کورونا وائرس: ناجائز منافع خوری تقدیر اور تدبیر

چیف ایڈیٹر:نوراللہ صدیق

تادمِ تحریر کورونا وائرس کے اثرات اور اس کے پھیلاؤ کا خوف بدستور قائم ہے۔ اس سے قبل پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں کسی وباء سے نمٹنے کیلئے اس نوع کے غیر معمولی ہنگامی اقدامات بروئے کار لانے کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یورپ کے بعض ممالک مکمل لاک ڈاؤن کی زد میں آئے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھائے گئے، حکومت نے سکول، کالج، یونیورسٹیز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، اسی طرح شادی ہالز اور سیاسی، سماجی تقریبات کو بھی بین کر دیا گیااور دفعہ 144 نافذ کر کے عامۃ الناس کو چھوٹے، بڑے اجتماعات کے انعقاد سے روک دیاگیا۔ ان غیر معمولی اقدامات پر کچھ طبقات جن میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے، انہوں نے اولیائے اللہ کے مزارات کی عارضی بندش، مساجد میں عبادات کے عمل کو محدود کرنے، شادی بیاہ کے پہلے سے طے شدہ فنکشن ملتوی کیے جانے کی سرکاری ہدایات پر تنقید کے نشتر برسائے اور حفاظتی اقدامات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔پڑھے لکھے حضرات بھی اس بات پر فکر مند نظر آئے کہ سماجی تعلقات،باہمی میل جول، مصافحہ، معانقہ ترک کر دینا کہاں کی حکمت عملی اور احتیاطی تدابیر ہیں؟

ابھی ابہام کی اس گرد نے سر اٹھایا ہی تھا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کورونا وائرس سے بچاؤ اور نبوی طریقہ کار، احکامات اور اقدامات پر روشنی ڈال کر نہ صرف اسلامیانِ پاکستان بلکہ ملتِ اسلامیہ اور پوری انسانیت کی رہنمائی کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس اہم موقع پر بلاتاخیر اپنا علمی، فکری، انسانی کردار ادا کرتے ہوئے اردو اور انگریزی میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے انتہائی مفید معلومات مہیا کیں جنہیں سوشل میڈیا کے ناظرین نے بے حد سراہا اور بروقت اور درست معلومات کی فراہمی پر اظہار تشکر کیا۔ جو احباب کم علمی کی وجہ سے اسے مذہبی اور مسلکی مسئلہ بنانا چاہتے تھے شیخ الاسلام نے ان کی فکری رہنمائی کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف صحت کے بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے جاری کی جانے والی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی تنبیہہ کی بلکہ وباء کے پھوٹنے پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو سنتِ نبوی قرار دیا۔ شیخ الاسلام نے بخاری شریف اور مسلم شریف کی متفق علیہ احادیث کے حوالہ سے احتیاطی تدابیر کے تناظر میں عارضی مدت کے لیے غیر ضروری میل ملاپ اور اجتماعات سے گریز کرنے کو عین نبوی تعلیمات قرار دیا۔ شیخ الاسلام نے اس ضمن میں بتایا کہ ایک موقع پر وفد ثقیف اسلام قبول کرنے کی غرض سے ثقیف سے مدینہ منورہ آیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا یا گیا کہ وفد میں شامل ایک شخص متعدی مرض جزام میں مبتلا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفد کو پیغام کہلوا بھیجا کہ آپ کا بیعت ہونا قبول کر لیا گیا، آپ وہاں سے لوٹ جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اقدام اور حکم سے قیامت تک کے لیے انسانیت کو وبائی امراض سے بچنے کا ایک ایسا رہنما طبی اصول مہیا کر دیا جسے آج کی جدید سائنس بھی ایک حفاظتی قدم کے طور پر نہ صرف تسلیم کررہی ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بالکل اسی طرح ابہام اور تشکیک کو دور کیا جس طرح دہشتگردی کے منہ زور فتنہ کے موقع پر مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے ناحق قتل کو شر، کفر اور فتنہ قرار دیا اور خودکش دھماکوں کی پس پردہ باطل فکر کو اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے جدا کر دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور حکومتی ہدایات آنے سے بہت پہلے اپنے کارکنان اورذمہ داران کے ذریعے پوری ملتِ اسلامیہ اور انسانیت کی رہنمائی کی اور سب سے پہلے تحریک منہاج القرآن کے سالانہ تربیتی، اصلاحی پروگرامز موخر کر دئیے حالانکہ ان پروگرامز کی تیاری مہینوں پہلے کی گئی تھی اور ان پروگرامز کی تیاری اور انعقاد پر کثیر رقم بھی خرچ ہو چکی تھی لیکن انہوں نے انسانیت کے تحفظ اور بقاء کیلئے کسی قسم کی جذباتیت کو آڑے نہ آنے دیا اور دو ٹوک رہنمائی کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ بھی انتہائی خوبصورت الفاظ کے ساتھ حل کر دیا کہ تقدیر کو تدبیرکے ساتھ خلط ملط کرنا درست نہیں ہے، تقدیر ایک اور موضوع ہے جبکہ تدبیر ایک جدا موضوع ہے۔

ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی اور بانی پاکستان کی فکر

ہماری قوم کا یہ عجب المیہ اور نفسیات ہے کہ کسی بھی امتحان، آزمائش اور بحران کے آنے پر ذخیرہ اندوزی کے مرتکب ہوتے ہوئے مصنوعی مہنگائی پیدا کردیتے ہیں۔ آج جب پوری قوم کورونا وائرس کی وبا کی صورت میں ایک کڑے امتحان اور تکلیف سے گزر رہی ہے تویہ طبقہ ان حالات میں بھی اپنے مکروہ دھندے میں مصروفِ عمل ہے۔ ایسے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ بلاشبہ آفات اور بحرانوں کے مواقع پر اشیائے خوردو نوش اور اشیائے ضروریہ کو مارکیٹ سے غائب کر دینے والے اور اصل قیمت سے زائد طلب کرنے والے انسانیت کے دشمن، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نافرمان ہیں۔ ایسے نافرمانوں، سرکشوں،قانون شکنوں کے ساتھ ملکی قوانین کے تحت سخت سے سخت ایکشن لینا چاہیے۔ ذخیرہ اندوز قدرتی آفات سے دو چار انسانیت کے لیے مزید خطرات پیدا کرتے ہیں، ایسے عناصر کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں بلکہ ہم موجودہ حکومت کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے چاہئیں اور ان کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلنے چاہئیں۔ ابھی حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ میڈی کیٹڈ ماسک اور ہینڈ واش سینیٹائزر جو انتہائی معمولی نرخوں پر مارکیٹ میں موجود تھے جیسے ہی کورونا وائرس کی وباء نے سر اٹھایا اور حکومت نے سینیٹائزر اور ماسک استعمال کرنے کو احتیاطی تدابیر میں شامل کیا تو انسانی زندگی کو تحفظ دینے والی یہ اشیاء مارکیٹ سے غائب کر دی گئیں اور اس کے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے کئی سو گنا نرخ بڑھادئیے۔ ناجائز منافع خوروں کا یہ اقدام انسانیت پر براہ راست حملہ ہے، ایسے عناصر کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بھی درج ہونے چاہئیں، ان سے کاروبار کرنے کے لائسنس بھی منسوخ کر دینے چاہئیں اور ان کے خلاف انتہائی سخت اور مثالی کارروائی شروع کر دینی چاہیے۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ تحریکِ پاکستان سے لے کر پاکستان کے نظام معاشرت، معیشت اور نظام مملکت تک کے خدوخال کے ضمن میں قرآن و سنت سے فکری رہنمائی لیتے تھے اور لاتعداد مواقع پر انہوں نے اپنے فکری اور نظریاتی ماخذ کا فخریہ تذکرہ بھی کیا۔ بانی پاکستان نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقربا پروری، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی کو ایک لعنت قرار دیا اور اس کے مضمرات سے آگاہ کیا اور اس سے بچنے کی تنبیہہ کی۔ بانی پاکستان کا موقف تھا کہ ذخیرہ اندوز ناجائز منافع خوری کے لیے دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ اس سماجی برائی کی روک تھام حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں کہا گیا کہ بانی پاکستان اپنی فکر کا ماخذ قرآن و سنت کو قرار دیتے تھے، اس ضمن میں قرآن مجید میں سورہ ال عمران میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہر گز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے‘‘۔ ایک اور موقع پر سورۃ الھمزہ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’( خرابی و تباہی ہے اس شخص کیلئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے، وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی، ہر گز نہیں! وہ ضرورحطمہ (یعنی چورا چورا کر دینے والی)آگ میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔ سورۃ البقرہ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: ’’جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ ( فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے‘‘۔

اللہ تعالیٰ ہمیں زمینی ،آسمانی آفات سے محفوظ و مامون رکھے اور قرآن و سنت کی تعلیمات پر ان کی روح کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