں لگے ہوئے ہیں۔ سچی بات ہے کہ گو یہ پچاس، پچپن سال کی پرانی باتیں ہیں مگر ہم آج بھی ان کی قربت کو محسوس کرتے ہیں اور انہیں اپنے درمیان ہی پاتے ہیں۔

سکندر اقبال قادری صاحب نے مزید بتایا کہ میری ساری فیملی کسی اور مسلک اور سیاسی فکر کی ہے۔ میرے منہاج القرآن سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سب نے مجھے چھوڑ دیا اور میں نے سب کی جدائی گوارا کر لی۔ آج میری فیملی اور میرے رشتے دار منہاج القرآن کے لوگ ہیں، یہی میرے دکھ، سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور یہی میرے جان و مال کے محافظ بھی ہیں۔

محترم عبدالحمید قادری صاحب بھی قبلہ کے زمانہ طالب علمی کے ساتھیوں اور دوستوں میں سے ہیں، اس ساری گفتگو کے دوران وہ بھی شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم اکٹھے تھے جو باتیں سرور قادری صاحب نے بیان کیں اور جو سکندر اقبال قادری صاحب نے بیان کیں میں بھی انہی میں شامل تھا اور میرے بھی یہی خیالات اور جذبات ہیں۔ ہمیں قبلہ کے کردار ،اعلیٰ گفتار اور اسلام سے محبت نے اپنا گرویدہ بنایا، ہمیں اپنی اس نسبت اور تعلق پر فخر ہے۔

ہم ان کے ہر فیصلے کو مشیتِ ایزدی سمجھ کر قبول کیا (صبغت اللہ قادری)

قابل احترام صبغت اللہ قادری صاحب قبلہ شیخ الاسلام کے قریبی عزیز ہیں، ان کے شکر گزارہیں کہ انہوں نے انتہائی مختصر وقت میں ٹیلیفون پر کی جانے والی درخواست پر قبلہ کے زمانہ طالب علمی کے دوستوں سے ملاقات کا اہتمام کیا اور اپنی بے پناہ محبتوں اور میزبانی سے نوازا۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان الماریوں کی زیارت سے بھی مستفید کروایا جو زمانہ طالب علمی میں قبلہ کے زیر استعمال تھیں اور اس کمرے میں بھی نوافل اور نماز ظہر ادا کرنے کی سہولت مہیا کی جو قبلہ شیخ الاسلام کی جائے پیدائش ہے۔ انہوں نے قبلہ کے زیر استعمال رہنے والی اس جگہ کو انتہائی صاف اور شفاف رکھا ہوا ہے اور عقیدت اور محبت کے جذبات سے لبریز میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان سے بھی قبلہ کے بچپن، زمانہ طالب علمی اور جھنگ کی سرزمین پر گزرنے والے شب و روز اور خاندانی امور میں ان کے کردار سے متعلق گفتگو ہوئی۔

محترم صبغت اللہ قادری صاحب نے انتہائی عقیدت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جتنے آج ہمارے لیے قابل عزت اور قابل احترام ہیں اتنے ہی قابل عزت اور قابل احترام وہ بچپن میں بھی تھے۔ ان کی زندگی کا کوئی دور ایسا نہیں ہے جس میں وہ خاندان بھر کی محبت اور توجہ کے مرکز نہ رہے ہوں۔ کوئی بڑا ہے یا کوئی چھوٹا ہے، وہ ان کے لیے فرش راہ رہا۔ ہم سب بڑے ان کی صرف عزت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے لیے ہمارے عقیدت کے جذبات تھے۔ ہمارے گھروں میں جگہ جگہ ان کی تصاویر لگی ہوئی ہیں، ہمارے پوتے جب روتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر چپ کراتے ہیں کہ وہ دیکھیں قبلہ دیکھ رہے ہیں وہ کیا کہیں گے؟

محترم صبغت اللہ قادری صاحب نے بہت ساری خوبصورت باتیں کیں اور قبلہ سے متعلق واقعات کا ذکر کیا۔ کچھ روحانی معاملات پر بھی انہوں نے گفتگو کی جنہیں یہاں بوجوہ رقم نہیں کیا جارہا۔ محترم صبغت اللہ قادری صاحب نے بتایا کہ ان کی کہی ہوئی کسی بات کو کبھی نہیں ٹالا گیا۔ خواہ ان کے کسی فیصلے میں بظاہر ہمیں کوئی نفع نظر نہ بھی آرہا ہو تو ہم اسے مشیتِ ایزدی سمجھ کر دل و جان سے قبول کرتے ہیں اوراللہ کا شکر ہے کہ ان کے کیے ہوئے کسی فیصلے پر ہمیں بعد ازاں کبھی پشیمانی نہیں ہوئی۔ ان کی طرف سے خاندان کے اندر جتنے بھی رشتے اور نسبتیں طے کی گئیں، ان سے ہمیں سکون میسر ہے، وہ ہمیشہ انصاف سے کام لیتے ہیں، بہت سارے تنظیمی امور میں بھی ہم شامل رہے ہیں، لیکن تحریکی زندگی کے اندر ان کے نزدیک رشتہ دار اور غیر رشتہ دار کارکن میں کبھی کوئی تفریق نہیں رہی بلکہ رشتہ داری کی نسبت ہونے کی وجہ سے ہم زیادہ قابلِ گرفت رہے ہیں۔

ایک دفعہ کسی معاملہ پر کچھ لوگوں نے قبلہ سے ہمارے رویوں سے متعلق کوئی شکایت لگائی، قبلہ فوراً متوجہ ہوئے، انہوں نے شکایت کنندگان کو بلایا اور ہمیں اس نشست سے باہر جانے کے لیے کہا تاکہ شکایت کنندگان بلا جھجک اپنی بات کر سکیں۔ قبلہ نے شکایت کنندگان سے سوال کیا کہ آپ لوگ جو خالص سچ ہے وہ مجھے بتائیں اور جو جھوٹ بولے گا یا کسی بھی حوالے سے مصلحت سے کام لے گا تو اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو۔ اس حلف کے بعد سب زبانیں خاموش تھیںاور پھر شکایت کنندگان نے شکایت کی اصل وجہ بھی بتا دی کہ انہیں اس پر کیوں اور کس نے اکسایا؟ بات سنانے کا مقصد یہ ہے کہ تحریکی زندگی اور اس مشن کے حوالے سے ان کا کوئی رشتہ دار نہیں، وہ سب کو ایک رشتے سے دیکھتے ہیں اور وہ رشتہ منہاج القرآن کی رفاقت اور وابستگی کا ہے۔

صبغت اللہ صاحب نے بتایا کہ اگر ہم آج یا ماضی میں دیگر سیاسی، مذہبی تحریکوں اور خاندانوں کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ان کے بچے بھی بادشاہ سلامت ہوتے ہیں، ان کو سلیوٹ کرنا بھی اسی طرح لازم ہوتا ہے جیسے وہ خود سلیوٹ سمیٹتے ہیں مگر یہ کلچر اور یہ رویہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہاں ایک جرم اور ناقابل برداشت ہے۔ اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ تحریک منہاج القراان کی 39 سالہ عروج کی اس داستان میں اہم عہدوں پر وہی لوگ کام کرتے نظر آئے اور آرہے ہیں جو صرف اور صرف تحریکی ہیں۔ قبلہ شیخ الاسلام کے فیصلوں میں اقرباء پروری نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ قبلہ سے ہماری ملاقاتیں بھی اسی نظم کے تحت ہوتی ہیں جیسے باقی رہنماؤں اور عہدیداروں کی ہوتی ہیں۔ ہم بھی ان سے مخاطب ہوتے وقت وہی ادب اسلوب اور طریقہ بروئے کار لاتے ہیں جس طرح باقی احباب بروئے کار لاتے ہیں۔

یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ محترم صبغت اللہ قادری صاحب ہمہ وقت قبلہ کی رہائش گاہ پر موجود ہوتے ہیں اور ہر آنے جانے والے کو خوش دلی سے خوش آمدید کہتے ہیںاور ان کی آؤ بھگت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ محترم صبغت اللہ قادری صاحب کے ہمراہ قبلہ شیخ الاسلام کے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کے مزار پر حاضری کی سعادت بھی ملی اور خاندان کے دیگر مرحوم نفوس کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی۔

