شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

نشست اول، حصہ سوم

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

حدیث کے قبول اور رد ہونے کے اعتبار سے دو اقسام ’’مقبول اور مردود‘‘ میں سے ’’خبرمقبول‘‘ اور اس کی اقسام کے بیان کے بعد آیئے اب ’’خبرِ مردود‘‘ کی اقسام کا مطالعہ کرتے ہیں:

تقسیم خبر الآحاد (المردود) باعتبار موجب الرد

گذشتہ گفتگو میں ہم اس امر کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں کہ ’’خبرِ مردود‘‘ کا یہ معنی ہر گز نہیں ہے کہ وہ من کل الوجوہ اور علی الاطلاق رد ہوگئی۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ رد کئے جانے کے قابل ہے یعنی اِس میں رد ہو جانے کی صلاحیت بھی ہے اور مقبول ہو جانے کی صلاحیت بھی ہے۔

’’خبر مردود‘‘ کی تقسیم دو طرح کی جاتی ہے:

  1. مردود لسقط فی الاسناد
  2. مردود لطعن فی الراوی

1۔ مردود لسقط في الإسناد

اگر سند میں کوئی سقط (Missing) ہو یعنی کوئی راوی چھوٹ گیا اور سلسلہ سند کہیں ٹوٹ گیا تو یہ خبر مردود ہے۔

سند میں سقط (Missing) کے اعتبار سے ’’خبرِ مردود‘‘ کی دو اقسام ہیں:

  1. باعتبار الوضوح فی السقط
  2. باعتبار الخفاء فی السقط

(1) باعتبار الوضوح فی السقط

سند میں واضح سقط (Missing) کے اعتبار سے جو خبر مردود ہوتی ہے یا مردود ہونے کے قابل ہوتی ہے، اُس کی چار قسمیں ہیں:

  1. اگر ایک راوی کا نام مبادی السند (سند کے شروع) میں Miss ہو گیا تو اُسے حدیثِ معلق کہتے ہیں۔
  2. اگر ایک راوی کا نام سند کے آخر میں Miss ہو گیا تو اُسے حدیثِ مرسل کہتے ہیں۔
  3. اگر راوی کا نام اثنائے سند (درمیان سند) میں Miss ہوا، خواہ ایک راوی خواہ دو یا تین یا زیادہ تو اُسے حدیثِ معضل کہتے ہیں۔
  4. اگر راویوں کے نام اکٹھے نہیں بلکہ دو مختلف جگہوں پر Miss ہوئے تو اسے حدیثِ منقطع کہیں گے۔

(2) باعتبار الخفاء في السقط

اگر سند میں سقط (Missing) خفی ہو اور کسی راوی کا نام چھپا ہوا ہے تو اسے ’’الخفا فی السقط‘‘ کہتے ہیں۔عام آدمی کو اس کا پـتہ نہیں چلتا، صرف مدقق، متفنن اور متبحر کو ہی پتہ چلتا ہے۔ اس سقط خفی کی دو اقسام ہیں:

  1. مدلّس
  2. مرسل خفی

2۔ مردود لطعن في الراوي

اگر کسی راوی کے حال یا وصف میں کوئی طعن پایا جائے تو اس سبب سے بھی خبر مردود ہوگی۔ گویا اس مردود ہونے کا سبب راوی ہے۔ اگر راوی کے حال میں کسی خرابی کی بناء پر اس میں طعن آیا ہے تو اس طعن کے حوالے سے ’’خبرِ مردود‘‘ کی درج ذیل اقسام ہیں:

(1) طعن یرجع إلی ضبط الراوي وحفظہ

اگر راوی کی عدالت تو ٹھیک ہے مگر اُس کے حفظ و ضبط میں خرابی ہے تو اس حوالے سے ’’خبرِ مردود‘‘ کی 5 اقسام ہیں:

  1. فحش غلط الراوي: راوی میں فحش غلطی ہو گی۔
  2. کثرۃ غفلتہ: راوی میں کثرتِ غفلت ہو گی۔
  3. وہمہ: راوی کے اندر وہم ہو گا۔
  4. مخالفتہ للثقات: راوی میں اپنے سے ثقہ راویوں کی مخالفت ہوگی۔
  5. سوء حفظہ: راوی کے حفظ میں کمی ہو گی۔

یہ طعن چھوٹے درجے کے ہیں۔ اس میں راوی کے ایمان، امانت، دیانت، صداقت اور اُس کی عدالت پر کوئی طعن نہیں بلکہ یہ طعن صرف اُس کے حفظ سے متعلق ہے۔

کسی نے اگر کسی راوی کے حفظ کی معمولی سی خرابی پر بات کی تو محدثین لکھتے ہیں کہ خدا کا خوف کرو، کیا تم کبھی کوئی چیز نہیں بھولے۔۔۔؟ کیا کوئی شخص دنیا میں ایسا ہے جو کبھی نہ بھولا ہو۔۔۔؟ مراد یہ کہ حفظ کا طعن ایک خفیف (چھوٹا) ضعف ہے۔ اس سے حدیثِ ضعیف کی جتنی اقسام تشکیل پائیں گی، اُن کا ضعف اور کمزوری چھوٹی ہوگی اور آسانی کے ساتھ وہ ضعف رفع اور Cover ہوجائے گا۔ اس لیے کہ یہ طعن اور کمزوری اُس راوی کی امانت، دیانت اور عدالت میں نہیں ہے بلکہ فقط حفظ میں ہے۔ اس وجہ سے وہ حدیث بڑی جلدی ترقی پا کر مقبول بن جائے گی۔ اس لیے ہم کتب میں دیکھتے ہیں کہ کتنی ہی احادیث ایسی ہیں جو ضعیف تھیں مگر ان کو صرف ایک مدد ملی اور وہ درجہ مقبول کو پہنچ گئیں۔

(2) طعن یرجع إلی اتہام الراوي في دیانتہ وعدالتہ

راوی میں طعن کے اعتبار سے خبرِ مردود کی ایک تقسیم یہ ہے کہ اگر طعن راوی کی عدالت اور دیانت میں ہو تو پھر یہ سنگین (Serious) نوعیت کا طعن ہے۔ اُس کی پانچ اقسام ہیں:

  1. تلبس الراوی بالکذب
  2. تہمتہ بالکذب ج. فسقہ
  3. جہالہ: راوی مجہول الحال ہے، مجہول العین ہے
  4. بدعتہ: راوی میں کوئی بدعت ہے، وہ خارجی، رافضی، مرجئہ یا معتزلہ میں سے ہے۔ یہ اُس زمانے کے فرقے تھے، آج ہمارے زمانے کے فرقوں کے نام اور ہیں۔

بدعتی راوی کی روایت کا حکم

بدعتی راوی کی روایت کے حوالے سے امام بخاری اور امام مسلم کا مذہب یہ ہے کہ اگر کسی راوی کے عقیدے میں بدعت ہے مگر وہ سچا، عادل اور صاحبِ ضبط ہے تو اُس کی روایت مقبول ہے۔ فرقوں اور مسلکوں کے فرق کی وجہ سے اُن کی روایت کو رد نہیں کیا گیا۔ یعنی اگر راوی بدعتی فرقوں میں سے کسی کا داعیہ (سربراہ) اور سرغنہ نہیں ہے مگر عدالت اور ثقاہت اُس کے اندر ہے، وہ صدوق (سچا) ہے تو بھلے وہ خارجی، شیعہ، معتزلی، مرجئہ یا جہمیہ ہو، اُن ساروں کو امام بخاری نے قبول کیا ہے اور ایسے 80 راویوں سے صحیح بخاری میں احادیث روایت کی ہیں۔

میری کتاب {حکم السماع عن أہل البدع والأھواء} اسی موضوع پر ہے۔ اس حوالے سے اس کا مطالعہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

