شیخ الاسلام کی ہمہ جہت خدمات کے اثرات

غلام مرتضیٰ علوی

موسم بہار کی آمد پورے معاشرے پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ پھول کھلنے لگتے ہیں، پرندے چہچہانے لگتے ہیں، لوگ سیرو سیاحت کے ذریعے قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، شاعر ان حسین لمحوں کو کاغذ و قلم کے ذریعے محفوظ کرنے لگتے ہیں، موسیقار راگ بکھیرنے لگتے ہیں۔ الغرض موسم بہار دکھائی تو کھلتے ہوئے پھولوں میں دیتا ہے لیکن اس کے اثرات معاشرے کے ہر فرد کے رگ و پے میں نظر آنے لگتے ہیں۔

اسی طرح اس کائنات میں کئی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں جنہوں نے بہار کی مانند اس معاشرے کو رنگ و نور سے منور کردیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات اور کردار کے ذریعے کائنات انسانی پر امن، محبت، رواداری اور عدل و احسان کے ایسے اثرات مرتب فرمائے کہ 14 صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی ہر سمت خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ اگر ہم خطہ برصغیر میں دیکھیں تو سیدنا علی بن عثمان الہجویریؒ اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ جیسی ہستیوں نے پورے خطے پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی ان کے ذکر اور تعلیمات کے ذریعے لاکھوں انسان اپنی زندگیاں سنوار رہے ہیں۔ اسی طرح اقبالؒ نے اپنی فکرو فلسفہ اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دہر میں اجالا کرکے دکھایا۔

بیسویں صدی شخصیات کے ساتھ ساتھ اداروں، تحریکوں اور جماعتوں کی صدی ہے۔ دعوت، تبلیغ، ترویج و اشاعت کے جدید ذرائع کی دریافت نے دنیا کی سوچوں کا رخ بدل دیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ہر فرد کو دنیا تک رسائی دے دی۔ دورِ حاضر کی جدید ایجادات نے جہاں دنیا میں تبلیغ و اشاعت کے دروازے کھولے وہاں افکار کی یلغار میں اپنی فکر کو قائم رکھنے، اسے دنیا تک پہنچانے اور معاشرے پر اثرات مرتب کرنے کے لیے لاکھوں افراد کی جماعت کے ذریعے منظم اجتماعی جدوجہد ایک لازمی تقاضا بن گئی۔ علی گڑھ کی تحریک ہو یا وطن کی آزادی کے لیے تحریک پاکستان، روس، ایران اور فرانس کے انقلابات ہوں یاUNO OIC اور یورپی یونین کی صورت میں ملکوں کے اتحاد، دنیا پر یہ واضح ہوگیا کہ اس دور میں اجتماعی جدوجہد کے بغیر معاشرے کی اصلاح اور اپنے افکار کی ترویج ممکن نہیں رہی۔

15 ویں صدی ہجری کا آغاز اور معاشرتی حالات

محرم الحرام 1400ھ بمطابق 21 نومبر 1979ء جب افق پر نئی صدی ہجری کا آفتاب طلوع ہوا توتب وطنِ عزیز میں ہر طرف ہولناک مناظر دکھائی دے رہے تھے:

  • دشمنانِ اسلام اور نادان دوست مل کر تنگ نظری اور اِنتہا پسندی کے بیج بو رہے تھے۔
  • تکفیری رویہ تبلیغ کا لازمی نِصاب بن چکا تھا اور مسلمانانِ پاکستان متعدد فرقوں میں بٹ چکے تھے۔
  • مدارس میں صدیوں پرانے نِصاب کی تَدریس جاری تھی۔
  • اسلحہ کو عام کر کے کئی جماعتوں کے ملٹری ونگ(مسلح دستے )بنائے جا رہے تھے۔
  • دینی اور دنیاوی علوم کو الگ الگ کر کے معاشرے میں دو الگ الگ طبقات پیدا کر دئے گئے تھے۔
  • روحانی مراکز علم و حکمت اور عمل سے نہ صرف دور بلکہ رُسوم و رواج اور توہمات کا گڑھ بنتے چلے جا رہے تھے۔
  • ملک کے عدالتی نظام میں عدل و انصاف کا رجحان ختم ہو رہا تھا۔150سالہ پرانے عدالتی نظام نے پورے ملک کو حکمرانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بااثر افراد کی ذاتی جاگیر میں تبدیل کردیا تھا۔
  • فرسودہ، گھسے پٹے اِنتخابی نظام اور کلچرکے ذریعے نااہل،دہشت گرد، لٹیرے اور ملک دشمن عناصر ایوانِ اقتدار تک اپنا راستہ مضبوط کر چکے تھے اورتبدیلی کا ہر راستہ بند ہو چکا تھا۔
  • افرادِ معاشرہ کو ظلم، جبر ناانصافی اور غربت کی زنجیروں میں جکڑ کر قوم سے ظلم کے خلاف جدوجہد کا جذبہ چھینا جا رہا تھا۔
  • قوم کو اعلائے کلمہ حق کے جذبے سے اِس قدر عاری کیا جا رہا تھا کہ شعوری اور لاشعوری طور پر قوم کو اِس نظامِ جبر سے سمجھوتہ کرنے اور اِسی میں رہنے کی تلقین کی جا رہی تھی۔
  • ایک طرف فتنہ خوارج تیزی سے جڑیں مضبوط کر رہا تھا اور دوسری طرف فتنہ قادیانیت نئی توانائیوں کے ساتھ نئے سرے سے سر اٹھا رہا تھا۔
  • علم مکمل طور پر جمود کا شکار ہو چکا تھا۔ تحقیق اور تجدید کے سارے دروازے بند کیے جا رہے تھے۔

