شیخ الاسلام نے مشن کی تڑپ اولاد میں بھی منتقل کی

محمد فاروق رانا/نوراللہ صدیقی

قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آئندہ نسلوں کی علمی، فکری آبیاری، اصلاحِ احوال اور اصلاحِ امت کیلئے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے جہاں قابلِ رشک تعلیمی،روحانی، فلاحی، فکری ادارے اور فورمز تشکیل دئیے وہاں اس فکر کو آئندہ نسلوں اور زمانوں میں منتقل کرنے کے لیے کارکنان کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور پھر ان کی اولاد کی بھی اسی نہج پر علمی، فکری، روحانی تربیت کی۔ بزرگوں کے اقوال میں سے ہے کہ کسی صاحبِ نظر ،صاحبِ فکر یا Visionery شخصیت کے اقوال و افکار کے متعلق حقائق کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو اس کی اولاد کے احوال اور روزمرہ کے اعمال پر نگاہ دوڑالی جائے تو صاحبِ فکر کے ویژن اور وجدان سے متعلق حقائق طشت از بام ہو جائیں گے۔ کسی شخصیت کے معاملات اہلِ مجلس یا خلائق سے تو پوشیدہ رہ سکتے ہیں مگر اولاد، اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب سے کچھ مخفی نہیں رہ سکتا کیونکہ کوئی بھی شخصیت اپنے اعمال، کردار،افعال، حسنِ سلوک اور دیگر سماجی، خانگی امور میں اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر پوری طرح متعارف ہوتی ہے ، اس لیے کیے گئے جملہ دعوؤں کے تناظر میں جاندار اور شاندار گواہی بھی یہی مستند ٹھہرائی جاتی ہے۔

بلاشبہ اولاد اعمال صالح میں اپنے باپ کے کردار اور فکر کی وارث اور پرتو ہوتی ہے۔ شو مئی قسمت ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہاں ہمارے اطراف میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بعض بڑی بڑی نامور علمی، روحانی، شخصیات کی علمی، فکری میراث بوجوہ اولاد اورآئندہ نسلوں میں منتقل نہ ہو سکی جس کی وجہ تربیتی مراحل میں کوتاہی یا دیگر سماجی ،خانگی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔بہرحال تربیتی مراحل میں برتی جانے والی کوتاہی کا نتیجہ اخلاقی گراوٹ اور زبوں حالی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور جس کے منفی اثرات سے صاحبِ فکر کی فکر بھی متاثر ہوتی ہے اور اس کے منفی اثرات سے سوسائٹی بھی محفوظ نہیں رہ پاتی۔

ماہنامہ منہاج القرآن کا یہ خصوصی نمبر قبلہ شیخ الاسلام کی علمی، فکری خدمات کے تناظر میں اشاعت پذیرہو رہا ہے تو تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھ رہے ہیں کہ قبلہ شیخ الاسلام نے اپنے علمی، فکری، تحریکی،تنظیمی سفر میں اپنی اولاد اور پھر ان کی اولاد کو بھی اس ڈگر پر گامزن کیا جس پر پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ سے وہ خود گامزن ہیں۔ علم سے جو محبت انہوں نے کی اور اس محبت کو نبھانے کیلئے جو تکالیف انہوں نے برداشت کیں، اسی راستے پر انہوں نے اپنی اولاد یعنی صاحبزادگان کو بھی گامزن کیا۔ قبلہ شیخ الاسلام نے وسائل کی بہتری کے باوجود صاحبزادگان کو حصولِ علم کے سفر میں مشقت کی بھٹی سے گزارا۔

انہوں نے منہاج یونیورسٹی لاہور کے ایک کانووکیشن میں خطاب کے دوران ایک خوبصورت جملہ ادا کیا کہ ’’جہاں نخرا ہو وہاں علم نہیں آتاکیونکہ علم کا اپنا بڑا نخرا ہوتاہے‘‘ ان کی کہی ہوئی اس بات کی گواہی محترم حماد مصطفی سے بھی آئی۔ انہوں نے ایک خصوصی گفتگو میں بیان کیا کہ ٹورنٹو میں یونیورسٹی کے دو کیمپس تھے، ایک کیمپس آمدورفت کے حوالے سے ساڑھے 3گھنٹے کی مسافت پر تھا جو بڑا تھا اور ایک کیمپس گھرکے نزدیک آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا جو سب کیمپس تھا۔ جب داخلہ لینے کے لیے قبلہ سے مشاورت کی گئی تو آپ نے فرمایا: دل کہتا ہے کہ گھر کے نزدیک والے کیمپس میں داخلہ لیں مگر عقل کہتی ہے دور والے کیمپس میں داخلہ لیں تاکہ حصولِ علم کے سفر میں آپ کو مشقت اٹھانا پڑے، اس مشقت سے آپ کی شخصیت اور پیشہ وارانہ زندگی میں نکھار آئے گا۔

قبلہ نے صاحبزادگان کی تربیت کے حوالے سے جو توجہ اور اسلوب اختیار کیا، وہ چشم کشاء ہے، اس کے مختصر تذکرے کو بھی اس تحریر کا حصہ بنایا جانا ضروری ہے تاکہ تحریک سے وابستہ احباب کو بھی اندازہ ہو سکے کہ ایک انسان کی تربیت کس قدر اہم اور سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہے۔ قبلہ شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کی علمی، تحقیقی، روحانی، اصلاحی، فلاحی فکر کو دنیا کے تمام براعظموں تک پہنچا دیا، 100 سے زائد ملکوں میں منہاج القرآن کے اسلامک سنٹرز بنا دئیے جن سے لاکھوں نفوس منسلک ہیں، پاکستان کے ہر چھوٹے، بڑے شہر میں منہاج القرآن کی تنظیمیں قائم ہوئیں،ادارے قائم ہوئے، لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے عقائد کا تحفظ ہوا مگر سوال یہ ہے کہ یہ فکر ،یہ تحرک، یہ تدبر، تعقل، گہرائی،گیرائی گھر میں بھی منتقل ہوئی یا نہیں؟

اس سوال کا جواب اثبات میں ملتا ہے۔ تحقیق کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ اگر آج ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر رواں دواں ہیں تو یہ محض اتفاق نہیں ہے، اس کی تیاری بھی دہائیوں پر محیط ہے۔

اس سوال کا ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے بین الاقوامی معیار کی تعلیم حاصل کی، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھے، اچھوتے موضوعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں لیکن جب ہم انہیں دنیا کے ممتاز تعلیمی اداروں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ہزاروں، لاکھوں ڈالرز کی تنخواہیں اور مراعات لینے کی بجائے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر دین اور انسانیت کی خدمت میں صبح و شام متحرک دیکھتے ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ اولاد بھی عظیم باپ کے نقش قدم پر ہے۔ یہی نہیں شیخ حماد مصطفی اور شیخ احمد جنہیں شیخ الاسلام کی براہ راست توجہ اور سرپرستی میسر ہے، وہ بھی اسی منزل کے مسافر ہیں، وہ دنیا کی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں اور دین کی بھی۔ شیخ حماد مصطفی انٹرنیشنل ریلیشنز میں فائنل مرحلے میں ہیں لیکن ہم انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ شہر اعتکاف میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گویا ہو کر صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت ؓ کی سنت بھی ادا کررہے ہوتے ہیں، ذکر و اذکار کی محافل میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں، حال ہی میں انہیں شیخ الاسلام کی معیت میں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ شیخ الاسلام ناسازی طبیعت کے باعث وہیل چیئر پر سعی فرمانے کے لیے بالائی منزل پر تشریف لے گئے مگر طواف کعبہ کے موقع پر تحریکی قافلے کی قیادت شیخ حماد مصطفی کررہے تھے وہ تلبیہ اور دیگر دعائیہ کلمات میں اہل قافلہ کی رہنمائی فرمارہے تھے، یعنی شیخ الاسلام تربیت کے اس تحریکی اور تنظیمی سفر میں اپنی اولاد کی تربیت تک محدود نہیں بلکہ آگے ان کی اولادوں کو بھی مصطفوی انقلاب کے مشن کا سپاہی بنا رہے ہیں اور حماد مصطفی اور شیخ احمد کی طبیعت میں ٹورنٹومیں رہتے ہوئے بھی علم سے محبت اورعمل کا رنگ نظر آتا ہے۔ تربیت کا یہ انداز اور اسلوب تحریک منہاج القرآن کے دنیا بھر کے کارکنان کے لیے بھی ہے۔