شیخ الاسلام کی نسبت نے دنیا کے ہر خوف اور لالچ سے بے نیاز کر دیا (حاجی محمد امین قادری)

قابل احترام محترم حاجی محمدامین قادری صاحب کا شمار قبلہ کے دیرینہ ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ان سے ان کی رہائش گاہ پر فیصل آباد میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس گفتگو کے دوران ان کے صاحبزادے احمد بلال اور کاشف بھی موجود تھے۔ محمد امین قادری صاحب دھیمے مزاج کی شخصیت ہیں، ان کے چہرے سے عاجزی اور انکساری جھلکتی ہے۔ گفتگو کرتے وقت حد درجہ احتیاط اور محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اپنی دنیاوی کامیابیوں، خیراتی کاموں کا ذکر کرتے ہوئے کسی تصنع اور بناوٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ اپنی تحریکی خدمات کا ذکر کرتے وقت بھی تشکرانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں۔

قائد محترم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے اپنی وابستگی اور پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے محترم حاجی محمد امین قادری صاحب نے کہا کہ میں حضور پیر قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کا مرید ہوں۔ میں نے ایک موقع پر حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین کو پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے بغل گیر ہوتے ہوئے دیکھا، اس پر میں ششدر رہ گیا کیونکہ ان کی زیارت کر لینا اور مصافحہ کر لینا ہی ہمارے لیے بہت بڑی سعادت تھی۔ جب انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو گلے سے لگایا تو ہمیں رشک آیا کہ ضرور یہ کوئی بہت بڑی شخصیت ہیں جنہیں ہماری عقیدت کے مرکز حضور قدوۃ اولیاء نے سینے سے لگایا ہے۔

قبلہ سے دوسرا تعارف ان کے ایک انصاف پر مبنی واقعہ سے متعلق ہے۔ میرے ایک قریبی عزیز نے فیصل آباد میں قبلہ کے ایک قریبی عزیز کو ان کا ملکیتی مکان خریدنے کا ایڈوانس دیا، بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ ڈیل کینسل کر دی گئی اور ایڈوانس کی واپسی سے بھی انکار کر دیا گیا۔ ہم اس پر فکر مند تھے کہ ہمیں کسی نے کہا کہ آپ پروفیسر محمد طاہرالقادری سے رابطہ کریں، وہی آپ کا مسئلہ حل کروا سکتے ہیں۔ جب ہم نے اس ضمن میں قبلہ سے رابطہ کیا تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کی بجائے ہم اجنبیوں کا ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنے عزیز و اقارب سے کہا کہ جو وعدہ کیا گیا تھا، اس پر پورا اتریں اور پھر انہی شرائط پر ہمارا مسئلہ ہمارے حق میں حل ہوگیا۔ یہ واقعہ میرے لیے بہت مسرور کن تھا کہ ایسے لوگ بھی ابھی ہیں جو رشتہ داروں کی بجائے حق اور انصاف کا ببانگ دہل ساتھ دیتے ہیں۔

شیخ الاسلام سے میرا تیسرا تعارف یہ تھا کہ ایک دوست نے مجھے لاہور آنے کی دعوت دی، قبلہ کا خطاب سنا جس نے دل پر بڑا اثر کیا اور پھر ہم قبلہ شیخ الاسلام کے ہو کر رہ گئے۔

انہوں نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلی والہانہ خوشی حضور پیر سیدنا قدوۃ الاولیاء کا مرید بننے پر ہوئی اور دوسری زندگی کی سب سے بڑی خوشی منہاج القرآن کا ممبر بننے پر ہوئی۔ میرا رفاقت نمبر 346 اور لائف ممبر شپ 146 ہے۔ منہاج القرآن کا ممبر بننے پر میرے دل کوایک سکون ملا۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ میں جس مشن کا حصہ بنا ہوں، یہ بہت بڑا مشن ہے۔ 1980ء کے اوائل میں منہاج القرآن کا باقاعدہ کام شروع ہو چکا تھا اور پہلی مجلس شوریٰ بنائی گئی جس کی تعداد 63 تھی۔ یہ تعداد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کی نسبت سے متعین کی گئی اور میں اس پہلی مجلس شوریٰ کا ممبر بنا۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ منہاج القرآن کے کردار سے لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت ہوئی۔

حاجی محمد امین قادری صاحب نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی کی رہائش گاہ پر ہونے والے دروس تصوف نے ہماری کایا پلٹ دی۔ ایسی ایمان افروز گفتگو اس سے پہلے نہ کبھی سنی، نہ بعد میں سنی، ہم ساری رات دروس سنتے، تہجد، نماز فجر ادا کرتے، دن کو روزہ رکھتے، اس سارے عمل میں اس قدر تھک جاتے تھے کہ آرام کو ترستے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل اور دماغ کو جو سکون ملتا تھا، اس کا کوئی جواب نہیں۔ قبلہ اوائل جوانی میں ہی تہجد گزار اور عبادت گزار انتھک شخصیت تھے۔ اس دور کے مجاہدے کی وجہ سے عمر بھر کے لیے نمازوں میں پختگی آئی۔ ان دروس کا ایمانی زندگی کی استقامت میں مرکزی کردار ہے۔ میں نے اس دور میں نتیجہ خیزی کے عنوان سے قبلہ کی ایک کتاب پڑھی۔ اس کتاب سے دل میں انقلاب کی جدوجہد کی شمع روشن ہوئی۔

میں نے قبلہ کے ساتھ لا تعداد سفر کیے۔ کسی کے باطن کو جاننا اور پرکھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کریں، میں نے طویل ترین سفر میں قبلہ کو اسی طرح پایا جیسے وہ سٹیج پر گویا ہوتے تھے۔ ان کے قول اور فعل میں یکسانیت تھی اور ہمارے جیسے کاروباری لوگوں کے لیے یہ بڑی اہم بات ہوتی ہے۔ قبلہ کے ساتھ بغداد کا سفر بھی کیا، ایران، شام، دمشق بھی گئے، جس مزار پر بھی جاتے تھے تو صاحبِ مزار کی پوری علمی، سیاسی، سماجی، دینی خدمات کا تذکرہ سنتے، جس سے ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوتا اور صاحبِ مزار کی حقیقی قدر و منزلت بھی ہمارے دلوں میں جگہ پاتی۔ ان زیارات کے دوران بہت رویا، بعض اوقات تو روتے روتے ہچکی بندھ جاتی تھی، جو آنکھیں روتی ہیں وہ ہمیشہ منور رہتی ہیں اور رونے والی آنکھوں کے دل بھی زندہ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن سے وابستگی کی برکت نے بولنے کا ہنر سکھا دیا، شیخ الاسلام کی علمیت، قابلیت اور دین سے محبت کے حوالے سے کوئی کلام نہیں لیکن مجھے ان کا پہناوا، ان کے اٹھنے، بیٹھنے کے انداز، کپڑوں کے انتخاب، لفظوں کے انتخاب اور شستہ بیانی نے بھی بے حد متاثر کیا۔ وہ جو پہنتے ہیںان پر جچتا ہے۔ وہ مجھے ہر کام میں ماہرنظر آئے، وہ جو کام بھی کرتے ہیں اس کا حق ادا کرتے ہیں، یہاں تک کہ ایک بار میں نے کیمرہ خریدا اور تصویر بنارہا تھا تو وہ میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کیمرہ کیسے پکڑتے ہیں اور تصویر کا اینگل کیسے بناتے ہیں۔ میں ان کی اس ہنر مندی پر بھی حیران و ششدر رہ گیا۔