الغرض ہر روز ایک نیا فتنہ جنم لے رہا تھا اور اِن فتنوں اور سازشوں کی کوکھ سے آئے روز نئے نئے چیلنجز جنم لے رہے تھے۔

شیخ الاسلام کی خدمات کے معاشرے پر اثرات

بیسویں صدی عیسوی کی آٹھویں دھائی کے آغاز میں جب پندرھویں صدی ہجری کا آغاز ہوا تو فتنوں کے اس بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے بند باندھنے کے لیے اللہ رب العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو توفیق مرحمت فرمائی۔ آپ نے دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے منہاج یونیورسٹی اور سیکڑوں تعلیمی اداروں کی صورت میں نہ صرف نئی نسلوں کی تیاری کا آغاز کیا بلکہ تحریک منہاج القرآن کی شکل میں معاشرے کی اصلاح کے لئے عملی جدوجہد کا بھی آ غاز کر دیا۔ ان 39 سالوں میں ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن نے اس معاشرے کو کیا دیا۔۔۔؟ کون کون سی فکر کا رخ بدلا۔۔۔؟ نئی اقدار کیسے پیدا کیں۔۔۔؟ پاکستانی قوم، اُمت مسلمہ اور انسانیت کے لئے کیا خدمات سر انجام دیں۔۔۔؟ تقریبا نصف صدی کے اس قصے کو چند صفحات میں سمونا ممکن نہیں ہے۔ البتہ ان میں سے چند اہم پہلوئوں کا جائزہ نذرِ قارئین ہے:

سیاسی اثرات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر و فلسفہ نے معاشرے پر درج ذیل جہات سے اپنے سیاسی اثرات مرتب کیے کہ جن کا نشان آنے والی نسلوں کے لیے بھی روشن مینار ثابت ہوگا:

1۔ آئینی شعور کی بیداری

سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا اولین فریضہ اسمبلیوں میں آئین و قانون بنانا، اُس کی حفاظت کرنا اور عوام الناس کو آئین کی روشی میں اُن کے حقوق و فرائض سے آگاہ کرنا ہے۔ مگر بد قسمتی سے گزشتہ 70 سالوں سے پوری قوم ظلم اور جبر کی چکی میں پس رہی تھی۔ کسی ایک بھی سیاسی و مذہبی جماعت نے عوام کے حقوق کی حفاظت تو کجا اُنہیں اُن کے حقوق سے حقیقی معنوں میں آگاہی بھی نہیں دی کہ بنیادی انسانی حقوق کیا ہیں؟ اور آئین عوام کو کیا اختیارات دیتا ہے؟

پاکستانی سیاسی تاریخ میں ڈاکٹر طاہر القادری نے پہلی مرتبہ عوام الناس کو آئین پڑھایا ۔ آئین کی شق 62، 63 کا شعور دیا۔ کرپٹ اور بد عنوان سیاستدانوں کو بے نقاب کیا ۔ 1990ء اور 2002ء کے الیکشن ہوں یا 23 دسمبر 2012ء کا عوامی اجتماع ہر موقع پر عوام کو اُن کے آئینی حقوق سے آگاہ کیا۔ 2013ء اور 2014ء کے دھرنوں میں تقریباً 6 ماہ مسلسل تمام ٹی وی چینلز کے ذریعے عوام الناس کو آئین پاکستان کے پہلے 40 آرٹیکلز کا شعور دیا۔ عوام کو ان کے آئینی حقوق سے آگاہ کیا۔ متعدد ٹی وی چینلز پر کئی اینکرز اور سیاست دانوں نے اس حقیقت کا بر ملا اعتراف کیا کہ عوام کو آئینی شعور دینے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

2۔ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو بے نقاب کرنا

ملکی تاریخ میں سیکڑوں سیاست دان آئے اور بیسیوں سیاسی جماعتیں ملک کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرتی رہیں لیکن کوئی ایک سیاستدان اور جماعت مسائل کو حل کرنا تو کجا مسائل کو سمجھ کر ان کا حل بھی تجویز نہیں کر سکی۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور کسی نے سب سے پہلے پاکستان کا۔ کسی نے نیا پاکستان بنانا چاہا تو کسی نے روشن پاکستان کا نعرہ لگایا الغرض کھوکھلے نعروں میں بھی نہ مسائل کی وضاحت تھی اور نہ حل۔

پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سیاستدان نے عوام کے مسائل کا حقیقی حل ’’نظام کی تبدیلی‘‘ واضح کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے 25مئی 1989ء کو پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے وقت یہ نعرہ دیا تھا کہ ہماری جدوجہد کسی سیاسی پارٹی یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اس ظالمانہ، فرسودہ اور استحصالی نظام کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے قوم کو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح پارٹی ورکروں کو ایک دوسرے کا دشمن نہیں بنایا بلکہ اُنہوں نے قوم کو نظام کا مخالف بنایا۔ اگست 2012ء سے لے کر اکتوبر 2014ء تک آپ نے جس طاقتور طریقے سے اِس ظالمانہ فرسودہ اور استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کی یہ ڈاکٹر طاہر القادری اور اس کے کارکنان کی جرأت تھی کہ آج پاکستان کے ہر ٹی وی چینل کا ہر اینکرا ورتجزیہ نگار اگر نظام کی تبدیلی کی آواز بلند کرتا ہے تو یہ سب درحقیقت ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جرأت و بہادری کا تسلسل ہے۔ اگر یہ ظالمانہ نظام بے نقاب ہوا اور قوم کا اس پر اعتماد اُٹھ رہا ہے تو ڈاکٹر طاہر القادری کی انقلابی فکر اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