اس حوالے سے قابلِ احترام چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری سے گفتگو ہوئی، تربیت اولاد کے ضمن میں انہوں نے چند ایک واقعات کا ذکر کیا، جن کا یہاں تذکرہ بے جا نہ ہو گا۔ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے فرمایا کہ ایچی سن کی تعلیم کے بعد علوم شریعہ کی تحصیل کے لیے مجھے کالج آف شریعہ ٹاؤن شپ لاہور میں داخل کروایا گیاتو قبلہ نے حکم صادر فرمایا کہ حسن محی الدین علوم شریعہ کی تعلیم کے حصول تک ہاسٹل میں قیام پذیر رہیں گے اور انہیں گھر کا نہیں ہاسٹل کے میس کا کھانا کھانا ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ مجھ تک گھر کا پکا ہوا کھانا پہنچائیں۔ مجھے بغیر اجازت کے ہاسٹل سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور یہ واقعہ میری شادی کے بعد کا ہے جبکہ اس وقت میں صاحبِ اولاد بھی تھا۔

قبلہ کے اس فیصلے میں یقینا مصلحت تھی کیونکہ یہ تحریک اور یہ مشن آئندہ نسلوں کے لیے ہے اور اس کی تیاری بھی اسی نہج پر ہے۔ وہ صاحبزادہ صاحب کو باور کروانا چاہتے تھے کہ کل جب کوئی ذمہ داری نبھانے کا مرحلہ آئے تو ان کے علم میں یہ ہونا چاہیے کہ ہاسٹل کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ ہاسٹل میں رہنے والوں کے وسائل اور مسائل کیا ہوتے ہیں؟ اور ہاسٹل کے میس کا معیار کیا ہوتا ہے اور کیسے ہونا چاہیے؟ کیا ہم میں سے کسی نے صاحبِ حیثیت باپ کو تربیت کی غرض سے اپنی اولاد کو مشقت کی بھٹی سے اس انداز سے گزارے جانے کا کوئی واقعہ سنا؟

ایک اور چشم کشا واقعہ سننے کوملا، اگر بیان کرنے والے قابل احترام ڈاکٹر حسن محی الدین قادری خود نہ ہوتے تو شاید واقعہ کی صداقت پر شک ہوتا۔ انہوںنے بتایا کہ لندن میں زمانہ طالب علمی کے دوران کسی شرارت پر کوئی قیمتی چیز ٹوٹ گئی، اس پر شیخ الاسلام نے فرمایا کہ ڈانٹوں گا نہیں لیکن اس کا نقصان آپ خود پورا کریں گے، یہ محض تنبیہ نہیں تھی بلکہ عملاً ہمیں ایسا کرنا پڑا۔ میں نے اور ڈاکٹر حسین محی الدین نے ایک فوڈ چین کے ریسٹورنٹ میں مزدوری کی اور جو نقصان ہمارے ہاتھوں سے ہوا تھا اسے پورا کیا۔ اس کام کے دوران ہاتھ بھی جلے اور مشقت بھی اٹھائی۔

انہوں نے ایک اور واقعہ بھی بیان کیا کہ پی ایچ ڈی کیلئے جب جامعہ الازہر مصر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ضروری وسائل کی دستیابی کے باوجود لوکل ٹرانسپورٹ استعمال کی، اکاموڈیشن بھی شیئر کی اور ایک انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ یہ شیخ الاسلام کی ابتدائی مراحل کی تربیت کا ثمر تھا۔

انہوں نے بہت سارے واقعات بیان کیے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ قبلہ شیخ الاسلام نے کھانے کو سادہ نوالہ دیا لیکن تربیت کیلئے شیر کی آنکھ سے دیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ اگر غلطی سے بھی ڈرائیور یا کسی محافظ سے انجانے میں بھی تلخ نوائی ہوئی اور یہ قبلہ کے علم میں آیا تو اس وقت تک معافی نہیں ملتی تھی جب تک اس ڈرائیور اور اس محافظ سے معافی نہیں مانگی۔ بعض ایسی غلطیوں پر سزائیں بھی ملیں۔ آپ کسی بڑے کے ساتھ سخت جملوں کے تبادلے پر سخت برہم ہوتے تھے اور اسے اخلاق اور شائستگی کے خلاف سمجھتے تھے۔ ہم اپنے دوستوں کا انتخاب بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے تھے، اس کے لیے بھی قبلہ پہلے انٹرویو کرتے تھے کہ کون ہے جس کے ساتھ ہم اٹھ، بیٹھ سکتے ہیں، چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کالج اور یونیورسٹی کی دوستیاں ہی برباد کرتی ہیں اور یہ دوستیاں ہی آباد کرتی ہیں۔ہمارے دوست نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو دوست زمانہ طالب علمی میں بنے، ان کے ساتھ دوستی کا رشتہ آج بھی قائم و دائم ہے جو ہمارے دوست تھے، وہ ہماری اولادوں کے بھی دوست ہیں اور آج کل اس مشن کے بھی دوست ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ اصل عظمت علم کی اور انسانیت کی ہے۔ قبلہ شیخ الاسلام کی تربیت نفس کو کچلنے کے لیے تھی۔

عربی زبان میں ایک محاورہ بولا جاتا ہے: اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِأَبِیْہِ۔ اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اولاد اپنے والد کا پرتَو یا شبیہ ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جیسا والد ہوگا اولاد بھی اُسی کے نقشِ قدم پر ہوگی؛ جیسی اصل ہوگی ویسی فرع ہوگی؛ جیسا درخت ہوگا ویسا ہی اُس کا پھل ہوگا۔ اگرچہ یہ کوئی اٹل اُصول نہیں ہے یعنی اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان اپنے نسبی تعلق کے باوجود گمراہ تھا، کیونکہ اسلام میں سِرٌّ لِأَبِیْہِ کا روادار فقط وہ ہے جو اپنے والد کے محاسن اور خوبیوں کا حامل ہو۔

اِسلام میں مادّی ورثہ ہر کس و ناکس کو ملتا ہے، مگر علمی و روحانی ورثہ (academic and spiritual legacy) صرف اُسے ملتا ہے جو اپنے اندر اُن محاسن کو جذب کرنے کی طاقت و قابلیت پیدا کرلے۔

مجددِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے تقویٰ و طہارت، پاکیزگی و صالحیت، علم و فضل اور بلندیِ کردار پر کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی اُنگلی نہیں اُٹھا سکتا۔ وہ اپنے والد حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری کا پرتَو ہیں۔

حضرتِ فرید ملتؒ کی عظمت کے اعتراف کے لیے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ان کے فیضانِ علم اور تربیت نے دنیا کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی صورت میں ایک نابغہ روزگار ہستی عطا کی ہے۔ اپنے والد کے اُسوہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بھی اپنے جگر گوشوں کی تربیت اسی نہج پر فرمائی ہے کہ وہ بھی اپنے عظیم والد کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے علم و عمل، تقوی و طہارت، پاکیزگیِ کردار، حسنِ خُلق اور عاجزی و انکساری میں دنیا کے لیے ایک لائق تقلید مثال ہیں۔

تحدیث نعمت کے طور پر تحریکی کارکنان اور دیگر قارئین کو شیخ الاسلام کے دونوں صاحبزادوں کی علمی و فکری صلاحیتوں سے رُوشناس کرانے کے لیے ہم نے ماہ نامہ منہاج القرآن کے اِس قائد نمبر میں اُن کا اِجمالی تعارُف اور تصانیف کا تذکرہ کرنا ضروری گردانا تاکہ پڑھنے والوں پر بھی واضح ہوسکے کہ منہاج القرآن کے علمی، تحقیقی، تحریکی اور تنظیمی سفر میں اولاد بھی اپنے عظیم باپ کی ڈگر پر گامزن ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں:

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی علمی، فکری اور تحقیقی خدمات کا اجمالی جائزہ (محمد فاروق رانا)

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری عصرِ حاضر کی عظیم علمی شخصیت، مجدّدِ دین و ملت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ آپ 1978ء میں پیدا ہوئے اور اِبتدائی تعلیم لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔ فیضانِ غوثِ اَعظم کے امین قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدینؒ سے بچپن میں شرفِ بیعت حاصل کیا۔

تعلیمی پسِ منظر

آپ نے اپنے والد گرامی کی آغوشِ تربیت میں روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ قدیم و جدید علوم بھی حاصل کیے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے law graduation کی ڈگری لی۔ آپ نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن لاہور سے سات سالہ علومِ شریعہ یعنی درس نظامی کی تکمیل کی اور منہاج یو نی ورسٹی سےMasters in Arabic and Islamic Sciences کیا۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے City University London سے management sciences میں MSc بھی کی ہے۔ بعد ازاں City University London کے Cass Business School سےOrganizational Behaviour and Devolopment میں تخصص کیا۔ آپ نے بیرونِ ملک یونی ورسٹیوں سے leadership، financial management اور organizational management کے موضوع پر مختلف کورسز بھی کیے ہیں۔