محترم حاجی محمد امین قادری صاحب نے کہا کہ قبلہ شیخ الاسلام جس طرح باہر سے ہیں اسی طرح اندر سے ہیں۔ وہ اپنے کارکنوں کو اپنی اولاد کی طرح ڈیل کرتے ہیں، ان کے نزدیک کوئی چھوٹا، بڑا نہیں، سب کے ساتھ ایک جیسا شفقت کا معاملہ کرتے ہیں۔ میں موٹر سائیکل پر سواری کرتا تھا، جب لاہور شادمان میں دروس تصوف اور دروس قرآن کا سلسلہ شروع ہوا تو دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ گاڑی دے دے تاکہ میں یہ دروس سہولت کیساتھ اٹینڈ کر سکوں۔ میں حیران تھا کہ پتہ نہیں کیسے وسائل جمع ہوئے اور میں نے گاڑی خرید لی۔ پھر اس کے بعد میرے دل میں ایک آرزو آئی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنا بڑا گھر دے جو قبلہ کے اٹھنے، بیٹھنے کے شایان شان ہو اور یہاں دروس ہو سکیں۔ ہم کاروباری لوگ بڑے گھروں اور گاڑیوں پر پیسہ خرچ نہیں کرتے، چھوٹے گھروں میں رہ کر بڑے کاروبار کو اہمیت دیتے ہیں۔ میں نے 8مرلے کے گھر میں رہتے ہوئے ایک کنال کے گھر کی خواہش اس لیے کی کہ یہاں قبلہ اور ان کے احباب شایان شان طریقے سے رہ سکیں۔ جب ایک کنال کا پلاٹ لیا تو پھر دل میں خیال آیا یہ بھی چھوٹا ہے، پھر میں نے دو کنال کا پلاٹ لیا اور اسی نیت سے گھر بنایا کہ یہاں جب قبلہ اور ان کے احباب آئیں تو وہ سہولت کے ساتھ وقت گزار سکیں۔ بس اسی خواہش میں بڑے گھر اور گاڑی کی آرزو پوری ہوتی چلی گئی۔ اللہ گواہ ہے کہ یہ آرزوئیں میں نے اپنے یا اپنی اولاد کے لیے نہیں بلکہ مشن کے لیے کی تھیں، جس کے وسائل اللہ رب العزت مہیا کرتے چلے گئے اور آج یہ گھر تحریک منہاج القرآن کی علمی، روحانی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں گوشہ درود کی محافل سجتی ہیں اور دروس قرآن کی مجلسیں بھی ہوتی ہیں۔

انہوں نے نم دیدہ آنکھوں سے کہا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ہمیں ایک ایسا کندھا میسر ہے کہ جس کے سہارے ہم کھڑے بھی ہوتے ہیں اور اس پر سر رکھ کر رو بھی لیتے ہیں، یہ کندھا ہمارا مان بھی رکھتا ہے اور ارمان بھی۔

انہوں نے کہا کہ قبلہ سے اظہار محبت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کو بھی منہاج القرآن کی تحریک کا حصہ بنارہے ہیں اور یہی قبلہ کی نصیحت بھی ہے۔ جب سے میرا ان سے رابطہ ہوا، کئی دہائیاں گزر گئیں مگر ان کی محبت میں اور میری عقیدت میں فرق نہیں آیا۔ میں جب سے منہاج القرآن کا حصہ بنا ہوں، دنیاوی معاملات میں کبھی شکست اور شرمندگی کا سامنا نہیں ہوا، ہر مشکل سے مشکل معاملے میں اللہ کی غیبی مدد شامل حال ہو جاتی ہے اور بہت سارے نقصان سے بچا لیا جاتا ہوں۔ مجھے منہاج القرآن نے ہر طرح کے خوف سے بے نیاز کر دیا۔ جو کرتا ہوں اللہ کے لیے کرتا ہوں، یہ منہاج القرآن کی نسبت کا مجھ پر کرم ہے۔

قبلہ کے پہلے خطاب نے میرے کامریڈی فلسفے کو برباد کر دیا (حاجی محمد سلیم قادری)

حاجی محمد سلیم قادری صاحب سے سمن آباد لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی۔ ملاقات کا اہتمام محترم شہزاد رسول اورحاجی محمد اسحاق صاحب کے ذریعے ہوا۔ ملاقات میں محترم عین الحق بغدادی صاحب بھی شریک تھے۔ محترم حاجی محمد سلیم صاحب قبلہ کے معتمد ساتھیوں میں سے ہیں، وہ ایک طویل عرصہ تحریک منہاج القرآن کے مختلف انتظامی عہدوں پر بھی براجمان رہے اور آج بھی وہ تحریک کے لیے دعا گو اور مصطفوی انقلاب کے لیے پرعزم ہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ حاجی محمد سلیم کا سفر ایک کامریڈ کی حیثیت سے شروع ہوا، وہ طاغوتی قوتوں سے بھی نالاں تھے اور مذہبی حلقوں سے بھی۔

انہوں نے بتایا کہ حاجی محمد اسلم صاحب مجھے 1980ء میں شادمان میں ڈاکٹر محمد علی کی رہائش گاہ پر لے کر گئے، وہاں درس تصوف میں ولی کون ہوتا ہے؟ کے عنوان سے پہلا خطاب سنا۔ جب قبلہ شیخ الاسلام نے یہ فرمایا کہ کوئی بندہ آگ میں کود جائے یا آسمان پر اڑنے لگے، پانی پر چلے اور شریعت کا پابند نہ ہو تو وہ ولی نہیں ہے، اس کے ڈھونگ سے دور رہیں۔ یہ ایک ایسااظہار خیال تھا جو میرے دل کی آواز تھا۔ اسی اظہار خیال نے پہلی بار مجھے قبلہ کی طرف متوجہ کیا، کیونکہ میں جس سیاسی سکول آف تھاٹ کا طالب علم تھا وہ استحصالی قوتوں سے بیزاری کا سبق دیتا تھااور میں معذرت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ تصوف کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو بری طرح لوٹا جاتا تھا۔ اس اظہارخیال سے میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی جو اس وقت پروفیسر صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، عزت کے جذبات اجاگر ہوئے اور میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں بہت سخت دل آدمی ہوں، میں اپنی ماں کے انتقال پر بھی نہیں رویا تھا، اس رات درس تصوف کے بعد جو قبلہ نے دعا کروائی، اس سے میری آنکھیں جھرنوں کی طرح جاری ہوگئیں۔ اس ایک خطاب کے نتیجے میں بہنے والوں آنسوؤں نے میرے سارے کامریڈی فلسفے کو برباد کر دیا۔

شادمان والے دور میں میاں شریف (مرحوم) کو میں نے اہل مجلس کی جوتیوں میں بیٹھے دیکھا۔ اتفاق مسجد میں خطاب کی دعوت کے معاملہ سے آگاہ ہوں۔ میاں شریف کے بے حد اصرار پر قبلہ نے فرمایا کہ کوئی معاوضہ نہیں لوں گا اور نہ ہی کوئی معاوضہ لیے جانے پر مجھے مجبور کیا جائیگا۔ جب دروس قرآن اور دروس تصوف کی شہرت ہوئی اور ڈاکٹر محمد علی کی رہائش گاہ اور رحمانیہ مسجد کا صحن تنگ پڑ گیا تو شادمان میں مزید جگہ لینے کا فیصلہ ہوا۔ ایک دو کنال کا پلاٹ دیکھا گیا جس کی قیمت اس وقت 9 لاکھ تھی، وسائل نہیں تھے اور قبلہ نے بھی چندے کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ جس کا مشن ہے وہی وسائل کا بندوبست کرے گا اور پھر اللہ نے باوقار طریقے سے وسائل مہیا کیے اور ہم نے وہ پلاٹ خرید لیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اخبارمیں ماڈل ٹاؤن والی جگہ کااشتہار آیا، یہ جگہ فلاحی اور تعلیمی کاموں کے لیے وقف کی گئی تھی، جماعت اسلامی اور محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی جماعت نے بھی اس جگہ کے حصول کے لیے اپلائی کیا مگر کھلے میرٹ میں منہاج القرآن میرٹ پر پورا اتری اور یہ جگہ ہمیں الاٹ کر دی گئی۔ اس کی ابتدائی قیمت ادا کرنے کے لیے شادمان والا خریدا گیا پلاٹ فروخت کر دیا گیا۔ یہ گفتگو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اس کا چشم دید گواہ ہوں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جگہ خریدنے میں اشرافیہ نے مدد کی، وہ بہتان باندھتے ہیں بلکہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ کی تعمیر کے لیے جو تعمیراتی سامان خریدا گیا تو میاں شریف نے اس کے پیسے نہ لینے کی آفر کی اور کہا خدمتِ دین میں ہمارا حصہ بھی شامل کر لیں تو قبلہ نے انہیں چیک دیتے ہوئے فرمایا کہ ابھی ہمارے پاس پیسے ہیں، جب نہیں ہوں گے تو پھر اس بارے سوچیں گے۔ پیسے نہ ہونے کا مرحلہ زندگی میں کبھی نہیں آیا۔ خدمتِ دین اور خدمتِ خلق کے جس منصوبے کا بھی اعلان ہوا، اللہ نے اس کے لیے باعزت وافر وسائل مہیا کیے۔