نظام کی تبدیلی کے لئے کوئی بھی سیاسی اور دینی جماعت اِس ظالمانہ نظام سے ٹکر لینے کے لیے تیار نہ تھی ۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ لاکھوں افرادی قوت رکھنے کی دعوے دار کئی جماعتوں نے اِعلائے کلمہ حق کو سیاست کا نام دے کر اپنے مقاصد سے نکال دیا تھا ۔ تحریک منہاج القرآن نے اس ماحول میں نظام کی تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اعلائے کلمہ حق کی جدجہد کا علم بھی بلند کیا۔ ظالم حکمرانوں نے خوف و ہراس پھیلانے اور ظلم کے خلاف جدجہد سے روکنے کے لیے 17 جون 2014ء کو سیاسی ظلم و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے مردوزن کی تمیز کیے بغیر نہتے کارکنوں پر گولیوں کی بارش کردی جس سے 14 شہید اور 100 کارکنان زخمی ہوئے۔ مصطفوی انقلاب کے مقصد کی تکمیل کے لیے انقلاب مارچ کا اہتمام کیا گیا تو ملک بھر سے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، معصوم اور بے گناہوں سے جیلیں بھردی گئیں، انقلابی قافلوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ بعد ازاں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے 70 دن پر مشتمل انقلابی دھرنے میں شدید موسم، گولیوں، شیلنگ، کھانے پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی شدید کمی کو استقامت سے برداشت کر کے شجاعت کی انمٹ داستان رقم کر دی۔ آج کوئی بھی طبقہ کسی بھی شکل میں احتجاج کرے، آئین کی شق 62,63 کے نفاذ میں کوئی بھی آواز بلند ہو، کسی ٹی وی چینل پر نظام کی تبدیلی کا تذکرہ کیا جائے تو یہ سب درحقیقت ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی جرأت و بہادری کی للکار کی بازگشت ہوتی ہے۔

3۔ حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنا

ڈاکٹر طاہرالقادری اور منہاج القرآن کے معاشرے پر سیاسی اثرات میں سے سب سے بڑا اثر کرپٹ نظام اور اس کے محافظوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ اگرچہ شیخ الاسلام 1990ء سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر میاں برادران کی کرپشن کے ثبوت واضح کررہے ہیں لیکن جس قوت اور طاقت سے 23 دسمبر 2012ء کے عوامی اجتماع، 2013ء اور 2014ء کے دھرنوں میں حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا اور دھرنے میں حکمرانوں کے ملک سے رقم چرانے کے ذرائع (کیریئرز) کو بے نقاب کیا، بعد ازاں لاہور اور کراچی سے کرنسی سمگلنگ کرتے ہوئے کیریئرز کا پکڑا جانا اس کا واضح ثبوت ہے۔ آپ نے 98ء سے 2002ء تک مسلسل اور 2012ء سے 2014ء سیکڑوں پریس کانفرنسز، پروگرام اور ٹاک شوز میں اس نظام اور حکمرانوں کی نااہلی اور کرپشن کو اس قدر بے نقاب کیا کہ اب حکمرانوں کی کرپشن، نااہلی اور ظلم کے فسانے ہر شہری کی زبان پر ہیں۔ ان شاء اللہ جب بھی یہ ظالمانہ نظام اور اس کے محافظ اپنے انجام تک پہنچیں گے، شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کی جدوجہد کو کوئی بھی غیر جانبدار مؤرخ اور میڈیا فراموش نہ کرسکے گا۔

دینی و علمی اثرات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کا دائرہ ہمہ جہتی نوعیت کا حامل ہے۔ آپ نے ایک طرف سیاسی جدوجہد کی تو دوسری طرف اس قوم و ملت کو دینی، علمی اور فکری حوالے سے اس قدر عظیم ذخیرہ عطا کیا کہ جس کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ ذیل میں اس کے چند مظاہر درج کیے جارہے ہیں:

1۔ ملک سے فرقہ واریت کے خاتمہ میں کردار

1980ء کی دہائی میں مسلکی منافرت اپنے عروج پر تھی۔ ایک دوسرے پر کفر ور مشرک کے فتوئے لگانا عام تھا۔ دوسرے مسلک کے فرد کے ساتھ گفتگو کرنا، اُس سے تعلق رکھنااور حتی کہ دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز کی اَدائیگی تک کو جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اِسلام دشمن قوتوں کی سازشوں اور نادان دوستوں کی وجہ سے گزشتہ 40 سال میں کئی مواقع ایسے بھی آئے ہیں کہ قریب تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت شروع ہو جائے اور بات چلتے چلتے خانہ جنگی تک پہنچ جائے۔ متنازع اور نفرت آمیز موضوعات پر سیکڑوں تصانیف شائع ہوئیں، جہادکے نام پر کئی فسادی تنظیمیں بنیں، کئی جیش اور سپاہ بنیں، پُرامن تنظیموں اور سیاسی تنظیموں نے بھی اپنے عسکری ونگز قائم کیے اور ان جماعتوں کے متعدد رہنما اور کارکن قتل ہوئے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان گھٹاٹوپ اندھیروں میں اَمن رواداری اور محبت کی ایسی شمع جلائی کہ کل تک ایک دوسرے کو کافر و مشرک کہنے والے آج سیاسی و مذہبی جدوجہد ایک پلیٹ فارم پر کرنے میں خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے خدمت دین کے لیے اپنے دروازے ہر مسلک اور ہر گروہ کے لیے کھلے رکھے۔ کبھی 1990ء میں ’’اعلامیہ وحدت‘‘ کی شکل میں مسالک کو یکجا کیا تو کبھی تحفظِ ناموس اہلبیت اور تحفظِ ناموس صحابہ کی صورت میں منافرت پھلانے والے ہر فتنے کا تدارک کیا۔ یہ شیخ الاسلام کی ذات ہی تھی جنہوں نے کبھی دفاع شانِ علی ؓ کی صورت میں گستاخی اہلبیت کے فتنے کا خاتمہ کیا تو کبھی دفاع شانِ صدیق اکبر و عمر فاروقؓ کی صورت میں صحابہ کی بارگاہ میں کھلنے والی دراز زبانوں کا ناطقہ بند کیا۔ اگر گزشتہ نصف صدی کی پاکستانی تاریخ سے شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کا مساوات، بھائی چارے اور امن و آشتی پر مبنی کردار نکال دیا جائے تو یقیناً مسلکی اعتبار سے امن و محبت کا یہ دور ہمیں کبھی نہ ملتا۔