٭ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے اساتذہ میں عرب و عجم کی معروف شخصیات شامل ہیں۔ آپ کو اِمام یوسف بن اِسماعیل النبہانی ؒسے الشیخ حسین بن احمد عسیران اللبنانی کے صرف ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ آپ نے شام کے جید شیوخ و اساتذہ سے تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، اصول الدین اور فلسفہ میں اعلی درجے کی اسناد اور اجازات حاصل کیں۔ ان میں الشیخ عبد الرزاق الحلبی (فقہ حنفی پر اتھارٹی)، الشیخ دیب الکلاس (جوکہ فرید ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری قدس سرہ کے معاصر تھے) اور الدکتور رمضان البوطی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے العقیدۃ الاسلامیۃ اور عشرہ قراء ات میں اتھارٹی کی حیثیت رکھنے والے الشیخ الشکری اللحفی سے عقیدے میں سند حاصل کی۔ الشیخ الشکری اللحفی کو صوفیاء کے حلقوں میں اَبدالِ شام میں گردانا جاتا تھا۔ ڈاکٹر حسن قادری نے شام کے کبار محدثین سے صرف 9 دن میں صحیح بخاری کا ختم کیا اور اس کی سند الشیخ فاتح الکتانی بن محمد بن مکی الکتانی سے لی اور انہی سے شرح المواہب اللدنیۃ اور شرح الموطا للزرقانی کا ختم صرف 4 روز میں کیا۔ آپ شیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی کے پاس سبقاً سبقاً مختلف تفاسیر، شروحات اور کئی امہات الکتب پڑھتے رہے اور اجازات حاصل کیں۔ آپ کے دیگر مشائخ میں شیخ ہشام البرہانی اور شیخ اسامہ الرفاعی شامل ہیں۔ مزید برآں آپ نے یمن، مصر اور سوڈان کی معروف علمی و روحانی شخصیات سے بھی اِکتسابِ فیض کیا ہے۔ آپ کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی معیت میں شیخ حسین بن احمد عسیران سے حدیث مسلسل بالمصافحۃ کی روایت لینے کا شرف بھی حاصل ہے اور یوں آپ پانچویں مصافح بنے ہیں۔

  • ڈاکٹر حسن قادری نے مصر کی یونی ورسٹی جامعۃ الدول العربیۃ (Arab League University) سے Ph.D کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل عربی زبان میں لکھے گئے آپ کے مقالہ کا موضوع ہے:

دستور المدینۃ المنورۃ والدستور الأمریکی والبریطانی والأوروبی (دستور مدینہ اور امریکی، برطانوی اور یورپی دساتیر کا تقابلی و تجزیاتی مطالعہ)

تنظیمی و انتظامی ذمہ داریاں

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ہیں۔ آپ عالمی سطح پر منہاج القرآن انٹرنیشنل کے نیٹ ورک کی توسیع کے سلسلے میں مختلف ممالک کے دورہ جات میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کا شمار ساؤتھ ایشیاء کی بڑی NGOs میں ہوتا ہے جسے UN سے مشاورتی درجہ (consultative status) بھی حاصل ہے۔ منہاج القرآن اپنے وسیع نیٹ ورک کے ساتھ دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں عالمی سطح پر لوگوں کے مختلف طبقات میں تعلیم کے فروغ میں کوشاں ہے۔ بین المذاہب رواداری، بین المسالک ہم آہنگی اور حقوقِ اِنسانی و عالمی امن کے فروغ کے حوالے سے منہاجِ القرآن انٹرنیشنل کی خدمات محتاجِ بیان نہیں۔

آپ منہاج یونی ورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن بھی ہیں۔ اسی طرح جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن اور منہاج کالج برائے خواتین کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے بیک وقت قدیم و جدید علوم میں ماہر طلبہ و طالبات کی کھیپ تیار کرتے ہیں جو زندگی کے مختلف میادین میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیتے ہیں اور پاکستان کے اندر اور باہر انہی کی branchesکے قیام میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔

  • ڈاکٹر حسن محی الدین قادری منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے بھی سرپرست ہیں۔ یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر ایشیائی اور افریقی ممالک میں قدرتی آفات کے دوران مدد کرنے کے علاوہ غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کو بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، صاف پانی اور طبی سہولیات وغیرہ مہیا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے خود کو بنی نوع انسان کے محروم طبقات کی بحالی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

علمی و فکری سرگرمیاں

  1. 2010ء کے اوائل میں آپ کی خصوصی کاوشوں سے پاکستان میں جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل طلبا کے رابطہ دفتر - الرابطۃ العالمیۃ لخریجی الأزہر (The World Association for Al-Azhar Graduates) کی برانچ کا اِفتتاح ہوا، جس کے چیئرمین بھی آپ ہی تھے اور پاکستان میں اس کی میزبانی کا شرف منہاج یونی ورسٹی لاہور کو حاصل ہوا۔ یہ آپ کی خصوصی محنت کا ثمر ہے کہ اس برانچ کے بارے میں شیخ الازہر اور جامعہ ازہر کے دیگر شیوخ و اکابرین کا واضح موقف رہا کہ دنیا میں رابطہ دفتر کی کوئی اور برانچ پاکستانی برانچ کا مقابلہ نہیں کرسکی۔ ایک سال کے اندر اندر پاکستان برانچ نے سہ لسانی (عربی، انگلش، اردو) سہ ماہی شمارہ دعوۃ الأزہر بھی جاری کر دیا، جس کا بنیادی مقصدمسلمانوں اور مغربی دنیا کے مابین برداشت، بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کو فروغ دینا ہے۔ جب کہ پاکستان برانچ نے آغاز میں ہی تین زبانوں میں ویب سائٹ بھی لانچ کی۔ علاوہ ازیں رابطہ دفتر کی برانچز میں سے یہ اعزاز بھی صرف پاکستان برانچ کو حاصل رہا کہ اس کے تحت ہونے والے تربیتی کورسز پاکستان اور بیرون پاکستان بھی منعقد ہوتے رہے ہیں۔ جامعۃ الازہر کے اشتراک سے کئی علمی و تحقیقی اور معاشرتی پروگرام ، کانفرنسز اور سیمینارز منعقد کیے گئے ہیں۔
  2. مسلمان ممالک کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے آپ نے دنیا بھر میں مختلف ممالک میں منعقد ہونے والی کانفرنسز میں اپنی علمی و فکری ثقاہت کا سکہ منوایا ہے۔ ان میں ورلڈ اکنامک فورم (WEF)، واشنگٹن ڈی سی، کینیڈا، یو کے، پیرس، ڈنمارک، اوسلو (ناروے)، نیدر لینڈز، جرمنی، بارسلونا (سپن)، اٹلی، یونان، آسٹریلیا، مشرقی ایشیا، انڈونیشیا، کوالالمپور، سنگاپور، ساؤتھ کوریا، منیلا (فلپائن)، بنگلہ دیش، مشہد (ایران) اور اردن سرِ فہرست ہیں۔ ان کانفرنسز میں ڈاکٹر حسن قادری نے اسلام اور عصری چیلنجز، تصوف کی اہمیت، عالمی معیشت میں اخلاقی اقدار کی ضرورت و اہمیت، معاشی بڑھوتی (economic growth) میں شفافیت کے عملی اظہار میں حائل رکاوٹیں اور اُن کا حل، قرآن اور نظامِ حکومت، اسلام اور اعلیٰ اخلاقی اَقدار، بین المذاہب رواداری کا فروغ اور انتہا پسندی و دہشت گردی کا تدارک و کلی خاتمہ، انتہاء پسندانہ سوچ اور دہشت گردی کے خلاف شیخ الاسلام کے فتویٰ کے اثرات کی اہمیت، جہاد کی غلط اور حقیقی تعبیر، القاعدہ کے نام نہاد جہاد کی حقیقت، شہری زندگی میں درپیش مسائل اور اُن کا حل جیسے اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا اور تحقیقی مقالات پیش کیے ہیں۔ اِن خطبات میں آپ نے مسلم تارکین وطن کے سامنے یہ اہم سوال بھی رکھا جس پر مغرب میں مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے کہ کیا مسلمان مغربی سوسائٹی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
  3. ڈاکٹر حسن قادری منہاج یونی ورسٹی لاہور میں MPhil اور PhD کے طلبہ کو تسلسل کے ساتھ لیکچرز دیتے ہیں۔ مختلف اخبارات و رسائل اور جرائد میں آپ کے آرٹیکلز بھی طبع ہوتے ہیں۔ ان میں معاشی اتحاد، أیہا الأمۃ! انتبہی، اسلام میں شادی کا حقیقی تصور اور جبری شادیوں کی ممانعت (Concept of Forced Marriages in Islam) جیسے موضوعات پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔

علاوہ ازیں ایک مقالہ میں القاعدہ کے جہاد کے بیانیہ کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ کی روشنی میں رد کیا گیا ہے۔ اسی طرح باہمی رواداری، اسلام ہم آہنگی اور امن کا مذہب، تصوف کی ضرورت و اہمیت، صوفی ازم جیسے اہم موضوعات بھی مقالہ جات کا موضوع ہیں۔

اس کے علاوہ قرآن کے حوالے سے نظامِ حکومت ، جہاد، اسلامی فقہ اور منتخب آیاتِ قرآنی کی تفصیل، آیاتِ قرآنی کی موضوع کے حوالے سے تقسیم جیسے اہم تحقیقاتی کام احاطہ کیے ہوئے ہے۔

