الفقہ: طلاق، ایک اہم معاشرتی و شرعی مسئلہ

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: شریعت میں کن وجوہات کی بناء پر طلاق دینے کی اجازت دی گئی ہے؟

جواب: اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ فعل قرار دینے کے باوجود ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ طلاق دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ طلاق کی نوبت آنے میں عورت اور مرد دونوں کا انفرادی اور اجتماعی کردار اہمیت رکھتا ہے۔ درج ذیل چند وجوہات ایسی ہے جن کی وجہ سے طلاق کی نوبت آتی ہے:

  1. طلاق کی عمومی وجہ مرد اور عورت کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والی طبعی یا عارضی نفرت ہوتی ہے جس کے بعد عورت اور مرد میں درگزر اور ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کرنے میں مشکلات پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس میں عورت یا مرد کے انفرادی کردار کے علاوہ ان کے رشتہ داروں کی نازیبا مداخلت سمیت بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور نفسانی معاملات کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
  2. میاں بیوی کے مزاج میں مناسبت کا نہ ہونا اور ان کا دل سے ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی طلاق کی ایک وجہ ہے۔
  3. معاشی و معاشرتی حیثیت کا فرق بھی میاں بیوی کی علیحدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
  4. میاں بیوی کی ذہنی و علمی استطاعت میں تضاد پایا جانا، جس کی وجہ سے قربت کے ہوتے ہوئے بھی دوری کا احساس رہے، یہ بھی بعض اوقات طلاق کا باعث ہوتا ہے۔
  5. زوجین کے درمیان جنسی و اخلاقی کمزوریوں کا حائل ہو جانا بھی اسبابِ طلاق میں سے ایک ہے۔

مذکورہ بالا وجوہات طلاق کا باعث بنتی ہیں اور ایسے حالات کے پیش نظر عقلی تقاضا یہی ہے کہ دونوں میں علیحدگی ہو جائے کیونکہ اگر مذکورہ متضاد رویوں اور حالات کے باوجود میاں بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے گا تو مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ طلاق نہ دینے کی صورت میں دونوں کا گھریلو سکون غارت ہوجائے گا، جس سے بچے اور خاندان بری طرح متاثر ہوں گے۔ طلاق دینے کی صورت میں عورت سے مہر، تمام زیورات، ملبوسات یا تحائف وغیرہ کوئی شے بھی واپس لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بصورتِ خلع بھی عورت کا مرد سے بلاوجہ و بلاجواز طلاق کامطالبہ کرنے کو اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔

سوال: والدین یا بہن بھائی کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا از روئے شریعت کیسا ہے؟ حالانکہ لڑائی جھگڑے میں قصور دونوں طرف سے ہے۔

جواب: شریعت اسلامی میں عقدِ نکاح کی حیثیت محض ایک مرد و عورت کے ملاپ کی نہیں بلکہ یہ خاندان کی بنیاد ہے۔ نکاح عفت، برکت، افزائش نسل، پاکیزگی، عنایت، معاشرتی اقدار کے فروغ اور اولادِ صالح کے حصول کا ذریعہ اور بدکاری، خباثت، تباہی، گناہوں، آفتوں، بے برکتی، نسل کُشی اور عذاب آخرت سے بچاؤ کی الہامی تدبیر ہے۔ یہ بندھن میاں بیوی، اولاد، خاندان، معاشرے اور دنیا و آخرت کی کئی مصلحتوں اور فوائد کی بنیاد بنتا ہے۔ اسے توڑنا ان تمام فوائد اور مصلحتوں کو منہدم کردیتا ہے۔ خاوند، بیوی، بچے حتیٰ کہ معاشرہ بھی طلاق کے بعد رونما ہونے والے نقصانات سے متاثر ہوتا ہے۔

اسلام میں طلاق ایک رجعت اور ضرورت کے تحت مکروہ فعل کے طور پر جائز قرار دی گئی ہے مگر شریعت اسے پسند نہیں کرتی ہے۔ حضرت محارب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَا أَحَلَّ اللهُ شَیْئاً أَبْغَضَ إِلَیْهِ مِنَ الطَّلاَقِ.