حدیثِ ضعیف کا اقسام

مذکورہ تقسیم کی بناء پر حدیثِ ضعیف کی درج ذیل اقسام ہیں:

  1. موضوع: اگر راوی میں کذب اور جھوٹ تھا تو اُس کی روایت کو موضوع کہیں گے۔ بیان کرنے اور قبول کرنے کے حوالے سے موضوع کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ مردودِ حقیقی و مردودِ قطعی ہے: ھو المختلق المصنوع المکذوب: یہ جھوٹ، باطل اور من گھڑت ہے۔
  2. متروک: اگر اتہام کذب (جھوٹ کی تہمت) آجائے تو اُس روایت کو متروک کہیں گے۔
  3. منکر: اگر فسق، غفلت اور فحش غلطی تین چیزو ںکے مقابلے میں آ جائے تو اُس کی ایک قسم حدیثِ منکر بنے گی۔
  4. معلل: اگر وہم آ جائے تو اس کو معلل کہیں گے۔
  5. مدرج: اگر مخالفتِ ثقات آ جائے تو یہ مدرج ہے۔
  • حدیثِ ضعیف کی دیگر اقسام میں: مقلوب، مضطرب، مصحف اور محرف شامل ہیں۔
  • اگر راوی کے بارے میں جہالت آ جائے تو مبہمات میں سے آ جائے گا۔
  • اگر راوی میں بدعت آ جائے تو روایۃ المبتدع میں آ جائے گا اور پھر دیکھا جائے گا کہ اس کی بدعت مکفّرہ ہے یا غیر مکفّرہ ہے۔ یعنی اس بدعت سے وہ علی التحقیق بالاجماع کافر ہو گیا ہے یا کافر نہیں ہوا؟ اگر بدعت غیر مکفرّہ ہے تو اُس کی روایت قبول ہوگی اور اگر بدعت مکفرّہ ہے تو روایت مقبول نہیں ہو گی۔
  • اگر روایت میں راوی کا سوء حفظ آ جائے تو وہ شاذ کا سبب بن سکتی ہے، اپنے سے اوثق کی مخالفت یا مختلط ہو سکتی ہے۔

پس معلوم ہوا کہ سيء الحفظ (کم حافظے والے) کی روایت۔۔۔ غیر مکفرہ بدعت والے راوی کی روایت۔۔۔ جہالت (الحال اور عین) والے راوی کی روایت۔۔۔ مخالفتِ ثقہ کرنے والے کی روایت اور۔۔۔ وہم کرنے والے کی روایت یہ تمام احادیثِ ضعاف ہیں اور ان سب کا علاج ہے۔

موضوع اور متروک کو چھوڑ کر باقی ساری ضعیف روایتیں اور حدیثیں ارتقاء کر کے حدیثِ حسن اور مقبول میں جا سکتی ہیں۔ صرف موضوع اور متروک پر عمل نہیں ہوگا۔ سب سے أَشَر موضوع ہے۔ اس کے علاوہ ضعیف کی جتنی اقسام ہیں، اُن سب کے علاج ہیں۔

موضوع اور متروک کا بیان جائز نہیں ہے، ان دو کے علاوہ حدیثِ ضعیف کی باقی تمام اقسام کو روایت کرنا ائمہ حدیث کی سنت و طریقہ ہے۔ حدیث ضعیف متابعات اور شواہد میں داخل ہیں اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ جس نوعیت و صورت کا انقطاع ہو، حفظ کا مسئلہ ہو، جہالت، غلط یا اختلاط کا مسئلہ ہو، ان احادیث کی علماء نے تحسین بھی کی ہے اور یہ متابعات و شواہد کے ساتھ حسن تک بھی گئی ہیں۔ اس پر امام ترمذی کی جامع ترمذی اور امام ابوداؤد کی سنن شاہد ہے۔ ابن صلاح، حافظ زین العراقی اور امام عسقلانی سمیت کل ائمہ و محدثین کا ان نقاط پر تقریباً اجماع ہے۔