حاجی سلیم قادری نے کہا کہ شریف خاندان سے علیحدگی کی ایک بڑی وجہ چھانگا مانگا کی سیاست تھی، میاں شریف چاہتے تھے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جنگ کو اراکین اسمبلی کے سامنے اسلام اور کفر کی جنگ ثابت کیا جائے جبکہ قبلہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ آپ لوگوں کی سیاست ہے اس میں اسلام کو مت گھسیٹیں، یہی موقف علیحدگی کا سبب بنا۔

انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ بے نظیر بھٹو منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں آئیں تو قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کامریڈ آج میرا کامریڈ ہے۔ بے نظیر حیرت سے میرا چہرہ تکتی رہیں۔ پر عزم حاجی محمد سلیم قادری نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جس انقلاب کا نعرہ لگایا ہے وہ آ کر رہے گا، اسے ظاہر ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ بات صرف اتنی ہے کہ کمزور دل پاکستانی ہر گھر میں آگ لگنے اور شعلوں کے برآمد ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح سب سے بڑا اسلامی انقلاب ہے، انقلاب سے دل بدلے جاتے ہیں اور میرے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک دلوں کو بدلنے کی تحریک ہے اور لاکھوں دلوں کو بدلا جا چکا ہے اور یہ عمل جاری ہے۔ میں اسے انقلاب کہتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عظیم، روحانی شخصیت اور حضور غوث الاعظم کے خانوادہ کے عظیم چشم و چراغ حضور پیر قدوۃ الاولیا سیدنا طاہر علائو الدین بھی فرما کر گئے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں انقلاب آئے گا۔ اس لیے یہ انقلاب آ کررہے گا۔

انہوں نے بھی اس بات کو دہرایا کہ شادمان میں ہونے والے دروس کے بعد قبلہ سے گفتگو ہوتی تو وہ فرماتے ان شاء اللہ کروڑوں روپے کے منصوبہ جات ہم مکمل کریں گے۔ میں کہتا تھا کہ مسجد کی چھت بدلنے کے لیے مولوی کئی کئی سال سپیکر پر اعلان کرتے ہیں اور چندہ جمع نہیں ہوتا، ہم کہاں سے کروڑوں روپے لائیں گے؟ آج اللہ نے قبلہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اخلاص پر مبنی ہر دعوے کو سچ کر دکھایا ہے۔

حاجی محمد سلیم قادری نے کہا کہ قبلہ کے ساتھ دنیا بھر کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان جیسا سچا، کھرا ،دردمند اور حب رسولa میں بھیگا ہوا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔ وہ جو کہتے ہیں، وہی کررہے ہوتے ہیں، ان کے قول اور فعل میں یکسانیت ہے، آج آپ میرے قائد کا چہرہ دیکھیں وہ اور بھی نکھر گئے ہیں، انہوں نے بہت مصائب کا سامنا کیا، مخالفین کی بدترین انتقامی کارروائیاں بھی جھیلیں مگر ان کے عزم اور ان کی سوچ کے اندر پائی جانے والی مثبت اقدار میں کمی نہیں آئی۔ وہ ہر اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہیں۔

انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار قبلہ نے کہا کہ میں کھانا بنائوں گا اور پھر قبلہ نے تمام مصالحہ جات اور سبزیاں ایک ہی دم ڈال دیں اور کہا کہ یہ خواجہ اجمیرکی دیگ ہے اور جب کھانا اتارا اور کھایا تو سچی بات ہے اس جیسا ذائقہ اس زبان نے پہلے نہیں چکھا تھا، وہ ذائقہ آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ ایک وقت تھا صبح، دوپہر، شام قبلہ کے روبرو ہوتے تھے، آج مصروفیات کی وجہ سے ان کی ظاہری صحبت ہمیں میسر نہیں، اس کمی کو محسوس کرتا ہوں لیکن خوشی بھی ہوتی ہے کہ جس مشن کی بنیادیں رکھی گئی تھیں آج اس مشن کا پیغام پوری دنیا میں جارہا ہے۔ یہ قبلہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، تحریک منہاج القرآن اور اس کے ہر کارکن کی کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قبلہ ایک بے نیاز شخصیت ہیں، انہیں کوئی دنیاوی لالچ اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا، میاں نواز شریف نے ماڈل ٹائون میں آٹھ کنال کا رہائشی پلاٹ دینے کی کوشش کی جس پر میاں شریف نے نواز شریف کو جھاڑ پلائی کہ کس کو پیش کش کررہے ہو؟

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی جوانی میں منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے مقدور بھر خدمات انجام دیں، اپنا حصہ ڈالا، اب نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور اس مشن کے پرچم کو لے کر آگے بڑھیں، یہ سچا اور کھرا مشن ہے۔ اس کے ساتھ چلنے والے کے حصے میں نفع ہی نفع آئیگا۔ کوئی پچھتاوا یا گھاٹا نہیں۔

شیخ الاسلام عبادت و ریاضت، علم و تحقیق اور زہد و ورع کا عملی پیکر ہیں (حافظ نذیر احمد قادری)

محترم حافظ نذیر احمد قادری سفیر یورپ سے محترم جی ایم ملک صاحب کے دفتر میں مختصر نشست ہوئی، انہوں نے انتہائی محبت اور دلپذیر انداز میں ابتدائی دور کی یادیں تازہ کیں اور اظہارخیال کے کئی مراحل میں فرط جذبات سے ان کی آنکھیں نم بھی ہوئیں جس سے ان کی مشن اور قائدِ مشن سے لازوال محبت جھلکتی نظر آتی تھی۔

محترم حافظ نذیر احمد صاحب نے تحریک سے اپنے تعلق کی ابتداء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میرا تحریک منہاج القرآن کا حصہ بننے اور شیخ الاسلام کی صحبت میں آنے کا سفر قطرے کا سمندر کی طرف کا سفر ہے۔ میں نے دین کی تعلیم کسی اور تعلیمی ادارے سے حاصل کی مگر دین شیخ الاسلام سے سیکھا۔ شیخ الاسلام کی کیسٹس نے میرے دل کی دنیا کو بے چین کیا۔ یورپ میں منہاج القرآن کا پہلا دفتر کوپن ہیگن میں تھا، جب مجھے پتہ چلا تو وہاں جا کر مزید کیسٹس حاصل کیں۔ میں ہر روز 9 گھنٹے تک خطابات سنتا تھا۔

انہوں نے اپنے ابتدائی دور کی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں قاضی کلاس اٹینڈ کرتا رہا اور پھر بہترین تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر مجھے مدینہ یونیورسٹی میں حصولِ علم کی سعادت ملی۔ ہر مکتب فکر کے علماء سے ملا، علمی گفتگو ہوئی، یہ سارے علماء پھول تھے مگر میں گلدستے کی تلاش میں تھا، پھر قسمت نے یاوری کی اور تمام خوشنما پھول اور دلربا خوشبوؤں پر مشتمل ایک گلدستہ ملا جسے آج دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی صحبت سے قطرے کو سمندر ملا۔ ان کی محبت اور نسبت سے مجھے دنیا کے ہر براعظم میں منہاج القرآن کا پیغام لے کر جانے کی ہمت اور سعادت ملی۔ مجھے منہاج القرآن ہالینڈ کا پہلا صدر بننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