2۔ مناظرانہ کلچر کا خاتمہ

اگر ہم 40 سال قبل اپنے ملک کے مذہبی ماحول کا جائزہ لیں تو مناظروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہر طرف دکھائی دیتا تھا۔ ہر مسلک اور عالمِ دین معمولی معمولی باتوں پر مناظروں کا چیلنج دیتے اور پھر گالم گلوچ اور مخالفت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اِس مناظرانہ کلچرکو ختم کیا۔ تحریک منہاج القرآن نے 40 سالہ دور میں کبھی مسلمانوں کے کسی فرقے یا گروہ سے مناظرہ نہیں کیا۔ اسلام کی حقانیت کو اگر قادیانوں یا عیسائیوں نے چیلنج کیا تو اسلام کے دفاع میں چیلنج قبول کیا اور اسلام کا دفاع کیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مناظرانہ کلچر کے خاتمے کے لئے مکالمہ (سوال و جواب) کے کلچر کو فروغ دیا۔ آپ نے اپنے خطابات اور نشستوں کے بعد سوال و جواب کا عام موقع دے کر نہ صرف ہر قسم کے ابہامات اور اشکالات دور کر دئے بلکہ سوال اور اعتراض کی گنجائش ہی ختم کر دی۔ آپ نے ان 40 سالوں میں تحقیق سے دلائل کے اس قدر انبار لگائے کہ دنیا کا کوئی شخص آپ سے مناظرہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکا۔آج الحمد للہ ملک بھر میں کہیں بھی اہلِ علم کی طرف سے مناظروں کے چیلنج سنائی نہیں دیتے۔ بعض جاہل سستی شہرت کے لئے ایسا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

3۔ دینی تعلیمی اداروں سے تعلیمی ثنویت کا خاتمہ

اگر ہم گزشتہ 40 سال قبل کے پاکستانی معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ علم دینی اور عصری دو مختلف اکائیوں میں بٹ چکا تھا اور دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو چکی تھی۔ یہ روش ایک طرف تو معاشرے کو دین سے بیزار سیکولر بنا رہی تھی تو دوسری جانب دینی طبقہ صدیوں پرانے سلیبسکی تدریس اور عصری تقاضوں سے بے خبر ہونے کے باعث تنگ نظری کا شکار ہو رہا تھا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایسے ماحول میں 1985ء میں دینی و عصری علوم کو یکجا کرنے کے لئے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ الحمد للہ آج وہ جامعہ ایک چارٹرڈ یو نیورسٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے پاکستانی معاشرے کوعصری اور دینی تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مکمل تعلیمی نظام اور سیکڑوں تعلیمی ادارے دیے۔ یہ شیخ الاسلام کی عظیم جدوجہد کا ثمر ہے کہ آج سیکڑوں تعلیمی اداروں میں دینی و عصری تعلیم کو یکجا کیا جا چکا ہے۔

4۔ دینی علوم میں جمود کا خاتمہ

1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا وہاں دینی علوم اور ان کا دائرہ کار بھی محدود ہوتا گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ دینی علوم فقط عبادات کے مسائل تک محدود ہوگئے جبکہ سارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل اور جھگڑے عدالتوں میں اور جدید علوم کالجز اور یونیورسٹیز میں منتقل ہو گئے۔ اس تقسیم کے باعث دینی علوم میں تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ سیکڑوں سال پرانی کتب اور ان میں تحریر کئے گئے مسائل کو دورِ حاضر میں بھی مسائل کا حل سمجھا جانے لگا۔ قرآن و حدیث سے بات کرنے کو تقلید کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔قرآن کا مطالعہ دینی علوم کے نصاب میں شامل ہی نہ تھا اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دینی تعلیمی نصاب میں اختتام پر منتخب حصے کی تدریس (محض عبارت پڑھنے)کو کافی سمجھا جاتا تھا۔

تقلید محض کے اس دور میں شیخ الاسلام نے اپنی تمام تر تحقیق کا ماخذ قرآن و حدیث کو بنایا۔ آپ کی جملہ کتب اور 8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلو پیڈیا اور قرآن و حدیث سے مزین ہزاروں خطابات کے نتیجے میں معاشرے میں تحقیق کا ذوق پیدا ہوا اور آج الحمد للہ قرآن و حدیث کے بغیر بات کرنے کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ آج علماء اور سکالرز قرآن و سنت سے تحقیق کو قبول کر رہے ہیں جبکہ جمود کے قفل ٹوٹ چکے ہیں۔ خصوصاً قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی اشاعت کے بعد اب قرآن مجید سے براہ راست راہنمائی لینا عوام الناس کے لیے بھی نہایت آسان ہو گیا ہے۔