  • حدیث ضعیف پر ان شاء اللہ کاملاً بحث آگے آئے گی۔

سند: باعتبار ما ینتہي إلیہ

سند کی ایک تقسیم محدثین کے ہاں یہ بھی ہے کہ وہ سند کس جگہ تک پہنچی؟ اُس اعتبار سے حدیث کی تین اقسام ہیں:

  1. مرفوع: اگر کسی حدیث کی سند کی انتہا حضور علیہ السلام تک ہو تو وہ حدیث مرفوع کہلائے گی۔
  2. موقوف: اگر کسی حدیث کی سند کی انتہا صحابی تک ہو تو وہ حدیث موقوف کہلائے گی۔
  3. مقطوع: اگر کسی حدیث کی سند کی انتہا تابعی تک ہو تو وہ حدیث مقطوع کہلائے گی۔

سند: باعتبار عند رواتہ قلۃ وکثرۃ

کسی حدیث کی سند میں موجود قلت و کثرتِ رواۃ کی بناء پر بھی سند کی تقسیم کی گئی ہے:

  1. العالی: اگر محدث یعنی ناقل اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رواۃ کے عدد کم ہوں تو اُس کو سندِ عالی کہتے ہیں۔
  2. لنازل: اگر کسی سند میں رواۃ کے عدد زیادہ ہوں یعنی لمبی سند ہو تو اُس کو سندِ نازل کہتے ہیں۔ محدثین سندِ عالی زیادہ صحیح ہونے کے باوجود سندِ نازل کو بھی قبول کرتے اور اسے ترجیح دیتے رہے ہیں۔

احادیث کی اقسام و انواع کے بیان کے بعد اب ہم حدیثِ صحیح پر تفصیلی گفتگو کریں گے:

حدیثِ صحیح کا بیان

حدیثِ صحیح کی بحث میں بھی حسبِ سابق میں ان مباحث کو ہی بیان کروں گا جو عام طور پر پڑھی یا پڑھائی نہیں جاتیں۔ اس ضمن میں نہایت ہی اہمیت کے حامل موضوعات کو بیان کرتے ہوئے ہماری گفتگو کا دائرہ کار حدیثِ صحیح کے بارے پائے جانے والے اشکالات کا ازالہ کرنے اور ابہامات کو دور کرنے تک محیط ہوگا۔

علوم الحدیث پر ابن الصلاح کا ’’مقدمہ‘‘ بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ علوم الحدیث پر لکھنے والے جملہ ائمہ نے اس سے ہی اکتسابِ فیض کیا۔اس ’’مقدمہ‘‘ کا خلاصہ امام نووی نے ’’ارشاد طلاب الحقائق‘‘ کے نام سے لکھا جسے عام لفظوں میں ’’کتاب الارشاد‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ بعد ازاں امام نووی نے ’’ ارشاد طلاب الحقائق‘‘ کی تلخیص ’’التقریب‘‘ کے نام سے لکھی۔ ’’التقریب‘‘ علوم الحدیث پر ایک متن کا درجہ رکھتی ہے۔ معلوم نہیں آج کل پاکستان کے کن کن مدارس اور جامعات میں یہ پڑھائی جاتی ہے مگر التقریب ایک ایسی کتاب ہے جو پڑھے جانے کے قابل سب سے اعلیٰ متن ہے۔ ’’التقریب‘‘ کی شرح امام سیوطی نے ’’تدریب الراوي علی التقریب للنووي‘‘ کے نام سے لکھی۔

حدیثِ صحیح کی بحث کے لیے میں امام نووی کی ’’التقریب‘‘ کی عبارت بطورِ بنیاد آپ کے سامنے بیان کروں گا۔ امام نووی نے ’’التقریب‘‘ میں جن الفاظ سے آغاز کیا ہے، ابن الصلاح، امام سیوطی، امام زین الدین العراقی، امام زرکشی، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی الغرض دیگر کئی ائمہ نے بھی یہیں سے آغاز کیا اور اسی اسلوب کو اپنایا ہے۔

’’التقریب‘‘ میں امام نووی مقدمہ کے بعد لکھتے ہیں:

الحدیث صحیح و حسن و ضعیف.