’’اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے، ان میں اُس کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے‘‘۔

(ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فی کراہیة الطلاق، 2: 225، رقم: 2177)

طلاق کی کراہت اور ناپسندیدگی کا اندازہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت سے بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

قَالَ رَسُولُ الله صلی الله علیه وآله وسلم إِنَّ إِبْلِیسَ یَضَعُ عَرْشَهُ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ یَبْعَثُ سَرَایَاهُ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً یَجِیئُ أَحَدُهُمْ فَیَقُولُ فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا فَیَقُولُ مَا صَنَعْتَ شَیْئًا قَالَ ثُمَّ یَجِیئُ أَحَدُهُمْ فَیَقُولُ مَا تَرَکْتُهُ حَتَّی فَرَّقْتُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ امْرَأَتِه قَالَ فَیُدْنِیه مِنْهُ وَیَقُولُ نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ أُرَاهُ قَالَ فَیَلْتَزِمُهُ.

’’بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے، پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے، پس اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو۔ ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا کام) سر انجام نہیں دیا پھر ان میں سے ایک (اور)آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی)کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی۔ شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے کہ ہاں! تو ہے(جس نے بڑا کام کیا ہے)اعمش نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ اسے اپنے سے چمٹا لیتا ہے۔

(مسلم، الصحیح، الرقم: 2605)

ازدواجی رشتے کو توڑنا ابلیس کی نظر میں اتنا اہم ہے کہ وہ لوگوں سے دوسرے مختلف گناہ کرانے والے اپنے بہت سے کارندوں کی کوئی تعریف نہیں کرتا، لیکن میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنے والے کارندوں کی نہ صرف تعریف کرتا ہے، بلکہ انہیں اس پر انعام بھی دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات شیطان کے نزدیک اتنی اہم کیوں ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ازدواجی رشتے کو توڑ کر وہ نہ صرف دو انسانوں بلکہ بچوں، والدین، رشتہ داروں، پیاروں اور ایک لحاظ سے پورے معاشرے کی زندگیوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ خاندان چونکہ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، اس لیے ٹوٹے ہوئے خاندانوں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ معاشرہ شدید بگاڑ کا شکار ہے۔ طلاق پر عمل درآمد کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان ان تمام عوامل پر غور کرے جو اس کا نتیجہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں زوجین کو ذاتی زندگی کے علاوہ ان کے بچوں کے معاملات، آئندہ کی زوجیت کے معاملات، معاشرت اور معاش کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی آئندہ زندگی کا شریکِ حیات سابقہ زوجیت کے معیار پر پورا اتر سکے گا یا نہیں؟ لہٰذا ان نتائج تک پہنچنے سے پہلے اپنی اصلاح کرے تو یقینا طلاق تک جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عقل و حکمت کو نظر انداز نہ کرنے کے باوجود میاں بیوی کے درمیان اختلاف اور شدید غیرہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ شیطان انسانوں اورجنوں میں سے اپنے کارندوں کے ذریعے ایسی صورت حال سے غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے اور ان کے دلوں میں مسلسل بُرے خیالات کے وسوے ڈال کر انہیں ایک دوسرے کے خلاف کرسکتا ہے۔ ایسی صورت حال کے نتیجے میں یہ رائے بن سکتی ہے کہ ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شادی زیادہ عرصہ قائم نہ رہے گی۔ لہٰذا اگر ایسی صورت حال میں نبھاؤ کی کوئی امید باقی نہ رہے اور پُرامن ماحول قائم نہ کیا جاسکے تو آخری چارہ کار کے طورپر طلاق کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔

قرآن کریم کئی مقامات پر یہ بتاتا ہے کہ ایسی حساس صورت حال میں داخل ہونے والے جوڑوں کوکیسا طرزِعمل اختیارکرنا چاہیے حتی کہ طلاق کے نام سے ایک پوری سورت ہے۔ فخر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا پنی احادیث مبارکہ کے ذریعے متعلقہ آیات مبارکہ کی تشریح و توضیح فرمائی ہے۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طلاق کوئی سادہ سا معاملہ نہیں بلکہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔ اس لیے طلاق کے بارے میں عقل، منطق، صحیح فیصلے اور ضمیر کی ہدایت کی روشنی میں جذباتیت اور اناپرستی سے آزاد ہوکر جائز حدود میں رہتے ہوئے صرف اسی وقت سوچنا چاہیے جب ازدواجی رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے ہر کوشش کی جاچکے، لیکن اس کے باوجود امید کی کوئی کرن نظر نہ آئے۔

اس لیے اگر کوئی بغیر کسی معقول وجہ کے محض والدین، بہن بھائیوں یا رشتہ داروں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دے تو خدا تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہوگا۔ اگر بیوی میں کوئی خرابی نہیں ہے تو اسے طلاق دینا گناہ ہے اور گھر والوں کے کہنے پر گناہ کا عمل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَةِ الله عَزَّوَجَلَّ.

’’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ کی جائے‘‘۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 131، رقم: 1095)

اس لیے کوئی شخص بغیر وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اور مصالحت کی کوئی صورت اختیار کرے تاکہ گھر کو امن و سکون کو گہوارہ بنایا جاسکے۔

سوال: دوسرے مسلک والے کو برا کہنا اور گالیاں دینا اور پھر اس کی توجیہہ قرآن سے بیان کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں انہیں برا کہا ہے۔ کیا اپنے گالم گلوچ کو اللہ کے کلام سے تشبیہ دینا سراسر گستاخی یا کفر کے زمرہ میں نہیں آتا؟ نیزایسے شخص کی امامت کا حکم کیا ہو گا؟

1۔ آیات و روایات اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں گالی دینا اور سبّ و شتم کرنا ممنوع اور رذائل اخلاق ہے۔

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.

’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے‘‘۔

(بخاری، الصحیح، کتاب: الإیمان، باب: خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وهو لا یشعر، 1: 27، الرقم: 48)

  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا ہے:

الْمُسْتَبَّانِ شَیْطَانَانِ یَتَهَاتَرَانِ وَیَتَکَاذَبَانِ.

’’آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دونوں شیطان ہیں کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں بد زبانی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر جھوٹ باندھتے ہیں‘‘۔

(ابن حبان، الصحیح، 13: 34، رقم: 5696)

  • گالیاں دینا منافقت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیه کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِیه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِیه خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی یَدَعَهَا: إِذَا اوْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.

’’چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کا ایک حصہ ہے، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ بکے‘‘۔

(مسلم، الصحیح، باب بیان خصال المنافق،1: 78، رقم:58)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ گالی گلوچ کرنا اسلام نے ممنوع قرار دیا ہے اور گندی گالیاں دینا تو بدرجہ اولیٰ سخت منع اور گناہ کبیرہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ گندی گالیوں کے جواز میں وہ آیات پیش کرنا جن میں اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقت بیان کی ہے، یہ عمل انتہائی قبیح اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے کیونکہ ولید بن مغیرہ وہ شخص تھا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغِ حق سن کر نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجنون کہا۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنی معیوب تھی کہ ستار العیوب نے اپنے کلامِ حق میں اس کے عیب گنوائے۔ جن میں سے ایک عیب یہ تھا:

عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیمٍ.