شیخ الاسلام نے سب سے پہلے یورپ کا دورہ کیا اورانہوں نے عالمگیر تحریکی زندگی کا پہلا قدم 4 اگست 1991ء کو ایمسٹرڈیم میں رکھا۔ ان کا پہلا خطاب ہیگ میں ہوا، یہ ایک تاریخی جلسہ تھا اور اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی، یہ اس قدر کامیاب اور اثر انگیز جلسہ تھا کہ پہلے 50رفیق اسی خطاب سے بنے۔ شیخ الاسلام کے ایمسٹرڈیم آمد کا جب شیڈول مرتب ہوا تو ہم دن اور رات کے فرق کو بھول کر انتظامات میں مصروف ہو گئے کہ کوئی کمی نہ رہ جائے، ہم نے ایئرپورٹ انتطامیہ سے بھی ملاقات کی اور انہیں شیخ الاسلام کے متعلق معلومات دیں اور آمد کے شیڈول سے آگاہ کیا اور ان سے خصوصی تعاون کی درخواست کی۔ ہمارے لیے یہ بات حیرت سے کم نہیں تھی کہ شیخ الاسلام جب ایمسٹرڈیم میں تشریف لائے تو ایئرپورٹ حکام نے انہیں سربراہ مملکت والا پروٹوکول دیا۔ ہمارے استقبالیہ ٹرک ایئرپورٹ حدود کے اندر تک چلے گئے اور اس استقبال اور پروٹوکول پر ہم بہت خوش تھے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں اس کامیاب دورہ کی وجہ سے ہم خوش تھے وہاں بعدازاں کچھ مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قبلہ کے فکر انگیز خطاب اور کامیاب جلسہ کی وجہ سے دیگر مسالک کے قائدین کو فکر لاحق ہوئی کہ ان کی تو مارکیٹ لٹ گئی۔ برصغیر کے علمائ، مشائخ مخالفت میں متحرک ہو گئے، اس وقت میں تنہا تھا اور ایک زمانہ مخالفت میں آن کھڑا ہوا۔ دراصل برصغیر کے علماء نے اور علماء کے بھیس میں کچھ افراد نے یورپی ممالک میں روایتی پیری، فقیری کے اڈے قائم کر لیے تھے اور قبلہ کے چشم کشا خطابات سے ان تمام حضرات کو اپنی تجارت خسارے میں بدلتی دکھائی دی۔ تاہم شدت پسندی اور جاہلانہ رویوں کا خاموشی اور صبر سے سامنا کیا، مخالفت اور مزاحمت جب حد سے بڑھ گئی تو شیخ کے حکم پر فرانس شفٹ ہوگیا۔ یہ بھی اللہ کی شان ہے کہ ہالینڈ میں جس قدر مزاحمت اور مخالفت تھی، فرانس میں اسی قدر محبت اور شفیقانہ رویے ملے۔

انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشن کے ساتھ وابستہ ہونے اور ڈٹ جانے کی وجہ شیخ الاسلام کا کردار تھا۔ جو ان کا ظاہر تھا وہی ان کا باطن تھا۔ عبادت و ریاضت، علم و تحقیق، زہد و ورع کے حوالے سے وہ جن امور کا اظہار سٹیج پر کرتے تھے، وہ عمل کے حوالے سے ان میں راسخ تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں دنیا داری سے بے نیاز ایسی اور کوئی دوسری شخصیت نہیں دیکھی۔ یہی ان کی شخصی خوبیاں تھیں جس کا میں گرویدہ تھا۔ باقی ان کا علم،فضل اور روحانیت تو عطاء تھی۔ جس نے بھی تعصب کی عینک اتار کر ان کی گفتگو سنی، وہ انہی کا ہو کر رہ گیا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ کنویں سے نکل کر سمندر کا حصہ بن گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات دور رہنے والے قرب کی ساری لذتیں پا جاتے ہیں اور کچھ قریب رہ کر کرب کا شکار ہو جاتے ہیں، انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کارکنان کو نصیحت کی کہ قرب کی برکتیں بھی ہیں اور کچھ آفتیں بھی ہیں۔ یہ قیادت کا حق ہے کہ وہ کس حد تک بے تکلف ہو کر بات کرے لیکن اس بے تکلفی کا ناجائز فائدہ ہمسری، بے ادبی اور پھر بدبختی کی طرف لے جاتا ہے۔ قرب والے محتاط رہیں۔

انہوں نے کہا کہ شیخ الاسلام کی شخصیت کو میں نے بہت قریب سے دیکھا۔ وہ اپنوں سے ناراض ہوتے ہیں اور جنہیں اپنا سمجھنا چھوڑ دیں، ان سے ناراض ہونا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ غلطیوں پر بار بار سمجھاتے ہیں مگر بدنیتی کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایک دو بار ہی سمجھاتے ہیں اور پھر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔
انہوں نے شیخ الاسلام کے ساتھ بیتے ہوئے شب و روز اور اپنے مشاہدہ پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام سے سوال کے لہجے میں بات کرنے سے بچیں اور ہر حال میں زبان پر کلمہ شکر بجا لائیں۔ جس نے ان صفات کو اپنی سوچ کا حصہ بنا لیا، وہ ہر اعتبار سے مالا مال ہو گیا۔ منہاج القرآن ایک علمی اور روحانی تحریک ہے، اس کے فیوض و برکات سے مالا مال ہونے کے لیے اپنے دل کو دنیاوی لالچ سے خالی کر لیں۔ میں حافظ قرآن بھی ہوں اور سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے کلام کا بھی حافظ ہوں۔ انہوں نے ایک موقع پر فرمایا: ’’دل دنیا کی محبت سے خالی کیے بغیر فقر کا دروازہ نہیں کھلتا اور ایک دل میں دو کی طلب نہیں رہ سکتی، دنیا میں رہو مگر دل میں دنیا کو نہ رکھو‘‘۔

اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ شیخ الاسلام کی کوئی ایک صفت بیان کرو تومیں کہوں گا کہ ان کا دل دنیا کی محبت سے پاک ہے اور یہی صالحین کی نشانی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہماری سانسیں بھی شیخ الاسلام کو لگا دے اور انہیں صحت و تندرستی کے ساتھ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ میں اس بات پر بہت خوش اور مطمئن ہوں کہ منہاج القرآن کی صورت میں جو پودا لگایا گیا تھا، آج وہ تن آور درخت بن چکا ہے اور دنیا کے 7براعظموں کے مسلم عوام اس کا پھل کھارہے ہیں۔

مشن کی خدمت کے لیے سرکاری نوکری کو خیرباد کہہ دیا (جی ایم ملک)