  1. آپ کے قرآن حکیم کی منتخب سورتوں کے تفسیری لیکچرز مختلف ٹی وی چینلز پر باقاعدہ نشر ہوچکے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے علم، میلاد النبیa اور قصص الانبیاء جیسے موضوعات پر قومی ٹی۔ وی چینلز پر لیکچر سیریز بھی دی ہیں۔

ڈاکٹر حسن قادری کی عالمی سطح پر علمی، سماجی، فلاحی، معاشرتی مصروفیات اس قدر ہیں کہ یہاں فرداً فرداً اُن کا تذکرہ نہیں کیا جاسکتا۔ انتہاء پسندی و دہشت گردی اور تشدد کے تدارک، عالمی امن کے قیام، بین المذاہب رواداری اور مسلم و غیر مسلم طبقات کے درمیان برداشت اور بھائی چارے کے فروغ کے سلسلے میں عالمی سطح پر منعقدہ کانفرنسز میں اُن کی شرکت کے تذکرے کا یہ مختصر تعارف نامہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ کی گراں قدر خدمات کے اجمالاً ذکر پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی مطبوعہ تصانیف

ڈاکٹر حسن قادری نے مختلف موضوعات پر کتب بھی تحریر کی ہیں جن کی اجمالی تفصیل آئندہ سطور میں درج کی گئی ہے۔ آپ کی کئی کتب زیر طبع ہیں جن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری: ایک بے مثل اور عہد ساز شخصیت، ایک سو شیوخ الاسلام، غیر مسلم اقوام کے ساتھ پیغمبرانہ امن معاہدات، قیام امن کے لیے حضور نبی اکرمaکی بے مثال جدوجہد، دستورِ مدینہ میں حصولِ شہریت کے اصول و ضوابط جیسے اہم موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اسی طرح Quran and Ring Theory، Altruism، Leadership Characteristics، Ethics and Prophetic Characteristics جیسے اہم موضوعات پر بھی کتب زیر ترتیب ہیں۔ ذیل میں ہم ان کی بعض مطبوعہ کتب کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں:

1۔ تحریکی زندگی میں نظم و ضبط (ایک قرآنی تمثیل)

اس کتاب میں فاضل مصنف نے شہد کی مکھی کے نظامِ حیات اور فعالیت و عملیت پسندی کا جائزہ لیتے ہوئے کارکنوں کو اپنے مقصد اور منزل کے حصول کے لئے جذبہ محرکہ فراہم کیا ہے۔ شہد کی مکھی کی زندگی کا نظم- جو کہ وحی الٰہیہ کے تابع ہے- کا عمیق مطالعہ جہاں قرآن فہمی کے حوالے سے نئے دروازے وا کر رہا ہے، وہاں فاضل مصنف کی ژرف نگاہی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے کہ کارکن کی زندگی کی ذہنی، نفسیاتی اور روحانی ضروریات کا کامل ادراک رکھتے ہوئے شہد کی مکھی میں بھی وہی محاسن تلاش کر کے تحریک منہاج القرآن کے جاں باز کارکنوں کو ان کی محنت، استقامت اور جہدِ مسلسل کے اُلوہیاتی اور وجدانی منہج سے آگاہ کرتے ہوئے کامیابی و کامرانی کے رازہاے سر بستہ کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ اس طرح شہد کی مکھی کی مثال قرآنی اور الوہیاتی حوالے سے اور بھی جامع اور منبعِ فیض کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سورۃ النحل کا ایسا مطالعہ ہمارے سامنے اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔

2۔ Terrorist Rehabilitation: A New Frontier in Counter-Terrorism

Rohan Gunaratna اور Mohamed Bin Ali اس کتاب کے editors ہیں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا ریسرچ آرٹیکل موجود ہے جو انہوں نے سنگاپور میں ہونے والے کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ ریسرچ آرٹیکل کا عنوان ہے:

Delegitimising the Al-Qaeda of Obligatory Jihad: Interpreting the Islamic Concept of Jihad Based on the Fatwa on Terrorism

اس آرٹیکل میں ڈاکٹر حسن نے جہاد بالقتال کی فرضیت اور وجوب کے حوالے سے قرآن و سنت سے دلائل دیتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خود ساختہ تصورِ جہاد کا ناقابلِ تردید بطلان ثابت کیا ہے۔

3۔ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے اور نصرتِ دین

اس کتاب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُمت کے تعلق کی چند اہم جہات کو بیان کیا گیا ہے۔ اگر آج ہم تجدید و احیاء دین کے خواہاں ہیں تو ہمیں اُمتِ مسلمہ کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں میں جذبہ حبِ نبوی اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موجزن کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر دنیوی و اُخروی کامیابی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی خدمتِ دین کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔

4۔ وحدت و اِجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی

اس کتاب میں فلسفہ وحدت و اجتماعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مصطفوی کارکنوں کی قرآنی اصولوں پر تربیت کا اُسلوب بیان کیا گیا ہے۔ یہ تصنیف دراصل مصطفوی انقلاب کی تحریک کے کارکنوں کے لیے قرآنی اَنوار سے منور ایک ہدایت نامہ ہے۔ قابلِ ذکر بات ہے کہ کہنے کو تو یہ فلسفہ کے تناظر میں لکھی گئی ایک تصنیف ہے، مگر سلاست، روانی اور دل چسپ اندازِ تحریر نے اسے انتہائی آسان اور زود فہم بنا دیا ہے۔

اِس کتاب کے پہلے باب میں فلسفہ وحدت و اجتماعیت کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں کارکنوں کو قرآنی تمثیل کے ذریعے شہد کی مکھی کی سخت کوشی، پاکیزہ اوصاف، دیانت داری، وفا داری اور اپنے مشن کی تکمیل کو ہر شے پر مقدم رکھنے کے اوصاف اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ تیسرے باب میں سیدنا ذو القرنین علیہ السلام کے قرآنی واقعہ کی روشنی میں عظیم انقلابی قائد کے اوصاف بیان کرتے ہوئے دلائل کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے کہ دورِ حاضر کا ذوالقرنین کون ہے؟ چوتھے باب میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ہدہد کے واقعہ کے تناظر میں قیادت کی وسیع القلبی، ترغیب اور امورِ نگہبانی کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔

5۔ خدمت دین کے تقاضے اور ہمارا کردار

اِصلاح اور تربیت کے حوالے سے یہ بہت اَعلیٰ کتاب ہے۔ اس میں دین کی خدمت کرنے والے کارکنان کے لیے مفید نکات بیان کیے گئے ہیں۔ ان اہم نکات میں قابلِ ذکر یہ ہے کہ کس طرح وہ اپنی تحریکی کوششوں میں اِخلاص و اِستقامت کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔ بلاشبہ تربیت و اِصلاح کے حوالے سے یہ ایک عظیم سرمایہ ہے۔

6. Parents Rights in Islam (Social and Scientific Perspective)

انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں والدین کے حقوق نہ صرف اسلامی تناظر میں بلکہ سماجی و سائنسی انداز سے بھی درج کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں جہاں بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق کیوں ہیں، وہاں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے والدین کے کاندھوں پر نسلِ نو کی تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری اور بارِ گراں بھی ہے۔ لہٰذا والدین کے صرف حقوق نہیں بلکہ ان پر تربیتِ اولاد کا عظیم بار بھی ہوتا ہے جسے ادا کیے بغیر وہ حق ادا نہیں کرسکتے۔

7۔ دستور المدینۃ المنورۃ والدستور الامریکی والبریطانی والاوروبی (دراسۃ توثیقیہ تحلیلیہ مقارنہ)

عربی زبان میں لکھا گیا یہ مقالہ اب بفضلہ تعالیٰ ایک ضخیم کتابی صورت میں شائع ہو گیا ہے۔ کویت کے معروف پبلشر دار الضیاء نے اسے انتہائی دیدہ زیب کاغذ پر دل موہ لینے والے سرورق کے ساتھ طبع کیا ہے۔

ڈاکٹر حسن نے مقالہ میں یہ تحقیق پیش کی ہے کہ اِسلام کے ریاستی نظام اور دستورِ مدینہ کے حوالے سے چار اَنواع کی مختلف studies پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں دستورِ مدینہ کا کامل تجزیہ، تقابل، تفصیل و توضیح اور تشریح کی ہے اور امریکی وبرطانوی اور دیگرمغربی دساتیر کے constitutional principles کا Constitution of Madena سے تقابلی جائزہ لیا ہے۔ آپ نے دستورِ مدینہ کی مکمل تخریج و تحقیق اور اس کا استناد و اعتبار ثابت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صرف دستور مدینہ ہی تمام آئینی و دستوری تقاضے پورے کرتا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہو کر مسلم ممالک مثالی اسلامی فلاحی ریاستیں تشکیل دے سکتے ہیں۔