حدیث کی تین قسمیں ہیں: حدیثِ صحیح، حدیثِ حسن حدیثِ ضعیف۔

ہر امامِ فن اور علم الحدیث کے ہر عالم نے اپنی کتاب کی عبارت کا آغاز یہیں سے کیا ہے اور حضور علیہ السلام سے مروی حدیث کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے کہ صحیح بھی حدیث کی قسم ہے اور یہ اعلیٰ قسم ہے۔ حسن بھی حدیث کی قسم ہے اور یہ وسطی قسم ہے اور ضعیف کو بھی حدیث ہی کی قسم لکھا ہے اور یہ ادنیٰ قسم ہے۔

اس بات کو تاکیداً بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کسی ایک امام نے 12 سو سال کی علم الحدیث کی تاریخ میں یعنی امام بخاری سے بھی پہلے کسی نے کسی حدیث کو ’’ضعیف‘‘ کہہ کر اسے حدیث کے دائرے سے خارج نہیں کیا۔ امام بخاری و امام مسلم کے شیوخ، امام اعظم، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام سفیان الثوری، حماد بن زید، یحییٰ بن معین، امام ابن المدینی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ الغرض جملہ ائمہ حدیث میں سے کسی عالم نے تاریخِ علم میں ضعیف کو حدیث کے دائرے اور عنوان سے خارج نہیں کیا۔

اگر ضعیف مطلقاً اور قطعی طور پر رد کر دی گئی ہوتی تو عنداہل العلم اسے ’’خبر مردود‘‘ میں شامل نہ کیا جاتا۔ لفظ مردود کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جو چیز دو حدوں کے درمیان گھومتی رہے۔ ایک طرف ’’صحیح‘‘ کی حد ہے اور دوسری طرف ’’موضوع‘‘ کی حد ہے اور ضعیف ان حدوں کے درمیان گھومتی ہے، کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر، کبھی پیچھے ہٹتی ہے اور کبھی آگے بڑھتی ہے، کبھی اس کا رتبہ نیچے جاتا ہے اور کبھی اس کا رتبہ اوپر جاتا ہے۔ رد کا لفظ صرف Reject کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ پیچھے مڑنے، پیچھے ہٹنے کو بھی رد کہتے ہیں۔ پس آگے پیچھے ہونا، گھومنا، پلٹنا اس ضمن میں آتا ہے۔

اگر حدیثِ ضعیف شریعت، علمِ حدیث، علماء اور ائمہ کے ہاں ایک ایسی خبر ہوتی جسے قطعی طور پر قبول نہیں کیا جائے گا تو پھر ہر امامِ فن حدیث کی تعریف کرتے ہوئے یہ لکھتا کہ

الحدیث صحیح و حسن.

حدیث کی دو قسمیں ہیں: صحیح اور حسن۔

ضعیف کو حدیث کی تیسری قسم کے عنوان کے تحت درج ہی نہ کیا جاتا۔ میری اس تشریح کی بنیاد ’’التقریب‘‘ (امام نووی) کی شرح التدریب (امام سیوطی) کی عبارت ہے۔ حدیث کی تین اقسام: ’’صحیح، حسن، ضعیف‘‘ کی تشریح میں امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

وإنما لم یذکر الموضوع لأنہ لیس في الحقیقۃ بحدیث إصطلاحاً بل یزعم واضعہ.

