سخاوتِ قلب اولیائے اللہ کا وصف ہے، دوسروں کی بجائے اپنے عیبوں پر نظر رکھیں

شیخ حماد مصطفی المدنی


حماد مصطفی المدنی نوجوان سکالر، Motivational Speaker اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کے قابلِ فخر سپوت ہیں۔ حماد مصطفی المدنی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے آباء کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دینی تعلیم اور خدمتِ خلق میں بھی پیش پیش ہیں۔ آپ نے حال ہی میں یورپی یوتھ سے کینیڈا سے بذریعہ ویڈیو لنک اردو میں پہلا خطاب کیا۔ کردار سازی، محاسبۂ نفس، قربتِ الٰہی کے حصول، فتوہ اور صحبت کے موضوع پر آپ کی یہ گفتگو انتہائی فکر انگیز ہے۔ ماہنامہ منہاج القرآن کے قارئین بالخصوص نوجوانوں کے مطالعہ کیلئے اس گفتگو کے منتخب حصے پیش خدمت ہیں:


امام سلمیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المقدمہ فی التصوف‘‘ میں ایک صالح نوجوان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو نوجوان قرآن و سنت کی تعلیمات اور ہدایت سے بہرہ ور اور اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو جاتا ہے تو فراخ دلی اور سخاوت اس کے مزاج اور طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے۔ ہر قسم کی فکری تنگی اور کجی اس سے دور ہو جاتی ہے اور وہ نوجوان سخاوتِ قلب کا حامل ہو جاتا ہے۔

سخاوتِ قلب

سخاوتِ قلب اہل اللہ کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے۔ فتوہ کے راستے پر وہ لوگ گامزن ہوتے ہیں جو اپنے روز مرہ کے اعمال و معاملات میں صرف اللہ کیلئے جیتے،جاگتے اور سوتے ہیں۔ ان کی دوستیاں اور مخالفتیں بھی صرف اللہ کیلئے ہوتی ہیں، وہ اپنی ذات اور نفس پر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں۔ سخاوتِ قلب کیلئے اولیاء اللہ کی بیان کردہ محنت و ریاضت کو اختیار کرتے ہیں، جس طرح اللہ کی رحمت ایک وسیع وعریض سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ ہے اور نہ حد، اسی طرح اس کے چنیدہ اور برگزیدہ بندوں کے دل اور ظرف بھی وسیع ہوتے ہیں۔

فتوہ کے باب میں امام سلمی روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  غزوہ تبوک کیلئے فنڈ ریزنگ فرمارہے تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہر خیر کے کام میں سبقت لے جاتے ہیں تو کیا خوب ہو کہ میں اس بار کارِ خیرکے اس کام میں ان سے آگے نکل جائوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں حاضر ہوکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اپنا صدقہ و ایثار پیش کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے پوچھا: عمرؓ کیا لائے ہو؟ آپ نے عرض کیا: میں اپنے مال میں سے آدھا حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خدمت میں پیش کرنے آیا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خوش ہوئے اور مسکرا کر پوچھا: گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ عرض کیا: آدھا حصہ چھوڑا ہے۔ اس دوران حضرت ابوبکر صدیق ؓ تشریف لائے اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بارگاہ میں اپنا مال پیش کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے پوچھا: اے ابوبکرؓ کیا لائے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ گویا ہوئے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں اپنا سارا مال و دولت لے آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے پوچھا: گھر والوں کیلئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض کیا: گھر والوں کیلئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو چھوڑ کر آیا ہوں۔

سخاوتِ قلب کی تاریخِ عالم میں اس سے بہتر اور کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ سخاوت کی انتہا اور اس کا آخری درجہ و رتبہ و مقام ہے۔ اللہ کیلئے ہمہ وقت سب کچھ قربان کر دینے کی لگن سے سرشار رہنا، سخاوتِ قلب ہے۔