بہت جلد اس کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی شائع ہورہا ہے، ان شاء اللہ۔ اس کی نمایاں خصوصیات کا اجمالی جائزہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

  • اس کتاب سے یہ بات حوالہ جات کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ ریاست مدینہ تاریخِ عالم کی پہلی ویلفیئر سٹیٹ ہے۔
  • جدید جمہوریت کے بانی ہونے کے دعوے دار برطانیہ میں 1215ء میں Magna Carta کے نام سے شاہِ انگلستان King John نے محضر کبیر (Magna Carta) پر دستخط کیے جب کہ دستورِ مدینہ اس سے 593 سال قبل تحریر کیا جاچکا تھا۔
  • اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ برطانیہ کا غیر تحریری آئین 1911ء میں پاس ہوا، امریکہ کا آئین 1776ء میں بنا۔ میگناکارٹا کا بڑا عہد یک طرفہ طور پر تحریر کیا گیا جب کہ دستورِ مدینہ یا میثاقِ مدینہ کے تحریری معاہدہ میں ایک سے زائد اقوام اور مذاہب کے نمائندے شامل تھے۔
  • دیگر قدیم معاہدے ایک خاندان، ایک قبیلہ یا گروہ کے اقتدار کو دائمی بنانے کی اصولی بنیادوں پر استوار تھے جب کہ دستورِ مدینہ کی روح تمام افراد کی جان، مال، عزت و آبرو اور اقتدار اعلیٰ کا تحفظ تھا۔ اس میں بلا تفریقِ رنگ و نسل ریاستِ مدینہ کے ہر شہری کے مذہبی، سیاسی، معاشی و دفاعی حقوق کو تحفظ دیا گیا تھا۔ دستورِ مدینہ میں انفرادیت نہیں بلکہ اجتماعیت کے مفاد کو مدِ نظر رکھا گیا۔
  • میثاقِ مدینہ کی روشنی میں ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے ذریعے ایک اسلامی، فلاحی ریاست کے ماڈل کی داغ بیل ڈالی گئی۔
  • اس کتاب میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ دستورِ مدینہ میں انتظامی، معاشی، تجارتی، عدل و انصاف، لاء اینڈ آرڈر، انٹیلی جنس کے نظام، آزادیِ اِظہار، انسانی حقوق، بین الاقوامی تعلقات و معاہدات کے بارے میں راہ نما اصول مہیا کیے گئے ہیں۔
  • مغربی محققین نے اسلام کے سیاسی و انتظامی ماڈل اور فلاسفی کو بوجوہ نظر انداز کیا اور مسلم شہنشاہوں کے ذاتی طرزِ عمل کو مسلم سیاسی، انتظامی ماڈل کے طور پر پیش کر کے حقائق کو مسخ کرنے کی دانستہ کوششیں کیں۔ اس کتاب سے اس تاریخی غلط فہمی کا کافی حد تک ازالہ ہوتا ہے۔
  • اِس کتاب میں یونان، روم سمیت قبل مسیح کی جدید تہذیبوں کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ریاستِ مدینہ کے ماڈل کو سمجھنے والوں کے لیے مفید معاملہ ہے۔ انہیں قبل مسیح کی تاریخ بھی پڑھنے کو ملے گی، جس سے وہ بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ ریاستِ مدینہ کا انتظامی، معاشی، فلاحی ماڈل سب سے بہترین ہے اور کہیں سے مستعار نہیں لیا گیا۔
  • عرب معاشرہ کے خد و خال اور معروضی حالات سے بھی آگہی میسر آتی ہے۔ انتہائی خوبصورتی کے ساتھ قبل مسیح کی تہذیبوں کا عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے موازنہ کر کے ایک تاریخی تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
  • مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبیں حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہو جانے کی وجہ سے برباد ہوئیں جب کہ ریاستِ مدینہ ہجرت کی برکت سے آباد ہوئی۔
  • ریاستِ مدینہ میں ہجرت کرنے والوں کو عزت اور تحفظ ملا۔
  • قدیم تہذیبوں میں آمریت کا غلبہ تھا، ریاستِ مدینہ شورائی نظام سے پھلی پھولی اور اس میں با مقصد مشاورت کو اہم توجہ حاصل تھی۔
  • سیکڑوں کتب پر محیط قبل مسیح تک پھیلے ہوئے مکالمہ کو اب انتہائی خوبصورتی کے ساتھ ایک کتاب میں رقم کیا گیا ہے۔
  • تحریر کا انداز سادہ اور معنوی اعتبارسے موثر ہے۔

زیر ترتیب کتب

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی درج ذیل موضوعات پر کتب زیر ترتیب ہیں:

  • شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بے مثال اوصاف و عہد آفریں خدمات
  • تاریخ اسلام کے نام ور شیوخ الاسلام
  • اَوصافِ قیادت
  • اللغۃ العربیۃ أم اللغات
  • تفسیر سورۃ یوسف
  • تفسیر سورۃ النباء
  • Management Sciences (in the light of the Holy Quran & Sunna)

  • To What Extent is Altruism an Effective Tool for NGOs?

  • Political History of Islam

  • Islamic & Politics (Historic and Modern Perspective)

  • Emergence of Political Legislation between the West and Islam

  • Historic Validity and Authenticity of the Constitution of Medina

  • State Authorities (A Comparative Study of the Constitution of Medina and Contemporary Constitutions)

  • Human Rights in Islam and the West

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی علمی، فکری اور تحقیقی خدمات کا اجمالی جائزہ (محمد فاروق رانا)

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ایک سیاسی مفکر، معیشت دان، ماہر تعلیم، عظیم دینی اسکالر اور فلسفی ہیں۔ آپ ایک عظیم علمی و دینی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں، جنہوں نے علمی و ادبی اور روحانی صلاحیت اپنے جدِ امجد فریدِ ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے ورثہ اور اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شبانہ روز تربیت و توجہ سے حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے متعدد موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ 30 سے زائد کتب اور 100 سے زائد تحقیقی مقالات کے مصنف ہیں۔ آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی صدر اور ملک پاکستان کے عظیم تعلیمی ادارے منہاج یونیورسٹی لاہور (چارٹرڈ) کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ آپ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے بھی سربراہ ہیں جس کے تحت ملک بھر میں 650 سے زائد اسکولز اور کالجز نسلِ نو کی تربیت اور علم کا نور عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ یتیم بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے عظیم مرکز ’’آغوش‘‘ کی سرپرستی آپ کی انسان دوستی کا بھرپور ثبوت ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر حسین المواخات اسلامک مائکرو فنانس اور منہاج حلال سرٹیفیکیشن بیورو کے بھی بانی چیئرمین ہیں۔ آپ School of Economics and Finance میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر بھی اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آسٹریلیا کی University of Melbourne کے اعزازی ممبر (Honourary Fellow) بھی ہیں۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اکتوبر 1982ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ اس کے بعد کینیڈا چلے گئے۔ جہاں اُنہوں نے اکنامکس اور پولیٹکل سائنس کے موضوع پر YORK یونیورسٹی ٹورانٹو سے گریجوایشن کی۔ اس یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران شان دار تعلیمی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ آپ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے شاندار فتح حاصل کرکے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 2006ء میں آپ فرانس چلے گئے اور پیرس کی معروف یونیورسٹی Sciences-Po سے عالمی معیشت میں MBA کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں تدریسی و تحقیقی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔

ڈاکٹر حسین قادری نے آسٹریلیا کی معروف یونی ورسٹی Victoria University, Melbourne سے درج ذیل موضوع پر اپنی PhD مکمل کی ہے:

An Analysis of Trade Flows Among ECO Member Countries and Potential for a Free Trade Area

اپنے مقالہ میں آپ نے پاکستان، ایران، ترکی اور نو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں کے معاشی اتحاد اور ان کا تقابل کرتے ہوئے ایک رول ماڈل تشکیل دیا ہے کہ کس طرح یورپی یونین کی طرز پر یہ خطہ ایک مؤثر معاشی طاقت کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ایک اُبھرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ہیں جو اِس میدان میں ایک نئی سوچ اور فکر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنی عمیق نظری، تخلیقی تخیل اور فکرِ رسا کی بدولت ڈاکٹر حسین معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی میں ہمہ جہتی نقطہ نظر رکھنے والے اہلِ دانش میں سے ہیں جو بڑی خوبی سے دقیق مسائل کا عملی حل پیش کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کے اقتصادی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے اور مسلم ممالک کے مشترکہ سماجی، سیاسی و اقتصادی بلاک کے طور پر کام کرنے والی دولتِ مشترکہ کا نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ ان ممالک کو اَقوامِ عالم میں خوش حال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے سیکولر سائنسز کے حصول کے ساتھ ساتھ شریعہ اور قدیم اسلامی علوم بھی معروف عالمی اسلامک اسکالرز سے حاصل کیے ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں سب سے اہم آپ کے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں۔ اسلامی علوم میں آپ کے پسندیدہ موضوعات میں الٰہیات، علوم الحدیث، تفسیر، تصوف، فقہ اور اجتہاد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پسندیدہ عصری موضوعات میں معاشی افکار کی تاریخ، سیاسی معیشت، عالمی تجارت، قدرتی وسائل کی معاشیات، اسلامی معاشیات، اسلامی بینکاری، بین المذاہب رواداری، انتہا پسندی کا خاتمہ، مینجمنٹ اور فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔

رب ذو الجلال ان کی صلاحیتوں اور علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائے اور انہیں دین اِسلام اور ملک و ملت کی زیادہ خدمت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین)

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے شذراتِ علمی

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے مختلف قومی و بین الاقوامی، سیاسی اور معاشی و معاشرتی موضوعات پر انگریزی اور اُردو میں درجنوں آرٹیکلز شائع ہو کر علمی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ سماجی جدلیاتی پس منظر میں عالم اسلام کی اِقتصادی حکمت عملی اور ان کی اقتصادیات کو ترتیب دینے والے معاشی مضمرات ان کے پسندیدہ موضوع ہیں۔ بین الاقوامی تحقیقی جرائد و رسائل کے علاوہ پاکستان کے معروف اردو اور انگریزی روزناموں The News، Business Recorder، The Nation، Dawn میں سماجی، اقتصادی، معاشرتی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر ان کی سیکڑوں تحریریں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

ذیل میں ان کی اب تک طبع ہوجانے والی کتب کا اجمالی تعارف پیش کیا جارہا ہے:

1۔ نقشِ اوّل (2007ء)

آپ کی پہلی ادبی کاوِش آپ کا وہ شعری مجموعہ ہے جو نقشِ اَوّل (ISBN 97896907408) کے نام سے جولائی 2007ء میں شائع ہوا۔ یہ شعری مجموعہ آپ کے تیرہ سال سے اُنیس سال تک نَو عمری کی سات سالہ قلمی نگارشات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔

2. Strat:gie de diversification d'EDF l':tranger (2008)

آپ کا دوسرا علمی شاہکار فروری 2008ء میں فرانسیسی زبان میں طبع ہوا ہے۔ اِس کا عنوان Stratgie de diversification d'EDF l'tranger ہے اور اِس کتاب کا عالمی معیاری نمبر 978-969-32-0792-7 ہے۔ ایک سو صفحات پر مشتمل اِس کتاب میں فرانس کی سب سے بڑی نیم سرکاری کمپنی EDF کے بارے میں انتہائی مفید معلومات اور چشم کشا حقائق درج کیے گئے ہیں۔

3۔ پاکستان میں شکر سازی کی صنعت (ایک تحقیقی جائزہ) (2008ء)

ڈاکٹر حسین نے پاکستان میں شکر سازی کی صنعت پر تحقیقی اور مدلّل کتاب لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے پاکستان میں اِس صنعت کے مختلف گوشے اُجاگر کیے ہیں۔ نیز اِس صنعت کو درپیش مسائل، اَسباب اور اُن کے حل کے لیے نہایت ٹھوس اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔

4. Sugarcane Ethanol as an Alternate Fuel Source for Pakistan (2008)

ڈاکٹر حسین کی اس کتاب کا عالمی معیاری نمبر 978-969-32-0802-3 ہے، اس کتاب میں گنے کے ethanol سے توانائی پیدا کرنے کے بارے میں نہایت جامع تحقیق پیش کی ہے۔ آپ کی اس کتاب کی سرکاری حلقوں میں خاص پذیرائی ہوئی ہے اور حکومت نے اِسے توانائی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک اہم تحقیق قرار دیا ہے۔

5. SAARC & Globalization: Issues, Prospects & Policy Prescriptions (2008)

ڈاکٹر حسین کی سارک ممالک اور عالمی منظر نامے پر اس تصنیف کا عالمی معیاری نمبر978-969-32-0840-5 ہے۔ اِس میں اُنہوں نے جنوبی ایشیائی ممالک کی اِس تنظیم کے مسائل اور پہلوؤں پر بحث کرتے ہوئے ان کی پالیسی کے بارے میں قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ اُنہوں نے اِس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ سارک اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے؟ اور سارک ممالک انفرادی اور اجتماعی سطح پر دہشت گردی سے نبٹتے ہوئے کس طرح اپنی معاشی ترقی کے نئے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔

6۔ پاکستان میں بجلی کا بحران اور اُس کا حل (2008ء)

اِس گراں قدر تحقیق میں ڈاکٹر حسین نے معروضی حقائق کی بنیاد پر نہ صرف بجلی کے بحران کا باعث بننے والے اَسباب و محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے بلکہ اُن کے ممکنہ حل کے لیے ایسے اقدامات بھی تجویز کیے ہیں جنہیں بروئے کار لاکر اِس گھمبیر قومی مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

7۔ بچوں کا اِستحصال (ایک معاشرتی المیہ) (2009ء)

ڈاکٹر حسین نے مذکورہ عنوان پر ایک بے نظیر و بے مثل تحقیقی کتاب تالیف کی ہے، جس میں اُنہوں نے بچوں کے استحصال اور ان سے قطع تعلقی کے معاشرتی اَلمیے پر بحث کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اگر اِس رویے کے قلع قمع کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اِس کے اَثرات و مضمرات بنی نوع انسان کے لیے نہایت بھیانک اور تباہ کُن ہوں گے۔

8۔ پاکستان میں گندم کی پیداوار (طلب اور رسد کا تقابلی جائزہ) (2009ء)

عالمی معیاری نمبر978-969-32-0844-3 کی حامل اس تصنیف میں آپ نے پاکستان میں کاشتہ گندم اور آٹے کی صنعت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اِس کی پیداوار میں اِضافے اور کمی کے اَسباب کے سدباب کے لیے اُنہوں نے نہایت مفید اور قابلِ عمل تجاویز فراہم کی ہیں۔ پالیسی سازوں کے لئے یہ کتاب ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

9-10. Economics of Agriculture Industry in Pakistan (vol01: 2009; vol0-2: 2010)

ڈاکٹر حسین کی دو ضخیم جلدوں پر مشتمل انتہائی اِس اَہم کتاب میں زراعت کو بطور صنعت ترقی دینے کے بارے میں مدلل اَبحاث کی گئی ہیں۔ نیز یہ کہ پاکستان اس صنعت کو ترقی دے کر ہی معاشی خود کفالت کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر یہ صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ موافق موسمی حالات، زرخیز زمین اور محنتی کاشت کار ہونے کے باوجود ملک خود کفالت سے کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔

اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی زرعی یونی ورسٹی نے اسے اپنی ریفرنس بک قرار دیا ہے۔

11۔ اجتماعی تحریکی زندگی (مقاصد اور لائحہ عمل) (2011ء)

اس تصنیف میں آپ نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کے کارکنان کی تحریکی و تنظیمی زندگی کو موضوع بحث بنایا ہے کہ وہ کس طرح اپنی تحریکی سرگرمیوں کو نظم دے سکتے ہیں اور باہمی تعلقات کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں۔

12۔ اسلام اور تحفظِ ماحولیات (2011ء)

اگرچہ پاکستان میں ماحولیات کے موضوع پر کم لکھا گیا ہے، تاہم اس تناظر میں یہ تحقیقی کاوش ڈاکٹر حسین قادری کی عمیق نگاہی کی عکاس ہے۔

13۔ فلسفہ تحریک (فکری وحدت، اِجتماعیت اور منہج و مقصد) (2012ء)

یہ تصنیف آپ کی علمی گیرائی اور فکری بصیرت کا شاہکار ہے۔ اس میں اُنہوں نے تحریکی فکر اور کارکنان و وابستگان سے متعلقہ چند اَہم فکر انگیز موضوعات کو اِنتہائی آسان پیرائے میں تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے۔

14. Islam and Environmental Protection (2015)

یہ کتاب اسلام اور تحفظِ ماحولیات کا انگلش ترجمہ ہے۔

15. Muslim Commonwealth: The Way Forward (2016)

یہ کتاب عالمی معیاری نمبر 978-1-908229-47-2 کی حامل ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر حسین نے اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کے کردار اور خدوخال کو اُجاگر کیا ہے اور اس کے ممبر ممالک کے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں ایشیائی ممالک کے باہمی تعاون کو فروغ دینے اور اس تنظیم کو پورپین یونین کی طرز پر فعال کرنے کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

16. Stray Impressions: An Anthology of Social Issues (2016)

یہ کتاب عالمی معیاری نمبر 978-1-908229-48-9 پر موجود ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر حسین کے 2007ء سے 2013ء کے درمیان مختلف موضوعات پر طبع ہونے والے تحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس کے اہم موضوعات میں جدید معاشی نظریات، پاکستان کی معاشی صورت حال، پالیسی سازی میں میڈیا کا کردار، بیوروکریسی کا کردار، پاکستانی حکمرانوں کو درپیش چیلنجز اور پاکستانی نظام تعلیم شامل ہیں۔