(سیوطي، التدریب، ص60)

انہوں (ائمہ امام ابن الصلاح، امام نووی وغیرہ)نے موضوع کا ذکر نہیں کیا یعنی یوں نہیں کہا کہ

’’الحدیث صحیح و حسن و ضعیف و موضوع‘‘ اس لئے کہ موضوع حقیقت میں اصطلاحی طور پر حدیث ہی نہیں ہوتی۔ جس کو تحقیقِ اسناد کے بعد موضوع کا Title مل جائے تو وہ حدیث رہتی ہی نہیں ہے، اسی لئے کسی امام نے حدیث کی تعریف میں ’’موضوع‘‘ کو ذکر نہیں کیا۔

سوال پید اہوتا ہے کہ پھر ’’موضوع‘‘ کو کتبِ اصول الحدیث میں ذکر کیوں کرتے ہیں؟ امام سیوطی اس کا جواب دیتے ہیں کہ بل یزعمہ واضعہ۔

’’بلکہ اُس خبر کا گھڑنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ یہ حدیث ہے‘‘۔

موضوع چونکہ ’’المختلق المصنوع‘‘ ہے، لہذا اُس کے گھڑنے اور گمان کرنے کی وجہ سے بحث کی خاطر کتاب میں اس کو درج کرتے ہیں لیکن جب حدیث لکھ کر اُس کی تین اقسام بیان کرتے ہیں تو اُس میں حدیث کے دائرے سے ’’موضوع‘‘ کو خارج کر دیتے ہیں اور اُس میں صرف ’’صحیح، حسن اور ضعیف‘‘ آتی ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ ضعیف اصلاً حدیث ہی ہے مگر راوی یا سند کے کسی نقص کی وجہ سے درجے میں نیچے ہو گئی ہے۔

اس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں کہ ہم اپنی معمول کی زندگی میں مریض اور میت کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ مریض مریض ہوتا ہے، میت نہیں ہوتا۔ جب روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے، بندہ مرجائے تو ہم اُس کی عیادت کرنے نہیں جاتے بلکہ گھر والوں سے تعزیت کے لئے جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مریض کو دیکھنے گئے تھے بلکہ اب کہتے ہیں کہ میت کو دیکھنے گئے تھے۔ اُس کا عنوان بدل جاتا ہے اور روح قفسِ عنصری سے نکلنے کے بعد اب وہ مریض نہیں رہتا بلکہ وہ میت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر روایت کذب کی بنیاد پر ہو کہ راوی جھوٹا ہے اور اس کی سند رتبہ میں انتہائی نیچے چلی گئی ہے تو اُس کو ’’موضوع‘‘ کا نام دے دیتے ہیں پھر وہ ضعیف نہیں رہتی بلکہ وہ موضوع بن جاتی ہے۔

  • موضوع سے پہلے بھی ایک درجہ ہے اسے ’’مطروح‘‘ (جس کو چھوڑ دیا جائے)کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی روایت جب ’’موضوع‘‘ کے قریب جاتی ہے یعنی ہماری بیان کردہ مثال کے مطابق حالتِ نزع کے قریب جاتی ہے تو اس کو ’’مطروح‘‘ کہتے ہیں۔ ’’مطروح‘‘ سے اوپر ’’متروک‘‘ کا درجہ ہے۔ ’’متروک‘‘ سے اوپر ’’منکر‘‘ کا درجہ ہے اور پھر اس کے اوپر ’’ضعیف‘‘ کا درجہ ہے اور پھر ’’ضعیف‘‘ کی تمام اقسام آتی ہیں۔ گویا یہ ترتیب اس طرح بن جاتی ہے:
  1. ضعیف
  2. منکر
  3. متروک
  4. مطروح
  5. موضوع

موضوع اشرالضعاف کو کہتے ہیں۔ جو چیز کلیتاً رد ہوجائے اور جسے قطعاً نہ بیان کیا جائے، نہ قبول کیا جائے اور نہ عمل کے لائق ہو، وہ صرف ایک قسم ہے اور یہ حدیث کے عنوان سے بھی خارج ہے، اُس کو ’’موضوع‘‘ کہتے ہیں۔ اُس سے اوپر حدیث کی ساری اقسام کا علاج اور ارتقاء ہوتا ہے۔