5۔ مذہبی تنگ نظری کا خاتمہ اور معتدل فکر کا فروغ

تین چار دہائیاں قبل معاشرے میں اس قدر تنگ نظری تھی کہ فکری اعتبار سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں کو مسلمان ہی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ ادائیگی نماز کا طریقہ کار مختلف ہونے پر مسلمان مسالک اور گروہوں میں تقسیم ہوجاتے، دوسرے کی کتاب پڑھنا، گفتگو سننا اس کے ادارے میں جانا حرام سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے مسلک اور عقیدے کو گالیاں دینا اپنے عقیدے کی تصدیق سمجھا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں شیخ الاسلام نے 1980ء سے اتحاد امت کا درس دیا۔ منہاج القرآن کے دروازے ہر مسلک اور عقیدے رکھنے والو ںکے لیے کھلے رکھے۔ کئی معاصر مختلف افکار رکھنے والی جماعتوں کے افراد منہاج القرآن کے مرکزی عہدیدار رہے۔ محترم ابوالاعلیٰ مودودی کے بیٹے محترم حیدر فاروق مودودی اور محترم علی غضنفر کراروی، محترم آغا مرتضیٰ پویا جیسے اہل تشیع لیڈر تحریک اور پاکستان عوامی تحریک میں عہدیدار رہے۔ تحریک کی قیادت تمام مسالک اور مکاتب فکر کے مراکز پر جاتی ہے اور تمام مسالک کے عہدیدار تحریک کے مرکز پر آتے رہے ہیں۔ گذشتہ 4 دہائیوں سے سیکڑوں مواقع پر تمام مسالک کے عہدیداران مرکزی سیکرٹریٹ پر تشریف لاتے رہے ہیں اور اعلانیہ دوسروں سے محبت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ امن، محبت اور رواداری پر مشتمل شیخ الاسلام کی 40 سالہ جدوجہد کا ثمر ہے جس کے نتیجے میں ہمیں یہ ماحول میسر آیا ہے۔

دینی، اخلاقی، علمی، روحانی اور معاشرتی اقدار کا فروغ

سیاسی اور دینی و علمی محاذ پر کارہائے نامہ شیخ الاسلام کا طرہ امتیاز ہیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اصلاحِ احوال اور دینی، اخلاقی، علمی، روحانی اور معاشرتی اقدار کی بحالی اور فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ذیل میں اس کی چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں:

1۔ عبادت و بندگی کے کلچر کا فروغ

تحریک منہاج القرآن بنیادی طور پر قرآن و حدیث کی فکر پر مبنی اصلاحِ اَحوال کی عالمگیر تحریک ہے۔ 40 سال قبل جب معاشرہ محفلِ ذکر، شب بیداری، اِجتماعی مُسنون اِعتکاف، نفلی اعتکاف، تربیتی کیمپ اور روحانی اجتماعات جیسے عنوانات سے بھی نا آشنا تھا، اُس دور میں شیخ الاسلام نے اپنی مجددانہ جدوجہد کا آغاز دروس تصوف اور ماہانہ شب بیداریوں سے کیا۔ طویل مدت تک ملک بھر میں ہفتہ وار محافل ذکر، ماہانہ شب بیداری، تربیتی کیمپوں کا انعقاد تحصیل اور یونین کونسل تک جاری رہا جبکہ بیرونی دنیا میں لاکھوں نوجوانوں کی اصلاح احوال کی جدوجہد الھدایہ کیمپس کے ذریعے کئی سالوں سے جاری ہے۔ سالانہ مسنون اعتکاف میں ہزار ہا افراد 24 گھنٹے عبادت و بندگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ تین دھائیوں سے 27 رمضان المبارک کے موقع پر سالانہ روحانی اجتماع لاکھوں لوگوں کی توبہ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ تصوف اور اخلاقِ حسنہ کے عنوان پر ہزاروں لیکچرز آج بھی اصلاحِ احوال کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔اِس پرفتن معاشرے میں رہتے ہوئے لاکھوں کارکنان کے کردار و عمل میں اِس قدر تبدیلی پیدا کرنا کہ معاشرہ اُن کے کردار و عمل کی مثال دے، یہ سب شیخ الاسلام کی مجددانہ کاوشوں کا پرتو ہے۔

یہ شیخ الاسلام کی جدوجہد کے معاشرے پر اثرات ہیں کہ کل جہاں اجتماعی اعتکاف پر فتوے لگتے تھے آج ملک بھر میں سیکڑوں مساجد میں ہر تنظیم اور ادارے کے تحت اجتماعی اعتکاف کا اہتمام ہوتا ہے۔ ماضی میں جو مذہبی طبقات شب برأت کے موقع پر عبادت کو بدعت اور اجتماعی صلوٰۃ التسبیح کی شکل میں اللہ کی عبادات کے بھی قائل نہ تھے، آج وہ ان مواقع پر اہتمام سے عبادت و بندگی کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔

2۔ علم و تحقیق کے کلچر کا فروغ

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح دینی علوم میں تحقیق کے کلچر کو فروغ میں شیخ الاسلام کا کردار آفاقی ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب دینی علوم پر ایک کتاب تحریر کرنا تو درکنار محض ایک دینی رسالہ شائع کرنابھی جان جوکھوں کا کام تھا۔ قرآن و حدیث سے رہنمائی کی بجائے قصے کہانیوں کو دعوت و تبلیغ کا ذریعہ بنایا جاتا تھا، جب تصوف صرف اولیااللہ کی کرامات کے ذکر کا نام بن کر رہ گیا تھا۔ اُس پرفتن دور میں شیخ الاسلام نے علم کے اِحیاء کا فریضہ بخوبی سرانجام دیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انسانی زندگی کے بیسیوں موضوعات پر 1000 سے زائد کتب تحریر فرمائیں جس میں سے 596 شائع ہوچکی ہیں، جبکہ باقی اشاعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر 6000 سے زائد ایمان افروز خطابات فرمائے۔دنیا بھر میں اسلام کے ہر ہر پہلو پر لیکچرز دیے، ہزار ہا لائبریریز اور سیل سینٹرز قائم کیے گئے۔ حدیث، تصوف، فقہ اور عقائد اِسلامی کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا۔ قرآن مجید کا جدید علمی، فکری، سائنسی اور تفسیری شان کا حامل ترجمہ کیا گیا جبکہ تفسیر پر کام تیزی سے جاری ہے۔