جی ایم ملک صاحب قبلہ کے دیرینہ معتمد ساتھیوں میں سے ہیں، انہوں نے منہاج القرآن کے مختلف انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیں، آج کل ڈائریکٹر فارن افیئرز ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے پہلی ملاقات اور منہاج القرآن سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں 1982ء میں حج کر کے آیا، ٹاؤن شپ میں رہائش پذیر تھا کہ ایک دن سیدمحمد اقبال شاہ مرحوم نے مجھے اپنے ساتھ شادمان جانے کی دعوت دی، میں ان کے ہمراہ شادمان میں ڈاکٹر محمد علی کی رہائش گاہ پر درس قرآن میں شریک ہوا۔ اس زمانے میں مجھے مولانا مودودی صاحب اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے دروس سننے کا موقع بھی ملا مگرقبلہ کے درس قرآن اور انداز بیان نے میرے اندر کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کا بات کرنے کا اندازایسا تھا کہ ہر لفظ دل میں اترتا چلا گیا۔ اس پہلے درس قرآن نے ہی میرے اندر کی دنیا کو بدل دیا۔ پیرکے روز عصر سے مغرب تک دروس کا سلسلہ چلتا تھا، دروس کا یہ سلسلہ مقبول ہوتا چلا گیا،دروس قرآن اور دروس تصوف کی اپنی اہمیت تھی مگر اختتام پر جو رقت آمیز دعا کروائی جاتی تھی وہ سب کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ دین کے رستے پر چلنے کے حوالے سے قبلہ کی ان رقت آمیز دعاؤں نے مرکزی کردار ادا کیا، وہ جب دعا کرواتے تھے تو ہر آنکھ اشکبار ہوتی تھی اور دعائیہ الفاظ تیر کی طرح دل میں اترتے چلے جاتے تھے اور اپنی دین سے لاتعلقی پر شرمندگی ہوتی تھی، ان آنسوؤں نے اپنے اندر کے محاسبے پر مجبور کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان دروس کی وجہ سے قبلہ سے عقیدت اور محبت والا تعلق پیدا ہوا، میں پنجاب اسمبلی میں ملازمت کرتا تھا، ایک موقع پر مجھے اہم تنظیمی ذمہ داری سونپی گئی جس کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا، میں نے پہلی تنظیم جس کا نمبر 8 تھا، قینچی چونگی امر سدھو میں قائم کی۔ 1984ء میں منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں باقاعدہ خدمات انجام دیتا تھا۔ ان خدمات میں تنظیم سازی سرفہرست ہوتی تھی، کوئی کنوینس نہیں ہوتی تھی، کوئی بجٹ نہیں ہوتا تھا، اپنی مدد آپ کے تحت تحریک کی خدمت انجام دیتے تھے۔ تنظیمی کام بھی ہوتا تھا، شب بیداریاں بھی ہوتی تھیں اور خدمت خلق بھی۔ ان دنوں میں رانا فیاض صاحب، حاجی محمد اقبال صاحب اور ایک صاحب اکبر ہوا کرتے تھے۔ گفتگو کا مرکز و محور اصلاح احوال اور تنظیم سازی ہوتا تھا۔ قبلہ کے ملک گیر دوروں کے انتظامات پر مشاورت ہوتی تھی اور یہ سارا کام اخلاص، محبت اور ایک خاص جذبے کے تحت انجام پاتا تھا۔ نہ وسائل کی کمی کا شکوہ ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی مایوسی۔ ہر چہرہ اور آنکھ پرعزم ہوتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے قبلہ کو بہت بے نیاز شخصیت پایا، وہ اپنے معمولی سے کارکن کو بھی اتنی اہمیت دیتے جتنا کسی اہم شخصیت کو مگر وہ اخلاص کی بنیاد پر توجہ دیتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چار اہم عہدیداروں نے یہ تاثر دیا کہ وہ اگر تحریک سے نکل جائیں تو تحریک کا پہیہ 6 ماہ بھی نہیں چل سکے گا، وہ اسی زعم میں چلے گئے لیکن تحریک نے دن دگنی، رات چوگنی ترقی کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ یہ قیامت تک جاری رہے گا۔ کوئی شخص اس مصطفوی مشن کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس تجدیدی اور مصطفوی انقلاب کی تحریک کے اندر کام کرنے کی سعادت کس کو میسرآتی ہے۔
قبلہ انتہائی شفیق اور محبت کرنے والی شخصیت ہیں، وہ ڈگریوں کے نہیں اخلاص اور وفاداری کے قدر دان ہیں۔ انہوں نے جس کسی کو بھی جو ذمہ داری دی، اس کانتیجہ مثبت نکلا۔ آج بھی یہی پیغام ہے کہ اس تحریک کے ساتھ اخلاص کے ساتھ وابستہ رہیں ، نہ دین میں کمی آئے گی اور نہ دنیا میں۔

آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے ہر شخص اپنے سوال کا جواب پالیتا ہے (رانا فیاض احمدخان۔ نائب ناظم اعلیٰ)

جمعۃ المبارک 5 فروری 1982ء کی شام ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ بڑے پرجوش انداز میں کہنے لگے: ’’رانا صاحب آج اتفاق مسجد میں جمعہ پڑھنے کا موقع ملا۔ وہاں ایک نوجوان علامہ صاحب آئے ہیں، ان کی زبان سے جمعہ کا خطاب سنا۔ قرآن پاک کی بہت شاندار الفاظ میں تشریح کرتے ہیں۔ خطاب سن کر مزہ آگیا۔ بہت ایمان افروز خطاب تھا۔ اگر موقع ملے تو اگلے جمعۃ المبارک آپ بھی انہیں ضرور سنیے گا۔ وہ 12 بج کر 30 منٹ پر خطاب شروع کرتے ہیں‘‘۔

میرے اس دوست نے اس انداز سے علامہ صاحب کی تعریف کی کہ ہمارے دل میں بھی اشتیاق ہوا کہ جاکر سنیں تو سہی۔ کیسا خطاب کرتے ہیں۔ 12 فروری 1982ء بروز جمعۃ المبارک ہم وقت سے پہلے ہی مسجد میں جاکر بیٹھ گئے۔ وقتِ مقررہ پر ایک وجیہہ صورت نوجوان منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ دبلے پتلے، گورا رنگ، درمیانہ قد، عینک کے پیچھے عقابی آنکھیں، خوبصورت چہرہ، جس پر سیاہ رنگ کی داڑھی، سفید شلوار قمیص پر واسکٹ میں ملبوس اور سر پر سلیقے سے پہنی ہوئی سفید جالی دار ٹوپی۔ کسی طرح بھی روایتی علماء میں سے نہ لگتے تھے۔ نہ جبہ نہ دستار، نہ کندھے پر بڑا سا رومال، نہ بڑھا ہوا پیٹ۔ چہرے پر متانت و وقار۔ سوچا کہ یہ روایتی خطیب نہیں بلکہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم لگتے ہیں۔ اوائل عمر ہے یہ کیسے عالمانہ خطاب کریں گے؟

اسی اثناء میں انہوں نے سورۃ الرحمن کی پہلی چار آیات کی تلاوت کی۔ ترنم اور لحن کے ساتھ نہیں بلکہ سادہ انداز میں اور پھر ان آیات کا ترجمہ کرنے کے بعد تشریح کی ابتدا کی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے سے پہلے قرآن کی تعلیم دی۔ وہ انسان کون تھا؟ بلاشبہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات سے پہلے اپنے نور سے تخلیق کیا تھا اور خود انہیں بیان کرنے کا طریقہ بھی سکھادیا تھا۔ یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استاد خود اللہ تعالیٰ تھے۔ انہیں کسی انسان کی شاگردی کی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی جاہل ہی ان پڑھ کہہ سکتا ہے۔

آگے پھر انہوں نے اپنے الفاظ میں ان آیات کی مزید تشریح کی اور خطاب مکمل ہوا۔ ان کا خطاب ایسے آگے بڑھ رہا تھا، جیسے نپے تلے الفاظ کا ایک سمندر ہو، میں ان کے ہر جملہ پر ورطہ حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔ اپنے تن من کی ہوش نہ رہی۔ دل گواہی دے رہا تھا کہ انہوں نے جس خوبصورت انداز میں قرآن پاک کے الفاظ کا ترجمہ اور تشریح کی ہے، یہ تو سیدھی دل میں اترتی چلی گئی ہے اور دل اس کے درست اور برحق ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ نجانے اب تک ہمارے مولوی صاحبان کون سا قرآن پڑھ پڑھ کر سناتے رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پڑھ تھے۔ (نعوذ باللہ)

بعد میں معلوم ہوا کہ اس مفسرِ قرآن کا اسم گرامی محمد طاہرالقادری ہے۔ وہ دن اور آج تک ان کے خطابوں کے اسیر صرف ہم ہی نہیں ہیں بلکہ ایک زمانہ ان کا معترف ہے۔

اس زمانے کی چند یادیں شیخ الاسلام کی 69 ویں سالگرہ کے موقع پر قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ یقینا یہ واقعات ایک طرف شیخ الاسلام کی علمی و فکری ثقاہت کے آئینہ دار ہیں تو دوسری طرف آپ کی متانت، وقار، سنجیدگی، خودی اور استغناء و بے نیازی کی بھی روشن دلیل ہیں:

  • شیخ الاسلام اتفاق مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ میاں محمد شریف (میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے والد) ان کے خطاب کے لیے آنے سے قبل سڑک کی طرف منہ کرکے مسجد کی سیڑھیوں میں بیٹھ جاتے اور ان کا انتظار کرتے۔ جیسے ہی شیخ الاسلام تشریف لاتے تو میاں محمد شریف ان کا استقبال کرتے اور منبر تک ان کے ہمراہ چلتے اور پھر اگلی صف میں بیٹھ جاتے۔
  • رمضان المبارک میں قائد محترم اعتکاف کے دنوں میں اتفاق مسجد میں خصوصی نشست فرمایا کرتے تھے جس میں ان کی خصوصی گفتگو ہوا کرتی تھی اور ساتھ ساتھ سوال و جواب کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔ میاں محمد شریف بذات خود بھی اس نشست میں موجود ہوتے۔ انہی دنوں منہاج یونیورسٹی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ تعمیرات ہورہی تھیں۔ کسی نے اسی نشست میں میاں صاحب سے سوال کردیا کہ میاں صاحب آپ بہت خیرات کرتے ہیں، مسجدیں بنواتے ہیں، فلاحی اداروں کی مالی امداد بھی کرتے ہیں، آپ بتائیں کہ آپ نے منہاج یونیورسٹی کو کتنے پیسے دیئے یا سیمنٹ سریا اور اینٹیں وغیرہ لے کر دی ہیں؟ میاں صاحب نے کچھ دیر سکوت کیا اور پھر کہا: ’’دیا وہاں جاتا ہے جہاں ضرورت ہو یا جہاں کوئی مانگے۔ آج تک علامہ صاحب نے نہ ہم سے کبھی کچھ مانگا اور نہ ہی ہم نے کچھ دیا۔ ایک روپیہ بھی نہیں، نہ ہی کوئی میٹریل یا تعمیراتی سامان وغیرہ‘‘ مزید کہا: ’’یونیورسٹی بنانا کوئی معمولی پراجیکٹ نہیں ہوتا، اس طرح کے کام سے پہلے حکومتیں بھی کئی کئی سال سوچ بچار کرتی ہیں، پھر عملی قدم اٹھاتی ہیں۔ مگر یہاں معاملہ اور ہے۔ ادھر علامہ صاحب منہ سے کوئی بات نکالتے ہیں، ادھر خدا جانے کہاں سے وسائل دھڑا دھڑ مہیا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ میں تو خود اس بات پر حیران ہوں اور یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے‘‘۔
  • سود کا متبادل نظام دینے کے لیے موچی دروازہ میں جلسہ عام کا اعلان کردیا گیا جس میں ابھی کچھ دن باقی تھے کہ قائد محترم عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر سروسز ہسپتال کے شعبہ امراض دل میں علاج کی غرض سے داخل ہوگئے۔ رات کو ہم چند دوست عیادت کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ دریں اثناء ایک دوست نے فکر مند ہوکر پوچھا: ’’علامہ صاحب ہم نے بہت بڑا دعویٰ کردیا ہے، دنیا میں لاکھوں معیشت دان موجود ہیں، آج تک کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا جبکہ ہماری تو یہ فیلڈ بھی نہیں ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے‘‘۔

قائد محترم نے فرمایا ’’آپ تسلی رکھیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہے، وہ اپنے کرم سے جسے چاہے یہ اعزاز بخشے‘‘۔

پروگرام والی رات موچی دروازہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور سٹیج پر بھی درجنوں مشہور و معروف معیشت دان (Economists) بیٹھے ہوئے تھے۔ قائد محترم نے حسب وعدہ سود کا متبادل نظام پیش کیا۔ اتنا جامع پروگرام تھا کہ مخالفین بھی چاہنے کے باوجود اس میں کوئی نقص نہ نکال سکے بلکہ تعریف پر مجبور ہوگئے۔

  • جہاں تک قائد محترم کے خطابات کا تعلق ہے وہ اتنے مدلل ہوتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں قرآن اور حدیث کے حوالہ جات موجود مگر انتہائی عام فہم۔ ان کی مجلس میں بیٹھا ہوا ہر شخص خواہ وہ عالم فاضل ہو یا کم پڑھا لکھا، ان کی بات کو یکساں طور پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔ ان کے خطاب سے پہلے اکثر لوگوں کے ذہنوں میں بعض سوالات موجود ہوتے ہیں مگر خطاب کے اختتام پر ہر شخص کو ان سوالات کا تسلی بخش جواب مل چکا ہوتا ہے۔ جب بغداد ٹاؤن لاہور میں سب سے پہلا شہرِ اعتکاف بسایا گیا تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ ایک میلے کا سماں تھا۔ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ کیسا اعتکاف ہے کہ جس میں نہ پردے لٹکا کر خلوت مہیا کی گئی ہے اور نہ ہی لوگوں نے رومال سے اپنے منہ چھپائے ہوئے ہیں جبکہ اس سے پہلے ہم دیکھتے تھے کہ مساجد میں عموماً دو چارلوگ ہی معتکف ہوتے جو چادریں لٹکا کر اپنے گرد پردہ کرلیتے۔ صرف نماز میں شریک ہونے کے لیے پردے سے باہر نکل کر صف میں کھڑے ہوتے اور وہ بھی منہ پر کپڑا ڈال کر۔ اجتماعی اعتکاف کا تو تصور تک نہ تھا۔
  • دورانِ اعتکاف قائد محترم نے جو پہلا خطاب کیا، اس میں یہی بتایا کہ اجتماعی عبادت، انفرادی عبادت سے افضل ہوتی ہے۔ جتنا بڑا اجتماع ہوگا، اتنا ہی زیادہ ثواب ہوگا اور اللہ کی بارگاہ میں اس کی اتنی ہی زیادہ قبولیت ہوگی۔ مثلاً: گھر میں اکیلے نماز پڑھیں تو ایک نماز کا ثواب ملے گا جبکہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے سے ستائیس نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔۔۔ اسی طرح جمعہ کی نماز میں اجتماع عام ظہر کی نماز سے بڑا ہوتا ہے۔ اس لیے عام نماز سے زیادہ ثواب۔ حالانکہ ظہر کی نسبت فرض صرف دو پڑھے جاتے ہیں۔۔۔ عیدین کی نماز کا ثواب اس سے بھی زیادہ کیونکہ اجتماع جمعہ کی نماز سے بھی زیادہ جبکہ عیدین کی نماز فرض نہیں، واجب ہوتی ہے۔۔۔ اسی طرح حج کا اجتماع ان سب سے بڑا ہوتا ہے، لہذا اس کا ثواب ان تمام عبادات سے بھی زیادہ ہے۔
  • یہ بات سن کر میرے ذہن میں موجود اشکال دور ہوگیا اور دل مطمئن ہوگیا کیونکہ مجھے اپنے سوال کا تسلی بخش جواب مل چکا تھا۔ میری طرح دیگر لوگوں کے ذہن میں بھی یہ سوال ہوگا اور وہ بھی مطمئن ہوگئے ہوں گے۔
  • شاید ہمارے زیادہ تر ساتھی جذبات میں آکر یہ نعرہ لگاتے ہوں۔ ’’جرأت و بہادری طاہرالقادری‘‘ مگر ہم نے اس نعرہ کو عملی صورت میں بھی وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب قائد محترم سیاست میں بہت زیادہ سرگرم تھے اور جی ڈی اے کے صدر تھے جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ خان کے علاوہ بہت سے نامور سیاستدان شامل تھے۔ اس الائنس نے مل کر حکومت کے خلاف ایک جلوس کا پروگرام بنایا۔ جلوس نے لاہور ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوکر براستہ برانڈرتھ روڈ، سرکلر روڈ، انارکلی اور مال روڈ سے ہوکر اسمبلی ہال کے سامنے جاکر اختتام پذیر ہونا تھا۔ جلوس ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوا تو اس کے ہمراہ ایک جم غفیر تھا۔ تمام قائدین اپنی اپنی جماعتوں کی قیادت کرتے ہوئے ٹرکوں اور گاڑیوں پر سوار تھے اور قافلہ پر امن طور پر نعرے لگاتا اور جھنڈے لہراتا ہوا جانبِ منزل رواں دواں تھا۔ جب یہ قافلہ انار کلی بازار میں نیلا گنبد والی مسجد کے پاس پہنچا تو کچھ شرپسندوں نے جلوس پر اینٹوں اور پتھروں کی بارش شروع کردی اور ساتھ ہی گولیاں بھی چلنے لگیں۔ لوگ غیر متوقع صورت حال کے پیش نظر سراسیمگی کی حالت میں گھبرا کر جان بچانے کی خاطر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دوسری جماعتوں کے قائدین بھی منظر سے غائب ہوگئے۔ اسی اثناء میں قائد محترم ٹرک سے اتر کر پتھرائو اور گولیوں کی بارش میں پیدل آگے بڑھنے لگے۔ یہ دیکھ کر پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے لوگ بھی ان کے ہمراہ ہولیے۔ ان قیامت خیز لمحات میں قائد محترم کی قیادت میں عوامی تحریک کا قافلہ جی پی او چوک میں پہنچا تو باقی ماندہ جلوس کے لوگ اپنے قائدین کے ہمراہ دیگر راستوں سے ہوتے ہوئے وہاں آن ملے اور جلوس پھر سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ اس دوران گولیاں اور پتھر لگنے سے ہمارے بہت سے ساتھی زخمی ہوئے مگر انہوں نے قائد محترم کا بھرپور ساتھ دیا۔