دنیا میں رہو مگر دنیا کو دل میں نہ رکھو

فی زمانہ صالحین کے راستے پر گامزن ہر ذی نفس کو کم و بیش ایک سوال درپیش رہتا ہے کہ دین و دنیا میں توازن کیونکر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا آخرت سنوارنے اور اللہ کو راضی کرنے کیلئے دنیا سے مکمل طور پر بے رغبتی اختیار کر لی جائے؟ جس طرح اولین زمانوں میں اولیاء اللہ، صوفیاء کرام عبادت و ریاضت کیلئے جنگلوں اور ویرانوں میں چلے جاتے تھے، کیا آج بھی اللہ کی خوشنودی، اخلاقِ حسنہ اور سخاوتِ قلب کی یہی ریاضت ہے؟

ہمیں اس سوال کا جواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی حضرت فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کے ایک قول سے بھی ملتا ہے۔ آپ اکثر و بیشتر فرماتے تھے کہ دنیا میں رہو مگر دنیا کو دل میں نہ رکھو۔ سخاوتِ قلب کے حصول کا یہی نسخہ کیمیا ہے کہ دنیا میں بسو مگر دل میں دنیا کو نہ بسائو۔ دنیا کو دل میں بسانے سے مراد ہوسِ زر، مناصب کی خواہش اور تعیشات کے پیچھے بھاگنا ہے۔ دل دنیاوی حرص و ہوس کا نہیں بلکہ اللہ کی یاد ،محبت اور جلوت کا مسکن ہے۔ دنیا پر سوار ہوں مگر دنیا کو اپنے اوپر سواری مت کرنے دیں۔دنیا میں رہتے ہوئے دنیاوی ضروریات کی تکمیل کیلئے ملازمت کریں، کاروبار کریں، اپنی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق ہر نوع کا پیشہ اختیار کریں لیکن دل میں محبت، انس اور رغبت صرف اللہ کی ہو، یہی توازن اور صفائے قلب کا راستہ ہے۔

اللہ رب العزت نے سورہ نورمیں ارشاد فرمایا:

اَللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘۔

(النور، 24: 35)

یعنی اللہ کے نور کے عکس سے مردِ مومن کا دل منورہوتا ہے۔ دل میں اللہ کے نور کی روشنی پا لینے کے بعد اب وہ شخص کاروبار کرے، ملازمت کرے، یورپ میں رہے، امریکہ میں رہے، دنیا کے کسی خطہ میں رہائش پذیر ہو، اسے دنیا کی کوئی مصروفیت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر سکتی۔ ہم 24گھنٹے اللہ کو یاد کریں، عبادت میں مصروف رہیں تو تب ہی اس عبادت کا حق ادا ہوتا ہے، اس تصور کو کسی اور اندازسے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے دل کو اللہ کے نور سے روشن کر لیتے ہیں تو پھر دل میں دنیا کو گھسنے نہیں دیتے اور ہمارا ہر عمل، گزرا ہوا ہر لمحہ عبادت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہمارا جاگنا، سونا، اٹھنا، بیٹھنا، کاروبار کرنا، تعلیم حاصل کرنا، پڑھنا، سننا، دیکھنا اللہ کی عبادت میں بدل جاتا ہے، اسی کیفیت کو حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے اس انداز میں بیان فرمایا:

غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

یعنی انسان کو علم ہی نہیں کہ اس کی ذات کو کس حرم سے نسبت اور واسطہ ہے اور کس دہلیز سے اس کا تعلق اور انسیت ہے۔ جب انسان اپنے نفس کا محاسبہ کر لے اور اپنے نفس کا محتسب اعلیٰ بن جائے اور پھر اس سوچ میں پختہ اور راسخ ہو جائے تو گویا اس نے سخاوتِ قلب کی منزل حاصل کر لی۔ سخاوتِ قلب درحقیقت کردار سازی، بیداری شعور، اخلاقی و روحانی ترقی، نظم و ضبط ،خواہشاتِ دنیا سے بریت اور ذات کی نفی کا راستہ ہے۔

اپنی ذات کی نفی

ذات کی نفی کسے کہتے ہیں؟ درج ذیل واقعات اس کی وضاحت کرتے ہیں:

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں صبح سے شام تک کفر سے گھمسان کی معرکہ آرائی رہی۔ میں زخموں سے کراہتے زخمی مسلمانوں کیلئے پانی لے کر گیا تو اس دوران ایک اور زخمی کے کراہنے کی آواز آئی تو اس زخمی مسلمان نے دوسرے زخمی کو پہلے پانی پلانے کا کہا۔ جب میں دوسرے کے پاس گیا تو اس کے ساتھ ایک اور سپاہی درد سے کراہ رہا تھا اور پانی مانگ رہا تھا، اس زخمی نے پہلے اسے پانی پلانے کی طرف اشارہ کیا، انہیں پانی پلا کر جب میں پہلے زخمی کے پاس واپس آیا تو وہ جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔

اسی طرح حضرت علیؓ ایک مرتبہ ایک جنگ میں دشمن سپاہی پر غالب آگئے اور اپنی تلوارِ ذوالفقار اس کی گردن پر رکھ دی، آپ جیسے ہی ضرب لگانے لگے تو اس دشمن سپاہی نے حضرت علی ؓ کے چہرہ کی طرف اپنا تھوک پھینکا تو مولا علیؓ نے اسی وقت اپنی تلوار نیچے کر لی اور اسے چھوڑ دیا۔ دشمن کا سپاہی حیرت سے بولا کہ میں نے آپ کی توہین کی، آپ نے مجھے قتل کیوں نہیں کیا؟ مولاعلیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے اللہ کیلئے تمہارے ساتھ جنگ کی اور تمہیں اپنی تلوارکی زد میں لیا۔ تمہاری ناپاک حرکت کی وجہ سے میرے اندر غصہ آگیا، اگر میں اب تجھے قتل کرتا تو وہ اللہ کیلئے نہ ہوتا بلکہ میں اپنی ذات کی توہین کا تجھ سے بدلہ لیتا اور اپنے نفس کی پیروی کرتا۔ اس حالت میں تمہیں مارنا میرے اوپر حرام ہو گیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ  کے اس کردار کو دیکھ کر یہ شخص مسلمان ہوگیا۔

اب ہم اپنے احوال پر نظر دوڑائیں کہ ہم اپنے ہر عمل اور فیصلے کی راہ میں قدم قدم پر Ego، نفس کی خواہشات اور لذاتِ دنیا کو لے آتے ہیں۔ انا پرستی (Ego) ایک بہت بڑا دھوکہ ہے، اس کا شکار فرد خود کو ہر معاملے میں درست سمجھتا ہے۔ حقیقت میں یہ دھوکا ہے۔ انا پرستی کی آڑ میں ہم اپنی ذات کیلئے لڑ رہے ہوتے ہیں اور سبقت لے جانے کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے دل میں یہ سوچ ہو کہ ہماری نفرتیں، محبتیں، نفع اور نقصان اللہ کیلئے ہے تو پھر انا پرستی کا منہ زور گھوڑا کبھی ہم پر سواری نہ کرے۔

زندگی کی حقیقت

زندگی ایک سفر ہے اور اس کی منزل قربِ ذات الٰہی کے سوا اور کوئی نہیں ہے یعنی رجوع الی اللہ ،اللہ کی طرف واپسی کا سفر۔ دنیا میں سفر کے دوران ہم ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہوئے، ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف جاتے ہوئے اپنے گھر کا سارا سامان ساتھ لے کر نہیں نکلتے، صرف ضرورت کی اشیاء لے کر چلتے ہیں تاکہ سفری مشکلات کو کم سے کم کر سکیں۔ دنیا کی بھی یہی مثال ہے کہ صرف اتنی دنیا کی خواہش کی جائے جتنی اس کی ضرورت ہے، جس طرح سفر میں ضرورت سے زائد سامان وبال بن جاتا ہے،اسی طرح حد سے متجاوز دنیا کمانے کا عمل بھی سوہانِ روح ہوتا ہے۔اس حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے وہ اعمال اور زاد راہِ جمع کرنا چاہیے جو سفرِ آخرت میں کام آتا ہے۔

سفر کا انسانی زندگی، عادات و اطوار، افعال و معاملات سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ سفر کرنا انبیاء کرام و اولیاء صالحین کی سنت اور سفر وسیلہ ظفر ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس ضمن میں ایک نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سب سے پہلا سفر حضرت آدم ؑ نے کیا اور جنت سے دنیا میں تشریف لائے۔ یہ اعلیٰ سے ادنیٰ مقام کی طرف سفر تھا۔ یہ سفر اذنِ باری تعالیٰ سے ہوا اور اس اطاعت پر حضرت آدم ؑ کو زمین پر خلافت کے منصب سے نوازا گیا۔اس سفر کا سبب نسیان تھا یعنی یہ سفر بھولنے کے عمل کے سبب سے ہوا اور پھر انسانیت اپنی تخلیق کے معراج تک پہنچی۔

شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ نے جب سفرکا آغاز کیا تو اس وقت ان کی عمر 13 سال تھی تو اس وقت ان کے والد گرامی نے مروّجہ روایات کے مطابق انہیں حصولِ علم کی بجائے خاندانی ’’زمیندارا‘‘ اور کاروبار کرنے کی طرف راغب کیا اور سکول جانے کے عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جس پر ڈاکٹر فرید الدین قادرؒی اپنی والدہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے حصولِ علم کی خواہش کا اظہار کیا۔ والدہ نے اس خواہش کے احترام میں اپنا زیور انہیں دے دیا، جنہیں بیچ کر حصولِ علم کیلئے وہ لکھنؤ چلے گئے اور پھر وہاںسے میڈیکل اور طب کی تعلیم کے ساتھ علومِ شریعہ کی تکمیل کر کے واپس جھنگ لوٹے۔ اگر وہ پرعزم ہو کر بامقصد سفر اختیار نہ کرتے تو زیورِ تعلیم سے کبھی آراستہ نہ ہوتے اور شمع سے شمع روشن نہ ہو پاتی۔

اگر ہم دنیا کی دوڑ دھوپ اور 22 سے 23 سالہ زمانہ طالب علمی کے دوران اپنے دل میں اللہ کو بسا لیں تو تعلیمی مصروفیات عبادت میں تبدیل ہو جائیں گی اور حصولِ علم کے سفر میں پیش آنے والی تکالیف بھی عبادت اور اللہ کی خوشنودی کا سبب بن جائیں گی۔

سفر کی اشکال

سفر دو طرح کے ہوتے ہیں:

  1. ظاہری
  2. باطنی

یہ ایک کیفیت سے دوسری کیفیت اور ایک حال سے دوسرے حال تک کا سفر ہوتا ہے۔ اصحابِ کہف نے ظالم بادشاہ کے جور و ستم کے ردعمل میں سفر کیا اور ایک غار میں پناہ لی۔ بادشاہ کے ظلم سے بچنے کیلئے غار میں پناہ لینا ظاہری سفر ہے اور پھر غار کے اندھیرے میں اپنے دلوں کو اللہ کی محبت سے روشن کر لینا باطنی سفر ہے۔ جب دل اللہ کی طرف مڑ جائے تو تنگ و تاریک غار بھی تاحدِ نگاہ کشادہ ہو جاتی ہے اور دل راحت پاتے ہیں۔

نفس کا محاسبہ

آج کل نوجوان دوسروں کی کوتاہیوں، خطائوں اور عیبوں پر نظر رکھتے ہیں، کردار سازی کے باب میں یہ بہت بڑا عیب ہے۔ اس سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔ اس ضمن میں حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں کہ دوسروں کی کمی بیشی پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی کمی بیشی پر نظر رکھیں۔ جو دوسرے کے عیبوں پر نظر رکھتا ہے، اسے اپنے عیب نظر آنا بند ہو جاتے ہیں، سخاوتِ قلب کیلئے اپنے اخلاق سنوارنے پر توجہ دیں۔

بے لوث محبت

صفائے قلب کی ایک علامت بے لوث محبت ہے یعنی دلوں میں نرمی، اخلاص، انس اور وفا پیدا کی جائے۔ اس ضمن میں امام سلمی ؒ فرماتے ہیں کہ ابو الحسن نوری حضرت جنید بغدادیؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا کہ محبت کے بارے میں کچھ فرمائیں کہ یہ کیا ہے؟ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کسی باغ میں بیٹھا تھا، ایک نابینا شخص ایک نوجوان کے ہمراہ باغ میں داخل ہوا۔ وہ نابینا نوجوان سے مخاطب تھا کہ تو نے جو کہا، میں نے وہ کیا، جس سے روکا میں رک گیا، اب بتا، میں اس کے علاوہ اور کیا کروں؟ جس پر نوجوان گویا ہوا کہ میرے لیے مرے تو نہیں؟ اس کے بعدوہ نابینا زمین پر لیٹا، چادر اوڑھی اور اس کی جان نکل گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہمیں اس پر یقین نہ آیا، جب قریب جا کر دیکھا تو سچ مچ وہ نابینا شخص وفات پا چکا تھا۔ جس کی آنکھیں نہیں، اس نے ان دیکھے محبوب کیلئے جان دے دی۔