’’(جو)بد مزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی)ہے‘‘۔

(الْقَلَم، 68: 13)

ولید بن مغیرہ غضب سے اپنے گھر میں داخل ہوا اور ماں کے سینے پر سوار ہو کر کہنے لگا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے میرے9 عیب گنوائے ہیں، آٹھ مجھے پتہ ہیں کہ میرے اندر موجود ہیں لیکن نویں عیب کی تصدیق تمہارے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔ اس کی ماں نے کہا کہ تمہارا باپ ناکارہ تھا، مجھے خطرہ تھا کہ اس کی وفات کے بعد ہمارے مال کا کیا بنے گا، سو میں نے ایک چرواہے کو بلایا، تو اسی کی اولاد ہے۔ (تِبیانُ القرآن، 12: 185)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ گستاخیِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کی حقیقت کھول کر بیان کر دی، جس کی بعد ازاں اس کی ماں نے بھی تصدیق کر دی۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے، اس لیے اس نے گستاخِ رسول کی حقیقت کی اصلیت بیان کردی۔ اسے گالیوں کے جواز کے طور پر پیش کرنا اور گالی دینے کو جائز سمجھنا اسلامی تعلیمات کا حلیہ بدلنے کے مترادف ہے۔

2۔ گالیوں کا جواز تلاش کرنا، کسی بھی شخص کا علمی ضعف اور غلط استدلال ہے لیکن گالیوں کا جواز پیش کرنے والے پر کفر کا فتویٰ لگانے سے گریز کیا جائے۔ امامت کا منصب مقدس ہے، جو تقویٰ و پرہیزگاری اور اعلیٰ اخلاقی رویے کا تقاضا کرتا ہے۔ ائمہ حضرات کو اپنے کردار پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ وہ عامۃ الناس کے لیے مثال (Role Model) ہوتے ہیں۔ مذکورہ امام صاحب گناہ کے مرتکب ہوئے، انہیں اللہ تعالیٰ سے اس پر معافی مانگنی چاہیے۔

3۔ گناہگار کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی ممانعت نہیں ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الصَّلاَةُ الْمَکْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.

’’فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے، خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو‘‘۔

(أبوداود، السنن، کتاب الصلاة، باب إمامة البر والفاجر، 1: 162، رقم: 594)

  • ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَیْکُمْ مَعَ کُلِّ أَمِیرٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَیْکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ وَالصَّلاَةُ وَاجِبَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرَ.

’’ہر امیر کی اطاعت میں تم پر جہاد فرض ہے، خواہ وہ امیر نیک ہو یا بد، گو کبیرہ گناہ کرے۔ تم پر نماز پڑھنا واجب ہے ہر مسلمان کے پیچھے، خواہ وہ امام نیک ہو یا بد گو کبیرہ گناہ کرے اور نماز جنازہ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مرنے والا نیک ہو یا برا، گو گناہ کبیرہ کرے‘‘۔

(أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب فی الغزو مع أئمة الجور، 3: 18، رقم: 2533)

مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی جائز ہے، اگر مقتدی اس کی امامت پر راضی ہوں۔ اگر مقتدی اس کی امامت پر راضی نہیں ہیں تو اس کی نماز نہ ہو گی۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

ثَلَاثَةٌ لَا یَقْبَلُ الله مِنْهُمْ صَلَاةً، مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ کَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَی الصَّلَاةَ دِبَارًا وَالدِّبَار: أَنْ یَأْتِیَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ، وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ.

’’تین آدمیوں کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا: ایک وہ جو ایسے لوگوں کا امام بن بیٹھے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں، دوسرا وہ شخص جو نماز کا وقت گزرنے کے بعد نماز پڑھنے آئے، تیسرا وہ جو کسی آزاد مرد یا عورت کو غلام بنالے‘‘۔

(أبی داود، السنن، 1: 122، رقم: 593)

  • حضرت غالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ثَلاَثَةٌ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُهُمْ آذَانَهُم: العَبْدُ الآبِقُ حَتَّی یَرْجِعَ، وَامْرَأَۃٌ بَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَلَیْهَا سَاخِطٌ، وَإِمَامُ قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ کَارِهُونَ.