اگلے دن تمام اخبارات میں قائد محترم کی بہادری کی تعریف کی گئی تھی۔ یہ ہوتی ہے جرأت اور بہادری۔ اسے کہتے ہیں مثالی قیادت جس پر منہاج القرآن کے رفقاء اور وابستگان فخر کرتے ہیں۔

یہ نصف صدی کا قصہ ہے (شفقت اللہ قادری)

رب کائنات کا بے پناہ لطف کرم اور میری خوش نصیبی ہے کہ خالقِ عظیم نے مجھے عالمگیر روحانی، علمی، انقلابی، شرق تا غرب وسعت پذیر تحریک ’’تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل‘‘ کی ابتدائی جدوجہد محاذ حریت کے پلیٹ فارم پرپہلی تعارفی اور تربیتی نشست منعقدہ دارالفرید جھنگ صدر کی میزبانی کا شرف بخشا۔ ہاں دارالفرید وہ مقام ہے جہاں 1951ء انیس فروری میں خوش نصیبی کا درخشندہ ستارہ پوری تابانی کے ساتھ دامن خورشید میں جگمگایا اور آنگنِ فرید الدین قادریؒ بقعہ نور بن گیا۔میری مراد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی پیدائش ہے اور خورشید تاباں عزت مآب محترمہ خورشید بیگم ؒ شیخ الاسلام قبلہ قائد محترم جناب محمد طاہرالقادری کی عظیم والدہ ماجدہ ہیں اور قلندر زماں حضور فرید الدین قادریؒ قبلہ شیخ الاسلام کے شفیق والد ماجد ہیں۔ علامہ فرید الدین قادریؒ آپ وہ مستجاب الدعوات تھے جن کی شب روز محنت شاقہ اور سجدہ جبینی کے طفیل رب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نابغہ عصر، درافشاں عجوبہ روزگار عالم دہر، یکتائے علم لدنی، مجدد وقت، مجتہد اعظم اور ہمہ جہت عالمی قائد عطا فرمایا۔

مجھے قسمت یاوری کے باعث 1975ء میں متذکرہ بالا جہد و جہد محاذ حریت کی پہلی نشست میں موجودگی کا شرف بھی نصیب ہوا جو تقریباً تقریباً دس مخصوص نوجوانان پر مشتمل تھی! جنہوں نے قائد محترم کے ہاتھ پر انقلاب مصطفوی کے لیے بیعت وفا کی اور ہمہ وقت اپنی زندگیاں غلبہ اسلام کی عالمگیر تحریک کے فروغ کیلئے اس مصطفوی مشن پر وقف کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ میری ابتدائی یادداشت کے مطابق سرفہرست نوجوان میں حاجی محمد امین احمد انصاری، شیخ ظفر اقبال (مرحوم)، حاجی احمد علی صاحب، حاجی محمد علی صاحب، چودھری مبارک علی صاحب، محترم غلام سرور قادری صاحب اور قبلہ قائد محترم کے برادر حقیقی محمد جاوید قادریؒ تھے۔ محمد جاوید قادری قائد محترم کے ہاتھ پر بیعتِ انقلاب کرنے والے خاندان اور فیملی کے پہلے فرزند تھے اور خواتین میں بیعت انقلاب کے حوالے سے باضابطہ سرتسلیم خم کرنے والی پہلی پروقار خاتون قائد محترمہ کی زوجہ محترمہ، محترمہ رفعت جبیں قادری صاحبہ ہیں۔ جنہوں نے مصطفوی انقلاب کی عالمی جدوجہد میں قائد محترم کا قدم بہ قدم ساتھ دیا۔

1975ء میں محاذ حریت کے پلیٹ فارم سے میں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری مدظلہ العالی کی پہلی باقاعدہ گفتگو خاندان کے دیگر احباب کے ساتھ ہمہ تن گوش سماعت کی جس میں قائدمحترم نے محاذ حریت کی تشکیل کا پس منظر، آئندہ کی عالمگیر تحریک کے اغراض و مقاصد، مسلم معاشرے میں نوجوان خواتین و حضرات کو درپیش چیلنجز اور معاشرتی زبوں حالی سے نبرد آزما ہونے کی سعی مشکور پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اس مجلس میں تجدید احیائے دین، فروغ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتحاد امت اور اصلاح احوال امت کے عنوان جلی زیر بحث تھے۔ شیخ الاسلام نے ان مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کی عالمی تحریک کے مکمل خدوخال اس کی شرق تا غرب وسعت پذیری کا نقشہ کھینچا۔ رب العزت کی قسم آج صرف میں نہیں بلکہ لاکھوں وابستگان نے اپنی آنکھوں سے تکمیل کے مراحل طے ہوتے دیکھ لیے ہیں۔ میری خوشی قابل بیان اس لیے بھی ہے کہ میں قبلہ قائد محترم کی ان پیشین گوئیوں کا چشم دید گواہ اور سامع ہوں۔

قبلہ قائد محترم نے قرآنی فلسفہ عروج و زوال کو اجمالی طور پر پیش کیا جو مابعد جنوری 1985ء میں باقاعدہ طور پر اشاعت پذیر ہوا اور محاذ حریت کے پلیٹ فارم سے ہی پہلی تصنیف ’’نظام مصطفی ایک انقلاب آفریں پیغام‘‘ سامنے آئی۔ 1978ء میں اس کتاب لاجواب کی تقریب ڈسٹرکٹ کونسل جھنگ میں ہوئی۔ صدارت پروفیسر ڈاکٹر برہان احمد فاروقی صاحب نے کی۔ اس پروگرام میں ملک کے طول و عرض سے ہر مکتب فکر کی صف اول کی علمی شخصیات نے شرکت کی۔ اس تقریب رونمائی کی منظر کشی بھی ناقابل بیان ہے۔ ہر مکتب فکر کی نمائندگی نے تقریب کو چار چاند لگا دئیے۔ الحمدللہ قسمت یاوری کہ میں خود اس تقریب میں بھی سعادت کناں تھا۔ مجھے قسمت پر یہ بھی ناز ہے کہ فیملی کے چند قربت نشیں افراد میں میرا شمار بھی ہے اور مجھے اپنے عظیم قائد کی حد درجہ محبت و شفقت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ قرابت داری میرے اور میری فیملی اور خاص طور پر میرے اہل خانہ کے لیے اثاثہ حیات ہے۔ قبلہ قائد محترم کا تاریخی مفصل خطاب سنا جو محاذ حریت کے پلیٹ فارم پر کیا گیا۔ اس کے اہم گوشے آج بھی نہ صرف میری یادوں کے قرطاس پر کنداں ہیں بلکہ سماعتوں کے دروازے پر دستک کناں ہیں۔ قائد محترم کے خطاب میں جو عوامل بیان فرمائے گئے شاید کسی کو اس وقت خواب لگتے ہوں گے مگر آج وہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ شیخ الاسلام سے نسبت میرے ایمان کی حفاظت کا سبب اور میری زندگی کا سرمایہ ہے اور ان کی سنگت کی بدولت مجھے اللہ کی بارگاہ میں بخشش کی امید کامل ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ پاکستان، عالم اسلام، تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی حفاظت فرمائے اور ان کی سرپرستی میں مصطفوی مشن کی کامیابی کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ طلوع فرمائے۔ آمین