ذرا چشمِ تصور میں ہم اپنے آپ کو لائیں کہ ہماری محبت کا مالکِ ارض و سماء کیلئے کیا معیار ہے اور ہمارے دعوے کس حد تک ہمارے عمل کے نمائندہ ہیں۔ گویا سخاوتِ قلب کا آخری مقام اور اعلیٰ مرتبہ محبت و جانثاری ہے۔

صحیح بخاری میں موجود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ جب بندے کو اللہ سے محبت ہو جاتی ہے تو اللہ بھی اپنے بندے سے محبت کرتا ہے اور بندہ خدا کا محبوب بن جاتا ہے۔ پھر اللہ ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ کے مصداق اس بندے کے آدابِ بندگی پر پورا اترنے کی وجہ سے جبریل امین سے کہتا ہے کہ میں زمین میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبریل اہلِ زمین کو صدا دیتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے، آپ بھی اس سے محبت کرو۔ اس طرح اللہ سے محبت کرنے والوں کیلئے اللہ دوسروں کے دلوں میں محبت اور شفقت کے جذبات پیدا کر دیتا ہے۔

شہرت کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال

وہ نوجوان جو شہرت اور نمائش کے دلدادہ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا، فیس بک، ٹویٹر، سنیپ چیٹ، ٹک ٹاک کے ذریعے مشہورہونے کی بجائے اپنے اندر اچھے اوصاف اور اعمال پیدا کریں۔ اللہ کے لیے اور اللہ کے بندوں کیلئے جینا سیکھیں، جب وہ صدقِ دل سے اللہ کے ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں دوسروں کی نگاہوں میں مشہور اور ممتاز بنا دیں گے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت کی خواہش ایک طرز کی غلامی اور محکومی ہے اور نوجوان ہمہ وقت اس غلامی کا شکار رہتے ہیں۔ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا بے بسی اور غلامی ہے، اس غلامی سے اپنے آپ کو باہر نکالیں۔

کئی اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کو پردہ فرمائے ہوئے صدیاں بیت گئیں مگر وہ آج بھی لاکھوں، کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں، ان کے مزار اور خانقاہیں مرجعِ خلائق ہیں۔ کیا یہ اولیاء کسی سوشل میڈیا کے ذریعے عامۃ الناس کی آنکھ کا تارا بنے؟ جواب نفی میں ہے۔ اولیاء، صالحین حسنِ اعمال، توبہ و استغفار،انسانی حقوق کے احترام اور سخاوتِ قلب کے اوصاف سے اللہ اور دنیا کے محبوب بنے۔

گفتار اور ٹیکنیکس سے حاصل ہونے والی عزت اور شہرت کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ جب انسان خدا کی اتباع و پیروی کرتا ہے تو پورا جہان اس کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ جس نے دنیا سے دل پھیر لیا اور لاپروائی کا اعلان کر دیا، دنیا اس کے قدموں میں آ کر بیٹھ جاتی ہے۔ اللہ کے نیک بندے وہی ہوتے ہیں جو دنیا کی طرف دھیان نہیں دیتے بلکہ ہر حال میں اپنا رخ اللہ کی طرف رکھتے ہیں۔

محبت کا ایک رخ یہ ہے کہ ہم اپنے عزیز و اقارب، اہلِ خانہ، سوشل سرکلز، تنظیمی، تحریکی ساتھیوں، رفقاء کار سے صرف اور صرف اللہ کیلئے محبت کریں۔ جس محبت میں دنیاوی حرص نہیں ہو گی وہ اللہ کے ہاں مقبول ہوگی اور وہی محبت نفع دینے والی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے احوال پر رحم فرمائے اور ہمیں صالحین اور ان چنیدہ ہستیوں کے راستے پر چلائے جو اس کے کے انعام یافتہ ہیں۔