5000 ہزار سے زائد موضوعات پر 8 جلدوں پر مشتمل قرآنی انسائیکلوپیڈیا معاشرے میں قرآنی علوم کے فروغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح علم حدیث میں عنقریب شائع ہونے والا 42 جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا آف حدیث تدوین حدیث کے باب میں 14 سوسالہ اسلامی تاریخ میں غیر معمولی کام ہو گا جس سے معاشرے میں حدیث کے کلچر کو حقیقی فروغ ملے گا۔ الغرض تحریکِ منہاج القرآن نے اس طویل علمی جدوجہد کے ذریعے نہ صرف دینی علوم کو زندہ کیا بلکہ تحقیق کے نئے دروازے کھولے ۔

3۔ جدید ذرائع تبلیغ کا فروغ

جس معاشرے میں پورا مذہبی طبقہ ٹی وی کو فحاشی اور بے حیائی کا آلہ سمجھتا تھا اور تصویر بنانے کو حرام سمجھتا تھا، جس معاشرے میں انٹرنیٹ ذریعہ تبلیغ نہیں مانا جاتا تھا، آج سے 35، 40 سال قبل اسی معاشرے میں ویڈیو کیسٹ، وی سی آر اور ٹی وی کو ذریعہ تبلیغ بنا کہ شیخ الاسلام نے تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا۔ آج کئی مذہبی جماعتوں کے اپنے ٹی وی چینلز ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیت متعارف ہونے سے دو سال قبل منہاج القرآن کی ویب سائٹ کا لندن سے آغاز ہو چکا تھا۔

4۔ عقائد اسلامیہ کا دفاع اور فروغ

قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستان میں آنے والی خارجی فکر نے سب سے پہلا حملہ مسلمانوں کے عقائد خصوصاً عقیدہ رسالت کے مختلف پہلوئوں پر کیا۔ توحید کے نام پر توسل استعانت، شفاعت، ایصال ثواب اور خصوصاًمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقائد کو مناظروں کا موضوع بنا کر تعلق بالرسالت کو کمزور کیا گیا۔ الغرض محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ہرپہلو پر بدعت، کفر اور شرک کا فتوٰی لگا کر اُمت کے ایک بڑے طبقے کو مشرک قرار دے دیا گیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایسے ماحول میں ہر عقیدے کا علمی اور عَملی دونوں انداز سے دفاع کیا۔ انہوں نے ہر عقیدے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں متعدد کتب تحریر فرمائیں۔ کتاب التوحید کے نام سے عقیدہ توحید کی وضاحت پر اردو زبان میں سب سے ضخیم تصنیف تحریر فرمائی ۔انہوں نے عقائد اوراُن سے متعلق موضوعات پر 150 سے زائد کتب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہزاروں مقامات پر لاکھوں افراد کے مجمع عام سے خطابات کے ذریعے عقائد ِاسلامیہ کا دفاع کیا ۔ گستاخی رسالت اور قادیانیت کی صورت میں پیدا ہونے والے اعتقادی فتنوں کا علمی، عملی اور قانونی سطح پر مقابلہ کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی 39سالہ جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں فتنہ قادیانیت اور فتنہ خوارج دونوں فتنے پنپ نہیں سکے۔

یہ شیخ الاسلام کی جدوجہد ہی کا نتیجہ ہے کہ ا ٓج خارجی فکر دم توڑ رہی ہے، عقائد اسلامی پر نہ صرف حملے ختم ہو چکے ہیں بلکہ اعتراض کرنے والے ان تقاریب میں شریک ہوتے ہیں اور خود بھی ان کا اہتمام کرتے ہیں۔

5۔ احیائے اسلام کے لیے تنظیمی جدوجہد کا فروغ

جس دورمیں خدمتِ دین کی جدوجہد کو تنظیمی سطح پر فعال کرنے کا افراد معاشرہ میں کو ئی مزاج نہیں تھا، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُس دور میں منہاج القرآن کے نام سے تنظیمی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 39 سالوں میں یونین کونسل سے لے کر عالمی سطح تک تنظیمات کا جال بچھا کر لاکھوں کارکنان اور عہدیداران کو منظم انداز میںاصلاح احوال اور احیاء اسلام کی خاطر جدوجہد کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ شیخ الاسلام کی اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج معاشرے میں متعدد جماعتیں منظم انداز میں معاشرے کی اصلاح اور نظام کی تبدیلی کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ لاکھوں کارکنان کے ذریعے امن و محبت اور رواداری کے فروغ کی جدوجہد سے یقیناً وطن عزیز اور امتِ مسلمہ کا مستقبل روشن اور تابناک ہو گا۔

6۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ

ایک مسلمان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق ہے۔اِیمان کے وجود، اعمال کی قبولیت اور قربِ الٰہی کا انحصار اسی تعلق کی مضبوطی پراستوار ہے۔ شیخ الاسلام کی سب سے بڑی جدوجہد خارجی فکر کے خلاف ہے۔ قریب تھا کہ خارجی فکر سینوں میں روشن محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغوں کو گل کرتے ہوئے مسلمانوں کو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایمان کے نور سے محروم کر دیتی ۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عِلمی اور عَملی دونوں سطحوں پر جدوجہد کرتے ہوئے دنیا بھر میں ہزاروں میلاد کانفرنسزسے فکری اور روحانی خطابات کیے، گلی محلوں میں لاکھوں محافلِ میلاد منعقد ہوئیں، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عشق و محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عقیدہ رسالت، اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے سیکڑوں کتب تحریر کی گئیں۔

39 برس سے مسلسل عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، کردار اور اَخلاق سے اِتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فروغ دیا گیا، دنیا بھر میں ہزاروں حلقات ِدرود اور منہاج القرآن کے مرکز پر گوشہ درود قائم کر کے اِس اُمت کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹا ہوا تعلق نہ صرف جوڑ ا بلکہ مضبوط تر کیا۔ آج رسول نما تحریک کی جدوجہد کے نتیجے میں خارجی طرزِفکر کو شکست ِ فاش ہو چکی ہے۔ بیرونی امداد پر خارجیت کو فروغ دینے والے اپنی غلطی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں اور تیزی سے عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ مجددِ رواں صدی کی شبانہ روز کاوشوں سے پوری دنیا پر خارجیت کی حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے اور نئی نسلیں اِس فتنے سے محفوظ ہو رہی ہیں۔

7۔ خواتین کے حقوق کی بحالی میں کردار

40 سال قبل پاکستانی معاشرے میں خواتین کی مذہبی پروگرامز اور تقاریب میں شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ شیخ الاسلام نے 30 سال قبل منہاج القرآن ویمن لیگ کا قیام عمل میں لا کر خدمتِ دین کے کام میں عورتوں کو بھی موقع عطا کیا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے معاشرے کی خواتین کو ایسا پروقار ماحول دیا کہ آج لاکھوں خواتین محافل میلاد سے لیکر نظام کے خلاف انقلابی جدوجہد تک ہر ہر میدان میں جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کے عالمی اثرات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ جہتی جدوجہد کے اثرات صرف ملکِ پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ اثرات ہمیں جابجا نظر آتے ہیں:

1۔ بین المذاہب رواداری کا فروغ

دنیا میں امن دشمن طاقتیں طویل زمانے سے اس جدوجہد میں مصروف تھیں کہ مذاہب کے درمیان نفرتیں پیدا کی جائیں اور مذاہب کو لڑا کر ہمہ وقت جنگ اور خوف کا ماحول پیدا کر کے دنیا پر اپنی حکمرانی کو طویل کیا جائے۔ ایسے ماحول میں جہاں ہر طرف نفرت کدورت اور دہشت گردی کا ماحول ہو وہاں امن محبت اور رواداری کے چراغ جلانا ایک جہاد سے کم نہیں ہے۔

بین المذاہب رواداری اور امن کے فروغ میں شیخ الاسلام کا کردار انقلابی جدوجہد پر محیط ہے۔مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان نفرتوں کے خاتمے کے لیے مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم کا قیام، حضرت عیسی ؑ کی یوم پیدائش پر عیسائیوں کے ہمراہ ولادت عیسی ؑ منانا اور انہیں مساجد میں اپنی عبادت کا موقع فراہم کرنا،، تمام مذاہب کو جمع کر کے عالمی اَمن کی دعا کرنا، بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے ہی ہے۔

یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی 39سالہ عظیم جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر اُمتِ مسلمہ کے خلاف نفرت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور دُوسرے مذاہب مسلمانوں کے قریب آنا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے تہواروں پر اپنے ہاں ضیافتوں کا اِہتمام کرتے ہیں، پاکستان کے گرجا گھروں میں بھی محافلِ میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد شروع ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ توہین آمیز خاکوں کے خلاف مسیحیوں نے مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں پروگرام منعقد کیے ۔ اِسی طرح 2010ء میں F صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم cebook پر اِس طرح کے توہین آمیز خاکے بنانے کا مقابلہ کرانے کے اِعلان پر آرگنائزر کو خود مغربی دُنیا کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، نتیجتاً یہ ناپاک جسارت پر مبنی مقابلہ منسوخ کر دیا گیا۔

اب یورپ میں مسلمانوں کے دِینی تہواروں کے موقع پر غیرمسلم ممالک کے حکمران اور قائدین مسلمانوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور اُن کے لیے نیک تمناوں کا اِظہار بھی کرتے ہیں۔ اِسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم نے عیدالاضحی ٰکے موقع پر وزیراعظم سیکرٹریٹ میں پہلی بار عید ملن پارٹی کا اِہتمام کرتے ہوئے مسلم عمائدین کو دعوت دی۔ یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جب سارے پروگرام کے دوران برطانیہ کا مشہور نعت خواں گروپ درود و سلام کا وِرد کرتا رہا۔ مغربی حکومتوں اور دِیگر سیاسی شخصیات اور سماجی و معاشرتی تنظیموں کی طرف سے اُن ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے عید ملن پارٹیز کا اِہتمام ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔

2۔ یورپ میں مسلم معاشرے کی تربیت

پاکستان سے یورپ اور امریکہ میں نقل مکانی کرنے والے وہ مسلمان جو اپنے ملک میں کسی دوسرے مسلک یا مذہب کی مذہبی تقاریب میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ اب انہیں ایک ایسے معاشرے میں ایڈجسٹ ہونا تھا، جہاں اس کا پڑوسی یہودی یا عیسائی تھا۔ جہاں میلوں کے فاصلے تک کوئی مسجد موجود نہ تھی، جہاں حلال گوشت تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا،جہاں سکولوں میں اسلامیات کی تعلیم کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جہاں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہے کہ پھر کسی نائن الیون(9/11)کے بعد ہمیں راتوں رات ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ اپنے ایمان کا تحفظ کرنا، نسلِ نو کا ایمان بچانا، ان کی دینی تعلیم و تربیت کرنا اور پھر انہیں بہترین عصری تعلیم دے کر معاشرے کا مفید شہری بنانا ایک ایسی آزمائش تھی جس کی سنگینی کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔

شیخ الاسلام نے 100سے زائد ممالک میں تنظیمات اور دفاتر قائم کرکے یورپ میں بسنے والوں کو خدمتِ دین کے لیے ایک منظم پلیٹ فارم عطا کیا، بیرونی دنیا میں 90 سے زائد ممالک میں مساجد، اسلامک سینٹرز اور دینی تعلیم کے مراکز قائم کیے، جہاں بچوں اور ان کے والدین کے لیے روزانہ اور ہفتہ وار کلاسز کی شکل میں دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا۔ ہفتہ وار حلقہ درودوفکر، ماہانہ اجتماعات، محافل میلاد، الہدایہ تربیتی کیمپ، سیمینار اور پروگراموں کا ایسا جال بچھایا کہ نوجوان نسل کودینی و اخلاقی تربیت کے لیے مکمل ماحول میسر آیا۔ منہاج یونیورسٹی کے سیکڑوں سکالرز کو دنیا بھر میں بھجوا کر یورپ میں مسلمانوں کی اگلی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا مستقل بندوبست کیا۔ بیسیوں ٹی وی چینلز پر انٹرویوز دیے، سیکڑوں تعلیمی اداروں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت اوراسلام کے تصور ِجہاد پرموثر اور فکر انگیز خطابات کیے اور ان مواقع پر سوال و جواب کی نشستیں بھی منعقد کی گئیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے الہدایہ کیمپوں کے ذریعے یورپ کے مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تنگ نظری سے بچاتے ہوئے امن کا حقیقی درس دے کر یورپ میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کردیا۔ اس انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں یورپ کے مسلمانوں کا وقار بلند ہوا اور انہیں عزت، احترام اور جرأت کے ساتھ جینا نصیب ہوا۔

3۔ ناموس انبیاء کا تحفظ

جب وطن عزیز میں تحفظ ناموس رسالت کا چیلنج آیا تو شیخ الاسلام نے ہی ناموسِ رسالت کا حقیقی دفاع کیا۔ اسی طرح جب بین الاقوامی سطح پر اَمن اور انسانیت دشمن طاقتوں اور طبقات کی جانب سے گستاخی رسالت کے ذریعے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عالمی رہنماوں کو خطوط تحریر کرکے تمام مذاہب کے رہنمائوں کے احترام کے لیے قوانین واضح کرنے کی دعوت دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے واضح کیا کہ انبیاء کی گستاخی کی سزا کے قانون کی ابتداء سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور اقدس میں ہوئی۔ ان کے دور میں اللہ،نبی اور آسمانی کتاب کی گستاخی پر رجم (پتھر مار مار کر مارنے )کی سزا مقرر تھی اور اس قانون پر سزائیں بھی دی گئیں۔ یہ قانون سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک جاری رہا۔

اس علمی جدوجہد کے نتیجے میں الحمد للہ اب گستاخی کے اس فتنے کا سدباب ہو گیا ہے۔ یہ شیخ الاسلام ہی کی طویل جدوجہد ہے کہ آسٹریلیا اور یورپی ممالک میں گستاخی رسالت پر سزا کے قوانین بننا شروع ہو چکے ہیں اوران پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔

4۔ دہشت گردی کے خاتمہ کی جدوجہد

موجودہ دور میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی کے مکروہ فتنہ نے پہنچایا ہے۔ جس وقت اِس فتنے کے بیج بوئے جارئے تھے اُس وقت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان دنیا بھر میں اَمن و محبت کے چراغ جلا رہے تھے۔ جب وطن عزیز میں دہشت گردی کی لہر کا آغاز ہوا تو عالمِ کفر نے اِس فتنے کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر دینِ ا اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی۔ اس سنگین صورت حال میں مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے صدی کے سب سے بڑے فتنے کے تدارک کے لیے عالمی میڈیا پر سیکڑوں انٹرویوز اور دنیا بھر میں ہزاروں کانفرنسز، اجتماعات میں لیکچرز اور دہشت گردی و فتنہ خوارج کے خلاف فتوے اور دہشت گردی کے خلاف 28 کتابوں پر مشتمل امن نصاب کے ذریعے تن تنہا مجددانہ کردار ادا کیا۔ پاکستان میں آپ نے پوری قوت سے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی، دہشت گردوں سے مذاکرات کی مخالفت کی اور انہیں طاقت سے کچلنے سے متعلق راہنمائی دی اور اس طرح فتویٰ سے فکری راہنمائی کرکے پوری قوم میں دہشت گردی اور دہشت گردوں سے نفرت پیدا کی۔

شیخ الاسلام نے پاکستان سے باہر پوری دنیا میں اس فتنے کا پوری قوت و طاقت سے مقابلہ کیا، انہیں بے نقاب کیا اور ان کو فکری بنیادوں پر تنہا کیا۔ انہیں کافر قرار دے کر اسلام کو دہشت گردی سے الگ کیا۔ اسلام کے چہرے پر لگے داغ کو صاف کیا۔ آج الحمد للہ پوری دنیا میں اسلام کو دہشت گردی سے نتھی نہیں کیا جاتا اور اسلام کو دینِ امن و سلامتی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