’’تین آدمیوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی: ایک بھاگا ہوا غلام جب تک واپس نہ آ جائے، دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور تیسرا کسی قوم کا امام جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں‘‘۔

(ترمذی، السنن، کتاب أبواب الصلاة ، باب ما جاء فیمن أم قوما وهم له کارهون ،2: 193، رقم: 360)

المختصر یہ کہ اگر اہلِ علاقہ مذکورہ امام صاحب کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں تو کسی کو حق نہیں کہ انہیں امامت کروانے سے روکے اور اگر اہلِ علاقہ ان کی امامت پر رضامند نہیں ہیں تو امام صاحب کو امامت کے لیے بضد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں نہ تو ان کی اپنی نماز قبول ہوگی اور نہ ان کی اقتداء کرنے والوں کی۔

سوال: جب صدقہ یا خیرات دیا جائے تو کیسے پتہ چلتا ہے کہ قبول ہوا یا نہیں؟

جواب: اسلام نے صاحبانِ ثروت پر لازم کیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال سے معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد و معاونت کریں۔ صدقات اسلام کے نظامِ معیشت کا لازمی جزو ہیں جن کا مقصد غرباء کی مدد کے ساتھ معاشرے میں ارتکازِ دولت کا خاتمہ کر کے گردشِ دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ مزید یہ کہ صدقات و خیرات اللہ تعالیٰ کی رضا کا بھی ذریعہ ہیں۔ قرآنِ مجید نے صدقات و خیرات کی ادائیگی کا ضابطہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:

الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِی سَبِیلِ اللهِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواْ مَنًّا وَلاَ أَذًی لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْهمْ وَلاَ هُمْ یَحْزَنُونَ. قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّن صَدَقَۃٍ یَتْبَعُهَآ أَذًی وَالله غَنِیٌّ حَلِیمٌ.

’’جو لوگ ﷲکی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کئے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سائل سے) نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور ﷲبے نیاز بڑا حلم والا ہے‘‘۔

(البقرة، 2: 262-263)

درج بالا آیت میں اُن صدقات کو عنداللہ ماجور قرار دیا گیا ہے جن کی ادائیگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو اور جنہیں ادا کرنے کے بعد صاحبِ ثروت شخص احسان نہ جتائے اور دوسروں کو خود سے حقیر نہ سمجھے۔ جس صدقے کا مقصد نام و نمود اور شہرت کا حصول ہو، خدا کے حضور اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کسی کی مالی مدد کے بعد احسان جتا کر یا طعنہ دے کر اس کو تکلیف دینا اور اس کی عزتِ نفس مجروح کرنا صدقات و خیرات کا اجر ضائع کر دیتا ہے۔

صدقہ و خیرات سمیت دیگر عبادات کی قبولیت کے متعلق قرآن مجید نے اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّهُمْ إِلَی رَبِّهمْ رَاجِعُونَ. أُوْلَئِکَ یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ.

’’اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ)دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود)ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نامقبول نہ ہو جائے)۔ یہی لوگ بھلائیوں (کے سمیٹنے میں) جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں‘‘۔

(الْمُؤْمِنُوْن، 23: 60-61)

گویا عبادات کی قبولیت کا معیار تقوی ہے۔ جو عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اجر کی نیت سے کیا جائے، اس کی قبولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بعض علماء نے عبادت کے بعد پھر عبادت کی ترغیب، عبادات کا آسان ہونا، عبادت کرنے کو دل مچلنا، عبادات پر ثابت قدمی اور دوام کو عبادات کی قبولیت کی علامت قرار دیا ہے، مگر یاد رہے کہ علماء کی بتلائی ہوئی قبولیتِ عبادت کی یہ علامات حسنِ ظن کی بنیاد پر مبنی ہیں۔ اعمال کی قبولیت کا فیصلہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو انسانوں پر قیامت کے دن ہی ظاہر ہوگا، دنیا میں کسی عمل کی قبولیت کا یقینی دعویٰ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