17. Rational to Brawl The Irrational (Pursuing The Revolution, Through Education) (2017)

اس کتاب کا عالمی معیاری نمبر (ISBN 9783330063884) ہے۔ یہ آپ کا ریسرچ آرٹیکل ہے، جسے Lambert Academic Publishing, Germany نے 2017ء میں شائع کیا۔ اس میں آپ نے انتہاء پسندی کے خاتمہ میں تعلیم کے کردار کو اُجاگر کیا ہے۔ اس میں پاکستانی نظام تعلیم کو بطورcase study پیش کیا گیا ہے۔

18. The Journey of Revolution (Social & Spirtiual Aspects) (2017)

یہ آپ کی ایک اور اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا عالمی معیاری نمبر (ISBN) 978-1-908229-50-2 ہے۔ اس کتاب میں قائد اور کارکن کے باہمی تعلق اور اسے مزید مضبوط کرنے کے مختلف طریقوں کو واضح کیا گیا ہے۔

19. O Brother! (2017)

یہ کتاب امام غزالی کی کتاب أیہا الولد کی طرز پر روحانی و اخلاقی گائیڈ بک ہے، جو آج کے دور کی ضروریات کے مطابق نوجوانوں کی اَخلاقی و روحانی تربیت کے لیے تحریر کی گئی ہے۔ اس کتاب کا عالمی معیاری نمبر (ISBN) 978-1-908229-51-9 ہے۔

20۔ پاکستان کا نظامِ تعلیم (متشدد رجحانات اور مدارسِ دینیہ) (2017ء)

اس علمی و تحقیقی تصنیف میں پاکستانی نظام تعلیم کے حوالے سے چشم کشا حقائق کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں پاکستانی تعلیمی اداروں اور مدارس میں بڑھتے ہوئے متشدّد رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں درج ذیل اہم مسائل کی نشان دہی اور اُن کا حل پیش کیا ہے:

  • پاکستان کا غیر مساوی اور فرسودہ نظامِ تعلیم نسلِ نو پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے؟
  • انتہا پسندی سے دہشت گردی تک کے مراحل کیا ہیں؟
  • مدارس میں انتہا پسندی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
  • پاکستان کے مدارس میں طلبہ کے داخلہ لینے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
  • کیا مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے معاشرے میں ملازمت کے حصول کے یکساں مواقع موجود ہیں؟
  • کیا پاکستانی مدارس غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک سے چندہ وصول کرتے اور بدلے میں انہیں افرادی قوت اور دیگر خدمات پیش کر تے ہیں؟
  • کیا مذہبی مدارس پاکستان اور بیرونی دنیا میں سیاسی، فرقہ وارانہ اور متحارب گروہوں سے منسلک ہیں؟
  • مخصوص فکر کے حامل مدارس متشدد انتہا پسندی کے رجحانات کو جنم دیتے ہیں؟
  • اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور بیداریِ شعور کے لیے ناگزیر عوامل کیا ہیں؟
  • فروغِ علم و شعور کے لیے کن ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے؟
  • انسدادِ دہشت گردی اور فروغِ امن میں منہاج القرآن انٹر نیشنل کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
  • عصر حاضر میں درپیش مسائل کے حل اور معاشرے کو انتہا پسندانہ عناصر سے کلیتاً پاک کرنے کے لیے جامع لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

21. Islamic Banking in Pakistan (Theoretical, Practical & Legal Development) (2017)

یہ کتاب منہاج یونی ورسٹی لاہور کے شعبہ International Centre of Research in Islamic Economics (ICRIE) نے طبع کروائی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اسلامی معاشیات کی تاریخ اور نظامِ بینکاری کی تاریخ اور ارتقاء کو بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے پاکستان میں اسلامی بینکاری کے آغاز و ارتقاء اور اس کی ترقی کو موضوع بحث بنایا ہے اور اس میں بہتری کے لیے گراں قدر تجاویز بھی دی ہیں۔

22۔ اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور (خانقاہوں اور مزاراتِ اَولیاء کے حوالے سے تحقیقی مطالعہ) (2018ء)

اس گراں قدر مختصر تحقیق میں اِنسان دوستی کے حوالے سے اَولیاء کرام کے کارناموں کو بہترین انداز سے سلامِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ اِبتداء میں خدمتِ خلق کے حوالے سے اِسلامی تعلیمات کو ایک اچھوتے انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ بعد ازاں صوبہ پنجاب کے پانچ اولیاء کرام کے مزارات یعنی دربار حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ (لاہور)، دربار حضرت بابا بلھے شاہؒ (قصور)، دربار حضرت فرید الدین گنج شکرؒ (پاک پتن) اور دربار حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ و حضرت شاہ رکن عالمؒ (ملتان) کے حوالے سے اَعداد و شمار پر مبنی ایک منفرد تحقیق پیش کی گئی ہے کہ کس طرح اَولیاء اﷲ نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ بعد اَز وصال بھی ہمہ وقت مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کرتے ہیں اور خلق خدا ہر لحظہ ان سے فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔ اِس طرح مزاراتِ اَولیاء کے سماجی و معاشی پہلو پر محققانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔

23۔ مقالاتِ عصریہ (جدید تحقیقی مباحث): (2018ء)

یہ تصنیف اسلامی تحقیق میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ اس تحقیقی دستاویز میں مختلف موضوعات جیسے بنی نوع انسان کی شناخت اور ان کے مختلف قبائل و اقوام میں تقسیم ہونے کی حکمت، مہذب معاشرے کی ناگزیریت، اِسلامی فنونِ لطیفہ، مسلمانوں کے کارہاے نمایاں، حیاتِ انسانی کی اقسام، حقوقِ نسواں، فلسفہ تعددِ اَزدواج اور عصرِ حاضر کے مسائل جیسے مختلف تحقیقی زاویوں پر شان دار انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تمام مسائل کا مناسب حل بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔

24۔ اِسلامی اَخلاقیاتِ تجارت (2019ء)

یہ اپنے موضوع پر ملکی و غیر ملکی سطح پر لکھی گئی کتب میں جامع ترین اور منفرد کتاب ہے۔ 500 سے زائد صفحات پر مشتمل اِس کتاب میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اِسلامی اَقدار اور اِنسانی اَخلاقیات کے تناظر میں معاشی مسائل اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ معاشی مسائل سے چھٹکارا اور اقتصادی بندھنوں کی غلامی سے آزادی کا راز اِسلامی اَخلاقیات کی پیروی میں ہی مضمر ہے۔ جدید ترقی یافتہ دور کا انسان مادی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں اپنا دین، دنیا اور آخرت؛ الغرض سب کچھ داؤ پر لگا رہا ہے۔ حقیقی ترقی صرف اُسی وقت ممکن ہے جب انسان زندگی کے ہر شعبے میں اِسلامی اَقدار اور اَخلاقی اُصولوں کی پاسداری کرے گا، خواہ اس شعبے کا تعلق معیشت سے ہو یا معاشرت سے، سیاست سے ہو یا سائنس سے، فکریات سے ہو یا عصریات سے۔

معاشی و سماجی انصاف، امانت و دیانت، صداقت اور جذبۂ اخوتِ اِسلامی معاشرے کی اساس ہیں۔ اس اساس سے رُوگردانی ہمارے زوال کا باعث بنی اور ہم اوجِ ثریا سے گرتے گرتے زوال کی گہری دلدل تک جا پہنچے۔ اگر ہم پھر سے عروج چاہتے ہیں توانہی اصولوں کے اِحیاء اور عملی نفاذ سے ممکن ہے۔

اس کتاب کے مختلف ابواب میں اِسلامی بینکاری، تکافل، سود، معاہدات اور دیگر بنیادی امور کو عام فہم اور سادہ زبان میں قرآن و حدیث کے حوالہ جات کے ساتھ یوں زیرِ بحث لایا گیا ہے کہ ایک عام کاروبار سے لے کر بڑے کا روبار تک، تمام لوگ مستفید ہو سکتے ہیں۔

25۔ اِسلامی فلسفہ اور مسلم فلاسفہ (2019ء)

اِسلامی فلسفہ اور مسلم فلاسفہ کے عنوان سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی مایہ ناز تصنیف اپنے اندر انفرادیت و امتیاز کے کئی پہلو سموئے ہوئے ہے۔ فلسفہ اور اسلامی فلسفہ کے حوالے سے کسی بھی ذہن میں کسی بھی جہت سے کوئی بھی سوال پیدا ہوتا ہے تو یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہوگا کہ یہ کتاب اس کو کامل رہنمائی دیتی نظر آتی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع سے متعلقہ دیگر بہت سارے اُمور کے ساتھ ساتھ درج ذیل سوالات کے جوابات بھی فراہم کرتی ہے:

  • فلسفہ کیا ہے اور اس نے کس طرح مختلف اَدوار میں بتدریج سفر کیا ہے؟
  • مسلم فلسفہ پر یونانی اَفکار و نظریات کے اَثرات کی حقیقت کیا ہے؟
  • مسلم فلاسفہ نے اسلامی فکر و فلسفہ کی تاریخ پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
  • یونانی فلسفہ پر اما م غزالی کے اعتراضات نے اسلامی دنیا پر کیا اثرات مرتب کیے؟
  • قدیم مسلم فلاسفہ امام غزالی، ابن سینا اور ابن رشد کے درمیان مختلف اُمور سے متعلق اِختلاف و اِتفاق کی نوعیت کیا تھی؟
  • شیخِ اکبر ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانی کے فلسفہ تصوف میں اِختلاف و اِتفاق کی حقیقت کیا ہے؟
  • جدید مسلم مفکرین سید جمال الدین افغانی، سر سید احمد خاں، مفتی محمد عبدہ، اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے سیاسی اَفکار و نظریات نے اُمتِ مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
  • عصرِ حاضر کے تناظر میں اسلامی فلسفہ و فکر میں جدتِ افکار کی کس قدر گنجائش موجود ہے؟
  • عالمِ اسلام کو درپیش چیلنجز سے نجات دلانے کے لیے عالمی سطح پر کیا ایسی شخصیت کا وجود ممکن ہے جس کے فلسفیانہ اَفکار و نظریات من حیث المجموع اُمتِ مسلمہ کے عروج کا سبب بن سکیں؟

یہ کتاب نہ صرف معلومات کا گنجینہ ہے بلکہ کئی علمی و فکری دروازوں کو وا کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔

26۔ کرہ اَرضی سے اِنسانی ہجرت اور یاجوج ماجوج کی حقیقت (اسلام اور جدید سائنس کی روشنی میں تحقیقی مطالعہ) (2019ء)

انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے چونکہ نئی سے نئی دنیاؤں کی تلاش اور حقیقتوں کی کھوج میں مصروفِ عمل رہتا ہے، اس لیے وہ ہر موجود لیکن نظرنہ آنے والی حقیقت کو بھی منظر عام پر لانے کے لیے کاوشوں میں سرگرداں رہتا ہے۔ انہی موجود حقیقتوں میں سے ایک حقیقت باجوج ماجوج کی ہے جن کا ظہور علاماتِ قیامت میں سے ایک بڑی علامت ہے۔ انسان ان کے بارے میں بھی جاننے کا صدیوں سے مشتاق ہے اور اپنے اپنے فہم کے مطابق ان کی تعبیر و توجیہ (interpetation) کرتا رہتا ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اس موضوع پر منفرد اور بالکل اچھوتے انداز میں قلم اُٹھایا ہے اور ایک ایسی کتاب تحریر کی ہے کہ جس کے مطالعے سے آپ جان سکیں گے کہ:

  • کیا زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر زندگی کا کوئی وجود ہے؟
  • خلائی مخلوق (Aliens) کی حقیقت کیا ہے؟
  • کیا قرآن و حدیث میں مذکور یاجوج ماجوج کوئی خلائی مخلوق (Aliens) ہیں؟
  • کیا ہماری زمین پر یاجوج ماجوج پائے جاتے ہیں؟
  • دیگر مذاہب میں یاجوج ماجوج کا کیا تصور ہے؟
  • سائنسی نقطہ نظر سے یاجوج ماجوج کی حقیقت کیا ہے؟
  • کیا اِنسان کبھی زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر رہائش اِختیار کرسکے گا؟
  • خلا کے علاوہ دوسرے سیاروں پر زندگی کی حقیقت کیا ہے؟
  • خلا میں زندگی کے کتنے فیصد اِمکانات ہیں؟
  • کیا ہمارے سیارے جیسی اور زمینیں بھی کائنات میں پائی جاتی ہیں؟
  • زمینوں اور آسمانوں کی تعداد قرآن کے مطابق کتنی ہے؟
  • زمین پر موجود سپیس ایجنسیاں کیا کام کر رہی ہیں؟
  • ان ایجنسیوں کی خلا میں پہنچ کہاں تک ہے؟

یہ کتاب اپنے موضوع کی جدت کے اعتبار سے ہر خاص و عام کو دعوت ِغور و فکر دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔

27. Islamic Marketing (Philosophy & Principles) (2019)

مختصر اور جامع کتاب میں اسلامی مارکیٹنگ کے اصول و ضوابط انتہائی جامعیت کے ساتھ سپردِ قلم کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کے کل سات ابواب ہیں، جن میں تعارف و تاریخی پس منظر سے لے کر مارکیٹنگ کا مذہبی و اخلاقی پہلو بیان کرتے ہوئے جدید قواعد پر بھی سیر حاصل گفت گو کی گئی ہے۔ کتاب میں بڑے خوب صورت انداز میں اسلامی مارکیٹنگ اور اسلامی مالیاتی اداروں کو درپیش چیلنجز کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ نیز ان چیلنجز سے نبٹنے کے لیے قابل عمل تجاویز دی گئی ہیں۔

اس موضوع پر پڑھنے والوں کے لیے یہ بہت شاندار کتاب ہے۔

28. The Growth of Islamic Finance and Banking: Innovation, Governance and Risk Mitigation (2019)

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ڈاکٹر محمد اسحاق بھٹی کے اشتراک سے یہ تازہ ترین تالیف مرتب کی ہے۔ یہ کتاب برطانیہ و امریکہ کے معروف پبلشر Routledge نے شائع کی ہے جو معیاری تحقیقی و درسی کتب اور جرائد شائع کرنے میں پوری دنیا میں اپنا نام رکھتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلا آرٹیکل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا Standardisation in Islamic Banking & Financial System کے موضوع پر ہے۔ دیگر تحقیقی آرٹیکلز میں سے بعض کے عنوانات کچھ یوں ہیں:

1. Recent development in Islamic finance and financial products

2. On the role of ownership and governance structure in raising capital: A sukuk example

3. Takaful (Islamic Insurance) on the blockchain

4. IT-based finance hub: a new horizon towards transparent Zakat distribution model

5. The way towards standardizing Islamic economic, financial and banking fatawa

6. The fallacy of conventional benchmarks in Islamic banking and finance: defining, defending and discussing with evidence from archival data

7. Overview of progress in Islamic commercial and social finance in Pakistan

8. Translation of Economic Verses by Shaykh-ul-Islam Dr Muhammad Tahir-ul-Qadri in the Light of Translation Studies: A Linguistic Translational Comparative Analysis

9. Drawing inferences from Ali ibn Abi Talibs Teachings on social, and collective responsibility for a fair and just economy

10. Pricing anomaly: tale of two similar credit-rated bonds with different yields

11. Resolving Islamic finance disputes through arbitration in the Middle East

12. Formation of tangible-intangible capital and venture philanthropy: an innovation in Islamic finance

13. Theoretical, practical vis--vis legal development in Islamic banking: a case of Pakistan

14. Islamic safety nets for the poor: Pakistans experience

کتاب کے آخر میں اسلامک بینکنگ اور فنانس انڈسٹری (IBF) کے مستقبل کے حوالے سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور ڈاکٹر محمد اسحاق بھٹی کے اختتامی کلمات ہیں۔

یہ کتاب اپنے موضوعات کی جدت و ندرت اور انفرادیت کے باعثIBF انڈسٹری کے میدان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور IBF کے میدان میں کام کرنے والا کوئی بھی ماہر معیشت اور محقق اس کتاب سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔

29. Business Ethics in Islam (2019)

یہ اپنے موضوع پر ملکی و غیر ملکی سطح پر لکھی گئی کتب میں جامع ترین اور منفرد کتاب اِسلامی اَخلاقیاتِ تجارت کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اِس کتاب میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اِسلامی اَقدار اور اِنسانی اَخلاقیات کے تناظر میں معاشی مسائل اور ان کا حل پیش کیا ہے۔

30. Hearken to the Call of Duty: The Philanthropic Approach of Sufi Masters in Islam (2020)

یہ کتاب اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور (خانقاہوں اور مزاراتِ اَولیاء کے حوالے سے تحقیقی مطالعہ) کا انگریزی ترجمہ ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی کئی دیگر کاوشیں ترتیب و تدوین اور اشاعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ وہ ایک مَشاق صاحبِ قلم کی حیثیت سے روشن مستقبل کے حامل شخصیت ہیں۔ خداداد فکری اور انفرادی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش کو علم و عرفان کے نور سے منور کر رہے ہیں۔ آپ اُمتِ مسلمہ کی محبت سے سرشار اور حب الوطنی کے جذبہ سے لیس ہیں۔ آپ مسلم ممالک کے تعلیمی، اِقتصادی، صنعتی اور تجارتی معاملات کو سلجھانے کی فکر و دانش سے مزیّن ہیں۔ فعال اور صاحبِ اِدراک قائد کی حیثیت سے آپ قوم و ملت کو فتح و نصرت کی نئی منزلوں تک لے جانے کے جذبے سے سرشار ہیں۔